یہ لطیفہ آجکل موبائل فونوں پر گردش کر رہا ہے
ایک گرم مزاج آدمی چینی خریدنے کے لئے قطار میں لگا تھا ۔ قطار بہت لمبی تھی ۔ ایک گھنٹہ کھڑے رہنے کے بعد اُسے غُصہ آ گیا ۔ اُس نے پستول نکالا اور کہتا ہوا چلا گیا “یہ صدر زرداری نے کیا تماشہ بنایا ہے ۔ میں آج اُسے مار ڈالوں گا”۔ بعد میں واپس آ کر پھر قطار میں کھڑا ہو گیا ۔ ایک آدمی نے اسے پوچھا ” زرداری کو مار دیا ؟” بولا “نہیں ۔ وہاں اس سے بھی لمبی قطار لگی ہے”
Category Archives: مزاح
کچھ ہلکا پھُلکا
پہلے 2 معروف لوگوں کی باتیں
مارک ٹوَین : دنیا میں سب سے آسان کام تمباکو نوشی چھوڑنا ہے ۔ میں نے ہزاروں بار اسے چھوڑا ہے
گریسی ایلن : میرے لئے تعجب خیز ہے کہ جب میں پیدا ہوئی تو ڈیڑھ سال تک نہیں بولی
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
” ہمیشہ ” اور ” کبھی نہیں ” دو ایسے مستعملِ گفتار ہیں جو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ کبھی نہیں بولے جائیں
کبھی کسی احمق سے بحث نہ کریں ۔ ہو سکتا ہے لوگ نہ پہچانتے ہوں کہ احمق کون ہے
گلابی اور روزی
اصطلاح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب
گلابی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پنجابی ملی اُردو
گلابی انگریزی ۔ ۔ ۔ اُردو یا پنجابی ملی انگریزی
گلابی پنجابی ۔ ۔ ۔۔ اُردو ملی پنجابی
رَوزی اُردو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی اُردو
رَوزی پنجابی ۔ ۔ ۔ ۔ انگریزی ملی پنجابی
یہ وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے بچپن اور جوانی کے زمانہ میں مستعمل تھیں
ہم بہن بھائيوں میں سب سے بڑی دو بہنیں ہیں پھر میں ہوں ۔ بڑی بہن نے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی سے جون 1955ء میں ایم بی بی ایس پاس کیا تھا ۔ میں جب دسویں میں تھا تو میرا گلا خراب رہنے لگا ۔ مارچ 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی کا دسویں کا امتحان دے چکا تو حُکم ملا کہ لاہور پہنچو تا کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھایا جائے ۔ میں لاہور پہنچا تو جن عزیزوں کے ہاں میں نے ٹھہرنا تھا اُنہیں اتفاقاً لاہور سے باہر جانا پڑ گیا ۔ باجی نے اپنے ہوسٹل کی مُہتمم ڈاکٹر صاحبہ سے اجازت مانگی کہ مجھے ایک رات ہوسٹل میں سونے دیا جائے ۔ پھاٹک سے داخل ہوں تو کوئی 50 فٹ دُور ہوسٹل کے ملازمین کے کمرے تھے اور اُن کے پيچھے ہوسٹل تھا ۔ اجازت یہ ملی کہ میں پھاٹک کے قریب میدان میں سو جاؤں ۔ گرمیوں کے دن تھے ۔ مجھے ایک چارپائی دے دی گئی
میں صبح سویرے اُٹھ گیا ۔ سات بجے ہوں گے کہ ایک آواز آئی “جورج وے جورج” [جارج او جارج]
پانچ سات منٹ بعد پھر آواز آئی مگر بلند “جورج وے جورج ۔ گٹُک پَو وے سَن رَیز ہو گیا ای” [جارج او جارج ۔ اُٹھ جاؤ ۔ سورج چڑھ گیا ہے]
میرے اور سرونٹ کوارٹرز کے درمیان ایک چارپائی پر ایک اٹھارہ بیس سالہ لڑکا آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ بیٹھا اور یہ کہہ کر پھر سو گیا “ہے ما ۔ کِتھے رَیز ہَویا اے ۔ ہالی تے ڈَین اے” [ماں ۔ کہاں چڑھا ہے ۔ ابھی تو نیچے ہے]
میں نے گیارہویں اور بارہویں جماعتیں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھیں ۔ کالج میں ایک سالانہ فنکشن ہوتا تھا جس میں مزاح بھی ہوتا تھا ۔ گیارہویں جماعت آرٹس کی کلاس میں چند لڑکے کافی فنکار تھے ۔ ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک چھوٹا سا ڈرامہ کرنا ہے اور ایک گانا گلابی انگریزی میں گانا ہے ۔ سب نے گھیر گھار کے مشکل میر ےگلے ڈال دی ۔ زور آزمائی کرنے کے بعد یہ گانا تیار ہوا
mid mid night میں window وِچ standing آں ۔ window وِچ standing آں
your memory وچ tears دے garland پئی پرونی آں ۔ garlend پئی پرونی آں
Also بھرنیاں cold cold سآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
Tomorrow tomorrow کردا سیں tomorrow your آئی نہ ۔ tomorrow yourآئی نہ
Love والی candle my heart وِچ جگائی نہ ۔ heart وِچ جلائی نہ
میں تے burn کے ہوئی آں سوآ آ آ
ايہناں stars توں ask Darling
اصل گانا یہ تھا
ادھی ادھی راتیں میں باری وِچ کھلونی آں ۔ باری وِچ کھلونی آں
تیری یاد وِچ ہنجُواں دے ہار پئی پرونی آں ۔ ہار پئی پرونی آں
نالے بھرنیاں ٹھنڈے ٹھنڈے سآ آ آ
ایہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
کل کل کردا سَیں کل تیری آئی نہ ۔ کل تیری آئی نہ
پیار والی جوت میرے دل وِچ جگائی نہ ۔ دل وِچ جگائی نہ
میں تے سڑ کے تے ہوئی آں سوآآ آ
ايہناں تاریاں توں پُچھ چن وے
کیسا صنم
قارئین میری خُشک تحاریر پڑھ پڑھ کر مکھن کی تلاش میں سرگرداں ہوں گے ۔ سوچا کہ کچھ تَری کا بندوبست کیا جائے ۔ میں صرف اپنے خاندان و برادری ہی میں نہیں اساتذہ ۔ ہم جماعت لڑکوں اور دوسرے ساتھیوں میں خوش مزاح اور ہنس مُکھ جانا جاتا تھا ۔ پچھلے آٹھ سالوں کے مُلکی حالات نے میری حِسِ مزاح اتنی مجروح کر دی ہے کہ ہلکا پھُلکا سُوجھنا ہی مُشکل ہو گیا ہے ۔ کچھ دن قبل ایک پرانے ساتھی کے یاد دِلانے پر ایک سکول کے زمانہ کی چیز یاد آئی
سُنا ہے صنم کی کمر ہی نہیں ہے
نہ جانے وہ دھوتی کہاں باندھتی ہے
میری صنم کی نزاکت تو دیکھو
چھَپَر پہ بیٹھی جُوئیں نکالتی ہے
کیوں نہ ہوں میری صنم پر مکھیاں فدا
کھاتی ہے ریوڑیوں اورگَچَک بہت زیادہ
ملنے جائیں ہم صنم سے کیسے
کہ اُس کی گلی کا کُتا کاٹتا ہے
کریں ٹیلیفون ہم صنم کو
اُس کا ابا ہمیں ڈانٹتا ہے
فرزندکراچی لکھتےہیں
اظہرالحق صاحب کو میں کبھی ملا تو نہیں لیکن انٹرنیٹ کے ذریعہ چار پانچ سال سے جانتا ہوں اور کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی من گھڑت یا جھوٹے واقعات نہیں لکھتے ۔ اظہرالحق صاحب لکھتے ہیں مؤرخہ 28 اگست 2009ء
————————
آج ایک نئی بحث شروع ہوئی تو اپنے آپ کو روک نہیں سکا لکھنے سے ، میں سمجھتا ہوں کہ میرا فرض ہے کہ جو میں سمجھتا ہوں اسے اپنے ہم وطنوں تک پہنچاؤں ، میں نے اپنا بچپن اور جوانی کراچی میں گذاری ۔ میں کوشش کروں گا اپنے اس مضمون کو مختصر رکھنے کی ، یہ بات ہے کے 1984ء اواخر کی ، ملک میں مارشل لاء تھا مگر عوام کے لئے ایک “مرد مومن“ کی حکومت تھی ، ناظم صلات (نمازوں کو پڑھوانے والے ) کا دور تھا ، ہر طرف فوج کے جلوے تھے ، بین الاقومی سٹیج پر روس بکھر رہا تھا ، امریکہ افغانی مجاہدین کے لئے مدد دے رہا تھا ، اور پاکستان “اخوت اسلامی“ کے ریکارڈ توڑتے ہوئے لاکھوں “بے سہارا“ افغانوں کی مدد سے کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر میں خود کفیل ہو رہا تھا ۔ ایسے میں کراچی کے کالجوں میں ابھرتی ہوئی ایک تنظیم جو کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کی اس نسل میں سے تھی جس نے اپنی آنکھ ہی اس آزاد ملک میں کھولی تھی ، جسے اس شہر میں ہی نہیں اس ملک میں ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار قوم سمجھا جاتا تھا ، جس میں حکیم سعید جیسے سپوت تھے ، جس میں سلیم الزماں صدیقی جیسے سائینسدان تھے جس میں رئیس امروہی جیسا شاعر اور بجیا اور حسینہ معین جیسی لکھاری تھیں ۔ ۔ ۔ اسی قوم کے جوانوں کی ایک تنظیم تھی اے پی ایم ایس او یعنی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنازئیزشن ، اور یہ کوئی خاص بات نہ تھی کہ اسی شہر کے کالجوں میں اور یونیورسٹیز میں پی ایس اے (پنجابی اسٹوڈنٹ ایسوی ایشن) اور پختون اسٹوڈنٹ فیڈریشن ، کشمیر اسٹوڈنٹ فیڈریشن جیسی تنظیمیں موجود تھیں تو کسی کو ایک اور “قومی“ تنظیم پر اعتراض کی وجہ نہیں بنتی تھی ، اور پھر ان سب سے بڑھ کر کراچی کے کالجوں میں جمعیت اور پیپلز اسٹوڈنڈنٹس جیسی سیاسی طفیلیے بھی موجود تھیں اور لسانی تنظیمیں بھی تھیں جن میں سرائیکی اور سندھی تنظیمیں تھیں
یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مہاجر اسٹوڈنڈنٹس کا ابھرنا کوئی خاص بات نہ تھی ، یہ بھی یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب طلباء تنظیموں پر پابندی تھی مگر در پردہ انکی آبیاری بھی کی جاتی تھی ، اے پی ایم ایس او سے بھی پہلے جمیعت کے جھگڑے مشہور تھے اور کالجوں میں سب سے زیادہ اسلحہ بھی اسی تنظیم کے پاس تھا ، کیونکہ شہری حکومت بھی جماعت اسلامی کی تھی اس لئے اسکی ذیلی تنظیموں پاسبان اور جمیعت کی اجارہ داری تھی ، میں ان لوگوں کو کنفیوز لوگ سمجھتا تھا اور ہوں کیونکہ یہ لوگ نہ تو مذہبی بن سکتے ہیں اور نہ ہی سیکولر ، اس وجہ سے انکے نظریے میں ہمیشہ ایک خلا رہتا ہے ، جبکہ انکے مقابلے میں آنے والی تنظیم نظریاتی طور پر مستحکم تھی اور اسکی سمت معین تھی ،
یہ ٨1980ء کے عشرے کا درمیانی وقت تھا ، ہمارے افغانی “اسلامی“ بھائی سارے ملک میں منشیات اور اسلحہ پھیلا چکے تھے ، اور ہمارے حکمران افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے خواب دیکھ رہے تھے ایسے میں کراچی جو ایک چھوٹا پاکستان تھا جس میں پنجابی سندھی بلوچی پٹھان اور کشمیری اپنے اردو سپیکنگ ہم وطنوں کے ساتھ رہ رہے تھے ، اس پر سازش رچی گئی اور سازش کے لئے ہراول دستہ بنا ایم کیو ایم ، جو ایک فلاحی تنظیم کے طور پر ابھری تھی اور اسکی بنیاد تھی اسکی طلبہ تنظیم ، جنہوں نے بچت بازار لگائے تھے اور پھر مختلف اداروں میں اپنا نظریہ پھیلا دیا ،
کوئی بھی جماعت یا تنظیم اس وقت ہی مقبولیت حاصل کر لیتی ہے جب اسے مظلوم ثابت کر دیا جائے ، ایسا ہی ہوا ایم کیو ایم کے ساتھ ، اسے ہمارے حکمرانوں نے کندھا دیا اور کراچی “جئے مہاجر“ کے نعروں سے گونجنے لگا ، اور لوگوں کو ایک مسیحا نظر آیا “الطاف حسین“ ، جو عوام کے اندر سے اٹھا ، عام سا آدمی جو کسی بڑی گاڑی کے بجائے ایک ہنڈا ففٹی میں اپنی سیاست کرتا ، وہ عام لوگوں میں مل جل جاتا اور عوام اسے اپنے میں سے ہی سمجھتے ، پھر جسے اپنا سمجھتے اسکا حکم بھی مانتے ، اور پھر ہنڈا ففٹی ایک مقدس چیز بن گئی ، شاید بہت لوگوں کے علم میں ہو گا کہ کراچی کے ایک بڑے جلسے میں لوگوں نے اس ہنڈا ففٹی کو چوم چوم کر چمکا دیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔
پاکستان کی بدقسمتی کہیئے یا پھر قانون قدرت کہ جو بار بار یہ سمجھاتا ہے کہ اقتدار کے طالب ایک دن ذلت کی موت مرتے ہیں ، ایسے ہی ہوا ۔ ١1988ء میں جب مرد مومن “شہید اسلام“ بن گیا ، اسلام کے اس سپاہی نے جو کارنامے انجام دئیے انکا شاخسانہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں ، منشیات اور کلاشنکوف سے لیکر لسانی سیاست تک سب اسی دور کے پھل ہیں ، مگر اس کے بعد جو اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوئی تو اگلے دس سال تک ایک میوزیکل چئیر کھیلا جانے لگا ، ایسے میں ہی کراچی کے “قائد عوام“ نے ان سب چیزوں کا فائدہ اٹھایا اور کراچی میں نو گو ایریا [No-go Areas] بن گئے ، قائد کے غداروں کو بوری میں بند کیا جانے لگا ، اخبارات میں انسانوں کی مڑی تڑی لاشوں کی تصویریں چھپنے لگیں ۔۔ ۔ اور پھر ہم بے حس ہو گئے ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ بن گئی ، جو ہر آنے والی حکومت کو بلیک میل کرتی ،
پتہ نہیں لوگ کیوں بھول گئے کہ جب الطاف بھائی کی تصویریں آسمان سے لیکر پتے پتے پر جم رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ جب فوج کے سپاہی عزیز آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے تو پتھروں اور گولیوں سے انکا استقبال ہوتا ، لوگ کھجی گراؤنڈ کو کیوں بھول گئے پتہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھر شہر کے اندر یہ ہولی کھیلی جا رہی تھی ادھر شہر کے مضافات میں اسلحے اور منشیات کے ڈیلر اپنے اڈے مضبوط کر رہے تھے ، انہوں نے سہراب گوٹھ سے لیکر ناتھا خان کے پُل کے نیچے تک اپنے گاہک پیدا کر لئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔
ضیاء الحق کے بعد تو کراچی میں وحشت کا راج ہو گیا تھا (میں نے جان بوجھ کہ وحشت لکھا ہے دھشت میں انسان صرف خوف کا شکار ہوتا ہے مگر ان دنوں کراچی کے لوگ وحشی بن چکے تھے ) جن لوگوں نے گولیمار اور سہراب گوٹھ کے واقعات کی وڈیوز دیکھی ہیں وہ جان سکتے ہیں کہ میں نے وحشی کیوں کہا ، مجھے وہ رات آج بھی یاد ہے جب شاہ فیصل کالونی میں فساد ہوا تھا ، گرین ٹاؤن گولڈن ٹاؤن اور الفلاح سوسائٹی میں لوگ بازار جلا رہے تھے اور پھر رات ایک بجے کے قریب ہمیں شاہ فیصل کالونی کی جانب سے گولیوں کی آوازیں سنائیں دیں اور ان آوازوں سے بلند عورتوں اور بچوں کی چیخیں تھیں ، جو ایک عرصہ تک میرے کانوں میں گونجتی رہیں ۔ ۔
وہ شخص وحشی ہی تھا نا جس نے شیر خوار بچوں کو چیر دیا تھا ۔ ۔ ۔ وہ آدمی کیسا تھا کہ جسکی لاش کے ساتھ یہ لکھا ملا کہ قائد کے غداروں کا یہ ہی انجام ہوتا ھے ۔ ۔ ۔ کیا ہماری لائبریریوں میں اس وقت کے اخبار موجود نہیں ؟ جن میں سب جھوٹ تھا مگر کیا ایک سچ بھی نہیں مل سکتا ۔ ۔ ۔ جذبات بہت ہیں مگر کیا کہوں کہ انسان کو جلتے دیکھا ہے جلاتے بھی دیکھا ہے ، بندوقوں سے بچوں کو بہلاتے بھی دیکھا ہے
خیرکرفیو لگا ، انتخابات ہوئے ، یہ کیسے انتخابات تھے ، کہ کراچی میں رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ ڈلے ، یہ کیسے انتخابات تھے کہ جن میں جیتنے والے اور ہارنے والوں کے درمیان لاکھوں کا فرق تھا ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر کراچی میں آگ لگتی چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایم کیو ایم نے چولے بدلنے شروع کئے ، انہیں پتہ لگ گیا تھا کہ حکومت میں رہنے کا گُر کیا ہے ، کسی کی بھی حکومت آئے ، ایم کیو ایم اسکے ساتھ رہے گی ،
ایم کیو ایم کو کیا چاہیئے تھا ، حکومت اور شہید ، دونوں اسے ملتے رہے ، اور ابھی تک مل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایم کیو ایم نے ساحر لدھیانوی کے اس شعر کو سچ کر دیکھایا ہے کہ
برسوں سے رہا ہے یہ شیوہ سیاست
جب جواں ہو بچے ہو جائیں قتل
یہ سلسلہ چل پڑا ہے اور چلتا ہی رہے گا ، اس جماعت کی بنیاد ایک لسانی تنظیم تھی اور آج تک ہے ، الطاف حسین ایک ایسی مچھلی ہے جس نے اپنی قوم کے تالاب کو اتنا گندہ کر دیا ہے جسے صاف کرنے میں شاید ایک صدی لگے ۔ ۔ ۔ الطاف حسین کو اپنی قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ، وہ اس کمزور عورت (بے نظیر بھٹو) سے بھی کمزور ہے جو سب جاننے کے باوجود واپس آئی ، اور اپنی جان تک قربان کر دی ، مگر شاید الطاف حسین جو دوسروں کو چوڑیاں پہننے کا اکثر مشورہ دیتے ہیں ، خود چوڑیاں پہن کہ بیٹھے ہیں ۔ ۔ ورنہ ۔ ۔ ۔ بقول شاعر ،
قوم پڑی ہے مشکل میں اور مشکل کشا لندن میں ۔ ۔
بات کہاں کی کہاں نکل گئی ، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں ، الگ ریاست کا خواب ایم کیو ایم کا اس وقت کا خواب ہے جب وہ مہاجر قومی موومنٹ تھی ، اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 1984ء سے پہلے کراچی کے تمام اداروں میں اردو سپیکنگ نہ صرف اچھی سروسز اور پوزیشنز پر موجود تھے بلکہ بہت اچھی شہرت بھی رکھتے تھے ، کراچی کے “بھیئے“ سب قوموں کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے ، انکی آپس میں رشتے داریاں تھیں ۔ ۔ ۔ دوستیاں تھیں ۔ ۔ ۔ یہ ایم کیو ایم نے ہنستے کھیلتے کراچی کو کیا بنا دیا ۔ ۔؟؟؟
ٹھیک ہے انہیں استعمال کیا گیا مگر جب وہ لوگ اقتدار میں آئے تو انہیں خود کو بدلنا چاہیئے تھا ، یہ شاید 1990ء کے بعد کی بات ہے جب میری ملاقات ہوئی تھی ایڈمینسٹریٹر کراچی فاروق ستار سے ، میں سوچتا تھا کہ یار یہ بندہ تو بہت اچھا ہے ، جو عام لوگوں میں گھل مل جاتا ہے ، ان دنوں جب ٹارگٹ کلنگ عام تھی فاروق ستار جب بھی کہیں جاتے تو وہ آگے چلتے اور اتنا تیز چلتے کہ دوسرے لوگ انکا ساتھ نہیں دے پاتے ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ ایم کیو ایم کو بہتر وقت دے سکتے مگر شاید وہ اپنی جماعت کے پابند تھے ۔ ۔ اور اسی وجہ سے انکے بعد جماعت اسلامی نے کراچی کو “فتح“ کیا ۔ ۔ ۔ اور اپنے مئیر کو لا سکی ۔ ۔ ۔ اور جماعت اسلامی نے وہ ہی غلطیاں کیں جو اقتدار کے لالچی لوگ کرتے ہیں ، اور ان سے حکومت چھن گئی ۔ ۔ ۔ گو انکے منصوبے اچھے بنے تھے مگر انکا افتتاح کسی اور نے کیا ۔ ۔ ۔
مختصر یہ کہ ایم کیو ایم ایک پریشر گروپ سے ایک قومی جماعت بنی ، اس جماعت کا اور منشور اپنی جگہ مگر ایک شق لازمی ہے ، وہ ہے فوج کی کردار کُشی ۔ ۔ ۔ اور یہ پہلے دن سے یہ ہی چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ اور ابھی تک چل رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اور شاید چلتا رہے گا ۔۔ کیونکہ “قائد“ لندن میں رہیں گے اور قوم ٹیلی فونک خطاب سنتی رہے گی
بلاگستان مانگے لطیفہ
کہا جاتا ہے کہ بقلم خود فدوی افتخار اجمل لطیفہ باز ہوا کرتا تھا یعنی لطیفے تیار کیا کرتا تھا ۔ جب کبھی فارغ بیٹھوں میرے گرد لڑکے لڑکیوں کا جھرمٹ بن جاتا اور لطیفے کا تقاضہ ہوتا ۔ لیکن زمانے کے تھپیڑوں نے ایسا لتاڑا ہے کہ اب مرثیہ کہوں تو کہوں لطیفہ وارد ہونا مشکل ہے ۔ البتہ ایک واقعہ یاد آیا ۔ 1987ء میں واہ چھاؤنی میں ویلفیئر کمپیوٹر سنٹر بنا تو اخبارات میں اشتہار بھیجا گیا ۔ ایک مشہور اُردو اخبار میں وہ اشتہار شائع ہوا
واہ کینٹ میں ویلفیئر کمپوٹر ٹریننگ سینٹر میں مندرجہ ذیل کورسز کا انتظام ہے ۔ الیکٹرانک ڈاٹا پروسیسنگ ۔ بیسک ۔ کوبول ۔ اور دیگر کمپیوٹر درخواستیں
انگریزی میں تھا
Electronic data processing, BASIC, COBOL and other computer applications
نیا بادشاہ ۔ ايک لطيفہ
ايک اعلٰی تعلیم یافتہ اور اعلٰی عہدیدار نے حال ہی میں مجھے ایک لطیفہ سنایا تھا ۔ کل اخبار میں حکومتی کارستانی کی ایک رپورٹ پڑھ کر خیال آیا کہ قارئین کی نذز کروں
شہروں سے جمہوریت کا شور جنگل میں پہنچا ۔ جنگل کی تمام جمہور یعنی تمام جانوروں کے نمائندوں کا اجلاس بُلایا گیا ۔ شیر کی نامزدگی پر بیلوں اور ہرنوں نے شور مچایا ۔ اسی طرح نامزدگیاں ہوتی رہیں اور اعتراضات ہوتے رہے ۔ آخر بندر باقی رہ گیا اور اس کے خلاف کسی نے شکائت نہ کی چنانچہ جمہور کے نمائندوں نے متفقہ طور پر بندر کو اپنا بادشاہ بنا لیا ۔ بندر نے اپنی تقریر میں جمہور کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یقین دلایا کہ اب کسی پر ظُلم نہیں ہو گا ۔ ہر ایک کی سُنی جائے گی اور اس کی مدد کی جائے گی
کچھ روز بعد ایک چڑیا درخت پر اپنے گھونسلے میں اپنے دو ننھے بچوں کو لئے بیٹھی تھی کہ ايک سانپ درخت پر چڑھتا نظر آیا ۔ چڑیا اُڑ کر بندر کے پاس گئی اور سانپ سے بچوں کو بچانے کی درخواست کی ۔ بندر نے اُسی وقت ایک درخت پر چھلانگ لگائی پھر اُچھل کر دوسرے درخت پر گیا پھر تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگا کر واپس آیا اور چڑیا کو بتایا کہ “دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت کی ہے”
چڑیا جب واپس اپنے گھونسلے پر گئی تو دیکھا کہ سانپ اس کے گھونسلے کے قریب پہنچ چکا ہے ۔ وہ ہانپتی کانپتی پھر بندر بادشاہ کے پاس پہنچی اور بتایا کہ سانپ اسکے بچوں کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے ۔ بندر نے پھر ایک درخت سے دوسرے ۔ دوسرے سے تیسرے پر اور اس طرح کئی درختوں چھلانگے لگائیں اور واپس آ کر کہا ” دیکھا ہم نے آپ کیلئے کتنی محنت و کوشش کی ہے”۔ چڑیا اپنے گھونسلے پر پہنچی تو سانپ اُس کے بچوں کو کھا چکا تھا
پاکستانی قوم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی نہیں ہو رہا ؟
:smile: