Category Archives: خبر

جہاں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور امن پسند بستے ہیں

کراچی کے مختلف علاقوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات میں خاتون سمیت3افراد ہلاک اور رینجرز اہلکار سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے،جبکہ نا معلوم افراد کی جانب سے11 مسافر بسوں ایک ٹریکٹر اور لوڈنگ ٹرک کو بھی کو آگ لگادی گئی۔ ہنگامہ آرائی کا آغاز گارڈن میں واقع شو مارکیٹ کے قریب روٹ نمبر پی ون کی مسافر بس کو آگ لگاکر جلانے کی کوشش کے ساتھ ہوا،جس کے نتیجے میں بس میں سوار11بچوں کی والدہ آمنہ زوجہ حاجی رزاق جھلس کر ہلاک اور ایک بچے اور خاتون سمیت دو افراد ذخمی ہوگئے۔ کھارادر کے علاقے مچھی میانی میں ماشا اللہ کوچ، گلستان جوہر میں محکمہ موسمیا ت کے دفتر کے قریب مسافر ،شاہ فیصل کالونی میں ایک ٹریکٹر دو بسوں،صفورا گوٹھ ،طارق روڈ ،مومن آباد ،عید گاہ،نارتھ کراچی،میں بسوں کوآگ لگادی ۔گلستان جوہر میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے باعث ہوٹل کامالک44 سالہ ناظر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے بعد جمشید کوارٹرز کا رہائشی25 سالہ نعمان ولد حبیب ،،لانڈھی سیکٹر36 بی کے علاقے میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے22سالہ عمران،تین ہٹی کے علاقے میں26سالہ ایمان اللہ کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرتے ہوئے زخمی کردیا۔ نارتھ کراچی کے علاقے میں نامعلوم سمت سے چلنے والی گولی لگنے سے رینجرز اہلکار40 سالہ مہر علی زخمی ہوگیا، ناظم آباد نمبر1،پٹیل پاڑہ اور بڑا بورڈ کے علاقے میں نامعلوم افراد نے ہوائی فائرنگ کی اور گاڑیوں پر پتھراؤ بھی کیا، جس کے بعد دکانیں بند اور ٹریفک معطل ہوگیا ۔ ہنگامہ آرائی کے واقعات صبح کے اوقات میں بھی جاری ہیں جس کے باعث مختلف علاقوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے،جبکہ متاثرہ علاقوں میں سٹرکوں پر ٹریفک بھی معمول سے کم ہے اور امتحانات دینے والے طالبات کو ٹرانسپورٹ کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
بشکریہ ۔ جنگ

آپریشن جاری ہے

آہ ظالم ڈاکٹر شاہد مسعود ۔ کیوں پھر یاد کرا دیا مجھے وہ وقت جب میں دس دن اور دس رات بالکل نہ سویا تھا اور پھر آخری دن 16 دسمبر 1971ء کو ٹرین میں کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ریڈیو سنتے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے بہت بلند ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے مجھے زمین پر پھینک دیا ہو ۔ اب تو 1970ء کا ایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے گذرنے لگا ہے اور کتنی مماثلت ہے آج کے دور کی اس دور کے ساتھ

ڈاکٹر شاہد مسعود کی تحریر سے اقتباسات
ہم خود فریبی اور منافقت کے نتیجے میں آدھا ملک گنوادینے اور گزرے باسٹھ برسوں کے دوران بارہا اپنے ہی ہم وطنوں کو فتح کر لینے کی ناکام کوششوں کے باوجود، دُنیا بھر میں ذلیل و خوار اپنا کشکول لے کر گھومنے اور جہاں کی پھٹکار سننے کے بعد یہاں تک تو فخریہ اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ ”میں طویل غیر ملکی دورے پر زیادہ بھیک مانگنے گیا تھا!!“ لیکن کوئی واضح راہ متعین کرنے، نظریہ تراشنے یا حکمتِ عملی طے کرنے کو تیار نہیں

صوبہ سرحد پختونخواہ میں بھر پور عسکری کارروائی جاری ہے! سینکڑوں شدت پسندوں کے مارے جانے اور لاکھوں انسانوں کے بے گھر ہو جانے کی خبریں ہیں! یہ ”شدت پسند“ کون ہیں ؟ میں نہیں جانتا کیونکہ کچھ عرصہ قبل یہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے مدد لیتے ملک دشمن عناصر تھے ! پھر اچانک ممبئی پر ہوئے حملوں کے بعد اِن ”بھارتی ایجنٹوں“ نے کسی بھی جارحیت کی صورت بھر پور ملکی دفاع کا اعلان کرتے، پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ پھر یہی طے ہوا تھا کہ مطالبہ صرف عدل و انصاف کی فراہمی ہے، اس لئے صرف مفاہمت ہی بہترین حکمت عملی ہے! اور واحد رستہ چونکہ معاہدہ ہے، اس لئے بھر پور ”قومی یکجہتی“ کا اُسی طرح مظاہرہ کرتی قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر انتہائی سرعت سے معاہد ہ پر دستخط کردیئے تھے جس طرح اب سر جھکائے ایک بار پھر ”اعلیٰ قومی مفاد کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے “اور” سیاسی بلوغت کا اظہار“ کرتے ، اُس کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت کردی ہے!

اور پھر یہ قومی علماء و مشائخ کانفرنس؟ سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال اور بے مقصد قرار دادیں اور اپیلیں! باسٹھ برسوں میں نہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات کی دُرست تشریح پر اتفاق کرسکے اور نہ علامہ اقبال کے اشعار کے مفہوم پر اتحاد! قوموں، فرقوں اور مسالک کی تقسیم در تقسیم اور ہر دور کی نئی منطق! جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقد ہوتی علماء و مشائخ کانفرنسیں جہاد فی سبیل اللہ کا درس دیتی دُنیا کے ہر کونے میں باطل کو مٹادینے کیلئے پکارا کرتی تھیں اور اب یہی حکو متی سر پرستی میں ہوتی محافل اُس کے برعکس اقدام کو عین شریعت قرار دے رہی ہیں!! اور حیران کن امر یہ کہ ذرا … مدعوئین اورمقررین کے ناموں کی فہرستیں ملاحظہ کیجئے!

روئیداد خان نے کہا کہ برسوں پہلے اُنہوں نے ہجرت کرتے بنگالیوں کو بھارتی سرحد کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ جنرل حمید گل نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے کہا کہ اگر آج بھی سرحد پار امریکہ نہ موجود ہوتا تو شاید پختون، ہماری عسکری کارروائی کے بعد سرحد کا ہی رُخ کرتے اور پھر … جنرل حمید گل نے ایک عجب جملہ کہا ”ہوسکتا ہے یہ ظلم آگے چل کر … کسی پختون مکتی باہنی کو جنم دے دے“۔

”آپر یشن جاری ہے ۔ لا تعداد شدت پسند مارے جاچکے ہیں۔ بے مثال کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ دشمن کے دانت کھٹے کردیئے جائیں گے۔ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ تمام سازشیں ناکام بنادی جائیں گی۔ سیاسی قیادت متحد ہے،بھارت ہمارا دوست ہے۔ قوم بیدار ہے۔ علماء یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں، ہر اُٹھنے والی آنکھ پھوڑ اور بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ سب ٹھیک ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ جتنا زیادہ ہو سکے ، چندہ ، خیرات اور امداد دیں تاکہ آپ کے بھائیوں کی مدد ہوسکے“ ۔ مفتی رفیع عثمانی کو نہیں صاحبزادہ فضل کریم کو سنیے۔ ریڈیو پاکستان اب بھی یونہی گونج رہا ہے کہ آپریشن جاری ہے۔

دوستی یا دُشمنی ۔ ہوشیار باش

پاکستانی ایٹمی وار ہیڈز کنٹرول میں لینے کے لیے امریکا نے ایک منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت امریکا پاکستان کے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرے گا۔ یہ آپریشن امریکا کا ایک انتہائی خفیہ کمانڈو یونٹ کرے گا جس کو جوہری ہتھیاروں پر قبضے کی تربیت دی گئی ہے۔ یہ خفیہ کمانڈو یونٹ اس وقت افغانستان میں موجود ہے اور ایکشن کرنے کے لیے صدر اوباما کے حکم کا منتظر ہے۔

یقیناً امریکا ایک مربوط سازش کے تحت پاکستان کو اس کے جوہری ہتھیاروں سے ہر حال میں محروم کرنے پرتلا ہواہے۔ بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ پاکستان کے دوست اور ہمدرد کا روپ دھار کر امریکا اپنی چالیں چل رہا ہے۔ دوسری طرف ہم بڑی تیزی سے اس کی طرف سے پھیلائے گئے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اور آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اور ایٹمی پروگرام شاید پہلے کبھی اتنے خطرہ میں نہ تھے۔

پورا مضمون یہاں کلک کر کے پڑھیئے

دہشتگردی کی آبیاری کیسے ہوتی ہے

پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے دوراقتدار کے پہلے سال میں عام شہریوں کو کلاشنکوف کے 12000 لائسنس جاری کئے ۔ یہ لائسنس زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ کی سفارش پر جاری کئے گئے ۔ مشرف کے زیرسایہ (ق) لیگ کی حکومت نے اپنے 5 سالہ دوراقتدار میں اس خطرناک اسلحے کے 2000سے کم لائسنسوں کا اجراء کیا تھا ۔ وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم احمد قریشی نے بتایا کہ وزیراعظم نے کلاشنکوف کے 10000جبکہ انہوں نے 2000 لائسنس جاری کئے

چند ماہ قبل وزیراعظم نے وزیرمملکت برائے داخلہ تسنیم قریشی کو اختیار دے دیا تھا کہ وہ وزیراعظم اور مشیرِ داخلہ رحمن ملک کی منظوری کے بغیر لائسنسوں کا اجراء کرسکتے ہیں ۔ پہلے یہ اختیار صرف وزیراعظم کے پاس تھا ۔

وزیر مملکت برائے داخلہ تسنیم احمد قریشی نے کہا کہ پستولوں [Pistols] کے لائسنس کیلئے 15000درخواستیں جبکہ دیگر اسلحہ کے لائسنس کیلئے بھی وزارت داخلہ کے پاس 2500درخواستیں زیرالتواء ہیں ۔ وزیرمملکت نے کہا کہ کلاشنکوف کے لائسنس ان لوگوں کو جاری کئے جارہے ہیں جنہیں اپنی حفاظت کیلئے اسلحے کی ضرورت ہے

بشکریہ ۔ جنگ

Click on “Reality is Often Bitter” and see that conditions for marriage written in Qur’aan are the same as were written in the Bible write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com

ملت کے رہبر کون ؟

میرے وطن میں باتیں کرنے والے تو بہت ہیں لیکن خاموشی سے پہاڑ جیسے کام کرنے والے کچھ لوگ بھی ہیں کہ اللہ نے دشمنوں کی تمامتر سازشوں اور حکمرانوں کے گُلچھڑے اُڑانے کے باوجود شاید انہی کی وجہ سے اس مملکتِ خدا داد پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے اور یہی لوگ ملت کے اصل رہبر ہیں ۔ ایسا ہی ایک خاندان صوبہ سرحد کے ایک قصبہ تراکئی میں ہے جنہوں نے نقل مکانی کر کے آنے والے صرف اپنے عزیز و اقارب کو ہی نہیں ہزاروں غیروں کو بھی اپنے گھروں میں پناہ دے رکھی ہے اور ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں

تراکئی کا ایک مالدار سیاسی خاندان ہے جس کے سربراہ کا نام لیاقت ہے ۔ اس خاندان نے اپنے عزیز و اقارب کے تعاون سے مختلف علاقوں میں اپنی ذاتی زمینوں پر 7 کیمپ بنائے ہیں اور ان میں کل شام [15 مئی] تک 15000 افراد کو پناہ دی ہے اور مزید 500 کو اپنے گھروں میں رکھا ہے ۔ یہ خاندان ان مہمانوں کی تمام ضروریات پوری کر رہا ہے ۔ انہیں صبح کا ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا ۔ تین وقت چائے ۔ پینے کا ٹھنڈا پانی مہیا کیا جا رہا ہے ۔ مہمانوں کی طبی ضروریات کیلئے ڈاکٹر ۔ نرسیں ۔ دوائیوں کی سہولت موجود ہے ۔ دن رات ایمبولینس اور دوسری ٹرانسپورٹ بھی استعمال کیلئے موجود رہتی ہے ۔ اس پر بھی لیاقت نے کہا “مجھے افسوس ہے کہ میں اپنے ان مہمانوں کو صبح کے ناشتہ میں پراٹھے مہیا نہیں کر سکا کیونکہ ان کی تیاری میں وقت بہت لگتا ہے “۔ کیمپوں کی تفصیل یہ ہے ۔ 2 شیوا اڈا میں ۔ ایک تولاندئی میں ۔ ایک بازارگئی میں اور 3 تراکئی میں ہیں ۔ پہلے دن 2 کیمپ تیار کئے گئے تھے جو بڑھ کر 7 ہو چکے ہیں ۔ اول روز سے ان تمام کیمپوں میں لگے ہر خیمے میں بجلی اور بجلی کا پنکھا موجود ہیں ۔ گھروں میں جہاں مہمانوں کو رکھا گیا ہے ہر کمرے میں بجلی اور پنکھا موجود ہیں

ایک طرف حکومتی کاروائیوں کی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ اشتہار بازی پر زور ہے اور حقیقت سے بہت زیادہ بتایا جا رہا ہے ۔ اسی طرح ایم کیو ایم نے کراچی سے ایک ٹرک بھیجا تو دن رات چھوٹے چھوٹے وقفوں سے ہر ٹی وی چینل پر اسے دکھایا جاتا رہا ۔ دوسری طرف یہ بلند مرتبت اور بلند ہمت خاندان ذرائع ابلاغ کے نرغے میں آنا پسند نہیں کرتا ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ وہ سب کچھ انسانیت کی خدمت کیلئے کر رہے ہیں جو ان کا بحثیت انسان اور مسلمان فرض ہے اسلئے دکھاوا سے اپنا عمل ضائع نہیں کرنا چاہتے

یہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے

قتل وغارت میں ملوث دوہزار افراد کی فہرست وفاقی حکومت کو پیش
کراچی(جاوید رشید) ملک کے ایک بڑے حساس ادارے نے ایک سیاسی جماعت اور اسکی ذیلی تنظیموں کے دوہزار سے زائد ایسے افراد کی فہرست تیارکی ہے جو دیگر سیاسی کارکنوں کے قتل میں ملوث ہیں اور یہ فہرست مرکزی حکومت کے سپرد کی ہے، ذرائع کے مطابق 101 سیاسی کارکنوں کے قتل ، جلاؤ ، گھیراؤ، املاک سے بیدخل کرنے اور مارنے جیسے جرائم ثبوت کے ساتھ حکام کو دیئے گئے ہیں جبکہ سٹی کورٹ میں وکلاء کو جلائے جانے کے واقعات کی مکمل رپورٹ اور فلمیں حکام بالا کے پاس پہنچ گئی ہیں،

حساس اداروں نے اس تنظیم کی جانب سے کراچی میں لوگوں کو مارنے کی بھی تحقیقاتی رپورٹیں مقتدر حلقوں کو روانہ کردی ہیں جبکہ اس کے دفاتر میں ہونے والی میٹنگز کی ٹیپ اور خطرناک منصوبوں کے بارے میں بھی ہر سطح پر آگاہی دے دی ہے، ذرائع کے مطابق اس تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانچ پڑتال کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے،جن کے باہر کی دنیا سے خفیہ روابط ہیں جبکہ اس تنظیم کے ایسے سرکردہ لوگوں پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے جن کے شہر کے بلڈرز سے تعلقات ہیں ، اسلام آبادکے حکام اس سلسلے میں ان غیر ملکی سفیروں کو بھی اعتماد میں لیں گے جو انکی قیادت سے ملتے رہتے ہیں

نادرا ۔ نا اہلی اور دہشتگردی

نادرا حکام نے انکشاف کیا ہے کہ مختلف طریقوں سے بنوائے گئے ساڑھے دس لاکھ جعلی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ بلاک کر دیئے گئے ہیں جبکہ مزید 1 لاکھ 4 ہزار جعلی کمپیوٹرائزڈ کارڈز کا پتہ لگایا گیا ہے جو اب بھی شہریوں کے زیراستعمال ہیں ۔ ان میں سے لاکھوں کارڈز 2005 میں ہونے والے بلدیاتی اور 2008 میں عام انتخابات میں بھی استعمال ہوئے۔ اب بھی ایک لاکھ سے زائد غیرقانونی ذرائع سے بنوائے گئے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ شہریوں کے زیراستعمال ہیں جو بینک اکاؤنٹس کھلوانے، موبائل فون کی سمز کے اجراء اور پاسپورٹس اور دیگر اہم دستاویزات بنوانے میں بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ دہری شناخت کے حامل ان شناختی کارڈز کے بارے میں جدید نظام کے ذریعے شناخت ہو چکی ہے اور ان افراد کو یہ شناختی کارڈ واپس کرنے کیلئے تین ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے ورنہ ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرم کے الزام میں مقدمات قائم کئے جائیں گے اور اگر اس میں نادرا کے عملے کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تو ایسے افراد کو نہ صرف نوکری سے فارغ بلکہ قانونی کارروائی بھی کی جا ئے گی۔

کچھ سوال
کیا یہ سراسر نااہلی نہیں ہے ؟
جعلی کارڈوں کی واپسی کیلئے مزید تین ماہ کیوں دیئے گئے ہیں ؟
ایسے لوگوں کے خلاف قانون فوری طور پر کیوں حرکت میں نہیں لایا جا رہا ؟
کیا ایسا کسی خاص مقصد کیلئے کیا گیا تھا جو ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہوا ؟
کیا نادرا دہشتگردی کے فروغ میں مددگار نہیں ؟