Category Archives: خبر

خونخوار رشوت خور کون ؟

آج کے اخبارات ميں مندرجہ ذيل خبر سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کونسا حکمران ہے جو رشوت نہ ملے تو بندے مروا ديتا ہے

فرانس میں کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرنے والے جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ پاکستان کو اگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔گزشتہ سال فرانس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 1995ء میں پاکستان کو آگوسٹا آبدوزوں کی فروخت کے سودے میں غیر قانونی طور پر کمیشن دیا گیا تھا اور 2002ء میں کراچی کے ایک ہوٹل کے باہر فرانسیسی انجینئروں پر خود کش بم حملہ پاکستان اور فرانس کے اعلیٰ حکام کے درمیان کمیشن کی ادائیگی پر اختلافات کے بعد کیا گیا تھا ۔ پیرس کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے وکیل صفائی اولیور مورس نے کہا کہ جج نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ آبدوزوں کے سودے میں رشوت دی گئی تھی ۔ کراچی بم دھماکے کی تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آبدوزوں کی خریداری میں رشوت کی 8کروڑ ڈالر سے زائد رقم مبینہ طور پرپاکستانی سیاستدانوں اور فوجی افسروں کو اداکی گئی

عيسائی برطانوی شہزادہ اور ہم مسلمان

نیو یارک میں ہونے والی بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس میں برطانوی شہزادے چارلس نے گلوبل وارمنگ کے باعث ہونے والی تبدیلیوں اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے کے لئے عالمی ماہرین پر زور دیا ہے کہ قرآن میں بتائے گئے احکامات پر عمل کر کے دنیا کو کسی بڑے نقصان سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے

ہمارے ہموطن مسلمانوں ميں اونچا بولنے والے کہتے ہيں کہ
اسلام کے قوانين 14 سو سال پرانے ہيں اسلئے موجودہ ترقی يافتہ دور ميں نافذ العمل نہيں
اسلام پر عمل انتہاء پسندی کو جنم ديتا ہے

امريکا ميں آزادی اظہارِ رائے ؟؟؟

ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور
يا
صريح منافقت

اور يہ بھی ديکھئے کہ واشنگٹن پوسٹ اس منافقت کو کس طرح جائز قرار ديتا ہے

وائٹ ہاوس کی سینئرترین رپورٹر 89 سالہ خاتون صحافی ہیلن تھامس جو امریکی صدرجان ایف کینیڈی کے دورِ صدارت سے وائٹ ہاؤس کی صحافتی ٹیم میں شامل تھيں کو اسرائیل مخالف بیان دینے پر سخت تنقید کے بعد اچانک ريٹائرڈ کر دیا گیا ۔ ہیلن نے غزہ جانے والے ترکی اور آئرلینڈ کے امدادی بحری بیڑوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تھی اورسخت رویہ اختیارکرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فلسطین چھوڑدیں ۔ انہوں نے مشوردیا تھا کہ اسرائیلی ان ممالک کو لوٹ جائیں جہاں سے آئے تھے يعنی وہ جرمنی ، پولینڈ اور امریکا میں اپنے گھروں کو چلیں جائیں

ہیلن تھامس طویل عرصے تک وائٹ ہاؤس کے یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل کی نامہ نگار کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں اور آج کل ایک اخبار کے لئے کالم بھی لکھ رہی ہیں

ہلاک شُدہ پاکستانی جنگجو ؟

فرضی جھڑپیں، حراستی گمشدگیاں اور ماورائے عدالت ہلاکتیں گذشتہ 20 برسوں سے کشمیر میں روز مرہ کا مشاہدہ گھر گھر کی کہانی اور گلی گلی کی داستان ہیں ۔ وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بستی بستی لوگوں کو اس قسم کی شکایتیں ہیں لیکن شہر ناپرساں جسے کشمیر کہتے ہیں میں طوطی کی آواز پر کون کان دھرتا ہے ۔ البتہ 2007ء میں فرضی جھڑپوں اور ہلاکتوں کے سلسلے سے جس طرح ڈرامائی انداز میں نقاب سرک گئی اس نے ان بے بس گھرانوں اور بے نوا لواحقین کو ضرور یہ اُمید دلادی ہے کہ کسی دن وہ بھی اپنے ”گمشدہ” عزیزوں کی ”آرام گاہوں” تک پہنچیں گے

کوکرناگ کے عبدالرحمان پڈر کے اہل خانہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں پولیس تھانوں ، چوکیوں اور فوجی و نیم فوجی کیمپوں کی خاک چھاننے کے بعد اتفاقیہ طور پر 2007ء کے ابتدائی ایّام میں شادی پورہ (گاندربل) کی پولیس چوکی میں ایک ”ہلاک شدہ پاکستانی جنگجو” کی تصویر کو دیکھ کر چونک گئے ۔ تصویر کو دیکھ کر ہی 70 سالہ غلام رسول پڈر کو یقین ہوگیا کہ یہ ان کے بیٹے کی تصویر ہے۔ ”میں اندھا بھی ہوتا، تو بھی اپنے بچے کو پہچان لیتا”

غلام رسول پڈر نے اخباری نمائندوں کو بتایا۔ یہ نقطہ آغاز تھااور اب تک معاملے کی مزید چھان بین کے نتیجے میں ایسی نعشوں کو قبروں سے کھود نکالا گیا ہے، جنہیں گاندربل کی ٹاسک فورس نے فرضی جھڑپوں میں مار ڈالنے کے بعد پاکستانی جنگجو قرار دیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان کی قبروں پر کتبے بھی لگائے گئے تھے جن میں ان کے نام اور پاکستان میں ان کی جائے سکونت بھی درج تھی۔ مثلاً عبدالرحمان پڈر کی قبر پر لگائے گئے کتبے میں ان کی شناخت یہ درج کی گئی تھی: ابو حافظ ساکن ملتان پاکستان۔

فرضی جھڑپ ، فرضی نام اور فرضی سکونت لیکن زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ کشمیر یا اس سے باہر کسی بھی رجل رشید اور بھلے مانس نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ جب پاکستانی جنگجو جاں بحق ہوجاتے ہیں تو ان کے نام ا ور دیگر تفصیلات کہاں سے نازل ہوتی ہیں؟ کیا وہ اپنا بایوڈاٹا [Biodata] یا سی وی [Curriculm Vitae] جیبوں میں لئے پھرتے ہیں

اب تک گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کے ہاتھوں ہوئی ہلاکتوں میں سے محض5 معاملات نے تفتیش اور تحقیق کی روشنی دیکھی ہے جبکہ گاندربل کے عوامی حلقوں کا اصرار ہے کہ ایسی ہلاکتوں کی تعداد سو سے بھی متجاوز ہے۔ صرف بٹ محلہ سمبل کے قبرستان میں 55 قبریں ہیں ان میں سے ایک عبدالرحمان پڈر آف لارنو کوکرنا گ (پولیس کے مطابق ابو حافظ آف ملتان) کی تھی، باقی54 قبروں میں کون مدفون ہیں، مقامی لوگ اس بارے میں اپنے شکوک اور تحفظات رکھتے ہیں۔ گاندربل کے ایک بزرگ شہری، عبدالعزیز صوفی نے کہا” گزشتہ 20سال میں پولیس نے جھڑپوں کے بعد سو سے زیادہ نوجوانوں کو پاکستانی جنگجو قرار دیا، عوام نے انہیں مذہبی رسوم کے مطابق دفن کیا لیکن کیا وہ واقعی پاکستانی تھے، اس پر کل بھی شک تھا، آج بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ واقعی جنگجو بھی تھے، یا عبدالرحمان پڈر ہی کی طرح نہتے شہری تھے جنہیں پیسے اور پرموشن کی لالچ میں پولیس والوں نے ان کو فرضی جھڑپوں کے ڈرامے رچا کر مارڈالا۔”

کیا وہ واقعی پاکستانی تھے یا پھر کیا وہ واقعی جنگجو تھے؟ سوال اتنا ہی نہیں ہے، ایک مقامی قانون دان کہتے ہیں ”اگر بالفرض کسی جنگجو کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے تو حراست میں لینے کے بعد اس کو قانونی چارہ جوئی کے بغیر قتل کرنا بھی ایک سنگین جرم ہے، جو سزا کا مستوجب ہے۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں کہ جنگجوئوں کو گرفتار کرکے پولیس یا فوجی و نیم فوجی دستوں نے زیر تعذیب ہلاک کرڈالا، اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے”

معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ جو کچھ سامنے آیا ہے، یہ محض نمونہ مشتے از خروارے یا Tip of the Ice Berg کہا جاسکتا ہے۔یہ محض گاندربل کی ٹاسک فورس پارٹی کی کارستانی ہے ،دیگر علاقوںسے ایسی شکایتیں روزمرہ موصول ہوتی رہتی ہیں۔ سرکاری طور پر بھی ایک ہزار سے زائد افراد کی ”گمشدگی” کا اعتراف کیا گیا ہے جبکہ غیر کاری تنظیمیں اس تعداد کو10 ہزار کے آس پاس بتاتی ہیں۔ حقیقت جو بھی ہو، عوام کو اور گمشدہ افراد کے لواحقین کو اس بات کا حق ہے کہ انہیں صحیح صحیح صورت حال کی جانکاری دی جائے

تحرير ۔ امتياز خان ۔ از مقبوضہ جموں کشمير

فاطمہ جناح پارک تو زندہ رہے

فاطمہ جناح پارک جو اسلام آباد ميں ہمارے گھر سے 5 منٹ کے پيدل راستہ پر ہے ۔ پرويز مشرف کے زمانہ ميں اسے بھی ماڈرن کرنے کی کوشش کے سلسلہ ميں وہاں ايسی تعميرات ہوئيں کہ باغ ايک بازار بننا شروع ہو گيا تھا ۔ مجبور ہو کر شہريوں نے عدالتِ عظمٰی کا رُخ کيا تھا

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ، فاطمہ جناح پارک میں تعمیرات کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔عدالت نے اس مقدمہ کی گزشتہ ماہ سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا ۔ عدالت نے پارک میں واقع غیرملکی چین کے ریستوراں [ميکڈانلڈ] اور تفریحی کلب [باؤلنگ] کو گرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے ریستوران کے مالک امین لاکھانی کا سپریم کورٹ کے بارے میں ریمارکس سے متعلق معافی نامہ قبول کرتے فیصلے میں کہا ہے کہ ان دونوں عمارتوں کے مالکان اپنے خرچ پر انہیں تین ماہ میں گرائیں گے۔سپریم کورٹ نے پارک میں نظریہ پاکستان کونسل کو لائبریری کیلئے الاٹ کی جانے والی زمین کی لیز بھی ختم کرنے کا حکم دیا

عدالت نے ان تعمیرات کی اجازت دینے والے سابق چیئرمین سی ڈی اے اور موجودہ سیکریٹری پٹرولیم کامران لاشاری کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے

ميکڈانلڈ کھانے والے کيا کھائيں گے
باؤلنگ کرنے والے کدھر جائيں گے

امريکا کا پالتو دہشتگر

کہاں ہيں انسانيت کا پرچار کرنے والے ۔ کيا امريکا اسی لئے ہر سال 3 ارب ڈالر اسرائيل کو ديتا ہے ؟

فرحان دانش کی تحرير پڑھ کر ميں اس امداد کی کاميابی کی دعا تو کر رہا تھا مگر ميرا دل کہہ رہا تھا ” يا اللہ خير ۔ ان لوگوں کے ساتھ اسرائيل صرف اتنی رعائت کر دے کہ انہيں واپس بھيج دے يا قيد کر لے”

نائين اليون کا بہانہ بنا کر امريکا اور اس کے حواريوں نے عراق اور افغانستان ميں لاکھوں بے قصور انسانوں کو بھون ديا اور مزيد بھون رہے ہيں اور اس کا دائرہ پاکستان تک بڑھا ديا ہوا ہے مگر امريکا اور برطانيہ کا ناجائز بچہ اسرائيل 1948ء سے متواتر دہشتگردی کر رہا ہے اور اس کے خلاف مذمت کی قرارداد بھی اسلئے منظور نہيں ہو سکتی کہ امريکا اُسے وِيٹو کر ديتا ہے ۔ اس ناجائز بچے کے پُشت پناہ امريکا برطانيہ روس اور يورپ کے کئی ممالک ہيں ۔ اور بدقستی ہے ہماری قوم کی کہ کچھ اپنے ہموطن بھی اسرائيل کی تعريف کئے بغير نہيں رہ سکتے

اب غزہ ميں محصور خوراک سے محروم فلسطينيوں کيلئے انسانی ہمدردی کے تحت امداد لانے والوں کو بھی اسرائيل نے اپنی دہشتگردی کا نشانہ بنا ديا ہے

اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لانے والے ” آزادی بیڑے” میں شامل کشتیوں پر غزہ کے ساحل سے نزدیک سمندر میں حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوجیوں کی ایک بڑی تعدادنے ہیلی کاپٹروں سے کشتیوں پر دھاوا بول دیا۔ اس دوران جھڑپوں میں 16 امدادی کارکن ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہوگئے ۔ اسرائیل نے اپنے دو فوجیوں کے زخمی ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔کشتیوں میں سوارکارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے کر اسرائیلی بحریہ نے امدادی کارکنوں کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس واحد آپشن اسدود کی بندرگاہ کا رُخ کرنا ہے تاکہ 10ہزار ٹن امدادی سامان میں سے کچھ کو اسرائیلی حکام غزہ منتقل کرسکیں ۔

صبح چار بجے ہونے والی اس کارروائی کا حکم اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے دیا۔قافلے میں ترکی اور یونانی سمیت چھ کشتیاں شامل ہیں ۔ اسرائیلی کارروائی کے بعد ترکی نے انقرہ میں اسرائیلی سفیر کو طلب کرلیا جب کہ مشتعل افراد نے استنبول میں اسرائیلی قونصل خانے پر دھاوا بولنے کی بھی کوشش کی