پاکستان کے وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کے دبئی سے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی ہے
کسی نے کہا ہے کہ دھمکی آمیز پیغام ملنے کے بعد ٹیم کو چھوڑ کر وہ آج صبح دبئی سے باہر چلے گئے ہيں
اور بہت کچھ کہا جا رہا ہے مگر سرکاری تصديق نہيں ہے
پاکستان کے وکٹ کیپر ذوالقرنین حیدر کے دبئی سے لاپتہ ہونے کی اطلاع ملی ہے
کسی نے کہا ہے کہ دھمکی آمیز پیغام ملنے کے بعد ٹیم کو چھوڑ کر وہ آج صبح دبئی سے باہر چلے گئے ہيں
اور بہت کچھ کہا جا رہا ہے مگر سرکاری تصديق نہيں ہے
محترمات قاريات و محترمان قارئين ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاة
ميں نے 28 ستمبر کو حادثہ پيش آنے سے چند روز پہلے ” يومِ يکجہتی جموں کشمير” کے حوالے سے ايک تحرير لکھ کر محفوظ کر لی تھی جو ايک کلک کے انتظار ميں تھی چنانچہ دن کے حوالے سے 24 اکتوبر 2010ء کو شائع کر دی تھی ۔ پھر 25 اکتوبر کو 3 مختصر سی تحارير شائع کرنا پڑيں ۔ اپنی غيرحاضری کا سبب پچھلے 3 دن سے تھوڑا تھوڑا لکھ کر محفوظ کرتا رہا جو آج پيشِ خدمت ہے
جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرما ديا اور قرآن شريف کی صورت ميں محفوظ ہے اس کے ساتھ جو آخری نبی اور رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی حديث ہے
وہ سچ ہے
جو اس کے مطابق نہيں وہ جھوٹ ہے
بے شک اللہ ہی ہے جس نے اس کائنات کو پيدا کيا اور اس کا نظام چلاتا ہے
ميں آج 28 دن کے بعد پھر لکھ رہا ہوں ۔ يہ بھی اللہ کی قدرت کا ايک بہت ہی معمولی سا کرشمہ ہے
ميں بہت احسانمند ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا اور شکر گذار اُن تمام محترمات اور محترمان کا جو ميری غير حاضری سے متفکر ہوئے بالخصوص اُن کا جنہوں نے ميری صحت کيلئے دعا کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو سدا صحتمند خوش اور خوشحال رکھے ۔ اللہ کريم آپ کا اور اُن کا بھی بھلا کرے جنہوں نے ميرے بارے ميں سوچا بھی نہيں
ميری حقيقت صرف اتنی سی ہے کہ ميں ايک ادنٰی سا انسان ہوں
جس نے ميرے متعلق سوچا وہ اُس کی خُوبی ہے اور جس نے ميرے لئے دعا کی وہ اُس کی دريا دِلی ہے اور جس نے توجہ نہ دی وہ کسی اہم کام ميں مصروف رہا ہو گا
ميں 28 ستمبر 2010ء کو الرشيد ہسپتال ميں ناک گلا کان کے ڈاکٹر [ENT Specialist] سے معائنہ کے بعد شام 7 بج کر 5 منٹ پر دوہری سڑک جس کی ہر سُو دو دو لينز [lane] ہيں کے کنارے کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ ٹريفک تھمے تو ميں سڑک پار کروں ۔ کوئی 5 منٹ بعد ميرے سامنے والی لين ميں ٹريفک بند ہو گيا ۔ ميں نے ديکھا کہ اس کے بعد والی لين ميں 4 کاريں آ رہی ہيں کہ ہر دو ميں کافی فاصلہ ہے ۔ ميں نے ايک لين عبور کی کہ دوسری لين ايک کار گذرنے کے بعد ميں آسانی سے پار کر لوں گا ۔ ايک لين پار کرنے کے بعد ميں نے ديکھا کہ اگلی کار تيز ہو گئی ہے ۔ ميں دوڑ کر جا سکتا تھا مگر خطرہ مول نہ ليا اور کھڑا ہو گيا ۔ اس کے بعد آنے والی دونوں کاريں بھی تيز ہو گئيں ۔ واپس جانا چاہا تو ميرے پيچھے بھی گاڑيا ں فر فر گذرنے لگيں ۔ ميں سفيد لکير پر کھڑا ہو کر داہنی طرف ديکھنے لگ گيا ۔ چھ سات منٹ بعد ميں نے ديکھا کہ 7 کاروں کے بعد فاصلہ دے کر ايک رکشا آ رہا ہے ۔ ميری گردن داہنے ديکھتے تھک گئی تھی ۔ گاڑياں ميرے سامنے اور پيچھے بھی ڈھائی تين فُٹ کا فاصلہ چھوڑ کر نکل رہی تھيں اسلئے کوئی خطرہ محسوس نہ کيا اور سامنے ديکھنے لگا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مجھے کچھ ياد نہيں
ميں نے آنکھ کھولی تو ميں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت [I.C.U = Intensive Care Unit] کے کمرہ ميں تھا اور گلو کوز کی ڈرِپ لگی ہوئی تھی ۔ سر اُٹھانے کی کوشش کی تو ميری چارپائی اور کمرہ گھومنے لگے اور ميں پھر غائب ۔ کچھ دير بعد ہوش آيا ۔ ميں نے پوچھا کيا بجا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ پہلی بار ميں نے 20 گھنٹے بيہوش رہنے کے بعد آنکھ کھولی تھی ۔ 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہنے کے بعد گھر آ گيا مگر اس ھدائت کے ساتھ کہ آرام سے ليٹے رہنا ہے اور سر کو بالکل نہيں ہلانا ۔ دوسرے مجھے اُٹھائيں اور لٹائيں گے اس طرح کہ سر کو کسی قسم کا ضعف نہ پہنچے ۔ آج 28 دن ہو گئے ہيں مگر سجدہ رکوع کرنے يا سر کو آگے پيچھے جھُکانے يا داہنے بائيں موڑنے کی ابھی اجاز ت نہيں ۔ نماز صرف اشاروں سے پڑھتا ہوں ۔ چکروں کو روکنے ۔ اعصاب کو مضبوط کرنے اور خون بڑھانے کيلئے دوائياں دی گئی ہيں جو کھا رہا ہوں ۔ خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے ہيموگلوبن 10 گرام رہ گئی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 6 دن سے کھانے والے کمرے ميں جا کر کھانا کھا رہا ہوں
حادثہ کے فوراً بعد چھوٹا بيٹا “فوزی” دبئی سے پہنچ گيا تھا ۔ وہ اپنی پوری چھٹی گذار کر ايک ہفتہ قبل ہی دبئی پہنچا تھا چنانچہ ايمر جنسی کی چھٹی پر آيا اور 6 دن بعد چلا گيا ۔ پھر بڑا بيٹا “زکريا” اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکا سے آ گيا اور 2 ہفتے رہا ۔ ان سے بڑا سہارا رہا ۔ دن رات ميرا خيال رکھتے رہے چنانچہ ميری بيوی اور بيٹی کو بھی کچھ آرام مل گيا
حادثہ کے 11 دن بعد کوئی عزيز ميری بيمار پُرسی کيلئے آئے تو بيٹا “زکريا” اور بيوی دونوں مجھے چھوڑ کر گئے اور 10 منٹ اُن کے ساتھ مشغول رہے ۔ مجھے واش روم جانا تھا ۔ ميرا موبائل فون سيٹ حادثہ کے وقت گم ہو گيا تھا ۔ دوسرے ٹيليفون سے بيٹے يا بيوی کے موبائل فون پر بات کرنا چاہی تو ان کے نمبر ہی ياد نہ آ سکے ۔ احساس ہوا کہ ميری ياد داشت کھو چکی ہے ۔ اللہ کی نہائت کرم نوازی ہے کہ ميں بتدريج تندرست ہو رہا ہوں ۔ اب آہستہ آہستہ باتيں ياد آ رہی ہيں ليکن حادثہ سے کچھ منٹ پہلے سے لے کر حادثہ کے بعد کا مجھے کچھ ياد نہيں
مجھے بتايا گيا ہے کہ ايک تيز رفتار موٹر سائيکل اچانک کہيں سے نمودار ہوا اور مجھے زمين سے اُچھال ديا ۔ ميں موٹر سائيکل کے اُوپر سے ہوتا ہوا پيچھے چہرے کے بَل سڑک پر گرا ۔ ميری پتلون دائيں طرف کی جيب کے پيچھے سے پھٹ کر موٹر سائيکل کے ساتھ اٹک گئی تھی اور موٹر سائيکل گرنے تک ميرا سر سڑک سے اور ٹانگيں شايد موٹر سائيکل کے ساتھ ٹکراتی رہيں پھر لوگ مجھے اُٹھا کر الرشيد ہسپتال لے گئے ۔ 15 منٹ کے اندر ريسکيو 1122 کی ايمبولنس آ گئی اور مجھے لاہور جنرل ہسپتال لے گئی جہاں ميری بہت اچھی ديکھ بھال کی گئی ۔ سی ٹی سکين کے مطابق
1 . Basal Skull Fracture
2. Incident Cyst at posterior Fossa
3. Calcification along superior Sajital Sinus
ميرے جسم پر 24 زخم اور 10 چوٹيں آئی تھيں جن ميں سے سر کی چوٹ سب سے شديد اور خطرناک کہی گئی جس کا نتيجہ مندرجہ ذيل ہو سکتا تھا
1 ۔ موت يا
2 ۔ مستقل بيہوشی [Coma] يا
3 ۔ بينائی ضائع يا
4 ۔ دماغی توازن بگڑنا [پاگل پن] یا
5. یاد داشت ختم ہو جائے گی
ميرے ماتھے پر تين گہرے اور لمبے زخم تھے جن پر کافی ٹانکے لگے
ناک پر شديد ضرب کی وجہ سے زيادہ خون نکلا جو پيٹ ميں جاتا رہا ۔ ميں نے بعد ميں خون کی 4 قے کيں
اُوپر والا جبڑا پيچھے چلا گيا تھا جس کی وجہ سے منہ نہيں کھُلتا تھا ۔ اب اللہ کے فضل سے ٹھيک ہے مگر سامنے کے دانتوں ميں ابھی بھی درد ہے ۔ زخم سارے تقريباً ٹھيک ہو گئے ہيں ۔ جہاں جہاں چوٹوں کی وجہ سے گلٹياں پڑی ہيں وہ موجود ہيں اور ہاتھ لگانے سے درد ہوتا ہے
۔ ناک ابھی تک سُن [Numb] ہے اور خوشبُو يا بدبُو کی حِس معطل ہے ۔ کان بند ہو گئے تھے ۔ کچھ دنوں سے تھوڑا سنائی دينے لگ گيا مگر عام آواز سنائی نہيں ديتی اور زيادہ اونچا کوئی بولے تو آواز پھٹ جاتی ہے اور کچھ سمجھ ميں نہيں آتا ۔ ايک خاص سطح پر بات سمجھ آتی ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہيں سر کو شديد چوٹ لگنے کی وجہ سے ايسا ہوا ۔ درست ہونے ميں مزيد چار پانچ ماہ لگيں گے
آئی سی يو کے انچارج ڈاکٹر ۔ سرجری کے پروفيسر ۔ ہسپتال ميں پروفيسر نيورولوجِسٹ [Neurologist] اور جس پروفيسر نيورولوجِسٹ کا ميں اب علاج کروا رہا ہوں [لاہور کا بہترين نيورولوجِسٹ] سب نے بار بار کہا “سر کی چوٹ بہت خطر ناک ہے مگر بچت ہو گئی ہے
مہربان قاريات اور قارئين سے دعا کی درخواست ہے کہ جب تلک زندگی ہے اللہ مجھے بقائمیءِ ہوش و حواس چلتا پھرتا رکھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ کے 20 دن بعد
بحوالہ اين آر او کے متعلق سپريم کا فيصلہ اور صدر کے خلاف سوٹزرلينڈ کيس
گزشتہ روز یہاں سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ
اگر ادارے ہماری عزت کریں تو ہم اداروں کی عزت کریں گے
صدر کو آصف زرداری آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے جب تک وہ صدر کے منصب پر فائز ہیں ان کے خلاف بیرون ملک اور اندرون ملک کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا
صدر مملکت آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر ہیں اور پارلیمینٹ کے 442 ارکان نے انہیں صدر پاکستان منتخب کیا اور وہ پارلیمینٹ کا حصہ ہیں، پارلیمینٹرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمینٹ کی عزت کروائیں
ايک سوال ۔ کوئی ہے جو بتائے کہ آصف علی زرداری کے پاس سوٹزرلينڈ کے بنکوں ميں ايک ارب ڈالر سے زائد کيش اور پاکستان سے باہر کئی اربوں کی قيمتی جائيداد کہاں سے آئی ؟
بحوالہ يو ايس ايڈ
کیری لوگر بل کے ایک محرک اور انڈیانا سے منتخب ہونے والے سینیٹر رچرڈ لوگر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو دی گئی 133 ملین ڈالر کی نقد امداد اپنے مقصد کے مطابق سوات اور مالاکنڈ کے بے گھرہونے والے افراد کو نہیں پہنچ پا ئی ۔ سینیٹر لوگر نے امریکی انسپکٹر جنرل کی رپورٹ مجریہ 2009ء کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 44 ملین ڈالر کی نقد رقم بے گھر افراد کو نہیں پہنچ سکی۔ سینیٹر رچرڈ لوگر نے رواں برس شروع ہونے والی 89 ملین ڈالر نقدر رقوم کی منتقلی کے حوالے سے اسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا
زرداری يا زورداری
گزشتہ روز وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لکھے گئے استعفیٰ میں پروفیسر رانا ایم شمیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ موجودہ ناموافق حالات میں کام جاری نہیں رکھ سکتے لہٰذا وہ پروفیسر اور ڈین کی حیثیت سے مستعفی ہورہے ہیں اور وائس چانسلر ان کا استعفیٰ منظور کرلیں
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت نے رانا ایم شمیم کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری پر تشدد کرنے کے الزام میں ملوث سیکریٹری پراسیکیوشن پنجاب رانا مقبول کی وکالت سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ رانا مقبول کی وکالت کرنا صدر آصف علی زرداری کی مخالفت کرنے کے برابر ہے لہٰذا رانا مقبول کی وکالت چھوڑ دیں یا پھر وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے ڈین اور پروفیسر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیں
ہفتہ کو نمائندہ جنگ سے بات کرتے ہوئے رانا ایم شمیم نے بتایا کہ وہ رانا مقبول کی وکالت کرنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ ان کاحق ہے کہ وہ کسی کی وکالت کرتے ہیں اور کسی کی نہیں لہٰذا انہوں نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو استعفیٰ بھیج دیا ہے
پبلک اکاؤنٹس کميٹی کا اجلاس قائم مقام چیئرپرسن یاسمین رحمن کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ
2 سال کے دوران 30 کھرب [3000000000000] روپے کے قرضوں کا اضافہ ہوا
اور اب ملک پر قرضوں کا مجموعی حجم 90 کھرب [9000000000000] روپے ہو گیا ہے
90 کھرب کے قرضوں میں سے 45 کھرب روپے غیر ملکی جبکہ 45 کھرب روپے قومی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں
3 کھرب کے اندرونی قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لئے جاتے ہیں
حکومت فاٹا کے بجلی کے بلوں کا 10 ارب [10000000000] روپے قومی بجٹ سے ادا کررہی ہے
اسٹیل ملز میں 2 کھرب 25 کروڑ روپے کا خسارہ ہے
سیکرٹری خزانہ سلمان صدیق نے مزيد بتايا کہ
بینظیر ٹریکٹر اسکیم پر 4 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی
توانائی شعبے کو 183 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہے
سیلاب کی وجہ سے 2 کھرب 80 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو کم کر کے 2 کھرب روپے کر دیا گیا ہے
جانچ پڑتال کے دوران وزارت خزانہ کے کھاتوں میں 14 کروڑ [140000000] روپے کے سِیکرٹ فنڈ کا انکشاف ہوا جو 10 نومبر 2007ء سے 17 دسمبر 2007ء کے 43 دنوں میں ایک خفیہ ایجنسی کو فراہم کئے گئے تھے
خواجہ آصف نے کہا کہ پی آئی اے اور دیگر ناکارہ اداروں کو 250 ارب روپے کی سبسڈی دے کر عوام کو اس بھاری رقم کے ثمرات سے محروم رکھا جا رہا ہے
حامد یار ہراج نے کہا کہ حکومت کے تمام شعبے سبسڈی پر چل رہے ہیں جو اچھی گورننس نہیں ہے
پی اے سی کیلئے یہ بات بھی تشویش انگیز تھی کہ پوری حکومت سبسڈی پر چل رہی ہے اور سرکاری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کی مالیت دفاعی بجٹ کے برابر پہنچ چکی ہے
آج پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے این آر او فیصلے پر عمل درآمدسے متعلق عدنان خواجہ کے خلاف مقدمہ کی سماعت کی۔ عدالت نے ڈپٹی چیئرمین نیب جاوید ضیاءکی جانب سے بطور قائم مقام چیئرمین کئے گئے اقدامات کا ریکارڈ اور عدنان خواجہ کے خلاف ریفرنس سے متعلق ریکارڈ طلب کیا
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جاوید ضیاء نے نیب چیئرمین کے آفس پر غیرقانونی قبضہ کیا ہوا ہے اور عدالت ان کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دے گی
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوئس مقدمات کھولنے کیلئے ابھی تک خط کیوں نہیں لکھا گیا، وہ بدمزگی نہیں چاہتے اور روزانہ اصرارکرنا اچھانہیں لگتا، اس لئے اٹارنی جنرل اس معاملے پر اپنا کرداراداکریں ۔ عدالت نے سوئس کیسز بحالی کی سمری نہ بھیجنے پر وفاقی سیکرٹری قانون مسعود چشتی کو طلب کیاجنہوں نے پیش ہوکر مہلت کی درخواست کی ۔ عدالتِ عظمٰی نے 24 ستمبر تک مہلت دیدی ہے
سپریم کورٹ نے کمرہ عدالت میں موجود احتساب ریفرنس میں سزا یافتہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز اور عدنان خواجہ کو بھی فوری حراست میں لینے کا حکم دیا جس پر پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا ۔ عدالت نے حکم دیا کہ یہ دونوں تین دن میں ضمانتی مچلکے عدالت میں جمع کراسکتے ہیں
آن لائين اخبار “ويٹيرنز ٹوڈے [Veterans Today]” کے مطابق 28 جولائی 2010ء کو ايئر بليو [Air Blue] کی ترکی سے براستہ کراچی اسلام آباد آنے والی پرواز ہائی جيکنگ کے نتيجہ ميں حادثہ کا شکار ہوئی تھی ۔ اس ہائی جيکنگ کا مقصد طيارہ کو پاکستان کی نيوکليئر فسلٹیٹی [Nuclear Facility] سے ٹکرانے کا منصوبہ تھا جو کہ ناکام ہو گيا
ويٹيرنز ٹو ڈے کے مطابق شکُوک اس وقت پيدا ہوئے جب امريکی ٹھيکيدار بليک واٹر يا زی [Blackwater/Xe] کے اہلکار حادثہ کے فوراً بعد جائے حادثہ پر ديکھے گئے اور انہوں نے بليک بکس اور دوسرے متعلقہ مواد قبضہ ميں لے ليا
ويٹيرنز ٹو ڈے کے مطابق ايک نجی ٹی وی چينل کے مطابق امريکی ٹھيکيداروں کے اس حادثہ سے تعلق کے سلسہ ميں تحقيقات ہو رہی ہيں
ويٹيرنز ٹو ڈے کے مطابق بليک واٹر کے چار مسلحہ اہلکار 2009ء ميں اسی نيوکليئر فسيليٹی کے قريب گرفتار کئے گئے تھے ۔ وہ جيپ پر سوار تھے اور اُن کے قبضہ سے اسرائيلی ساخت کے کڑی نگرانی اور جيمنگ کے جديد آلات [advanced surveillance and jamming equipment ] بھی برآمد ہوئے تھے ۔ يہ چاروں فر فر پشتو بولتے تھے اور لباس اور حُليئے سے طالبان لگتے تھے ۔ وفاقی وزيرِ داخلہ نے ان کی رہائی کا حُکم دے ديا تھا
ويٹيرنز ٹو ڈے کے مطابق حادثہ کا شکار ہونے والے طيارے ميں کم از کم دو امريکن بھی سوار تھے مگر بعد کی اطلاعات کے مطابق بليک واٹر کے کم از کم پانچ اہلکار سوار تھے مگر انہيں پہچاننا اسلئے دشوار ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے لباس اور حُليے ميں تھے اور جعلی شناخت کے ساتھ سفر کر رہے تھے
تفصيلات يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہيں
آ سٹریلوی خاتون کيٹ اوگ [Kate Ogg] کے قبل از وقت پیداہونے والے بچے کو ڈاکٹروں نے مر دہ قرار دیا تاہم ڈاکٹروں کی پروا نہ کر تے ہو ئے کيٹ اوگ نے بچے کو اپنے سینے سے لگا ئے رکھا اور معجزانہ طور پر دو گھنٹے بعد بچے نے سانسیں لینا شروع کر دیا اور آنکھیں کھو ل کر اپنی ماں کی انگلی بھی پکڑ لی ۔ ڈاکٹر جو بچے کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے ماں کی محبت کا یہ مظاہر ہ دیکھ کر حیرا ن رہ گئے
بشکريہ ۔ جنگ