Category Archives: تاریخ

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع

عدنان شاہد صاحب نے سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات کے متعلق بروقت استفسار کيا تھا ليکن شب و روز محنت کر کے لکھ لينے کے باوجود شائع کرنے ميں تاخير کرنا پڑی جس کا سبب ميں 27 نومبر 2011ء کو بيان کر چکا ہوں ۔ اللہ کی مہربانی سے 16 دسمبر کو ميرا بلاگ نئے ميزبان پر منتقل ہو گيا تھا ليکن اس کی مکمل پڑتال کرنے کيلئے بھی کچھ وقت درکار تھا ۔ بہر کيف آج اس کا آغاز ہو ہی گيا

پہلے سوال کے بعد اب آتے ہيں عدنان شاہد صاحب کے دوسرے سوال پر
شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا

شيخ مجيب الرحمٰن کے 7 نقاط تھے ۔اس وقت ميرے ذہن ميں صرف 3 آ رہے ہيں يہ ناقابلِ قبول اور پاکستان توڑنے کے مترادف تھے
1 ۔ خارجہ پاليسی ميں خود مُختاری
2 ۔ دفاع ميں خود مُختاری
3 ۔ کرنسی ميں خود مُختاری

سُنا گيا تھا کہ آخری ملاقات ميں باقی 4 نقاط پر اس وقت کے صدر محمد يحیٰ خان راضی ہوگئے تھے اور مجيب الرحمٰن مندرجہ بالا 3 نقاط کو ملتوی کرنے پر راضی ہو گئے تھے ۔ اِن نقاط سے قطع نظر کرتے ہوئے ميں صرف وہ کچھ مختصر طور پر لکھوں گا جو ميرے علم ميں ميرے ذاتی ذرائع سے آيا مگر ذرائع ابلاغ ميں کم ہی آيا

مناسب ہے کہ پہلے ميں اپنے ذرائع [الف] کا ذکر کروں پھر معلومات [ب] کا جو مجھے ان ذرائع سے حاصل ہوئيں ۔ آخر ميں اِن شاء اللہ اپنا مشاہدہ اور تجزيہ پيش کروں گا

الف ۔ ذرائع

الف ۔ 1 ۔ کسی بنگالی سے ميرا رابطہ پہلی بار 1957ء ميں بلال مسجد ۔ باغبان پورہ لاہور ميں ہوا جہاں انجنيئرنگ کالج کے ہم کچھ طلباء ہر جمعرات کو مغرب اور عشاء کی نمازيں چند ماہ پڑھتے رہے اور ان نمازوں کے درميان تقارير بھی سُنتے تھے جو دين اسلام ۔ دين پر عمل اور دين کيلئے سفر کرنے کے تجربات پر عمدہ عِلم کا ذريعہ ہوتی تھيں

الف ۔ 2 ۔ ميرا دوسرا واسطہ بنگالی بھائيوں سے 1963ء ميں پڑا جب ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ملازمت اختيار کی ۔ ان ميں سے 2 کے ساتھ ميرے بہت دوستانہ تعلقات بن گئے
پھر 1967ء ميں 3 بنگالی مکينيکل انجينئر ہماری فيکٹری [ويپنز فيکٹری] ميں تعينات کئے گئے جنہيں ميں نے سکھانا اور تربيت دينا تھی تاکہ وہ اُس کارخانے کو چلا سکيں جو ڈھاکہ کے قريب غازی پور ميں بنايا جا رہا تھا
ميں چونکہ ايک اہم پروجيکٹ پر کام کر رہا تھا اسلئے مغربی پاکستان کے رہائشی ميرے ايک سينيئر اور کچھ جونيئر ساتھيوں کو 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا تاکہ وہ مجوزہ کارخانہ کو قائم کر سکيں جو اواخر 1970ء ميں مکمل ہو گيا تھا

الف ۔ 3 ۔ پاکستان پی ڈبليو ڈی ميں کام کرنے والے ميرے ايک دوست سِول انجنيئر کو 1966ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا جس نے ڈھاکہ کے مضافات ميں ديہاتی علاقوں کے ڈويلوپمنٹ پروجيکٹ پر کام کيا

الف ۔ 4 ۔ميرا ايک دوست جو وفاقی وزارتِ ماليات ميں اسسٹنٹ فائيناشل ايڈوائزر تھا اُسے 1968ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا

الف ۔ 5 ۔ ميں جب 1976ء ميں لبيا گيا تو بنگلہ ديش سے ڈيپوٹيشن پر آئے ہوئے ايک بنگالی آرتھوپيڈک سرجن سے دوستی ہو گئی اور يہ دوستی 1981ء ميں اس کی بنگلہ ديش واپسی تک جاری رہی

الف ۔ 6 ۔ سرکاری عہديدار ہونے کے ناطے مختلف متعلقہ حلقوں ميں جانے سے ميرے علم ميں آنے والے ايسے حقائق جو وقتاً فوقتاً اخبار ميں شائع ہوئے

جيسا کہ ميں کہہ چکا ہوں موضوع طويل عبارت کا حامل ہے ۔ ميں اسے کوزے ميں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس سے زيادہ اختصار مضمون کا مقصد کھو دے گا ۔ باقی اِن شاء اللہ چند دنوں ميں

پيپلز پارٹی اور نصرت بھٹو

ايک کھلنڈرا نوجوان قائدِ عوام کيسے بنا ؟
پيپلز پارٹی کس کا تخيل تھا ؟
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پيپلز پارٹی کيونکر قائم رہی ؟
بينظير کو سياست کس نے سکھائی ؟
مرتضٰے بھٹو کيوں قتل ہوا ؟

ميں اپنی پرانی ڈائريوں سے اس پر حقائق کافی حد تک جمع کر چکا تھا کہ ايک مختصر مگر جامع مضمون اسی کے متعلق شائع ہو گيا جو ميری معلومات سے ملتا جُلتا ہے ۔ ملاحظہ فرمايئے

میرا اُن کی شخصیت کے ساتھ پہلا تعارف روزنامہ مساوات میں کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کی وساطت سے ہوا۔ وہ اُن دنوں اس ادارے کی چیئرپرسن تھیں اور اُس کے معاملات میں دلچسپی لیتی تھیں۔ ایک روز میں نے اپنے ایک واقفِ کار سے جواسی اخبار میں کام کرتے تھے ۔ بیگم صاحبہ کے مزاج اُن کے رویوں کے بارے میں پوچھا تو اُس نے میری توقع کے بالکل برعکس اُن کی تعریف و توصیف شروع کر دی ۔ مجھے اُن کی باتیں سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی اور میں نے بیگم صاحبہ کی شخصیت کا بھٹو صاحب کی شخصیت سے ہٹ کر مطالعہ شروع کر دیا

اصفہان میں نصرت ایک امیر تاجر کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ اُن کے والد کراچی منتقل ہونے کے بعد صابن سازی کا کارخانہ چلانے لگے۔ ایران کے حوالے سے اس خاندان کے تعلقات اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سے قائم ہوئے جنہوں نے آگے چل کر نصرت اور بھٹو کو شادی کے بندھن میں پرو دیا ۔ اس طرح جوان سال بھٹو جو امریکہ سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان آئے اُن کے بیگم نصرت بھٹو کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں صدر اسکندر مرزا سے مراسم پیدا ہوئے جن کی بدولت وہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد میں شامل کر لیے گئے۔

نصرت بھٹو اپنے شوہر کو سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ صدر اسکندر مرزا کے ذریعے مسٹر بھٹو جنرل ایوب خان سے متعارف ہوئے۔ جب اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو وہ لندن میں تھے۔ انہیں کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت آئی تو نصرت بھٹو نے اُنہیں یہ دعوت قبول کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ اُنہی کے اصرار پر وہ کابینہ میں شامل ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے میں اُن کی اہلیہ نے ایک خاموش مگر انتہائی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا جبکہ وہ خود تاریخ کی آنکھ سے چھپی رہی تھیں۔ مسٹر بھٹو ایوب خان کے دور میں وزیرِ خارجہ بنے اور بڑی شہرت پائی۔

اس دوران عائلی زندگی میں کئی نشیب و فراز لیکن نصرت بھٹو نے بڑی دانائی اور فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کیا نہ اپنی جداگانہ شخصیت کا امیج بنانے کی ذرہ برابر کوشش کی۔ ان کی تمام تر توجہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مرکوز رہی اور اُن کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بھٹو صاحب عالمی سطح پر بلند پایہ لیڈر کے طور پر پہچانے جائیں اور پھر معاہدہٴ تاشقند کا سخت مرحلہ پیش آیا اور آخر کار صدر ایوب خان اور وزیرِ خارجہ زیڈ اے بھٹو کے راستے جدا ہو گئے اور وہ کابینہ سے نکال دیے گئے۔

آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد اُن کے لیے یہ ایک سخت جاں مرحلہ تھا جس میں بیگم نصرت بھٹو نے اُنہیں دلاسہ دیا اور بدلتے ہوئے ملکی حالات کے پیشِ نظر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا چنانچہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور تین سال کے اندر
پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد ازاں وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونے میں کامیاب رہے۔

بیگم نصرت بھٹو کا پیپلز پارٹی کی تشکیل میں سب سے قابلِ قدر کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اس میں خواتین کا ونگ قائم کیا تحصیل اور ضلع کی سطح پر انتخابات کرائے اور کارکنوں نے اُنہیں قومی سطح پر باقاعدہ منتخب کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی علمبردار اور اسے سیاسی جماعتوں کے اندر نچلی سطح تک رائج کرنے کی زبردست حامی تھیں۔ اسی ونگ کے ذریعے اُنہوں نے بہت سا فلاحی کام کیااور عام لوگوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا کی۔ اُن کے ہاں محبت اور خیر خواہی کا جذبہ گہرا اور ہمہ گیر تھا۔ وہ 1973ء سے 1977ء تک پاکستان کی خاتونِ اوّل رہیں مگر خود نمائی سے پرہیز کیا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ ہر صبح ناشتے کی میز پر مسٹر بھٹو سے ملکی اور عالمی حالات پر تبادلہٴ خیال کرتیں لیکن امورِ ریاست میں مداخلت سے پرہیز کرتی رہیں۔

وہ اپنے شوہر کو سیاسی تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بیٹی بے نظیر کی تعلیمی اور ذہنی تربیت پر توجہ دے رہی تھیں جو مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھیں۔

1977ء میں حالات نے ایک بہت بڑا پلٹا اُن کے شوہر کی حکومت ختم ہو گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ مسٹر بھٹو گرفتار کر لیے گئے اور پیپلز پارٹی کو کڑی آزمائش نے آ لیا۔ اس انتہائی نازک موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے غیر معمولی تدبر تحمل اور فولادی عزم کا ثبوت دیا۔ اُن کی چھپی ہوئی صلاحیتیں بے پناہ توانائیوں کے ساتھ اُجاگر ہوئیں اور اُنہوں نے ظلم اور جبر کا ہر وار بڑی بہادری اور مردانگی سے برداشت کیا اور لازوال جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کی شمع روشن رکھی۔ مسٹر بھٹو پر جب قتل کا مقدمہ چلنا شروع تو بیگم صاحبہ نے عدالتوں میں بھی
بڑے حوصلہ مندی سے جنگ لڑی اور سیاسی میدان میں ایک شیر کی طرح غاصبوں پر جھپٹی رہیں۔ اُنہوں نے قائدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا اور عوام کے ساتھ اُنہوں نے جو ایک گہرا تعلق پہلے سے پیدا کر رکھا تھا اس کے ذریعے کارکنوں کے اندر مزاحمت کی روح پھونکی اور اُنہیں فوجی آمریت کے مدمقابل ایک مضبوط سیاسی قوت میں ڈھال دیا۔ مسٹر بھٹو کی پھانسی کا صدمہ بھی اُنہوں نے اس طرح برداشت کیا جیسے وہ ہمت و عزیمت کی ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ہوں۔

اُن کی فہم و فراست کا سب سے بڑا شاہکار یہ تھا کہ اُنہوں نے اُن تمام عناصر کو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں اپنے ساتھ شامل کیا جنہوں نے پی این اے میں مسٹر بھٹو کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ اُنہیں سرطان کا مرض لاحق ہو چکا تھا اس کے باوجود اُنہوں نے تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی۔ سندھ میں ایم آر ڈی ناکام رہیلیکن جنرل ضیاء الحق پر اس قدر دباوٴ بڑھا کہ انہیں انتخابات کرانا پڑے اور یہی انتخابات آگے چل کر 1988ء کے انتخابات پر منتج ہوئے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی سطح پر واضح کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی بیگم نصرت بھٹو کی رہینِ منت تھی مگر اُنہوں نے اقتدار کا تاج اپنی بیٹی بے نظیر کے سر پر رکھا اور خود سینئر وزیر بننے پر اکتفا کیا۔

اُن کا خلوص اور اُن کا ایثارآگے چل کر اقتدار کی کشمکش میں اُن کے لیے بڑی اذیت کا باعث بنا۔ 1993ء میں انتخابات ہوئے تو ماں نے بیٹی سے کہا کہ میرا اصل جان نشین میرا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو ہے جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے اسے پاکستان میں آنے اور انتخابات میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اسے سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملنا چاہیے مگر وزیرِ اعظم بے نظیر
نے اس خیال کی مخالفت کی تاہم بڑی رودکد کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے اور وہ عظیم اور بیدار مغز ماں جس نے بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ ہموار کی وہ اپنی بیٹی کی کرپٹ حکومت سے بیزار ہوتی گئی اور وہ اپنے بڑے بیٹے کی سیاسی حمایت میں اسی طرح سرگرم ہوگئیں جس طرح اُنہوں نے اپنے شوہر کی جان بچانے اور پیپلز پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے تگ و دو کی تھی۔

بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے دو مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی میں انتخابات کرائے جائیں
اور دوسرا یہ کہ حکومت کو بدترین کرپشن سے پاک صاف کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات درست ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جائے۔ اس دوٹوک اعلان کے بعد 70 کلفٹن کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے بھون دیئے گئے کیونکہ وہ جناب آصف زرداری اور بے نظیر کے اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے

ہم ترقی چاہتے ہيں ؟؟؟

آج بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ پچھلی کئی دہائيوں سے ہم لوگ مُلک و قوم کے دن بدن رُو بتنزل ہونے کا ہر محفل ميں رونا روتے ہيں ۔ تنزل کا مُوجب کوئی سياستدانوں کو قرار ديتا ہے تو کوئی فوجی آمروں کو اور کچھ ايسے بھی ہيں جو مُلا يا مُلا کے پڑھائے ہوئے اُن 18 فيصد افراد کو قرار موردِ الزام ٹھہراتے ہيں جنہوں نے مُلک ميں خواندگی کی شرح کو 17 سے 35 فيصد بنايا ہوا ہے ۔ آخرالذکر ميں اپنے کو زيادہ ذہين سمجھنے والےکچھ ايسے افراد بھی ہيں جو مروجہ بدحالی کا سبب دين اسلام کو قرار ديتے ہيں

ہموطنوں ميں پڑھے لکھوں سميت اکثريت کا يہ حال ہے کہ انہيں مطالعہ کا شوق نہيں ۔ وہ صرف نصاب کی کتب پڑھتے ہيں اسناد حاصل کرنے کيلئے اور بعض تو نصاب کی کُتب بھی پوری نہيں پڑھتے ۔ تعليميافتہ بننے يا اچھی عملی زندگی گذارنے کيلئے نصابی کُتب کے ساتھ ساتھ تاريخ ۔ معاشرتی اور معاشی علوم کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے اور يہ عادت نمعلوم کيوں ہموطنوں کی بھاری اکثريت ميں نہيں ملتی ۔ ہماری قوم کی ريخت و ناکامی کا يہی بڑا سبب ہے

دُور کيوں جايئے ۔ پڑھے لکھے ہموطنوں کی بھاری اکثريت کو 6 دہائياں پرانی اپنے ہی مُلک کی تاريخ کا ہی عِلم نہيں تو اور کيا توقع کی جائے ۔ اسی لئے يہ لوگ شکائت کرتے ہيں کہ مُلک ميں کسی نے 64 سال سے کچھ نہيں کيا ۔ صرف معاشی پہلو ہی کو ديکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری دِگرگوں حالت ہموطنوں کی بلاجواز شاہانہ عادات کا نتيجہ ہے ۔ آج کے دور ميں کسی سرکاری دفتر ميں چلے جائيے اور صرف قلم اور کاغذ کے استعمال کا تخمينہ لگايئے ۔ پھر اس کا مقابلہ کيجئے اُن لوگوں کے طريقے سے جنہوں نے اس مُلک کو حاصل کيا اور ترقی کی راہ پر ڈالا تھا

ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء ميں ملازمت شروع کی ۔ مجھے اُس وقت کے سمال آرمز گروپ [جو 1967ء ميں ويپنز فيکٹری بنا] ميں تعينات کيا گيا ۔ سمال آرمز گروپ کے سربراہ ورکس منيجر تھے جن کے ماتحت ميرے سميت 2 اسسٹنٹ ورکس منيجر اور ايک سيکشن آفيسر ايڈمن تھے ۔ سيکشن آفيسر کے برابر عہدے کے 8 فورمين متذکرہ 2 اسسٹنٹ منيجرز کے ماتحت تھے پھر اُن کے ماتحت اسسٹنٹ فورمين ۔ چارجمين ۔ سپروائزر اور ورکمين وغيرہ تھے

ميں نے ديکھا کہ ہمارے دفاتر ميں کوئی ايسا کاغذ جس کے ايک طرف لکھا ہوا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو اُسے ضائع نہيں کيا جاتا تھا بلکہ لکھائی پر صرف ايک کاٹا لگا کر اس کے دوسری طرف لکھنے کيلئے استعمال کی جاتی تھی ۔ اسی طرح جو لفافہ ڈاک ميں موصول ہو اُس پر جہاں پتہ لکھا ہوتا تھا ايک پرچی چپکا کر لفافہ دوبارہ استعمال کيا جاتا تھا ۔ کاغذوں کو نتھی کرنے کيلئے لوہے کے پِن کی بجائے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے جو قريب ہی اُگے کيکر کے درخت سے اُتارے جاتے تھے ۔ ہماری فيکٹری ميں صرف ايک ٹائپسٹ تھا اور ايک ہی ٹائپ رائٹر اسلئے کئی خطوط نب ہولڈر يا پکی پنسل سے ہی لکھے جاتے تھے

گليوں اور سڑکوں پر لگی بتياں کوئی توڑتا نہيں تھا ۔ نہ کوئی دوسری املاک کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ طلباء اور طالبات اپنی چھٹيوں کے دوران دشمن کے ہوائی حملے سے بچنے اور اس کے بعد پيدا ہونے والی صورتِ حال سے نپٹنے ۔ ابتدائی طبی امداد اور دوسرے فلاحی کورس کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامہ کے امتحاں پاس کرتے تھے

ہماری فيکٹری ميں سيکشن آفيسر ايڈمن 50 سالہ اشرف علی صاحب تھے جو 1947ء ميں وسط بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ چونکہ وہاں پر وہ سرکاری سيکرٹيريئٹ کے ملازم تھے اسلئے پاکستان پہنچنے پر اُنہيں کراچی ميں سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت دی گئی ۔ وہاں سے 1953ء ميں اُن کا تبادلہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ہوا تھا ۔ ميں نے اشرف علی صاحب کو ديکھا کہ ردّی کاغذ کی نلکی بنا کر ايک چھوٹی سی پنسل کے پيچھے لگا کر اسے لمبا کيا ہوا تھا کہ لکھنے کيلئے ہاتھ ميں آ سکے ۔ مجھے کام شروع کرنے کيلئے ايک ماہ کيلئے 2 پنسليں ملی تھيں ۔ ميرے پاس لکھنے کا کام کم تھا سو ميں نے ان ميں سے ايک اشرف علی صاحب کو پيش کی تو اُنہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ يہ کہا “بھائی ميں چند سال ميں ريٹائر ہونے والا ہوں اور اپنی عادت خراب نہيں کرنا چاہتا کہ ريٹائرمنٹ کے بعد مجھے صرف پنشن پر گذر کرنا ہے”۔

اس کے بعد اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ دورِ حاضر کے ہموطنوں کو اگر ہوش ميں نہ لائے تو پھر وہ اسی کے مستحق ہيں جو کچھ آجکل ہو رہا ہے ۔ اور عمران خان تو کيا شايد کوئی فرشتہ بھی آ کر اس مُلک و قوم کو درست نہ کر سکے ۔ اشرف علی صاحب نے مجھے جو بتايا تھا اُس کا خلاصہ يہ ہے

“جب پاکستان بنا تو ہم سی پی سے لُٹے پُٹے کراچی پہنچے سرحد پر نام اور دوسرے کوائف درج کئے جاتے تھے سو ہم نے لکھوا ديا ۔ کچھ دن ہميں کراچی مہاجرين کيمپ ميں رکھا گيا ۔پھر جوں جوں ضرورت ہوتی آدميوں کو ان کی تعليم اور تجربہ کے مطابق چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی سو ہميں بھی سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت مل گئی ۔ وہاں نہ کوئی کرسی تھی نہ کوئی ميز ۔ کچھ کاغذ جن کی ايک طرف کچھ لکھا تھا اور ايک پکی پنسل دے دی گئی ۔ ايک ساتھی جو پہلے سے موجود تھے اور ايک پيٹی [wooden crate] کو ميز بنائے بيٹھے تھے کہنے لگے کہ آج چھٹی کے بعد ميرے ساتھ چليں ۔ وہ چھٹی کے بعد مجھے کيماڑی لے گئے ۔ وہاں خالی پيٹياں پڑی تھيں ۔ ہم نے ايک چھوٹی اور ايک بڑی اُٹھا لی ۔ اگلے روز ہم دفتر ميں ميز لگا کر کرسی پر بيٹھے ۔ ہميں 3 ماہ تنخواہ پيسوں ميں نہيں ملی بلکہ چاول ۔ آٹا اور دال وغيرہ دے ديا جاتا تھا اور سب خوش تھے ۔ اپنا کام بڑے شوق اور انہماک سے کرتے تھے ۔ ايک دوسرے کا خيال بھی رکھتے تھے ۔ کسی کو کوئی پريشانی نہ تھی ۔ ہم پيدل ہی دفتر آتے جاتے تھے ۔ جن لوگوں کی رہائش دور تھی وہ صبح تڑکے گھر سے نکلتے تھے ۔ ہميں جو پنسل ملتی تھی اُسے ہم آخری حد تک استعمال کرتے تھے ۔ کوئی 6 ماہ بعد ہميں سياہی کا سفوف ۔ دوات ۔ نب اور ہولڈر مل گئے ۔ ليکن پکی پنسل ساتھ ملتی رہی کيونکہ نب سے کاپياں نہيں بن سکتی تھيں”۔

يہاں يہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد بھارت ميں گندم کی شديد قلت پيدا ہوئی تو مہاتما کرم داس موہن چند گاندھی نے پورے بھارت کا دورہ کيا اور خود آلو کی روٹی کھا کر عوام کو بھی آلو کی روٹی کھانے کی ترغيب دی تھی جو آج کی اُن کی ترقی کا پيش خيمہ ثابت ہوئی

ملک فيروز خان نون 1957ء ميں پاکستان کے وزير اعظم رہے ہيں ۔ اُن کا گھر ميں دفتر ايک چھوٹی سی ميز اور ايک کرسی پر مشتمل تھا جو اُنہوں نے اپنے سونے کے کمرے ہی ميں لگائی ہوئی تھی ۔ ايک دن ان کی بيوی بيگم وقارالنساء نون نے ذاتی خط لکھا اور اُسی ميز پر رکھ ديا ۔ جب وقت کے پاکستان کے وزير اعظم گھر آئے تو بيوی نے کہا يہ خط ڈاکخانے ميں ڈال آئيں
وزير اعظم نے پوچھا “يہ کاغذ کہاں سے ليا ہے ؟”
بيوی “آپ کی ميز سے”
وزير اعظم “اور يہ سياہی”
بيوی ” آپ کی ميز سے”
وزير اعظم غصے ميں” نہ يہ کاغذ تمہارے خاوند کا ہے اور نہ سياہی ۔ يہ دونوں بلکہ يہ دفتر وزيرِ اعظم پاکستان کا ہے ۔ اب يہ کمی پوری کرنا ہو گی”

کاش کہ تيرے دِل ميں اُتر جائے ميری بات

بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال

موضوع سے پہلے کچھ اپنے بارے ميں
جيسا کہ ميں 10 نومبر کو لکھ چکا ہوں ميری دوسری يعنی داہنی آنکھ کی ليزر سرجری 15 اور 16 نومبر کی درميانی رات کو ہوئی اور اب ميں اللہ کے فضل و کرم سے دونوں آنکھوں سے پہلے کی نسبت بہتر ديکھ سکتا ہوں ۔ 15 نومبر سے آج تک جو کچھ ميرے بلاگ پر شائع ہوا وہ پہلے سے محفوظ شدہ تھا ۔ جو شائع کروا ديا گيا

پہلا سوال

ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی تو جو جملہ پہلی ہی ديد پر ميرے ذہن ميں بيٹھ گيا اور آج تک ميں نہ صرف اسے بھولا نہيں بلکہ اس پر عمل بھی کيا وہ ہے ہر ڈرائينگ شيٹ کے کنارے پر انگريزی ميں لکھا يہ فقرہ
اگر شک ہو تو پوچھو [If in doubt, Ask ]

مجھے اُس وقت بڑی مسرت ہوئی تھی جب مجھے عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی ملی جس ميں اُنہوں نے مجھ سے دو سوال پوچھے تھے ۔ ايک کا ميں نے جواب دے ديا تھا مگر دوسرے کی وسعت کا خيال کرتے ہوئے ميں نے مہلت مانگی جس کی ايک وجہ يہ بھی تھی کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد ميری ياد داشت مجروح ہو چکی ہے

دوسرے سوال کے سلسلے ميں ياديں مجتمع کرتے ہوئے ميرے ذہن نے کہا کہ يہ ايک ذاتی معاملہ نہيں بہت بڑا قومی سانحہ ہے جس کے متعلق بجا طور پر جواں نسل کی اکثريت جاننا چاہتی ہو گی مگر اُنہوں نے وہ ڈرائينگ شيٹس نہيں ديکھی ہوں گی جن پر لکھا تھا ” اگر شک ہو تو پوچھو” چنانچہ ميں نے عدنان شاہد صاحب کے سوالات اور اُن کے جوابات اپنے بلاگ پر لکھنے کا فيصلہ کيا
بلاگ پر لکھنے کا دوسرا سبب يہ ہے کہ اس طرح تبصروں کی وساطت سے ممکن ہے مشاہدات کی وضاحت ہو يا ميری معلومات ميں اضافہ ہو

عدنان شاہد صاحب کی چِٹھی کا متن
السلامُ علیکم انکل جی میرا نام عدنان شاہد ہے اور میں اردو بلاگنگ کرتا ہوں اور آپ کے بلاگ کا مستقل قاری ہوں۔ انکل جی مجھے آپ کا تھوڑا سا وقت چاہئیے اور کیا آپ مجھے ان سوالوں کا جواب دے سکتے ہیں ؟

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی مشرقی پاکستان سے کس مطالبے نے جنم لیا؟

شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا

ميرا جواب
السلام عليکم

آپ يہ سوالات کسی تاريخ دان سے پوچھتے تو بہتر ہوتا ۔ ميری بات کی کيا اہميت ؟

آپ کا پہلا سوال
جہاں تک ميرا عِلم اور ياد داشت کام کرتی ہے پاکستان بننے کے فوری بعد مشرقی پاکستان ميں کسی مطالبے نے جنم نہيں ليا تھا ۔ اگر ايسا ہوتا تو حسين شہيد سہروردی صاحب جو خالص بنگالی تھے پاکستان کا پہلا آئين منظور ہونے کے بعد ستمبر 1956ء ميں پاکستان کے وزيرِ اعظم نہ بنتے
خيال رہے کہ حسين شہيد سہروردی صاحب اُس عوامی ليگ کے صدر تھے جس ميں شيخ مجيب الرحمٰن بھی تھا
بنگاليوں کا دُشمن دراصل بنگالی بيوروکريٹ سکندر مرزا تھا جو غلام محمد کا منظورِ نظر ہونے کی وجہ سے بیوروکریٹ سے حکمران بن بیٹھا تھا
حسين شہيد سہروردی صاحب نے مشرقی پاکستان (جو کراچی کے سيٹھوں کے زيرِ اثر تھا) کو اس کا مالی حق دينے کی کوشش کی جسے روکنے کے لئے سکندر مرزا (جو اُس وقت صدر تھا) نے حسين شہيد سہروردی صاحب پر اِتنا زیادہ دباؤ ڈالا کہ اس ڈر سے کہ اُنہيں برخاست ہی نہ کر ديا جائے حسين شہيد سہروردی صاحب اکتوبر 1957ء ميں مستعفی ہو گئے تھے

يہ تھا وہ وقت جب مشرقی پاکستان ميں نفرت کی بنياد رکھی گئی

اس سے قبل محمد علی بوگرہ صاحب جو بنگالی تھے 1953ء ميں وزيرِ اعظم بنے تھے اور انہيں بھی سکندر مرزا نے 1955ء ميں برخواست کيا تھا
محمد علی بوگرہ صاحب سے قبل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدين صاحب (جو لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد 1951ء میں وزیرِ اعطم بنے تھے) کو کابينہ سمیت 1953ء ميں اور پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کو 1954ء ميں برخواست کر کے پاکستان کی تباہی کی بنياد رکھی تھی

دوسرے سوال کا جواب ميں براہِ راست نہيں بلکہ اپنے انداز سے دوں گا مگر اس کيلئے مجھے وقت چاہيئے کہ پرانی ياديں تازہ کروں

ترميم
ايک اہم بات جو چِٹھی ميں لکھنے سے رہ گئی تھی يہ ہے کہ مشرقی پاکستان ميں بنگالی بھائيوں کے دُشمن وہی تھے جو مغربی پاکستان ميں پنجابيوں ۔ سندھيوں ۔ پٹھانوں اور بلوچوں کے دشمن رہے ہيں يعنی بيوروکريٹ خواہ وہ سادہ لباس ميں ہوں يا وردی ميں

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ چند حقائق

جو جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو ہوا تھا ميں 24 اکتوبر 2011ء کو لکھ چکا ہوں ۔ اب حسبِ وعدہ پس منظر اور پيش منظر کا مختصر خاکہ

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی

وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔ یہ فیصلہ مُبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی ۔ بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر پھر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا

قراداد الحاق پاکستان

مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔

جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ “3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے” ۔

تحریک آزادی کا کھُلا اعلان

مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کسی قسم کا جواب نہ ملنے پر جس مسلح تحریک کا نوٹس مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو دیا تھا وہ 23 اگست 1947ء کو جموں کشمير کے مسلمان فوجيوں نے نیلا بٹ سے شروع کی ۔ اس ميں شہری بھی شامل ہوتے گئے ۔ يہ تحريک ستمبر 1947ء میں گلگت اور بلتستان میں پروان چڑھی اور پھر اکتوبر میں مظفرآباد ۔ پونچھ ۔ کوٹلی ۔ میرپور اور بھِمبَر تک پھیل گئی

گلگت بلتستان کی آزادی

گلگت کا علاقہ انگریزوں نے پٹے پر لیا ہوا تھا اور اسکی حفاظت گلگت سکاؤٹس کے ذمہ ہوا کرتی تھی جو سب مسلمان تھے ۔ گلگت سکاؤٹس کے صوبیدار میجر بابر خان آزادی کے متوالے تھے ۔ جموں کشمیر کے راجہ نے گلگت سے 50 کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر چھاؤنی اور ریزیڈنسی بنائی ہوئی تھی جہاں چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کے فوجی تعینات ہوتے تھے ۔ چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کےمسلمان آفیسروں میں کرنل عبدالمجید جو جموں میں ہمارے ہمسایہ تھے ۔ کرنل احسان الٰہی ۔ میجر حسن خان جو کیپٹن ہی جانے جاتے رہے ۔ کیپٹن سعید درّانی ۔ کیپٹن محمد خان ۔ کیپٹن محمد افضل اور لیفٹیننٹ غلام حیدر شامل تھے ۔ پٹے کی معیاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی آزادی معرضِ وجود میں آ گئی اور انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنا شروع کر دیا چنانچہ جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے گھنسار سنگھ کو گلگت کا گورنر مقرر کر کے بونجی بھیجا ۔ یہ تعیناتی چونکہ نہائت عُجلت میں کی گئی تھی اسلئے گورنر گھنسار سنگھ کے پاس علاقہ کا انتظام چلانے کے کوئی اختیارات نہ تھے سو وہ صرف کاغذی گورنر تھا ۔

ہوا یوں کہ چھٹی جموں کشمیر اِنفینٹری کی رائفل کمپنی کے کمانڈر میجر حسن خان کو اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانگی کا حُکم ملا ۔ یکم ستمبر 1947 کو وہ کشمیرسے روانہ ہوا تو اُس نے بآواز بلند پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے اُس کا ساتھ دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے جموں کشمیر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور اس کے باوجود جموں شہر میں آزادی کے متوالے مسلمان جلوس نکال رہے تھے جس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے ۔ میجر حسن خان کی کمپنی جب استور پہنچی تو شہری مسلمانوں کی حمائت سے نیا جوش پیدا ہوا اور آزادی کے متوالوں نے دل کھول کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ اس کمپنی نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اور باقی آزادی کے متوالوں کو ساتھ ملاتے اپنا سفر جاری رکھا ۔ گلگت پہنچنے تک گلگت سکاؤٹس بھی ان کے ساتھ مل چکے تھے ۔

بھارتی فوجوں کے 27 اکتوبر 1947 کو جموں میں زبردستی داخل ہونے کی اطلاع گلگت بلتستان میں 30 اکتوبر 1947 کو پہنچی ۔ 31 اکتوبر کو صوبیدار میجر بابر خان نے بونجی پہنچ کر گلگت سکاؤٹس کی مدد سے گورنر گھنسار سنگھ کے بنگلہ کا محاصرہ کر لیا ۔ گورنر کے ڈوگرہ فوجی محافظوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک سکاؤٹ شہید ہو گیا ۔ گھنسار سنگھ کو حسن خان اور اس کے ساتھیوں کی استور میں نعرے لگانے کا علم ہو چکا تھا ۔ اُس نے 31 اکتوبر کوصبح ہی ٹیلیفون پر چھٹی اِنفینٹری کے کمانڈر کرنل عبدالمجید کو ایک سِکھ کمپنی فوراً بونجی بھجنے اور خود بھی میجر حسن خان کو ساتھ لے کر بونجی پہنچنے کا کہا ۔ کرنل عبدالمجید خود بونجی پہنچا اور میجر حسن خان کو اپنی کمپنی سمیت بونجی پہنچنے کا حکم دیا مگر سکھ کمپنی کو کچھ نہ کہا ۔ کرنل عبدالمجید کے بونجی پہنچنے سے پہلے گلگت سکاؤٹس کی طرف سے گھنسار سنگھ تک پیغام پہنچایا جا چکا تھا کہ ہتھیار ڈال دو ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ کرنل عبدالمجید نے میجر حسن خان اور صوبیدار میجر بابر خان سے گھنسار سنگھ کی جان کی ضمانت لے لی اور گھنسار سنگھ نے گرفتاری دے دی ۔

گلگت بلتستان میں آزاد حکومت

میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 کو گلگت اور بلتستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کی اور قائد اعظم اور صوبہ سرحد کے خان عبدالقیّوم خان کو گلگت بلتستان کا عنانِ حکومت سنبھالنے کے لئے خطوط بھجوائے ۔ یہ گلگت اور بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا ۔
3 نومبر 1947 کو بونجی میں گورنر کے بنگلے پر ایک پُروقار مگر سادہ تقریب میں آزاد ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ اس طرح سوا صدی کی غلامی کے بعد گلگت بلتستان میں پھر مسلمانوں کی آزاد حکومت باقاعدہ طور پر قائم ہو گئی ۔ 15 نومبر 1947 کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا ۔

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔

اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی
رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی
اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا
پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں
مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی
بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی

آج کا دن اہم کيوں ؟

آج 24 اکتوبر ہے ۔ يہ دن کيوں اہم ہے ؟ اس کا پس منظر اور پيش منظر ميں اِن شاء اللہ ايک ہفتہ تک بيان کروں گا آج کی تحرير صرف 24 اکتوبر کے حوالے سے

ٹھیک آج سے 64 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے زور پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں
اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہ بیٹھیں گے

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

راشٹريہ سيوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل نے ضلع جموں کے مضافات اور دو دوسرے ہندو اکثريتی اضلاع ميں مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُن کی فصلوں اور گھروں کو جلانا تو پہلے ہی شروع کر رکھا تھا ۔ اکتوبر 1947ء کے شروع ہی ميں اُن کی طرف سے يہ اعلان بر سرِ عام کيا جانے لگا کہ “مُسلے [مسلمان] عيد پر جانوروں کی قربانی کرتے ہيں ۔ ہم اس عيد پر مُسلوں کی قربانی کريں گے”۔ چنانچہ جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی شروع ہو گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک تھی

ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع میں تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر اکتوبر کے آخر میں بھارتی فوج بھی ان کے مقابلے پر آ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کشمير کو پاکستان سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا اور بمباری کے باوجود پُل محفوظ رہا

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کچھ مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے ۔ باقی عام شہری تھے ۔ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی

بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر کے آزاد کرائے گئے علاقہ ميں پہنچنا شروع ہوگئے ۔ چند پاکستانی فوجی بھی انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئيں یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

نغمہ ميرے وطن
پاکستان ريڈيو سے روزانہ سُنايا جانے والا نغمہ جو پچھلے 10 سال سے نہيں سُنايا جا رہا ۔ سُنئے پہلی اور اصل حالت ميں [The original version]جموں کشمير کے مناظر کے ساتھ

کرِيو مَنز جِرگاز جائے چمنو
ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

ميرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے

امريکا کے عراق ۔ پھر افغانستان اور اُس کے بعد لبيا پر حملوں کا جواز انسانی ہمدردی اور جمہوری ترجيح کو بتايا جاتا ہے ليکن حقيقت ميں يہ سب کچھ صرف مال جمع کرنے کے لالچ سے زيادہ کچھ نہيں اور يہ کوئی نئی بات نہيں امريکا ہميشہ سے ايسا ہی کرتا آيا ہے

ميرے اس خيال کا ايک اور ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالی نے مہياء کر ديا ہے ۔ پڑھنا جاری رکھيئے

امریکا میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے اس روئے زمین کا سب سے زیادہ ”خطرناک اور حساس “ انکشاف قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1930ء میں برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور بمباری کا بڑا منصوبہ بنایا تھا

برطانیہ کے خلاف جنگ کا یہ خفیہ منصوبہ چینل 5 پر پہلی بار ڈاکیو منٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے جسے امریکی فوج کا اب تک کا سب سے خفیہ اور حساس منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ خفیہ دستاویز کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے 570 ملين [5 کروڑ 70 لاکھ] ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی

سُرخ مملکت پر جنگ [General Douglas MacArthur] کے نام سے بنائے گئے اس منصوبے میں کینیڈا اوردیگر اہم جگہوں پر موجود برطانوی فوجی اڈوں اور صنعتی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنانا شامل تھا ۔ دستاویز کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی منصوبے کا حصہ تھا

اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر کسی چھوٹے موٹے فوجی افسر کے نہیں بلکہ اس زمانے کے افسانوی غازی [Legend] سمجھے جانے والے جنرل ڈگلس ميک آرتھر [War on the Red Empire] کے دستخط ہیں

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 1930ء میں امریکی معیشت کی اَبتری اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کے باعث امریکی حکام ایسا منصوبہ بنانے پرمجبورہوئے

تفصيل يہاں کلِک کر کے پڑھيئے