Category Archives: سبق

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ اطاعت

عجب زمانہ ہے کہ انسان کسی انسان کی اطاعت ميں مُستعد ہے ۔ دفتر ميں صاحبِ دفتر کی اطاعت ۔ مال کی توقع جس سے ہو اُس کی اطاعت کيلئے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے ليکن اللہ کی اطاعت کے سلسلہ ميں وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے

وسوسے شيطان کا کمال ہے
مگر اللہ کے بندے شيطان کے قابو ميں نہيں آتے ۔ اسی سلسلہ ميں ايک کہانی

ايک سيدھا سادا سا شخص اپنے کمرے ميں سو رہا تھا کيا ديکھتا ہے کہ يکدم روشنی ہو گئی اور اس ميں سے ايک فرشتہ نمودار ہوا اور کہا “اللہ نے تمہارے لئے ايک کام مقرر کيا ہے” ۔ فرشتے نے اُسے ايک بڑی چٹان دکھائی اور کہا “اسے پوری قوت سے دھکا ديتے رہو”

اگلے دن اُس شخص نے ايسا ہی کيا ۔ بہت دير تک چٹان کو دھکا لگاتا رہا مگر چٹان بڑی تھی وہ اُسے سرکا نہ سکا اور تھک کر کمرے ميں چلا گيا ۔ وہ روزانہ پوری قوت سے چٹان کو دھکا لگاتا اور پھر تھک کر چلا جاتا ۔ اسی طرح کئی ماہ گذر گئے ۔ ايک دن اُسے محسوس ہوا کہ کوئی اُسے کہہ رہا ہے “کيوں اپنی طاقت اور وقت ضائع کر رہے ہو ۔ تم اس چٹان کو نہيں ہلا سکتے ۔ يہی وقت اور محنت کسی منافع بخش کام ميں لگاؤ”

وہ شخص سوچنے لگا کہ “بات تو ٹھيک ہے مجھے اتنا عرصہ اس چٹان کو دھکا دينے سے کيا فائدہ ہوا ۔ ليکن اُسے يقين تھا کہ جس نے اُسے چٹان کو دھکا لگانے کا کہا تھا وہ فرشتہ تھا تو اُس نے سوچا کيوں نہ وہ اللہ سے دعا کرے کہ اللہ اس کی رہنمائی کرے ۔ وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کی

“يا اللہ ۔ مجھے آپ کا حکم ملا کہ چٹان کو دھکا لگاؤ ۔ ميں روزانہ اپنی پوری قوت سے اسے دھکا لگاتا رہا کئی ماہ اسی طرح گذر گئے ہيں مگر ذرہ برابر بھی اسے سرکا نہ سکا تو اس کا کيا فائدہ؟ ميں کيوں ناکام ہوں؟”

آواز آئی ” اے ميرے بندے ۔ تو ناکام نہيں ہوا ۔ ميں نے چٹان کو سرکانے کا حکم نہيں ديا تھا صرف دھکا لگانے کا کہا تھا ۔ تيرے لئے ميرا حکم ماننا فرض تھا” ۔ آواز جاری رہی ” تُو نحیف اور کمزور تھا اور دل ميں مجھ سے التجاء کيا کرتا تھا کہ ميں تمہيں طاقتور بناؤں تاکہ تو اپنا حق لينے کيلئے کھڑا ہو سکے ۔ ميں نے تيری دعا قبول کی اور تمہيں جو حکم ديا تو نے اس پر پورے خلوص سے عمل کيا ۔ اب ديکھ تمہارے بازوؤں کے پٹھے کتنے موٹے اور مضبوط ہو گئے ہيں ۔ تمہارے ہاتھوں کے پٹھے بھی مضبوط ہو چکے ہيں ۔ تمہاری ٹانگيں اتنی موٹی اور فولادی بن چکی ہيں ۔ تمہاری سانس پہلے سے زيادہ بہتر اور حوصلہ پہاڑ کی طرح مضبوط ہو گيا ہے ۔ اب تو مضبوط سے مضبوط آدمی کا مقابلہ کر سکتا ہے”

سبق ۔ کئی باتيں ايسی ہوتی ہيں جو انسان کی سمجھ ميں نہيں آتيں ليکن اللہ نے اس ميں ہماری بہتری پنہاں رکھی ہوتی ہے ۔ يہ اللہ ميں ہمارا پُختہ يقين ہی ہے جو ہميں پريشانيوں سے بچاتا ہے اور ترقی کی طرف لے جاتا ہے ۔ اگر سامنے چٹان ہو تو بھی ہمت نہيں ہارنا چاہيئے اور اللہ پر بھروسہ کر کے محنت کرتے رہنا چاہيئے اور اللہ سے مدد کی دعا کرتے رہنا چاہيئے

اللہ ہميں اپنے بندوں والے کام کرنے کی توفيق عطا فرمائے

بہتوں کا بھلا ہو گا

ہمارا ملک اور ہماری قوم تاريخ کے بد ترين سيلاب سے دوچار ہيں جس نے پونے دو کروڑ ہموطنوں کو متاءثر کيا ہے اور ملک کے بہترين زرعی علاقہ کو تباہ کر ديا ہے ۔ کھڑی فصليں ۔ برداشت کے بعد ذخيرہ کی گئی لاکھوں ٹن اجناس اور ہزاروں مويشی بھی سيلاب کی نذر ہو گئے ہيں ۔ اللہ کی طرف سے ہماری اجتماعی غلطيوں پر سرزنش ايک طرف مگر ہميں يہ نہيں بھولنا چاہيئے کہ انسان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ہماری بے راہ روی تو سزا کی مستحق ہے ہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم صرف اپنے ماضی پر روتے اور گذر جانے والے اور موجود اپنے مفروضہ مخالفوں کو کوستے رہے مگر اپنے مستقبل کيلئے سوائے اپنی ذاتی جيبيں بھرنے کے کچھ نہ کيا

اب وقت ہے جاگنے کا اور دوسروں پر الزام دھرنے کی بجائے خود محنت کرنے کا ۔ يہ وقت بھی لد گيا تو پھر تباہی کے سوا کچھ نہيں

آج مجھے محمد سعد صاحب کی ايک چِٹھی ملی ۔ جو سوال انہوں نے پوچھا ہے وہ بہت سے ہموطنوں کے ذہنوں ميں کلبلا رہا ہو گا ۔ اس لئے ميں محمد سعد صاحب کی چِٹھی اور اس کا ميری طرف سے جواب نقل کر رہا ہوں

محمد سعد صاحب کی چِٹھی

السلام علیکم۔
کچھ دن پہلے آپ نے کسی کے بلاگ پر وزیرِ اعلیٰ صوبہ خيبر پختونخوا (یا شاید کسی اور عہدیدار) کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو فلاں فلاں علاقے ڈوب چکے ہوتے۔

اس وقت بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی اور اب تو کافی دن گزر جانے کے باعث مجھے کچھ بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ذرا آسان الفاظ میں سمجھا دیجیے گا۔ شکریہ۔
والسلام۔

ميرا جواب

السلام علیکم و رحمة اللہ

جو فقرہ آپ نے مجھ سے منسوب کيا ہے اور ميں نے اسے موٹا اور

سُرخ

کر ديا ہے ۔ ايسا ميں نے نہ کبھی لکھا ہے اور نہ کبھی کہا ہے ۔ وزير اعلٰی خيبر پختونخوا امير حيدر ہوتی صاحب نے کہا تھا کہ “اگر کالا باغ ڈيم بن جاتا تو اس سے بہت زيادہ نقصان ہوتا “۔ اس بيان کا جغرافيائی اور منطقی جواز موجود نہيں ہے

شايد آپ ہی نے کبھی کہا تھا کہ آپ کو اُردو کم کم آتی ہے ۔ سو اب ميں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو اُردو کی سمجھ کم ہے
اچھا اب ميں آسان طريقہ سے اپنے خيالات لکھتا ہوں

پہلے آپ مندرجہ ذيل ربط پر گوگل نقشہ کھولئے

http://www.nationsonline.org/oneworld/map/google_map_pakistan.htm

اس نقشہ ميں ميانوالی تلاش کيجئے جو ہائی وے اين 60 پر ہے
ميانوالی کے مغرب ميں لکی مروت ہے
لکی مروت کے جنوب ميں ذرا دور ڈيرہ اسمٰعيل خان ہے

اگر کالا باغ ڈيم بن گيا ہوتا تو

1 ۔ صوبہ خيبر پختون خوا ميں شامل ڈيرہ اسمٰعيل خان ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور اس کے شمال ميں لکی مروت تک کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

2 ۔ صوبہ پنجاب ميں ميانوالی ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور ڈيرہ غازی خان اور ملتان سميت ميانوالی کے جنوب کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

3 ۔ کالا باغ ڈيم بنانے کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان سيلاب سے محفوظ رہتے

اب آپ ميانوالی پر نظر رکھتے ہوئے شمال کی طرف جائيں يعنی نقشے کو نيچے کی طرف سرکاتے جائيں تو آپ کو ماڑی انڈس اور کالا باغ آمنے سامنے لکھا نظر آئے گا ۔ مزيد شمال کی طرف جائيں تو پہاڑ ہی پہاڑ ہيں آبادی نہيں ہے

نوشہرہ کالا باغ سے بہت دور ہے ۔ ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ نوشہرہ کی سطح کالا باغ ڈیم کی اُونچائی کی سطح سے بہر اُوپر ہے ۔ نوشہرا تک تو پانی جائے گا ہی نہیں ۔ فی زمانہ نوشہرہ میں سیلاب آتے ہیں کیا وہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے ہیں ؟

فی امان اللہ
الداعی الخير
افتخار اجمل بھوپال

زندگی کا مقصد

استدعا ۔ دو نظموں کی صورت ميں

اپنے لئے تو سب جيتے ہيں اس جہاں ميں ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
سب سے بڑی عبادت ۔ انساں سے پيار کرنا ۔ ۔ ۔ اپنا لہو بہا کر دوسروں کی مانگ بھرنا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے جو کوئی مُشکل ۔ ہمت سے کام لينا ۔ ۔ ۔ گِرنے لگے جو کوئی ۔ تم بڑھ کے تھام لينا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

کوشاں سبھی ہیں رات دن اک پل نہیں قرار ۔ ۔ ۔ ۔ پھرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں انسانیت سے پیار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے ۔ ۔ دل میں خلوص نہ ہو تو بندگی ریا ہے
جس سے مٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے ۔ ِضد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھڑ کی طرح جِئے تو جینا تيرا حرام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وعدہ ترا کسی سے ہر حال میں وفا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جان لے ہے بیشک گناہ “دل ستانا”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو زبردست ہے تو قہرِ خدا سے ڈرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اک دن گر جائے تو بھی ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھر تجھ کو روند ڈالے پائوں تلے زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضروبِ غم ہو کوئی مرہم اسے لگانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ہے جو غرور و تکبر نکال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اسلاف کی یہی روشِ اولیں رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ سے بھی ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نفرت رہے نہ باقی ۔ نہ ظلم و ستم کہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقدام ہر بشر کا اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو ۔ اقرار سب کریں کہ تہِ دل سے ہم نے مانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

شاعر ۔ دونوں کے نامعلوم
پہلی نظم آدھی صدی قبل ريڈيو پاکستان سے سُنی تھی ۔ يہ شايد فلمائی بھی گئی تھی اور شايد پوری ياد بھی نہيں
دوسری نظم کہيں پڑھی اور اپنے پاس لکھ لی تھی

قوتِ ارادی اور ماں کی دعا

سائنس نے بہت ترقی کی ۔ موت کی رفتار تو بڑھ گئی مگر زندگی بے آسرا ہی رہی
بنکر بسٹر بم [Bunker Buster Bomb] تو بہت بنا لئے گئے مگر ماں کی محبت کو پھيلانے والا آلہ کسی نے نہ بنايا
پستول ۔ بارود اور ہيروئين بھانپ لينے والے آلات تو بن گئے مگر ماں کے احساسات کو پڑھنے يا ناپنے والا کوئی آلہ ايجاد نہ ہوا
انسان نے بڑے پيمانے پر فنا اور کُشت و خون کے تيز رفتار طريقے تو ايجاد کر لئے مگر ماں کی قدر و منزلت اُجاگر کرنے کوئی آلہ نہ بن سکا

ميں اپنی ماں سے آج سے 30 سال قبل 29 جون 1980ء کو ہميشہ کيلئے جُدا ہو گيا تھا اور جيسے ساتھ ہی قبول ہونے والی پُرخلوص دعاؤں سے بھی محروم ہو گيا

اے جوانوں جن کی مائيں زندہ ہيں وقت کو ضائع مت کرو اور اپنی ماؤں کی اتنی خدمت کرو کہ ماں کے جسم کے ہر رونگٹے سے دعا نکلے
ماں کی دعا اللہ نہيں ٹھکراتا کيونکہ وہ ڈانٹتی ہے تو ہونٹوں سے ۔ دعا ديتی ہے تو دل کی گہرائيوں سے

اس حوالے سے ايک اچھوتا واقعہ

لانس آرام سٹرانگ 1971ء میں پیدا ہوا ۔ وہ دو ہی سال کا تھا کہ اس کا باپ اس کی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی ماں اس وقت بمشکل 19 برس کی تھی۔ اس نے مختلف جگہوں پر نوکریاں کرکے لانس آرم سٹرانگ کو پالا اوربچپن ہی میں اسے اتھلیٹ بننے کی تربیت دی۔ وہ اسے باقاعدہ اتھلیٹک کے مقابلوں میں حصہ لینے کیلئے لے جاتی اور اس کی حوصلہ افزائی کرتی۔ لانس آرم سٹرانگ نے سائیکلنگ کو اپنے لئے منتخب کیا اور 20 سال کی عمر میں امریکہ کی شوقیہ سائیکلنگ کا چمپئن بن گیا۔ 4 برس کے بعد سارے مقابلے جیت کر وہ سائیکلنگ کا عالمی چمپئن بن گیا

1996ء میں جب وہ عالمی چمپئن بن چکا تھا تو ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ اسے کینسر ہے اور یہ کینسر پھیپھڑوں اور دماغ تک پھیل چکا ہے۔ اس موذی مرض کا راز اس وقت کھلا جب آرام سٹرانگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو کلو میٹر سائیکلنگ کے مقابلے جیت چکا تھا، وہ اپنے سائیکل پر پہاڑوں کے دل روند چکا تھا اور صرف 21 برس کی عمر میں امریکہ کے ہیرو کا درجہ حاصل کرچکا تھا ۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق آرم سٹرانگ کے زند ہ رہنے کے امکانات 40 فیصد سے زیادہ نہ تھے کیونکہ سرطان جسم کے اندر خطرناک مقامات تک پھیل چکا تھا۔ ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ اب آرم سٹرانگ کبھی سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکے گا اور وہ جسمانی طور پر کسی بھی کھیل کے لئے فِٹ نہیں ہوگا۔ جب یہ ساری رپورٹیں آرم سٹرانگ کو دکھائی گئیں تو اس نے جان لیوا بیماری کے سامنے ہار ماننے سے انکارکردیا اور اعلان کیا کہ وہ ڈٹ کر اور مضبوط قوت ِ ارادی کے ساتھ اس بیماری کا مقابلہ کرے گا اور کھیل کے میدان کی مانند بیماری پر بھی فتح حاصل کرے گا۔ 1996ء میں اس کا علاج شروع ہوا اور اس کی شدید کیموتھراپی کی جانے لگی۔ کیموتھراپی سے کینسر کا مریض کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے، اکثر اوقات اس سے بال جھڑ جاتے ہیں اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے لیکن آرم سٹرانگ کی قوت ِ ارادی، بلند حوصلگی، جذبے اور یقین محکم نے رنگ دکھایا۔ اس کی ماں کی دعاؤں نے صحت یابی کی راہ ہموار کی اور 2سال کے اندر اندر آرم سٹرانگ نے بیماری کو شکست دے کر یہ ثابت کر دیا کہ سرطان جیسے مرض کو بھی مضبوط قوت ِ ارادی سے شکست دی جاسکتی ہے

آرم سٹرانگ 2 سال بعد میدان میں اُترا تو پتہ چلا کہ اس کا کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہے اور کھیلوں کی دنیا اسے ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ چکی ہے ۔ آرم سٹرانگ حالات سے گھبرانے والا اور ہار ماننے والا انسان نہیں تھا چنانچہ اس نے 1999ء میں دوبارہ سائیکلنگ ریس میں حصہ لیااور پھیپھڑوں کی کمزوری کے باوجود چوتھی پوزیشن لے کر دنیاکو حیران کر دیا۔ اس تمام عرصے میں آرم سٹرانگ کا اپنی ماں سے گہرا تعلق قائم رہا۔ وہ ماں سے کتنی محبت کرتا تھا اور اسے کیا مقام دیتا تھا اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہوتا ہے کہ آرم سٹرانگ نے 1992ء میں اوسلو ناروے میں منعقد ہونے والی عالمی ریس میں حصہ لیا اور دنیا بھر کے مشہور سائکلسٹوں کو شکست دے کر عالمی چمپئن بن گیا۔ اس کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہو کر ناروے کے بادشا ہ نے اسے ملاقات کی دعوت کااعزاز بخشا ۔آرم سٹرانگ نے یہ کہہ کردعوت نامہ مسترد کر دیا کہ جب تک میری ماں کو دعوت نہیں دی جاتی میں یہ دعوت نامہ قبول نہیں کروں گا چنانچہ ناروے کے بادشاہ نے آرم سٹرانگ اور اس کی ماں دونوں کو دعوت نامے بھجوائے اور ان کی عزت افزائی کی

آرم سٹرانگ کی مضبوط قوت ِ ارادی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ کینسر کو پوری طرح شکست دینے کے لئے 1999ء میں فرانس پہنچ گیا جہاں ہر سال سائیکلنگ کا عالمی مقابلہ ہوتا ہے جسے ٹور دی فرانس [Tour De France] کے نام سے یاد کیاجاتا ہے۔ اس نے اس عالمی مقابلے میں حصہ لیا اور سب کو پیچھے چھوڑ کر ایک بار پھر مقابلہ جیت لیا ۔ اس کے بعد لانس آرم سٹرانگ مسلسل سات برس تک ٹور دی فرانس میں حصہ لیتا رہا اور عالمی چمپئن بنتا رہا اور مسلسل سات برس تک عالمی چمپئن بن کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جسے ماہرین کے مطابق شاید ایک سو برس تک توڑا نہ جاسکے

اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جن پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد ِ آدم… یعنی اشرف المخلوقات کو ایک ایسی بے بہا صلاحیت، ناقابل تسخیر قوت اور نادر تحفے سے نوازا ہے جس کی تربیت کرکے اور جس سے کام لے کر انسان ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے اور جس کی قوت سے وہ نہ ہی صرف کائنات کو سرنگوں کرسکتاہے بلکہ بڑی سے بڑی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے، موذی سے موذی مرض کو شکست دے سکتا ہے، پہاڑوں کے دل روند سکتا ہے، بلند ترین چوٹیوں کو مسخر کرسکتا ہے، سمندروں کے رخ موڑ سکتا ہے اور زندگی میں وہ سب کچھ حاصل کرسکتا ہے جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے

قدرت کی اس بے بہا صلاحیت اور نادر تحفے کا نام ہے قوت ِ ارادی

قدرت فیاض ہے اور قدرت یہ صلاحیت تمام انسانوں کو دیتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اس صلاحیت سے کام لے کر آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں، کامیابیوں کی داستانیں بن جاتے ہیں جبکہ اس صلاحیت سے فائدہ نہ اٹھانے والے کرہءِ ارض پر کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے رینگتے زندگی گزار دیتے ہیں

بچوں کو لکھنا کيسے سيکھائيں

عنيقہ ناز صاحبہ نے اچھا موضوع چُنا ہے ۔ طريقہ جو بتايا ہے اُس سے ميرے پوتے پوتياں مستفيد ہو سکتے ہيں ۔ ايسے بچے تو پہلے سے ہی اُونچے نام والے سکولوں ميں پڑھتے ہيں ۔ اگر ايسے بچوں ميں تعليم کی کمزوری پائی جاتی ہے تو اس ميں طريقہ تعليم کا کوئی دوش نہيں ۔ اُن کے والدين کی لاپرواہی يا غرور کا نتيجہ ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس اصلاحِ طريقہ تعليم کی ضرورت اُن 60 سے 70 فيصد طلباء و طالبات کو ہے جن کے والدين ايسے سُلجھے ہوئے طريقوں پر عمل کرنے سے قاصر ہيں جس کی تين وجوہات ہيں

ايک ۔ والدين اَن پڑھ ہيں يا کم پڑھے لکھے ہيں
دو ۔ والدين گھر کے اخراجات مہيا کرنے ميں اتنے مصروف ہوتے ہيں کہ بچوں کو وقت نہيں دے سکتے

تين ۔ سب سے بڑی وجہ يہ ہے کہ اس طريقہ پر چلنے کيلئے اُن کے پاس وسائل نہيں ہيں

اس کا حل ميں بعد ميں بتاؤں گا پہلے ميری آپ بيتی

اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ميں نے بلامعاوضہ پہلی جماعت سے لے کر ايم ايس سی تک کے بچوں کو پڑھايا ہے اور ملازمت کے طور پر 3 سال ايسوسيئيٹ انجنيئر ڈپلومہ کلاسز اور 5 سال بی ايس سی انجنيئرنگ کلاسز کو پڑھايا ہے

ميں نے درجن بھر ننھے بچوں کو سکول داخل ہونے سے پہلے پڑھنا لکھنا سکھايا ۔ ان ميں 4 ميرے مجھ سے 10 سے 15 سال چھوٹے بھائی بہن اور 3 ميرے بچے ہيں ۔ ان سب پر ميں نے بڑے حِلم کے ساتھ محنت کی مگر ميری مجھ سے 15 سال چھوٹی بہن کو پڑھانا اور لکھانا ميرے لئے سب سے بڑا امتحان تھا ۔ ميں نے کہا پڑھو “الف” تو اس نے کہا “پڑھو الف”۔ خير اس سے تو جلدی جان چھوٹ گئی ميں نے صرف الف کہنا شروع کيا ۔ ميں نے کہا “ب”۔ تو بہن نے کہا “نہيں آتا” ۔ ميں نے کہا ” A ” تو اس نے کہا ” A “۔ ميں نے کہا ” B “۔ تو اُس نے کہا “نہيں آتا”۔ ميں نے کہا “ايک” تو اُس نے کہا “ايک”۔ ميں نے کہا “دو”۔ تو اس نے کہا “نہيں آتا”

ميں انجنئرنگ کالج سے گرميوں کی چھٹيوں ميں گھر آيا ہوا اپنا فرض نبھا رہا تھا۔ تين دن ميں پوری کوشش کرتا رہا مگر ميری پياری بہن کا جواب نہ بدل سکا ۔ پھر اس کا ايک حل ذہن ميں آيا ۔ ميں بازار سے اچھے معيار کا سفيد کاغذ اور رنگدار پنسليں لايا اور ايک کاغذ پر رنگدار سيب بنايا اور ساتھ لکھا ” A for Apple “۔ پھر بہن کو دکھا کر کہا ” A for Apple “۔ اُس نے کہا ” A for Apple “۔ ميں نے دوسرے کاغذ پر کرکٹ کا بلا بنايا اور اسے کہا ” B for Bat “۔ تو بلا توقف بہن نے کہا ” B for Bat “۔ اسی طرح انگور کا گچھا بنا کر لکھا الف سے انگور اور بلّی بنا کر لکھا ب سے بلّی اور وہ پڑھتی گئی ۔ گنتی کيلئے بنايا ايک سيب دو ناشپاتی تين آلو بخارے وغيرہ وغيرہ ۔ ميرا نُسخہ کامياب ہو گيا ۔ اس طرح ميں نے اُسے حروفِ ابجد اور Alphabet صرف ايک ماہ ميں پڑھا دی البتہ ميری ڈرائينگ بنانے کی اچھی مشق ہو گئی ۔ لکھنے کيلئے چار لکيری کاپی لايا اُس پر ہلکی پنسل سے ميں لکھ ديتا اور بہن سے کہتا کہ ان لکيروں پر لکيريں لگاؤ مگر ديکھو اگر آپ کی لکير ميری لکير سے باہر نہ گئی تو آپ بادشاہ بنو گی ميں وزير اور اگر آپ کی لکير باہر چلی گئی تو آپ وزير بنو گی اور ميں بادشاہ

ميں نے اس طرح 2 ماہ ميں اپنی اس بہن کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ديا تو اُس نے ايسی رفتار پکڑی کہ ہر جماعت ميں شاباش ليتی بڑھتی گئی اور ايم ايس سی بوٹنی کے بعد ايم فِل کيا ۔ ايک سال بعد پی ايچ ڈی بھی کر ليتی اگر اُس کی شادی نہ کر دی جاتی

ہمارا معاشرہ جس ميں 40 فيصد آبادی غربت کی لکير سے نيچے زندگی بسر کر رہی ہے اور مزيد 20 فيصد بمشکل گذارہ کر رہے ہيں وہ اپنے بچوں کيلئے ايسی کاپياں جو عام کاپيوں سے خاصی مہنگی ملتی ہيں کيسے مہيا کر سکتے ہيں ۔ اس مسئلے کا حل تختی اور سليٹ ہے جس کا استعمال دو تين دہائيوں سے ترک کر ديا گيا ہے ۔ تختی پر استاذ پنسل سے لکھ ديتے تھے اور بچے قلم سے لکھتے تھے ۔ اب تو وہ قلميں عجائب گھر ميں بھی نظر نہيں آتيں ۔ سليٹ پر استاذ گنتی سکھاتے ۔ اگر کہيں غلطی ہو جاتی تو مٹا کر درست کرتے اور ساتھ سمجھاتے بھی ۔ ايک تختی اور ايک سليٹ گھر کے سب بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا سکتی ہيں اور اس کے بعد کسی اور کے بھی کام آ سکتی ہيں

تختی پر قلم سے لکھنے کيلئے قلم کو ايک خاص طريقے سے پکڑا اور چلايا جاتا تھا اور دباؤ کا بھی خاص دھيان رکھنا پڑتا تھا ۔ يہ سب کام استاذ سکھاتے تھے ۔ اس سے انگليوں ہتھيلی اور کلائی کے پٹھے موذوں طور پر نشو و نما پاتے تھے اور بعد ميں پنسل يا پين سے لکھنا آسان ہوتا تھا

بچوں کو لکيريں لگانے کا شوق 2 سے 3 سال کی عمر کے درميان شروع ہو جاتا ہے ۔ ايک طرف سے استعمال شدہ کاغذ خاصی تعداد ميں سنبھال رکھيئے ورنہ بازار سے نيا سفيد کاغذ لے آيئے اور آدھی لمبائی والی رنگدار پنسليں بھی ۔ بچے کو رنگدار پنسليں ديجئے اور ايک ايک کر کے کاغذ ديتے جايئے ۔ اس بات کا خاص خيال رکھيئے کہ بچہ پنسل يا کاغذ منہ کی طرف نہ ليجائے ۔ پنسل کی صورت ميں وہ اُسے کاٹے گا اور اس کي نوک ٹوٹ کر بچے کے حلق ميں اٹک سکتی ہے جو پريشانی کا باعث بنے گی ۔ کاغذ بچہ تيزی سے منہ ميں ڈال کر کھينچتا ہے ۔ اس صورت ميں کاغذ کا چھوٹا ساٹکڑا منہ ميں رہ سکتا ہے جس کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب تالو يا حلق سے چپک کر مصيبت کھڑی کر ديتاہے ۔ بچے کو محدود وقت کيلئے پنسليں ديجئے اور پھر لے کر چھپا ديجئے ورنہ آپ کے گھر کی ديواريں آپ کے کپڑے بچے کا جسم يا جو کچھ اُسے مل جائے اُس پر ابسٹريکٹ آرٹ [abstract art] کے نمونے بن جائيں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیابی کا راستہ

ہونا کیا چاہیئے
اپنا عِلم دوسروں میں بانٹيئے تو لافانی ہو جائيں گے
اپنی کامیابی کا اندازہ اس سے لگائيے کہ اسے حاصل کرنے کیلئے کیا کچھ چھوڑا
محبت اور کھانا پکانے کی طرف پورے اِنہماک سے بڑھيئے

عصرِ حاضر کی صورتِ حال
محنت کرو مگر دوسروں کو صرف اس وقت بتاؤ جب باس [Boss] سُن رہا ہو
باس پر توجہ رکھو کہ اُسے کیا پسند ہے ۔ وہی کرو
باس پر خُفیہ نظر رکھو اور پتہ چلاؤ کہ اُسے کس چیز کی ضرورت ہے ۔ وہ اُسے مہیا کرو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشیوں کا راز

چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی جو حاصل ہو ۔ اس کیلئے شکرگذار ہونا چاہیئے

جہاں کہیں بھی ہوں جو کچھ بھی کر سکیں جتنا بھی ہو سکے دوسرے کی مدد کرنا چاہيئے

جن اشیاء کو حق سمجھتے ہیں اُن کیلئے دراصل شکرگذار ہونا چاہیئے

آدمی کی اصل دولت یہ ہے کہ اُس نے آخرت کیلئے کیا کیا ہے ؟

اللہ بہترین نعمت اُسے دیتا ہے جو اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو ترجیح دیتا ہے