اپنے ساتھ پيش آنے والے چند واقعات تو ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب دنيا ميں ہونے والے واقعات ميں سے چند
گاڑی اُلٹی کيسے نکالتے ہيں
گاڑی کيسے چلاتے ہيں
ايک
دو بلکہ زيادہ
اپنے ساتھ پيش آنے والے چند واقعات تو ميں شائع کر چکا ہوں ۔ اب دنيا ميں ہونے والے واقعات ميں سے چند
گاڑی اُلٹی کيسے نکالتے ہيں
گاڑی کيسے چلاتے ہيں
ايک
دو بلکہ زيادہ
آنے والی کل کيلئے ہفتہ بھر سے چاروں طرف گہما گہمی ہے يعنی عيد ميلاد النبی منانے کی ۔ زبان زدِ عام قول ہے حُبِ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم ۔ آج تک ميری سمجھ ميں نہيں آيا کہ ہمارے بھائی بند يعنی اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے محبت ۔ انس ۔ احترام يا عقيدت کسے کہتے ہيں ؟
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُس زمانے کے قليل مسلمانوں سے اجتماعی ضروريات کيلئے کچھ مال لانے کا کہتے ہيں ۔ سب بقدرِ استطاعت لاتے ہيں ۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہيں ” کيا لائے ؟”۔ وہ کہتے ہيں ” گھر ميں جو کچھ تھا اُس کا آدھا لے آيا ہوں”۔ پھر يہی ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو اُنہوں نے کہا “گھر ميں جو کچھ تھا سب لے آيا ہوں”۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے کہا ” کچھ بيوی بچوں کيلئے بھی چھوڑا ؟” تو ابو بکر صديق رضی اللہ عنہ نے کہا ” ہاں ۔ اللہ اور اس کا رسول”
رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم مسجد کے منبر پر تشريف فرما ہيں ۔ مسجد کے آخری حصے ميں کچھ مسلمان کھڑے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم اُنہيں بيٹھنے کا کہتے ہيں ۔ سڑک پر مسجد کے پاس آتے ايک صحابی وہيں بيٹھ جاتے ہيں ۔ رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کہتے ہيں “ميں نے مسجد ميں کھڑے لوگوں کو بيٹھنے کا کہا تھا سڑک پر چلنے والوں کو نہيں”۔ صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہيں “درست ۔ ليکن يہ کيسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ کے منہ سے بيٹھنے کا حکم نکلے اور ميں کھڑا رہوں”
ہمارے اجتماع نماز جمعہ و عيدين اور حج ہيں ۔ يہی ہمارے تہوار ہيں ۔ اس کے علاوہ کچھ نہيں ۔ باقی جلسے جلوس اللہ کے دين کا حصہ نہيں ہيں ۔ تھوڑا سا غور کيا جائے تو ہماری رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم سے محبت ۔ عقيدت اور احترام کا بھانڈہ ريزہ ريزہ ہو جاتا ہے ۔ ہم لوگوں نے محبت کو ميلوں ۔ جلوسوں اور مجلسوں ميں بند کر ديا ہے اور اپنے فرائض سے غافل ہيں جو اپنے مال اسباب اور اہل و عيال حتٰی کہ اپنی جان سے زيادہ اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کے متقاضی ہيں
کچھ روز قبل ايک امريکی عيسائی دوست نے بتايا کہ کرسمس منانا عيسائيت کا حصہ نہيں ہے بلکہ منحرف لوگوں کی اختراع ہے اور ثبوت کے طور پر انجيل سے اقتباسات تحرير کئے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سيّدنا عيسٰی عليہ السلام کی پيدائش دسمبر کی سردی ميں نہيں ہوئی تھی بلکہ ايسے موسم ميں ہوئی تھی جب چرواہے اپنے ريوڑ رات کے وقت چرا رہے تھے ۔ يعنی جب رات کو سردی نہ تھی اور دن کو گرمی برداشت نہ ہوتی ہو گی ۔ ان اقتباسات کو ميں نے ” Why Christmas ? ” کے عنوان سے اپنے انگريزی بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitterپر نقل کيا تھا جسے ” Why Christmas ?” پر کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
ايک بچہ اپنی ماں سے “آپ روتی کيوں ہيں ؟”
ماں “کيونکہ ايسی ضرورت پڑتی ہے”
بچہ ” مجھے سمجھ نہيں آئی”
ماں نے بچے کو سينے سے لگا کر پيار کرتے ہوئے کہا “تمہيں سمجھ آئے گا بھی نہيں”
پھر بچے نے اپنے باپ سے سوال کيا “ماں بغير وجہ کيوں روتی ہے ؟”
باپ نے لاپرواہی سے جواب ديا “سب عورتيں بلاوجہ روتی ہيں”
بچہ مخمصے ميں رہا ۔ کچھ دن بعد بچے کی ايک عالِم سے ملاقات ہوئی ۔ بچے نے سوچا “سب لوگ عالِم سے عِلم حاصل کرتے ہيں ۔ انہيں ضرور پتہ ہو گا کہ عورتيں کيوں روتی ہيں”
بچہ نے عالِم سے کہا “يا شيخ ۔ عورتيں اتنی آسانی سے کيوں رونے لگ جاتی ہيں ؟”
عالِم نے جواب ديا
“جب اللہ نے عورت کو بنايا تو اس پر خاص توجہ دی
اللہ نے عورت کے کندھے اتنے مضبوط بنائے کہ وہ دنيا کا وزن اُٹھا سکيں اور ساتھ اتنے نجيب کہ آرام پہنچا سکيں
اللہ نے عورت ميں اندرونی طاقت اتنی بھری کہ بچے کے حمل سے لے کر اُس ناپسنديدگی کو برداشت کر سکے جو بعض اوقات اُس کی اپنی اولاد ہی کی طرف سے ہوتی ہے
اللہ نے عورت کو کڑاپن عطا کيا کہ جب باقی سب ہار جاتے ہيں وہ بغير شکائت اپنے خاندان کی بيماری اور مشکلات کے دوران ديکھ بھال کرتی رہتی ہے
اللہ نے عورت ميں اپنے بچوں سے محبت کا احساس رکھا کہ وہ اُن سے ہر حال ميں محبت کرتی ہے خواہ بچے اُسے دُکھ ہی ديں
اللہ نے عورت کو طاقت بخشی ہے کہ اپنے خاوند کی تمامتر خاميوں کے ساتھ گذر کرتی ہے ۔ اور اللہ نے اسے مرد کی پسلی سے اُس کے دل کی حفاظت کيلئے پيدا کيا ہے
اللہ نے عورت ميں جاننے کی عقل رکھی ہے کہ اچھا خاوند بيوی کو دُکھ نہيں ديتا بلکہ اللہ کبھی کبھار خاوند کا ساتھ دينے ميں عورت کی مضبوطی اور قوتِ ارادی کا امتحان ليتا ہے
اور سب سے بڑھ کر اللہ نے عورت کو آنسو عطا کئے جو عورت کا طُرّہ امتياز ہيں جنہيں وہ جب چاہے جہاں چاہے بہائے ۔ اس کيلئے کسی وضاحت کی ضرورت نہيں کيونکہ يہ اُس کی خاص ملکيت ہيں
ديکھا بيٹا ۔ عورت کا حُسن اُن کپڑوں ميں نہيں جو وہ پہنتی ہے ۔ نہ اُس کے چہرے کی رنگت يا خد و خال ہيں ۔ نہ اُس کے بال ہيں ۔
بلکہ عورت کا حُسن اُس کی پرہيزگاری ہے جو اُس کی آنکھوں سے جھلکتی ہے کيونکہ وہی دل کی راہداری ہيں ۔ دِل جس ميں محبت گھر کرتی ہے”
خاور کھوکھر صاحب نے قوم کی حالت زار پر لکھتے ہوئے دنیا کی کم ترین عمر کی مائیکروسوفٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا نامی لڑکی کا حوالہ ديا ۔ خاور کھوکھر صاحب کے بلاگ پر اظہارِ خيال کرنا شروع کيا جو طوالت پکڑ رہا تھا چنانچہ اسے اپنے بلاگ پر منتقل کرنے کا فيصلہ کيا ۔ اس کا اضافی فائدہ يہ ہو گا کہ زيادہ خواتين و حضرات اسے پڑھ سکيں گے اور ہر دو خيالات پر اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکيں گے
اوّل بات يہ ہے کہ ہم الحمدللہ مسلمان ہيں اسلئے ہميں اللہ کے فرمودات کو کبھی نہيں بھولنا چاہيئے بلکہ ان پر عمل پيرا ہونا چاہيئے
سورت 3 ۔ آلِ عِمرَان ۔ آيت 26 ميں اللہ کا ايک فرمان رقم ہے
قُلِ اللَّھُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِی الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَیْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ ۔ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ۔ اے تمام جہان کے مالک ۔ تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ۔ بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے
سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
ترجمہ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
ارفع کے والدين کی مالی حالت اور خواہش کے بغير ارفع کا يہ اعزاز حاصل کرنا مشکل تھا ليکن زيادہ سبب ارفع کی شب و روز محنت اور اساتذہ کی رہنمائی اور تدريسی قابليت ہے ۔ اپنے ہموطنوں کا رويّہ اپنی جگہ ليکن ذہانت اللہ کی دين ہے اور ذہانت کو مؤثر بنا کر اس سے اچھا نتيجہ حاصل کرنا آدمی کی اپنی محنت اور طريقہءِ کار پر منحصر ہے ۔ جہاں تک ارفع کا تعلق ہے [جو اس فانی دنيا سے رُخصت ہو چکی ہے] وہ ايک ريٹائرڈ ليفٹننٹ کرنل [Liutinant Colonel] کی بيٹی تھی ۔ ليفٹننٹ کرنل کوئی بڑی بلا نہيں ہوتا اور پھر جو ريٹائر ہو چکا ہو اُسے ہمارے معاشرے ميں عام طور پر اچھا مقام نہيں ديا جاتا ۔ ميں ايسے ذہين اور کامياب طُلباء کو جانتا ہوں جن کی مالی حالت کو مدِ نظر رکھا جاتا تو وہ 10 جماعتيں بھی نہ پڑھ پاتے ليکن وہ انجيئر بنے ۔ ميرا ايک ہمجماعت جو اليکٹريکل انجيئر بنا اُس کی والدہ نے لوگوں کے کپڑے سی کر اور برتن دھو کر اُسے پالا اور پڑھايا تھا ۔ اُس نے پہلا ميرٹ کا وظيفہ ميٹرک کے امتحان ميں ليا اور پھر ہر امتحان ميں وظيفہ حاصل کرتا رہا ۔ ايسے کچھ اور لڑکوں کو بھی ميں جانتا ہوں
ميں کسی دنياوی وسيلے والے کی حمائت نہيں کرنا چاہتا ۔ ميں نے زندگی کی 6 سے زائد دہائياں اس ملک پاکستان ميں گذاری ہيں ۔ اس ميں سے جو وقت ملک کے باہر گذارا وہ 8 سال سے کم ہے اور اُس ميں سے بھی ساڑھے 7 سال حکومت کے حُکم کے تحت ملک سے باہر گيا اور وہاں رہا ۔ اصول پسندی اور سچ کا ساتھ دينے کے نتيجہ ميں نہ صرف بڑی کرسی والوں نے بلکہ ساتھيوں اور ماتحتوں نے بھی مجھے اتنا تنگ کيا کہ بالآخر 60 سال کی عمر پوری کرنے کی بجائے پونے 52 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ مانگ لی جبکہ کہ روزگار کا کوئی اور دنياوی وسيلہ نہ تھا
پاکستان بننے کے بعد 1953ء تک والد صاحب کو محنت کا پھل ملتا رہا پھر دنياوی وسيلے والوں کا دور شروع ہوا اور ہماری تنگدستی کے دن . نوبت يہاں تک پہنچی کہ جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا تو ميرے پاس سستے کپڑے کی 2 پتلونيں 2 قميضيں 2 قميض پاجامے اور ايک بغير آستين کا سويٹر تھا ۔ ايک سال اسی طرح گذارا پھر ايک لنڈے کا کوٹ ليا ۔ ميں نے ان حالات ميں انجيئرنگ پاس کی اور بعد ميں بچت کر کے وہ قرض اُتارا جو ميری انجيئرنگ کالج کی پڑھائی کے آخری سال ميں لينا پڑا تھا ۔ انجنيئر بن کے افسر لگنے کے بعد بھی 3 سال لنڈے کا کوٹ پہنا ۔
ہماری قوم کا الميہ نہ فوج ہے نہ تاجر اور نہ حکمران ۔ ان بُرے حکمرانوں کو ہم ہی ووٹ دے کر حکمران بناتے ہيں اور ووٹ دينے والوں ميں 90 فيصد وہی ہوتے ہيں جو بعد ميں نان نُفقے کو ترستے ہيں ۔ اصل مسئلہ ہماری قوم کی غلط سوچ اور بُری عادات ہيں ۔ ہم لوگ اپنے ملک کے اندر رہتے ہوئے محنت کرنے سے کتراتے ہيں ۔ اپنے گھر يا دفتر ميں جھاڑو دينا اپنی توہين سمجھتے ہيں ليکن برطانيہ جا کر بيت الخلا صاف کرنا گوارا ہوتا ہے ۔ ہم لوگ اپنی ہر غلطی کا سبب دوسرے کو ٹھہراتے ہيں ۔ اپنے آپ کو درست کرنے کے روادار نہيں البتہ دوسروں ميں ہميں عيب ہی عيب نظر آتے ہيں
دراصل ہميں اللہ پر زبانی يقين ہے مگر عملی طور پر نہيں ہے ۔ ہم اللہ کو ماننے کا دعوٰی کرتے ہيں ليکن اللہ کی کوئی بات ماننے کو تيار نہيں ہيں ۔ جب ہم من حيث القوم اللہ پر يقين کامل کرتے ہوئے حق حلال کمانے کيلئے محنت شروع کريں گے اور ناحق کی کھانا چھوڑ ديں گے تو يہی ملک پاکستان دن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگے گا اور دنيا کی ہر آسائش ہميں ميسّر ہو جائے گی
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جن لوگوں کو عوام منتخب کرتے ہیں انہیں کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی کہ وہ اپنی خواہش اور مفاد کے تحت امور چلائیں انہیں قانون اور آئین کے مطابق تمام امور سرانجام دینا ہوتے ہیں اگر کوئی منتخب نمائندہ آئین کے تقاضوں کے مطابق اپنا اختیار استعمال نہیں کرتا تو وہ حق رائے دہی کے ذریعے دیئے گئے مینڈیٹ سے انحراف کرے گا ۔ آئین کے مطابق ضروری ہے کہ ہر منتخب رکن اس کے مطابق کام کرے
عدالت نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر کے تمام تر دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے پاکستان کے شہریوں کا بنیادی حق ہے کہ وہ تمام تر صورتحال سے آگاہ رہیں اور سچ جانیں اسلئے اعلیٰ ترین ججوں پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو اس میمو کے ماخذ ، اس کی ساکھ اور اس کے مقاصد کی تفصیلی تحقیقات کرے گا
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق پاکستان نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے میمو کے وجود سے انکار نہیں صرف تکنیکی نقائص کا ذکر کیا گیا ہے جن میں ڈی جی آئی ایس آئی کی وزیراعظم کی اجازت کے بغیر منصور اعجاز سے ملاقات پر اعتراض بھی شامل ہے
منصور اعجاز نے اپنے جواب میں حسین حقانی کے موقف سے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ٹھوس ثبوت دینے کیلئے تیار ہیں کہ مائیک مولن کو جیمز جونز کے ذریعے بھیجا گیا میمو حسین حقانی نے ہی لکھا تھا
حسین حقانی نے عدالت میں دیئے گئے حلف نامے میں کہا ہے کہ میں نے 2008 ء میں امریکہ میں بطور سفیر تقرری کے بعد سے پوری قوت سے ملک کی خدمت کی ہے ۔ وزیراعظم اور حکومت کی ہدایات پر فرائض سرانجام دیئے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات میں آنے والے بہت سے بحرانوں سے نمٹا ہوں ۔ افسوسناک امریہ ہے کہ جمہوری طور پر منتخب حکومت کے مخالف اور پاکستان و امریکہ کے بہتر تعلقات کے مخالفین نے ہمیشہ میرے خلاف کام کیا ہے اور بے بنیاد الزامات لگائے ہیں کہ میں مسلح افواج کو بدنام کرنا چاہتا ہوں بہت سے دیگر پاکستانیوں کی طرح میں بھی سیاست میں فوجی مداخلت کا مخالف ہوں لیکن میں نے مسلح افواج یا ان کی قیادت کیخلاف کوئی سازش نہیں کی اور نہ ہی ان کا رتبہ کم کرنے کی کوشش کی ہے مجھ پر تازہ الزام یہ لگایا گیا ہے کہ میں نے امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس ایڈمرل مائیک مولن کو ایبٹ آباد میں 2 مئی کی کارروائی کے بعد میمو لکھا جس میں پاکستان کی فوجی قیادت میں تبدیلیوں کے لئے امریکہ سے مدد مانگی گئی میں واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے حکومت پاکستان نے ایسی کوئی ہدایت نہیں کی اور نہ ہی میں نے ایسا کوئی میمو لکھا ہے اور نہ ہی حکومت یا صدر کی طرف سے کسی کو یہ بھجوانے کیلئے کسی دوسرے شخص کو کہا ہے ۔ سفیر ہونے کے ناطے امریکی حکام سے ہر سطح پر رابطہ میری ذمہ داری تھی اور میں تمام سرکاری پیغامات تیار کرنے اور بھجوانے کی صلاحیت رکھتا ہوں ۔ میں درخواست کرتا ہوں میرے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کی جائے اور اسی مقصد کیلئے میں نے قومی مفاد میں استعفیٰ دیا ہے ۔
فاضل اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق وفاق کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی وفاق کی تعریف میں آتے ہیں اس لئے وہ ان سب کی طرف سے پیش ہورہے ہیں ۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ 14 دسمبر کو انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے ایک کورنگ لیٹر کے ساتھ بیانات داخل کرائے اسی طرح آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے 21 دسمبر کو حلف نامے بھی جمع کروائے گئے ۔ اٹارنی جنرل کا موقف تھا کہ میمو کا کوئی وجود نہیں کیونکہ ایک شخص منصور اعجاز جو امریکی شہری ملک سے باہر بیٹھا ہے اس نے اپنے طور پر امریکہ میں پاکستانی سفیر کو ملوث کرنے کیلئے یہ میمو تیار کیا وفاقی حکومت اور ایوان صدر پہلے ہی ان کی تردید کرچکا ہے اور مجاز اتھارٹی و پارلیمانی فورم اس کی تحقیقات کررہا ہے ۔
حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس میں کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اس لئے یہ درخواستیں مسترد کردی جائیں ۔ان کا موقف تھا کہ عوامی اہمیت اور بنیادی حقوق کے معاملات آپس میں ملے ہوئے ہیں اور یہ درخواستیں بدنیتی کی بنیاد پر دائر کی گئی ہیں ۔
لفظ عوامی اہمیت کے بارے میں ڈکشنری یہ کہتی ہے کہ جس معاملے میں کوئی بھی شخص شریک ہو وہ عوامی نوعیت کا معاملہ ہوتا ہے ۔ یہ معاملہ کوئی شخص یا افراد مل کر اٹھا سکتے ہیں اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ بنیادی حقوق کا نفاذ یقینی بنانے کیلئے اس میمو کے ماخذ ساکھ اور مقصد کی تحقیقات ضروری ہے یہ معاملہ عوامی اہمیت کے زمرے میں آتا ہے ۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی میں درخواست دینے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا اس لئے انہوں نے 23 نومبر کو درخواست جمع کروائی ہے جبکہ کمیٹی کا پہلا اجلاس 28 نومبر کو بلایا گیا ہے ۔
عاصمہ جہانگیر کا کہنا ہے کہ میمو ایک سیاسی معاملہ ہے اس لئے قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کی تحقیقات کیلئے موزوں ہے
جبکہ رشید اے رضوی کا موقف ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے عدالت ہی انصاف کرسکتی ہے ۔
جہاں تک اس معاملے پر انصاف کا تعلق ہے یہ عدالتی اختیار کا امتحان ہے ہمارے ملک میں عدلیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں سیاسی امور میں ریلیف حاصل کرنے کیلئے عدالتوں سے وقتاً فوقتاً رجوع کیا گیا ان میں بے نظیر بھٹو بنام وفاق ، محمد نواز شریف بنام وفاق ، اسمبلیوں کی تحلیل اور دیگر معاملات شامل ہیں ۔
سیاسی سوال پر انصاف بنیادی طور پر اختیارات کی علیحدگی کا معاملہ ہے بہت سے امور کو سیاسی سوال کا لیبل لگا کر دبا دیا جاتا ہے ۔
حکومت کے ایک حصے کے بارے میں کوئی فیصلہ حکومت کا دوسرا حصہ نہیں کرسکتا کہ کس نے اختیار سے تجاوز کیا ہے ۔ یہ آئینی تشریح کا معاملہ ہوتا ہے اور عدالت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کی حتمی تشریح کرے ۔
دلائل کے دوران دو سوالات عدالت کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے مقصد کے تحت اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور دوسرا یہ کہ جو لوگ اس کے ذمہ دار ہیں ان کیخلاف تحقیقات ضروری ہے اس لئے اس معاملے کا عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت جائزہ لینے کا اختیار حاصل ہے ۔
آئین کے دیپاچے میں عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کی ضمانت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام اور عدلیہ کی آزادی کا مکمل تحفظ کیاجائے گا ۔ عدلیہ آئین کے تحت دی گئی آزادی کی ضمانت پر کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کرسکتی کیونکہ اس سمجھوتے سے حالات خراب ہوسکتے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عدلیہ نے اپنا اختیار استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہورہا ہے ۔
ڈاکٹر مبشر حسن بنام وفاق کیس میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کا آئینی اختیار استعمال کرتے ہوئے این آر او کو غیر قانونی ، غیر آئینی اور شروع سے ہی غیر موثر قرار دیا ہے اس حکم پر عملدرآمد کیلئے درخواستیں دی گئیں لیکن ہم نے آئین کے تحت جمہوری نظام یقینی بنانے کیلئے انہیں زیر التواء رکھا تاکہ کوئی انتشار پیدا نہ ہو تاہم جب بڑی کرپشن کے دھڑا دھڑ مقدمات آئے تو عدالت نے آئین کے آرٹیکلز 4,9,14 اور 25 کے تحت شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کیا ہمیں خوشی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی عدالت سے رجوع کیا جس میں رینٹل پاور منصوبے شامل ہیں جس پر ایک وزیر مخدوم سید فیصل صالح حیات نے عدالت سے رجوع کیا اسی طرح ماروی میمن نے سیلاب کے دوران دریاؤں کا رخ موڑنے سے ہونے والے نقصانات کا معاملہ اٹھایا ۔ خواجہ محمد آصف او جی ڈی سی ایل کا کیس لائے اس کے ساتھ ساتھ اسٹیل ملز ، ایل پی جی ، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن ، این آئی سی ایل ، حج انتظامات اور آر پی پیز ، کے مقدمات زیر التواء ہیں ۔ بینک آف پنجاب کیس میں کروڑوں روپے واپس لے کر بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا یہ رقم حکومتی اہلکاروں نے لوٹی تھی
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب عدالت کرپشن کا نوٹس لے گی تو یہ آسانی سے ہضم نہیں ہوگا کیونکہ عوام کا پیسہ لوٹنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں بھارت کی سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں آنے والے کرپشن مقدمات کا حوالہ بھی دیا ۔
اس معاملے کی تحقیقات کیلئے انتہائی تجربہ کار عدالتی افسران جو تین ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز ہیں انہیں کہا گیا کہ اور یہ کام دو زاویوں سے کیا گیا کیونکہ ایک تو یہ معاملہ پاکستان کی خود مختاری ، آزادی اور سلامتی کا ہے اور تحقیقات کے دوران بہت سے شواہد پیش ہونگے جن میں فرانزک شواہد کی بنیاد پر مجرموں کا تعین کیاجائے گا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ آئین کے آرٹیکلز 9,14اور 19 اے کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ کیاجائے ۔
حسین حقانی کی نقل وحرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی صرف اتنا کہا گیا ہے کہ وہ عدالت سے اجازت کے بغیر ملک نہیں چھوڑ سکتے تاکہ اس میمو کے ماخذ ساکھ اور اثرات کی کمیشن مکمل تحقیقات کرسکے ۔
فیصلے میں دو ججوں جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے الگ الگ نوٹ میں کہا کہ قومی تاریخ بہت سے سانحات سے بھری ہوئی ہے جس میں ۔ ۔ ۔
ملک کا دولخت ہونا اور ایک وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم کا قتل شامل ہے ۔ ہمیں یاد ہے کہ حکومتی عہدوں پر فائز لوگ اور اس وقت کا میڈیا دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد تک سب ٹھیک ہے کہ جھوٹی رٹ لگاتا رہا سچ کو منظر عام پر لانے اور عوام تک پہنچانے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی اور شہریوں کو محض افواہوں ، قیاس آرائیوں اور نیم واضح حقائق کی اندھیر نگری میں بھٹکنے دیا گیا ایک مسخ شدہ تاریخ پیش کرکے عوام میں تفریق کی بنیاد رکھی گئی ۔
آئین کے آرٹیکل 19 اے کی بدولت سابق طریقہ کار بدل چکا ہے اس دیس کے ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے امور کے بارے میں معلومات حاصل کرے ا ور اس کیلئے وہ عدالتی چارہ جوئی بھی کرسکتا ہے اور اس حق میں حکومت اور پارلیمنٹ کی قانون سازی بھی حائل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر شہری کو یہ حق آئین نے دیا ہے ۔ فیصلے سچ سامنے لانے کی اہمیت کے حوالے سے فاضل چیف جسٹس نے قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی آیات کے حوالے بھی شامل کئے ہیں
آجکل ٹی وی پر ايک گيت چلايا جا رہا ہے جو شہزاد رائے نے جديد موسيقی پر ترتيب ديا ہے ۔ اس ميں اہم کارمنصبی بلوچستان کے ايک گاؤں کے رہنے والے کا ہے ۔ اس گيت نے مجھے لڑکپن اور نوجوانی کی ياد دلا دی جب ايسے کردار کو بہت اہميت دی جاتی تھی اور سنجيدہ محفلوں ميں بھی انہيں سنا جاتا تھا ۔ يہ لوگ ايک لَے ميں اپنے ہی تيار کردہ گيت پيش کرتے تھے جو کہ ذومعنی ہوتے تھے اور معاشرے کی عکاسی کرتے تھے يا اصلاحِ معاشرہ کی ترغيب ديتے تھے
جديد موسقی کا عبادہ اوڑھے قديم روائتی گيت حاضر ہے جس ميں قديم گيت ہی چھايا ہوا ہے
خواجہ الطاف حسين حالی صاحب نے مسلمانانِ ہِند کی حالتِ زار بيان کرنے کے بعد اُنہيں مايوس ہونے سے بچانے اور ترقی کی راہ پر چلنے کا راستہ بھی بتايا ۔ مسدسِ حالی کے اس حصہ کا نام ” ضميمہ ” ہے
بس اے نااُمیدی نہ یوں دل بُجھا تُو ۔ ۔ ۔ جھلک اے اُمید اپنی آخر دکھا تُو
ذرا نا امیدوں کی ڈھارس بندھا تو ۔ ۔ ۔ فسردہ دلوں کے دل آکر بڑھا تو
ترے دم سے مردوں میں جانیں پڑی ہیں ۔ جلی کھیتیاں تو نے سر سبز کی ہیں
بہت ڈوبتوں کو ترایا ہے تو نے ۔ ۔ ۔ بگڑتوں کو اکثر بنایا ہے تونے
اکھڑتے دلوں کو جمایا ہے تونے ۔ ۔ ۔ اجڑتے گھروں کو بسایا ہے تونے
بہت تونے پستوں کو بالا کیا ہے ۔ ۔ ۔ اندھیرے میں اکثر اجالا کیا ہے
نہیں فکر تو دل بڑھاتی ہے جب تک ۔ دماغوں میں بو تیری آتی ہے جب تک
یہ سچ ہے کہ حالت ہماری زبوں ہے ۔ عزیزوں کی غفلت وہی جوں کی توں ہے
جہالت وہی قوم کی رہنموں ہے ۔ ۔ ۔ تعصب کی گردن پہ ملت کا خوں ہے
مگر اے امید اک سہارا ہے تیرا ۔ ۔ ۔ کہ جلوہ یہ دنیا میں سارا ہے تیرا