جہادی تنظیمیں زلزلے کے خلاف ’جہاد‘ میں مصروف
صدر پرویز مشرف نے بیس اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔
صدر کے اس بیان سے جہاں حکومت کی تشویش کا اندازہ ہوتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی جہادی سرگرمیوں کا سولہ سالہ تجربہ اور نیٹ ورک خاصا مددگار ثابت ہورھا ہے۔
مثلاً جماعت الدعوہ ( سابق لشکرِ طیبہ) کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے۔اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی ایک ہزار کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔
مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا۔تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھلے حصے میں کپڑوں، گدوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے۔اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے۔
مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے۔بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے زریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں۔
اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے۔
ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی۔اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں ایک سو بیس بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں۔ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں۔جبکہ اب تک ساڑھے تین ہزار چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں۔
اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھ۔یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے۔
جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ اس نے مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا۔اسکے علاوہ متاثرین کو ایک ہزار گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارھا ہے۔
کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں۔الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں۔
یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررھا ہے۔
بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر فی الحال مناسب نہیں سمجھتے۔
اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جٹی ہوئی ہے۔مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں۔جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔تاہم میں نے صوبہ سرحد کے متاثرہ علاقوں میں بظاہر حزب کی ریلیف سرگرمیاں نہیں دیکھیں۔
ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے۔بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے۔یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں۔
البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی۔ اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ’ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں۔
شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔
میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رھا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے۔’وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے۔‘
میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی۔کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہے۔ اسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں۔بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی ڈھائی ہزار خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے۔جبکہ ایک ہزار زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے۔
تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔
الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے۔تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے۔
یہ تضاد آپ کو اور کئی شکلوں میں بھی نظر آسکتا ہے مثلاً یہی کہ متاثرہ علاقوں کے اوپر امریکی چنوک ہیلی کاپٹر پروازیں بھر رہے ہیں اور نیچے جہادی تنظیمیں کوشاں ہیں اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔