Category Archives: طور طريقہ

ڈھائی لاکھ کا مقروض ہو گیا ۔ بچاؤ

اچھی طرح تحقیق یا تفتیش کر لیجئے میں نے ساری زندگی کبھی کسی سے قرض نہیں لیا لیکن کل یعنی 15 نومبر 2012ء کو مجھے معلوم ہوا کہ میں 242683 روپے کا مقروض ہوں یعنی میری بیوی ۔ بیٹی اور مجھ پر فی کس 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے ۔ کیا یہ ظُلم نہیں ؟

آپ کیوں بغلیں بجا رہے ہیں ؟ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پر بھی 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے اور آپ کے گھر کے ہر فرد پر بھی اتنا ہی اور ہاں اتنا ہی ہر بچے پر بھی خواہ وہ ایک دن کا ہو

پاکستان کی اگست 1947ء میں آزادی سے لے کر جون 2008ء تک یعنی پیپلز پارٹی کی رواں حکومت بننے سے پہلے 60 برس میں مجموعی قرضے اور واجبات 6691 ارب روپے تھے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ 4 سالہ دور میں بڑھ کر 14561 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔ مطلب حکمران پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 7870 ارب روپے کا اضافہ ہوا

ان اعداد و شمارکی روشنی میں پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی جس میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کا ہر فرد 80894 روپے کا مقروض ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37172 روپے فی کس تھا

ایک ایسا ملک جہاں خود حکومت کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح آبادی کا 58 فیصد ہو گئی ہے اور اسے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ یہ مزید بوجھ ملک کی آئیندہ نسلوں کیلئے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیگا۔ حکومت جو روزانہ کی بنیاد پر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مجموعی قرضے اور واجبات 16000 ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے۔ گزشتہ مالی سال 12۔2011 کے دوران حکومت نے 2000 ارب روپے کے قرضے لئے جو یومیہ 5.5 ارب روپے بنتے ہیں

ان 14561 ارب روپوں میں سے حکومت کا مقامی روپوں میں قرضہ 7638 ارب روپے اور بیرونی یعنی زرِ مبادلہ کا قرضہ 4365ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ 694 ارب روپے ۔ بیرونی واجبات 227 ارب روپے ۔ نجی شعبے میں بیرونی واجبات 575 ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز بیرونی قرضہ 144ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز مقامی قرضہ 281ارب روپے اور کموڈٹی آپریشنز 438 ارب روپے ہیں

ماہرین کے خیال میں کرپشن ۔ خراب حکمرانی ۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور ناقص اقتصادی طرزِ عمل کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں قوم پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ پڑا

رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 926 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سود کی یہ رقم مالی سال کے اختتام تک بڑھ کر 1100 ارب روپے تک پہنچ جائے گی

ماخذ ۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا خلاصہ

اسلامی نظامِ حکومت قسط ۔ 1

”اسلامی نظامِ حکومت کیا ہے ؟“
یہ ہے وہ سوال جو وقفہ وقفہ سے مجھے کئی بار پوچھا جا چکا ہے اور میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ میں عالِمِ دین ہونا تو بڑی بات ہے ، عالِم بھی نہیں ہوں ۔ میں اپنے تئیں اس قابل نہ پاتے ہوئے کچھ لکھنے سے گُریز کرتا رہا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں پہلے اپنے ملک پاکستان کے بارے میں وضاحت کر لوں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی جو مجھ پر ہمیشہ مہربان رہا ہے کی مزید مہربانی سے میں اس قابل ہوا اور یہ مضامین قارئین کی نظر سے گذرے ہوں گے

تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟
قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟
کیا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اسلامی نہیں ؟

اسلامی نظامِ حکومت پر کئی علماء اور مفکرین نے کتابیں لکھی ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں ۔ لمبی تحاریر پڑھنے کیلئے عام طور پر وقت کی قلت ہوتی ہے ۔ اگر انسان صرف اپنا طور طریقہ درست کر لے اور انصاف پر کاربند ہو تو بھی اسلامی نظام قائم ہو جائے

طور طریقہ
سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں الفاظ میں سلام کرو ۔ بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 2 ۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔
اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

سورت ۔ 61 ۔ الصف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں

عدل و انصاف

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مُشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بُوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوت کے طور) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔آیت 58 ۔ اللہ تم کو حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ بےشک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسراء یا بنی اسرآئیل ۔ آیت 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو تو) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے

وما علينا الالبلاغ ۔ اللہ مجے اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائے اور بُرائی سے بچائے

کردار ؟؟؟

جس دن ہم میں ایسی جراءت پیدا ہو جائے گی میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارا ملک امریکا سے بہتر بن جائے گا

لمحہ فکریہ ہے ہر خاص و عام کیلئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ ہمارے کتنے سربراہان ہیں ملک یا بڑے اداروں کے جن میں یہ جراءت ہو کہ اپنی غلطی مانی ہو یا غلطی پر مستعفی ہوئے ہوں ؟

خبر
سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس مستعفی ہو گئے ہیں ۔ وجہ بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا ” استعفیٰ ذاتی وجوہات کی بنا پر دیاہے ۔ جنسی تعلقات رکھنے کافیصلہ انتہائی غلط تھا۔ایک شوہر اور ایک آرگنائزیشن کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ رویہ ناقابل قبول ہے ۔37 برس سے شادی شدہ ہوں ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا“۔

علامہ اقبال

علامہ اقبال کا یومِ پیدائش مناتے ہوئے آج پورے مُلک میں چھٹی کے مزے لئے گئے ۔ کوئی ہے جس نے سوچا ہو کہ جو مشعل علامہ اقبال دکھا گئے تھے اُس پر عمل کیا جائے ۔ ملاحظہ ہو چند ارشادات

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ ۔ ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بدن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ ۔۔۔۔۔ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو ۔۔۔۔۔ نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے ۔۔۔۔۔ تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس ۔۔۔۔۔ چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا ۔۔۔۔۔ صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا ۔۔۔۔۔ ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے ۔۔۔۔۔ پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو ۔۔۔۔۔ آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔۔ ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ معاملہ فہمی

ذہن میں آیا کہ تعمیرِ اخلاق کی خاطر اہم عوامل کو صرف چند الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ بہت کم فرصت پانے والے قارئین بھی مستفید ہو سکیں ۔ چنانچہ میں نے چار پانچ سال قبل” چھوٹی چھوٹی باتیں “ کے عنوان کے تحت لکھنا شروع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس سلسلہ میں کئی درجن دو چار سطری عبارات لکھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایسی تحاریر دیکھنے کیلئے داہنے حاشیئے میں سب سے اُوپر بنے گوگل کے خانے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھ کر Search پر کلِک کیجئے

آج کی بات

جب آپ ہوا کا رُخ تبدیل نہیں کر سکتے
تو
اپنے بادبان کو درست ترتیب دے لیجئے
جو کہ ممکن بھی ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

لہور لہور اے

لاہور میں پنجاب حکومت کے زیرِ انتظام جوانوں کا میلہ جاری ہے جن میں دنیا کے نئے ریکارڈ بن رہے ہیں ۔ 20 اور 22اکتوبر 2012ء کو لاہوریوں نے اتحاد اور نظم کا قابلِ قدر مظاہرہ کر کے پاکستان کا نام دنیا میں روشن کیا

20 اکتوبر کو لگ بھگ 70000 عورتوں مردوں لڑکیوں لڑکوں بچیوں اور بچوں نے وزیرِ اعلٰی پنجاب شہباز شریف ان کے ساتھ یک زبان مل کر قومی ترانہ گایا ۔ ایک سماں بندھ گیا اور ساتھ ہی قومی ترانہ یک زبان گانے کا دنیا کا ریکارڈ بن گیا
اس سے قبل 25 جنوری 2012ء کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں لوک مت میڈیا لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام 15243 افراد نے بھارت کا قومی ترانہ یک زبان گانے کا ریکارڈ بنایا تھا
منصوبے کے مطابق 24000 طلباء اور اتھلیٹ اور 60000 رضاکار اور ناظرین اس تقریب میں شامل ہونا تھے ۔ تقریب میں موجود گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے کے مطابق قومی ترانہ 42813 افراد نے یک زبان گایا

22 اکتوبر کو 24200نوجوانوں نے پاکستان کا انسانی جھنڈا بنا کر دنیا کا ایک اور ریکارڈ بنایا جس کا اعلان گنیس ورلڈ ریکارڈز کے نمائندے نے بڑے جوش و خروش سے کیا اور اس کی بنیاد اتحاد کو قرار دیا
اس سے قبل ہانگ کانگ میں 21726 افراد نے 2007ء میں انسانی جھنڈا بنایا تھا

”لہور لہور اے (لاہور لاہور ہے)“ کہا جایا کرتا تھا یعنی لاہور اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو کسی حد تک یہ استدلال درست محسوس ہوتا ہے ۔ میں دنوں یا ہفتوں کیلئے لاہور جاتا رہتا ہوں کیونکہ وہاں کچھ عزیز و اقارب رہائش رکھتے ہیں البتہ زیادہ عرصہ کیلئے حصولِ تعلیم کیلئے 4 سال 1960ء تک اور پونے 2 سال فروری 2010ء تک لاہور میں رہائش رہی ۔ پہلی بار تک سوائے راولپنڈی کے کسی اور شہر میں زیادہ رہنے کا موقع نہ ملا تھا لیکن دوسری بار تک میں کئی شہروں میں قیام کر چکا تھا چنانچہ میں مختلف علاقوں میں بسنے والوں کے اطوار کا موازنہ کرنے کے قابل تھا

سلوک کی بات کریں تو لاہور میں اجنبی آدمی کو مدد گار مل جاتے ہیں اور اجنبی کا احترام بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن شرط ہے کہ برابری کی سطح پر بات کی جائے ۔ لاہور میں پونے 2 سال میں محلہ داروں نے جتنا ہمارا خیال رکھا ۔ اتنا کسی اور شہر میں نہیں دیکھا

لاہور کی ایک خاص بات وہاں دکانداروں کا گاہک کے ساتھ مکالمہ اور سلوک ہے ۔ کسی دکان کے سامنے سے گذرتے ہوئے کسی وجہ سے رکیں جہاں دکاندار فارغ ہو تو بڑی میٹھی آواز میں بولے گا ” آؤ بھائیجان یا آؤ باجی یا آؤ خالہ جی یا آؤ حاجی صاحب“۔ آپ کہیں ”بھئی ۔ میں نے کچھ نہیں لینا“۔ بولے گا ”جناب میں نے کب کہا لیں ۔ دیکھ تو لیں ۔ دیکھنے میں کیا ہرج ہے”۔

کھانا لذیذ اور سستا کھانا ہو تو لاہور سے بہتر شہر اور کوئی نہیں ۔ کسی زمانہ میں پشاور میں کھانا سستا اور لذیز ہوتا تھا لیکن اب وہ بات نہیں

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جو تحریک لاہور سے اُٹھے یا لاہور میں زور پکڑ جائے وہ کامیاب ہو کے رہتی ہے ۔ لاہوریوں کے سیاسی وصف کی کچھ مثالیں میرے علم میں ہیں

ہندوستان پر قابض برطانوی حکومت نے ہندوستان کے باسیوں کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج یا جلسہ جلوس کو روکنے کیلئے 10 مارچ 1919ء کو رولاٹ کا قانون (Rowlatt Act) منظور کیا جس کے نتیجہ میں پہلی جنگِ عظیم میں لگائی گئی ایمرجنسی کی توسیع کر دی گئی جس سے حکومت کو حق مل گیا کہ کسی بھی شخص کو دہشتگرد قرار دے کر 2 سال تک بغیر کسی مقدمہ کی کاروائی کے قید رکھ سکے ۔ اس کالے قانون کے خلاف لاہور میں بہت بڑا اجتماعی احتجاج شروع ہوا جس کو دبانے کیلئے پنجاب کے لیفٹننٹ گورنر بریگیڑیئر مائیکل اوڈوائر (Michael O’Dwyer) نے لاہور میں اتوار بتاریخ 13 اپریل 1919ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا ۔ ساتھ ہی فوج اس حُکم کے ساتھ تعینات کر دی کہ جہاں کوئی احتجاجی نظر آئے اُس پر گولی چلا دی جائے ۔ مارشل لاء کے خلاف لاہور اور امرتسر میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سڑکیں اور گلیاں ھندوستان کے باسیوں کے خون سے لال ہونے لگیں ۔ بڑا واقع جلیاں والا باغ امرتسر میں ہوا جہاں مسلمانوں کے ایک پُر امن احتجاجی جلسہ پر فوج نے گولی چلا دی جس سے کم از کم 380 بے قصور لوگ شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے

مرزائیوں کی سرکاری سطح پر پذیرائی کے خلاف فروری 1953ء میں پورے مُلک میں احتجاج شروع ہوا مگر پُر زور ۔ ہمہ گیر مگر منظّم احتجاج لاہور میں ہوا اور دن بدن بڑھتا گیا ۔ مُلک کا گورنر جنرل غلام محمد تھا جو کہ مرزائی تھا ۔ لیفٹننٹ جنرل اعظم خان نے 6 مارچ کو لاہور میں مارشل لاء لگا دیا جو 70 دن تک قائم رہا ۔ اس دوران احتجاج نہ رُکا ۔ جلسے جلوسوں پر گولیاں چلائی گئیں اور سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے ۔ ابوالاعلٰی مودودی اور عبدالستار خان نیازی صاحبان کو گرفتار کر کے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں عمر قید اور پھر رہائی میں بدل گئی ۔ اسی مارشل لاء کے دوران گورنر جنرل نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلٰی میاں ممتاز دولتانہ کو چلتا کیا اور پھر 17 اپریل 1953ء کو وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت مع کابینہ ختم کر دی ۔ یہ سب کچھ کروانے والا غلام محمد فالج سے اپاہج ہوا اور کافی مدت بے بس بستر پر پڑا رہنے کے بعد مرا

1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی بے انتہاء دھاندلی کے خلاف ملک میں احتجاج شروع ہوا ۔ لاہور میں احتجاج زور پکڑ گیا ۔ پُر امن جلوسوں پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا ۔ اشک آور گیس پھینکی اور گولیاں بھی چلائی گئیں جس سے متعدد لوگ ہلاک اور زخمی ہوئے ۔ احتجاج مزید شدید ہو گیا ۔ تو فوج کو لاہور بھیج دیا گیا ۔ انارکلی بازار میں فوج نے سڑک پر لکیر لگا کر جلوس کو متنبہ کیا کہ جو اس لکیر کو پار کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ کچھ دیر کیلئے جلوس رُک گیا ۔ پھر ایک جوان آنکھیں بند کر کے کلمہ شہادت پڑھتا ہوا لکیر پار کر گیا ۔ بندوق چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ اس کے بعد ایک اور جوان نے لکیر پار کی اور ہلاک کر دیا گیا پھر تیسرا جوان آگے بڑھا اور اُسے بھی گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد پورا جلوس نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھا اور فوجی جوان راستہ سے ہٹ گئے ۔ میرے خیال میں یہی وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو کا فیصلہ زمین پر نہیں کہیں اور ہو گیا تھا باقی تو زمینی کاروائی بعد میں ہوتی رہی اور اسے پیپپلز پارٹی کے جیالے احمد رضا قصوری کے باپ نواب محمد خان قصوری کو قتل کرانے پر پھانسی ہوئی

14 فروری 2006ء کو لاہور پھر سراپا احتجاج تھا کیونکہ ڈنمارک کے اخبار نے خاکے شائع کر کے رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی شان میں گستاخی کی گئی تھی

میرے لاہور میں قیام کے دوران امریکی خُفیہ ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس لاہور شہر کی سڑک پر گولی چلا کر 2 پاکستانی جوانوں کو ہلاک کیا اور اپنی گاڑی بھگا لے جانے کی کوشش کی ۔ اگلے چوراہے پر پہنچنے سے قبل لاہور کے شہریوں کی گاڑیوں نے ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا اور سبز بتی جل جانے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کی گاڑی کے آگے اور دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی رہیں حتٰی کہ کچھ شہری پولیس کو لے آئے اور ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کروا دیا اور تھانے ساتھ جا کر ایف آئی آر بھی کٹوا دی ۔ گو بعد میں وفاقی حکومت نے گول مول طریقے سے اسے رہا کروا کر امریکی حکام کے حوالے کر دیا لیکن لاہوریئے اپنا کام دکھا چکے تھے

ایک اور اچھوتا واقعہ جو کسی اخبار میں نہیں چھپا یا چھپنے نہیں دیا گیا ۔ 2011ء کے وسط میں اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی لاہور گئے ہوئے تھے اور انہوں نے گورنر ہاؤس جانا تھا جو کہ مال روڈ پر ہے ۔ اُن کی حفاظت کی خاطر مال روڈ اور ملحقہ سڑکوں کو ٹریفک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ ایک گھنٹے میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں ۔ گاڑیوں میں بیٹھے لوگ گرمی کی وجہ سے بِلبلا اُٹھے ۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ معاملہ کیا ہے ۔ اگلی چند گاڑیوں میں سے لوگ نکلے اور ٹریفک روکنے والے سپاہیوں سے ٹریفک کھولنے کا کہا ۔ وہ نہ مانے تو تکرار ہوئی اور پھر کھینچا تانی ۔ پولیس والوں کی مدد کیلئے دور کھڑے دس بارہ رینجر آ گئے ۔ یہ دیکھ کر درجنوں گاڑیوں سے لوگ نکل آئے سب کو قابو کر کے ٹریفک کھول دیا ۔ اتنے میں وزیر اعظم کی سواری ایک سڑک پر نمودار ہوئی ۔ کچھ لوگوں نے اُس سڑک کی طرف گاڑیاں موڑ دیں اور وزیر اعظم صاحب کا قافلہ بھی ٹریفک میں پھنسنے کا مزا لینے لگا ۔ لوگ کہتے پائے گئے ”ذرا اسے بھی تو معلوم ہو کہ اس کی وجہ سے ہمارے ساتھ کیا ہوتا رہتا ہے“۔

جمہوریت کی بھیانک خصوصیت

میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ اللہ مجھ پر اس سے زیادہ مہربان ہے جتنے کا میں مُستحق ہوں ۔ شاید اللہ ہی میرے ذہن میں وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ جس میں مجھے جلد ہی سُرخرُو کرنا ہوتا ہے ۔ اللہ کی اللہ ہی جانے ۔ آتے ہیں موضوع کی طرف

میں نے صرف 15 دن قبل ” کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے“ کے عنوان کے تحت لکھا تھا

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے

جمہوریت کی جو بھیانک خصوصیات میرے استدلال کی بنیاد تھیں ان میں سے ایک کا ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مہیاء کر دیا ہے ۔ پیر مورخہ 8 اکتوبر کو حکومت نے ”قومی احتساب کمیشن کے قیام کے قانون“ کا مسؤدہ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جو لُٹیروں کے احتساب سے زیادہ اُن کے تحفط پر دلالت کرتا ہے ۔ متذکرہ مسودے کے اقتباسات میں دیکھیئے کہ کس طرح حکمران سادہ اکثریت کے بل بولتے مجرموں اور اپنے جرائم کے تحفظ کیلئے قانون بنانے کی کوشش میں ہیں ۔ اے این پی جو کی حکومت کا حصہ ہے نے اس قانون کی مخالفت کر دی ہے لیکن پی پی پی اپنے دوسرے حواریوں ایم کیو ایم ۔ ق لیگ ۔ فاٹا وغیرہ کے تعاون سے یہ قانون بنانے میں کامیاب ہو سکتی ہے

کمیشن کے سربراہ کو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے صدر نامزد کرے گا
اگر اتفاق رائے نہ ہو تو وزیر اعظم 2 نام قانون و انصاف کی کمیٹی کو بھیجے گا جو ایک نام تجویز کرے گی
اگر یہ کمیٹی بھی فیصلہ نہیں کر پاتی تو وزیر اعظم 2 میں سے جو نام سرِ فہرست ہو گا اسے منظوری کیلئے صدر کو بھیج دے گا

احتساب عدالتوں کے ججوں کا تقرر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے مشورے سے صدر کرے گا

اگر صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی نیک نیّتی سے جُرم کرے تو اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

اگر کرپشن کا ارتکاب کئے 10 سال ہو چکے ہوں تو متعلقہ شخص کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی

ثبوت ہونے کے باوجود کرپشن میں ملوث فرد اگر انکوائری کیلئے تیار ہو تو اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا ۔ عدالت میں جُرم ثابت ہونے کے باوجود مُجرم لُوٹی ہوئی دولت واپس نہ کرے تو 7 سال کی قید کی سزا ہو گی ۔ اگر وہ سیاستدان ہے تو 5 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا ۔ اگر سرکاری ملازم ہے تو نوکری سے نکال دیا جائے گا

عدالت میں جُرم ثابت ہونے پر اگر مُجرم لوٹی ہوئی دولت سودے بازی () کے مطابق واپس کر دے تو 3 سال قید ہو گی ۔ اگر وہ صدر ۔ وزیر اعظم ۔ گورنر ۔ وزیر اعلٰی ۔ وفاقی یا صوبائی وزیر ۔ سنیٹر یا رکن قومی یا صوبائی اسمبلی ہو تو اس کی سزا صرف یہ ہو گی کہ وہ 2 سال تک انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے گا

Under international cooperation and requests for mutual legal assistance, the federal government or the commission can only do the following as per new law;

a) have evidence taken, documents, articles, assets or proceeds produced and

b) Transferred to Pakistan any such evidence, documents, articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

Whereas, according to the existing clause for international cooperation and requests for mutual legal assistance, much more can be done. The Section 21 of the NAB Ordinance reads as 21.

The NAB chairman or any officer authorised by the federal government may request a foreign state to do [any or all of] the following acts in accordance with the law of such state:—

(a) have evidence taken, or documents or other articles produced;

(b) obtain and execute search warrants or other lawful instruments authorising search for things relevant to investigation or proceedings in Pakistan believed to be located in that state, and if found, seize them;

(c) Freeze of assets by whatever processes are lawfully available in that state, to the extent to which the assets are believed on reasonable grounds to be situated in that state;

(d) Confiscate articles and forfeit assets to the extent to which the articles or assets, as the case may be, are believed to be located in that state;

(e) Transfer to Pakistan any such evidence, documents, things articles, assets or proceeds realised from the disposal of such articles or assets.

(f) Transfer in custody to Pakistan a person detained in that state who consents to assist Pakistan in the relevant investigation or proceedings.

(g) Notwithstanding anything contained in the Qanun-e-Shahadat Order 1984 (PO 10 of 1984) or any other law for the time being in force all evidence, documents or any other material transferred to Pakistan by a foreign government shall be receivable as evidence in legal proceedings under this Ordinance 2[and] 3

(h) notwithstanding anything to the contrary contained hereinabove, the NAB chairman may, on such terms and conditions as he deems fit, employ any person or organisation, whether in Pakistan or abroad, for detecting, tracing or identifying assets acquired by an accused in connection with an offence under this ordinance, and secreted or hoarded abroad, or for repatriation to Pakistan of such assets.