Category Archives: سیاست

خُفیہ کتاب کا ایک ورق

امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“ (The American Roll in Pakistan) کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ’’ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے‘‘۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا۔ 1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے’’پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے، وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں‘‘۔ یہ یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری مَیگھی (Meghee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ’’ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ ان (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو‘‘ (صفحہ 106)۔

دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے پوری کر دی۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (General Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے

زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم، ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل، اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم پورا ہوگیا۔

دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی، یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو روم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی، ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا، جسے بغداد پیکٹ کہا گیا۔ ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا وہ صاف کہتا ہے ’’امریکہ کو چاہئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے‘‘۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ، بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)

تیرا احسان ہے

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی ۔ ۔ ۔ ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اُٹھا دین محمد کا سپاہی ۔ ۔ ۔ اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئے آیا سر میدان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا ۔ ۔ ۔ اس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ ۔ ۔ ۔ ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا ۔ ۔ ۔ نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا
سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا ۔ ۔ ۔ پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے ۔ ۔ ۔ سندھی بلوچی سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے ۔ ۔ ۔ ساتھ اپنے مہاجر لئے قرآن چل پڑے
اور قائد مِلت بھی چلے ہونے کو قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

نقشہ بدل کے رکھ دیا اس مُلک کا تو نے ۔ ۔ ۔ سایہ تھا محمد کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ اُلجھے ۔ ۔ ۔ لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد ۔ ۔ ۔ میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد ۔ ۔ ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان

تبدیلی کی 60 سالہ تاریخ

آہستہ چلو ۔ کہ روانی آئے ۔ ۔ ۔ جو بات بگڑتی ہو ۔ وہ بنانی آئے
انجام جس کا نہ معلوم ہو شاداب ۔ ۔ ۔ کیا خاک تمہیں وہ کہانی آئے

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ماضی میں 2 اہم تبدیلیاں ملتی ہیں
1 ۔ اسلام کا پھیلنا
2 ۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا

مندرجہ بالا دونوں تبدیلیوں کے محرک اعلٰی فکر و عمل کے مالک اسلاف تھے ۔ یہ تبدیلیاں کئی دہائیوں کی لگاتار پُرخلوص محنت کا نتیجہ تھیں اور بتدریج وقوع پذیر ہوئیں ۔ اِن کے بر عکس پچھلی 6 دہائیوں سے جو لوگ تبدیلی کا غوغا کرتے آ رہے ہیں اِن میں اُن جیسی ایک بھی خوبی نہیں پائی گئی ۔ چنانچہ اِنہوں نے صرف انتشار ہی پھیلایا ہے

پاکستان میں تبدیلی کی پہلی یلغار
1954ء میں میری ملاقات بچپن کے دوست سے 7 سال بعد ہوئی ۔ جب میں گارڈن کالج میں فرسٹ ایئرمیں داخل ہوا وہ سیکنڈ ایئر میں تھا ۔ ایک دن میرے پاس آیا 50 کے لگ بھگ اشتہار مجھے تھماتے ہوئے بولا ”جب چھُٹی ہو تو لڑکوں میں بانٹ دینا“۔
میں نے پوچھا ”یہ ایپسو (آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور یہ اجتماع کیا ہے ؟“
بولا ”یہ سارے پاکستان کے طلباء کی نمائندہ ہے اور کوئٹہ میں اجتماع ہو گا جہاں پورے پاکستان کے کالجوں کے طلباء آئیں گے اور علمی گفتگو ہو گی ۔ ہم نوجوانوں میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں جس سے مُلک میں تبدیلی لائیں گے ۔ گھِسے پِٹے دماغوں کی جگہ جدید علوم سے واقف تازہ دماغ کام کریں گے ۔ مُلک ترقی کرے گا“۔

میں روزانہ عصر کے بعد باسکٹ بال کھیلنے کیلئے کالج جایا کرتا تھا ۔ اجتماع ہو جانے کے بعد ایک دن میں گیا تو کوئی لڑکا باسکٹ بال کھیلنے نہیں پہنچا تھا ۔ میں کالج کے برآمدوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک بند کمرے سے مدھم آوازیں آئیں ۔ کھڑی اور دونو دروازے اندر سے بند تھے ۔ ایک دروازے میں چابی کا سوراخ تھا ۔ اُس میں دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کا چہرہ نظر نہ آیا ۔ کان لگا کر سُنا تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ کہا جا رہا تھا ”حسبِ معمول اجتماع پر جماتیئے (اسلامی جمیعتِ طلباء) چھائے ہوئے تھے ۔ ہم نے کرائے کے داڑھی والے لئے جنہوں نے اجتماع میں شور و غُل اور مار دھاڑ کی ۔ پولیس نے اُنہیں پکڑا تو اُنہوں نے اسلامی جمیعتِ طلباء کا نام لیا جس پر جمیعت کے سارے کرتا دھرتا دھر لئے گئے“۔ اس کے بعد ایک دبا دبا قہقہ لگا ۔ یہ کوئٹہ کے اجتماع میں اپنی کارستانیوں کی داستان سُنائی جا رہی تھی ۔ ایک آواز میں نے پہچان لی ۔ وہ میرے دوست کی تھی جس نے مجھے اشتہار بانٹنے کو دیئے تھے

اگلے روز انجان بن کر اُس سے اجتماع کی کاروائی کا پوچھا تو بولا ”کیا بتاؤں بہت اچھا اجتماع ہو رہا تھا کہ جماتیوں نے حملہ کر دیا اور مار دھاڑ شروع کر دی ۔ سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا“۔
چند دن بعد مجھے بہاولپور سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے چوتھے سال کے طالب علم کا خط ملا ۔ یہ صاحب میرے ایک عزیز کے ہم جماعت ہونے کی وجہ سے میرے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے ۔ ان کی آزاد خیالی مشہور تھی لیکن اُنہوں نے لکھا تھا ”اگر آپ ایپسو کے رُکن ہیں تو فوری طور پر لکھ کر اس سے مستعفی ہو جائیں اور ان سے دُور رہیں ۔ یہ لوگ ہمدرد کے بھیس میں ہمارے دشمن ہیں ۔ تفصیل جلد لکھوں گا“۔ اس تفصیل اور بعد کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو کہیں سے پیسہ مل رہا تھا جس میں سے انتشار پھیلانے اور جوان نسل کو غلط راہ پر چلانے کیلئے خوب خرچ کر رہے تھے

پاکستان میں تبدیلی کی دوسری یلغار
مسلمان طلباء و طالبات نے 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے الگ ہو کر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ذیلی جماعت تھی ۔ اس کے اراکین نے تحریکِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد یہ فیڈریشن مسلم نیشنل گارڈ میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1956ء میں ایک مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا نام سامنے آیا لیکن جلد ہی تبدیل ہو کر مسلم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن ہو گیا ۔ ان کا بھی بیان کردہ ایجنڈا وہی تھا جو ایپسو کا تھا ۔ ایک سال کے اندر ہی واضح ہو گیا کہ ان کے کرتا دھرتا وہی تھے جو ایپسو کے تھے ۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ جانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ طلباء کی سب تنظیمیں بھی ختم ہو گئیں

پاکستان میں تبدیلی کی تیسری یلغار
1972ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے پی پی پی کی ذیلی جماعت پاکستان کی قسمت بدلنے والی تبدیلی کے نعرے سے اُٹھی ۔ تبدیلی یہ آئی کہ سکولوں اور کالجوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ رہی ۔ اساتذہ کی عزت پاؤں میں روندنا معمول بن گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ زور دار لڑکے امتحان کے کمرے میں پستول ساتھ رکھ کر کھُلے عام نقل کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محبِ وطن محنتی اساتذہ تدریس کے پیشے سے کنارہ کشی کرنے لگے اور ٹیوشن سینٹر اور بِیکن ہاؤس قسم کے سکول کھُلنے لگے

اب عمران خان صاحب چوتھی یلغار کے ساتھ دھاڑ رہے ہیں
اللہ خیر کرے

میں نے ایوب خان ۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ جمہوری حکومتیں نہیں تھیں ۔ ویسے تبدیلی کا دعویٰ پرویز مشرف نے بھی بہت زوردار کیا تھا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھُگت رہے ہیں

نہ مانیئے لیکن غور ضرور کیجئے

٭ عراق پر قبضے کے بعد 2003 میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ دینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور 2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے

٭ برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

٭ کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے (جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا) سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے

٭ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا ۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں

٭ امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا ۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں ۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگا دئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میّسر رہتا ہے

٭ اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ۔ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے

٭ وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اس وقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی ۔ جے یو آئی ۔ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کے تو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

٭ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبر ون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف قادری صاحب کے دشمن نمبر ون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتر رہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سرور اسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں

ماخذ ۔ جرگہ

ہاتھی کے دانت ۔ کھانے کے ۔ دکھانے کے اور

امریکی نیوز سائٹ اینٹی وار نے 27 جولائی 2014 کو لکھا کہ

رواں برس امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے 8 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی
اسرائیل کی طرف سے جن 4 مسلمان ممالک پر بمبار ی کی گئی یہ سوڈان ، فلسطین ، شام اور لبنان ہیں
جبکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان ، یمن ، افغانستان اور صومالیہ پر بم برسائے گئے

سال 2014ء سے قبل امریکہ نے عراق اور لیبیا پر بھی بمباری کی ۔ اس طرح حالیہ برسوں میں امریکا اور اسرائیل کی طرف سے 10 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی

رپورٹ کے مطابق آج دنیا بھر میں ایک ارب 60 کروڑ مسلمان ہیں ۔ 49 ممالک زیادہ تر مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں ۔ صرف اس سال ان ممالک میں سے 4 پر اسرائیل کی طرف سے اور 4 پر امریکہ کی طرف سے بمباری کی گئی

سال 2014ء میں امریکہ کی طرف سے جن 4 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی ان میں پاکستان 19 کروڑ 61 لاکھ آبادی کا ملک جہاں 96 فی صد مسلمان ہیں ۔ امریکا کی طرف سے حالیہ ڈرون حملہ 19 جولائی کو کیا گیا جس میں 11 افراد جاں بحق ہوئے ۔ امریکہ نے پاکستان پر 300 سے زائد حملے کئے جن میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے ۔ ان میں 168 بچے بھی شامل ہیں

یمن جس کی آبادی 2 کروڑ 60 لاکھ ہے جن میں 99 فی صد مسلمان ہیں ۔ 19 اپریل کو امریکہ نے یمن پر فضائی حملہ کیاجس میں 21 افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس ملک پر 2009ء سے امریکہ نے ڈرون حملے شروع کر رکھے ہیں

افغانستان 3 کروڑ 18 لاکھ آبادی کا ملک جہاں 80 فی صد مسلمان ہیں ۔ امریکہ نے حالیہ بمباری 19جولائی کو کی جس میں 4 افرا جاں بحق ہوئے ۔ افغانستان پر 2001ء سے امریکہ نے 38100 فضائی حملے کئے اور 17500 بم گرائے

صومالیہ ایک کروڑ چار لاکھ آبادی کا ملک جہاں 99 فی صد مسلمان بستے ہیں ۔ امریکہ نے رواں برس جنوری میں اس پر حملہ کیا ۔

اسرائیل کی طرف سے جن 4 ممالک پر بم برسائے گئے ۔ ان میں سوڈان جو 3 کروڑ 54 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں مسلمان آبادی کا تناسب96.7 فی صد ہے

21 جولائی کو اسرائیل نے سوڈان میں ایک مشتبہ ہتھیاروں کے گودام پر بم گرا دیا ۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ یہ حماس کے لئے ہتھیار ذخیرہ کئے گئے تھے ۔ 2009ء اور 2012ء میں بھی اسرائیل نے سوڈان پر حملے کئے

فلسطین کی آبادی 18لاکھ ہے جن میں 98 فیصد مسلمان ہیں ۔ وہاں اسرائیل نے آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام سے بمباری کررکھی ہے اور شہید فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ 2012 میں بھی اسرائیل نے غزہ پر بمبار ی کی، اور 2008ء ۔ 2009ء میں بھی حملہ کیا جس میں 300 بچوں سمیت 1400 شہادتیں ہوئیں

شام ایک کروڑ 79لاکھ آبادی کا ملک جہاں87 فی صد مسلمان ہیں ۔ رواں برس 23 جنوری کو اسرائیلی حملوں میں 4 افراد کو شہید کیا گیا ۔

لبنان 59 لاکھ آبادی کے ملک میں 54 فی صد مسلمان ہیں ۔ 25 فروری کو اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک قافلے پر بمباری کی اور یہ الزام لگایا کہ وہ میزائل لے جا رہا تھا