Category Archives: دین

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اذان اور تکبير اقامت

اذان کب دی جاتی ہے اور تکبير اقامت کب کہی جاتی ہے اور کب نہیں ؟

کہنے کو یہ بہت آسان سوال ہے مگر عصرِ حاضر میں سوائے مُستند دينی مدارس کے فارغ التحصیل لوگوں کے اس کا جواب بہت کم مسلمان جانتے ہیں

نماز سے قبل اذان ضروری ہے ۔ اگر نماز کا وقت ہو جانے کے باوجود اس علاقہ میں کسی جگہ بھی اذان نہ ہو ئی ہو يا کم از کم آواز نہ سُنی گئی ہو تو پہلے اذان کہہ کر پھر نماز پڑھنا چاہيئے

باجماعت نماز کيلئے تکبير اقامت ضروری ہے

مندرجہ ذيل صورتوں ميں نہ اذان کہی جائے گی اور نہ تکبير اقامت

مسجد ميں کچھ لوگ نماز پڑھی جانے کے بعد پہنچیں اور باجماعت نماز پڑھيں
مسجد ميں کچھ لوگ کسی شرعی مجبوری کی وجہ سے مثال کے طور پر مسافر مقررہ وقت سے پہلے باجماعت نماز پڑھيں
مسجد کے علاوہ کوئی بھی جگہ جہاں باجماعت نماز ادا کر دی گئی ہو

مزيد
مسجد میں جہاں معمول کے امام کھڑے ہو کر نماز پڑھاتے ہیں دوسری جماعت میں شامل نمازيوں کے امام وہاں کھڑے نہیں ہوں گے بلکہ کم از کم ايک صف پيچھے کھڑے ہوں گے

میں نے دينی مدرسہ ميں تعليم حاصل نہيں کی
اگر کسی قاری کو متذکرہ بالا بيان سے اختلاف ہو یا کوئی بات لکھنا رہ گئی ہو تو ميری رہنمائی فرمائيں

قرآن شریف کا اَدَب

لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

بلاشُبہ قرآن شريف کا احترام کرنا چاہيئے اور اس کو پاک صاف ہو کر ہاتھ لگانا چاہيئے ليکن قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو اس پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ ۔ پڑھے لکھوں ميں بھی ايسے مسلمان ہيں جنہوں نے قرآن شريف پڑھا ہی نہيں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن کو اسلامی قرار دے کر اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں

کچھ سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اللہ رحمٰن و رحیم ہے انہیں بخش دے گا یا تھوڑی سی سزا کے بعد وہ جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے

کچھ مسلمان کہلانے والے ایسے بھی ہیں جو 14 صدیاں پرانے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں

فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو [جو قابلِ تغیّر ہیں] رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ سمجھنے کی کوشش تو کُجا قرآن کو صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں اور رَد کر دیتے ہیں

میرا سامنا ایسے لوگوں سے بھی ہوا جو خود تو عربی نہ جانتے ہیں اور نہ سیکھنا چاہتے ہیں مگر اُن کا استدلال ہے کہ قرآن شریف کے سب تراجم غلط ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ جب میں نے اُنہیں ایسے تراجم دکھانے کا کہا جو آپس میں مختلف ہیں تو جواب ندارد ۔ معلوم ہوا کہ کبھی قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا ہی نہیں یا قرآن شریف ہی نہیں پڑھا

کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن شریف میں تبدیلی کا عندیہ دینے والوں کو عملی یا مفید راستہ [pragmatic approach] قرار دیتے ہیں لیکن قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے

میں یقین رکھتا ہوں کہ قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب بھی کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

ميں دو مواقع پر حيران و پريشان ہوا
جب ہم طربلس لبيا ميں تھے تو ايک ہموطن نے قرآن خوانی کيلئے بلايا ۔ ہمارے ايک دوست سے ان کی جان پہچان تھی وہ مجھے ساتھ لے گئے ۔ ہم کل 6 لوگ تھے جنہوں نے ايک قرآن شريف پڑھا ۔ جب ہم پڑھ چکے تر ايک ہموطن آئے اور گويا ہوئے “ميری طرف سے بھی ايک سپارہ کر ليجئے” ۔ کسی نے پوچھا ” کونسا ؟” جواب ديا “کوئی سا بھی کر ليں “۔ ہم ہکا بکا رہ گئے
ميں ملک سے باہر گيا ہوا تھا تو ايک رشتہ دار فوت ہو گئے ۔ واپس پہنچا تو معلوم ہوا ۔ ميں فاتحہ کہنے دوسرے شہر ان کے گھر گيا ۔ وہاں پہنچا توقرآن خوانی ہو رہی تھی معلوم ہوا کہ چاليسواں ہے ۔ قرآن خوانی کے بعد دعا شروع ہونے سے قبل صاحبِ خانہ نے کہا کہ اتنے قرآن شريف ختم ہوئے ہيں ۔ تعداد اتنی زيادہ بتائی کہ ميں بھونچکا رہ گيا ۔ قرآن شريف پڑھنے والے بيس بھی نہ تھے ۔ ميں نے بعد ميں پوچھا کہ” اتنی زيادہ بار قرآن شريف کس نے پڑھے ہيں ؟” جواب ملا ” وہ مسجد ميں لڑکے پڑھتے ہيں نا ۔ ان سے لے لئے ہيں”۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام خرافات سے بچائے ۔ آمین

اوقاتِ نماز

بیسویں اور اکییسویں صدی عیسوی میں چند اشخاصں نے فرض نمازوں کی تعداد اور اوقات کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ۔ اصل معاملہ کچھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان چند اشخاص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سُنت و حدیث پر یقین نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ سُنت و حدیث سے مدد لئے بغیر قرآن شریف کو عربی زبان کا کوئی ماہر بھی درست طریقہ سے سمجھ نہیں سکتا ۔ جہاں تک نماز کے اوقات ۔ طریقہ اور اس میں پڑھنے کا تعلق ہے یہ تو سُنت و حدیث سے رہنمائی لئے بغیر کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔ پانچ واجب نمازیں [جنہیں ہمارے ملک میں فرض کہا جاتا ہے] اوّل روز سے پڑھی جا رہی ہیں ۔ رسول کی اطاعت کرنے کیلئے اللہ کا حُکم قرآن شریف میں کئی جگہ مرقوم ہے ۔ پانچ نمازیں جن کا حُکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا ان کو متنازعہ بنانا صرف رسول کی ہی نہیں اللہ کے حُکم کی بھی خلاف ورزی ہے

نماز کے اوقات سے متعلق میرے علم کے مطابق جو آیات قرآن شریف میں ہیں اُن کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں ۔ کسی زبان کا ترجمہ دوسری زبان میں پیش کرتے ہوئے اصل صورتِ حال کو برقرار رکھنا مُشکل ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ اوّل نص قرآن شریف ہے ۔ اس کے بعد حدیث و سُنّت ۔ اسلئے قرآن شریف کو پڑھنا اور سمجھنا لازم ہے ۔ مندرجہ ذیل آیات سے مجھے جو سمجھ آئی وہ ہر آیت کے نیچے خطوط وحدانی میں درج ہے

سورت 11 ۔ ھود ۔ آیت 114
اور دن کے دونوں سروں اور رات کی چند ساعات میں نماز پڑھا کرو۔ کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں
[یہ فجر ۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 17 ۔ بنیٓ ارآءیل ۔ آیت 78
(اے محمدﷺ) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نمازیں اور صبح کو قرآن پڑھا کرو۔ کیوں صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور (ملائکہ) ہے
[یہ دوپہر کو سورج ڈھلنے سے لے کر اندھیرا ہونے تک کی نمازوں کی تاکید ہے یعنی ظہر ۔ عصر ۔ مغرب اور عشاء]

سورت 20 ۔ طٰہٰ ۔ آیت 130
پس جو کچھ یہ لغو باتیں کرتے ہیں اس پر صبر کرو۔ اور سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تسبیح وتحمید کیا کرو۔ اور رات کی ساعات میں بھی اس کی تسبیح کیا کرو اور دن کی اطراف تاکہ تم خوش ہوجاؤ
[یہ فجر ۔ عصر ۔ عشاء اور ظہر کی تاکید ہے]

سورت 24 ۔ النّور ۔ آیت 58
مومنو! تمہارے غلام لونڈیاں اور جو بچّے تم میں سے بلوغ کو نہیں پہنچے تین دفعہ یعنی (تین اوقات میں) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز صبح سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم کپڑے اتار دیتے ہو۔ اور تیسرے عشاء کی نماز کے بعد۔ (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے (کے) ہیں ان کے (آگے) پیچھے (یعنی دوسرے وقتوں میں) نہ تم پر کچھ گناہ ہے اور نہ ان پر۔ کہ کام کاج کے لئے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم سے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا علم والا اور بڑا حکمت والا ہے
[یہاں فجر ۔ ظہر اور عشاء کی نمازوں کا بالواسطہ ذکر ہے]

سورت 30 ۔ الروم ۔ آیت 17 و 18
تو جس وقت تم کو شام ہو اور جس وقت صبح ہو اللہ کی تسبیح کرو (یعنی نماز پڑھو) ۔ اور آسمانوں اور زمین میں اُسی کی تعریف ہے۔ اور تیسرے پہر بھی اور جب دوپہر ہو (اُس وقت بھی نماز پڑھا کرو)
[یہاں مغرب ۔ فجر ۔ عصر اور ظہر کی نمازوں کی تاکید ہے ۔ نماز کو اللہ کی تسبیح کہا گیا ہے ۔ یہ وہ تسبیح نہیں جو ہم دانوں پر گنتے ہیں]

سورت 40 ۔ المؤمن ۔ آیت 55
تو صبر کرو بےشک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح وشام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو
[روزانہ سب نمازیں پڑھا کرو]

سورت 50 ۔ قٓ ۔ آیت 39 و 40
تو جو کچھ یہ (کفار) کہتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو ۔ اور رات کے کسی وقت میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تنزیہ کیا کرو
[یہاں فجر ۔ عصر اور عشاء کی نمازوں کی تاکید ہے]

سورت 73 ۔ مزمّل ۔ آیت 2 و 3
رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات ۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کر لو
[يہ عشاء کی نماز کے دورانيئے کے متعلق حکم ہے]

سورت 76 ۔ الدھر ۔ آیت 25 و 26
اور صبح وشام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو ۔ اور رات کو اس کے سامنے سجدے کر و اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کرو
[یہ پھر روزانہ سب نمازیں پڑھنے کی تاکید ہے جس میں رات کی نماز کا بالخصوص ذکر ہے]

وقت گذارنا ؟

رمضان المبارک کا مہينہ شروع ہو چکا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حضور ميں عرض ہے کہ ہميں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت کرنے اور ہر بُرائی سے بچنے کی توفيق عطا فرمائے ۔ يونہی ياد آ گيا کہ ميرے ہموطن بعض اوقات اپنے بھولپن کی وجہ سے اپنی عبادت کو ناقص بنا ديتے ہيں

آدھی صدی قبل کی بات ہے جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں پڑھتا تھا کہ رمضان مبارک کے مہينےميں ايک دن ميں اور ايک ہم جماعت شاہ عالمی سے کچھ سامان لے کر واپس ميکلوڈ روڈ سے ريلوے سٹيشن کی طرف جا رہے تھے ۔ سہ پہر ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا ۔ اچانک ايک سنيما سے لوگ باہر نکلے ۔ ان ميں ايک ميرے ساتھی کا واقف کار بھی تھا

ميرے ساتھی نے پوچھا “فلم ديکھ کر آ رہے ہو ؟”
اس نے کہا “ہاں يار ۔ روزہ رکھا ہوا ہے وقت گذارنے آ گيا تھا”

تين دہائياں گذريں رمضان المبارک ميں سہ پہر کو ايک صاحب کے گھر کسی کام سے جانا پڑا ۔ صاحبِ خانہ آنکھيں مسلتے ہوئے تشريف لائے
ميں نے شرمندہ ہو کر کہا “ميں معافی چاہتا ہوں آپ کے آرام ميں مُخل ہوا ۔ عصر کا وقت ہو گيا تھا ۔ ۔ ۔”
صاحبِ خانہ بولے “ٹی وی پر ڈرامہ ديکھ رہا تھا ۔ روزے ميں ذرا وقت گذر جاتا ہے”

رمضان المبارک ميں روزہ کے دوران وقت گذارنے ک بہترين طريقہ تلاوت قرآن شريف ہے ۔ تلاوت کرتے تھک جائيں تو آرام کيجئے تاکہ عشاء کے بعد نماز تراويح ميں نيند نہ آئے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہم سب مسلمانوں کو ھدائت نصيب فرمائے اور سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

اسلام کیا ہے ؟

اسلام ایک سرنامہ [label] نہیں ہے

اسلام ایک طرزِ زندگی ہے اسے اپنایئے

اسلام ایک سفر ہے اسے مکمل کیجئے

اسلام ایک تحفہ ہے اسے قبول کیجئے

اسلام ایک جد و جہد ہے اس میں ڈٹ جایئے

اسلام ایک منزلِ مقصود ہے اسے حاصل کیجئے

اسلام ایک بہترین موقع ہے اسے ضائع نہ کیجئے

اسلام گناہگاروں کیلئے نہیں ہے غالب آیئے

اسلام ایک کھیل نہیں ہے اس سے مت کھیلئے

اسلام ایک معمہ نہیں ہے اسے تھامیئے

اسلام بزدلوں کیلئے نہیں ہے مقابلہ کیجئے

اسلام مُردوں کیلئے نہیں ہے اس میں زندہ رہیئے

اسلام ایک وعدہ ہے اسے پوراکیجئے

اسلام ایک فرض ہے اسے سرانجام لایئے

اسلام زندگی کا ایک خوبصورت راستہ ہے اسے دیکھیئے

اسلام آپ کیلئے ایک پیغام ہے اسے سُنیئے

اسلام سراپا محبت ہے اس سے محبت کیجئے

جو چاہے کوئی کہے ۔ اسلام آج بھی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا نظريہ ہے

حلالہ کی اصليت

عرفان احمد شفقت صاحب نے ايک واقعہ حلالہ کی کوشش کا لکھا جو پہلی قسط يہاں اور دوسری قسط يہاں ديکھی جا سکتی ہے ۔ ميں نے پہلی قسط پر مختصر تبصرہ کيا تھا جو بقول عرفان احمد شفقت صاحب تحرير کے ساتھ ہی غائب ہو گيا تھا ۔ ميں سوچا کہ اس کی کچھ تفصيل کتاب و سُنت کے مطابق نقل کر دی جائے

حلالہ نام ديا گيا ہے کسی چیز کو شرع ميں جائز بنا لینے يا حلال بنا لینے کو

قرآن شريف کے نزول سے پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص سے عقد کرکے طلاق نہ پاتی پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی پھر اسے اپنی خواہش کا آلہ کار اس طرح بنا ليا گيا کہ جب کوئی خاوند اپنی بيوی کو طلاق دے بيٹھتا تو کسی مرد کو معاوضہ دے کر اپنی مطلقہ سے نکاح کر کے ايک رات گذرنے کے بعد طلاق کا سودا کر ليتا

اللہ سبحانہ و تعالٰی كا سورت 2 البقرہ آيت 230 ميں فرمان ہے
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاويں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے

اور اس نكاح ميں جو اسے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كرے گا شرط يہ ہے كہ وہ نكاح صحيح ہو چنانچہ وقتی يعنی كچھ مدت كے لئے نكاح يا پھر پہلے خاوند كے ليے بيوى كو حلال كرنے كے لئے نكاح كر كے پھر طلاق دے دينا دونوں حرام اور باطل ہيں ۔ عام اہل علم كا يہی قول ہے، اور ان دونوں طريقوں سے عورت اپنے پہلے خاوند كے لئے حلال نہيں ہو گی

حلالہ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ:
نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر 2076

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
” كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا:
” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936

عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا:
” اللہ كی قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا ”
مصنف عبدالرزاق ( 6 / 265 )

امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا:
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے:
“نہيں ۔ نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے ۔ اگر وہ تو تجھے اچھی لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو
وہ بيان كرتے ہيں: “ہم تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.

اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ:
“ايك شخص نے كسی عورت سے شادى كی اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟”
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا:
“يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے”

واللہ اعلم.

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ اسلام ميں داخلے کا امتحان

مسلمان والدين کے ہاں پيدا ہونے والی ہر لڑکی اور ہر لڑکا مسلمان ہوتا ہے اور ساری زندگی وہ اپنے آپ کو اِسی بنا پر مسلمان سمجھتے ہيں ۔ تقريباً تمام سکولوں ميں پہلے چھ کلمے پڑھائے جاتے ہيں جو کہ سب بچے طوطے کی طرح رَٹ ليتے ہيں مگر بہت ہی کم ايسے طلباء و طالبات ہوتے ہيں جو ان کلموں کے معنی اور مقصد پر غور کرتے ہوں گے ۔ يہ چھ کلمے دراصل اسلام ميں داخلے کا امتحان ہيں جس کے بعد مسلمان ہونے کی کئی اور منازل بھی ہيں ۔ صرف چھٹا کلمہ نقل کر رہا ہوں تاکہ سب اپنا احتساب کريں کہ انہيں اسلام ميں داخلہ مل گيا ہے يا نہيں ؟

چھٹا کلمہ

اَللَّھُمَ اِنیِ اَعُوذُ ِبکَ مِن اَن اُشرِکَ بِک شَیئًا وَّاَنَا اَعلَمُ بِہٖ وَ اَستَغفِرُکَ لِمَالَا اَعلَمُ بِہٖ تُبتُ عَنہُ وَ تَبَرَّاَتُ مِنَ الکُفرِ و َالشِّرکِ وَ الکِذبِ وَالغِیبَۃِ وَ البِدعَۃِ وَ النَّمِیمَۃِ وَ الفَوَاحِشِ وَ البُہتَانِ وَ المَعَاصِی کُلِّھَا وَ اَسلَمتُ وَ اَقُولُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّہِ

اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تیرے ساتھ کسی کو شریک کروں اور وہ میرے علم میں ہو ۔ اور میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کا مجھے علم نہیں ۔ میں نے اس سے توبہ کی اور میں بیزار ہوا کفرسے اور شرک سے اور جھوٹ سے اور غیبت سے اور ہر نئی بات سے جو بری ہو اورچُغلی سے اور بے حیائی کے کاموں سے اور کسی پر بہتان باندھنے سے اور ہر قسم کی نافرمانی سے اور میں اسلام لایا اور میں کہتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں