Category Archives: تحريک آزادی جموں کشمير

کشمير ۔ کرفيو سے زندگی مفلوج

وادی کشمیر میں علٰحیدگی پسندوں کی ‘عید گاہ چلو’ کال کو انتظامیہ نے سخت ترین کرفیو نافذ کرکے ناکام بنادیا۔اس دوران وادی کے طول و ارض میں جمعہ کو کرفیو نافذ رہا اور پولیس ونیم فوجی دستوں کے اضافی دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت متعدد مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم نماز جمعہ کے بعد کئی جگہ لوگوںنے فورسز کا محاصرہ توڑ کر مظاہرے کئے۔پولیس نے طاقت کا استعمال کر کے مظاہرین کومنتشر کر دیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپوں میں ٹیر گیس شیلنگ اور ہوائی فائرنگ سے 100 سے زائد افرادافراد زخمی ہوگئے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

جموں کشمير لہو لہان

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپورمیں9سالہ بچے سمیت5معصوم نوجوانوںکی ہلاکتوں کے بعد بھارت کے بے لگام فورسز نے منگل کو جنوبی کشمیر کے اسلام آباد قصبے میں2 طالب علموں سمیت 3نوجوانوں کو جاں بحق اور3کو شدید طور پر زخمی کر دیا.ان تازہ واقعات کے بعد تشدد کی خوفناک لہر نے شمالی کشمیر کے بعد اب جنوبی کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

کشمير ميں موت کا سفّاکانہ رقص جاری

جموں و کشمیر کے شمالی قصبہ سوپور میں فورسز کے ہاتھوں معصوم نوجوانوں کی پے در پے ہلاکتوں کے خلاف تشدد اور زور دار احتجاجی مظاہروں کی تازہ لہر کے بیچ سوموار سی آر پی ایف نے سوپور کی طرف مارچ کررہے دو جلوسوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے 9 سالہ کمسن بچے اور ایک 17 سالہ نوجوان کو موت کی ابدی نیند سلا دیا

تفصيلات پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

جموں کشمير کے در و ديوار پر “گو انڈيا گو بيک”

جموں و کشمیر میں آزادی پسندوں کی طرف سے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کے پروگرام پر عمل کرتے ہوئے ریاستی عوام نے اتوار کو دیواروں،سڑکوں اوردکانوں پر “گو انڈیا گو بیک” کا نعرہ مختلف علاقوں میں تحریر کیا جبکہ کئی ایک علاقوں میں “گو انڈيا گو بيک” کے بینر بھی آویزاں دیکھے گئے۔ واضح رہے کہ حریت کانفرنس (گ) نے “کشمیر چھوڑ دو” مہم کیلئے 25 جون سے 13 جولائی 2010ء تک مختلف پروگرام ترتیب ديئے ہیں جن میں سے “گو انڈيا گو بيک” کا نعرہ دیواروں ،دکانوں اور سڑکوں پر تحریر کرنے کیلئے کہا گیاتھا۔ مذکورہ احتجاجی پروگرام پر عمل کرتے ہوئے سرینگر کی مختلف سڑکوں اوردکانات پر نوجوانوں کو یہ نعرہ تحریر کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ وادی کے دیگر علاقوں سے بھی مذکورہ احتجاجی پروگرام عملانے کی اطلاعات ہیں۔پائین شہر کے مختلف علاقوں میں دکانوں، دیواروں، مکانوں اور اہم سڑکوں پر ”گو انڈیا گو” کے نعرے تحریر کئے گئے وہیں شہر کے مضافاتی علاقے لسجن میں بھی ”گو انڈیا گو ” کے بینر آویزان رکھے گئے تھے۔ ادھر بٹہ مالو ، حبہ کدل، آبی گذر اور دیگر مقامات پر بھی سڑکوں کے بیچوں بیچ ”گو انڈیا گو ” کے نعرے درج کئے گئے۔

[13 جولائی 1931ء کو جموں کشمير کے مسلمانوں پر جو ايک جگہ جمع تھے پر ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا تھا جس سے 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے]

بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھيئے

دہشگرد کون ؟

سیّد ابوالحسن علی بن عثمان الہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ 400ھ تا 465ھ] ۔ نے شروع میں ہجویر جو کہ غزنی کا گاؤں ہے ميں قیام کيا اس لئے ہجویری کہلائے ۔ سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ۔ اپنے مُرشد کے حکم سے آپ لاہور پہنچے ۔ کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے ۔ علی ہجويری رح اُن چند بزرگوں ميں سے ہيں جن کے عمل اور محنت کے نتيجہ ميں پنجاب اسلام کا گھر بنا۔ وہ پنجاب جو موجودہ شمالی سندھ سميت موجودہ خيبر پختونخواہ ميں دريائے سندھ تک اور مشرق ميں دہلی آگرہ تک تھا ۔ ان کے متعلق ايک نيک بزرگ نے کہا تھا

گنج بخشِ فيضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پيرِ ۔ کامِل کاملاں را رہنما

جمعہ 2 جولائی 2010ء کو صبح سويرے علی ہجويری رح صاحب کے مزار المعروف دربار داتا گنج بخش میں خودکش حملوں کی خبر پڑھی تو کچھ دير کيلئے ميرا ذہن ماؤف ہو گيا ۔ ميں بِٹر بِٹر اخبار کو ديکھتا رہا پھر مجھے اخبار نظر آنا بند ہو گيا اور 1957ء سے چند سال قبل تک آدھی صدی کے دوران ميں جب جب بھی اس مزار پر فاتحہ کہنے گيا اور ملحقہ مسجد ميں نماز پڑھی جو کچھ ميں نے ديکھا وہ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا ۔ وہاں عورتوں اور مردوں کو ميں نے کس کس حال ميں کيا کيا کرتے ديکھا سب ايک ايک کر کے ذہن کے پردہ سيميں پر اُبھرتا رہا ۔ ميں نے اپنے آپ کو جھٹکا ديا ۔ ميرے دل نے پُر زور کہا “نہيں نہيں ۔ یہ حملہ کسی مسلمان نے نہيں کیا”۔ قطع نظر اس کے کہ اس جملہ سے کيا مراد ہے کچھ لوگ کہيں گے کہ “مسلمان نے نہيں کيا تو پھر کس نے کيا ؟” ميرا جواب ہے کہ اگر ميرے پاس ثبوت نہيں کہ مسلمان نے نہيں کيا تو اعتراض کرنے والوں کے پاس کيا ثبوت ہے کہ مسلمان نے کيا ؟

وقتی طور پر مزاروں کے متعلق اپنے نظريات کو بھول کر ميں صرف وہاں عام طور پر جانے والوں کے نظريات کی بنياد پر بات کروں گا ۔ زائرين اس اعلٰی کردار کے انسان کے مزار سے جو عقيدت رکھتے ہيں کوئی بے عمل مسلمان بھی اس مقام پر قتل تو کيا کسی جُرم کا بھی نہيں سوچ سکتا خواہ اس کا تعلق کسی بھی مسلک یا دہشت گرد گروہ سے ہو ۔ لوگ اسے داتا دربار کہتے ہيں اور روحانیت کا منبع سمجھتے ہيں ۔ وہاں روحانی فیض قلبی سکون اور دنیاوی مسائل کے حل کے لئے دعائیں مانگنے آتے ہیں ۔ لوگ وہاں عبادت ۔ چلہ کشی اور وظائف میں مصروف بلکہ مگن ہوتے ہیں ۔ وہاں منتیں ماننے اور اپنی عقیدت کا اظہار کرنے آتے ہيں

روحانی و دنیاوی مسائل میں الجھے ہوئے لوگوں کے علاوہ داتا دربار کو بھوکوں بے روزگاروں دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے مزدوروں اور گھروں سے بھاگے ہوئے نوجوانوں کی آخری پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے جہاں غریبوں اور بھوکوں کو روزانہ بلاناغہ تينوں وقت کھانا مفت ملتا ہے اور رات گزارنے اور استراحت کے لئے داتا دربار کا صاف ستھرا وسیع فرش بستر کا کام دیتا ہے

یہ جگہ ہر قسم کی فرقہ واریت ۔ گروہ بندی اور مذہبی مناظروں سے بالکل پاک ہے اور یہاں آنے والوں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق غریب و نادار طبقوں سے ہوتا ہے ۔ کوئی چاہے اسے کج فہمی ہی کہہ لے ليکن داتا گنج بخش کا دامن پریشان حالوں غم اوربھوک کے ماروں یا پھر روحانی بالیدگی اور قلبی روشنی کے متلاشیوں ہر کسی کو پناہ دیتا اور سکون بخشتا ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ جرائم پيشہ لوگ بھی جب کبھی تکليف محسوس کرتے ہيں تو وہاں سکونِ قلب حاصل کرنے آتے ہيں ۔ يہ حقيقت ہے کہ پنجاب کے سکھ عيسائی اور ہندو بھی اس مقام کو عقدت و احترام کی نظروں سے ديکھتے ہيں

کہا جاتا ہے کہ لاہور ميں دہشتگری ہونے کی اطلاع تھی مگر وفاقی وزيرِ داخلہ نے گورنر پنجاب کی زندگی کو خطرے کا خدشہ ظاہر کيا تھا ۔ کيا خطرہ صرف اُن کو ہی ہوتا ہے جو قلعہ نما گھروں ميں رہتے ہيں اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں سفر کرتے ہيں جن کے آگے پيچھے ايليٹ فورس کے کمانڈو ہوتے ہيں ؟

پہلے احمديوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا اور درجنوں بيگناہ پاکستانی ہلاک ہوئے ۔ اس کے بعد داتا دربار جسے شايد احمديہ بھی مقدس مقام سمجھتے ہيں پر ويسا ہی حملہ ہوا ۔ کيا ايسا نہيں کہ يہ دونوں حملے ايک ہی شخص يا ادارے کی منصوبہ بندی ہوں ؟

کراچی جسے ملک کا معاشی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں آئے دن لاشيں گر رہی ہيں ۔ جنہيں بيانات ميں اُڑايا جا رہا ہے ۔ صرف اس سال ميں 600 آدمی ہلاک ہو چکے ہيں ۔ کيا يہ مرنے والے انسان نہيں ہيں يا پاکستانی نہيں ہيں ؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی اور لاہور ہيں ۔ کراچی معاشی گڑھ اور لاہور تمدن کا گھر ۔ کيا يہ وارداتيں کراچی اور لاہور کے لوگوں کو پريشان رکھنے کيلئے نہيں کی جا رہيں ؟ کيا ان وارداتوں کا مقصد پاکستان کو معاشی اور تمدنی لحاظ سے تباہ کرنا نہيں ہے ؟

اپنی لوٹ مار سے عوام کی نظر ہٹانے کيلئے ہر لحظہ ايک نئی اختراع ايجاد کی جاتی ہے ۔ جب پاکستانی طالبان کی اختراع گھِس پِٹ گئی تو پنجابی طالبان کا شوشہ چھوڑ ديا گيا ۔ يہيں بس نہ کيا گيا بلکہ پنجاب کو دہشتگردوں کی پناہ گاہ اور نرسری کہہ ديا گيا ۔ کيا ان باتوں سے حکمرانوں کی لوٹ مار پر پردہ پڑ جائے گا ؟ ايک طرف مُلک کی بنياديں کھوکھلی کی جا رہی ہيں تو دوسری طرف صوبوں اور مسلکوں کو آپس ميں لڑانے پر پورا زور لگايا جا رہا ہے ۔ تاريخی حقيقت يہ ہے کہ ايک دن اچانک امريکہ کے کسی اخبار نے پنجابی طالبان کا ذکر کيا ۔ چند دن بعد کسی پاکستانی صحافی نے لکھا کہ کسی کا ٹيليفون کہيں سے موصول ہوا کہ “ميں پنجابی طالبان کا سربراہ بول رہا ہوں”۔ اس کے بعد وفاقی سطح پر اس کی تشہير پورے زور و شور سے شروع ہو گئی

کے ای ايس سی سميت پورے پاکستان ميں بجلی پيدا کرنے والوں کو اُن کے واجبات ادا کرنے کی بجائے مہنگے کرائے پر پرانے پاور سٹيشن لئے جا رہے ہيں جن ميں سے پہلا پاور سٹيشن جو ايک ماہ قبل چلنا تھا آج تک نہيں چل سکا ۔ بايں ہمہ اس عمل کا کيا جواز ہے کہ 1991ء کی پانی کی تقسيم سے اپنا 3 فيصد حصہ سندھ کو دينے پر راضی ہونے کے باوجود پنجاب حکومت کو 18000 کيوسکس پانی روزانہ کم ديا جا رہا ہے جبکہ باقی تين صوبوں کو اپنا اپنا حصہ پورا ديا جا رہا ہے ؟ کيا يہ اسلئے نہيں کيا جا رہا کہ پنجاب کی حکومت دباؤ ميں آ کر سندھ کی حکومت کے خلاف بيان دے اور پھر صوبوں کی حکومتيں آپس ميں گتھم گتھا ہوں تاکہ بادشاہ سلامت موج ميلہ کرتے رہيں

دہشتگردوں سے نپٹنے کيلئے پوليس کمانڈو تيار کئے گئے تھے ۔ اُنہيں عوام کی حفاظت کی بجائے قلعہ نما گھروں ميں رہنے اور بُلٹ پروف گاڑيوں ميں گھومنے والوں کی حفاظت پر مامور کر ديا گيا ہے

دہشگرد کو واردات سے پہلے روکنے کی ذمہ داری خُفيہ والوں کی ہوتی ہے ۔ يوں لگتا ہے کہ خُفيہ والوں کو بھی اس طرح مصروف رکھا گيا ہے کہ کچھ تو بڑے صاحب کی تجوريوں کو مزيد وزنی کرنے کيلئے شکار کی تلاش ميں رہتے ہيں اور کچھ مخالفين کی سرکوبی کيلئے مختص ہيں باقی ان پر نظر رکھتے ہوئے اپنے موج ميلے ميں مصروف رہتے ہيں ورنہ يہ کيسے ممکن ہے کہ شہر کی ناکہ بندی کے علاوہ شہر کے اندر جگہ جگہ ناکہ بندی ہو ۔ دہشتگردی کا خدشہ بھی ظاہر کيا جا چکا ہو ۔ داتا دربار ميں داخل ہونے والوں کو خاص ميٹل ڈيٹيکٹر دروازوں ميں سے بھی گذرنا پڑے اور دہشتگرد بارودی جيکٹ سميت اندر پہنچ جائے ؟ مزيد يہ کہ وہاں کلوزڈ سرکٹ ٹی وی سسٹم لگا ہے ۔ کيا اس کے کنٹرول روم ميں کوئی موجود نہيں تھا يا سويا ہوا تھا ؟

دوسرے ممالک ميں کوتاہی کے ذمہ دار محکمہ کے سربراہ کو فوری طور پر فارغ کر ديا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اُسے ترقی دے دی جاتی ہے ۔ بينظير کی حکومت ميں اُس کے سگے بھائی کو ہلاک کر ديا جاتا ہے اور قاتل ترقياں پاتے ہيں ۔ بينظير کو ہلاک کر ديا جاتا ہے تو اس کا خاوند حکمران آئيں بائيں شائيں ميں ڈھائی سال گذار ديتا ہے اور مزيد سال بھی اسی طرح گذر جائيں گے

ان حالات کی موجودگی ميں عوام کی ہلاکتوں کی کسے پرواہ ہے ؟ ذمہ دار کسی کو بھی ٹھہرا دو ۔ پوچھنے والے حکمران ہوتے ہيں اور جب الزام ہی حکمران لگائيں تو ؟

پچھلے دنوں کسی نے لکھا تھا کہ انگريزوں کا حکومت کرنے کا اصول تھا
Divide and rule
اور ہمارے حکمرانوں کا اصول ہے
Divide, rule and loot