موبائل فون کی تين بيمارياں ہيں
1 ۔ مختصر پيغامات ۔ ايک ۔ کمپنی کے اشتہارات ۔ دوسرے ۔ جو فارغ لوگ بھيجتے ہيں
2 ۔ دھوکہ والی کالز
3 ۔ مِسڈ کالز
ميں اُلٹی ترتيب سے چلتا ہوں ۔ ہم رات کو نو دس بجے تک سونے کے عادی ہيں ۔ دو تين رات گيارہ بارہ بجے کے درميان مِسڈ کالز آئيں تو ميں نے صبح کے وقت اُس نمبر پر ٹيليفون کيا ۔ خاتون نے ہيلو کہا ميں نے وجہ بتائی تو کھِلکھلا کر ہنس پريں اور کہنے لگيں “يہاں سے تو کسی نے نہيں کيا ۔ ميں نے کہا “اگر اب اس نمبر سے کال آئی تو اس کی سزا کا بندوبست کرنا پڑے گا”۔ اگلی رات ايک اور دو بجے کے قريب اُسي نمبر سے مسڈ کال آئی ۔ اگلے دن صبح ميں نے پی ٹی اے کے چيئرمين کو ای ميل بھيجی اور اس کا نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ اس طرح ميں پچھلے چار سال ميں چار نمبر بلاک کروا چکا ہوں جن ميں سے تين خواتين کے تھے اور ايک لڑکے کا
ايک سال قبل ايک کال آئی “ميں فلاں کمپنی سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کے نمبر پر انعام نکلا ہے ۔ آپ فلاں نمبر پر کال کيجئے تاکہ انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے اُس کی بجائے جس موبائل کمپنی کا نمبر تھا اُن کو شکائت بھيجی اور نمبر بلاک کر ديا گيا ۔ 22 مارچ 2010ء کو ايک کال آئی “ميں وارد کے ہيڈ آفس سے بول رہا ہوں ۔ سيل پروموشن کے سلسلہ ميں آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکلا ہے ۔ آپ اسی نمبر پر کال کيجئے تاکہ آپ کا انعام کنفرم کيا جائے”۔ ميں نے وارد کے منيجر ريگوليشنز کو ای ميل بھيجی اور دوسرے دن اُس کا جواب آ گيا کہ نمبر بلاک کر ديا گيا ہے
موبائل فون کمپنی کے اپنے اشتہارات کا تو ميں کچھ کر نہيں سکتا ۔ البتہ فارغ لوگوں کو ميں کم ہی جراءت کرنے ديتا ہوں ۔ ايک ميرا ہم زُلف ہے ۔ اُسے اسی ماہ يو فون والوں نے 3000 مختصر پيغامات بھيجنا مُفت کر ديا ۔ اُس نے پچھلے چار دن سے پريشان کيا ہوا ہے ليکن چند پيغامات اس قابل ہيں کہ يہاں لکھے جائيں
سب سے اچھا ہے
ہم تو مِٹ جائيں گے اے ارضِ وطن ليکن تم کو
زندہ رہنا ہے قيامت کی سحر ہونے تک
ايک آدمی نے دريا سے مچھلی پکڑی اور خوش خوش گھر آيا ۔ ديکھا تو بجلی بند ۔ گيس کم ۔ اور تيل بھی ختم ۔ واپس گيا اور مچھلی کو دريا ميں پھينک ديا ۔ مچھلی اُچھل کر پانی سے باہر آئی اور نعرہ لگايا “جيو زرداری”
کون کہتا ہے کہ پاکستان ميں غم ہيں خوشياں نہيں ۔ بجلی آنے کی خوشی ۔ بازار سے ہو کر زندہ واپس گھر آنے کی خوشی ۔ مسجد ميں نماز کے بعد خودکُش حملے سے بچ جانے کی خوشی ۔ بس سے اُترنے کے بعد اپنے موبائل کو اپنی جيب ميں پانے کی خوشی ۔ اتنی خوشياں ہونے کے باوجود پاکستانی عوام خوش نہيں
نيند اور سُستی ہماری بہت بڑی دُشمن ہيں ۔ علامہ اقبال
ہميں اپنے دُشمن سے بھی پيار کرنا چاہيئے ۔ قائد اعظم
دسو ہَن بندہ کِدی منّے
A mistake which makes you sober is much better than an achievement which makes you proud
الطاف بھائی حج کرنے گئے ۔ جب وہ شيطان کو پتھر مارنے لگے تو آواز آئی “بھائی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ۔ آپ نے يہاں آنے کی زحمت کيوں کی ۔ مجھے لندن بُلوا ليا ہوتا”
فقير “بھوکا ہوں ۔ اللہ کے نام پر تھوڑا سا کھانا دے ديں”
باجی “کھانا ابھی نہيں پکا”
فقير “باجی ۔ نمبر لکھ ليں جب پک جائے تو مِسڈ کال دے دينا”
سال 1990ء
“يار ۔ آج بجلی کيوں بند ہوئی ہے ؟”
“ٹرانسفارمر بدل رہے ہوں گے”
سال 2010ء
“يار ۔ يہ بجلی کب آئے گی ؟”
“جب ہمارے محلے کی بند ہو گی تو تمہارے محلے کی آئے گی”
سال 2020ء
” يار ۔ صبح سے بجلی بند ہے ۔ کب آئے گی”
“آج ملتان کی باری ہے اور کل لاہور کی ۔ سو کل تمہاری بجلی آئے گی اور ملتان کی بند ہو گی”
سال 2030ء
“يار سُنا ہے کہ بجلی نام کی کوئی چيز ہوا کرتی تھی ۔ جس سے گھر جگ مگ کرتے تھے”
“چُپ کر کے سو جا ۔ تمہيں ايسے ہی کسی نے بہکا ديا ہے”