جمہوريت
Category Archives: معاشرہ
عيد ميلاد النبی
آنے والی کل کيلئے ہفتہ بھر سے چاروں طرف گہما گہمی ہے يعنی عيد ميلاد النبی منانے کی ۔ زبان زدِ عام قول ہے حُبِ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم ۔ آج تک ميری سمجھ ميں نہيں آيا کہ ہمارے بھائی بند يعنی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے محبت ۔ انس ۔ احترام يا عقيدت کسے کہتے ہيں ؟
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُس زمانے کے قليل مسلمانوں سے اجتماعی ضروريات کيلئے کچھ مال لانے کا کہتے ہيں ۔ سب بقدرِ استطاعت لاتے ہيں ۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہيں ” کيا لائے ؟”۔ وہ کہتے ہيں ” گھر ميں جو کچھ تھا اُس کا آدھا لے آيا ہوں”۔ پھر يہی ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا “گھر ميں جو کچھ تھا سب لے آيا ہوں”۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے کہا ” کچھ بيوی بچوں کيلئے بھی چھوڑا ؟” تو ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ نے کہا ” ہاں ۔ اللہ اور اس کا رسول”
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم مسجد کے منبر پر تشريف فرما ہيں ۔ مسجد کے آخری حصے ميں کچھ مسلمان کھڑے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُنہيں بيٹھنے کا کہتے ہيں ۔ سڑک پر مسجد کے پاس آتے ايک صحابی وہيں بيٹھ جاتے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کہتے ہيں “ميں نے مسجد ميں کھڑے لوگوں کو بيٹھنے کا کہا تھا سڑک پر چلنے والوں کو نہيں”۔ صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہيں “درست ۔ ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ کے منہ سے بيٹھنے کا حکم نکلے اور ميں کھڑا رہوں”
ہمارے اجتماع نماز جمعہ و عيدين اور حج ہيں ۔ يہی ہمارے تہوار ہيں ۔ اس کے علاوہ کچھ نہيں ۔ باقی جلسے جلوس اللہ کے دين کا حصہ نہيں ہيں ۔ تھوڑا سا غور کيا جائے تو ہماری رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت ۔ عقيدت اور احترام کا بھانڈہ ريزہ ريزہ ہو جاتا ہے ۔ ہم لوگوں نے محبت کو ميلوں ۔ جلوسوں اور مجلسوں ميں بند کر ديا ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہيں جو اپنے مال اسباب اور اہل و عيال حتٰی کہ اپنی جان سے زيادہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کے متقاضی ہيں
کچھ روز قبل ايک امريکی عيسائی دوست نے بتايا کہ کرسمس منانا عيسائيت کا حصہ نہيں ہے بلکہ منحرف لوگوں کی اختراع ہے اور ثبوت کے طور پر انجيل سے اقتباسات تحرير کئے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سيّدنا عيسٰی عليہ السلام کی پيدائش دسمبر کی سردی ميں نہيں ہوئی تھی بلکہ ايسے موسم ميں ہوئی تھی جب چرواہے اپنے ريوڑ رات کے وقت چرا رہے تھے ۔ يعنی جب رات کو سردی نہ تھی اور دن کو گرمی برداشت نہ ہوتی ہو گی ۔ ان اقتباسات کو ميں نے ” Why Christmas ? ” کے عنوان سے اپنے انگريزی بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitterپر نقل کيا تھا جسے ” Why Christmas ?” پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
لاجواب يا لاثانی ؟ ؟ ؟
1 ۔ صوبہ سندھ کے سرکاری ملازمين ؟
صوبہ سندھ جس ميں عوام دوست ہونے کی دعويدار پی پی پی ۔ ايم کيو ايم اور اے اين پی کی حکومت ہے کے کُل401388 سرکاری ملازمين ہيں ۔ ان کی پڑتال کے پہلے مرحلے ميں معلوم ہوا ہے کہ 108545 يعنی 27 فيصد سے زائد بھوت پريت [Ghost] ہو سکتے ہيں مگر انسان نہيں
اس طرح قوم کا 100000000 [10 ارب] روپيہ سالانہ ضائع ہو رہا ہے
دوسرے مرحلے ميں کيا ہو گا کچھ کہا نہيں جا سکتا
ابتدائی مرحلے کی تفصيل کچھ يوں ہے
ابتدائی مرحلے ميں 21438 افراد کا کمپيوٹر اندراج [کمپيوٹرائزڈ ڈيٹا] جعلی [Bogus] نکلا
دستور العمل [Manual] ميں 20456 ملازمين کا اندراج [Registration] ہی نہيں ملا
381 ايسے ملازمين ہيں جو انتقال کرگئے ليکن ان کی تنخواہيں دی جارہی ہيں
1264 ملازمين دوہری ملازمت يعنی ايک وقت ميں 2 ملازمتيں کر رہے ہيں
60000 سے 65000 ملازمين نے ملازمت کيلئے اپنی عمريں غلط لکھوائی ہوئی ہيں
يہ سب کچھ حکومتِ سندھ کی وزير شازيہ مری نے بتايا ہے کسی پنجابی نے نہيں بتايا ![]()
2 ۔ بينظير بھٹو انکم سپورٹ پروگرام
بينظير انکم سپورٹ فنڈ کے تحت مستحق افراد کو 1000 روپيہ ماہانہ ديا جاتا ہے ۔ اس کيلئے کچھ رقم يو ايس ايڈ ديتا ہے ۔ يو ايس ايڈ نے آڈيٹ کيا تو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو ماہانہ 1000 روپيہ ادا کيا جا رہا ہے ان ميں سے 4200000 [42 لاکھ] کا اس دنيا ميں وجود ہی نہيں ۔ اس طرح صرف پچھلے ايک سال ميں 50400000000 [50 ارب 40 کروڑ] روپے مستحقين کے نام پر خُرد بُرد کئے گئے يعنی پيپلز پارٹی کی حکومت کے پچھلے ساڑھے 3 سالوں ميں 176400000000 [1 کھرب 76 ارب 40 لاکھ] روپے خُرد بُرد کئے گئے
کيا ہر کام کيلئے امريکا جانا پڑتا ہے
کہيں وسليے کی شکائت ہے تو کہيں دولت کی کمی کی ليکن اصل بات ہے ہمت اور محنت کی مگر حرام سے بچتے ہوئے ۔ پاکستان بلند ترين گليشيئروں ۔ بلند ترين پہاڑوں ۔ درميانے پہاڑوں ۔ سطح مرتفع ۔ ميدان اور صحرا کا مجموعہ ہے اور اس کے بطن ميں چٹيل پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ ۔ صحرا اور سرسبز ميدان پائے جاتے ہيں ۔ ايسے جغرافيے اور ايسی آب و ہوا والا قطع زمين ہو تو اس ميں بسنے والے ذہين اور جفاکش ہوتے ہيں ہماری خود غرضی اور نا اتفاقی نے ہميں ناکارہ بنا ديا ہے ۔ پھر بھی “ذرا نم ہو تو يہ مٹی بڑی زرخيز ہے ساقی” کے مصداق غبار ميں چھپے لعل گاہ بگاہ اپنی چمک دکھاتے رہتے ہيں
کيا ارفع کريم والدين کی طفيلی تھی
خاور کھوکھر صاحب نے قوم کی حالت زار پر لکھتے ہوئے دنیا کی کم ترین عمر کی مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا نامی لڑکی کا حوالہ ديا ۔ خاور کھوکھر صاحب کے بلاگ پر اظہارِ خيال کرنا شروع کيا جو طوالت پکڑ رہا تھا چنانچہ اسے اپنے بلاگ پر منتقل کرنے کا فيصلہ کيا ۔ اس کا اضافی فائدہ يہ ہو گا کہ زيادہ خواتين و حضرات اسے پڑھ سکيں گے اور ہر دو خيالات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکيں گے
اوّل بات يہ ہے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہيں اسلئے ہميں اللہ کے فرمودات کو کبھی نہيں بھولنا چاہيئے بلکہ ان پر عمل پيرا ہونا چاہيئے
سورت 3 ۔ آلِ عِمرَان ۔ آيت 26 ميں اللہ کا ايک فرمان رقم ہے
قُلِ اللَّھُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَیْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ ۔ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ۔ اے تمام جہان کے مالک ۔ تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ۔ بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
ارفع کے والدين کی مالی حالت اور خواہش کے بغير ارفع کا يہ اعزاز حاصل کرنا مشکل تھا ليکن زيادہ سبب ارفع کی شب و روز محنت اور اساتذہ کی رہنمائی اور تدريسی قابليت ہے ۔ اپنے ہموطنوں کا رويّہ اپنی جگہ ليکن ذہانت اللہ کی دين ہے اور ذہانت کو مؤثر بنا کر اس سے اچھا نتيجہ حاصل کرنا آدمی کی اپنی محنت اور طريقہءِ کار پر منحصر ہے ۔ جہاں تک ارفع کا تعلق ہے [جو اس فانی دنيا سے رُخصت ہو چکی ہے] وہ ايک ريٹائرڈ ليفٹننٹ کرنل [Liutinant Colonel] کی بيٹی تھی ۔ ليفٹننٹ کرنل کوئی بڑی بلا نہيں ہوتا اور پھر جو ريٹائر ہو چکا ہو اُسے ہمارے معاشرے ميں عام طور پر اچھا مقام نہيں ديا جاتا ۔ ميں ايسے ذہين اور کامياب طُلباء کو جانتا ہوں جن کی مالی حالت کو مدِ نظر رکھا جاتا تو وہ 10 جماعتيں بھی نہ پڑھ پاتے ليکن وہ انجيئر بنے ۔ ميرا ايک ہمجماعت جو اليکٹريکل انجيئر بنا اُس کی والدہ نے لوگوں کے کپڑے سی کر اور برتن دھو کر اُسے پالا اور پڑھايا تھا ۔ اُس نے پہلا ميرٹ کا وظيفہ ميٹرک کے امتحان ميں ليا اور پھر ہر امتحان ميں وظيفہ حاصل کرتا رہا ۔ ايسے کچھ اور لڑکوں کو بھی ميں جانتا ہوں
ميں کسی دنياوی وسيلے والے کی حمائت نہيں کرنا چاہتا ۔ ميں نے زندگی کی 6 سے زائد دہائياں اس ملک پاکستان ميں گذاری ہيں ۔ اس ميں سے جو وقت ملک کے باہر گذارا وہ 8 سال سے کم ہے اور اُس ميں سے بھی ساڑھے 7 سال حکومت کے حُکم کے تحت ملک سے باہر گيا اور وہاں رہا ۔ اصول پسندی اور سچ کا ساتھ دينے کے نتيجہ ميں نہ صرف بڑی کرسی والوں نے بلکہ ساتھيوں اور ماتحتوں نے بھی مجھے اتنا تنگ کيا کہ بالآخر 60 سال کی عمر پوری کرنے کی بجائے پونے 52 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ مانگ لی جبکہ کہ روزگار کا کوئی اور دنياوی وسيلہ نہ تھا
پاکستان بننے کے بعد 1953ء تک والد صاحب کو محنت کا پھل ملتا رہا پھر دنياوی وسيلے والوں کا دور شروع ہوا اور ہماری تنگدستی کے دن . نوبت يہاں تک پہنچی کہ جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا تو ميرے پاس سستے کپڑے کی 2 پتلونيں 2 قميضيں 2 قميض پاجامے اور ايک بغير آستين کا سويٹر تھا ۔ ايک سال اسی طرح گذارا پھر ايک لنڈے کا کوٹ ليا ۔ ميں نے ان حالات ميں انجيئرنگ پاس کی اور بعد ميں بچت کر کے وہ قرض اُتارا جو ميری انجيئرنگ کالج کی پڑھائی کے آخری سال ميں لينا پڑا تھا ۔ انجنيئر بن کے افسر لگنے کے بعد بھی 3 سال لنڈے کا کوٹ پہنا ۔
ہماری قوم کا الميہ نہ فوج ہے نہ تاجر اور نہ حکمران ۔ ان بُرے حکمرانوں کو ہم ہی ووٹ دے کر حکمران بناتے ہيں اور ووٹ دينے والوں ميں 90 فيصد وہی ہوتے ہيں جو بعد ميں نان نُفقے کو ترستے ہيں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کی غلط سوچ اور بُری عادات ہيں ۔ ہم لوگ اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے محنت کرنے سے کتراتے ہيں ۔ اپنے گھر يا دفتر ميں جھاڑو دينا اپنی توہين سمجھتے ہيں ليکن برطانيہ جا کر بيت الخلا صاف کرنا گوارا ہوتا ہے ۔ ہم لوگ اپنی ہر غلطی کا سبب دوسرے کو ٹھہراتے ہيں ۔ اپنے آپ کو درست کرنے کے روادار نہيں البتہ دوسروں ميں ہميں عيب ہی عيب نظر آتے ہيں
دراصل ہميں اللہ پر زبانی يقين ہے مگر عملی طور پر نہيں ہے ۔ ہم اللہ کو ماننے کا دعوٰی کرتے ہيں ليکن اللہ کی کوئی بات ماننے کو تيار نہيں ہيں ۔ جب ہم من حيث القوم اللہ پر يقين کامل کرتے ہوئے حق حلال کمانے کيلئے محنت شروع کريں گے اور ناحق کی کھانا چھوڑ ديں گے تو يہی ملک پاکستان دن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگے گا اور دنيا کی ہر آسائش ہميں ميسّر ہو جائے گی
کِنّے کِنّے جانا بِلو دے دے گھر
عمران خان کی سونامی کا حصہ بننے کيلئے تيار نوجوانو ۔ نواز شريف کے قدم بڑھانے والے جوانو ۔ جماعتِ اسلامی کے جلسے کو رونق بخشنے والے پِير و جواں اور اس ملک پاکستان سے محبت رکھنے والے باقی جوانو اور بزرگو
السلام عليکم
اين آر او عملدآمد کيس کے فيصلے ميں عدالتِ عظمٰی نے ايک اختيار يہ بھی رکھا ہے کہ اس ملک پاکستان کی قسمت کا فيصلہ اس ميں بسنے والے 8 کروڑ بالغ عورتيں اور مرد کريں
ايسا وقت اس سے پہلے مسلمانانِ ہند پر آيا تھا تو اُنہوں نے اپنا فرض احسن طريقہ سے نبھاتے ہوئے اپنی جانوں اور مال کی پرواہ نہ کی اور ہميں يہ ملک عطا کر گئے
اب اس ملک کی حفاظت اور پرورش ہم آپ کے ہاتھ ميں ہے
يہ امتحان ہم آپ پر آيا ہے ۔ آپ اگر چاہتے ہيں کہ آئين و قانون کی حکمرانی ہو تو ميدان ميں اُتريں اور حکمرانوں پر ثابت کر ديں کہ پچھلے کئی سالوں کی لوٹ مار اور ملکی اداروں کی بگڑتی ہوئی حالت کو مزيد برداشت نہيں کيا جا سکتا
مت بھوليں کہ يورپ کے ايک ملک ميں 35 ہزار افراد نے بغير ايک ٹہنی بھی توڑے اور بغير کسی کاغذ کو بھی آگ لگائے اپنے لُٹيرے صدر کو بھاگنے پر مجبور کر ديا تھا
ايسے مواقع بار بار نہيں آيا کرتے ۔ يہ وقت نکل گيا تو پھر اپنے ہاتھوں اپنی ہی تباہی کے سوا کچھ نہ ملے گا
قديم اور جديد کا امتزاج
آجکل ٹی وی پر ايک گيت چلايا جا رہا ہے جو شہزاد رائے نے جديد موسيقی پر ترتيب ديا ہے ۔ اس ميں اہم کارمنصبی بلوچستان کے ايک گاؤں کے رہنے والے کا ہے ۔ اس گيت نے مجھے لڑکپن اور نوجوانی کی ياد دلا دی جب ايسے کردار کو بہت اہميت دی جاتی تھی اور سنجيدہ محفلوں ميں بھی انہيں سنا جاتا تھا ۔ يہ لوگ ايک لَے ميں اپنے ہی تيار کردہ گيت پيش کرتے تھے جو کہ ذومعنی ہوتے تھے اور معاشرے کی عکاسی کرتے تھے يا اصلاحِ معاشرہ کی ترغيب ديتے تھے
جديد موسقی کا عبادہ اوڑھے قديم روائتی گيت حاضر ہے جس ميں قديم گيت ہی چھايا ہوا ہے

