کراچی میں عاشورہ کے جلوس میں دھماکہ اور بعد میں ہونے والی دہشتگردی کا ذمہ دار کون ہے ؟
اس کی نشان دہی لندن پوسٹ میں شائع ہوئی ہے جو لندن پوسٹ پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے
Category Archives: تجزیہ
دریائے سندھ ۔ کچھ حقائق
پچھلے دنوں “آؤ سنواریں پاکستان” پر ایک تحریر پڑھی جس کی سطور سے لکھنے والے کے درد کا احساس ہوا ۔ لیکن یہ درد صرف اُن کا ہی نہیں قومی معاملات پر نظر رکھنے والے ہر پاکستانی کا ہے ۔ اس کے بعد آوازِ دوست پر ایک نظریہ پڑھا جو کسی حد تک درست ہے ۔ ایک انجنیئر ہونے کے ناطے میں اس میں اتنا اضافہ کروں گا کہ ہمیں بڑے بڑے ڈیم بنانے کی بجائے مناسب غیر آباد جگہوں پر چھوٹے کئی ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ سیلابی پانی کو روک کر سارا سال تھوڑا پانی چھوڑا جائے ۔ ان جگہوں پر چھوٹے بجلی گھر بھی بنائے جائیں ۔ اس کے علاوہ پہاڑی علاقوں میں دریاؤں اور نہروں پر مناسب فاصلہ پر صرف بجلی گھر بنائے جائیں یعنی پانی پیچھے سے آئے اور ٹربائن میں سے گذرتا ہوا آگے نکل جائے ۔ اس کے علاوہ ہمارے رہنما اب ہیرا پھیری چھوڑ دیں اور جو کوئی پانی چوری کرے اُس کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے
عرصہ سے ہم سیاسی نعرے سنتے آ رہے ہیں جن کے زیرِ اثر عوام گمراہ ہوتے رہتے ہیں ۔ بدقسمتی سے عوام کو گمراہ کرنے والے ہی عوام کے ہردل عزیز رہنما ہیں ۔ سیاسی نعرہ بازی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں موجودہ صورتِ حال کے اصل اسباب مختصر طور پر بیان کروں گا لیکن ایک واقعہ بیان کرنا ضروری ہے جس نے مجھے دریاؤں اور نہروں میں پانی کے معاملہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے پر مجبور کیا
مجھے پہلی بار جھٹکا اس وقت لگا تھا جب پورے پاکستان سے دو درجن سے زائد سنیئر افسران کی ایک جماعت نظامت کے مطالعہ کیلئے پاکستان کے دورے پر تھی اور جنوری 1975ء میں روہڑی بیراج پہنچی ۔ ہمارے ساتھ کمشنر کی سطح کے افسر بھی تھے ۔ دورے کی باقاعدہ اطلاع ایک ماہ پہلے دی جا چکی تھی مگر متعلقہ کوئی افسر موقع پر یا دفتر میں موجود نہ تھا۔ روہڑی بیراج کے ایکسین کے دفتر سے اس کے کسی کلرک نے ٹیلیفون کیا تو کچھ دیر بعد ایک نوجوان انجنیئر صاحب آئے ۔ وہ ہی ایکسین تھے ۔ نظامت کا حال تو واضح ہو گیا تھا ۔ ایک ساتھی نے ٹیکنیکل سوال پوچھ لیا “What is the maximum flood level here?” ايکسین نے جواب دیا “Flood تو آتا ہی نہیں ۔ سب پانی پنجاب پی جاتا ہے”۔ Maximum flood level کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ سارے سال کے دوران پانی کی زیادہ سے زیادہ سطح کیا ہوتی ہے ؟ اس کا تعلق طغیانی [flood] سے نہیں ہوتا ۔ سوال پوچھنے والا ڈپٹی کمشنر اس علاقے میں رہ چکا تھا اسلئے ٹیکنیکل معلومات اس بیراج کی رکھتا تھا ۔ وہ کچھ طیش میں آ گیا ۔ کمشنر صاحب بانپ گئے اور اشارے سے اسے روک دیا ۔ بہرحال ایکسین کے جواب سے دو باتیں واضح ہو گئی تھیں
ایک ۔ ايکسین صاحب جو کہ سینیئر انجنیئر ہوتے ہیں تعلیمی لحاظ سے پیدل ہی تھے
دو ۔ سندھ میں بسنے والوں کے ذہنوں میں وقت کے سیاستدانوں نے زہر بھر دیا تھا
یہ مسئلہ گھمبیر ہے اور بہت اُلجھا ہوا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ایک سال یا ایک سیاسی دور میں پیدا نہیں ہوا ۔ بلکہ اس کے ذمہ داران تین چار طاقتور ملکی رہنما ہیں
ایک ۔ 10 فیصد کا ایوب خان ذمہ دار ہے جس نے سندھ تاس معاہدہ کیا جس کے نتیجہ میں آبپاشی نظام قائم کرنے کیلئے پیسہ ملا مگر غلطی یہ کی کہ اس میں مستقبل کیلئے بھارت کو پوری طرح نہ باندھا
دو ۔ 20 فیصد حصے کے ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی حکومت قائم رکھنے کیلئے بھارت کی مُخبری کرتے ہوئے بھارت کے خلاف بھارت کے اندر کام کرنے والی بھارتی قوتوں کی اطلاع بھارت کو دی جس کے نتیجہ میں ان کا صفایا کرنے کے بعد بھارت کو فراغت ملی اور اس نے پاکستان کا گلا دبانا شروع کیا یعنی بھارت نے دریائے راوی اور پھر دریائے جہلم پر ڈیم بنایا
تین ۔ 10 فیصد کے ذمہ دار بارسوخ زمیندار ہیں جو پانی چوری کرتے ہیں ۔ ان میں زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں بسنے والے وڈیروں اور بارسوخ پيروں کی ہے
چار ۔ 60 فیصد کا پرویز مشرف ذمہ دار ہے جس نے اپنی گدی قائم رکھنے کی کوشش میں امریکا کی خوشنودی کیلئے بھارت کے ساتھ یک طرفہ دوستانہ اقدامات کرنے کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادی کی جد و جہد کرنے والوں میں نفاق کا بیج بو کر ان کا اتحاد توڑ دیا چنانچہ اس تمام صورتِ حال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے پاکستان جانے والے دو بڑے دریاؤں چناب اور جہلم پر چھ ڈیم تعمیر کر لئے جو اس سے قبل ممکن نہ تھا
یہ حقیقت نظرانداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سندھ تاس معاہدہ کے بعد دریائے سند ھ کے بڑے معاون تین دریا راوی چناب اور جہلم ہیں جب ہمارے اپنے حکمرانوں کی مہربانیوں سے بھارت نے ان تینوں دریاؤں پر بند باندھ کر ان کا زیادہ تر پانی روک لیا تو دریائے سندھ بے یار و مددگار ہو کر لاغر ہو گیا ہے
حکمرانوں کی ان ملک دشمن کاروائیوں کے ساتھ ساتھ ہماری قوم کی بے راہ روی کے نتیجہ میں شاید اللہ بھی ہم سے ناراض ہے کہ سالہا سال سے ملک میں بارشیں بہت کم ہو رہی ہیں اور پہاڑوں پر سالانہ برف باری کی مقدار بھی بہت کم ہو چکی ہے جس کے نتیجہ میں دریائے سندھ میں اپنے پانی کا بہاؤ کم ہو چکا ہے
اگر بھوک اور افلاس کا شکار ہو کر بلک بلک کر مرنا نہیں چاہتے تو اب ایک ہی حل ہے کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی آزادی کی جد و جہد کو کامیاب کرایا جائے جس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں کیونکہ مرکز میں حکومتی پارٹیاں پی پی پی اور ایم کیو ایم مقبوضہ جموں کشمیر میں اپنے پیدائشی انسانی حق آزادی کیلئے لڑنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتی ہیں اور جو تھوڑا سا حصہ وہیں کے باشندوں نے 1947ء میں آزاد کرایا تھا اُس پر قبضہ جمانے اور لوٹ مار کرنے میں پیش پیش نطر آتی ہیں ۔ اللہ ہی ہے کہ ہم پر کسی وجہ سے رحم کھائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلا دے جس کے آثار فی الحال نظر نہیں آتے
سمندر پاس دریائے سندھ کے ڈیلٹا کی فرسودگی کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ جدیدیت کی ایک سوغات global warming بھی ہے جس کے نتیجہ میں ساری دنیا کے برفانی پہاڑ اور گلیشیئر پچھلی ایک دہائی سے بن کم رہے ہیں اور پگھلتے زیادہ ہیں ۔ چنانچہ سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ اس طرح بھی سمندر کا نمکین پانی ڈیلتا کے اندر گھس رہا ہے ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے پندرہ بیس سال میں کراچی ۔ ہالینڈ ۔ برطانیہ ۔ انڈونیشیا اور بہت سے جزیرے سمندر میں ڈوب جائیں گے
مہاجر کون ؟
نقلِ مکانی تو آدمی ازل سے کرتا ہی آیا ہے لیکن جسے طاقت کے بل بوتے نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا جائے اُسے تاریخ میں مہاجر کہا گیا ہے اور وہ بھی کسی جگہ قیام کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے تو مہاجر نہیں رہتا یا کم از کم اُس کی اگلی نسل مہاجر نہیں ہوتی ۔ 1947ء میں پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل ہی ہندوستان میں ایک محتاط منصوبہ بندی کے تحت عسکری تربیت یافتہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے ۔ مسلمانوں کا قتل اور آگ لگانا روز کا معمول بن گیا ۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں تھے وہاں بھی جن محلوں میں مسلمان اقلیت میں تھے یا جہاں کہیں اکیلا دوکیلا ملے اُن پر قاتلانہ حملے ہونا شروع ہو گئے
ان غیرمتوقع حالات نے بھارت کے زیرِ تسلط آنے والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور اُنہوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن میں سے بہت سے سفر کے دوران شہید کر ديئے گئے ۔ یہ لوگ بے سر و سامانی کی حالت میں پاکستان پہنچے ۔ انہیں فوری طور پر سرحدوں کے قریب ہی بنائے گئے عارضی ٹھکانوں میں رکھا گیا اور بعد میں مختلف شہروں یا دیہات میں بسایا گیا ۔ اِن لوگوں کو مہاجر یا پناگزیں یا پناہ گیر کہا گیا لیکن اپنی روزی آپ کمانا شروع کرتے ہی انہوں نے یہ تخلص ترک کر دیا ۔ پھر اگر کوئی انجان ان میں سے کسی کو مہاجر کہہ دیتا تو اس کا بہت بُرا منایا جاتا ۔ 1948ء میں بھی مہاجر پاکستان آتے رہے ۔ سوائے جموں کشمیر کے باقی علاقوں سے اس کے بعد آنے والوں کو مہاجر نہیں کہا گیا کیونکہ وہ اپنی تسلی کے ساتھ آئے تھے اُنہیں زبردستی گھروں سے نہیں نکالا گیا تھا ۔ بعد میں آنے والے لوگ سوائے معدودے چند کے اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ آئے تھے اور وہ مہاجر نہیں تھے بلکہ اپنی مرضی سے نقل مکانی کرنے والے تھے ۔ 1951ء میں قانون بنا جس کے تحت بھارت سے پاکستان میں قیام کی خاطر داخل ہونے والے مسلمان کو بھی حکومتِ پاکستان سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا قرار پایا
برطانیہ کے ذہنی غلاموں نے 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم اور بابائے قوم کے قریبی ساتھی لیاقت علی خان صاحب کو قتل کرا دیا اور اپنی چالاکیوں کے نتیجہ میں خواجہ ناظم الدین صاحب کو چکمہ دے کر ایک اوباش شخص غلام محمد کو پاکستان کا سربراہ بنا دیا گیا جس نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی کو توڑ دیا جبکہ وہ اسمبلی پاکستان کا آئین تیار کر چکی تھی اور اسمبلی میں پیش کر کے اس کی منظوری لینا تھی ۔ اس کے بعد برطانیہ کے ذہنی غلاموں اور انڈین سول سروس کے سابقہ افسروں نے ملک کا پورا نظم و نسق سنبھال لیا ۔ آئین کو پسِ پُشت ڈال دیا گیا اور 1951ء کا قانونِ شہریت تو کیا ہر قانون کی صریح خلاف ورزیاں حکمرانوں کے ایماء پر ہونے لگیں ۔ اس کے نتیجہ میں بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں آ کر بس گئے جو 1951ء کے شہریت کے قانون کے تحت شاید کبھی پاکستان میں مستقل رہائش اختیار نہ کر سکتے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی مشکوک لوگوں کو اچھے عہدے بھی دیئے جاتے رہے
بقول شخصے ہمارے ہموطنوں کی ہر چیز ہی نرالی ہے ۔ پاکستان بننے کے تین دہائیاں بعد ایک ایسا وقت بھی آیا جب پاکستان میں پیدا ہونے والوں نے اپنے آپ کو مہاجر کا نام دے دیا اور کراچی يونیورسٹی میں 11 جون 1978ء کو الطاف حسین نامی طالبعلم نے آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائیزیشن کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں اس نے مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کر لی ۔ اس میں شامل ہونے والوں میں اکثریت ان صاحبان کی اولاد ہے جو 1951ء کا قانون نافذ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے نقل مکانی کر کے پاکستان آئے تھے ۔ کچھ اُن کی اولاد بھی شامل ہوئی جو مہاجر تھے لیکن اپنے آپ کو مہاجر کہنا پسند نہیں کرتے تھے اور چند ایسوں کی اولاد بھی جن کے آباؤ اجداد 14 اگست 1947ء سے پہلے اس علاقہ میں مقیم تھے جو پاکستان میں شامل ہوا ۔ اب گو حالات کے دباؤ کے تحت اس سیاسی جماعت کا نام بدل کر متحدہ قومی موومنٹ رکھ دیا گیا لیکن اس میں شامل لوگ ابھی بھی اپنی شناخت مہاجر کے طور پر ہی کراتے ہیں ۔ یہ رویہ کس حد تک مناسب ہے کوئی آنے والا مؤرخ ہی لکھے گا ۔ شروع میں میری ہمدردیاں مہاجر موومنٹ کے ساتھ تھیں کیونکہ میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں ہجرت کر کے آیا تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ جب مہاجر قومی موومنٹ کے کچھ رہنماؤں کو بہت قریب سے دیکھا تو دور ہونا ہی قرینِ حقیقت سمجھا
اللہ ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو پاکستانی کہتا ہے اُسے حقیقی پاکستانی بننے اور اس مُلک پاکستان کی خدمت کی توفیق دے
سازشی نظریات ۔ ایک تجزیہ
سازشی نظریات [Conspiracy theories] ہمارے معاشرے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے یا یوں کہنا چاہیئے کہ یہ عمل ہماری خصلت میں شامل ہو چکا ہے جن میں اَن پڑھ اور پڑھے لکھے برابر کے شریک ہیں ۔ چنانچہ تمام برائیوں کو کسی نہ کسی کی سازش یا ظُلم قرار دے کر اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ ہر خرابی کو غیرمُلکی سازش قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ جو اپنے آپ کو کُشادہ ذہن اور باعِلم سمجھتے ہیں وہ ہر ظُلم کو مذہب یا مذہبی لوگوں کے سر منڈ کر اپنے ذہن کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قومی یا بین الاقوامی سطح پر ہی نہیں ذاتی سطح پر بھی سازشی نظریات بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص عرصہ دراز بعد کسی کو ملنے آتا ہے اور کچھ دن اُن کے ہاں قیام بھی کر لیتا ہے ۔ اِسی پر جاننے والے رشتہ دار اور محلہ والے کئی سازشی نظریات قائم کر لیتے ہیں
ہماری قوم کی بھاری اکثریت تن آسانی میں یقین رکھتی ہے اور ترقی کیلئے کوشاں قوموں کی طرح محنت اور تحقیق کو اپنا شعار بنانے کی بجائے غلط قسم کے مختصر راستے [shortcuts] اختیار کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کو تحقیق سے ڈر لگتا ہے ۔ ہر منفی واقعہ اور نتیجہ جسے وہ پسند نہ کرتے ہوں اور جس سلسلے میں وہ کوئی مثبت تبدیلی لانے کی خواہش نہ رکھتے ہوں اس کی وضاحت سازشی نظریات میں تلاش کرلی جاتی ہے ۔ سازشی نظریات فرار کی ایسی پناہ گاہ ہیں جو روح اور قلب کی تکلیف سے وقتی آرام اور تسکین فراہم کرتے ہیں اور مشقت سے بچاتے ہیں
سازشی نظریات میں پناہ ڈھونڈنے والے اپنی تمام غلطیوں اور ذمہ داریوں کے اسباب سازشیوں کو قرار دے دیتے ہیں اور خود کو سازش کا شکار تصور کرتے ۔ کبھی اس مفروضہ سازشی کا پس منظر دین بتایا جاتا ہے کبھی شیطان ۔ کبھی مُلا اور کبھی غیرملکی ہاتھ ۔ اس طرزِ عمل کا بنیادی سبب ہماری اکثریت کا آسانی پسند ہونا ہے ۔ تعلیم سے لے کر ملازمت یا تجارت تک صبر و تحمل کے ساتھ محنت کی بجائے سفارش ۔ رشوت ۔ متعلقہ فرد کی ذات کی خدمت وغیرہ میں ترقی تلاش کرتے ہیں
ہر طرزِ عمل یا طرزِ فکر کے پیچھے کچھ عوامل کارفرما ہوتے ہیں ۔ ہماری قوم کے اس رویّے کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں
پہلا سبب ۔ آمریت کی طویل تاریخ ۔ جس میں فوجی آمروں کے علاوہ جمہوری طریقہ سے منتخب حکمران بھی شامل ہیں کیونکہ اطلاعات کی کمی اور کمزوری ہی سازشی نظریات کے اصل محرک ہیں جس میں اپنے مسائل کی اصل وجوہ کا پتہ لگانے کی کوشش کم کی جاتی ہے اور فوری حل کی خاطر کسی کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ہے
دوسرا سبب ۔ غلط تعلیمی نظام ۔ جس میں طالبعلم کو کتابیں پڑھنے اور محنت و تحقیق کی تلقین کی بجائے خلاصوں اور ٹیوشن مراکز کا گرویدہ بنا دیا گیا ہے ۔ تعلیمی نظام کی تباہی کا آغاز 1972ء میں جدیدیت کے نام پر ہوا اور وقت کے ساتھ تعلیم و تربیت تنزل کا شکار ہوتی چلی گئی ۔ دورِ حاضر میں اکثریت سطحی علم تو بے شمار موضوعات کا رکھتی ہے لیکن گہرائی میں جائیں تو شاید ایک موضوع پر بھی عبور حاصل نہ ہو
تیسرا سبب ۔ مُلکی ذرائع ابلاغ ۔ جنہوں نے اپنی دکان چمکانے کی خاطر قوم کی غلط راستے کی طرف رہنمائی کی ۔ سیاہ کو سفيد اور سفید کو سیاہ بتاتے رہے ۔ بایں ہمہ علم و تحقیق کی طرف مائل کرنے کی بجائے بے ہنگم ناچ گانے اور جھوٹی اور برانگیختہ کرنے والی کہانیوں پر بنے ڈراموں پر لگا دیا جس کے نتیجہ میں لوگ احمقوں کی تخیلاتی جنت میں رہنے کے عادی ہو گئے
چوتھا سبب ۔ اشرافیہ ۔ جو اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس عوام کی ہڈیوں پر تعمیر کرتے رہے مگر اتنا بھی نہ کیا کہ ان ہڈیوں کی مضبوطی تو کُجا ان کی سلامتی ہی کیلئے کچھ کرتے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ انتظامیہ اور عدالتیں ایسے لوگوں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے
پانچواں سبب ۔ عوام ۔ جنہیں کسی پر یقین نہیں ۔ مُلک کا قانون ہو یا آئین یا اللہ کے احکامات وہ کسی کا احترام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ سب منتشر ہیں اور محنت کی روزی کمانے کی بجائے اپنی کمائی جوئے میں لگا کر کاریں حاصل کرنا ان کو مرغوب ہے ۔ جو تاریخ سے نابلد ہیں چنانچہ سالہا سال دہائی مچاتے ہیں اورانتخابات کے وقت ماضی کو بھول کر پھر اُسی کو مُنتخِب کرتے ہیں جو ان کے دُکھوں کا سبب تھا گویا اپنے آپ کو اذیت پہنچانے کو شوق ہو
چھٹا سبب ۔ غیروں کی امداد پر انحصار ۔ نمعلوم ہمارے کم از کم تعلیمیافتہ افراد کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارا ہمدرد صرف کوئی ہموطن ہی ہو سکتا ہے غیرمُلکی نہیں ۔ غیرمُلکی تو ہمارا اُس وقت تک یا ان عوامل کیلئے دوست ہو گا جو اُس کے مفاد میں ہیں ۔ ان میں سے کچھ ہمارے مفاد میں بھی ہو سکتے ہیں ۔ کبھی “امریکا ہمارا دوست ہے” اور کبھی “امریکا ہمارا دُشمن ہے” کے نعرے بے عقلی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟
تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ جو قومیں اپنی محنت پر بھروسہ کرتی ہیں وسائل کم بھی ہوں تو وہ ترقی کی معراج پا لیتی ہیں ۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ موجودہ چین کے بانی مَوذے تُنگ نے قوم کو کس طرح اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ؟ ایک چھوٹی سی مثال ۔ میرا ایک دوست جو 4 دہائیاں قبل کسی تربیت کیلئے چین گیا تھا اُس نے واپس آ کر بتایا تھا کہ اُنہیں کھانے میں صرف 3 سبزیاں ملتی تھیں ۔ وہ بہت بیزار ہوئے اور وہاں کے مہتمم سے شکائت کی ۔ مہتمم نے جواب دیا کہ ہر کمیون میں جو لوگ رہتے ہیں وہی چیز کھاتے ہیں جو وہ اُگاتے ہیں ۔ اگر وہ کوئی چیز فاضل اُگائیں تو قریبی کمیون سے اُن کی فاضل پیداوار کے ساتھ تبادلہ کر سکتے ہیں ۔ ان کے کمیون میں دو سبزیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے ایک فاضل ہوتی ہے چنانچہ کبھی کبھی تیسری سبزی تبادلہ میں مل جاتی ہے ۔ ہمارا حال پنجابی کی ضرب المثل کی طرح ہے ۔ پلّے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ ۔ جو قومیں دوسروں کی دستِ نگر ہوتی ہیں وہ ذلت کی زندگی گذارتی ہیں اور بسا اوقات اُن کا نام و نشان بھی مٹ جاتا ہے
دو دہائیاں قبل تک پاکستان نہ صرف اناج میں خود کفیل تھا بلکہ اناج کا درآمد کنندہ بھی تھا مگر حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور عوام کی کاہلی اور آسان دولت کی ہوس نے قوم کو موجودہ دور کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا ہے ۔ پھر بھی بجائے اپنے اصل دُشمن کاہلی کو مارنے کے خرابیوں کی جڑ دوسروں کو قرار دیاجا رہا ہے ۔ خودمختاری، خوشحالی اور ترقی قوموں کو خیرات میں نہیں ملتے اور نہ امداد کے طور پر دستیاب ہیں بلکہ اس کیلئے دن رات محنت کرنا پڑتی ہے ۔ پُروقار اور خوشحال قوموں کی ترقی کا راز مندرجہ ذیل عوامل ہیں
1 ۔ انصاف ۔ 2 ۔ دیانت ۔ 3 ۔ محنت ۔ 4 ۔ اتحاد ۔ 5 ۔ عِلم ۔ 6 ۔ اہلیت ۔ 7 ۔ اجتماعی کوشش ۔ 8 ۔ باہمی اعتماد ۔ 9 ۔ برداشت ۔ 10 ۔ قناعت
جس قوم میں یہ خوبیاں نہ ہوں اس کی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ اُس کا زندہ رہنا بہت مُشکل ہے ۔ میں نے ایک بار لکھا کہ معجزے اب بھی ہوتے ہیں تو کسی مبصّر کا خیال تھا کہ معجزے صرف نبیوں کے زمانہ میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ تمام وہ عوامل جو کسی قوم کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہیں وہ ہماری قوم میں کم از کم پچھلی 4 دہائیوں سے مفقود ہیں اور اُن کا اُلٹ بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ قوم ابھی بھی نعرے لگا رہی ہے ۔ عصرِ حاضر میں اس سے بڑا معجزہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟
ایک جمہوریت کا سوال ہے بابا
امریکی صحافی سیمور ہرش کے طویل مضمون کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کا آغاز فوجی آمر پرویز مشرف نے کیا جو امریکیوں سے کہتا تھا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے ضرور کرو لیکن اپنے میزائلوں پر پاکستان ایئر فورس کے نشان چسپاں کردو تاکہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہ حملے امریکہ کررہا ہے۔ کیا قوم کے ساتھ اس سے بڑا کوئی اور فراڈ، دغابازی اور مکاری ہو سکتی ہے؟
سیمور ہرش نے لکھا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اس سال مئی میں امریکہ کی خواہش پر سوات میں طالبان کے خلاف آپریشن کا حکم دیا اور وزیرستان میں حالیہ آپریشن کا آغاز بھی دراصل اوبامہ انتظامیہ کی کامیابی ہے۔
ہرش نے جو کچھ لکھا ہے کہ اس کے بعد کون حقیقت پسند پاکستانی یہ تسلیم کرے گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ امریکہ کی نہیں بلکہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ یہ مشرف کی شروع کردہ جنگ ہے جسے زرداری حکومت انتہائی بے ہنگم طریقے سے آگے بڑھا رہی ہے۔ اس جنگ نے ہم پاکستانیوں کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ کردیا ہے اور درندہ نما انسان روزانہ بے گناہ انسانوں کو بم دھماکوں میں موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے مجھے چارسدہ اور پشاور میں کچھ ایسے مقامات پر عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا جہاں کار بم دھماکوں میں درجنوں نہیں سیکڑوں بے گناہ مارے گئے
بعض لوگ ان بم دھماکوں کو بلیک واٹر کے کھاتے میں ڈالتے رہے لیکن اکثریت کا خیال تھا کہ جب تک موجودہ حکومت مشرف دور کی پالیسیاں نہیں بدلتی پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا
فاروق اعظم چوک چارسدہ میں ایک تاجر نے مجھے کہا کہ مشرف نے ہمیں این آر او دیا اور این آر او نے ہمیں صدر زرداری دیا، کیا صدر زرداری میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کرکے مشرف کے بھوت سے چھٹکارا نہیں پاسکتے؟
پیپل منڈی پشاور میں دھماکے سے تباہ شدہ مسجد کے ملبے کے قریب کھڑے ایک بزرگ نے کہا کہ ایک طرف وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے دوسری طرف وہ بھارت سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے تو پھر بھارت کے ساتھ مذاکرات کیوں؟
وہ لوگ جنہوں نے حالیہ بم دھماکوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہیں ان کی اکثریت بدستور اس جنگ کو اپنی جنگ نہیں سمجھتی۔ اگر آپ کو یقین نہ آئے تو پشاور یا چارسدہ کے کسی بھی چوراہے پرکھڑے ہوکر لوگوں سے بات کرلیں
عام لوگ بڑے سمجھدار ہیں وہ فساد کی جڑ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی کو سمجھتے ہیں۔ جب تک امریکی فوج افغانستان میں موجود رہے گی اس خطے میں امن قائم نہیں ہوگا
امریکی فوج کو اس خطے سے نکالنے کیلئے افغانستان اور پاکستان میں ایک پرامن عوامی تحریک کی ضرورت ہے اور ایسی تحریک کو امریکہ اور یورپ میں بھی پذیرائی ملے گی۔ جمہوریت جتنی بھی بُری ہو لیکن بُری جمہوریت میں بھی پرامن سیاسی تحریک چلانا آسان ہوتا ہے۔ بُری جمہوریت ایک لانگ مارچ پرمعزول ججوں کو بحال کردیتی ہے جبکہ فوجی آمر اپنوں کے سامنے جھکنے کے بجائے ایمرجنسی لگا دیتا ہے۔ کوشش کرنی چاہئے کہ جمہوریت کو بہتر بنایاجائے اور امریکہ کی قید سے اسے رہائی دلوائی جائے لیکن جمہوریت کا خاتمہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ جمہوریت جتنی بھی بری ہو بھارت کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتی اور آمریت جتنی بھی اچھی ہو بار بار بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے۔ جمہوریت صرف اپنے عوام کے سامنے ہتھیار ڈالتی ہے
جنرل ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پانچ دریاؤں کا پانی بھارت کو بیچ دیا
جنرل یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کیا، اس آپریشن سے جنم لینے والی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا اور شکست کے بعد بنگلہ دیش نے جنم لیا
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھارت نے سیاچن کی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا
جنرل پرویز مشرف نے گیارہ ستمبر 2001ء سے قبل ہی نہ صرف مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف میں یکطرفہ لچک پیدا کرنی شروع کردی بلکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پر بھی کاٹنے شروع کردیئے ۔ 2000ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پرویز مشرف کے متعلق کہا تھا کہ یہ شخص اپنا اقتدار بچانے کے لئے سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے۔ پرویز مشرف نے لانگ رینج میزائل پروگرام کیلئے فنڈز بند کردیئے ہیں تاکہ امریکہ اس سے خوش ہوجائے۔ یہ واقعہ نو گیارہ سے پہلے کا ہے اور نو گیارہ کے بعد مشرف نے پاکستان کے قومی ہیرو کے ساتھ جو کچھ کیا وہ کوئی جمہوری حکومت کرتی تو اسے غدار قراردیا جاتا
حامد میر کے قلم کمان سے
عورت ۔ ۔ ۔ مرد کی زندگی میں
جب میں اس دنیا میں آیا تو عورت نے مجھے گود لیا ۔ ۔ ۔ میری ماں
جب میں اپنے پاؤں چلنے لگا تو عورت نے میرا خیال رکھا اور میرے ساتھ کھیلا ۔ ۔ ۔ میری بہن
جب میں پڑھنے لگا تو مجھے عورت نے پڑھنا سکھایا ۔ ۔ ۔ میری اُستاذہ
جب میں جوانی میں دُکھ کا شکار ہوا تو میرا غم عورت نے بانٹا ۔ ۔ ۔ میری بیوی
جب میں بڑھاپے میں چڑچڑا ہوا تو مجھے مسکراہٹ عورت نے دی ۔ ۔ ۔ میری بیٹی
جب میں مروں گا تو مجھے عورت ہی اپنی آغوش میں لے لے گی ۔ ۔ ۔ میرے وطن کی مٹی
پاکستان امریکی گیم پلان کے شکنجے میں
ڈاکٹر شیریں مزاری کا یہ مضمون اُن گھمبیر حقائق سے پردہ اُٹھاتا ہے جو عوام کے عِلم میں نہیں ہیں اور جن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے حکام کس قدر قوم دُشمن واقع ہوئے ہیں
پاکستان کے اندر اور اردگرد جس تواتر کے ساتھ واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ ایک انتہائی خطرناک صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں جب تک ہم اس وسیع تر منظر کو دیکھیں گے نہیں ۔ ہم اس کا شکار ہوسکتے ہیں اور امریکہ جیسے ہمارے بدخواہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والے اس ملک کیخلاف اپنا ایجنڈا پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اس امریکی ایجنڈے کی جڑیں مشرف کی جانب سے امریکہ کی دہشتگردی کیخلاف جنگ کو انتہائی جلد بازی میں گلے لگانے سے جا ملتی ہیں
اُس وقت جس بات کا ادراک نہیں کیاگیا وہ یہ تھی کہ نائن الیون کے نتیجے میں امریکہ نفسیاتی ٹراما میں جاچکا تھا جس نے عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے پہلے سے شُبہات پر مبنی امریکی نقطہ نظر کو مزید تقویت دی تھی۔ بلاشبہ بعض نرم خُو مسلم رہنمائوں کو قدرے پس و پیش کے بعد اتحادی بننا پڑا لیکن قوم پرست مسلم رہنماؤں اور ملکوں کے ساتھ تعلقات کو امریکیوں نے کبھی اطمینان بخش محسوس نہیں کیا۔ اگر یہ قومیں فوجی اور اقتصادی طور پر زیادہ مضبوط نہیں تو امریکہ نے ان کے ساتھ تعلقات میں کہیں زیادہ بے اطمینانی محسوس کی
اس حوالے سے مہاتیر کا ملائیشیا انقلابی ایران اور ایٹمی پاکستان یقینی طور پر کسی ایک یا دوسری طرح امریکی راستے میں رکاوٹ بنے
رہے ہیں لہٰذا جب نائن الیون کا واقعہ ہوا تو اگرچہ اس واقعہ میں سعودی شہری ملوث تھے لیکن پاکستان کو مرکزی طور پر نشانہ بنایا گیا اور امریکہ نے دیکھا کہ پاکستان کو توڑنے اور بالآخر اس کے ایٹمی اثاثوں پر تنقید کرنے کا سنہری موقع ہے ۔ مشرف نے ابتداء میں ہی جس طرح بڑھ چڑھ کر امریکہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا وہ خود بُش انتظامیہ کیلئے حیران کن بات تھی تاہم انہیں اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ حربی سطح پر مطالبات ماننے کے حوالے سے مشرف کی بعض حدود ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج عموماً پاکستان کیلئے امریکی ایجنڈے کے راستے میں رکاوٹ بنتی رہی ہے لہٰذا پاک فوج اور اسکے انٹیلی جنس ادارے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں خصوصاً ایک بار تو سی آئی اے دو سال قبل آئی ایس آئی سے اس بات پر الجھ پڑی کہ فاٹا میں کس کو نشانہ بنایا جائے
آخر پاکستان کیلئے بدشگونی پر مبنی امریکی ایجنڈا ہے کیا؟ امریکی فوج کے جریدے میں ’’بلڈ بارڈوز‘‘ کے عنوان سے چند سال قبل ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں اس کا وسیع خاکہ پیش کیاگیا تھا اس میں شامل اہم عناصر کی اب اس طرح نشاندہی کی جاسکتی ہے
1۔ پاکستان اور اسکے ریاستی اداروں کی امریکی خواہشات کے مطابق تشکیل نو کی جائے
2 ۔ ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول حاصل کیاجائے تا وقتیکہ یہ یقینی طور پر باہرنہ لے جائے جا سکیں
3 ۔ پاکستان کو خطے میں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے اور چین کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ ختم کرنے پر مجبور کیا جائے
اس ایجنڈے پر عملدرآمد کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ کہ پاکستان میں اسقدر تشدد اور افراتفری پھیلائی جائے کہ پاکستان میں آنے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر کنٹرول کا جواز پیدا ہوسکے ۔ ملک کیلئے ایک نئے ٹیسٹ ماڈل کی تشکیل کی جائے جس میں اسے بھارتی بالادستی کے تحت لانا بھی شامل ہے ۔ اس امریکی ایجنڈے پر کس طرح عملدرآمد کیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جنگ کا مرکز افغانستان سے پاکستان منتقل کیاجائے گا ۔ یہ مختلف دلچسپ حربوں کے ذریعے بالآخر مکمل کرلیا گیا ہے ۔ اس کا آغاز تورا بورا پربمباری کے دوران القاعدہ اور طالبان کو بچ نکلنے کا راستہ دے کر کیا گیا اس کے بعد پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنے کیلئے ڈرون حملے شروع کئے گئے ۔ ان حملوں کے باعث فاٹا کی انتہائی محب وطن آبادی بتدریج سٹیٹ کیخلاف ہوتی گئی خصوصی طور پر ایسا اس وقت ہوا جب امریکہ نے دباؤ ڈال کر فوج کو اس علاقے میں جانے پر مجبور کیا ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کو افغانستان میں آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ۔ اس طرح افغانستان سے دہشت گردوں کیلئے بلوچستان فاٹا اور صوبہ سرحد میں سرمائے اور ہتھیاروں کی آمد شروع ہوگئی
مزید برآں اپنے پُرتشدد ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نئی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے نام سے وجود میں آئی جسے واضح طور پر سرحد پار سے بڑی تعداد میں ہتھیار فراہم کئے گئے اوران میں سے بعض امریکی ساختہ تھے ۔ اس دوران امریکہ پاکستان میں اپنی خفیہ موجودگی میں بتدریج اضافہ کرتارہا جس کا آغاز اس نے تربیلامیں نام نہاد ٹرینرز اور پرائیویٹ امریکی سکیورٹی ایجنسیوں سے کیا جو عراق جیسے علاقوں میں امریکی حکومت کیلئے کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں
بلوچستان میں بھی امریکی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے خصوصاً جبکہ امریکہ اس صوبے کے ذریعے ایران کیخلاف اپنے خفیہ آپریشنز پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے جبکہ مشرف نے بڑی فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اڈے امریکہ کے حوالے کردیئے تھے ۔ ان میں بغداد میں ایئربیس بھی شامل ہے جو خاران سے 78 کلو میٹر کے علاقے میں ہے اسے شَمسی نہیں شِمسی ایئربیس کہا جاتا ہے اور بدوالبندین کے قریب ایرانی سرحد پر واقع ہے جہاں سے ڈرون پروازیں کر رہے ہیں یہ واحد ہوائی اڈہ ہے جو سول ایوی ایشن کے زیرکنٹرول فہرست میں شامل نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ امریکہ سفارتی اور سیاسی سطح پر ” ڈو مور” کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے اور فوج کی ساکھ کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کیخلاف لڑنے کے اسکے عزم کے حوالے سے نقصان پہنچا رہا ہے۔ آئی ایس آئی کو خصوصی طور پر نشانہ بنانے کیلئے چنا گیا ہے جبکہ امریکی میڈیا کے ذریعے ایٹمی اثاثوں کو وقتاً فوقتاً نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ افغانستان میں امریکہ کو جس قدر ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے کہ کسی قدر وہ اپنی ناکامیوں کو پاکستان کے سر تھونپنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ یہ وجہ تھی جس نے امریکہ کو یہ جنگ پاکستان منتقل کرنے پر مجبور کردیا ہے
مشرف امریکہ اتحاد جاری رہتا لیکن انصاف اور آزادی کیلئے پاکستانی عوام کی خواہش نے مشرف کی جانب سے عدلیہ کا ہاتھ مروڑنے پر جوڈیشل تحریک کو متحرک کیا لیکن قوم ایک بار پھر کسی تبدیلی سے محروم رہی کیونکہ امریکہ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ این آر او کے ذریعے اپنا ایک نیا پارٹنر تلاش کرلیا ۔ زرداری کی صورت میں انہیں ایک زیادہ تعاون کرنے والا رہنما مل گیا جس کے پاس جمہوری سند بھی ہے ۔ اگر مشرف نے امریکہ کو کھُلی رسائی دینے کا آغاز کیا تھا تو دوسری طرف زرداری حکومت تمام حدود کو پار کر گئی ہے
اب امریکی حکمت عملی پر عملدرآمد کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جو یہ ہے کہ انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروپوں کے ذریعے پاکستانی شہروں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے پاکستان کو اندر سے غیر مستحکم کیا جائے جبکہ کیری لوگر بل میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ فوج کو پہلے سوات اوراب جنوبی وزیرستان میں آپریشنوں میں الجھا دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ہمسایہ ملکوں سے الگ تھلک کرنا بھی ضروری ہے ۔ اس مقصد کیلئے پاکستانی بلوچوں سے ملحقہ ایرانی صوبے تفتان میں ایرانی سکیورٹی فورسز پر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ حملے کرائے گئے تاکہ ایران پاکستان تعلقات تباہ کئے جائیں ۔ چین کے بعد ایران پاکستان کا واحد ہمسایہ دوست ہے
پاکستان میں امریکہ کی پوشیدہ موجودگی اب ایک جال کی شکل اختیار کر گئی ہے جو جنوب میں سندھ اور بلوچستان اور جنوب مغرب میں پنجاب سے اسلام آباد اور پشاور تک پھیلا ہوا ہے ۔ اب امریکہ کے خفیہ مسلح لوگ امریکی میرینز کے ساتھ مل کر پاکستانیوں اور ان کے ایٹمی اثاثوں کو گھیرے میں لے رہے ہیں۔ کیری لوگر ایکٹ اس بات کو محض رسمی طور پر تسلیم کرنا ہے جو عملی طور پر پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی ہے یعنی امریکی حُکم کے سامنے سر تسلیم خم کرکے اب امریکی ایجنڈے کے آخری مرحلے پر عملدرآمد ہونا ہے لیکن یہ بہت مشکل ہوگا ۔ اس مرحلے میں کوئٹہ جنوبی پنجاب اور مریدکے کو ہدف بنانے کی دھمکیوں سے ملک کو خانہ جنگی جیسی صورتحال میں دھکیلنا ہے
پہلے فوج پر سوات میں آپریشن کیلئے دبائو ڈالا گیا اور اب فوج جنوبی وزیرستان میں آپریشن کر رہی ہے جبکہ نئے اقدام کیلئے فوج نے جنوبی پنجاب کی جانب پہلے ہی پیشقدمی شروع کردی ہے ۔ مقصود فوج کو پھیلا کر اور سول، ملٹری اختلافات پیدا کرکے ملک کومکمل طور پر غیر مستحکم کرنا ہے ۔ جب ملک میں مکمل افراتفری پھیل جائے گی تو امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر دبائو ڈالے گا کہ اسے پاکستان کے ایٹمی اثاثے کنٹرول میں لینے کی اجازت دی جائے جسے شائستہ زبان میں ” بین الاقوامی کنٹرول‘‘ میں دینا کہا جاتا ہے لیکن اب بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اقتدارکی راہداریوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے روشنی کو دیکھنا شروع کردیا ہے جبکہ اس مہلک امریکی ایجنڈے کیخلاف پاکستانی عوام بھی بیدار ہوگئے ہیں جب تک ہم امریکہ کی اس پوری گیم پلان کو نہیں دیکھیں گے اور تمام نقطوں کونہیں ملائیں گے ہمارے اس تباہ کن منصوبے کا شکار بننے کا سلسلہ جاری رہے گا
ڈاکٹر شیریں مزاری جو سابق سربراہ ۔ انسٹیٹیوٹ کا ڈیفَینس اینڈ سٹریٹیجِک پلاننگ ۔ قائد اعظم يونیورسٹی ہیں اپنے مضمون کی ماہر ترین پاکستانی سمجھی جاتی ہیں ۔ ان کا یہ مضمون جمعہ 23 اکتوبر 2009ء کو نوائے وقت میں شائع ہوا