Category Archives: تجزیہ

پيار کرتے کرتے ۔ ۔ ۔

ميں نے ساری عمر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ محبت کيا ہوتی ہے ؟ اور کہاں پائی جاتی ہے ؟
جہاں محبت کا نام سُنا وہاں انجام دھوکہ ہی نظر آيا ۔ مووی فلميں ۔ افسانے ۔ ناول ۔ قصے کہانياں سب محبت کی بجائے نفرت پھيلاتے نظر آئے ليکن پھر بھی خواہش تھی کہ

پيار کرتے کرتے ميری عمر بيت جائے

کسی لڑکی يا لڑکے کو غلط فہمی يا خوش فہمی ميں مبتلاء ہونے کی ضرورت نہيں ہے
مجھے کسی لڑکی سے پيار ہونے نہيں جا رہا ہے
بلکہ ميں نے فيصلہ کيا کہ کيوں نا پيار اپنے آپ سے کيا جائے ۔ نہ جنس کا عمل دخل ہو اور نہ ماديّت کا جو ابليس کو راستہ دينے کا مُوجب بنتے ہيں ۔ سو ساری زندگی اپنے آپ سے پيار کيا ہے اور اسی طرح اپنے سے پيار کرتے عمر بیتانے کی خواہش ہے
ايک فلسفی نے کہا تھا

اپنے من ميں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر ميرا نہيں بنتا نہ بن ۔ اپنا تو بن

آدمی اپنا بنے گا ہی تو زندگی کے راز کو پائے گا ورنہ خيالاتِ غير ميں بھٹکتا رہے گا اور جب ہوش آئے گا پانی سر سے گذر چکا ہو گا
جس نے اپنے آپ کو پا ليا اس نے اُس خالق کو پا ليا جس کی وہ مخلوق ہے
اپنے خالق کو پا ليا تو سب کچھ پا ليا ۔ اتنا کہ کوئی حسرت باقی نہ رہے

آدمی اگر کسی کی خدمت کرتا ہے تو اپنے پر احسان کرنے کيلئے
کسی کو اچھا مشورہ ديتا ہے تو اپنی زندگی سنوارنے کيلئے
دوسروں کے حقوق دلانے کيلئے کو شش کرتا ہے تو اپنے اطمينان کيلئے
گويا
آدمی سب کچھ اپنے لئے کرتا ہے ۔ کسی پر احسان کيلئے نہيں

اگر يہ خود غرضی ہے تو پھر ميں بھی ايسے خود غرضوں ميں شامل ہوں
تمنا صرف اتنی ہے کہ اللہ اپنے بندوں جيسے کام مجھ سے لے لے اور مجھے اپنا بندہ بنالے
ايسا ہو جائے تو ميں کامياب ہو گيا
يا اللہ سب تيرے اختيار ميں ہے ۔ مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا مجھ سے راضی ہو جا

جديديت

سمجھتے ہیں شائستہ جو آپ کو یاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہیں آزادئی رائے پر جو کہ نازاں
چلن پر ہیں جو قوم کے اپنی خنداں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلماں ہیں سب جن کے نزدیک ناداں
جو ڈھونڈو گے یاروں کے ہمدرد۔ ان میں ۔ تو نکلیں گے تھوڑے جواں مرد۔ ان میں

نہ رنج ان کے افلاس کا ان کو اصلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ فکر ان کی تعلیم اور تربیّت کا
نہ کوشش کی ہمت نہ دینے کو پیسہ ۔ ۔ ۔ ۔ اڑانا مگر مفت ایک اک کا خاکا
کہیں ان کی پوشاک پر طعن کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں ان کی خوراک کو نام دھرنا

جہاز ایک گرداب میں پھنس رہا ہے ۔ ۔ پڑا جس سے جوکھوں میں چھوٹا بڑا ہے
نکلنے کا رستہ نہ بچنے کی جا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ان میں سوتا کوئی جاگتا ہے
جو سوتے ہیں وہ مست خوابِ گراں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو بیدار ہیں ان پہ خندہ زناں ہیں

کوئی ان سے پوچھے کہ اے ہوش والو ۔ ۔ ۔ کس امید پر تم کھڑے ہنس رہے ہو
بُرا وقت بیڑے پہ آنے کو ہے جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑے گا سوتوں کو اور جاگتوں کو
بچو گے نہ تم اور نہ ساتھی تمہارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ناؤ ڈوبی تو ڈوبیں گے سارے

غرض عیب کیجئے بیاں اپنا کیا کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بگڑا ہوا یاں ہے آوے کا آوا
فقیر اور جاہل ضعیف اور توانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاسف کے قابل ہے احوال سب کا
مریض ایسے مایوس دنیا میں کم ہیں ۔ ۔ ۔ بگڑ کر کبھی جو نہ سنبھلیں وہ ہم ہیں

مجھے ڈر ہے اے میرے ہم قوم یارو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مبادا کہ وہ ننگِ عالم تمہیں ہو
گر اسلام کی کچھ حمیت ہے تم کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو جلدی سے اٹھو اور اپنی خبر لو
وگر نہ یہ قول آئے گا راست تم پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہونے سے ان کا نہ ہونا ہے بہتر

رہو گے یو نہی فارغ البال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال کب تک
رہے گی نئی پود پامال کب تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ چھوڑو گے تم بھیڑیا چال کب تک
بس اگلے فسانے فراموش کر دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تعصب کے شعلے کو خاموش کر دو

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

اپنی کوتاہ نظری کا ماتم

يحیٰ خان کے حلفيہ بيان کا کچھ حصہ بنگلا ديش ميں شائع ہوا ہے “مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ۔ ۔ ۔”

لال مسجد پر فوجی کاروائی رکوانے کے سلسلہ ميں مدد کيلئے شجاعت حسين نے وزیر اعظم شوکت عزیز سے رابطہ کيا
وزیر اعظم شوکت عزیز نے کہا “میں اپنی بیوی کے ساتھ قُلفی کھانے جارہا ہوں”

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اور اس حوالے سے میں نے جتنی تحقیق کی تھی اس سے یہ تاثر بنتا تھا کہ شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات سے کسی قیمت پر ہٹنے کو تیار نہیں تھا کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ انہی نکات پر عوام سے ووٹ لے کر اور انتخابات جیت کر وہ اس مقام پر پہنچا ہے اسلئے اب یہ چھ نکات عوام کا مقدس ٹرسٹ ہیں جس میں ردو بدل کا اسے اختیار نہیں۔ جب بھٹو صاحب اور شیخ مجیب الرحمن کے درمیان مذاکرات کا دور شروع ہوا تو رعایات دیتے دیتے بھٹو صاحب پانچ نکات ماننے پر تیار ہوگئے تھے لیکن وہ چھٹے نکتے بلکہ نصف نکتے فارن ٹریڈ(دوسرے ممالک سے براہ راست تجارت) پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ بھٹو صاحب کا کہنا تھا کہ پانچ نکات کی روشنی میں اگر مشرقی پاکستان کو غیر ممالک سے براہ راست تجارت کا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کا مطلب آزادی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہی ہوگا

بنگلہ دیش میں یحییٰ خان کا ایک حلفیہ بیان چھپا ہے جو یحییٰ خان نے ضیاء الحق کے دور حکومت میں لکھا اور لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا تھا لیکن پاکستان کے عوام عام طور پر اس سے آگاہ نہیں۔ سپریم کورٹ میں بھٹو ریفرنس کے حوالے سے یہ بیان بے نقاب ہوناچاہئے۔ غالباً یحییٰ خان کا انتقال 1980ء میں ہوا اور یہ حلفی بیان1978ء میں جمع کرایا گیا تھا

اس بیان میں یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری بھٹو اور مجیب پر ڈالی ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ مجیب غدار نہیں تھا اور نہ ہی علیحدگی چاہتا تھا لیکن ا س کے ساتھیوں مشیروں اور پارٹی عہدیداروں نے اسے یرغمال بنا رکھا تھا اور مجیب ان کے دباؤ سے آزاد نہیں ہوسکتا تھا۔ ان حضرات کی اکثریت علیحدگی پسند تھی، ان میں سے کچھ کا رابطہ ہندوستان سے تھا اور وہ مجیب کو چھ نکات سے ذرا بھی پیچھے ہٹنے نہیں دیتے تھے

مجھے علم نہیں کہ یحییٰ خان کے اس حلفی بیان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے لیکن اس بیان میں یحییٰ خا ن نے تسلیم کیا ہے کہ آرمی ایکشن اس کا ذاتی فیصلہ تھا کیونکہ حکومتی رٹ ختم ہوچکی تھی اور مشرقی پاکستان بغاوت کے دہانے پر کھڑا تھا، چنانچہ خالصتاً فوجی انداز میں یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کےئے مارچ 1971ء میں آرمی ایکشن کا حکم دے دیا۔ دنیا بھر کے مصنفین اور محققین اس بات پر متفق ہیں کہ دراصل مشرقی پاکستان آرمی ایکشن کے ساتھ ہی بنگلہ دیش بن گیا تھا اور یہ کہ آرمی ایکشن مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا شاندار ”نسخہ“ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ آرمی ایکشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کے ہفت روزہ اکانومسٹ نے لکھا تھا کہ یہ سٹاف کالج کے انداز میں پاکستان کو تباہ کرنے کی بہترین سکیم تھی

کئی لیڈران کا دعویٰ تھا کہ اگر انہیں وقت دیا جاتا تو وہ مجیب کو منا سکتے تھے اور اس کے ساتھیوں کو بھی سمجھا سکتے تھے، اگرچہ بھٹو صاحب مذاکرات سے مایوس ہوچکے تھے لیکن کئی مسلم لیگی رہنما اور این اے پی کے لیڈران ابھی تک امید کا دامن تھامے ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے ڈھاکہ پرل کانٹینٹل کی کھڑکیوں سے گولے برستے دیکھے اور فائرنگ کی بے تحاشا آوازیں سنیں تو مایوسی کی ا تھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاستدان ابھی تک مایوس نہیں ہوئے تھے اور وہ ڈھاکہ میں حکومتی رٹ ختم ہونے کے باوجود یہ امید رکھتے تھے کہ ہم کسی نہ کسی طرح مجیب اور اس کے ساتھیوں کو کسی متفقہ حل اور وسیع تر سمجھوتے پر راضی کرلیں گے لیکن یحییٰ خان نے حکومتی رٹ بحال کرنے کے لئے گولی چلا دی اور وہ گولی متحدہ پاکستان کے جسم میں جالگی اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بن گئی

یہی فرق ہوتا ہے جرنیلی اور سیاہپانہ ذہن اور سیاسی ذہن میں۔ جرنیل کیوں جمہوریت کو تباہ کرتے ،ادارے پاؤں تلے روندتے اور مخالفین کے سر پھوڑتے ہیں۔ انہیں پھانسی چڑھاتے یا جلا وطن کردیتے ہیں کیونکہ ان کی اپروچ، ذہنی ساخت اور تربیت ناک کی سید چلنا ،بلاچوں چراں حکم ماننا اور حکم دینا ہوتی ہے۔ ان میں لچک، سیاسی بصیرت، کچھ لو کچھ دو اور صبر آزما مذاکرات کی صلاحیت اور استعداد نہیں ہوتی جبکہ سیاستدان سر تا پا لچک، دوربیں اور مذاکرات بلکہ تھکا دینے والے طویل مذاکرات کا عادی ہوتا ہے۔ وہ ہر مشکل سے مشکل صورتحال اور پیچیدگی سے راستہ نکال لیتا ہے اور دلائل سے بات منوا لیتا ہے جبکہ جرنیل دلائل سے نہیں گولی سے بات منواتا ہے۔ جرنیل کی ساری ٹریننگ میدان جنگ کی ٹریننگ ہوتی ہے جبکہ سیاستدان کی ساری ٹریننگ میدان زیست کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیل سیاسی حکمرانی کے اہل نہیں ہوتے اور وہ جب آئین و قانون کو پامال کرکے اقتدار میں آتے ہیں تو تباہی کی بارودی سرنگیں بچھا کر تشریف لے جاتے ہیں

ابھی کل کی بات ہے کہ جنرل پرویز مشرف لال مسجد کے امتحان میں پھنس گئے تھے اگرچہ اب پرویز مشرف اپنی غلطی مانتا ہے لیکن کرسی صدارت پر بیٹھ کر وہ عقل کُل بن بیٹھا تھا اور اس نے صلا ح مشورے کے دروازے بند کردئیے تھے۔ جب اس نے محسوس کیا کہ جامعہ حفصہ لال مسجد میں حکومتی رٹ چیلنج کی جارہی ہے تو اس نے معصوم بچوں، بچیوں اور شہر یوں کا خون بہانے سے دریغ نہ کیا حالانکہ چوہدری برادران کا دعویٰ ہے کہ اگر انہیں موقع دیا جاتا تو وہ اس چیلنج کا حل نکال سکتے تھے۔چوہدری برادران کے لئے لال مسجد میں نرم گوشہ اور احترام تھا وہ بات سمجھا سکتے تھے لیکن جنرل صاحب کو اقتدار کا نشہ چڑھ چکا تھا ، ان میں سیاسی لچک کا فقدان تھا اور وہ اس بصیرت سے کلی طور پر محروم تھے جو اس طرح کے خطرناک چیلنجوں سے نکلنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ ان کی تربیت فقط یہ تھی کہ جب کوئی حکومتی رٹ چیلنج کرے اور حکم نہ مانے تو اسے گولی مار دو۔ اللہ اللہ خیر صلاّ

چوہدری شجاعت حسین کئی بار ببانگ دہل کہہ چکے کہ انہیں لال مسجد کے سانحے سے دور رکھا گیا اور جب وہ آرمی ایکشن سے پہلے وزیر اعظم شوکت عزیز سے ملنے گئے اور اسے بیچ بچاؤ کے لئے سمجھانا چاہا تو جواب ملا کہ “میں اپنی بیوی کے ساتھ قلفی کھانے جارہا ہوں”۔ شوکت عزیز بھی مکمل طور پر بابو تھے، بیورو کرٹیک ذہن رکھتے تھے اور انہیں جامعہ حفصہ کے خون سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں تھی کیونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے وزیر اعظم بنے تھے نہ اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔ شوکت عزیز اچھی طرح سمجھتا تھا کہ جب لال مسجد کاخون پکارے گا تو وہ ملک سے باہر جاچکا ہوگا اور لوٹی ہوئی دولت کے انباروں پر بیٹھ کر عیش کررہا ہوگا۔ظاہر ہے کہ یہ سوچ کسی سیاستدان کی نہیں ہوسکتی تھی جو تمام تر کمزوریوں کے باوجود عوام سے رشتوں میں بندھا ہوتا ہے اور اپنی جڑیں ملک کی دھرتی میں تلاش کرتا ہے۔ سیاستدان نالائق ہوں، لیٹرے ہوں، بدنیت ہوں یا ملکی خزانے کے چور ہوں انہیں ہمیشہ عوامی جوابدہی کا ”دھڑکا“لگا رہتا ہے جبکہ جرنیل اپنے آپ کو ان ”خرافات“ سے بلند و بالا سمجھتا ہے۔ آج مشرف اسی برتے پر بڑھکیں مارتا پھرتا ہے

مختصر یہ کہ مشرقی پاکستان ہو یا جامعہ حفصہ اور لال مسجد فوجی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلاف اور فاصلوں کا سمندر حائل ہوتا ہے۔ آج یہی غلطی ہم بلوچستان میں کررہے ہیں ۔ سیاستدان بظاہر بے بس نظر آتے ہیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ سیاسی مسائل فوجی انداز سے نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی سے حل ہوتے ہیں۔ کتنے کوڑھ مغز، کوتاہ نظر اور نالائق ہیں ہم لوگ کہ اپنی ہی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے ، ایک ہی غلطی کو دہراتے چلے جاتے ہیں ،کانٹے بو کر پھولوں کی تمنا کرتے ہیں اور گولی اور اغواء کے بیج بو کر محبت اور حب الوطنی کی فصل کاٹنا چاہتے ہیں۔ خدارا سمجھئے کہ قانون فطرت میں ایسا ممکن نہیں

تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

غُربت ايک جُرم

کيا عوامی کہنے سے عوامی ہو جاتا ہے ؟ ہمارے مُلک اور تين صوبوں پر 3 عوامی جماعتوں کی حکومت ہے ۔ پاکستان پيپلز پارٹی يعنی پاکستان عوامی پارٹی ۔ عوامی نيشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جو اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہيں ۔ پچھلے 3 سال ميں اِن عوام کے غم خواروں نے جو عوام کے ساتھ سلوک کيا ہے اُس کی ايک ہلکی سی جھلک

وزارت سماجی بہبود کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 17 کروڑ 70 لاکھ ہے جس میں 11 کروڑ غریب ہیں يعنی 62.22 فيصد پاکستانیوں کی آمدن 170 روپے فی يوم یااس سے کم ہے ۔ ملک میں جب دال مونگ 150 روپے فی کلو ۔ دال مسور 95 روپے فی کلو ۔ چاول 90 روپے فی کلو ۔ آٹا 30 روپے فی کلو اور چائے 400 روپے فی کلو ہو تو پھر 170 روپے روزانہ آمدن والا شخص کیا خرید پائے گا ؟ اور اس سے کم آمدن والے پاکستانی جو 11 کروڑ کی بھاری اکثريت ہيں وہ کيا کر پائيں گے ؟

11 کروڑ پاکستانی دن بدن مزيد غربت کی پستیوں میں جائيں گے کیونکہ حکومت ہر دن 3 ارب روپے کے نوٹ چھاپتی ہے ۔ جب حکومت زيادہ نوٹ چھاپتی ہے تو افراط زر بڑھ جاتا ہے ۔ افراطِ زر بڑھنے سے ہر آدمی کی جیب میں موجود رقم کی قدر کم ہوجاتی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ 3 سال بعد مزيد 57 فیصد لوگ غربت ۔ بھوک و افلاس میں دھکیل دیئے گئے ہوں گے

لوگوں کو غربت کے جال میں پھنسانے کیلئے 4 عوامل اہم ہیں
تعلیم کی کمی
بدعنوان حکمرانی
سرمایہ کاری کا رُک جانا
داخلی جھگڑے

پاکستان میں یہ چاروں عوامل اپنا کردارادا کررہے ہیں اور اس سے بچنے کیلئے کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی ۔ چنانچہ 11 کروڑ غریب پاکستانیوں کی اکثریت ایسی غربت کا شکار ہوگئی ہے جو نسل در نسل چلتی ہے ۔ 10 سال بعد 2021ء میں جب پاکستان کی آبادی 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی اگر غربت کو بڑھنے سے نہ روکا گیا تو پاکستان میں غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 13 کروڑ ہوگی اور 2030ء تک یعنی 20 سال بعد پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہوگی اور اس میں 15 کروڑ غریب ہوں گے

تاریخی لحاظ سے پاکستان ايک کم افراط زر والا ملک رہا ہے ۔ صارفین کا انڈکس (سی پی آئی) 1999ء ۔ 2001ء اور 2002ء بالترتیب 3.58 فيصد ۔ 4.41 فيصد اور 3.54 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا ۔ پاکستانی کم افراط زر کے عادی رہے ہیں ۔ ماضی ميں انہوں نے کبھی دو ہندسوں میں افراطِ زر برداشت نہیں کیا ۔ موجودہ سال ميں افراطِ زر 22 فيصد تک پہنچ چکی ہے ۔ غریب ہونے میں مشکل یہ ہے کہ یہ غُربت غريب کا سارا وقت لے لیتی ہے ۔ مگر ایوان اقتدار کے لوگ اور ان کے رشتہ دار امیر تر ہوتے جارہے ہیں

ماخذ ۔ تحرير ڈاکٹر فرخ سلیم

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء ۔ عام آدمی کی نظر ميں

عام آدمی سے مراد جنہوں نے ساری عمر محنت کی اور جو مل گيا اُس پر صبر شکر کيا ۔ دوسرے کی جيب کی بجائے اپنے فرائض کی طرف نظر رکھی

پہلے ايک اچھوتی خبر ۔ وفاقی وزيرِ ماليات نے اپنی بجٹ تقرير ميں خبر دی جس پر ميں ابھی تک فيصلہ نہيں کر سکا کہ ہنسوں يا روؤں ۔ اُنہوں نے کہا “ہماری اچھی منيجمنٹ کے نتيجہ ميں روزانہ ضرورت کی اشياء کی قيمتوں ميں کمی ہوئی ہے”

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کو ملا کر اب تک پاکستان کے 64 بجٹ پيش ہو چکے ہيں ۔ پہلا بجٹ فروری 1948ء ميں پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی نے منظور کيا تھا ۔ يہ خسارے [Deficit] کا بجٹ تھا ۔ صورتِ حال يہ تھی کہ ہندوستان پر قابض رہنے والے انگريز جاتے ہوئے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ضلع گورداسپور کو تقسيم کر کے پاکستان کيلئے جموں کشمير مسئلہ کا ناسور ہميشہ کيلئے دے گئے بلکہ ہندوستان کے سارے اثاثے بھارت کے حوالے کر کے چلے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے لاکھوں مسلمانوں کو بے خانمہ کر کے پاکستان کی طرف دھکيل ديا

پاکستان کا دوسرا بجٹ فروری 1949ء کو منظور ہوا جو فاضل بجٹ [Surplus] تھا ۔ اس کے بعد 1960ء سميت 12 فاضل بجٹ تھے ۔ پھر 4 بجٹ جو 1969ء ۔ 1998ء ۔ 1999ء اور 2000ء ميں منظور ہوئے فاضل بجٹ تھے ۔ باقی 48 بجٹ خسارے کے بجٹ تھے يا ہيں

بجٹ 2011ء ۔ 2012ء کا کُل حجم 27 کھرب 60 ارب 2760000000000 روپے ہے ۔ اس بجٹ ميں 9 کھرب 75 ارب يعنی 975000000000 روپے خسارہ شامل ہے جو کہاں سے پورا ہو گا ؟ اس کے متعلق بتايا گيا ہے کہ ايک کھرب 25 ارب صوبوں کے اضافی بجٹ سے پورا ہو گا ۔ باقی 8 کھرب 50 ارب يعنی 8500000000 روپيہ کہاں سے آئے گا ؟ اس کا کچھ پتہ نہيں

تعليم کيلئے اس بجٹ ميں 3 ارب 95 کروڑ 13 لاکھ يعنی 3951300000 روپے رکھے گئے ہيں

صحت کے پورے شعبہ کيلئے اس بجٹ ميں 2 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ يعنی 2646000000 روپے رکھے گئے ہيں

سرکاری ملازم کی تنخواہ ميں 15 فيصد اور پنشن ميں 15 سے 20 فيصد اضافہ کی تجويز ہے

وزيرِ اعظم صاحب نے 4 جون 2011ء کويعنی بجٹ پيش ہونے کے ايک دن بعد ايک حکم نامہ کے ذريعہ مندرجہ ذيل افراد کی تنخواہوں ميں اضافہ کر ديا ہے
عہدہ ملازم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی تنخواہ
اٹارنی جنرل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 200000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 606811
ايڈيشنل اٹارنی جنرل ۔ 150000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 548845
ڈپٹی اٹارنی جنرل ۔ ۔ ۔ ۔ 100000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 150000
ايڈووکيٹ آن ريکارڈ ۔ ۔ 75000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100000

جس ملک نے اگلے سال ميں بيرونی قرضوں کی قسط 10 کھرب 34 ارب يعنی 1034000000000 روپے ادا کرنا ہے ۔ جس کے 50 فيصد عوام تنگی سے زندگی گذار رہے ہيں ۔ پيٹ کے ہاتھوں تنگ آ کر خود کُشياں کر رہے ہيں اور بچے فروخت کر رہے ہيں اس کے صدر اور وزيرِ اعظم صاحبان کی تنخواہوں اور ديگر لوازمات کچھ يوں ہيں

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزير اعظم

سالانہ تنخواہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12960000
غير مُلکی دورے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 486320000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1570000000
اندرونِ ملک ٹرانسپورٹ وغيرہ ۔ ۔ ۔ 27700000 ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24600000
ذاتی ملازمين کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 482000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 996000000
باغبانی کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 15000000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14300000
ڈسپنسری کے اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامعلوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10200000
کُل اخراجات سالانہ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1008090000 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2628060000
اوسط ماہانہ اخراجات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84007500 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 219005000

صدر صاحب کو قوم 8 کروڑ 40 لاکھ 7 ہزار 500 روپے ماہانہ خرچ اور وزيرِ اعظم کو 21 کروڑ 90 لاکھ 5 ہزار روپے ماہانہ خرچ ديتی ہے ۔ اس کے ساتھ بجلی ۔ پانی ۔ قدرتی گيس اور ٹيليفون جتنا بھی استعمال کريں وہ مُفت ہے ۔ اس کے بدلے ميں يہ دونوں حضرات قوم کو کيا ديتے ہيں ؟

پچھلے سال صدر کے بيرونِ ملک دوروں کيلئے 31 کروڑ يعنی 310000000 روپے بجٹ ميں رکھے گئے تھے مگر صدر صاحب نے 36 کروڑ 55 لاکھ 56 ہزار يعنی 365556000 روپے خرچ کر ڈالے

کہا گيا ہے کہ تين سرکاری اداروں کو سبسڈی دی جاتی ہے جو کہ تين سال ميں ختم کی جائے گی ۔ يہ ادارے ہيں ۔ اليکٹرک پاور سپلائی ۔ پاکستان سٹيل اور پی آئی اے جن کا سالانہ خسار 4 کھرب يعنی 400000000000 روپے ہے ۔ اليکٹرک پاور سپلائی کا فضيحتا يہ ہے کہ لگ بھگ 30 فيصد بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والے حکمران يا اُن کے اپنے لوگ ہيں ۔ شہروں ميں سب سے زيادہ بجلی چوری کراچی ميں ہوتی ہے جس کا مقابلہ دوسرا کوئی پورا صوبہ بھی نہيں کر سکتا ۔ مضافات ميں سب سے زيادہ بجلی کی چوری قبائلی علاقوں ميں ہوتی ہے ۔ پاکستان سٹيل ميں 2 سے 3 ہزار ملازمين ايسے ہيں جو ہر ماہ ميں ايک دن صرف تنخواہ لينے کيلئے پاکستان سٹيل جاتے ہيں مگر کسی کی مجال نہيں جو اُن کی طرف اُنگلی اُٹھا سکے ۔ اس کے ساتھ ہی نااہل افراد کی سياسی بھرتيا ں بڑی بڑی تنخواہوں پر کی گئی ہيں ۔ پی آئی اے کے خسارے کا واحد سبب نااہل افراد کی بڑی بڑی تنخواہوں پر بھرتی ہے ۔ حکمران چوروں اور لُٹيروں سے جان نہيں چھڑانا چاہتے کيونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہيں چنانچہ عام آدمی پر ان کا مزيد بوجھ ڈالنے کی منصوبہ بندی آئی ايم ايف کے مطالبہ کے تحت کی جا رہی ہے کيونکہ ايسا نہ کرنے کی صورت ميں مزيد قرضے ملنا بند ہو سکتے ہيں

وفاقی وزيرِ ماليات ڈاکٹر عبدالحفيظ شيخ جو ريوينيو ايڈوائزری کونسل کے چيئرمين بھی ہيں نے بتايا ہے مُلک ميں ايسے دولتمند لوگ ہيں جن کے اربوں روپے کہ اندرونِ مُلک اور بيرونِ مُلک اثاثے بشمول بينک بيلنس ہيں مگر ٹيکس نہيں ديتے يا نہ ہونے کے برابر ديتے ہيں ۔ ريوينيو ايڈوائزری کونسل نے مضبوط سفارش کی تھی کہ ايسے لوگوں کے اثاثوں پر ايک فيصد عبوری ٹيکس اس طرح لگايا جائے کہ جو ٹيکس وہ ادا کر رہے ہيں اُسے اس ايک فيصد ٹيکس سے منہا کر کے مزريد کچھ ٹيکس بنتا ہو تو وصول کيا جائے ۔ حکومت نے اس سفارش کو نہيں مانا اور بجٹ سے نکال ديا

آ بُلبلا مل کر کريں گريہ و زاری
تُو پُکار ہائے گُل ميں پُکاروں ہائے دِل

خسارہ 10 کھرب ۔ عياشياں جاری

يا رب وہ نہ سمجھے ہيں نہ سمجھيں گے ميری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور

پاکستان کی سالانہ آمدن سے سالانہ خرچ ايک ٹريلين يا 10 کھرب [10,00,00,00,00,000] روپے زيادہ ہے يعنی سالانہ خسارہ 10 کھرب روپيہ ہے يعنی سال ميں ہر دن کا خسارہ 3 ارب روپے يعنی ہر گھنٹہ ميں خسارہ 11 کروڑ روپے يعنی سال کے ہر منٹ ميں خسارہ 20 لاکھ روپے

آپ کا ہر منٹ جو گذر رہا ہے اس ميں آپ کا مُلک 20 لاکھ روپے کا نقصان اُٹھا رہا ہے ۔ اگر آپ 5 منٹ ميں ايک قُلفی کھاتے ہيں يا پيپسی پيتے ہيں تو جتنی دير ميں آپ قُلفی يا پيپسی ختم کرتے ہيں آپ کا مُلک ايک کروڑ روپيہ نقصان اُٹھا چکا ہوتا ہے ۔ کھايئے قُلفی پيجئے پيپسی اور پيچھ مُڑ کر نہ ديکھيئے ۔ کہيں اس عياشی ۔ ہاں عياشی ۔ کا پھر موقع نہ ملے

اس بے تحاشہ نقصان ميں سے 400 بلين يا 4 کھرب روپيہ وفاقی حکومت اور اتنا ہی سرکاری ملکيت ميں چلنے والے کارخانوں کے حصہ ميں آتا ہے ۔ يہ بنا کل خسارہ کا 80 فيصد ۔ سرکاری کارخانوں ميں سے سرِ فہرست ہيں پيپکو 180 بلين يا ايک کھرب 80 ارب کا خسارہ ۔ پی آئی اے 77 بلين يا 77 ارب کا خسارہ اور پاکستان سٹيل کراچی 44 بلين يا 44 ارب کا خسارہ

کيا ہم اس کھائی [Black Hole] ميں سے باہر نکل سکتے ہيں ؟ بجٹ بن رہا ہے

صدرِ پاکستان نے مطالبہ کيا ہے کہ اُنہيں اپنے 72 ماليوں 175 دوسرے ملازمين اور 263 گھريلو ملازمين کيلئے 36 کروڑ روپے سالانہ اور صدر کے غيرمُلکی دوروں کيلئے 22 کروڑ روپے سالانہ ديا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر صاحب کہتے ہيں کہ وہ 42 کروڑ روپے سالانہ کے بغير زندہ نہيں رہ سکتے
وزيرِ اعظم نے اپنے غير مُلکی دوروں کيلئے 120کروڑ يا ايک ارب 20 کروڑ روپے سالانہ کا مطالبہ کيا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وزير اعظم صاحب کہتے ہيں کہ 50 کروڑ روپے سالانہ کے بغير زندہ نہيں رہ سکتے
وفاقی وزراء کی فوجِ ظفر موج ميں سے ہر ايک نے 2 ارب روپے سالانہ يعنی 16 کروڑ 67 لاکھ روپے ماہانہ مانگے ہيں
کيبنٹ سکريٹيريئٹ 12 ارب روپے سالانہ يعنی ايک ارب روپيہ ماہانہ کھا جاتا ہے ۔ 100 سينٹرز 342 اراکين قومی اسمبلی اور 728 اراکين صوبائی اسمبلی کو ڈيويلوپمنٹ فنڈ کے نام پر جو تحفہ ديا جاتا ہے وہ 36 ارب روپيہ سالانہ بنتا ہے

يہ سلانہ 10 کھرب روپے کا خسارہ صرف نوٹ چھاپ کر پورا کيا جا رہا ہے ۔ معاشيات کے طالب عِلم جانتے ہيں کہ جتنے زيادہ نوٹ چھاپے جائيں اتنی پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتی جاتی ہے اور اتنی ہی قساد بازاری [Inflation] بڑھ جاتی ہے ۔ جتنی قساد بازاری بڑھتی جائے اتنی مہنگائی بڑھتی جاتی ہے

چنانچہ جب تک حکمران اسی طرح عياشياں کرتے رہيں گے تب تک قوم غريب سے غريب تر اور غريب تر سے غريب ترين ہوتی جائے گی ۔ موجودہ حکمرانوں نے خود ہی بڑے طمطراق سے آئين ميں اٹھارہويں ترميم منظور کی ہے جس کے مطابق وزراء کی تعداد اسمبلی کے کل اراکين کی تعداد کا 11 فيصد سے زيادہ نہيں ہونا چاہيئے ۔ خود حکومت ہی اس آئين کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ پی پی پی ۔ ق ليگ ۔ ايم کيو ايم اور اے اين پی سب ميلہ لُوٹ رہے ہيں اور نام نہاد عوام ان کيلئے آپس ميں لڑ لڑ کے مرتے جا رہے ہيں

ميرے مولا تيرے يہ پاکستانی کہلانے والے بندے کدھر جائيں ؟

مواد يہاں اور يہاں سے حاصل کيا گيا

کيا اُسامہ بن لادن ايبٹ آباد ميں مارا گيا ؟

ڈان نيوز کے طلعت حسين کہتے ہيں کہ اُسامہ پہلے مر چکا تھا يا مارا جا چکا تھا ۔ ايبٹ آباد کا ڈرامہ صرف اوباما اور اس کی پارٹی کی ريٹِنگ بڑھانے کيلئے تھا جس ميں امريکا کی خفيہ ايجنسياں کامياب رہی ہيں

مندرجہ ذيل ٹی چينل کا دعوٰی ہے کہ اُسامہ بن لادن کو مارنے کا دعوٰی نويں بار کيا گيا ہے ۔ ديکھيئے وڈيو