Category Archives: دین

اے اِنسان

اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ  ہ  وَ اِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ   ہ   وَ اِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ   ہ   وَ اِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ   ہ   عَلِمَتْ نَفْسً مَّا قَدَّمَتْ وَأخَّرَتْ   ہ   يَا أيُّھَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ (سورة 82 الانفِطار ۔ آیات 1 تا 6)۔

ترجمہ
جب  آسمانی کُرّے پھَٹ جائیں گے اور جب سیّارے گِر کر بِکھر جائیں گے اور جب سمندر [اور دریا]  اُبھر کر بہہ جائیں گے اور جب قَبریں زیر و زبَر کر دی جائیں گی تو ہر شخص جان لے گا کہ کیا عمل اُس نے آگے بھیجا اور [کیا]  پیچھے چھوڑ آیا تھا ۔ اے انسان ۔ تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا

 میرا انگريزی کا بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے Hypocrisy Thy Name – –  http://iabhopal.wordpress.com – – یہ منافقت نہیں ہے کیا

عشق و محبت

لیلٰی و قیس [مجنوں] ۔ شیریں و فرہاد ۔ ہیر و رانجا ۔ سوہنی و مہیں وال ۔ سسّی و پُنُوں ۔ سہتی و مُراد وغیرہ کے عِشقیہ افسانے کون نہیں جانتا ۔ لیلٰی کو حاصل نہ کر سکنے کے نتیجہ میں شہزادہ قیس پاگل [مجنوں] ہو گیا اور جنگلوں میں بھٹکتا رہا ۔ شیریں کی قُربت کیلئے فرہاد پتھر کے پہاڑوں میں نہر کھودتا رہا ۔ ہیر کو حاصل کرنے کیلئے تخت ہزارہ کے شہزادے نے رانجا کا روپ دھار کر ہیر کے باپ کا کمّی [غلام] بننا قبول کیا ۔ سوہنی کے عشق میں ایک زمیندار سب کچھ چھوڑ کر سوہنی کے باپ کا مہیں وال [بھنسیں چرانے والا] بنا ۔ سسّی کو پانے کیلئے شہزادہ پُنّوں صحراؤں کی گردش میں گم ہو گیا ۔ بلوچستان کے نواب کا بیٹا مُراد جھنگ سے گذرتے ہوئے سہتی کے عشق میں گرفتار ہوا ۔ سہتی کے خاندان کے بلوچوں میں لڑکی بیاہنے سے انکار کے باوجود جھنگ میں ہی الغوزہ بجاتا رہا ۔

اُردو کاایک مصدر ہے تسلیم کرنا ; یعنی مان لینا ۔ اِ سکا اِسم فاعل ہے مُسلِم چنانچہ مُسلم وہ ہوتا ہے جو تسلیم کرے یا مانے ۔ اب فرض کیجئے کہ ایک شخص کو بُخار ہے اور وہ تسلیم کرتا ہے یا مانتا ہے کہ بُخار پَیناڈول کھانے سے بخار اُتر جائے گا تو ضروری بات ہے کہ وہ پَیناڈول کھا لے گا ۔ اور اگر نہیں کھائے گا تو اِس کا مطلب ہو گا کہ وہ کہہ تو رہا ہے کہ مانتا ہوں کہ پيناڈول سے بخار اُتر جائے گا لیکن حقیقتا میں مانتا نہیں ہے ۔

مُسلِم کے لُغوی معنی تو اُوپر لکھ دیئے مگر اِصطلاحی طور پر مُسلِم یا مُسلمان اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی کی اطاعت قبول کرتا ہے یعنی اللہ کا ہر حُکم مانتا یا کم از کم ماننے کا دعویدار ہوتا ہے ۔ ايک مُسلم يا مُسلمان اللہ کا حُکم تب ہی ماننے کے قابل ہو گا جب اُسے معلوم ہو گا کہ اللہ کا حُکم کیا ہے ۔ اللہ کے حُکم کو جاننے کے لئے اُسے قرآن الحکیم کو پڑھ کر اسکے معنی سمجھنا پڑیں گے ۔

قرآن شریف میں سب سے پہلی شرط اللہ کو یکتا معبود ماننے کی ہے ۔ مندرجہ بالایعنی محبوب یا معشوق وقتی اور محدود فائدہ والے لوگ ہیں ۔ معبود وہ ہوتا ہے جِسے دل اور عقل دونوں اپنا محبوب مانيں چنانچہ معبود کا درجہ محبوب یا معشوق سے بہت بُلند ہوتا ہے مگر معبود کے لئے مُسلم یا مُسلمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے کيا کرتے ہيں کبھی سوچا ہم نے ؟

چلئے ليلٰی مجنوں شيريں فرہاد کے تو پُرانے قصّے ہیں ۔ آجکل لوگوں کا عام طور پر رویّہ یہ ہوتا ہے کہ جس کسی سے کسی وقتی فائدہ کی اُمید ہو اُس کی خدمت کے بہانے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اُسے خوش رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش میں جو سب کو فائدہ پہنچانے والا ہے اور بے حساب فائدہ پہنچاتا ہے اُس کو بھول جاتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم مُسلمان ہیں ۔

آج کے مُسلمان کا حال يہ ہے کہ تجارت ۔ لين دين ۔ انصاف ۔ رشتہ داروں سے سلوک ۔ محلہ داروں سے سلوک ۔ غريبوں يا مِسکينوں سے سلوک سب ميں اللہ اور رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کی بجائے صرف اپنی خودغرضی ياد رکھتا ہے ۔ يہ بھی خيال نہيں کرتا کہ اگر کوئی دوسرا اس کے ساتھ ايسا کرے تو وہ کيا محسوس کرے گا ۔ يہ کوتاہ انديشی ہے جسے ہوشياری سمجھ ليا گيا ہے ۔
اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

راستہ صرف ایک ۔ نہ کہ تين

میں سوچا کرتا تھا کہ مسلمان تنزّل کا شکار کیوں ہیں جبکہ غیر مُسلم ترقی کر رہے ہیں ؟
مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ 1983ء میں جدید ٹیکنالوجی سے لَیس انسٹیٹوٹ کی منصوبہ بندی کے دوران متذکرہ بالا سوال نے میرا ذہن کئی دنوں سے پریشان کر رکھا تھا کہ ایک دن مجھے آواز آئی ” اگر تُو نے اللہ کے خوف کو دل میں بٹھا کر پڑھی تو وہ ہے تیری نماز“۔

بولنے والا میرا چپڑاسی محمد شکیل تھا جو چوتھی جماعت پاس سابق فوجی تھا ۔ اللہ کریم نے مجھے بابا شکیل کے ذریعہ وہ بات سمجھا دی تھی جو کوئی پڑھا لکھا مجھے نہ سمجھا سکا تھا ۔ بلا شُبہ بابا شکیل دُنیاوی عِلم اور مال سے محروم تھا لیکن اللہ نے اُسے دینی عِلم و عمل سے مالا مال کر رکھا تھا

اللہ سُبحانُہُ و تَعالٰی نے ہمیں ایک راستہ دِکھایا [صِراطُ المُستَقِیم] اور ہدائت کی کہ ہمارا کھانا ۔ پینا ۔ اُٹھنا ۔ بیٹھنا ۔ سونا ۔ جاگنا ۔ مِلنا ۔ جُلنا ۔ اِخلاق ۔ لین ۔ دین ۔ کاروبار غرضیکہ ہر عمل دین اِسلام کے مطابق ہونا چاہیئے ۔ ویسے تو ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کہتے ہیں ِاھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم یعنی دِکھا ہم کو راہ سیدھی جو کہ ایک ہی ہو سکتی ہے لیکن اپنی عملی زندگی میں ہم نے تین راستے بنا رکھے ہیں ۔Three Paths

1 ۔ خانگی یا خاندانی معاملات کو ہم ایک طریقہ سے حل کرتے ہیں ۔

2 ۔ دفتر یا کاروبار کے معاملات کو ہم کسی اور نظریہ سے دیکھتے ہیں ۔

3 ۔ دین کو ہم نے بالکل الگ کر کے مسجد میں بند کر دیا ہے اور مسجد سے باہر صرف کسی کی موت یا نکاح پر استعمال کرتے ہیں ۔

ہماری حالت اُس شخص کی سی ہے جو ایک مقام سے ایک سِمت چلا ۔ بعد میں اُسے ایک اور کام یاد آیا ۔ چونکہ دوسرے کام کا راستہ مختلف تھا چنانچہ وہ واپس ہوا اور دوسرے کام میں لگ گیا ۔ پھر اُسے تیسرا کام یاد آیا اور اِس کا راستہ پہلے دو کاموں سے مختلف تھا چنانچہ وہ پھر مُڑا اور تیسرے کام کی طرف چل دیا ۔ اِس طرح وہ جس مقام سے چلا تھا اُسی کے گرد مُنڈلاتا رہا اور کسی سمت میں زیادہ پیشقدمی نہ کر سکا ۔
One Path
متذکّرہ بالا آدمی کے بر عکس ایک شخص نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سارے کام ایک ہی طریقہ سے سرانجام دے گا چنانچہ وہ ایک ہی سِمت میں آگے بڑھتا گیا اور بہت آگے نکل گیا ۔ ملاحظہ ہوں دونوں صورتیں علمِ ہندسہ کی مدد سے ۔

غیرمُسلموں نے دین کو چھوڑ دیا اور اپنے خانگی اور کاروباری معاملات کو صرف نفع اور نقصان کی بُنیاد پر اُستوار کیا اور آگے بڑھتے چلے گئے گو دین کو چھوڑنے کے باعث اخلاقی اِنحطاط کا شکار ہوئے ۔ جب کہ بے عمل مسلمان نہ دین کے رہے نہ دُنیاوی کاموں میں ترقی کر سکے ۔ بقول شاعر ۔

نہ خُدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ۔ ۔ ۔ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ۔

اللہ کو کيسے مُخاطب کريں ؟

اِس سلسلہ ميں قرآن شريف کی متعلقہ آيات ميں سے کُچھ کا ترجمہ

سُورَة 7 الْأَعْرَاف آيت 180
اور اللہ ہی کے لئے اچھے اچھے نام ہیں ۔ سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے انحراف کرتے ہیں ۔ عنقریب انہیں ان (اعمالِ بد) کی سزا دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں

سُورَة الْاِسْرَء / بَنِیْ ِإسْرَآءِيْل 17 ۔ آيت 110
کہہ دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو ۔ جس نام سے بھی پکارتے ہو اچھے نام اسی کے ہیں

سُورة طٰہٰ 20 آيت 14
بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو

سُورَة النَّمْل 27 آيت 9
اے موسٰی! بیشک وہ میں ہی اللہ ہوں جو نہایت غالب حکمت والا ہے

سُورَة الْقَصَص 28 آيت 30
جب موسٰی وہاں پہنچے تو وادئ کے دائیں کنارے سے بابرکت مقام میں ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسٰی! بیشک میں ہی اللہ ہوں تمام جہانوں کا پروردگار

سُورَة الرَّحْمٰن 55 آيت 78
آپ کے رب کا نام بڑی برکت والا ہے ۔ جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اِنعام و اِکرام ہے

سُورَة الْحَشْر 59 آيات 22 تا 24
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے ۔ وہی بے حد رحمت فرمانے والا نہایت مہربان ہے ۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ بادشاہ ہے ۔ ہر عیب سے پاک ہے ۔ ہر نقص سے سالم ہے ۔ امن و امان دینے والا ہے ۔ محافظ و نگہبان ہے ۔ غلبہ و عزّت والا ہے ۔ زبردست عظمت والا ہے ۔ سلطنت و کبریائی والا ہے ۔ اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ وہی اللہ ہے جو پیدا فرمانے والا ہے ۔ عدم سے وجود میں لانے والا ہے ۔ صورت عطا فرمانے والا ہے ۔ سب اچھے نام اسی کے ہیں ۔ اس کے لئے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔ اور وہ بڑی عزت والا ہے بڑی حکمت والا ہے

مسلمان بدنام کيوں ہيں ۔ لمحہءِ فکريہ

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ يہی لوگ اگر ٹريفک سارجنٹ موجود ہو تو سب ٹريفک قوانين کی پابندی کرنے لگتے ہيں ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ليکن اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رد کرتے ہيں ۔

اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں  ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ابوبکر صِدّيق  رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ دنيا کا بہترين اور قابلِ عمل قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے پھر اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی ۔

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے  رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو وہ فيصلہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے ۔

خلفائے راشدين کو بھی ديکھئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی [عيسائی] حکومت تھی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے  امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا ۔

اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟  اگر ديکھا جائے تو اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث بھی ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے ۔

مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان تاجر پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہر فعل ہيراپھيری کا کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں ۔ 

يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں ۔   

اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ

دانیال صاحب کا اِستفسار ۔ تیسری قسط ۔ مُلاؤں کی بے عِلمی کا سبب کیا ہے ؟

جاہل مُلّا
کہتے ہیں نیم حکِیم خطرہءِ جان نیم مُلّا خطرہءِ ایمان ۔ صرف 2 واقعات درج کروں گا
1 ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اِسی طرح 2 ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی

2 ۔ حکومت نے 1984ء میں سکولوں میں اِسلامیات کے اُستاد مدرسوں سے سنَد یافتہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں 500 اساتذہ بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے ۔ میں نے 6 اور 3 ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں ۔ اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں
میں نے کہا ”جناب ۔ اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پَل رہے ہیں ان کو لے لیں“۔
فرمانے لگے ”محلہ میں جو بقیہ 4 مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے“۔
میں نے حیرت سے کہا ”تو یہ امام کیسے بن گئے؟“
فرمایا ”لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے“۔
میں نے پوچھا ”یہ سینکڑوں جو رجسٹر شدہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ؟“
فرمایا ”حکومت نے اسلامیات کے اُستاذ کی تنخواہ اتنی کم رکھی ہوئی ہے کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ اور امام مسجد کا ماہانہ معاوضہ تو تذلیل سے کم نہیں ۔ اسلام آباد کی مرکزی مسجد (لال مسجد) کے خطیب کی ماہانہ تنخواہ سکیل نمبر 12 ہے اور باقی مساجد کی پے سکیل نمبر 9 ۔ اس لئے مدرسہ کا فارغ التحصیل انگریزی کا امتحان پاس کر کے ایم اے ہو جاتا ہے اور سی ایس ایس پاس کر کے سیکشن آفیسر یا مجسٹریت بن جاتا ہے ۔ کئی لوگ اِکنامکس وغیرہ کر لیتے ہیں اور کسی پرائیویٹ کمپنی میں اِن سے بھی زیادہ تنخواہ پاتے ہیں

جاہل مُلّا کہاں سے آئے ؟
مُلّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا مَنبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھِیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جُستجُو جاری رہی ۔ آخر عُقدہ کھُلا
ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد عِلم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علُوم (ریاضی ۔ طِب ۔ معاشیات ۔ معاشرت ۔ طبیعات ۔ کیمیاء ۔ علوم الارض وغیرہ) بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دُور دراز حتٰی کہ غیر ممالک سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور عِلم حاصل کرتے تھے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے مُسلمان بادشاہوں نے ان مساجد کو بڑی بڑی جاگیریں دے رکھی تھیں جن میں سبزیاں اور پھل اُگا کر اخراجات پورے کئے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے رہتے تھے
خیال رہے کہ احیائے اسلام سے قبل گرجا ہی عِلم کا گھر ہوا کرتا تھا ۔ پرانے زمانہ کے کئی معروف سائنسدان پادری تھے

پھر 1857ء میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو اُنہوں نے ہُنرمندوں کے ساتھ عُلماء (جو دین کے علاوہ دُنیاوی علوم سے بہرہ ور تھے) بھی قتل کروا دیئے اور جامعات کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ اِس کے بعد پسماندہ علاقوں سے 8 جماعت تک پڑھے نوجوان چُنے جو دین و دُنیا کا کوئی عِلم نہ رکھتے تھے ۔ ان جوانوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نُفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خُود انگریزوں نے مقرر کئے ہوئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل مُلّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں

فرقہ وارانہ تشدد
موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹَیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔