Category Archives: تاریخ

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ

“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

پارسل

اس سلسہ کی پہلی تحریر ”گفتار و کردار“ لکھ چکا ہوں

بات ہے 1964ء کی ۔ میں اس زمانہ میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ ایک پروجیکٹ کی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھے پروڈکشن کنٹرول کا کام بھی دے دیا گیا جن میں ایک دساور سے آنے والے سامان کو کھُلوانا اور سامان کی فہرست تیار کر کے اسے سٹور کے حوالے کرنا ہوتا تھا ۔ یہ کام میں نے ہر ورکشاپ کے فورمین صاحبان کے ذمہ لگا رکھا تھا ۔ سامان کی فہرست پر دستخط میں ہی کرتا تھا البتہ کوئی اہم بات ہو تو فورمین صاحبان بتا دیتے یا مجھے بُلا لیتے

ایک دن ایک اسسٹنٹ فورمین پریشان میرے پاس آیا اور سرگوشی میں بتایا کہ ”سامان میں سے شراب کی چند بوتلیں بھی نکلیں ہیں“۔ میں نے متعلقہ ورکشاپ میں جا کر فورمین سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ میں نے جا کر ورکس منیجر کو بتا دیا ۔ چند دن بعد مجھے ورکس منیجر نے کہا ”جرمن انجیئر جو آئے ہوئے ہیں اُن کی تھیں”۔ مگر میرا شک دُور نہ ہوا

کچھ ماہ بعد اسسٹنٹ سٹور ہولڈر جو براہِ راست میرے ماتحت کام کرتا تھا میرے پاس آیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ۔ میں نے خیریت پوچھی تو بولا ”صاحب ۔ ذرا میرے ساتھ میرے دفتر چلیئے“۔ میں اُس کے ساتھ چل پڑا ۔ اُس نے دفتر کا تالا کھولا ۔ ہم داخل ہوئے تو اس نے اندر سے کُنڈی لگا دی اور ڈبے کا ڈھکنا اُٹھایا ۔ اس میں بہت خوبصورت تہہ ہونے والی میز اور چار کرسیاں تھیں ۔ مال جرمنی سے آیا تھا ۔ میں نے حسبِ سابق ورکس منیجر صاحب کو بتا دیا ۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے بتایا ”وہ میز کرسیاں ٹیکنیکل چیف کیلئے ہیں ۔ میں خود اُنہیں پہنچا دوں گا“۔ وہ جانیں اُن کا کام

تمام ادارے کی سالانہ جمع بندی (stock taking) ہوا کرتی تھی ۔ لکڑ شاپ (Wood Working Shop) میں کئی سو مکعب فٹ اچھی قسم کی بگھاری ہوئی (seasoned) دیودار لکڑی کم پائی گئی ۔ حسبِ دستور انکوائری ہوئی ۔ انکوائری کمیٹی میں ایک افسر میرا ہمسایہ اور میرا بَیچ فَیلو تھا ۔ انکوائری ہو چکی تو ایک دن میں نے پوچھا ”اتنی زیادہ لکڑی کہاں چلی گئی ؟“۔ سرگوشی میں بولا ”سرکاری ٹرکوں پر گئی ۔ اور کیسے جاتی ۔ ٹیکنیکل چیف کا مکان راولپنڈی میں بن رہا ہے ۔ خدمتگاروں نے بچی کھچی ناکارہ لکڑی (Scrap Wood) بتا کر گیٹ سے نکلوا دی“۔ میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔

گفتار و کردار

مجھے اس بلاگ کو شروع کئے 7 سال 8 ماہ ہو چکے ہیں ۔ اس بلاگ کے شروع کرنے کا مقصد جو کہ سرِ ورق درج ہے یہ ہے کہ ”میں انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچاؤں”۔
پچھلے 5 سال سے کچھ زیرک قارئین وقفے وقفے سے میری توجہ بلاگ کے مقصد کی طرف دلاتے ہوئے ذاتی تجربات بیان کرنے کا کہتے رہتے ہیں ۔ میری کوشش رہی کہ میں ایسے تجربات بیان نہ کروں جن سے میرا ذاتی تعلق ہو لیکن کچھ ہفتے قبل ایک ہمدرد قاری نے کہا ”آپ کے ہر تجربہ بلکہ علم میں بھی آپ کی ذات کا عمل دخل ہے تو پھر آپ پوری طرح اپنے وہ تجربات ہم تک کیوں نہیں پہنچاتے جن سے آپ نے اس دنیا کے کاروبار کو پہچانا ؟“

میں اس پر کئی ہفتے غور کرتا رہا اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے سوائے قومی راز کے اپنی زندگی کے تمام واقعات جوان نسل تک پہنچانے چاہئیں تاکہ جوان نسل کے عِلم میں وہ زمینی حقائق آ سکیں جو اللہ کے دیئے ہوئے ہمارے مُلک پاکستان کی موجودہ حالت کا پیش خیمہ ہیں ۔ آج اس سلسلہ کی پہلی تحریر ۔ اللہ مجھے اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ 1965ء میں اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف جو مکینیکل انجنیئر اور کرنل تھے نے ہم 9 نئے افسران کو بُلا کر حُکمانہ قسم کا مشورہ دیا کہ ہم آرڈننس کلب کے ممبر بن جائیں ۔ دراصل وہ کلب کے پریذیڈنٹ بھی تھے ۔ باقی 8 تو واہ چھاؤنی ہی میں رہتے تھے وہ ممبر بن گئے ۔ میں راولپنڈی سے آتا جاتا تھا ۔ سوچا کہ کلب جا تو سکوں گا نہیں ممبر بن کر کیا کروں گا لیکن دوستوں کے تلقین کرنے پر چند ماہ بعد ممبر بن گیا

ستمبر میں جنگ شروع ہوئی تو مجھے حُکم ملا کہ واہ چھاؤنی میں رہوں ۔ میں نے آفیسرز میس میں ایک سوِیٹ (Suite) لے لیا اور واہ چھاؤنی میں رہنا شروع کر دیا ۔ آرڈننس کلب سڑک کے پار آفیسرز میس کے سامنے تھی ۔ اکتوبر 1965ء میں کلب میں سکواش کھیلنا شروع کر دیا ۔ کچھ ہفتے بعد خیال آیا کہ دیکھا جائے کلب میں کیا ہوتا ۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف ایسی جگہ ہے جہاں لوگ بیٹھ کر مشروبات پیتے ہیں جن میں اُم الخباعث بھی ہے ۔ یہ خبر میرے دل میں ایک سوئی کی طرح پیوست ہو گئی

اگلے سال جو نئے انجنیئر بھرتی ہوئے ان میں کچھ ہم خیال مل گئے تو افسران سے رابطہ مہم شروع کی ۔ کچھ لوگوں کی حمائت کے ساتھ ایک سینیئر افسر کی حمائت ملنے پر کلب کی جنرل باڈی میٹنگ بلانے کا نوٹس دے دیا ۔ ان سینئر افسر صاحب کو اللہ جنت میں جگہ دے صاف گو شخص تھے ۔ ذہین ۔ محنتی ۔ باکردار اور بے باک شخص تھے اسلئے نام لکھ دیتا ہوں ”محمد اصدق خان“

اس دوران پہلے کرنل صاحب ریٹائر ہو گئے تھے اور ان کے نائب لیفٹننٹ کرنل صاحب ٹیکنیکل چیف اور کلب کے پریذیڈنٹ بن گئے تھے ۔ نئے صاحب کی ہر کسی کو پند و نصائح کرنے کی عادت تھی اور خیال کیا جاتا تھا کہ نمازی ہیں اور باعمل بھی ۔ میٹنگ شروع ہوئی تو سب سے پہلے محمد اصدق خان صاحب نے قراداد پڑھ کر اس کی تائید کی
کلب کے پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر جھاڑ دی جس کا لُبِ لباب یہ تھا کہ شراب کی فروخت سے کلب کو بہت فائدہ ہوتا ہے اور یہ فائدہ دراصل ممبران کو ہے
اس کے بعد میں اُٹھا اور کہا ”ہمارے دین میں نہ صرف شراب نوشی کی ممانعت ہیں اس کی فروخت اور اس سے منافع حاصل کرنے کی بھی ممانعت ہے ۔ کتنے ممبران ہیں جو اس منافع کمانے کی حمائت کرتے ہیں ؟ آپ ہاتھ کھڑے کریں“۔
کسی نے ہاتھ کھڑا نہ کیا اور میں یہ کہہ کر بیٹھ گیا کہ شراب کی فروخت بند کر کے ممران کا ماہانہ چندہ زیادہ کر دیجئے
پریزیڈنٹ صاحب پھر بولے ”ایسے ہی کلب کے فیصلے نہیں کر لئے جاتے ۔ اس کیلئے کلب کی انتظامی کمیٹی کی منظوری ہوتی ہے”۔
میں نے اُٹھ کر کلب رولز کی متعلقہ شق پڑھ دی جس کے مطابق فیصلہ جنرل باڈی کی اکثریت کا حق تھا
اس پر میرے باس اُٹھے اور شراب کی فروخت سے کلب کو ہونے والی آمدن کے فوائد بیان کئے
میں نے پھر روسٹرم پر جا کر کہا”حضورِ والا ۔ اگر یہ کلب روپیہ کمانے کیلئے بنایا گیا ہے تو پھر یہاں طوائفوں کے مُجرے کا بھی بند و بست کر دیجئے ۔ بہت منافع ہو گا“۔
اس پر میرے باس طیش میں آ گئے اور مجھے بہت سخت سُست کہا (میں الفاظ نہیں لکھنا چاہتا)۔ اس کا یہ فائدہ ہوا کہ مزید ممبران میرے طرفدار ہو گئے

مجبور ہو کر رائے شماری کرائی گئی تو بھاری اکثریت نے شراب نوشی بند کرنے کے حق میں ووٹ دیئے اور شراب نوشی جاری رکھنے کے حق میں کوئی ووٹ نہ آیا ۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کرانے میں ہمیں 6 ماہ لگے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آرڈننس کلب میں شراب نوشی بند ہو گئی

کلب کی اس جنرل باڈی میٹنگ کے بعد یہ راز بھی افشاء ہوا کہ سب کو پند و نصائح کرنے والے پریذیڈنٹ صاحب اور کچھ اور پاکباز نظر آنے والے صاحبان بھی اُم الخباعث سے شغف رکھتے تھے

پھر میرے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا بہت شکر گذار ہوں کہ نہ میں نے کسی انسان کے آگے کبھی ہاتھ پھیلایا اور نہ کبھی میری عزت میں کمی آئی ۔ مزے کی بات کہ جب بھی کوئی مُشکل ٹیکنیکل یا قانونی مسئلہ درپیش ہوتا تو مجھے ناپسند کرنے والے یہ بڑے افسران مجھے ہی مشورہ کیلئے بُلاتے

یہ کرم ہے میرے اللہ کا مجھ ایسی کوئی بات نہیں ہے

ساتویں کی ڈائری

اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ راولپنڈی (کب کا ہائی ہو چکا) سے میں نے ساتویں جماعت پاس کی تھی ۔ مجھے اس دور (1949ء۔1950ء) میں لکھی ڈائری سے پھٹا ایک ورق مل گیا تو میں نے سنبھال کر رکھ لیا تھا مگر ایسا سنبھالا کہ 2 دہائیاں بعد پچھلے دنوں کچھ اور تلاش کرتے ملا ۔ سوچا اسے کمپیوٹر میں محفوظ کیا جائے

مُلک ۔ ۔ ۔ آزادی دلانے والے ۔ ۔ ۔ آزادی کا دن

پاکستان ۔ ۔ ۔ محمد علی جناح ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 اگست 1947ء
بھارت ۔ ۔ کرمچند موہنداس گاندھی ۔ ۔ 15 اگست 1947ء
ترکی ۔ ۔ ۔ ۔ مصطفٰی کمال پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ یکم نومبر 1923ء
مصر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سعد زغلول پاشا ۔ ۔ ۔ ۔ 12 جنوری 1924ء
امریکا ۔ ۔ ۔ ۔ ابراھیم لنکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 جولائی 1776ء
چین ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موزے تُنگ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 اکتوبر 1948ء
فرانس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 جولائی
اٹلی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 26 مارچ
یونان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 مارچ
پرتگال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 اکتوبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پیدائش

چرچل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1874 ء
علامہ اقبال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 نومبر 1876ء
قاعد اعظم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25 دسمبر 1876ء
سر آغا خان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1877ء
محمد علی جوہر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10 دسمبر 1878ء
مارشل سٹالن ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1879ء

سانحہ 1971ء ۔ درست کیا ؟

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استدلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں

بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام

تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو افشا ہوتا ہے کہ امن پسندی کا شور مچانے والے ہی دراصل دہشتگرد ہیں ۔ اسرائیلی افواج فلسطین میں ہوں یا بھارتی افواج جموں کشمیر میں یا امریکی افواج عراق افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و استبداد کی داستان طویل ہے ۔ اسی سلسلے میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 22 سال سے جاری کاروائی میں فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے 500 افسروں اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں

فرضی جھڑپوں ، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں 235 فوجی اہلکاروں ، 123 نیم فوجی اہلکاروں ، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابقہ عسکریت پسندوں کو ملوث پایا گیا ہے

ان کارروائیوں ملوث اہلکاروں میں شامل ہیں
فوج کے 2 میجر جنرل ، 3 بریگیڈیئر ، 9کرنل ، 3 لیفٹننٹ کرنل ، 78 میجر اور 25 کیپٹن
نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر
مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ

رپورٹ کی تفصیلات کا بیشتر حصہ اْن دستاویزات اور معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز (Coalition of Civil Societies)“ اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared People ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے ”بین الاقوامی مسند عدالت (International Tribunal)“نے حکومت سے حقِ اطلاع (Right to Information) کے قانون کے تحت طلب کی ہیں ۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز اور اے پی ڈی پی طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں

جارح اور ظالم کون ؟

میرے پاس 1946ء سے 1948ء تک صیہونی دہشتگردوں کے ظُلم و تشدد اور 1948ء سے 2000ء تک اسرائیلی افواج کے نتیجہ میں مرنے اور زخمی ہونے والے فلسطینیوں اور فلسطین کی املاک کے نقصان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ ذیل میں انتفادہ کی ابتداء یعنی 29 ستمبر 2000ء سے 18 جنوری 2008ء تک اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی جوابی کاروائی کا نتیجہ کے کچھ مصدّقہ اعداد و شمار دیئے ہیں ۔ یہ اعداد و شمار اسرائیل کے حواریوں اور اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ سے لئے گئے ہیں ۔ فلسطین کے حامیوں کے مطابق فلسطین کا نقصان بہت کم بتایا گیا ہے ۔ پھر بھی ان اعداد و شمار سے واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون

1 ۔ 18 سال سے کم عمر کے 1446 فلسطینی بچے ہلاک ہوئے اور 124 اسرائیلی
فلسطینی بچے روزمرہ کے کاموں جیسے سکول یا سودا لینے جاتے آتے یا میدان میں کھیلتے یا گھر میں اسرائیلی بمباری یا فوجیوں کی بے تحاشہ فارنگ سے ہلاک ہوئے

2 ۔ 6348 بالغ فلسطینی اور 1072 بالغ اسرائیلی ہلاک ہوئے

3 ۔ 39019 فلسطینی زخمی ہوئے جن میں بہت سے معذور ہو گئے ۔ 8864 اسرائیلی زخمی ہوئے

4 ۔ اسرائیل کی جیلوں میں 7383 فلسطینی سیاسی قیدی ہیں جبکہ صرف ایک اسرائیلی فلسطین میں قید ہے

5 ۔ اسرائیل میں فلسطینیوں نے کوئی گھر تباہ نہیں کیا جبکہ اسرائیلی افواج نے فلسطینیوں کے 24145 گھر مسمار کر دیئے

6 ۔ اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر قبضہ کر کے وہاں یہودیوں کی 121 بستیاں بسائی ہیں جن میں کسی ٖیر یہودی کو آنے کی آجازت نہیں ۔ اس کے علاوہ 106 فوجی چوکیاں بنائیں

7 ۔ امریکا کم از کم 3 ارب (3،00،00،00،000) ڈالر سالانہ فوجی امداد دیتا ہے

8 ۔ اسرائیل کی کاروائیوں کو روکنے کی اقوامِ متحدہ میں قرار داد امریکا کبھی منظور نہیں ہونے دیتا اور قرادادِ مذمت کی بھی مخالفت کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اسرائیل کے 65 قراد دادِ مذمت منظور ہو چکی ہیں