Category Archives: روز و شب

ثقافت ۔ ۔ ۔ ؟

ثقافت کے بارے میں اخبارات ۔ رسائل اور ٹی وی پر لوگوں کے خیالات پڑھے یا سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے اور تہذيب کس بلا کا نام ہے

پچھلی دو صدیوں میں لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ۔ ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حسین حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب
ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
2 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
3 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائنس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
4 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
5 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان میں بھی صرف چند فیصد لوگ ہی کرتے ہیں ۔ ہاں شائستہ (classical) موسیقی یعنی بھجن ان کی پوجا پاٹ کا حصہ ہے اور یہ وہ ناچ گانا نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے

مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے کچھ ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے اپنی ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں اور ثبوت کے طور پر ہندوانہ رسم و رواج کا حوالہ دیتے ہیں یا پھر اس دور کی مثال دیتے ہیں جب اسلام کا ظہور نہیں ہوا تھا

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں کی ثقافت کا حصہ بن چکی ہے ۔ اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ اسی طرح شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا کونہ بائیں کندھے اور بائیں والا کونہ داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

ثقافت کے متذکرہ بالا اجزاء میں جو مادی اوصاف ہیں وہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی بہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے مگر ثقافت پر اثر انداز ہونے والی اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی بہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ ان کو تبدیل کرنا انسانی تمدن کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور اللہ کی نافرمانی بھی ۔ آج کمپیوٹر کا دور ہے ۔ کمپیوٹر متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اپنی اقدار کو نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں عبادت ۔ تعلیم ۔ سلوک ۔ عدل ۔ انتظام ۔ وغیرہ

تہذیب کے بارے میں مضمون اِن شاء اللہ عنقریب

منافق سے دُشمن بہتر

منافقت (Hypocrisy) اور دُشمنی میں واضح فرق ہے
منافق (Hypocrite) دراصل دوست یا خیر خواہ کے بھیس میں دُشمن ہوتا ہے
تھوڑی یا زیادہ کوشش سے کوئی بھی شخص دُشمن کو جان جاتا ہے
لیکن منافق کو پہچاننا بہت مُشکل اور بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے
چنانچہ منافق دُشمن سے زیادہ خطرناک ہے

عوام ۔ غلطياں اور غلط فہمياں

شايد آج کی پوری دنيا کا ہی الميہ ہے مگر بالخصوص ہمارے ہاں غلط يا تراشيدہ [manufactured] باتوں کو جتنا عام کيا جاتا ہے اور جتنا ان پر بحث کو وقت ديا جاتا ہے اتنی حقائق کی طرف توجہ نہيں دی جاتی ۔ قانون اور الفاظ دونوں ہی کے اصل کی بجاۓ غلط معروف ہیں

چند نمونے

طلب سے بنا طالب یعنی طلب رکھنے والا ۔ علم کی طلب رکھنے والا ہوا طالب علم جسے مختصر طور پر طالب کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع ہوئی طُلباء ۔ لیکن چند سالوں سے اخبارات اور ٹی وی چنلز والوں نے طلبہ لکھنا شروع کر دیا ہے اور شاید ان کی دیکھا دیکھی دوسرے بھی طلبہ لکھنے لگے ہیں ۔ یہ پڑھے لکھے لوگ معمولی سا غور کرنا بھی شاید گوارا نہیں کرتے کہ طلب سے طلبہ بنا تو اس کا مطلب کیا ہوا اور یہ کس اصول کے تحت بنا ؟ کیا یہ اتنی سُوجھ بُوجھ بھی نہیں رکھتے کہ ذاکر مذکر ہے تو ذاکرہ اس کی مؤنث ہوئی ۔ طلب تو ہے ہی مؤنث تو اس کی مزید مؤنث کیا طالب علم کی جمع بن جائے گا ؟

لفظ ”عوام الناس“ تھا ۔ مطلب عام یا سب آدمی یا انسان ۔ استعمال سے ”الناس“ گھِس گيا يا راستے ميں کہيں گِر گيا اور رہ گیا عوام الناس کی زبان پر صرف ”عوام“

فارسی کا ايک مصدر ہے ”آمدن“ جس کا صيغہ حاضر جمع ہے ”آمدَيد“اور ”خوش“ کا مطلب ہے ”اچھا يا بھلا“ ان دو لفظوں سے بنا تھا ”خوش آمدَيد“۔ جديد ہواؤں نے ” د “ کی ”زَبَر“ کو نيچے گرا ديا اور وہ بن گئی ” زَير “۔ اور ”خوش آمدَيد“ کا بن گيا ”خوش آمدِيد“
فارسی ہی کا مصدر ہے ”دِيدن“ جس کا صيغہ ماضی ہے ”دِيد“ جس کا مطلب ہے ”ديکھا“ چنانچہ ”خوش آمدِيد“ کا مطلب بنا ”اچھا آم ديکھا“۔ اس کی وجہ يہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہمارے لوگ آم کھانا پسند کرتے ہيں :lol:

سب سے اہم بلکہ قومی سانحہ
ہمارے ہاں کيا حکمران کيا عوام 1973ء کے آئين کی تعريفيں کرتے نہيں تھکتے ۔ ان ميں سے 90 فيصد سے زائد ايسے ہوں گے جنہوں نے کبھی آئين کو پڑھا ہی نہيں ۔ راقم الحروف نے پہلی بار اس آئينی دستاويز کو 1974ء کی آخری چوتھاتی ميں صرف پڑھا ہی نہيں بلکہ اس کا مطالعہ کيا کيونکہ ميں اُن دنوں سينئر منيجمنٹ کورس پر تھا اور آئين پر مباحثہ ميں حصہ لينا تھا ۔ مباحثہ ميں دلائل کے ساتھ يہ حقيقت آشکار ہوئی تھی کہ آئين کامل نہيں اور قابلِ عمل بنانے کيلئے کچھ تراميم کی ضرورت ہے اور سب سے بڑھ کر تعزيراتِ پاکستان ميں انقلابی تبديلياں لانا ہوں گی

ايک اہم حقيقت سامنے آئی تھی جو اب تک جوں کی توں موجود ہے کہ يہ آئين جمہوری تو ہے مگر اختيارات سارے حکمران کے ہاتھ ميں ہيں ۔ وہ چاہے تو ملک کو اپنی ملکیت سمجھ کر بيچ دے يا قوم کو غلام سمجھ کر بيچ دے ۔ ملک کا کوئی ادارہ دھرن تختہ کر دے تو الگ بات مگر آئينی يا قانونی طريقہ سے حکمران کا کچھ نہيں بگاڑا جا سکتا جب تک ايوان ميں اُسے اکثريت کی حمائت حاصل رہے اور يہ ہمارے ہاں رہتی ہے ۔ اس سلسلے میں عدالتِ عظمٰی کو بھی کاروائی کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی شخص جو حکمران نہ ہو بھی اگر مُلک سے غداری کرے تو حُکمران کے باقاعدہ حُکم کے بغير اُس کے خلاف بھی کوئی کاروائی نہيں کی جا سکتی ۔ 1973ء کے آئين کے تحت 1976ء ميں ايک قانون بنايا گيا جسے 1956ء سے مؤثر قرار ديا گيا ۔ اس قانون کے متعلقہ اقتباس سے صاف واضح ہے کہ ”جو چاہے سو حکمران کرے ۔جمہوریت کو فقط بدنام کیا

Criminal Law Amendment (Special Court) Act 1976.

An offence of simple treason punishable under the Pakistan Penal Code and an offence under The High Treason (Punishment) Act 1973 whether committed before or after the commencement of the 1976 statute shall be tried by the special court in accordance with the provisions of this legislation.
It is necessary to provide for the punishment of persons found guilty of acts of abrogation or subversion of a Constitution or of high treason . . . A person, who is found guilty (a) of having committed an act of abrogation or subversion of a Constitution in force in Pakistan at any time since the 23rd day of March 1956, or (b) of high treason as defined in Article 6 of the Constitution; (c) be punishable with death or imprisonment for life.

No court shall take cognisance of an offence punishable under this Act except upon a complaint in writing made by a person designated by the federal government in this behalf. The government may assign this job to the attorney general or appoint a prosecutor general to represent it in the high treason trial.

انسانی حقوق کے خودساختہ پوجاری

امریکا نے “حقیقت” کے نئے معنی دریافت کر کے کئی سال قبل نافذ کر دیئے تھے “حقیقت وہ ہے جو ہم کہیں (Reality is what we say)” یہ الفاظ امریکا کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے خود ایک نشریئے میں کہے تھے یعنی اگر امریکا نہ کہے کہ ولادی میر پیوٹن پیدا ہوا ہے تو گویا ولادی میر پیوٹن روس کا صدر ہے ہی نہیں ۔ امریکی نظریہ کے مطابق “انسانی حقوق اور امن” وہ ہوتے ہیں جو امریکی حکمرانوں کو پسند ہو چاہے امریکا کے علاوہ باقی دنیا تباہ ہو جائے

امریکی کردار تو صدیوں قبل افریقیوں کے اغواء اور اُنہیں غلام بنا کر تشدد کرنے سے شروع ہوا تھا جس کی ایک جھلک الَیکس ہَیلی کی کتاب دی رُوٹس (The Roots by Alex Haley) میں موجود ہے لیکن بین الاقوامی 1959ء میں ویتنام پر دھاوا بولنے سے ہوا اور پھر پھیلتا ہی گیا ۔ کہیں امن سے پیار اور کہیں انسانی حقوق کی محبت میں ہزاروں یا لاکھوں بے قصور انسانوں کو ہلاک اور معذور کیا کیا جاتا ہے جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں اور کہیں بغیر مقدمہ چلائے سینکڑوں یا ہزاروں مردوں اور عورتوں کو جن میں نابالغ بھی شامل ہوتے ہیں پابندِ سلاسل کر کے بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے ۔ صرف نام مختلف رکھے جاتے ہیں ۔ عراق ہو تو “لامتناہی تباہی کے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction)” ۔ افغانستان ہو تو کبھی “ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی” کبھی “اسامہ بن لادن” کبھی “القائدہ”۔ کبھی عورتوں کے حقوق”۔ لبیا ہو تو “اسلامی انقلاب”۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ ہو تو “افغانستان میں دہشتگردوں کی امداد”۔ اور کچھ نہ سمجھ آئے تو “خظرے کے پیشگی احساس کے نام پر درندگی کو بھی ژرمندہ کیا جاتا ہے ۔ خود اپنے ملک میں اپنے ہی امریکیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے اس کی مثالیں بھی آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں

حکمرانوں کی کیا بات امریکی عدالتیں بھی انصاف صرف اپنی پسند کا کرتی ہیں

امریکی سپریم کورٹ نے نومسلم امریکی شہری جوز پڑیلا کی درخواست سننے سے انکار کردیا جس میں اس نے 2007ء میں گرفتاری کے بعد جیل میں بدترین تشدد کی شکایت کی تھی اور وہ سابقہ و موجودہ حکومتی حکام کے خلاف نالش (sue) کرنا چاہتا تھا

اس کو 4 برس تک بغیر الزام جیل میں قید رکھا گیا ۔ بعدازاں مقامی القاعدہ سیل کی مدد کے الزام میں 17 برس قید کی سزا سنادی گئی جس پر امریکن سول لبرٹیز یونین اور پڑیلا کی والدہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے حکام کو قومی سلامتی کے نام پر کسی بھی شخص سے بدسلوکی اور بدترین تشدد کرنے کیلئے بلینک چیک دے دیا ہے

دوسرا واقعہ نہچے ربط پر کلِک کر کے پڑھیئے
اصل مجرم

لڑکپن کی باتيں قسط 5 ۔ تاش

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت اور رنگِ زماں لکھ چکا ہوں

ميں نے مارچ 1953 ميں پنجاب يونيورسٹی کا ميٹرک کا امتحان ديا ۔ [1954 عيسوی تک ميٹرک کا امتحان پنجاب يونيورسٹی ليتی تھی] ۔ کسی وجہ سے نتيجہ شائع ہونے ميں دير ہو گئی ۔ لاہور اور مری وغيرہ کی سير کے بعد وقت گذارنے کيلئے جو ذرائع ميں نے استعمال کئے اُن ميں ايک تاش کے کھيل بنانا بھی تھا ۔ مجھے جو اپنے پرانے کاغذات ملے ہيں اُن ميں سے ایک کھيل درج ذیل ہے ۔

A ۔ یکہ ۔ ۔ K ۔ بادشاہ ۔ ۔ Q ۔ ملکہ ۔ ۔ J ۔ غلام ۔ ۔ S ۔ حُکم ۔ ۔ H ۔ پان ۔ ۔ D ۔ اینٹ ۔ ۔ C ۔ چڑیا

تاش کے 52 پتّے ليکر پہلے حُکم کا يکّہ نيچے اس طرح رکھيئے کہ سيدھی طرف اوُپر ہو پھراُس پر مندجہ ذيل ترتيب ميں پتّے سيدھے رکھتے جائيے

SA, C4, S2, H3, S10, S3, DQ, DJ, H9, S4, H4, D9, C8, HQ, S5, C5, H5, C10, SJ, D4, S6, D7, D6, DK, H6, H10, C6, S7, CK, DA, CQ, C9, SQ, H7, D8, S8, HK, CA, D2, C2, HJ, C7, H8, D5, S9, C3, CJ, SK, HA, D10, H2, D3

دی ہوئی ترتيب سے سب پتّے رکھ چُکيں تو ان کو اکٹھا اُٹھا کر اُلٹا رکھ ليجئے ۔ پھر جب کسی کو کرتب دِکھانا ہو تو اُوپر سے ايک پتّا اُٹھائيے اور بغير ديکھے ايک کہہ کر نيچے سیدھا رکھ دیجیئے ۔ يہ حُکم کا يکّہ ہو گا ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا اُٹھا کر دو کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی دُکّی ہو گی ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا دو کہہ کر اٹھائيے اور سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے پھر تيسرا پتّا اُٹھا کر تين کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی تِکّی ہو گی ۔ يہ عمل دوہراتے جائیے حتٰی کہ حُکم کے 13 پتے ختم ہو جائیں ۔ یہي عمل پھر پان کے پتوں کے ساتھ دوہرائیے پھر چڑیا کے پتوں کے ساتھ اور آخر میں اینٹ کے پتوں کے ساتھ ۔

سائنس کی ترقی اور سچ کی تلاش

نشر و اشاعت کے دھماکہ خیز پھیلاؤ کا ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ کئی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف سچ کا جاننا انتہائی مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ غریب یا کمزور کے خلاف جھوٹے الزام کو سچ بنا دیا جاتا ہے اور طاقتور کے جھوٹ کے خلاف سچ کو سازشی نظریہ (conspiracy theory) قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک ادنٰی مثال

غالباً 23 اگست 2006ء کو ٹی وی پر خبر نشر ہوئی تھی کہ اس دور کے فرانس کے صدر جیکس شیراگ (Jacques Chirac) نے انکوائری کا حکم دیا تھا کہ خبر کیسے لِیک ہوئی کہ اسامہ بن لادن مر گیا تھا ۔ اس خبر کی وِڈیو یوٹیوب پر بھی پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں اسے ذاتی قرار دے کر ہٹا دیا گیا تھا ۔ اس خبر کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے پئے در پئے اس کی تردید کی گئی گو سعودی عرب کے خفیہ ادارے کو 3 ستمبر 2006ء کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اسامہ بن لادن طبیعی موت مر چکا ہے

ایبٹ آباد کے ایک گھر پر 2 مئی 2011ء کو امریکی فوجیوں کا خُفیہ حملہ جس کے بعد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوٰی بڑے کرّ و فر سے کیا گیا ۔ مگر لاش کو بغیر ذرائع ابلاغ پر لائے سمندر میں پھنکنے کی بات اس دعوے کو مشکوک بنا گئی ۔ خیال رہے امریکا ہی نے صدام حسین کی پھانسی کی کاروائی کی وڈیو دنیا کو دکھائی تھی جس میں صدام حسین کی ٹوٹی ہوئی گردن میں سے نکلتا خون بھی دکھایا گیا تھا

جھٹلائی گئی خبر کا سفر سچائی کی طرف شروع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اس بیان کے بعد جو سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ یرقان یاشر نے 19 مئی 2012ء کو دیا ۔ یرقان یاشر کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن جعلی تھا ۔ اسامہ بن لادن کا انتقال 26 جون 2006ء کو ہوا تھا اور انہیں وصیت کے مطابق پاک افغان سرحد پر دفن کیاگیا۔ مزید یہ کہ یرقان یاشر ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کے ان 3 چیچن محافظوں کو جانتے تھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اور 26 جون 2006ء کو ان کی فطری موت کے عینی شاہدین تھے ۔ ان کے نام سمیع ۔ محمود اور ایوب تھے ۔ امریکیوں نے 2 مئی 2011ء کی کاروئی کرنے سے پہلے سمیع کو اغوا کر لیا تھا ۔ تو کیا سمیع کے ذریعہ اسامہ کی نعش قبر سے نکال کر سمندر مں پھنکی گئی کہ کہیں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پانی

میں نے 8 مئی 2012ء کو لاہور کے دورے کا ذکر کیا تھا اور ایک عمل “سلام” کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ میں نے جان بوجھ کر یہ بات مخفی رکھی کہ درست سلام کس طرح لکھا جاتا ہے ۔ میری متذکرہ تحریر پر صرف ایک قاری “سعید” صاحب نے اپنے تبصرے میں توجہ دلائی ۔ سلام لکھنے کا درست طریقہ یہ ہے ۔ ۔ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ ۔ ۔ جسے سادہ طریقہ سے یو ں لکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ السلام علیکم ۔ سوائے ل کے باقی سب حروف پر اعراب ہیں اور س پر تشدید ( ّ ) ہے اسلئے ل نہیں بولا جاتا یعنی بولا اُس طرح جائے گا جیسامتذکرہ خط میں لکھا گیا ہے

سب جانتے ہیں کہ پانی انسانی زندگی کی اشد ترین ضرورت ہے ۔ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے اُن لوگوں پر جنہیں پانی گھر بیٹھے دستیاب ہے ۔ ایسے لوگ بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہیں پانی حاصل کرنے کیلئے روزانہ میلوں پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے ایک صحرا میں دیکھا کہ لوگوں نے زمین پر دو طرف سے ڈھلوان بنا رکھی ہے اور اس کے بیچ میں ایک نالی جو ایک طرف کو گہری ہوتی جاتی ہے اور کچھ فاصلے پر ایک گڑا کھودا ہوا ہے جس کے گرد تنّور یا تندور کی شکل میں دیوار بنا رکھی ہے ۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس گڑے میں پانی جمع ہو جاتا ہے جسے وہ پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں

فی زمانہ پانی کی کمی ساری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے اور اس کیلئے سوائے وطنِ عزیز کے شاید سب ممالک مناسب انتظامات بھی کر رہے ہیں ۔ پانی کی کمی اور مستقبل میں مزید کمی کی تنبہہ تو سُننے کو ملتی ہے لیکن میرے ہموطنوں کی اکثریت لاپرواہی اپنائے ہوئے ہے

دوسرا خط جس کا میں نے ذکر کیا تھا وہ لاہور کے ایک ایسے علاقہ میں پانی کے بِلوں کے ساتھ تقسیم کیا گیا تھا جہاں پڑھے لکھے اور سمجھدار گردانے جانے والے لوگ رہائش رکھتے ہیں ۔ میں نے اس کی تصویر بنا لی تھی ۔ تمام قارئین سے (خواہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں)التماس ہے کہ اس خط میں کی گئی درخواست پر غور کریں ۔ اس پر خود عمل کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیں ۔ اس سے نہ صرف سب کا بھلا ہو گا بلکہ اُمید ہے کہ اس کا ثواب بھی ملے گا