طارق کمال صاحب کی لکھی نظم پڑھتے پڑھتے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے میرا دماغ ایسا کر دیا کہ اُس کا جواب میرے ذہن میں بنتا گیا جو میں نے تحریر کر دیا ہے ۔ ردیف کافیہ ناپنا شروع نہ کیجئے گا ۔ میں شاعر نہیں ہوں
نہ بھُلا سکوں گی تُجھ کو ۔ نہ کہو کہ بھُول جاؤں
تُم ہو قابل یا نہیں ہو ۔ فیصلہ تُم نے کرنا نہیں
ناراضگی ہے میری اُس اُنس کی بناء پر
جو تُم نے مجھ کو بخشا اُلفتوں کی راہ پر
شگوفے کھِلائے ہوں جس نے دل میں میرے
وہ باغیچہءِ تازہ ۔ کیوں کر ہو سکتا ہے بنجر
میں تمہاری کاشی ۔ تمہارے باغ کی کلی ہوں
کسی اور کے صحن میں ۔ اُگاؤ نہ مجھے تم یوں
تم کبھی اگر بکھرے سنبھالوں گی میں تم کو
آزمانی پڑی جو قسمت ۔ اسے آزماؤں گی تم پر
تمہیں ویران چھوڑ کر کیا میں آباد رہ سکوں گی
کسی اور کی بجائے تیرا آشیانہ کیوں نہ سجاؤں
اگر میں نے دی ہے نفرت تیرے دل کو تو بتا دو
نہا کر میں اپنے خُون میں محبت کا سیلاب لاؤں
تیرے چراغ کی تپش نے مجھے زندگی عطا کی
اس میں جل جو جاؤں مجھے فکر نہیں اس کی
موت ہر ایک کو ہے آنا ۔ اس سے کیوں گھبرانا
تیرے ساتھ مر جو جاؤں میں امر ہی ہو جاؤں