تين ماہ سے پھر مقبوضہ جموں کشمير ميں ظُلم کا بازار گرم ہے اور آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کر رہے ہيں ۔ اِن کيلئے يہ ظُلم کوئی نئی بات نہيں 1947ء سے سہتے آ رہے ہيں
اکتوبر 1947ء کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھُریاں سب ضبط کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا جانے لگا ۔ قتلِ عام کرنے والوں ميں مقامی ہندو بہت کم تھے زيادہ تر ہندوستان سے نو وارد راشٹريہ سيوک سنگ اور ہندو مہاسبھا کے ہندو اور اکالی دَل کے سِکھ تھے ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مُسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مُسلے قربان کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں عید الاضحے اتوار 26 اکتوبر 1947ء کو تھی
اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے
جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے الله پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک آزادی تھی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا
27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جموں کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر اپنی فوج بذریعہ سِوِلِیّن ہوائی جہازوں کے جموں چھاؤنی (ستواری) کی ایئرپورٹ پر اُتارنا شروع کر دی ۔ پہلا جہاز جموں کی فضا میں پہنچنے پر رن وے پر رکاوٹ کھڑی کی گئی لیکن جہاز لینڈ کر گیا اور ٹکر سے بچنے کیلئے داہنی طرف کو مڑنے کی کوشش میں اس کا داہنا پر زمین میں دھنس گیا مگر فوج اترنے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہ کمانڈوز تھے ۔ اُنہوں نے آتے ہی ایئرپورٹ کا نظام سنبھال لیا اور وہاں موجود عملہ کو گرفتار کر لیا ۔ اس کے بعد دھڑا دھڑ بھارتی فوج اُترنے لگی۔ (ہم اُن دنوں ستواری (جموں چھاؤنی) میں تھے اور رہائش ایئر پورٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ میں اور میرا کزن ارشد حفیظ جلانے کیلئے سوکھی تھوریں تلاش کرتے وہاں پہنچے تو ہم نے وہ جہاز دیکھا جس کا ایک داہنا پر زمین میں دھنسا ہوا تھا)
بھارتی فوج نے 30 اکتوبر 1947ء تک سارے جموں کی سرحدوں پر پھیل گئی اور پھر کشمیر اور پونچھ کی طرف رُخ کیا اور نومبر کے شروع میں بڑی تعداد میں کشمیر اور پونچھ کی سرحدون پر پہنچ گئی
بھارت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن الله سُبْحَانهُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا
يہاں يہ بتانا بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت جو ہميشہ سے کہتی آئی ہے کہ جموں کشمير کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کيا تھا يہ سراسر جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تحريری يا غيرتحريری ثبوت موجود نہيں ۔ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو جب بھارتی وزيرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو رياست کے مجاہدين کی فتوحات سے گبھرا کر بھاگتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے دفتر پہنچے تھے وہاں وہ ثبوت سلامتی کونسل کے سامنے پيش نہ کرتے ؟ ديگر ميں خود اس واقعہ کا گواہ ہوں کہ جب بھارت کا پہلا ہوائی جہاز جموں چھاؤنی ستواری کی فضا ميں پہنچا تو اسے اُترنے کی اجازت نہ دی گئی اور رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ۔ زبردستی اُترتے ہوئے ہوائی جہاز کا ايک پر زمين ميں دھنس گيا تھا ۔ اس ميں سے فوجی نکلے اور اُنہوں کے ايئرپورٹ پر قبضہ کر ليا کيونکہ وہاں رياست کی کوئی فوج نہ تھی
اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے البتہ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔
بے سروسامانی کی حالت میں صرف الله پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ کئی پاکستانی فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے