Category Archives: تاریخ

کیا جموں کشمیر کے لوگ پاکستانی ہیں ؟

میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا

جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں

جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے

پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی

ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی

پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے

تعليم

عصرِ حاضر ميں تعليم کا بہت چرچہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ تعليم کا معيار بہت بلند ہو چکا ہے ۔ پرانے زمانہ کے لوگ تو کچھ نہيں جانتے تھے ۔ مگر کبھی کبھی سمندر ميں اچانک مچھلی کے اُبھرنے کی طرح عصرِ حاضر کے پردے کو پھاڑ کر پرانی کوئی ياد نماياں ہو جاتی ہے تو ميں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ تعليم وہ تھی جس ميں سے ہم پانچ چھ دہائياں قبل گذرے يا وہ ہے جہاں ايک ايم اے انگلش کو انگريزی ميں ايک صفحہ غلطی سے پاک لکھنا نہيں آتا ؟

ميں نے پنجاب يونيورسٹی لاہور سے 1953ء ميں دسويں کا امتحان اول آ کر نہيں صرف ايسے پاس کيا تھا کہ مجھے دو سال وظيفہ حکومت کی طرف سے ملتا رہا تھا ۔ ہمارے انگريزی کے پرچہ ميں ايک اُردو کے بند کو بامحاوہ [ideomatic] انگريزی ميں ترجمہ کرنا تھا اور اسی طرح بورڈ کے بارہويں کے امتحان ميں بھی تھا

دسويں کا اُردو ميں بند [paragraph] جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]

دودھ والا دودھ لئے چلا آ رہا ہے ۔ دودھ کم پانی زيادہ ۔ پوچھو تو کہتا ہے “صاحب ۔ قسم کرا ليجئے جو دودھ ميں پانی ڈالا ہو “۔ ٹھيک ہی تو کہتا ہے ۔ وہ دودھ ميں پانی نہيں پانی ميں دودھ ڈالتا ہے ۔ مگر کيا کريں يہ چائے کی جو لت پڑ گئ ہے ۔ اسے بھی تو نبھانا ہوتا ہے ۔ چائے بھی کيا چيز ہے ۔ جاڑے ميں گرمی اور گرمی ميں ٹھنڈک پہنچاتی ہے اور ہميں دودھ ملا پانی دودھ کے بھاؤ خريدنے پر مجبور کرتی ہے

بارہويں جماعت کا اُردو کا بند جس کا ترجمہ بامحاورہ انگريزی ميں کرنا تھا [کل نمبر 10]
“اسم شريف ؟”
“ناچيز تنکا”
“دولتخانہ ؟”
“جناب ۔ نہ دولت نہ خانہ ۔ اصل گھر جنگل ويرانہ تھا مگر حال ہی ميں احمدآباد ميں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئ تو يہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی انگليوں ميں دبا ہے ميرا موجودہ ٹھکانہ ہے”
“مگر آپ کا نام تو ؟”
” جی ہاں لوگ مجھے ديا سلائی کہتے ہيں اور ميں بھی ان کی خوشی ميں خوش ہوں”

اُميد باندھيں تو کس سے ؟

خاور صاحب نے اپنے کائی تائی کی تفصيل بيان کرتے ہوئے تيل عليحدہ کرنے اور اسے نالی ميں جانے سے روکنےکی بات کر کے مجھے اپنی ملازمت کا زمانہ ياد کرا ديا ۔ بلاشُبہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو اپنے قوانين اور اچھے اصولوں پر عمل کرتی ہيں ۔ جاپان اس کی ايک عمدہ مثال ہے

عام زندگی ميں اور بالخصوص ملازمت کے دوران ميں نے ہميشہ اپنا فرض سمجھا اور اسے نبھانے کی پوری کوشش کی کہ اچھے بُرے جيسے بھی قوانين يا اصول ہوں اُن کی پابندی ۔ ميری کوشش رہی کہ دوسرے بھی قوانين اور اصولوں کے مطابق چليں مگر حوادثِ زمانہ نے سمجھايا کہ اصول صرف اپنے لئے رکھو اور دوسروں پر صرف حتی المقدور نافذ کرو ۔ اصول پسندی نے متعدد بار مجھے مادی نقصان پہنچايا ليکن ميں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی عنائت کردہ ميری اس عادت نے مجھے ہميشہ عزت بخشی ۔ اصولوں کی حالتِ زار جو ہمارے ملک ميں ہے اس کی چند وہ مثاليں جو خاور صاحب کی تحرير پڑھ کر مجھے ياد آئيں

ميں نے جب پروڈکشن منيجر ويپنز فيکٹری کی حيثيت سے جولائی 1969ء ميں چارج سنبھالا تو تمام ورکشاپس کا اندر باہر سے جائزہ ليا ۔ ايک ورکشاپ ميں ديکھا کہ ايک سينٹريفيوج خراب پڑا ہے ۔ بتايا گيا کہ اس ميں لوہے کی کترنيں ڈال کر چلايا جاتا تھا ۔ تيل نُچڑی کترنيں اور تيل جو نکلتا تھا عليحدہ عليحدہ سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کر ديا جاتا ۔ اب کترنيں ايسے ہی پھينک دی جاتی ہيں ۔ ميں نے نئے بہتر سينٹيفيوج کيلئے ٹيکنيکل چيف سے بات چيت کر کے منظوری حاصل کی اور پيشکشوں کيلئے خط جاری کيا ۔ آرڈر کرنے سے قبل ميرے نئے باس آ گئے ۔ انہوں نے مجھے اس اہم کام سے نکال کر ورکشاپ کا انچارج لگا ديا اور ميری جگہ نيا ترقی پانے والا افسر لگا ديا [وجہ ميری اصول پسندی] ۔ بعد ميں سينٹريفيوج کو فالتو خرچہ سمجھ کر آڈر روک ديا ۔ مجھ سے پوچھنا گوارہ نہ کيا اور نہ سوچا کہ ٹيکنيکل چيف نے منظوری دی ہوئی ہے ۔ سال گزرنے کے بعد ورکشاپ کے باہر جو مالٹوں کے درخت لگے تھے وہ سوکھ گئے ۔ مجھے انکوائری کرنے کيلئے کہا گيا ۔ پتہ چلا کہ سينٹريفيوج آرڈر نہيں کيا گيا تھا اور تيل سے آلودہ کترنيں ايسے ہی پھنکی جاتی رہيں ۔ اُن کا تيل بہہ کر درختوں کی جڑوں ميں چلا گيا اور سب درخت سوکھ گئے ۔ اُس کے بعد ارد گرد کی ساری گھاس بھی سوکھ گئی ۔ اُس دن مجھے سمجھ آيا کہ “جڑوں ميں تيل دينا” کا کيا مطلب ہوتا ہے

جب 53 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ لينے کے بعد مجھے واپس بلا کر ويلفيئر کا سربراہ تعينات کيا گيا تو ميرے ماتحت ايک فيکٹری بھی تھی جس ميں فرنس آئل کی ضرورت ہوتی تھی جو مجھ سے پہلے مارکيٹ سے خريدا جاتا تھا ۔ ايک تو اس تيل کا معيار گھٹيا تھا دوسرے مہنگا تھا تيسرے سپلائی کی ضمانت نہ تھی ۔ فيکٹری کا تجربہ ہونے کے باعث ميں جانتا کہ فيکٹريوں ميں بہت استعمال شدہ تيل ہوتا ہے ۔ ميں نے چيئرمين کانفرنس ميں تمام فيکٹريز کے سربراہان کے سامنے يہ سوال رکھا کہ وہ استعمال شُدہ تيل کا وہ کيا کرتے ہيں ۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ۔ اُن کی منظوری سے ميں نے بعد ميں اُن کے متعلقہ افسران سے رابطہ کيا تو معلوم ہوا کہ دو فيکٹرياں جو بہت زيادہ تيل استعمال کرتی ہيں ۔ ان ميں سے ايک ميں تيل ناليوں ميں بہا ديا جاتا ہے اور دوسری ميں زمين ميں گڑھے کھود کر اُن ميں ڈال ديا جاتا ہے ۔ جب ميں نے اُن کو قوانين دکھائے جو اُنہوں نے ديکھنے کی کبھی کوشش بھی نہ کی تھی تو مجھ سے مدد مانگنے لگے ۔ قانون کے مطابق يہ تيل ڈرموں ميں بھر کر سٹورز ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کرنا تھا

ايک اليکٹرو پليٹينگ ورکشاپ تھی ۔ استعمال شدہ کيميکلز قانون کے مطابق سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالہ کرنے تھے اور وہ ناليوں ميں اُنڈيلتے رہے جو کہ فيکٹری کے باہر چشموں کے پانی کے ندی ميں گرا دی گئيں ۔ اسی طرح ايک بہت بڑی ايکسپلوسِوز فيکٹری کا فضلہ بھی اسی ندی ميں دالا جاتا رہا ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ وہ پانی جو کبھی شفاف ہوا کرتا تھا اور لوگ اس ميں نہايا کرتے تھے اتنا زہريلا بن گيا ۔ پرندے اُسے پی کر مرنے لگے

کسی نے کہا تھا “کونسی رَگ دُکھتی ہے ؟”
جواب مِلا “جہاں بھی اُنگلی رکھو وہی”

اِن شاء اللہ جموں کشمير جلد آزاد ہو گا

انشاء اللہ العزيز

سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن

ہم کيا چاہتے ہيں ؟
آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ جموں کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا

انتباہ ۔ کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یا پشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

اِن شاء اللہ اپنے پيدائشی حق کو حاصل کرنے کی جد و جہد ميں شہيد ہونے والوں کی قرنياں رائيگاں نہيں جائيں گی

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو
اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير آزاد ہو کر رہے
اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

جموں کشمير ميں تحریک آزادی 1989ء اور تحریک آزادی 1947ء میں فرق

تحریک آزادی 1989ءکی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی جبکہ 1947ء والی تحریک کی منصوبہ بندی کی گئی تھی

تحریک آزادی 1989ء ہر علاقے کی اپنی انفرادی کاروائی ہے جبکہ 1947ء والی اجتمائی تحریک تھی
تحریک آزادی 1989ء شروع کرنے والے تربیت یافتہ نہیں جبکہ 1947ء والی تحریک میں کچھ تربیت یافتہ لوگ شامل تھے
تحریک آزادی 1947ء کو پاکستان کے لوگوں کی طرف سے افرادی قوّت اور مالی امداد حاصل تھی

کہا جاتا ہے کہ 1989ء میں شروع ہونے والی تحریک کو انفرادی طور پر مالی امداد 2001ء تک ملتی رہی پھر حکومت نے نہ صرف امداد بند کرا دی بلکہ جن رفاہی اداروں کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ مالی امداد کا بندوبست کرتے رہے ہیں ان پر کڑی پابندی لگا دی گئی ۔ اس سلسلہ میں پرويز مشرف کی حکومت نے کئی بے گناہ لوگوں کے خلاف تھانوں میں مختلف نوعیت کی ایف آئی آر درج کی ہوئی ہیں ۔ افرادی امداد پاکستان سے بالکل نہيں گئی

مقبوضہ جموں کشمیر کے لوگوں کی قربانیاں

میرے پاس تازہ اعداد و شمار نہیں ہیں ۔ صورت حال 1989ء عیسوی سے لے کر 2004ء عیسوی تک مندرجہ ذیل ہے

جتنے مکانات جلا دیئے گئے ۔ 100000 کے قریب
جو مسلمان شہید کئے گئے ۔ 100000 کے قریب
جتنے مسلمانوں کوگرفتار کر کے اذیّتیں دی گئیں ۔ 102403
جتنی خواتین بیوہ ہوئیں ۔ 25275
جتنے بچے یتیم ہوئے ۔ 103620
جتنی خواتین کی آبروریزی کی گئی ۔ 18997

بھارتی مظالم کی کچھ جھلکياں

مزيد ديکھنے کيلئے يہاں کلِک کيجئے

جموں میں تعلیم و سیاست اور ہندوؤں کا رویّہ

جموں میں تعلیم و سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ہمارا سکول باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور تین ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو عمر ميں مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ بڑی جماعت کے مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا “ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے” اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب گو ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ ہندو دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا

1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں کم از کم آٹھ سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے

” لے کے رہیں گے پاکستان”۔
“بَن کے رہے گا پاکستان”۔
“پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلّاللہ”۔
“تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”۔

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے 30 فٹ بلند دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا

ہندوؤں کا رویّہ

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے باہر کے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی

ایک دن ایک برہمن پٹری [Foot Path] پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا “پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے” یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا “کپڑے بڑھشٹ کری گیا” مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا

آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی

اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے

خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے

آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں

آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات

سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :

ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس

ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”

جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔

ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں

In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.

Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”

نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]

“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.

Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”

Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.

The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.

The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.

When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.

With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.