Category Archives: تجزیہ

اُسامہ مر گيا ۔ اب کيا ؟

آج صبح سويرے ميری بيگم بوليں “ٹی وی بتا رہا ہے کہ اُسامہ بن لادن کو ايبٹ آباد کے قريب ہلاک کر ديا گيا ہے ۔ ميرے مُسکرانے پر بيگم نے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا “توبہ کرو ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ کہو”۔ ميں نے اسی وقت إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ پڑھا اور بيگم سے کہا “يہ امريکا والے جھوٹ بول رہے ہيں اپنی عوام کو وقفے وقفے سے اسپرين کی گولی ديتے رہتے ہيں تاکہ انہيں درد کا افاقہ رہے”

ميں کچھ لکھنا چاہتا تھا مگر ميں نے کمپيوٹر چلا کر ای ميلز پڑھی تھيں کہ بجلی غائب ۔ ايک گھنٹے بعد بجلی آئی تو ميں سوچ چکا تھا کہ دوسرے خواتين و حضرات کا ردِ عمل ديکھا جائے ۔ صرف ايک تحرير آئی ۔ وہ بھی بطور خبر کے ۔ اس تحرير پر جو لکھنے گيا تھا اُس کی بجائے لکھاری کو دلاسہ دے کر آ گيا ۔ پھر اپنے مخزن مضامين کيلئے کچھ اور تحرير لکھنے ميں مشغول ہو گيا ۔ بجلی پھر چلی گئی ۔ پھر نيچلی منزل جا کے سارا اخبار پڑھ ڈالا ۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانا کھايا ۔ قيلولہ کيا ۔ اوپر کی منزل پر آ کر کمپيوٹر چلايا اور خُرم صاحب کی متذکرہ بالا تحرير کو دوبارہ کھولا تو وہاں کئی تبصرے ديکھے جس سے محسوس ہوا کہ ميرے ساتھ اور لوگ بھی ہيں جو اس خبر پر يقين نہيں رکھتے ۔ ابھی ميں نے اپنے خيالات قلمبند کرنا شروع کئے تھے کہ بجلی پھر چلی گئی ۔ بجلی آئی ہے تو لکھنے بيٹھا ہوں

ميرا موت ميں اتنا ہی يقين ہے جتنا اس ميں کہ ميں اس وقت لکھ رہا ہوں ۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَيْہِ رَاجِعُونَ ۔ سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 156 ۔ ترجمہ ۔ ہم اللہ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‏ مرنا بر حق ہے ۔ سوال صرف يہ ہے کہ کيا اُسامہ بن لادن مر گيا اور کب اور کہاں مرا ؟ ميرا جواب ہے کہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا کہ اُسامہ بن لادن زندہ ہے يا مر گيا ۔ رہا اُس کا پاکستان ميں ہونا يا مرنا تو يہ قرينِ قياس نہيں ہے ۔ اگر وہ پاکستان ميں ہوتا يا مرتا تو اس کی خبر بالخصوص موجودہ حالات ميں پاکستان آرمی کے آئی ايس پی آر سے آتی نہ کہ امريکا سے ۔ آئی ايس پی آر خاموش ہے اور حکومتی بيان مُبہم آيا ہے

امريکا کو افغانستان ميں شکست کا سامنا ہے جہاں فتح کا اعلان امريکی اہلکار کئی بار کر چکے ہيں ۔ دسمبر 2001ء ميں جب تورا بورا پر ڈيزی کٹر پھينک کر کارپٹ بومبنگ کی گئی تھی ۔ اُس وقت کے امريکی صدر جارج بُش نے اُسامہ کو ہلاک کرنے کا دعوٰی کيا تھا ۔ دراصل امريکی حکومت اپنی عوام کے درد کو کم کرنے کيلئے وقفوں سے اسپرين کی گولی ديتی رہتی ہے ۔ اُسامہ کی موت کی اس وقت خبر دينا بھی اسپرين کی ايک گولی سے زيادہ کچھ نہيں يا پھر ايسے وقت جب پاکستان کی فوج صرف اپنی شرائط پر مزيد تعاون کرنا چاہتی ہے پاکستانی حکومت يا فوج کو دباؤ ميں لانا مقصود ہو سکتا ہے ۔ امريکی حکمرانوں ميں عقل کی کمی ہے يا وہ بوکھلائے ہوئے ہيں کہ اپنے ہی مختلف بيانات سے خبر کو مکمل مشکوک بنا ديا ہے ۔ امريکی حکمرانوں کو چاہيئے کہ بات کرنے کا ڈھنگ ق ليگ پنجاب کے صدر چوہدری پرويز الٰہی سے سيکھ ليں ۔ کس طرح اُس نے ہمارے ملک کے چالاک ترين آدمی آصف علی زرداری کو چاروں شانے چِت کر ديا ہے

حقيقت تو اللہ کو معلوم ہے اور امريکی بڑوں کو بھی معلوم ہو گی ۔ فرض کر ليتے ہيں کہ جس طرح اوبامہ نے کہا ہے امريکی ايجنسی نے کل کاروائی کر کے اُسامہ کو ايبٹ آباد ميں ہلاک کيا اور اس کاروائی ميں 2 ہيلی کاپٹروں نے حصہ ليا جن ميں سے ايک گر گيا يا گرا ليا گيا ۔ اب ان سوالوں کا کون جواب دے گا ؟

1 ۔ ايک دفاعی اہميت کے شہر “ايبٹ آباد” ميں اُسامہ قيام پذرير تھا ۔ اُسے خوراک اللہ کے فرشتے نہيں پہنچاتے تھے ۔ مگر وہ شخص جس کی شکل ٹی وی چينلز پر ديکھ ديکھ کر بوڑھوں سے بچوں تک سب کو ازبر ہو چکی ہے جان نہ سکے کہ اُسامہ اُن کے درميان رہ رہا ہے

2 ۔ حالانکہ عمارت بڑی تھی اور اس ميں کئی لوگ رہتے تھے پھر بھی فرض کر ليتے ہيں کہ کوئی نہ کبھی اس عمارت کے اندر گيا اور نہ کبھی باہر آيا ۔ پھر بھی يہ ممکن نہيں ہے کہ ايبٹ آباد کے لوگوں نے جستجو نہ کی ہو کہ اس بڑی عمارت ميں کون رہتا ہے جبکہ اگر ہميں پتہ نہ چلے کہ فلاں عمارت ميں کون رہتا ہے ؟ تو ہماری نينديں حرام ہو جاتی ہيں

3 ۔ پاکستان کی خفيہ ايجنسياں جو گڑے مُردے بھی سونگھ ليتی ہيں ۔ جہاں ان کی ذمہ دارياں سخت تھيں اسی علاقے ميں سب سے بڑا دہشتگرد مزے لُوٹ رہا تھا اور اُنہيں اس کی بھِنک نہ پڑی

4 ۔ کيا اس بات کی اجازت ہماری حکومت نے دے رکھی ہے کہ جس کا جی چاہے جہاں چاہے خُفيہ فوجی کاروائی کرے اور جسے چاہے جتنوں کو چاہے ہلاک کر دے اور اُن کے جسم بھی اُٹھا کر ليجائے ؟

5 ۔ بقول امريکی اہلکاروں کے جسم کو سمندر ميں پھينک ديا گيا ۔ کيوں ؟ اسے محفوظ کر کے امريکا ليجا کر اور اسے وہاں کے ٹی وی چينلز کو کيوں نہ دکھايا ؟ جبکہ عراق اور افغانستان ميں مارے جانے والے سينکڑوں بلکہ ہزاروں امريکی فوجيوں کی نعشوں کو اپنی عوام کے غيظ و غضب سے بچنے کيلئے کئی کئی سال تک عراق اور افغانستان محفوظ رکھا گيا اور تھوڑی تھوڑی نعشيں امريکا ليجائی جاتی رہيں

6 ۔ کيا پاکستانی حکومت اور ايجنسياں بالکل نااہل ہيں کہ ان کے ملک کے دفاعی اہميت کے شہر ميں ہيلی کاپٹروں کی مدد سے کاروائی ہوئی جو کم از کم 35 يا شايد 45 منٹ تک جاری رہی اور انہيں خبر تک نہ ہوئی ؟

7 ۔ لازمی امر ہے کہ ہيلی کاپٹر پاکستانی فضا ميں سينکڑوں کلوميٹر لمبا سفر طے کر کے ايبٹ آباد پہنچے ہوں گے ۔ کيا کسی ايجنسی کسی آرمی يا رينجرز فارميشن نے اُنہيں نہيں ديکھا ؟ گويا وہ سب بھی نشہ پی کر سوئے ہوئے تھے ؟

8 ۔ امريکا نے بقول امريکا افغانستان پر 2001ء ميں اسلئے حملہ کيا تھا کہ وہاں اُسامہ تھا جسے طالبان نے امريکا کے حوالے کرنے سے انکار کر ديا تھا اور وہ اُسامہ کو ہلاک کرنا چاہتے تھے ۔ اُسامہ ہلاک ہو گيا ۔ اب امريکا اپنا بوريا بستر گول کر کے افغانستان سے کيوں نہيں چلا جاتا ؟

بات آخر ميں يوں بنتی ہے کہ اب پاکستان کے عوام اپنے ۔ اپنے پياروں اور اپنی املاک کی حفاظت خود اپنے ہاتھ ميں لے ليں کيونکہ حکمران ۔ فوج ۔ رينجرز ۔ پوليس سب نااہل ہيں يا دشمن کے ايجنٹ ہيں ۔ ايسا نہيں ہو سکتا ايسا کبھی نہيں ہو سکتا

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

کامیاب شادی کے پہلے 7 اصول

1 ۔ يقين
شادی کا سب سے اہم عنصر خاوند اور بيوی کا اعتقاد ہے جس کی ہم آہنگی شادی کے بندھن کو مضبوط بناتی ہے ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا خاوند اور بيوی کو ايک دوسرے کا احترام اور محبت کرنے پر اُکساتی ہے

2 ۔ درگذر
کسی کی طرف سے کی گئی زيادتی پر چشم پوشی عام طور پر زيادتی کرنے والے کو دوست بنا ديتی ہے ۔ خاوند اور بيوی اگر ايک دوسرے کی لغزش پر درگذر کا رويہ اختيار کريں تو اُن کی محبت ميں اضافہ ہوتا ہے

3 ۔ بھُلانا
اگر خاوند اپنی بيوی کو يا بيوی خاوند کو اُس کی غلطياں ياد کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ غلطی پر درگذر نہيں کيا گيا ۔ گذری باتوں کو ماضی کے ساتھ ہی دفن کر دينا چاہيئے کيونکہ ان کا دہرانا نئے زخم لگاتا ہے جو مندمل ہونے ميں اصل وقت سے زيادہ مدت ليتے ہيں

4 ۔ صبر و تحمل
صبر و تحمل ايک ايسی خوبی ہے جو انسان کو اعلٰی مرتبہ پر پہنچاتی ہے ۔ بہت سے مسائل اور جھگڑے بے صبری اور چلبلے پن سے پيدا ہوتے ہيں ۔ اسلئے انسان کو صبر اور تحمل سے کام لينا چاہيئے ۔ بہت سی بری لگنے والی باتوں پر صبر اور تحمل کے ساتھ غور کيا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنی بری نہ تھيں جتنا محسوس ہوئی تھيں

5 ۔ رواداری
بہت سے جوڑوں ميں چپکلش کا سبب اُن کا جمود ہوتا ہے يعنی وہ اپنے آپ ميں يا اپنی عادت ميں تبديلی نہيں لا سکتے يا لانا نہيں چاہتے ۔ حقيقت يہ کہ شادی سے پہلے جس زندگی کے خواب ديکھے ہوتے ہيں يا جو کچھ کہانيوں ميں پڑھا ہوتا ہے شادی کے بعد وہ زندگی نہيں ہوتی ۔ شادی کے بعد محبت صرف خوبصورتی اور تعريفوں کا نام نہيں رہ جاتا بلکہ ايک دوسرے کيلئے وقت کے مطابق ہمدردی اور ايثار بن جاتا ہے ۔ رواداری اس بندھن کو قائم رکھنے کيلئے انتہائی ضروری ہے

6 ۔ دوستی
اصل دوستی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ آپس ميں دوستی کو قائم کرنا ۔ ہر آدمی اپنے دوست کی عزت کرتا ہے ۔ اس پر اعتماد کرتا ہے ۔ اس پر بھروسہ رکھتا ہے ۔ اس کا خيال رکھتا ہے باوجوديکہ دوستوں ميں باہمی اختلافات بھی ہوتے ہيں ۔ خاوند اور بيوی ميں دوستی کا رشتہ ہموار ہو جائے تو پھر اُن پر بيرونی عوامل اثر انداز نہيں ہو پائيں گے

7 ۔ دوستانہ نقطہ نظر
دوستانہ نقطہ نظر رکھنے کا مطلب ہے کہ دونوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے سب لوگوں کے ساتھ دوستانہ رويہ رکھا جائے ۔ اس ميں خاوند کيلئے بيوی کے اور بيوی کيلئے خاوند کے والدين اور بہن بھائی اول حيثيت رکھتے ہيں ۔ يہ حقيقت بھولنا نہيں چاہيئے کہ شادی دو افراد کا نہيں دو خاندانوں کو بندھن ہوتا ہے ۔ يہ تعلقات ۔ احترام و محبت ايک دن ميں تو جنم نہيں ليتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پيدا ہونے چاہئيں

40 سال پرانے ريمنڈ ڈيوس کی گواہی

امریکی شہری رابرٹ اینڈرسن تقریبا ًچالیس سال پہلے لاوٴس میں اپنے ملک کے لیے وہی خدمات انجام دیا کرتے تھے جن کے لیے ریمنڈ ڈیوس اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کو پاکستان میں تعینات کیا گیا ہے۔لہٰذا پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور ان کے ساتھیوں کے کھیل کو سمجھنے کے لیے لاوٴس میں اینڈرسن کی ذمہ داریوں اور سرگرمیوں سے آگاہی انتہائی کارگر ثابت ہوسکتی ہے

خوش قسمتی سے رابرٹ اینڈرسن اپنی کہانی خود ہی منظر عام پر لے آئے ہیں ۔ معروف آن لائن امریکی نیوز میگزین کاوٴنٹر پنچ سمیت ان کی یہ تازہ ترین تحریر متعدد ویب سائٹوں پر موجود ہے ۔رابرٹ کی خواہش ہے کہ ان کی حکومت دوسرے ملکوں میں ایسی حرکتیں چھوڑ دے کیونکہ امریکی قوم کو اس کی قیمت اپنی ساکھ اور اعتبار سے محرومی کی شکل میں ادا کرنی پڑتی ہے

کئی دہائياں پہلے لاوٴس میں امریکی جاسوس کا کردار ادا کرنے والے اس امریکی شہری کا کہنا ہے کہ ” ریمنڈ ڈیوس ایک امریکی ہے جو پاکستان میں ہمارے سفارت خانے سے باہر سفارت کار کے روپ میں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے۔ اس واقعے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بیرونی ممالک ہم پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے اور پورے مشرق وسطیٰ میں لوگ بڑے شیطان کے خلاف کیوں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں”

[رابرٹ اینڈرسن کا مکمل مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے]

اس کے بعد رابرٹ اینڈرسن ماضی کے لاوٴس اور آج کے پاکستان میں پائی جانے والی مماثلت یوں واضح کرتے ہیں ” ویت نام کی جنگ میں لاوٴس کا ملک ویسے ہی جیو اسٹرے ٹیجک مقام کا حامل تھاجیسے آج افغانستان کے حوالے سے پاکستان ہے۔ ہمارے ملک نے پاکستان ہی کی طرح لاوٴس میں بھی سی آئی اے کو استعمال کرتے ہوئے ایک خود مختار قوم کے خلاف خفیہ فوجی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا“

اس تمہید کے بعد رابرٹ اینڈرسن اپنی روداد کا آغاز کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ”میں امريکی فضائیہ میں ایک ڈیمالیشن ٹیکنیشین تھاجسے سی آئی اے کے ساتھ لاوٴس میں امریکی آپریشنوں کے لیے ازسرنو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔ فوجی شناختی کارڈوں اور وردیوں کی جگہ ہمیں وزارت خارجہ کی جانب سے شناختی کارڈ جاری کیے گئے اور ہم نیلی جینز میں ملبوس ہوگئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اگر ہم زندہ پکڑے جائیں تو سفارتی استثنیٰ کا مطالبہ کریں۔ ہم نے لاوٴس، کمبوڈیا، تھائی لینڈ اور ویت نام تمام ملکوں میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی مشن انجام دینے کا کام کیا۔ ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اگر ہم مارے یا پکڑے گئے تو شاید ہمیں تلاش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جائے گی اور وطن میں ہمارے گھروالوں سے کہہ دیا جائے گا کہ ہم تھائی لینڈ میں کسی ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگئے ہیں اور ہماری لاشیں دستیاب نہیں ہوسکی ہیں“

اس سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن انکشاف کرتے ہیں کہ ”ہماری ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کار یا بین الاقوامی میڈیا کے نمائندے آنے والے ہوں تو ہمیں اپنے محفوظ ٹھکانوں میں چھپ جانا چاہیے تاکہ ہم سے سوالات نہ کیے جاسکیں“

اس سابق امریکی جاسوس کے بقول عشروں پہلے” امریکی سفارت خانے سے باہر، امریکی فوج اور سفارت کاروں کو استعمال کرتے ہوئے کِیا جانے والا یہ ایک نہایت منظم آپریشن تھا۔ 1968 کی فوجی مہم Tet Offensive کے دوران جب میں وہاں تھا، شروع ہونے والی یہ کارروائی لمبی مدت تک جاری رہی، یہاں تک یہ پوری جنگ ناکامی پر ختم ہوگئی“

اس کہانی کا انتہائی معلومات افزاء حصہ، جس کی روشنی میں پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس اور اس کے ساتھیوں کے مشن کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا ہے، وہ ہے جس میں رابرٹ اینڈرسن نے لاوٴس میں اپنی ذاتی سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں۔ اس کے بعض اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں

رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں ” لاوٴس میں جس پروگرام سے میں وابستہ تھا،وہ ان لوگوں کا منظم قتل تھا جو امریکی اہداف و مقاصد سے وفادار نہ
ہونے کے حوالے سے شناخت کیے گئے ہوں۔ اس پروگرام کو Phoenix پروگرام کہا جاتا تھا، اور اس کے تحت انڈو چائنا کے علاقے میں ساٹھ ہزار افراد کو ٹھکانے لگایا گیا“

مگر اس درندگی اور سفاکی کا نتیجہ کیا نکلا؟ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے ”ہم نے ملک کے شہری انفرا اسٹرکچر کو حیرت انگیز پیمانے پر تباہی سے دوچار کیا، اس کے باوجود جنگ ہار گئے“

رابرٹ اینڈرسن امریکی سامراج کے انسانیت سوز جرائم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتاتے ہیں : “کرائے کے فوجیوں کی ایک ٹیم کو، جسے میں تربیت دے رہا تھا،اُن مردہ شہریوں کے کانوں کا تھیلا لاکر دکھانے کا حکم دیا گیا جو ان کے ہاتھوں قتل ہوئے ہوں۔ اس طرح وہ ثبوت مہیا کرتے تھے کہ ہمارے لیے انہوں نے کتنے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ تاہم بعد میں یہ طریق کار تبدیل کردیا گیا اور کرائے کے قاتلوں سے کہا گیا کہ وہ مرنے والوں کے کان کاٹ کر لانے کے بجائے ․صرف ان کی تصاویر کھینچ کر فراہم کردیا کریں”

یقینی طور پر اسی طریق کار پر عمل کرتے ہوئے لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کو اپنی بندوق سے قتل کرنے کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے بھی اپنے موبائل فون سے ان کی تصویریں بنائی تھیں

اس کہانی کے اگلے حصے میں رابرٹ اینڈرسن بتاتے ہیں کہ لاوٴس اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں ان بہیمانہ کارروائیوں پر مبنی فلم” ایئر امریکا “کے نام سے Mel Gibson نے بنائی تھی۔ اس مووی میں منشیات کے اس کاروبار کا احاطہ بھی کیا گیا ہے جس کا اہتمام امریکی سی آئی اے ان آپریشنوں کے اخراجات پورے کرنے کے لیے کرتی تھی کیونکہ ،رابرٹ اینڈرسن کے بقول کانگریس نے ان کاموں کے لیے جو ہم کررہے تھے، فنڈز کے منظوری نہیں دی تھی۔ رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ میں نے ڈرگ آپریشن بھی براہ راست دیکھے ہیں اور ان کی ساری تفصیل الفرڈ مک کائے کی کتاب”دی پالی ٹیکس آف ہیروئین ان ساوٴتھ ایشیا“ میں موجود ہے۔“ رابرٹ اینڈرسن کا کہنا ہے کہ وہ ان معاملات کو اس وقت تک ایک دوسرے سے مربوط نہیں کرتے تھے جب تک ایران کونٹرا کیس میں اولیور نارتھ اس سلسلے میں جوابدہی کے لیے عدالت میں پیش نہیں ہوا کیونکہ وہ لاوٴس آپریشن کا ایک لیڈر تھا اور رابرٹ کو اس کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی

سابق امریکی جاسوسرابرٹ اینڈرسن معترف ہے کہ اس کا ملک دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی سے اس قسم کی مجرمانہ اور انسانیت دشمن کارروائیوں میں ملوث چلا آرہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس طرح ہم جرمن نازیوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم ان جرائم کو سرد جنگ کے دوران جائز قرار دیتے رہے۔ اس نوعیت کی پہلی کارروائی 1953ء میں صدر روزویلٹ کے دور میں تیل کے کنووں پر تسلط کے لیے ایران کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر کی گئی

سی آئی اے کی ایسی دیگر خفیہ مجرمانہ کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جنہیں امریکی شہریوں سے بھی چھپایا جاتا رہا، رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ماضی میں اس طریقے کے بجائے جس میں نہ اپنے لوگوں پر اعتماد کیا جاتا ہے نہ دوسرے ملکوں کے لوگوں پر ، اس کے بجائے انہیں بے دریغ قتل کیا جاتا ہے، اپنے مسائل کے حل کے لیے مختلف طریق کار اپنایا ہوتا تو ہمارا ملک ان مشکلات سے دوچار نہ ہوتا جو آج پوری دنیا میں اسے درپیش ہیں

کہانی کے آخری حصے میں اس انسانیت سوز کھیل میں اپنی شرکت کے اسباب کی وضاحت کرتے ہوئے رابرٹ اینڈرسن کہتے ہیں کہ ویت نام کی جنگ کے ان دنوں میں، وہ نوعمر اور بیوقوف تھے اور ایک چھوٹے علاقے سے تعلق رکھنے والے کھلندڑے لڑکے کی حیثیت سے اس خفیہ مشن سے وابستگی ان کے لیے بڑی چیز تھی۔ مگر اب وہ پہلے سے بہت زیادہ ہوش مند ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کرتوتوں کے نتائج بہت دور رس اور تباہ کن ہوتے ہیں اور انہیں فوری طور پر بند ہوجانا چاہیے

لیکن ان کے بقول، پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس کے معاملے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی حکومت دنیا کے لوگوں کو جھٹلانے کے اپنے پرانے طریقے پر آج بھی کاربند ہے جبکہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی نہیں ۔ رابرٹ پوچھتے ہیں ”یہ منافقانہ حماقت کب ختم ہوگی؟ ہمارے سیاستدان اس بارے میں کب زبان کھولیں گے ؟ وہ جھوٹی باتوں اور چالوں کا ساتھ دینا کب چھوڑیں گے؟ مزید کتنے ہمارے اور دوسرے لوگ ان احمقانہ منصوبوں کی بھینٹ چڑھیں گے؟“

اس کے بعد وہ امریکا کی موجودہ پوزیشن کو مشرق وسطیٰ اور ڈیوس کے معاملے کے تناظر میں واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ریمنڈ ڈیوس اب برے حال میں ہے کیونکہ دنیا کے بیشتر لوگ ، جیسا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں، اب ہمارے جھوٹ سے واقف ہیں اور ہم پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں․․․ افسوس کہ اس سب کے باوجود صدر اوباما اب بھی جھوٹ کو دہرارہے ہیں“

ماضی کے ریمنڈ ڈیوس کا یہ اعترافِ حقیقت بہت بروقت اور لائق تحسین ہے ۔ یہ ایسی گواہی ہے جو ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے امریکی حکام کے لیے روسیاہی کا سبب اور پاکستان کے قومی موقف کے درست ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے

بشکريہ ۔ جنگ

شہباز بھٹی کا قاتل کون ہے ؟ امريکا يا طالبان ؟

جذبات اور جنون نہیں، جنابِ والا، حکمت و دانش اور تحمل و تدبّر ۔ میر صاحب نے کہا تھا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

دہشت گردی کے حوالے سے طالبان کی مخالفت ، مذمت اور مزاحمت بجامگر یہ کیسے طے ہوا کہ شہباز بھٹی کے قاتل لازماً وہی ہیں؟

قابلِ اعتماد ذرائع یہ کہتے ہیں کہ پنجابی طالبان کے نام سے پمفلٹ واردات کے بعد گرائے گئے، اسی وقت نہیں ۔ ان پر کلمہ طیبہ اور اللہ کے آخری رسول کا اسم گرامی لکھا ہے۔ طالبان ایسا کیوں کرتے؟ گھنی آبادی والا یہ ایسا علاقہ ہے ، جہاں سے طالبان کے لیے بھاگ نکلنا آسان نہ ہوتا کہ چاروں طرف ناکے ہیں۔ پھر ان کا انداز یہ کبھی نہیں رہا۔ وہ ڈرائیور کو بچا لینے کے لیے کیوں فکر مند ہوتے

شہباز بھٹی کے قتل کا ماتم ہی کیا جانا چاہئے ۔ اس میں دو آراء نہیں لیکن مغربی ممالک اور ان کا پریس اس سانحہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اس قدر بے تاب کیوں ہے؟

اس وقت تو موضوع ریمنڈ ڈیوس ہے اور وہ عوامل ، جس نے اس قماش کی مخلوق کے لیے پاکستان کو چراگاہ بنا ڈالا ہے۔ امریکی قاتل کے قضیے میں اگر کوئی گہرا تاریک راز پوشیدہ نہیں تو صدر اوباما تک کو جھوٹ کیوں بولنا پڑا کہ وہ ایک سفارت کار ہے ؟ امریکی قونصل خانے کے کار تلے کچل کر ہلاک کرنے والوں کو تفتیش سے بچانے کا ایسا فولادی عزم کیوں تھا؟ ریمنڈ ڈیوس کا اصل نام تک کیوں چھپایا گیا؟ کیا اس لیے کہ وہ بے نقاب ہوا تو خطرناک بھید کھل جائیں گے

1979ء سے 1989ء تک دس سالہ افغان جنگ میں ، جو تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ (Covert) جنگ تھی، سی آئی اے کے پچاس سے زیادہ اہلکار اس سر زمین پر کبھی نہ تھے، اب سینکڑوں کی ضرورت کیوں ہے؟ براہمداغ بگٹی کیا امریکی اجازت کے بغیر ہی افغانستان میں پناہ گزین رہا؟ امریکی اخبارات کو اور تو سبھی کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن پاک افغان سرحد کے ساتھ پھیلے بھارتی قونصل خانوں کی قطار کیوں نہیں؟ افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے لیے انکل سام کو پاکستانی تعاون کی کسی بھی چیز سے زیادہ ضرورت ہے پھر افغان سر زمین پر بھارت کی نازبرداری ؟

پھر ٹھیک انہی ایام میں واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے سے دھڑا دھڑ ویزے کیوں جاری ہوتے رہے۔ ہمیشہ چوکس اور مستعد رہنے والے حسین حقانی کی نگراں آنکھوں تلے ، جو پاکستان کے نہیں ، صدر زرداری کے سفیر سمجھے جاتے ہیں۔

امریکی شہریوں کے نام کیسا دلچسپ پیغام جاری ہوا ہے: پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر وہ پاکستان نہ آئیں۔ کیا کبھی کوئی سفری دستاویزات کے بغیر دوسرے ملک میں داخل ہوا کرتا ہے ؟ اگر اس سے پہلے امریکی شہری ویزے کے بغیر نہیں آئے تو اب اس اعلان کی ضرورت کیا تھی

يہ چند اقتباسات ہيں ۔ پورا مضمون يہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

ايک نظر ادھر بھی

اس غريب مُلک اور قوم کے مال پر پلنے والوں بلکہ گُلچڑے اُڑانے والے کہاں کہاں ہيں اور کيا خدمتِ خلق کر رہے ہيں ؟
يہ سرکاری اعداد و شمار ہيں ۔ کسی نے پنجاب کو گالی دينا ہے تو ضرور دے [ميرے بابا يا چاچا يا ماموں کی حکومت نہيں ہے پنجاب ميں] ليکن پہلے اپنے گريبان کے اندر اور اپنی چارپائی کے نيچے اچھی طرح نظر مار لے

اسمبلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعداد اراکين ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران ۔ ۔ ۔ وزراء و مشيران فی
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100 اراکين اسمبلی

قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 342 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 19.00

پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 371 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4.31

سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 168 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 70 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41.67

خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ 124 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26.16

بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 65 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72.30