Category Archives: تاریخ

ڈوگرہ حکومت کی مکّاری اور اعلانِ جہاد

تين ماہ سے پھر مقبوضہ جموں کشمير ميں ظُلم کا بازار گرم ہے اور آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کر رہے ہيں ۔ اِن کيلئے يہ ظُلم کوئی نئی بات نہيں 1947ء سے سہتے آ رہے ہيں

اکتوبر 1947ء کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھُریاں سب ضبط کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا جانے لگا ۔ قتلِ عام کرنے والوں ميں مقامی ہندو بہت کم تھے زيادہ تر ہندوستان سے نو وارد راشٹريہ سيوک سنگ اور ہندو مہاسبھا کے ہندو اور اکالی دَل کے سِکھ تھے ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مُسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مُسلے قربان کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں عید الاضحے اتوار 26 اکتوبر 1947ء کو تھی

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے الله پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک آزادی تھی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا

27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جموں کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر اپنی فوج بذریعہ سِوِلِیّن ہوائی جہازوں کے جموں چھاؤنی (ستواری) کی ایئرپورٹ پر اُتارنا شروع کر دی ۔ پہلا جہاز جموں کی فضا میں پہنچنے پر رن وے پر رکاوٹ کھڑی کی گئی لیکن جہاز لینڈ کر گیا اور ٹکر سے بچنے کیلئے داہنی طرف کو مڑنے کی کوشش میں اس کا داہنا پر زمین میں دھنس گیا مگر فوج اترنے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہ کمانڈوز تھے ۔ اُنہوں نے آتے ہی ایئرپورٹ کا نظام سنبھال لیا اور وہاں موجود عملہ کو گرفتار کر لیا ۔ اس کے بعد دھڑا دھڑ بھارتی فوج اُترنے لگی۔ (ہم اُن دنوں ستواری (جموں چھاؤنی) میں تھے اور رہائش ایئر پورٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ میں اور میرا کزن ارشد حفیظ جلانے کیلئے سوکھی تھوریں تلاش کرتے وہاں پہنچے تو ہم نے وہ جہاز دیکھا جس کا ایک داہنا پر زمین میں دھنسا ہوا تھا)

بھارتی فوج نے 30 اکتوبر 1947ء تک سارے جموں کی سرحدوں پر پھیل گئی اور پھر کشمیر اور پونچھ کی طرف رُخ کیا اور نومبر کے شروع میں بڑی تعداد میں کشمیر اور پونچھ کی سرحدون پر پہنچ گئی
بھارت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن الله سُبْحَانهُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا

يہاں يہ بتانا بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت جو ہميشہ سے کہتی آئی ہے کہ جموں کشمير کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کيا تھا يہ سراسر جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تحريری يا غيرتحريری ثبوت موجود نہيں ۔ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو جب بھارتی وزيرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو رياست کے مجاہدين کی فتوحات سے گبھرا کر بھاگتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے دفتر پہنچے تھے وہاں وہ ثبوت سلامتی کونسل کے سامنے پيش نہ کرتے ؟ ديگر ميں خود اس واقعہ کا گواہ ہوں کہ جب بھارت کا پہلا ہوائی جہاز جموں چھاؤنی ستواری کی فضا ميں پہنچا تو اسے اُترنے کی اجازت نہ دی گئی اور رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ۔ زبردستی اُترتے ہوئے ہوائی جہاز کا ايک پر زمين ميں دھنس گيا تھا ۔ اس ميں سے فوجی نکلے اور اُنہوں کے ايئرپورٹ پر قبضہ کر ليا کيونکہ وہاں رياست کی کوئی فوج نہ تھی

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے البتہ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔

بے سروسامانی کی حالت میں صرف الله پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ کئی پاکستانی فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

جدِ امجد کی قربانیاں

خلیل اللہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کی ایک قربانی سے مسلمان آگاہ ہیں ۔ جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی گئی اور ہر سال ذوالحج کی 10 تاریخ سے 12 کے نصف النہار تک بکرہ ۔ دُنبہ ۔ گائے یا اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر کئی قربانیاں اس سے قبل دے چکے تھے

پہلی قربانی ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام ابھی نوجوان ہی تھے کہ بتوں کی پوجا کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اُن کے ہموطنوں نے اُنہیں آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا ۔ عام آدمی ایسی صورت میں شہر سے بھاگ جاتا یا کہیں چھپ جاتا لیکن سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر آگ میں زندہ جلنے کیلئے تیار ہو گئے ۔ جب اُنہیں آگ میں پھینکا گیا تو اللہ کے حُکم سے وہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کیلئے ٹھنڈی ہو گئی ۔ اسی کے متعلق علامہ اقبال صاحب نے لکھا ہے

بے خطر کُود گيا آتشِ نمرود ميں عِشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی

دوسری قربانی مُلک بدری ہے ۔ کُفّار کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اُنہوں نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو مُلک بدر کر دیا

تیسری قربانی ۔ ایک اور امتحان سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام پر آیا جب اللہ نے اُنہیں اپنی بیوی اور ننھے بچے سمیت اُنہيں مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کا حُکم دیا اور اُنہوں نے بغیر پس و پیش اس پر عمل کیا۔ یہ ننھا بچہ سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام تھے

چوتھی قربانی ۔ مکہ مکرمہ اس زمانہ میں بے آب و گیاہ صحرا تھا ۔ وہاں پہنچ کر سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ کی طرف سے حُکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں ۔ اُن کے چلے جانے کے بعد اُن کی واجب صد احترام بیوی ہاجرہ نے بچے کو ایک جگہ لٹا دیا اور خود اس کیلئے پانی کی تلاش کرنے لگیں ۔ اسی جُستجُو میں وہ قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئیں جب پانی نظر نہ آیا تو نیچے اُتر کر دوسری چوٹی کی طرف گئیں ۔ اس طرح اُنہوں نے سات بار کیا ۔ اس کے بعد بی بی ہاجرہ نے دیکھا کہ جہاں اُن کے ننھے بچے نے ایڑیاں ماری تھیں وہاں سے چشمہ پھوٹ پڑا ہے ۔ اُنہوں نے آ کر پانی کو اکٹھا کرنے کیلئے روکنے کی کوشش کی اور اپنی زبان میں زم زم کہا یعنی رُک جا ۔ اللہ نے اس چشمہ کو ہمیش کر دیا اور پانی کو متبرک بنا دیا ۔ یہ چوٹیاں صفا اور مروہ ہیں ۔ اللہ نے بی بی ہاجرہ کے عمل کو ہر عمرہ یا حج کرنے والے پر فرض کردیا

پانچویں قربانی جس کا شروع ميں ذکر ہو چکا ہے ۔ جب سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام نو سال کے ہو گئے تو سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے تین راتیں متواتر خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ نبی کا خواب مُہمل نہیں ہوتا اسلئے وہ اپنے بیٹے کو لے کر چل دیئے کہ اللہ کا حُکم پورا کریں ۔ منٰی کے میدان میں پہنچے تو شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ چند قدم چل کر پھر شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ اُنہوں نے پھر سات کنکریاں ماریں ۔ مزید چند قدم چلے تو شیطان نے تیسری بار ورغلانے کی کوشش کی اور آپ نے پھر سات کنکریاں شیطان کو ماریں ۔ اس کے بعد بیٹے کو لٹایا ۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی مبادہ ترس آ جائے ۔ چھُری چلانے لگے تو اللہ کا حُکم آ گیا “ہم نے تیرا عمل قبول کر لیا”۔ چھُری اللہ کے حُکم سے سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام کے گلے پر پھرنے کی بجائے فرشتوں کے لائے ہوئے دُنبے کے گلے پر پھر گئی ۔ اللہ نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کے کنکریاں مارنے کے عمل کو حج کا رُکن بنا دیا اور قربانی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی

آج فجر کی نماز کے بعد سے عازمينِ حج مکہ مکرمہ سے مُنی کی طرف رواں دواں ہيں ۔ عيد پر گوشت کھايئے ليکن قربانی کا مقصد بھی ياد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

میری ہتھیلیوں ميں کانٹے

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ آخر ستمبر 1947 ء میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم 6 بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو سيکنڈ کزن اور ايک اُن کی پھوپھی [16 سولہ سال کی] ان کے ساتھ چلے گئے ۔ جو کچھ گھر ميں موجود تھا اُس ميں سے کچھ آٹا چاول ۔ دالیں ۔ ایک لٹر تیل زیتون اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو “جے ہند” اور” ست سری اکال” کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتہ چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے کبھی وہاں سے بھی گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے

کھانا پکانے کے لئے میں اپنے سيکنڈ کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک ہم واپس نہ آتے ہماری بہنیں ہماری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ايک دن تو ہم واپس آئے تو ہماری بہنوں سميت سب خواتين کو نماز جيسی حالت ميں ديکھا ۔ وجہ ہميں کسی نے نہ بتائی ۔ دروازہ ميری سيکنڈ کزن نے کھولا جو ہم چھ ميں سے سب سے بڑی [17 سال کی] تھيں ۔ مجھے پيار کيا پھر ميرے دونوں ہاتھوں کی ہتھليوں کو چوما اور چند لمحے ديکھتی ہی رہ گئيں ۔ ميں نے ديکھا اُن کی آنکھوں سے برسات جاری تھی ۔ اچانک اُنہوں نے منہ پھير کر آنسو پونچھے اور پھر اپنے بھائی کو گلے لگايا ۔ اسی لمحے کرنل عبدالمجيد صاحب کی بيوی آئيں اور ميرے اور پھر ميرے سيکنڈ کزن کے سر پر ہاتھ پھير کر دعائيں ديں

ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو اُبلے ہوئے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف اُبلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے

انگریزوں کی عیّاری اور قتلِ عام کی ابتداء

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947ء سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر دیا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک تو گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا اور دوسرے بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے راستہ مہیا ہو گیا ۔

مسلمانوں کے قتل عام کی ابتداء

جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہءِ تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی تلاشی لے کر نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر پاکستان کا بہت بڑا جھنڈا بہت اُونچا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے اور ہمارا خاندان اُس کی سیاسی حمائت ۔

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے بعد دوپہر ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ بچوں کے لئے لے آیا ہوں ۔ دودھ اُبال کر ہمیں پینے کو کہا گیا مگر اُس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا ۔ دوسرے دن صبح چائے بنانے لگے تو دیکھا کہ دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور تڑپتے تڑپتے وہ مر گئی ۔ دراصل وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا

جاری ہے

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس

پيش لفظ
ميں نے کچھ مہربان قارئين کی فرمائش بلکہ چند کے اصرار پر جد و جہد آزادی جموں کشمير کا خلاصہ پيش کرنا شروع کيا تھا ۔ ابھی مندرجہ ذيل تحارير لکھی تھيں کہ ملک شديد سيلاب کی زد ميں آ گيا جس نے ترجيحات بدل کے رکھ ديں ۔ اب تاريخ کے ان ابواب کا باقی حصہ دہرانا شروع کرتا ہوں ۔ اللہ تو فيق دے اور ہمارے ملک کو ترقی دے

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز
ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان
کيا حريت کانفرنس ميں تفرقہ ہے ؟
پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ
جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس
تین بڑے دریا سندھ ۔ جہلم اور چناب جموں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے دریا بھی ہیں جن میں نیلم اور توی قابل ذکر ہیں ۔ جموں کشمیر کے شمالی پہاڑوں میں مندرجہ ذیل دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ہیں
کے ٹو 8611 میٹر ۔ نانگا پربت 8125 میٹر ۔ گاشربرم ايک 8068 میٹر ۔ گاشربرم دو 8065 میٹر ۔ چوڑی چوٹی 8047 میٹر ۔ دستغل سار 7882 میٹر ۔ راکا پوشی 7788 میٹر اور کنجت سار 7761 میٹر

شیخ عبداللہ کانگرس کے نرغے میں

ميں لکھ چکا ہوں کہ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرہ پوليس کی سرينگر ميں مسلمانوں پر بلا جواز اور بغير وارننگ فائرنگ ميں 22 مسلمان شہيد ہوئے ۔ اس کے بعد جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1942ء اور شروع 1946ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتتی رہی

شیخ عبداللہ 1939ء میں اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے جھانسے میں آ گئے اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا ۔ شیخ عبداللہ کو 13 جولائی 1931ء کو کہے ہوئے ایک شہید کے آخری الفاظ بھی یاد نہ رہے کہ”ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں” ۔

مسلم کانفرنس کی بحالی

شیخ عبداللہ سے مایوس ہو کر 1941ء میں چوہدری غلام عباس اور دوسرے مخلص مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کو بحال کیا تو تقریباً سب مسلمان اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ اس وقت اعلان کیا گیا کہ ریاست کی تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا حصہ ہے

قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1944ء میں جموں کشمیر گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا جس کے دوران وہاں کے سیاستدانوں بشمول شیخ عبداللہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں ۔ 26 جون 1944ء کو سرینگر میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ “مسلمان اپنی قومی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریک جاری رکھیں” اور چوہدری غلام عباس کو مخاطب کر کے کہا “ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں”

نُکتہ دانوں کيلئے ۔ اسلامی معاشرے کا ايک نمونہ

مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے

محمد سليم صاحب کی ای ميل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم

‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا

اوباما کيلئے بڑا چيلنج

کيا امريکا کا صدر اوباما شرق الوسط کو جوھری اسلحہ خانہ سے پاک علاقہ بنا سکتا ہے ؟ يہ ايک بڑا سوال ہی نہيں بلکہ ايک بڑا چيلنچ بھی ہے

وِکی لِيکس [Wiki Leaks] کی طرف سے افغانستان ميں امريکا کی 9 سال سے جاری يلغار کے متعلق امريکی دستاويزات کے انکشاف نے تمام امريکيوں کو مبہوت کر رکھا ہے ۔ ان ميں ايسی بھی دستاويز ہے جس کے مطابق پاکستان کے خُفيہ والے افغانستان کے طالبان کو مالی امداد ۔ اسلحہ اور تربيت ديتے رہے ہيں

متذکرہ دستاويزات سے عياں ہونے والے کوائف کی درستگی ايک الگ مسئلہ ہے اور ان انکشافات کے اثرات نمودار ہونا ابھی باقی ہے مگر اس ابلاغی دھماکے نے ايک بڑی حيران کُن حقيقت کو امريکيوں اور باقی دنيا کے عوام کی نظروں سے اوجھل کر ديا ہے ۔ امريکی حکومت کے احتسابی ادارے [US Government Accountability Office (GAO)] نے مئی 2010ء ميں ايک سربستہ راز جس کی 32 سال سے حفاظت کی جارہی تھی جزوی طور پر غير مخفی [Partialy declassified] کيا جس کا عنوان ہے

‘Nuclear Diversion in the US? 13 Years of Contradiction and Confusion’,
تفصيل ميرے بلاگ “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔۔۔ Reality is Often Bitter ” پر يا يہاں کلِک کر کے پڑھيئے