Category Archives: دین

ختمِ نبوّت منطقی حوالہ 1 ۔ کسی کو نبی ماننا

نبوت کا معاملہ ایک بڑا ہی نازک معاملہ ہے ۔ قرآن مجید کی رُو سے یہ اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے
سورت 2 البقرۃ آیت 285 ۔ اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ۭ كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلٰۗىِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ ۣلَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ ۣ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ڭ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَيْكَ الْمَصِيْرُ
ترجمہ ۔ رسول ﷺ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ”ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حُکم سنا اور اطاعت قبول کی ۔ مالک ۔ ہم تُجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے“۔
ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر ۔ ایسے نازک معاملے میں تو الله تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂ اولیٰ توقع نہیں کی جا سکتی ۔ اگر محمد صلی الله علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو الله تعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا ، رسول الله صلی الله علیہ و سلم کے ذریعہ سے اس کا کھُلا کھُلا اعلان کراتا اور حضور دنیا سے کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی اُمت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہو گا ۔ آخر الله اور اس کے رسول ﷺ کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دُشمنی تھی کہ حضورﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہو سکتے مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا بلکہ اس کے برعکس الله اور اس کا رسول دونوں ایسی باتیں فرما دیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری اُمت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے
اب اگر بفرضِ محال نبوت کا دروازہ کھُلا بھی ہو اور کوئی نبی آ بھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے ۔ خطرہ ہو سکتا ہے تو الله تعالیٰ کی باز پُرس ہی کا تو ہو سکتا ہے ۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذ الله اس کُفر کے خطرے میں تو الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سُنّت ہی نے ہمیں ڈالا تھا ۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ریکارڈ کو دیکھ کر بھی الله تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مُدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہیئے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لئے وہ کون سا ریکارڈ الله کی عدالت میں پیش کر سکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو ۔ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لینا چاہیئے اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کر کے خود ہی دیکھ لینا چاہیئے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کر رہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کر کے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے ؟

ختمِ نبوّت ۔ رسول الله کی حدیث

سیّدنا محمد صلی الله علیہ وسلّم نے فرمایا کہ ”لا نبی بعدی“ (میرے بعد کوئی نبی نہیں) ۔ یہ الفاظ آنحضرت صلی الله علیہ وسلّم سے حضرت ابو ھریرہ رضی الله عنہ نے صحیح بخاری حدیث نمبر 3455 ، صحیح مسلم حدیث نمبر 1842 میں ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ نے صحیح مسلم حدیث نمبر 2404 میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی الله عنہ نے سنن ترمذی حدیث نمبر 2219 ، سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252 اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر 8390 میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی
جیسا کہ میں 8 ستمبر 2017ء کو بیان کر چکا ہوں سورت 53 النّجم میں الله تعالٰی نے فرمایا کہ سیّدنا محمد صلی الله علیہ وسلّم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تو پھر ہمیں اُن کے فرمان کو ماننا ہو گا

ختمِ نبوّت ۔ صحابۂ کرام کا اِجماع
قرآن و سنت کے بعد تیسرے درجے میں صحابۂ کرام کے اجماع کی ہے ۔ یہ بات تمام معتبر تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی الله علیہ و سلم کی وفات کے فوراً بعد جن لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور جن لوگوں نے ان کی نبوت تسلیم کی، اُن سب کے خلاف صحابۂ کرام نے بالاتفاق جنگ کی تھی
اس سلسلے میں خصوصیّت کے ساتھ مُسَیلمۂ کذّاب کا معاملہ قابلِ ذکر ہے ۔ یہ شخص نبی صلی الله علیہ و سلّم کی نبوت کا منکر نہ تھا بلکہ اس کا دعویٰ یہ تھا کہ اُسے حضورؐ کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے ۔ اُس نے حضورؐ کی وفات سے پہلے جو عریضہ آپؐ کو لکھا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں
من مُسَیْلمۃ رسول الله الیٰ محمدٍ رسول الله سلام علیک فانی اُشرِکتُ فی الامر معک(طَبَری، جلد دوم، ص ۳۹۹، طبع مصر)
مُسَیلمہ رسول اللہ کی طرف سے محمد رسول الله کی طرف ۔ آپ پر سلام ہو ۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں
علاوہ بریں مؤرخ طَبری نے یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ مُسَیلمہ کے ہاں جو اذاں دی جاتی تھی اس میں اشھدانّ محمّداً رسول الله کے الفاظ
بھی کہے جاتے تھے ۔ اس صریح اقرارِ رسالتِ محمدؐی کے باوجود اسے کافر اور خارج ا ز مِلت قرار دیا گیا اور اس سے جنگ کی گئی ۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بنو حنِیفیہ نیک نیتی کے ساتھ اُس پر ایمان لائے تھے اور انہیں واقعی اس غلط فہمی میں ڈالا گیا تھا کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اسے خود شریکِ رسالت کیا ہے ۔ نیز قرآن کی آیات کو اُن کے سامنے مُسِیلمہ پر نازل شدہ آیات کی حیثیت سے ایک ایسے شخص نے پیش کیا تھا جو مدینۂ طیّبہ سے قرآن کی تعلیم حاصل کر کے گیا تھا (البِدایۂ و النِّہایہَ لابن کثیر، جلد ۵، ص۵۱)۔

مگر اس کے باوجود صحابۂ کرام نے ان کو مسلمان تسلیم نہیں کیا اور ان پر فوج کشی کی۔ پھر یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں کہ صحابہ نے ان کے خلاف ارتداد کی بنا پر نہیں بلکہ بغاوت کے جُرم میں جنگ کی تھی ۔ اسلامی قانون کی رُو سے باغی مسلمانوں کے خلاف اگر جنگ کی نوبت آئے تو ان کے اسیرانِ جنگ غلام نہیں بنائے جا سکتے بلکہ مسلمان تو درکنار، ذمّی بھی اگر باغی ہوں تو گرفتار ہونے کے بعد ان کو غلام بنانا جائز نہیں ہے لیکن مُسَیلمہ اور اس کے پیرووں پر جب چڑھائی کی گئی تو حضرت ابو بکر ؓ نے اعلان فرمایا کہ اُن کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے گا ۔ اور جب وہ لوگ اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا ۔ چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصّے میں آئی جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیّت محمد بن حَنَفیہ(حنفیہ سے مراد ہے قبیلۂ بنو حنیفہ کی عورت) نے جنم لیا (البِدایہ والنہایہ، جلد۶، ص ۳۱۶، ۳۲۵)۔

اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جُرم کی بنا پر ان سے جنگ کی تھی وہ بغاوت کا جرم نہ تھا بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمد صلی الله علیہ و سلّم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے ۔ یہ کارروائی حضورؐ کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے، ابو بکرؓ کی قیادت میں ہوئی ہے، اور صحابہ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے ۔ اجماع صحابہ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو

تمام علمائے اُمّت کے اجماع کی تفصیل بھی وہاں درج ہے لیکن طوالت کے باعث اس سے استفادہ نہیں کیا ہے

قبولیت اور رَد کی اہمیت

کِسی چیز کو قبول (accept) یا رَد (reject) کرنے سے قبل اُس کے متعلق مستنَد معلومات حاصل کرنا ضروری ہے ۔ عصرِ حاضر میں یہ رسم پڑ چکی ہے کہ ہر چیز کو ذاتی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر قبول یا رَد کیا جاتا ہے
اِن شاء الله آج سے میں اپنے ایک مطالعہ (جو 1953ء میں شروع ہو کر 1964ء میں مکمل ہوا) کا خلاصہ 8 اقساط میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ واضح رہے کہ میری اِن تحاریر کی بنیاد قرآن شریف ۔ حدیث مباركه اور جیّد مفسّرین اور مفکّرین کی تحاریر ہیں

رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی

سورت 33 الاحزاب ۔ آیت 40 ہے ۔ مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا۔
ترجمہ ۔ (لوگو) محمدﷺ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں ، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

جہاں تک سیاق و سباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں

“خَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ”

کے معنی ”سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے“ ہی کے لئے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ۔ صرف سیاق و سباق ہی نہیں لُغت بھی اِسی معنی کی مقتاضی ہے

خَتَمَ الْعَمَل کے معنی ہیں فَرَغَ مِنَ الْعَمَلِ، ’’کام سے فارغ ہو گیا ‘‘
خَتَمَ الْاِنَا ءَ کے معنی ہیں ’’برتن کا منہ بند کر دیا اور اس پر مُہر لگا دی تاکہ نہ کوئی چیز اس میں سے نکلے اور نہ کچھ اس کے اندر داخل ہو‘‘
خَتَمَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں ’’ خط بند کر کے اس پر مُہر لگا دی تاکہ خط محفوظ ہو جائے ‘‘
خَتَمَ عَلَی الْقَلْبِ، ’’ دِل پر مُہر لگا دی کہ نہ کوئی بات اس کی سمجھ میں آئے، نہ پہلے سے جمی ہوئی کوئی بات اس میں سے نِکل سکے ‘‘
خِتَا مُ کُلِّ مَشْرُوبٍ، ’’ وہ مزا جو کسی چیز کو پینے کے بعد آخر میں محسوس ہوتا ہے ‘‘
خَا تمۃُ کُلِّ شَیئئٍ عاقبتہ واٰخرتہ، ہر چیز کے خاتمہ سے مراد ہے اس کی عاقبت اور آخرت ‘‘
خَتَمَ الشَّیْء، بلغ اٰخرہ، ’’کسی چیز کو ختم کرنے کا مطلب ہے اس کے آخر تک پہنچ جانا ۔ اِسی معنی میں ختم قرآن بولتے ہیں اور اسی معنی میں سورتوں کی آخری آیات کو خواتیم کہا جاتا ہے
خَا تَمُ الْقَوْمِ، اٰخر ھم، خاتم القوم سے مراد ہے قبیلے کا آخری آدمی
(ملاحظہ ہو لسان العرب ۔ قاموس اور قرب الموارد)۔

عربی لُغت کی صرف 3 کتابوں کا حوالہ دیا گیا لیکن بات اِنہی 3 کتابوں پر مُنحصِر نہیں ہے ۔ عربی زبان کی کوئی معتبر لُغت اُٹھا کر دیکھ لی جائے ۔ اس میں لفظ ”خاتم“ کی یہی تشریح ملے گی ۔ کچھ لوگ عربی لُغت سے ہٹ کر تعریفی زبان میں استعمال ہونے والے القابات کا سہارا لیتے ہیں جیسے ”خاتم الشعراء یا خاتم الفقہاء یا خاتم المفسّرین“ اور استدلال پیش کرتے ہیں کہ اِس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اِس کے بعد کوئی شاعر یا فقیہ یا مفسّر پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس فن کے کمالات اُس شخص پر ختم ہو گئے ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایسے القابات حقیقت نہیں ہوتے بلکہ مبالغے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں
مزید کسی زبان میں یہ قاعدہ نہیں ہے کہ اگر کسی لفظ کو اس کے حقیقی معنی کے بجائے کبھی کبھار مجازاً کسی دوسرے معنی میں بولا جاتا ہو تو وہی معنی اس کے اصل معنی بن جائیں اور لغت کی رُو سے جو اس کے حقیقی معنی ہیں اُن میں اس کا استعمال ممنوع ہو جائے
کسی عرب کے سامنے کہا جائے ”جَاء خاتَم القوم“ تو وہ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لے گا کہ قبیلے کا فاضل و کامل آدمی آ گیا بلکہ اس کا مطلب وہ یہی لے گا کہ پورا قبیلہ آ گیا ہے حتیٰ کہ آخری آدمی جو رہ گیا تھا وہ بھی آ گیا
یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیئے کہ ”خاتم الشعراء ۔ خاتم الفقہاء اور خاتم المحدثین“ وغیرہ قسم کےالقابات جو بعض لوگوں کو دیئے گئے ان کے دینے والے انسان تھے اور انسان کبھی یہ نہیں جان سکتا کہ جس شخص کو وہ کسی صفت کے اعتبار سے خاتم کہہ رہا ہے اس کے بعد پھر کوئی اس صفت کا حامل پیدا نہیں ہو گا ۔ اسی وجہ سے انسانی کلام میں ان القابات کی حیثیت مبالغے اور اعترافِ کمال سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتی
لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے متعلق یہ کہہ دے کہ فلاں صفت اُس پر ختم ہو گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے بھی انسانی کلام کی طرح مجازی کلام سمجھ لیں ۔ اللہ نے اگر کسی کو خاتم الشعراء کہہ دیا ہوتا تو یقیناً اس کے بعد کوئی شاعر نہیں ہو سکتا تھا۔ اور اس نے جسے ”خَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ“ کہہ دیا ۔ اس کے بعد کوئی نبی ہو نا ممکن نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اللہ عالِم الغَیب ہے اور کوئی انسان عالِم الغَیب نہیں ہے ۔ اللہ کا کسی کو ”خَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ“ کہنا اور انسانوں کا کسی کو ”خاتم الشعراء اور خاتم الفقہاء“ وغیرہ کہہ دینا ایک درجہ میں کیسے ہو سکتا ہے؟

اِس بنا پر تمام اہلِ لُغت اور اہلِ تَفِسیر نے بالاِتفاق ” خَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ“ کے معنی ”آخر النَّـبِيّٖنَ“ کے لئے ہیں

خیال رہے کہ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کئے جاتے ہیں البتہ اس سے مُراد وہ مُہر ہو سکتی ہے جو لفافہ بند کر کے پر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلے نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے

ایک راستہ کُھلا رکھنا

امام احمد ؒ بن حَنبل کہتے ہیں
ایک بار راہ چلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک ڈاکو لوگوں کو لوٹ رہا ہے ۔ کچھ دِنوں بعد مجھے وہی شخص مسجد میں نماز پڑھتا نظر آیا ۔ میں اس کے پاس گیا اور اسے سمجھایا کہ تمہاری یہ کیا نماز ہے ۔ الله تعالٰی کے ساتھ معاملہ یُوں نہیں کیا جاتا کہ ایک طرف تم لوگوں کو لُوٹو اور دوسری طرف تمہاری نماز الله کو قبول ہو اور پسند آتی رہے
ڈاکو بولا ”امام صاحب ۔ میرے اور الله کے مابین تقریباً سب دروازے بند ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کوئی ایک دروازہ میرے اور الله کے مابین کھُلا رہے

کچھ عرصہ بعد میں حج پر گیا ۔ طواف کے دوران دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کعبہ کے غلاف سے چمٹ کر کھڑا کہتا جا رہا ہے
”میری توبہ ۔ مجھے معاف کردے ۔ میں اِس نافرمانی کی طرف کبھی پلَٹنے والا نہیں“۔
میں نے دیکھنا چاہا کہ اِس بےخودی کے عالم میں آہیں بھَر بھَر کر رونے والا کون خوش قسمت ہے ؟ کیا دیکھتا ہوں ۔ یہ وہی شخص ہے جسے میں نے بغداد میں ڈاکے ڈالتے دیکھا تھا ۔ تب میں نے دل میں کہا ”خوش قسمت تھا ۔ جس نے الله کی طرف جانے والے سب دروازے بند نہیں کر ڈالے ۔ الله مہربان تھا جس نے سبھی دروازے آخر کھول ڈالے

کیسے بھی بُرے حال میں ہوں ۔ کتنے ہی گُناہگار ہوں ۔ الله کے ساتھ اپنے سب دروازے بند مت کر لینا ۔ جِتنے دروازے کھُلے رکھ سکتے ہوں انہیں کھُلے رکھنے کےلئے شیطان کے مقابلے پر مسلسل زور مارتے رہنا اور کبھی ہار مت ماننا ۔ کوئی ایک بھی دروازہ کھُلا مِل گیا تو کچھ بعید نہیں کہ وہ سب دوروازے ہی کھُل جائیں جن کے بارے میں تُمہیں کبھی آس نہ تھی کہ الله کی جانب سفر میں ان سب خوبصورت راہوں سے تمہارا کبھی گزر ہو گا

سورۃ 39 الزُمر آیة 53 ۔ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ

(اے نبی ﷺ)کہہ دو کہ اے میرے بندو ، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ، یقینا الله سارے گناہ معاف کر دیتا ہے وہ تو غفور، رحیم ہے

سچ ہے نماز بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے ۔ اِسی ایک دروازے کے کُھلنے سے اُس بندے کو الله نے بُرائی سے بچا کر قبول کر لیا
خیال رکھنا ۔ الله کی جانب کبھی پشت مت کرنا یعنی الله تعالٰی کو کسی معاملے میں بھُول مت جانا ۔ وہ ہر وقت تُمہیں دیکھتا اور سُنتا ہے

مسجد اقصٰی اور قبة الصخراء

میں آج 2007ء کی تحریر دہرانے پر مجبور ہوا ہوں

اِسے جہالت کہا جائے ہَڈدھرمی کہا جائے یا معاندانہ پروپیگینڈا ؟ میں پچھلے 15 یا 16 سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملکی اخباروں میں جب بھی قبلۂِ اوّل یعنی مسجدالاقصٰی کی خبر کے ساتھ تصویر چھاپی جاتی ہے تو وہ مسجد الاقصٰی کی نہیں ہوتی بلکہ قبة الصخراء کی ہوتی ہے ۔ قبة الصخراء کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کا بیت المقدس یا القدس سے اصل لگاؤ مسجدالاقصٰی کی وجہ سے ہے جو کہ قبله اوّل تھا اور تو اور جماعتِ اِسلامی جو دین اِسلام کی علَم بردار ہے اور جس میں پڑھے لکھے لوگوں کی کافی تعداد شامِل ہے نے پچھلے دِنوں بیت المقدس کے سلسہ میں احتجاج کیا تو اِس میں جو جھنڈے اُٹھا رکھے تھے اُن پر قبة الصخراء کی تصویر تھی

میں نے 2006ء میں The News اور Dawn جن میں مسجدالاقصٰی کے حوالے سے قبة الصخراء کی تصویر چھپی تھی کے مدیروں کو خطوط لکھے اور ساتھ دونوں مساجد کی تصاویر بھیجیں کہ وہ تصحیح کریں لیں ۔ نہ تو تصحیح کی گئی نہ مستقبل میں اس پر کوئی عمل ہوا اور نہ ہی میرے خطوط مدیر کی ڈاک میں شامل کئے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد پھر اخبار میں جب مسجد الاقصٰی کا ذکر آیا تو ساتھ تصویر قبة الصخراء کی چھپی ۔

میں نے اپنے ملک میں کئی گھروں میں قبة الصخراء کی تصویر یا ماڈل رکھا ہوا دیکھا جسے وہ مسجدالاقصٰی بتاتے تھے ۔ یہی نہیں میں نے قبة الصخراء کے پلاسٹک ماڈل سعودی عرب میں معمولی قیمت پر عام بِکتے دیکھے ہیں جو کہ ہند و پاکستان کے زائرین قبلہ اول یعنی مسجدالاقصٰی سمجھ کر خرید لاتے ہیں
خیال رہے کہ قبة الصخراء مسجد نہیں ہے

یہ ہے مسجد الاقصٰی کی تصویر


اور یہ ہے قبة الصخراء کی تصویر

نیچے داہنی جانب قبة الصخراء ہے اور بائیں جانب مسجد الاقصٰی ہے
Al-Aqsa-6 Cropped1

یہاں کلک کر کے قبۃ الصخراء کی تاریخ پڑھیئے

کیا دین کے لحاظ سے یہ صحیح ہے ؟

اپریل 2016ء میں کراچی کے ایک صاحب نے سوال پوچھا ”کیا یہ شعر بولنا صحیح ہے ؟؟“
کی محمد ﷺ سے وفا تُو نے تَو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ۔ لوح و قلم تیرے ہیں

اُس زمانہ سے لے کر جب میں گیارہویں جماعت میں تھا (1955ء) اُس زمانہ تک جب حکومتِ وقت نے علامہ اقبال کو ریڈیو ۔ ٹی وی اور سکول و کالج کی نصابی کُتب سے نکال کر اُن کی جگہ فیض احمد فیض کو قومی شاعر بنا دیا تھا (1974ء) یہ سوال کئی بار سُننے میں آیا اور اِس پر تکرار ہوتے بھی دیکھی

اِس سوال کا اٹَک کے ایک صاحب جو مولوی سمجھے جاتے ہیں نے خوبصورت جواب دیا ۔ سو خیال آیا کہ اِسے قارئین کی نظر کیا جائے

جواب ۔ محترم بھائی ۔ شعر و شاعری کو سمجھنے کیلئے اس سے تعلق ضروری ہے اور یہ فقیر شعر و سخن سے کچھ زیادہ آشنا نہیں ۔ بہرحال اپنی بساط کے مطابق عرض ہے ۔ آپ نے جس شعر کی تشریح پوچھی ہے ۔ وہ ڈاکٹر اقبال کی مشہور نظم “جواب شکوہ “کا ہے ۔ ”شکوہ ۔ جواب شکوہ“ علامہ اقبال کی دو طویل نظمیں ہیں جو ”بانگ درا“ یعنی ”گھنٹیوں کی صدا“ کے اوراق کی زینت ہیں ۔ ”شکوہ“ اپریل 1911ء میں لکھی گئی ۔ ریواز ہوسٹل اسلامیہ کالج کے صحن میں ہونے والے انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس میں اقبال نے سنائی ۔ ”جواب شکوہ“ 1913ء میں اقبال نے لکھی ۔ یہ نظم موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام میں بعد نماز مغرب سنائی گئی ۔ اس جلسے کا اہتمام مولانا ظفر علی خان نے کیا ۔ جواب شکوہ اسی جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئی اور اس کی پوری آمدن ”بلقان فنڈ“ میں دے دی گئی ۔ شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کی اقبال کو ضرورت کیوں ہوئی ؟ اس کے بارے میں مختلف شارح اپنی اپنی آراء رکھتے ہیں لیکن جس ایک پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے اقبال 1905ء سے 1908ء تک یورپ میں رہے ۔ میونج یونیورسٹی (جرمنی) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور قانون کا امتحان برطانیہ سے پاس کیا

یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی سائنسی ۔ مادی ۔ سیاسی ۔ اقتصادی ۔ معاشرتی ترقی اور تہذیبی اقدار کو اقبال نے بہت قریب سے دیکھا ۔ اہل یورپ کی علمی لگن ۔ عملی کوشش ۔ سائنسی ترقی ۔ جذبہءِ عمل اور حُب الوطنی سے متاثر ہوئے ۔ جب واپس ہندوستان آئے تو اہلِ یورپ کے برعکس مسلمانوں میں کاہلی ۔ جمود ۔ بے عملی ۔ غلامانہ ذہنیت ۔ اقتصادی پسماندگی اور عملی ذوق و شوق کا فُقدان دیکھ کر آزردہ خاطر ہوئے مسلمانوں کی اسلام سے محض زبانی عقیدت ۔ خدا کی محبوب قوم ہونے کا عجیب احساس ۔ اسلام کا شَیدا ہونے کا دکھاوے کا اعتقاد ۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے دُوری اور اسوہءِ رسول سے وابستگی کے خیالی دعوے ۔ اقبال کی پریشیانی کا باعث بن گئے ۔ ان ساری باتوں کے باوجود مسلمان ہر وقت دین و دنیاکی برکات چھِن جانے کا خدا سے شکوہ بھی کرتے تھے ۔ یہی نظم ”شکوہ“ کا بنیادی تصور ہے

”شکوہ“ جب اقبال نے لکھی تب صرف ہندوستان کے مسلمان ہی زبُوں حالی کا شکار نہیں تھے ۔ ایران ۔ ترکی ۔ مصر اور افریقہ کے مسلمانوں کی حالت بھی ایسی ہی تھی ۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں نے مسلمانوں کے احساس زوال کو مزید شدید کردیا تھا ۔ جس نے اقبال کو شکوہ ۔ جواب شکوہ جیسی انقلابی نظمیں لکھنے کی تحریک دی ۔ علامہ اقبال نباضِ ملت اور اپنے دور کے مفکر ہیں ۔ انہوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور زمانہ قدیم کے مسلمانوں کے عرُوج کی وجوہات کو دونوں نظموں کا مرکزی خیال بنایا تاکہ مسلمان اپنے شان دار ماضی سے زوال پذیر حال کو دیکھیں اور روشن مستقبل کا سراغ لگاسکیں

مسلمانوں کے طرز عمل سے نالاں اقبال اسلام کے عظیم ماضی کوحسرت سے دیکھتے، حال کا جائزہ لیتے تو بے بسی سے سپر ڈال دیتے۔ مگر ان کی مایوسی اور ناامیدی انہیں کشاں کشاں تاریکی سے روشنی کی طرف لے آئی۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے لالہ زار تھے۔ اس دور میں اقبال نے جو نظمیں لکھیں ان کے اثر سے ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا۔ جس پر انہوں نے شکوہ، جواب شکوہ لکھیں۔
یاد رہے انجمن حمایت اسلام کے اجلاس میں اقبال نے جب شکوہ پڑھی تو لوگ پھولوں کی جھولیاں بھر کر لاے اور علامہ پر گل پاشی کی اقبال کے والد گرامی بھی اس محفل میں موجود تھے۔ سیرت اقبال میں سر عبدالقادر نے لکھا ہے اقبال کے والد بیٹے کی کامیابی پر نازاں اور تاثر کلام سے آبدیدہ تھے۔

شکوہ کے آغاز میں اقبال نے مسلمانوں کی جانب سے اللہ سے کلام کیا ہے
شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہ درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
ساز خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء ارباب وفا بھي سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھي سن لے

ان شعار کا جواب، جواب شکوہ کے آخری اشعار میں دے کر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو لاجواب کردیا گیا ہے
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
اے مسلم : اگر تو صاحب ایمان ہوجائے تو تیری عقل تیری ڈھال بن جائے ،جو تجھے ہر غلط اقدام سے روک لے
اور عشق (یعنی تیرا ایمان ) تیرا اسلحہ ہے ، (اس لئے اپنے ایمان کو زندہ کر )
تو درویش ( یعنی بندہء دنیا تو نہیں ،لیکن دنیا کا خلیفہ ہے ) اور تو
کسی ایک خطہ پر خلافت کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا پر خلافت و حکومت کیلئے وجود میں آیا ہے ،

ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
اے مسلم : تو اس جہاں میں اگر اللہ کی کبریائی ،اور حاکمیت کیلئے کوشاں ہو جائے تو دنیا سے باقی تمام ازم اور نظام پاش پاش ہوجائیں
اور اگر تو مسلم حقیقی بن جائے تو تیری ہر تدبیر تیرے لئے کار آمد بن جائے،

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
اس آخری شعر کا آسان سا مفہوم یہ کہ اللہ فرماتے ہیں :
اے مسلم : تو اگر میرے نبی مکرم ﷺ کا وفادار بن جائے ،تو یہ دنیا جس پر کبھی تیری حکومت و شوکت تھی
اور جو اب چھن چکی ،نہ صرف وہ پھر تجھے واپس مل سکتی ہے ، بلکہ ہم ہر فیصلہ میں تیری ضرورت و عزت کا خیال رکھیں گے

کیا ہم قابلِ اعتماد یا محبِ وطن ہیں ؟

اتوار 3 نومبر 2017ء کو صحافی طاہر خلیل نے فیض آباد انٹر چینج پر 6 نومبر سے دِیئے جانے والے 22 روزہ دھرنے کے اسباب کا تجزیہ شائع کیا جو ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فِکر دیتا ہے

الیکشن ایکٹ 2017میں اِنتخابی اُمیدوار کیلئے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی سے جو ہیجانی کیفیت پیدا ہوئی تو کچھ حلقوں نے اسے بین الاقوامی سازش اور ریشہ دوانیوں کے سلسلے تک پھیلا دیا۔ معاملہ جو کاغذات نامزدگی فارم میں ترمیم سے شروع ہوا اس نے پاکستان کی سیاسی دانش کےلئے کئی چیلنجز پیدا کر دیئے جس میں تدبر و فراست ، حکمت و بصیرت اور دُور اندیشی کی بجائے وقتی مفاد ، سیاسی خود غرضی اور عاجلانہ فیصلوں نے نہ صرف سیاسی اور جمہوری نظام کو کمزور کیا بلکہ بے بنیاد پراپیگنڈے کی بنیاد پر منفی سیاست کو فروغ دیا ۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں اِنتخابی اُمیدوار کے حلف نامہ میں الفاظ کی تبدیلی کے تنازع کے ضمن میں حقائق کی تلاش کےلئے جب پارلیمانی ریکارڈ کا جائزہ لیاگیا جو متعلقہ پارلیمانی کمیٹی کے ہر رکن کے پاس دستیاب ہے تو جھوٹ اور سچ میں فرق نمایاں ہوگیا ۔ بات محض سمجھنے کی ہے

کاغذات نامزدگی کیلئے 4 طرح کے فارمز ہوتے ہیں ۔ فارم نمبر 9 جنرل سیٹس کےلئے ، 9 اے مینارٹی ، 9 بی خواتین کی مخصوص نشستوں اور فارم نمبر20 سینٹ کے امیدواروں کےلئے مختص ہیں ۔ الیکشن ایکٹ 2017 کا مقصد انتخابات سے متعلق 9 قوانین کو مربوط اور آسان کرکے یکجا کرنا تھا ۔ 16مئی 2017کو الیکٹورل ریفارمز مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کاغذات نامزدگی فارم 9 الیکشن ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ قبل ازیں یہ الیکشن کمیشن رولز کا حصہ تھا

ریکارڈ کے مطابق 17مئی 2017کو اس وقت کے لاء منِسٹر زاہد حامد کی زیر صدارت انتخابی اصلاحات کی سب کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں فارم 9 پر بحث ہوئی اور جو فیصلے ہوئے وہ ریکارڈ کا حصہ بنے ۔ فارم کے اندر متعدد ایسی شقیں موجود تھیں جو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے سکوپ سے باہر تھیں ۔ ان میں سے کئی شقیں غیر جمہوری حکمرانی دور میں شامل کی گئی تھیں ۔ ان تمام کا آرٹیکل 62 اور 63 سے تعلق نہیں بنتا تھا ۔ ممبران کی طرف سے استدلال کیا گیا کہ یا تو آرٹیکل 62، 63 کی سار ی شقیں شامل کر دی جائیں یا پھر ارکان کو سارے آئین پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنانے کی شق شامل کر دی جائے ۔ ریکارڈ کے مطابق سب کمیٹی کی 89 ویں میٹنگ 18مئی 2017ء کو ہوئی ۔ جس میں فارم 9 ، 9 اے اور 9 بی زیر غور لائے گئے ۔ اور 23 مئی 2017ء کے اجلاس میں سینٹ امیدواروں کا فارم 20 زیر بحث آیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سینٹ امیدواروں کا فارم بھی قومی اسمبلی امیدواروں کے فارم کی طرز پربنا دیا جائے ۔ فارم 9 ، 9 اے ، 9 بی اور 20 کو پوری سب کمیٹی کے اندر زیر بحث لایاگیا ۔ پارلیمانی کمیٹی کے چند ارکان یا کسی ایک رکن کو ان فارمز کے مسؤدے کی تیاری کی ذے داری نہیں سونپی گئی تھی

سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں جو 13 جون2017ء کو ہوا یہ سب کمیٹی کا آخری اجلاس تھا ۔ 16رکنی سب کمیٹی میں پی پی پی ، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، ایم کیوایم ، جے یو آئی (ف) سمیت دیگر جماعتوں کے اراکین موجود تھے ۔ ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارمز کی پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکن یا چند ارکان نے ری ڈرافٹنگ نہیں کی تھی ۔ بلکہ پارلیمانی سب کمیٹی نے جو 16 ارکان پر مشتمل تھی کاغذات نامزدگی فارمز پر چار مختلف میٹنگز کے دوران غور کرکے سفارشات پیش کی تھیں اور اس کے نتیجے میں تیار ہونے والا نیا فارم سب کمیٹی کے 93 ویں اجلاس میں پیش کر دیا گیا ۔ پارلیمانی سب کمیٹی نے اپنے 93 ویں اجلاس میں اس پرغور کرکے الیکشن بل 2017 کا ڈرافٹ مرکزی کمیٹی کو بھیج دیا ۔ ریکارڈ کے مطابق الیکشن رولز کے تحت 30 کے لگ بھگ فارمز موجود تھے جن میں سے کاغذات نامزدگی فارمز نمبر 9، 9اے، 9بی اور 20 سمیت باقی تمام فارمز کا سب کمیٹی نے خود جائزہ لیا تھا

مرکزی پارلیمانی کمیٹی اور سب کمیٹی میٹنگز کی تمام تفصیلات ریکارڈ پر موجود ہیں اور یہ تاثر کہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگی فارم پارلیمانی سب کمیٹی کے کسی ایک ممبر یا چند ممبران نے ری ڈرافٹ کئے حقائق کے منافی اور بے بنیاد پروپیگنڈے پر مبنی ہے ۔ اگر نامزدگی فارم کو ری ڈرافٹ کرنے کا کام کسی رکن یا گروپ وغیرہ کو دیا گیا ہوتا تو ریکارڈ کا ضرور حصہ ہوتا

اظہار تاسف کے ساتھ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حالیہ دنوں میں ہم ایک ایسی قوم کے طور پر اُجاگر ہوئے جو خلاف حقائق ، بے معنی اورلغو داستانوں پر انحصار کرکے فیصلے کرتی ہے اور کسی کو بھی صفائی اور دفاع کا حق دیئے بغیر ملزم اور مجرم ثابت کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس سارے عمل کو کسی طور پر بین الاقوامی سازش کا راگ الاپ کر اپنے ممبران کے دین ، عقیدے اور مذہب پر انگلیاں اُٹھانے کے ساتھ ان کی حُب الوطنی پر بھی سوال کھڑے کر دیئے

ریکارڈ سے عیاں ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کے بعد قومی اسمبلی نے بل پاس کرکے سینیٹ میں منظوری کےلئے بھیجا اور پہلی مرتبہ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے یہ نکتہ اٹھایا کہ امیدوار کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ڈیکلریشن کے عنوان میں Solemnly Swear کی جگہ Solemnly Affirm نے لے لی ہے ۔ اسے سابقہ حیثیت میں بحال کیاجائے (ختم نبوت کے ڈیکلریشن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی) ۔ اعتزاز احسن سمیت اپوزیشن کے 35 ارکان سینٹ نے حافظ حمد اللہ کے مؤقف کی مخالفت کی تھی جبکہ حکومت کے 13 ارکان کے ساتھ لاء منسٹر نے سینیٹرحافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمائت کی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سینٹ کے 35 ارکان جنہوں نے زاہد حامد کے پیش کردہ بل کی حمائت کی اور وہ سینیٹر حافظ حمد اللہ کے موقف کی تائید نہ کر سکے کیا وہ بھی کسی ”بین الاقوامی سازش“ کا حصہ بن گئے تھے ؟ اگر ایسا نہیں تو پھر سارے معاملے کوبد نیتی پر مبنی یا سازش کیسے قرار دیا جاسکتا ہے ؟ بعض حلقوں کا تاءثر ہے کہ ایک عدالتی شخصیت بھی اس پروپیگنڈے سے متاثر ہوئی

تاہم اس واقعے سے ہم نے سیکھا کہ ہم بحیثیت قوم مصدقہ اطلاعات پر بھروسہ کرنے کی بجائے قیاس آرائیوں ، افواہوں اور سوشل میڈیا کے پھیلائے ہوئے منفی تاثرات کو سچ جان کر کسی بھی بے گناہ کو مجرم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیتے ہیں