Category Archives: مجبوری

جلد مدد کی ضرورت ہے

میں نے اپنے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر کے ساتھ ایک چھوٹی سی WiFi device لگائی تھی تا کہ لیپ ٹاپ کی طرح میرا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بھی وائی فائی سِگنل پکڑے
تجربہ کامیاب رہا اور کام چلتا رہا
میں نے کمپیوٹر کو دوسرے کمرے میں منتقِل کیا ہے جس کی وجہ سے WiFi Router میرے کمپیوٹر سے 25 فٹ دُور ہو گیا ہے اور درمیان میں 2 دیواریں بھی ہیں چنانچہ سِگنل کمزور ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے کبھی ویب سائٹ کھُلتی ہے اور کبھی نہیں کھُلتی

میں چاہتا ہوں کہ میرے کمپیوٹر کی signal receptionبہتر ہو جائے

اس سلسلہ میں جو صاحب یا صاحبہ میری مدد فرمائیں گے میں اُن کا بہت مشکور ہوں گا

مدد مندرجہ ذیل چاہیئے
کوئی سافٹ ویئر انسٹال کرنا ہو
یا
کوئیUSB device enhancer اگر اسلام آباد یا راولپنڈی میں ملتا ہو تو اُس کا نام اور ملنے کا پتہ

میں پاگل ؟ ؟ ؟

میں نے اُس منہ کو بھی کھانا دیا جس نے مجھ پر بہتان تراشی کی
میں نے اُس کے چہرے سے بھی آنسو پونچھے جس نے مجھے رُلایا
میں نے اُسے بھی سہارا دیا جس نے مجھے گرانے میں کسر نہ چھوڑی
میں نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی بھلائی کی جو میرے لئے کچھ نہیں کر سکتے
میں نے اُن لوگوں کی بھی مدد کی جنہوں نے میری پیٹھ میں چھُرا گھونپا

یہی کہیں گے نا ۔ کہ میں پاگل ہوں ؟ ؟ ؟

لیکن میں اپنے آپ کو دوسروں کی نفرت میں ضائع نہیں کرنا چاہتا
میں ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں
کیونکہ
میں جو کچھ بھی ہوں ۔ میں ہوں اور یہ میری فطرت ہے
زندگی آسان نہیں لیکن تمام تر مشکلات کے ساتھ میں اسے بطور خود گذارنا چاہتا ہوں

ہوشيار ۔ خبردار ۔ اور مدد درکار ہے

فدوی افتخار اجمل بھوپال ہر اُس آدمی سے معذرت خواہ ہے جسے لايعنی يا مخرب الاخلاق برقی چِٹھی [E-mail] فدوی کے نام سے ملی ہے ۔ ہر چند کہ يہ چِٹھياں فدوی کی رضا و رغبت يا رضامندی کے بغير ہر اُس شخص کو گئی ہيں جس کا پتہ ميرے ياہو کے حساب [Yahoo account] ميں موجود ہے ۔ فدوی کا اگر قصور ہے تو اتنا کہ فدوی اپنا وقت بہتر طريقہ سے استعمال کرنے کيلئے ايک کمپيوٹر استعمال کرتا ہے مگر يہ ناہنجار چِٹھياں چونکہ ميرے نام سے جا کر مکتوب عليہان کی دلآزاری کا باعث بنی ہوں گی اسلئے معذرت لازم سمجھی گئی

شيطان کا کام تو شيطانی کرنا ہی ہے مگر ايسا ميرے نام سے کيوں ہوا ؟

کمپيوٹر اور انٹرنيٹ استعمال کرنے والے کچھ معصوم لوگ شيطان کی موجودگی سے بے خبر اپنے تجسس کی تسکين کی خاطر اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے رہتے ہيں جس کے نتيجہ ميں شيطان اُن کے کمپيوٹر ميں آ بيٹھتا ہے اور شرارتيں شروع کر ديتا ہے ۔ مجھ سے غلطی يہ ہوئی کہ ايک مانوس بلکہ قريبی نام سے چِٹھی آئی ۔ بظاہر اُس ميں کچھ نہيں تھا اور جواب طلب تھی ۔ اسلئے ميں نے جواب لکھ بھيجا ۔ گويا اپنے پاؤں پر کُلہاڑا مار ليا ۔ اگلے روز لايعنی چِٹھياں ميرے نام سے چلی گئيں ۔ تحقيق کے بعد معلوم ہوا کہ ميرا ياہو کا حساب چوری [hack] ہو گيا ہے

ميں نے ياہو کے حساب کا شناختی لفظ [Password] بدل ديا ہے مگر چوروں نے سائنس ميں ہم سے زيادہ ترقی کر لی ہے اسلئے مستقبل کے ہر لمحے سے ڈر لگتا ہے

اتنی لمبی روئيداد يا تمہيد پيش کرنے کے بعد درخواست ہے اہلِ عِلمِ کمپيوٹر و انٹرنيٹ سے کہ مجھ” دو جماعت پاس ناتجربہ کار شہر ميں نووارد ديہاتی” کی رہنمائی فرمائيں ۔ اور کوئی مُجرّب مگر سہل طريقہ شيطانوں کی ايسی شرارتوں سے محفوظ رہنے کا بتا کر ميری دعاؤں کے حقدار بنيں ۔ بڑے شيطانوں سے تو ہم اللہ کی پناہ مانگ ليتے ہيں مگر چھوٹے شيطان کسی طرح چين سے نہيں رہنے ديتے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ مثبت سوچ

یہ واقعہ شروع 1994ء کا ہے جب میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ دفتر کی صفائی وغیرہ کیلئے ایک آدمی کی ضرورت تھی جس کیلئے تنخواہ بہت کم رکھی گئی تھی ۔ اخبار میں اشتہار دیا گیا ۔ صرف تین اُمیدوار انٹرویو کیلئے آئے ۔ ان میں ایک چِٹا اَن پڑھ تھا

ایک نوجوان نے ملیشا کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی ۔ وہ ایف اے یعنی بارہویں پاس تھا ۔ اس کے بعد اس نے ٹائپنگ سیکھی تھی ۔ اور بنیادی کمپیوٹر اور ورڈ پروسیسنگ کورس کیا ہوا تھا ۔ اسے پوچھا کہ اتنی کم تنخواہ پر کیوں آ رہے ہو تو جواب دیا “میں آزاد جموں کشمیر کے ایک گاؤں سے ہوں ۔ یہاں ایک رشتہ دار نے مجھے اپنے گھر میں جگہ دے رکھی ہے ۔ میں ایک پھل والے کی ریڑھی پر آواز لگاتا ہوں ۔ جس دن وہ ریڑھی لگائے مجھے دس روپے دیتا ہے ۔ یہاں کچھ پیسے مل جائیں گے تو گھر بھیج سکوں گا

دوسرا تیس پنتیس سال کا تھا ۔ اچھی پتلون قمیض پہن رکھی تھی ۔ میں نے اُسے کہا ” آپ تو مجھے پڑھے لکھے اور اچھے عہدہ پر کام کرنے والے لگتے ہیں ۔ آپ یہاں کیسے ؟” اس نے جواب دیا “جناب آپ نے درست پہچانا ۔ میں نے سویڈش انسٹیٹوٹ سے الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ کے بعد ایک کمپنی میں ملازمت کی پھر ایک کمپنی کے ساتھ متحدہ عرب امارات گیا اور وہاں کام کرتا رہا ۔ کام مکمل ہو جانے پر کمپنی واپس آ گئی ہے ۔ میں بال بچے دار ہوں فارغ بیٹھا اپنی جمع پونجی کھا رہا ہوں ۔ اس طرح تو جتنا بھی مال ہو ختم ہو جاتا ہے ۔ میرا گھر یہاں قریب ہی ٹیکسلا میں ہے ۔ میں اپنے بائیساکل پر آ جایا کروں گا ۔ آپ مجھے کچھ دیں گے ہی نا ۔ اتنا میری جمع پونجی کی بچت ہو جائے گی ۔ مجھے کوئی کام کرنے میں عار نہیں ۔ میں آپ کا پورا دفتر صاف کروں گا جھاڑو دوں گا ۔ آپ کو چائے پکا کر پلاؤں گا اور سب برتن دھوؤں گا ۔ کچھ اور بھی کوئی دفتر کا کام ہوا تو کروں گا”

بشر ۔ عتاب اور ڈرامہ باز

ابھی سے ہے يہ حال تو آگے جانے کيا ہوئے

دوتين ہفتوں سے ميرا يہ بلاگ ميری قوم کی طرح اپنی مرضی کا مالک بنا ہوا تھا ۔ کبھی کھُلتا کبھی نہ کھُلتا ۔ وجہ سمجھ نہيں آ رہی تھی ۔ پانچ چھ روز قبل سرور کے مالک سے رابطہ کيا ۔ اُس نے بتايا کہ يہ مسئلہ ڈی اين ايس رُوٹِنگ [DNS Routing ] کا ہے ۔ امريکا ميں سارے سرور اَپ گريڈ کر ديئے گئے ہيں اور تمام آئی ايس پيز نے ڈومين کے سلسلہ ميں کچھ اپ گريڈ کرنا تھا ۔ جنہوں نے نہيں کيا اُنہيں استعمال کرنے والوں کو يہ مسئلہ درپيش ہے ۔ بہرحال اُس کے بعد دو دن ميرا بلاگ کھُلتا رہا پھر وہی ہَٹ ۔ ميں نے بہت سے دوستوں کو ای ميل ميں مدد کی درخواست کی تھی جس سے يہ بات سامنے آئی ہے کہ جن کا آئی ايس پی ہے پی ٹی سی ايل يا وہ جو پی ٹی سی ايل سے روٹ ہوتی ہے مثال کے طور پر ورڈ کال۔ آج صبح 7 بجے نہيں کھُلا تو رابطہ کيا تو اُسی وقت چالو ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ بجلی کا آوا گوَن شروع ہو گيا

جمعہ اور ہفتہ کی درميانی رات سے لاہور پر عتاب نازل ہو چکا ہے ۔ پيپکو ہی بجلی بند کرنے کيلئے کم نہ تھی کہ مرکزی حکومت کا ايک ہتھيار نيشنل پاور کنٹرول سينٹر نے لاہور شہر کے 18 اور لاہور کے مضافات کے 9 گرڈ سٹيشنوں کو بجلی کی سپلائی باوجود پيپکو کے منع کرنے کے بند کر دی ہوئی ہے جس کے نتيجہ ميں لاہور شہر ميں 24 گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے وجہ بجلی کی کمی بتائی گئی ہے جبکہ اسلام آباد ميں 24 گھنٹوں ميں صرف 5 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے ۔ حالت يہ ہے کہ ايک گھنٹہ بجلی ہوتی ہے جس کے بعد ايک يا 2 يا 3 يا 4 گھنٹے بجلی نہيں ہوتی

شايد اسی سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے پچھلے ہفتے  کو مشہور ڈرامہ بازوں نے ايک منظر پيش کيا کہ اٹھارہويں آئينی ترميم پيش کی جا رہی ہے اور صدر صاحب جائنٹ سيشن سے خطاب کريں گے ۔ اس پر نواز شريف نے پريس کانفرنس کر ڈالی اور تمام توپوں کا رُخ نواز شريف کی طرف ہو گيا ۔ بادل چھٹے ہيں تو معلوم ہوا کہ اٹھارويں ترميم تو ابھی تيار ہی نہيں ہوئی کيونکہ مختلف سياسی جماعتوں کی طرف سے اُٹھائے گئے نقاط کا ابھی فيصلہ ہونا باقی ہے ۔ اٹھارويں ترميم اسمبلی ميں پيش کرنے اور صدر کے خطاب کی سمری وزيراعظم نے صدر کو بھيجنا ہوتی ہے اور وزيراعظم نے ايسی کوئی سمری نہيں بھيجی تھی

ہم عوام صرف اتنا ہی صدر صاحب اور اُن باقی اداکاروں سے کہہ سکتے ہيں ” اس دل سے کھيلتے ہو بار بار کس لئے “

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ایک ٹیلیفون کال

ہاں ۔ ایک ٹیلیفون کال جو میں آج تک نہیں بھُلا سکا ۔ محمد خُرم بشیر بھٹی صاحب نے پردیسی کی روداد بیان کی ۔ غیر ملک میں ایک پاکستانی کی کیفیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے

یہ واقعہ ہے 1983ء یا 1984ء کا ہم لبیا سے واپس آ چکے تھے اور راولپنڈی سیٹیلائیٹ ٹاؤن اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ میں روزانہ راولپنڈی سے واہ نوکری پر جاتا اور آتا تھا کیونکہ واہ میں ابھی سرکاری رہائشگاہ نہ ملی تھی ۔ عید کا دن تھا ۔ نماز پڑھ کر واپس آیا ہی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ ٹیلیفون اُٹھا کر السلام علیکم کہا تو آواز آئی “میں بہت دیر سے لاہور ٹیلیفون کر رہا ہوں”
میں نے بات کاٹ کر کہا “یہ تو راولپنڈی ۔۔۔”
ابھی میرا فقرہ پورا نہ ہوا تھا کہ اس نے منت کے لہجہ میں کہا ” ٹیلیفون بند نہ کریں ۔ میں امریکہ سے بول رہا ہوں ۔ میرا گھر لاہور میں ہے ۔ آج عید ہے میرا بہت دل چاہا کہ اپنے شہر کے کسی آدمی سے بات کروں ۔ کئی گھنٹے کوشش کے باوجود کسی سے بات نہ ہو سکی پھر میں نے یونہی یہ نمبر ملایا تو مل گیا ۔ بس آپ باتیں کیجئے اور مجھے میرے وطن اور میرے شہر کا بتایئے”

میں اس کے ساتھ کافی دیر باتیں کرتا رہا ۔ بالآخر میں نے اُسے کہا ” مجھے لاہور اپنے گھر کا ٹیلیفون نمبر یا پتہ لکھا دیں ۔ میں آپ کے گھر والوں کو آپ کا سلام اور عید مبارک پہنچا دوں گا ”

وہ کہنے لگا ” میرے والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور میرا کوئی سگا بہن بھائی نہیں ۔ میں کس کو پیغام بھیجوں ؟ اپنے شہر کے کسی آدمی سے باتیں کرنا چاہتا تھا ۔ آپ سے باتیں کر کے میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور میرے وطن کو بھی سلامت رکھے”