Category Archives: تاریخ

سيلاب ۔ تحقيق ؟

دریائے سندھ کے بہاؤ سے متعلق ميرے پاس 1922ء سے سال بہ سال کی رپورٹ ہے یہ انداز اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر 9 سال میں جب 4 سال خشک سالی کے ہوں تو اگلا سال بہت زیادہ سیلاب کا ہوتا ہے۔ میں نے اسی تحقیق اور مطالعے کی بناء پر حکومت سندھ کے ذمہ داروں کو گزشتہ سال سے آگاہ کرنا شروع کردیا تھالیکن کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ آخری خط جنوری 2010ء میں وزیراعلیٰ سندھ کو ارسال کیا ۔ صرف سندھ اسمبلی کے اسپیکر نثار کھوڑو حرکت میں آ گئے۔ انہوں نے متعلقہ وزیر اور سیکرٹری کو اور مجھے بھی بلایا۔ ایک میٹنگ میں تفیصل سے باتیں ہوئیں لیکن اس کے بعد کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پی پی پی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر کو بھی میں نے خط لکھا

جیکب آباد کے چاروں طرف پانی ہے۔ سڑک اور ریل کا راستہ مسدود ہے۔ سارا شہر خالی کروا لیا گیا ہے۔ صرف 5 فیصد کے قریب آبادی موجودہے جن میں، میں بھی شامل ہوں لیکن یہاں بجلی ہے نہ پینے کا پانی نہ دیگر ضروری اشیاء۔ ٹیلی فون لائن بھی بعض اوقات کئی کئی گھنٹے نہیں ملتی ہے۔ سندھ میں سیلاب سے اتنی بڑی تباہی پہلے کبھی نہیں ہوئی ہے کتنے شہر اور گاؤں ڈوب گئے ہیں یہ سراسر سندھ حکومت کی غفلت اور نااہلی کا نتیجہ ہے

انجینئر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ہر لحاظ سے اس کی دیکھ بھال کرے اور برسات سے پہلے اس کا باقاعدہ تفصیلی معائنہ بھی ہوتا ہے۔ اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ اس کی دیکھ بھال کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ بجٹ تو مخصوص تھا۔ فائلوں میں پیسے خرچ بھی ہوئے ہوں گے

پانی میں گھرے جیکب آباد میں16 روز سے محصور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ، سابق وفاقی وزیر اور بلحاظِ پیشہ انجینئر الٰہی بخش سومرو صاحب سندھ کی تباہی پر انتہائی دل گرفتہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس سونے شہر میں اس لیے موجود ہوں کہ جتنے لوگ یہاں ہیں ان کی دل جوئی کر سکوں۔ حالت یہ ہے کہ واٹر پلانٹ کام نہیں کر رہا کیوں کہ اس کے اہلکاروں کو بھی شہر چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ میں یہاں اس لیے بھی بیٹھا ہوں کہ میرے شہر کے لوگوں کی دکانوں اور مال سامان کو وزیروں کے بندے لوٹ نہ سکیں

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھيئے

مگر بدنام صرف ہم ہيں

عنيقہ ناز صاحبہ کے سوالات کے جوابات لکھتے ہوئے ميں نے صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی نشاندہی کی تھی جو امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہونے کے دوران پيش آيا تھا ۔ اب مشہور صحافی حامد مير صاحب نے ايک اور واقعہ ياد کرا ديا ہے

ميں يہ واضح کر دوں کہ برائی ہر صورت ميں برائی ہے چاہے کسی جگہ بھی ہو اور برائی کو سختی سے روکنا چاہيئے ۔ يہ تحرير اسلئے ہے کہ ہمارا کام صرف اپنوں کو ہی رگيدنا نہيں ہے بلکہ اپنوں کی اصلاح کرنا ہمارا فرض ہے جس کی طرف توجہ نہيں دی جا رہی

امریکی ریاست لوسیانا کے ساحلوں پر 27 اگست 2005ء کو ایک سمندری طوفان کا آغاز ہوا۔ سمندر کا پانی ساحلوں سے نکل کر شہروں میں داخل ۔ ہزاروں عمارتیں اور مکان تباہ ہوگئے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ۔ اس سمندری سیلاب کوکترینہ کا نام دیا گیا ۔ امریکی فوج کے 22ہزار جوانوں کوکترینہ سیلاب سے نمٹنے کا فریضہ سونپا گیا ۔ طوفان سے متاثرہ ایک بڑے شہر نیو آرلنیز میں لوٹ مار ۔ قتل و غارت اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات شروع ہوگئے لہٰذا امریکی حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور چند دن کے لئے نیو آرلنیز میں کرفیو کا اعلان کرکے لوٹ مار کرنے والوں کوگولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ۔ کترینہ سیلاب میں 1800 امریکی مارے گئے اور 81 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ امریکی قوم کیلئے سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث پھیلنے والی تباہی سے زیادہ پریشانی کی بات اس سانحے کے دوران شروع ہونے والی لوٹ مار تھی کیونکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ گینگ بنا کر نہ صرف بینکوں اور شاپنگ سینٹرز کو لوٹ رہے تھے بلکہ بے گھر ہونے والی عورتوں اور بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگے

ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

بلا شُبہ عصرِ حاضر ميں سائنس کی پچھلی آدھی صدی ميں روز افزوں ترقی کے نتيجہ ميں کئی نئے علوم متعارف ہوئے ہيں ۔ ترقی نے زندگی بظاہر بہت آسان بنا دی ہے اور فاصلے بہت کم کر ديئے ہيں ۔ وہ زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے کراچی خط لکھ کر جواب کيلئے ايک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ يورپ ۔ امريکا يا جاپان کی صورت ميں چار چھ ہفتے معمولی بات تھی ۔ آج اسلام آباد ميں بيٹھے براہِ راست امريکا اور جاپان بات ہو سکتی ہے اور ايک دوسرے کو ديکھا بھی جا سکتا ہے ۔ بہت سی ديگر سہوليات بھی ميسّر ہو گئی ہيں ۔ يہ سب کچھ ہميں دساور سے دستياب ہوا ہے ۔ اس ميں اپنی محنت اول ہے ہی نہيں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ۔ ہم نے دساور سے ان سہوليات کے ساتھ فرنگيوں کی فضوليات تو بہت لے ليں ہيں مگر اُن کی خُوبيوں کو نہيں اپنايا

ميرا موضوع البتہ يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ کيا آج سے آدھی صدی قبل ہم زيادہ تربيت يافتہ تھے يا کہ آج ہم زيادہ تربيت يافتہ ہيں ؟

پانچ سال قبل زلزلہ نے ہميں پريشان کيا اور آج ہميں سيلاب نے اس سے بھی زيادہ پريشان کر ديا ہے ۔ پريشانی کی بنيادی وجوہ دو ہيں

ايک ۔ مال کی محبت نے بے راہ رَو بنا ديا ہے
دو ۔ مربوط عمل سے نا آشنائی

ہم ايسے نہ تھے بلکہ ايسے بن گئے ہيں
ہمارے دين نے ہميں سيدھی راہ اور مربوط عمل کا سبق ديا مگر ہم نے دين کو ترقی کی راہ ميں رکاوٹ سمجھنا شروع کر ديا
معمارانِ قوم جن کی فراست و محنت کے نتيجہ ميں اللہ نے ہميں يہ مُلک عطا کيا ہم نے اُن کے ترتيب ديئے ہوئے نظام کو نام نہاد ترقی کے نام پر تج ديا

آدھی صدی قبل کا طريقہ تعليم

چھَٹی جماعت سے ہی نصاب سے متعلق کُتب کے ساتھ ساتھ غير نصابی يا ہم نصابی کُتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔ خلاصہ يا ماڈل پيپر وغيرہ کسی طالبعلم کے پاس ديکھا جائے تو چھين ليا جاتا تھا
روزمرہ اور فلاحی کاموں ميں عملی تربيت کی ترغيب دی جاتی تھی جن ميں سے چند درج کر رہا ہوں

ايک رضاکار ادارہ ہوتا تھا “جنرل نالج سوسائٹی” جو معلوماتِ عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابيں شائع کرتا تھا اور ہر سال گرميوں کی تعطيلات ميں امتحان منعقد کيا کرتا تھا ۔ يہ کتب برائے نام قيمت پر دستياب ہوتی تھيں ۔ اساتذہ چھٹی جماعت سے ہی يہ امتحان پاس کرنے کی ترغيب ديتے ۔ ان امتحانات کی چار مختلف سطحيں ہوتی تھيں ۔ ہم لوگوں نے نويں جماعت تک تيسری سطح تک کے امتحان پاس کئے ۔ پاس کرنے کيلئے 80 فيصد نمبر حاصل کرنا لازم تھے ۔ يہ معلومات قومی تاريخ ۔ مشہور ملکی اور غيرملکی لوگ اور ان کے کارناموں ۔ تاريخی مشہور واقعات ۔ مشہور جغرافيائی مقامات اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہوتی تھيں

ايک سِول ڈيفنس کا ادارہ ہوتا تھا اور ايک فرسٹ ايڈ کا ۔ يہ بھی رضاکار ادارے تھے ۔ يہ ادارے آٹھويں سے بارہويں جماعت کے طلباء کو چھُٹيوں ميں يا سکول کالج کے وقت کے بعد آگ بُجھانے ۔ ہوائی حملہ کی صورت ميں اقدامات ۔ عمارت ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے ۔ زخميوں کو ابتدائی طِبی امداد دينے ۔ زخميوں کو ہسپتال پہنچانے ۔ وبائی امراض کی صورت ميں گھر گھر جا کر ٹيکے لگانے ۔ محلوں ميں لوگوں کو بچاؤ کے طريقوں پر معلومات فراہم کرنے کے بارے ميں تعليم و تربيت ديتے تھے
يہ بھی تربيت دی جاتی تھی کہ
اگر سٹريچر نہ ہو تو دو آدمی مل کر کس طرح سٹيچر کا کام کرتے ہيں
اگر ايمبولنس يا گاڑی نہ ہو تو دو بائيسائيکلوں کو جوڑ کر کيسے گاڑی بنائی جاتی ہے کہ زخمی کو ہسپتال پہنچايا جائے
اور اگر سٹريچر اور بائسائيکل نہ ہوں تو کيسے چار آدمی مل کر مريض کو ہسپتال پہنچاتے ہيں
مشق کيلئے جھوٹے فضائی حملے ہوتے اور جھوٹی آگ لگائی جاتی اور ہميں کام کرتے ہوئے ديکھا جاتا کہ تربيت مں کوئی کمی تو نہيں رہ گئی
ان کے تحريری اور عملی امتحانات ہوتے تھے
تربيت کے بعد محلوں کے گروپ بنا ديئے جاتے ہر گروپ کا ايک ليڈر ہوتا ۔ بلکہ وارڈ ہوا کرتے تھے جو بڑے محلوں ميں ايک سے زيادہ تھے
جب رضاکاروں کی ضرورت پڑتی سِول ڈيفنس والوں کے پاس فہرستيں ہوتی تھيں ہميں بُلا ليا جاتا تھا ۔ ہم سے مختلف فلاحی کام لئے جاتے ۔
کچھ محلوں ميں رمضان کے مہينہ ميں خود سے سب رضاکار مل کر سحری کيلئے لوگوں کو باجماعت بلند آواز ميں”جاگو جاگو” کہہ کر جگايا کرتے تھے

سکول اور کالج ميں بارہويں تک اخلاقيات کے ہفتہ وار ليکچر ہوا کرتے تھے جن ميں ہميں بتايا جاتا تھا کہ
گھر کے اندر کيسے رہتے ہيں
محلے ميں کيسے رہتے ہيں
دوسروں کے ساتھ کيسا سلوک کرنا چاہيئے
کمزور يا بوڑھے يا معذور آدمی کی مدد کرنا چاہيئے
پانی يا اناج ضائع نہيں کرنا چاہيئے
بس ميں کيسے سفر کرتے ہيں
پکنک پر کيا کرتے ہيں
اور کيا کيا نہيں کرنا چاہيئے

دو اصول ہميں بار بار ياد کرائے جاتے تھے

آدمی اپنی مدد تو کرتا ہی ہے ۔ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے
By being polite and saying thank you, you lose nothing but you may gain

مندرجہ بالا کے علاوہ
بيت بازی ۔ مضمون نويسی اور تقريری مقابلے ہوتے ۔ پہلے سيکشن ميں ۔ پھر پوری جماعت کا ۔ پھر پورے سکول يا کالج کا
سکول اور کالج ميں صبح سويرے پڑھائی شروع ہونے سے ايک گھنٹہ قبل جسمانی تربيت المعروف پی ٹی [Physical Training] کے لئے بُلايا جاتا اور پی ٹی کرائی جاتی
نصابی مضامين کی حاضری 80 فيصد اور ورزش کی حاضری 70 فيصد ہونا ضروری تھی بصورتِ ديگر سالانہ امتحان ميں بيٹھنے نہيں ديا جاتا تھا

مندرجہ بالا صورتِ حال اُس زمانہ کی ہے جو آج کے جوانوں کے مطابق شايد جاہليت کا دور تھا ۔ يہ نظام 1966ء ميں بے توجہی کا شکار ہونا شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں بجائے درستگی کے اسے ختم کر ديا گيا
آج کا پڑھا لکھا طبقہ ڈھيروں اسناد حاصل کر کے اچھی ملازمت کی تلاش ميں سرگرداں رہتا ہے مگر معاشرے کے فرد کی حيثيت سے اپنی ذمہ داريوں سے ناواقف ہے

امريکا کی دہشتگردی ۔ مزيد معلومات

ميں نے کل امريکا کی پہلی دہشتگری کے عنوان کے تحت لکھا تھا اس پر عرصہ دراز سے جاپان ميں رہائشی ياسر صاحب اور ابو احمد صاحب نے مزيد معلومات فراہم کی ہيں جو نقل کر رہا ہوں

ياسر صاحب لکھتے ہيں
دھماکے کے بعد کالی بارش بھی ہوئی۔
چھ سے دس کلومیٹر سے زیادہ کاعلاقہ اس سےمتاثر ہوا جس کے متاثرین ابھی تک عدالت میں جا رھے ہیں کہ حکومت کے ریکارڈ میں اپنے آپ کو تابکاری کے متاثرین میں شامل کروایں۔ ان کے مطابق ان کی اولاد میں بھی اس تابکاری کے اثرات ہیں۔
جسے گلے کا کینسر وغیرہ۔

ابو احمد صاحب لکھتے ہيں
محترم افتخار اجمل صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سب سے پہلے سال گرہ مبارک!!!! اللہ کرے کہ آپ اچھی صحت، عافیت اور خوشیوں کے ساتھ تا دیر زندہ و سلامت رہیں۔
جاپان پر امریکی دہشت گردی پر آپ کی یہ پوسٹ خاصی معلومات افزا اور فکر انگیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہہ اس سوپر پاور ریاست کی بنیادوں میں ہی ظلم، ناانصافی، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری شامل ہے۔ گوروں نے اس پر قبضہ کرنے کے لیے کروڑوں کی تعداد میں اصل امریکی باشندوں (ریڈ انڈینز) کا قتلِ عام کیا۔ اور تو اور ان اصل باشندوں کوبغیر جنگ کے بھوکا مارنے کے لیے کروڑوں بے زبان جنگلی بھینسے (bisons) شوٹ کرے کے انھیں گلنے سڑنے کو چھوڑ دیا۔ صرف اس لیے کہ انھی بھینسوں گوشت اور کھال وغیرہ پر ان نہتے ریڈ انڈنیز کا گزارا تھا۔
پھر افریقہ سے لاکھوں آزاد لوگوں، (زیادہ تر مسلمان قبائل) کو غلام بنا کر امریکہ لایا گیا اور ان سے جانوروں کی طرح مشقت لے کر اس ملک کی معاشی بنیادیں کھڑی کی گئیں۔
میرا خیال ہے کہ چھے اگست کا سانحہ امریکیوں کی اولین دہشت گردی نہ تھا۔ اس کا سلسلہ امریکہ کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور اب تک جاری ہے۔ امریکہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بلا مبالغہ درجنوں ملکوں پر حملہ اور قبضہ کیا ہے۔ جنوبی امریکہ تو کل تک ان کا محفوظ پچھواڑا سمجھا جاتا رہا تھا، اس سلسلے میں امریکیوں نے منرو ڈاکٹرن بھی جاری کر رکھی تھی۔ یہ تو حال ہی میں لاطینی امریکی ملکوں میں جمہوری انقلابوں کے ذریعے امریکہ تسلط کے خاتمے کی شروعات ہو رہی ہیں ورنہ ان ملکوں میں امریکہ مخالف حکومتوں کا قیام اور استحکام ناممکن رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ نے وہاں پنوشے جیسے ڈکٹیٹروں کی خوب پشت پناہی کی۔
امریکہ کی عالمی دہشت گردی کی تاریخ کے حوالے سے کافی مواد اب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔
بہرحال میرا اس پوسٹ پر تبصرہ کرنے کا اصلاً کوئی ارادہ نہ تھا۔ دراصل میں نے چند ہی روز قبل سرزمینِ بلاگستان پرایک قاری کی حیثیت سے قدم رکھا ہے اور یہ جان کر کافی مایوسی اور افسوس ہوا کہ سارے نہیں تو بہت سے پاکستانی بلاگر بھائی بہن اس وطنِ عزیز اور اس کے بنیادی نظریے سے یا تو نا بلد ہیں ، یا بوجوہ اس سے صرف نظر فرماتے ہوئے غیروں کے پراپیگنڈے کی جگالی کرنے میں مصروف ہیں۔
اسلام کو حیلے بہانوںسے دورِ حاضر میں ناقابلِ عمل قراد دینا ان میں سے بعض کا مطمحِ نظر لگتا ہے۔ سیکولرزم، لبرلزم اور نیشنلزم کے لبادوں میں یہ لوگ در اصل امریکہ ایجنڈے کو ہی بڑھاوا دے رہے ہیں اور نتائج سے بے پروا ہو کر اُسی شاخ پر آرا چلا رہے ہیں جس پر خود بیٹھے ہیں۔ ایسے میں آپ جیسے بزرگوں کا دم مجھے غنیمت لگا، جو اس نام نہاد ترقی کے دور میں بھی چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والے دینِ حق وانصاف و عدل کی بات کرتے ہیں۔ جو نام نہاد جدیدیت (در اصل مغربیت) کی آندھیوں کے مقابلے میں اسلامی مشرقی اقدار کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں۔ بقولِ حضرت اقبال
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مردِ درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
میں پاکستان کی دوسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔قیام ِ پاکستان کے وقت بھارت میں عرصہ حیات تنگ ہونے پر میرے ماں باپ نے اپنے والدین کے ساتھ خون کی ندیاں پار کر کے سرزمینِ پاک پر قدم رکھا۔جو دل خراش کہانیاں ان سے سننے کو ملیں ان کی وجہ سے ہم جیسے گئے گزرے دنیا پرستوں کے دلوں میں بھی اپنی اصل اقدار اور وطنِ عزیز سے محبت کا کم از کم ایک چھوٹا سا ذرہ ضرور موجود ہے۔(عمل کا خانہ بھلے صفر ہی ہے)۔ اس بنا پر جہاں سے بھی ہمیں آوازِ دوست یا بوئے جوئے مولیاں آتی ہے اس طرف طبیعت ضرور لپکتی ہے۔ آپ کے صفحے پر آمد بھی اسی باعث ہوئی۔ ابھی تک مجھے آپ کے جیسا کوئی اور مخلص بلاگر نظر نہیں آیا۔ یقیناً اور بھی بہت سے دین و وطن دوست اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہوں گے اور شاید ابھی میری ان تک میری رسائی نہیں ہو سکی۔ اس سلسلے میں بھی آپ کی رہنمائی چاہوں گا۔ فی الحال میری طرف سےان سب کو یہ پیامِ محبت دے دیجئے
بہ آں گروہ کہ از ساغرِ وفا مستند
سلامِ ما برسانید ، ہر کُجا ہستند
آخر میں ایک بار پھر آپ کی صحت ، عافیت ، درازی عمر اور نیکیوں کی قبولیت کی دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔

پہلی دہشتگردی

ميں اتفاق سے 6 اگست کو پيدا ہوا تھا مگر کسی کے وہم و گماں ميں نہ تھا کہ امريکا ايک بڑی طاقت بن کر دنيا ميں بڑے پيمانے پر دہشتگردی کا آغاز کرے گا اور ميں اپنی پيدائش کے دن خوش ہونے کی بجائے مغموم بيٹھا کروں گا

امريکا جو امن کے بلند بانگ دعوے کرتا ہے نے جب ايٹم بم بنانا شروع کيا تو معاندانہ طور پر اسے خُفيہ رکھا اور اس کا نام مين ہيٹن پروجيکٹ [Manhattan Project] اور کارخانہ کے علاقہ کا نام مين ہيٹن انجيئر ڈسٹرکٹ [Manhattan Engineer District.] رکھا ہوا تھا ۔
ليباٹری ميں پہلا کامياب تجربہ 16 جولائی 1945ء کو کيا گيا
اور
پہلا عملی تجربہ 6 اگست 1945ء کو جاپان کے شہر ہيروشيما پر کيا گيا جہاں کی آبادی اُس وقت 3 اور 4 لاکھ کے درميان تھی ۔
بم گرانے کے بعد آگ کا اايک گولہ اُٹھا جس کا قطر 30 ميٹر تھا
اور درجہ حرارت 3 لاکھ درجے سَيلسيئس ۔
اس تابکاری بادل کی اُونچائی 17000 ميٹر تک پہنچی ۔
اس کے بعد کالی بارش ہوئی جس سے تابکاری فُضلہ [radioactive debris] ايک بہت بڑے علاقہ پر ايک گھنٹہ تک گرتا رہا

اس 3 لاکھ درجے سَيلسيئس حرارت کے نتيجہ ميں
بم گرنے کی جگہ کے گرد کم از کم 7 کلو ميٹر قطر کے دائرہ ميں موجود جانداروں کے جسم کی کھال جل گئی آنکھوں کی بينائی جاتی رہی ۔
2 کلو ميٹر قطر کے اندر موجود ہر جاندار جل کر راکھ ہو گيا ۔
گھروں کے شيشے اور ٹائليں پگھل گئيں ۔
جو کوئی بھی چيز جل سکتی تھی جل کر راکھ ہو گئی

اس دھماکے کے بعد ہوا کا دباؤ يکدم بڑھ کر 35000 کلو گرام فی سکوائر ميٹر ہو گيا
بعد ميں اس کے نتيجہ ميں طوفانی ہوائيں چليں جن کی رفتار 1584 کلو ميٹر فی گھنٹہ تھی ۔
دھماکہ کی جگہ کے گرد 5 کلو ميٹر علاقہ ميں تمام لکڑی کے مکان جل کر فنا ہو گئے
اور کنکريٹ کے مکانوں کے پرخچے اُڑ گئے ۔
6 سے 10 کلو ميٹر کے اندر موجود انسان تابکاری اثرات کی وجہ سے بعد ميں کينسر اور دوسری خطرناک بيماريوں سے ہلاک ہوتے رہے ۔
1976ء ميں اقوامِ متحدہ ميں ديئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 6 اگست 1945ء کو ہيرو شیما کے ايٹمی دھماکہ ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150000 کے قريب تھی
اور 1957ء کے قانون کے مطابق جن لوگوں کے پاس ہيلتھ کارڈ تھے 31 مارچ 1990 کو تيار کئے گئے ريکارڈ کے مطابق ايٹمی دھماکہ سے متاءثر 352550 لوگوں کو علاج کی سہولت مہياء کی گئی

تابکاری اثرات کے تحت کئی سال تک عجيب الخلقت بچے پيدا ہوتے اور مرتے رہے

ہيروشيہ پر ايٹمی دھماکے کے بعد کے چند مناظر

جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے ظاہر ہے

برہمنوں کا برتاؤ

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا

ایک دن ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا

جموں ميں تعلیم اور سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ميں جس سکول ميں پڑھتا تھا وہ ايک ہندو گُپتا خاندان کی ملکيت تھا اور وہی اسے چلا رہے تھے ۔ اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ 5 مسلمان اور 8 ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور 3 ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو مجھ سے 3 سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک 2 مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا ۔ خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے 3 اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں 8 سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔” لے کے رہیں گے پاکستان” ۔ “بَن کے رہے گا پاکستان” ۔ “پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلا اللہ” ۔ “تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 26 فٹ اُونچے پائپ پر لگایا

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی

وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔ یہ فیصلہ مبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی

بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر پھر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا

قراداد الحاق پاکستان

مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔

جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ “3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے”