Category Archives: آپ بيتی

ناگہانی ملاقات

کل یعنی بروز اتوار بتاریخ 19 جولائی 2015ء میں اپنی بیگم ۔ بیٹی ۔ بیٹے ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا اور پوتی کے ساتھ دبئی فیسٹیول سٹی مول کے گھریلو سامان کے حصے میں پھر رہا تھا کہ میری بیگم نے میری توجہ پیچھے کی جانب مبزول کرائی ۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک خوش پوش جوان ۔ درمیانہ قد سڈول جسم ساتھ برقعے میں ملبوس مہین سی بیگم اور ماشاء اللہ خوبصورت پھول ننھی سی بیٹی پُش چیئر یا سٹرولر میں ۔ موصوف بولے ” آپ اجمل ؟ اجمل بھوپال ہیں ؟“

میں نے جی کہا اور اپنی رَیم اور پھر ہارڈ ڈسک کو 15 گیگا ہَرٹس پر چلایا مگر کہیں یہ اِمَیج نہ پایا ۔ بندہ بشر ٹھہرا کم عقل ۔ کم عِلم ۔ ناتجربہ کار ۔ پر اِتنا بھی گیا گذرا نہیں ۔ قصور تھا اُس تصور کا جو قائم ہوا تھا موصوف کے بلاگ پر کسی زمانہ میں لگی تصویر کو دیکھ کر جسے ہم نے اُن کی شبیہ سمجھا تھا یا شاید وہ نو جوانی یعنی شادی سے پہلے کے زمانہ کی تھی جس میں موصوف کا اُونچا قد اور جسم پھریرا محسوس ہوا تھا ۔ خیر یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہو گذرا

اگلے لمحے ۔ وہ خوبصورت جوان بولے ” میں عمران ہوں ۔ عمران اقبال“۔

میں جون تا اگست 2012ء میں دبئی میں تھا تو عمران اقبال صاحب نے مجھ سے ماہ رمضان کے دنوں میں رابطہ کیا تھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ملاقات کا بندوبست نہ ہو سکا تھا

میں جنوری تا اپریل 2014ء میں دبئی میں تھا تو کاشف علی صاحب کا پیغام ملا کہ اگر اُنہیں فلائیٹ کا پتہ چل جاتا تو مجھے ملنے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ۔ بہر کیف چند دن بعد وہ میرے پاس پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر قریبی ریستوراں میں جا بیٹھے ۔ گپ شپ ہوئی اور آئیندہ ملنے کا وعدہ بھی ۔ مگر اللہ کو منظور نہ ہوا ایک طرف میں شدید بیمار پڑ گیا اور دوسری طرف کاشف علی صاحب آشوبِ چشم میں مبتلاء ہو گئے ۔ اب آنے سے قبل کاشف علی صاحب سے رابطہ ہوا تو بتایا کہ وہ عید سے ایک دو دن قبل پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپس آئیں گے ۔ میں اس دفعہ صرف ایک ماہ کیلئے آیا ہوں ۔ اگلے پیر اور منگل کی درمیانی رات اِن شآء اللہ ہماری واپسی ہو گی

عمران اقبال صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آجکل عمران خان کے حمائتی ہیں اور نواز شریف کی ہِجو لکھتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو ہم نام جو ہوئے ۔ میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے ۔ سوال ہے ” 9 کروڑ روپیہ جو دھرنے میں موسیقی پر خرچ کیا گیا اسے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں مُفلِس مریضوں کے علاج پر کیوں خرچ نہ کیا گیا ؟“ یہ سوال میں عمران خان کے کئی جان نثاروں سے پوچھ چکا ہوں ۔ پہلے تو کوئی مانتا نہ تھا کی موسیقی پر خرچ ہوا اور کہتے تھے کہ ڈی جے بٹ نے یہ کام اعزازی (بلامعاوضہ) کیا ۔ اب تحریک انصاف نے ادائیگی کا اقرار کر لیا ہے تو موضوع کو کسی اور طرف دھکا دے دیتے ہیں یا ہنس دیتے ہیں

میری طرف سے تمام بلاگران اور قارئین کی خدمت میں درخواست ہے کہ جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں ۔ مجھے کم از کم ایک دن قبل اطلاع کر دیں تا کہ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کر سکوں ۔ بہنیں اور بیٹیاں بھی مدعو ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بیگم سے مل کر خوش ہوں گی

چھاؤنی اور عزت مآب

عاطف بٹ صاحب کا ایک زاویہءِ تحریر نظر سے گذرا تو ماضی میرے ذہن کے پردہ پر گھومنے لگا ۔ میں نے سوچا وقتی اظہارِ خیال کر دیا جائے پھر تحریر کا مطالعہ کیا جائے (پڑھ تو میں چکا تھا) اور اپنا تجربہ لکھا جائے ۔ تبصرہ مندرجہ ذیل تھا

محترم ۔ ابھی میں نے طائرانہ نظر ڈالی ہے ۔ دو موٹی سی باتوں بارے اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ گستاخی ہونے کی صورت میں پیشگی معافی کی طلب کے بعد عرض ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ مُنصف ہو یا مُدعی ۔ وکیل ہو یا مؤکل ۔ اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ۔ حاکم ہو یا ماتحت ۔ بغیر داڑھی ہو یا داڑھی والا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ پر عمل کرتے ہیں ۔ باقی 10 فیصد جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تواضع نامعقول خطابات سے ہی نہیں بلکہ تشدد سے بھی کی جاتی ہے ۔ ہمارے مُلک میں نظام انصاف اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وکلاء کی اکثریت درست نہیں ہوتی اور عوام کی اکثریت قانون پر عمل کرنا شروع نہیں کرتی حالت یہ ہے کہ سچ پر چلنے والا جج ہو یا وکیل ۔ افسر ہو یا ماتحت اُس کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی حال سرکاری محکموں کا ہے جس میں سوِل سرونٹ اور فوجی دونوں شامل ہیں ۔ غیر سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ قصور وار ذرائع ابلاغ اور وہ عوام ہیں جو اپنا حق لینے کی کوشش نہیں کرتے یا اپنا حق چند سکوں یا وقتی ضرورت کے تحت بیچ دیتے ہیں ۔ وجہ صرف اللہ پر بھروسہ نہ ہونا یا اللہ کی بجائے فانی انسان کو اَن داتا سمجھ لینا ہے ۔ اور ہاں اگر کسی محلے میں کوئی صراط المستقیم پر چلنے والا رہتا ہو تو محلے دار اُس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔ کوئی امام مسجد ہو تو نمازی اور محلے دار مل کے اُسے ہٹانے پر تُل جاتے ہیں
باقی اِن شاء اللہ مطالعہ کے بعد۔

زندگی انہی پتھریلی ناہموار راہوں پر گذری تھی اسلئے فیصلہ مُشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں ۔ کچھ بن نہ پڑی تو سوچا کہ صرف ایک آدھ واقعہ مختصر بیان کیا جائے ۔ یہ بھی طویل ہو کر تبصرے کی حدود سے بہت دُور نکل گیا تو اسے اپنے بلاگ پر ثبت کرنے کا سوچا

عاطف بٹ صاحب نے درست کہا کہ ایک جج کیلئے شناخت ضروری ہے تو فوجی افسر کیلئے بھی ضروری ہونا چاہیئے ۔ عزت مآب والی بات بارے عرض ہے کہ میں نے ججوں کے ساتھ وکلاء کا جارحانہ انداز بھی دیکھا ہوا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ججوں پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا ۔ ججوں کے خلاف وکیل تحریری درخواستیں بھی دیتے ہیں خواہ وہ بے بنیاد ہوں
درست کہ آئین کے مطابق قرآن و سُنّت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ۔ آئین میں بہت کچھ اچھا لکھا ہوا ہے لیکن اس آئین پر کتنے شہری ہیں جو عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ اراکینِ اسمبلی کو عام شہری ہی تو چُنتے ہیں ۔ کیا ووٹ دیتے وقت کوئی سوچتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ اسلام یا کم از مُلک کے قوانین پر کتنا کاربند رہتا ہے ؟ اگر نہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اسلام کے مطابق قوانین کیسے بنوائے گا یا آئین و قانون کا کیا احترام کرے گا ؟
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے خلیفہءِ راشد کی مثال اس زمانے میں دینا مناسب نہیں ۔ ذرا سوچیئے کہ اُن سے سوال کرنے والے کا اپنا کردار کیسا تھا ۔ پھر اُن کے زمانہ میں یہودی بھی اپنے قضیئے کا فیصلہ امیرالمؤمنین سے کرواتا تھا اور فیصلہ پر یقین کرتا تھا ۔ آج کا مسلمان بھی کسی دیانتدار اور سچے آدمی سے اپنا فیصلہ نہیں کروانا چاہتا کہ دیانتدار شخص اُس کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ حق پر فیصلہ دے گا

اب بات چھاؤنی کی جسے آجکل سب کینٹ کہتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں چھاؤنیاں 2 قسم کی ہیں ۔ ایک باڑ اور بیریئر والی جیسے بنوں اور واہ اور دوسری کھُلی جیسے لاہور ۔ راولپنڈی اور چکلالہ ۔ البتہ ان کھُلی چھاؤنیوں کے اندر باڑ اور بیریئر والے جزیرے موجود ہیں ۔ مجھے ان سے بحث نہیں ۔ مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے انفرادی ۔ اس کو سمجھنے کیلئے میں واہ کی مثال دیتا ہوں کہ اس کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے

میری عمر 75 سال سے تجاوز کر چکی ہے ۔ سرکار سے چھُٹکارہ 53 سال کی عمر میں حاصل کر لیا تھا جس کے بعد 5 سال غیر سرکاری ملازمت کی ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹری کی ملازمت 4 اگست 1992ء کو چھوڑ دی تھی اور 10 اگست 1994ء کو اسلام آباد مُنتقِل ہوا مگر مجھے دسمبر 2009ء تک ہر سال واہ میں کار کے داخلے کیلئے ٹوکن مُفت ملتا رہا ۔ میں نے طِبّی وجہ سے آٹومیٹک گیئر والی کار خریدی جو بیٹی کے نام پر لینا پڑی کہ ریٹائرڈ ہونے کی وجہ سے میرا این ٹی این نمبر نہ تھا (یہ مصیبت شوکت عزیز صاحب ڈال گئے) ۔ 2010ء میں ٹوکن کیلئے درخواست دی تو نہ دیا گیا کہ کار میرے نام پر نہیں ۔ نتیجہ کہ بیریئر پر قطار میں لگیں بتائیں کیوں آئے ہیں کس سے ملنا ہے کیوں ملنا ہے ۔ پھر اجازت مل جائے تو اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرائیں ۔ چِٹ کٹوائیں اور اندر جائیں ۔ واپسی پر چِٹ دے کر شناختی کارڈ واپس لیں ۔ واہ چھاؤنی کے 4 راستے ہیں (ٹیکسلا ۔ جنگ باہتر ۔ حسن ابدال اور ہری پور کی طرف) لیکن آپ جس راستہ سے اندر جائیں اُسی سے باہر نکلنا ہو گا
مجھے 1987ء میں گریڈ 20 ملا تھا ۔ سیکیورٹی کے کوئی بریگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو وہ اتنی رعائت دے دیتے ہیں کہ گریڈ 20 میں ریٹائر ہونے والے اپنا پی او ایف سے ملا ہوا شناختی کارڈ دکھا کر واہ چھاؤنی کے رہائشی علاقہ میں جا سکتے ہیں ۔ کوئی اور برگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو یہ رعائت بھی ختم کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گریڈ 17 سے 20 تک کے افسران محبِ وطن پاکستانی ہوتے ہیں اور مُلک کے دفاع کیلئے سیکرٹ اور ٹاپ سیکرٹ کام اُن کے سپرد ہوتے رہتے ہیں ۔ بریگیڈیئر بھی گریڈ 20 کے برابر ہوتا ہے

عملی صورتِ حال یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے افسران کو واہ چھاؤنی میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روکتا چاہے اُن کا پی او ایف سے کوئی تعلق نہ رہا ہو ۔ مزید یہ کہ واہ چھاؤنی میں بہت سے غیر متعلقہ لوگ رہتے ہیں ۔ ان رہائشیوں کی گاڑی اگر اُن کے نام پر ہو تو سالانہ فیس ادا کر کے داخلے کا ٹوکن مل جاتا ہے جبکہ واہ چھاؤنی میں رہنے والے پی او ایف ملازم کی گاڑی اگر اُس کے نام پر نہ ہو تو داخلے کا ٹوکن نہیں مل سکتا ۔ باہر سے روزانہ آنے والی بسوں اور ویگنوں کو فیس لے کر داخلے کے ٹوکن دے دیئے جاتے ہیں ۔ ان بسوں اور ویگنوں میں آنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ کون ہو یا کیوں آئے ہو ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی واہ کا رہائشی جس نے کبھی پی او ایف کی ملازمت نہیں کی واہ چھاؤنی سے باہر کے رہائشی کسی دوست یا رشتہ دار کو اپنے خاندان کا فرد لکھ کر گاڑی کا ٹوکن بنوا دیتا ہے اور وہ بلا روک ٹوک واہ چھاؤنی جاتا ہے

اب بات مُنصِفوں اور اِنصاف کی ۔ میرا آدھی صدی پر محیط تجربہ بتاتا ہے کہ مُنصفوں کی اکثریت درست کام کرنا چاہتی ہے مگر وکیل اُن کی راہ میں حائل رہتے ہیں اور کبھی کبھی حکمران بھی ۔ چنانچہ دیوانی مقدمے 20 سال تک لٹکائے جاتے ہیں ۔ قانون کچھ ایسا ہے کہ جج حقیقت جانتا ہو تب بھی اپنی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اُسے فیصلہ وکلاء کی پیش کردہ دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کے مطابق کرنا ہوتا ہے

میرے ذہن میں اس وقت اپنے خاندان کے 5 ایسے مقدمات ہیں جن میں ہمارے پاس اپنی سچائی کا مکمل ثبوت موجود تھا اور ہم پر دعوٰی کرنے والے یعنی مدعی یا پھر جس پر ہم نے دعوٰی دائر کیا تھا یعنی مدعاعلیہ کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہ تھا ۔ ان مقدمات میں والد صاحب یا میں یا ہم دونوں 6 سے 16 سال تک کچہری کے ماہانہ چکر لگاتے رہے تھے ۔ مقدمات میں جج صاحبان کو حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا اور بالآخر فیصلے بھی ہمارے حق میں ہوئے لیکن بہت تاخیر کے ساتھ جس کے نتیجہ میں فیصلہ کا فائدہ بہت کم رہ گیا تھا

ایک واقعہ جس میں بمصداق پنجابی محاورہ ”حکومت کے داماد“ ملوّث تھے ۔ 1973ء یا 1974ء میں کچھ لوگوں نے ہماری شہری زمین پر قبضہ کر کے اس پر چار دیواری تعمیر کرادی ۔ والد صاحب نے قانون سے مدد مانگی ۔ جج نے ناظر مقرر کر دیا جس نے درست رپورٹ جج کو دے دی ۔ مگر قبضہ کرنے والے پی پی پی کے کھڑپینچ تھے ۔ اُس جج سے مقدمہ لے لیا گیا اور کسی دوسرے جج کو نہ دیا گیا ۔ اسی اثناء میں جیالے جج لیٹرل اَینٹری (lateral entry) کے ذریعہ بھرتی کئے گئے اور اُن میں سے کسی نے بغیر ہمیں بُلائے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ والد صاحب کو عِلم ہوا تو اپیل دائر کی ۔ سیشن جج صاحب نے ناظر مقرر کیا جس نے آ کر بتایا کہ وہاں تو 2 کوٹھیوں کی ایک ایک منزل تیار ہو چکی ہے ۔ محکمہ مال سے معلوم ہوا کہ اُس زمین کا بیشتر حصہ والد صاحب کے جعلی مختارنامہ کے تحت بیچا جا چکا ہے ۔ ایک پی پی پی کے کھڑپینچ والد صاحب کے پاس آتے رہتے تھے ۔ والد صاحب نے اُس سے ذکر کیا تو صلح نامہ ہوا ۔ 10 لاکھ کی زمین کی قیمت 3 لاکھ دینا منظور کی ۔ وہ بھی پچاس پچاس ہزار کی 3 قسطیں 3 سالوں میں وصول ہوئیں اور بس

میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ جب تک ہم عوام ٹھیک نہیں ہوں گے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونے کا اور نہ اللہ نے فرشتے بھیج کر اس مُلک کو درست کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی فیصلہ دے چکا ہے ۔ سورت 13 الرعد آیت 11 ۔

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

۔ (ترجمہ) اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

سعیدالظفر کا سہرا

سعیدالظفر مجھ سے 10 ماہ بڑا تھا ۔ میری چھوٹی پھوپھی بے اولاد تھیں جو 1946ء میں بیوہ ہو گئیں اور اُس وقت سے وفات تک ہمارے پاس رہیں ۔ اس سے چند سال قبل بڑی پھوپھی (سعیدالظفر کی والدہ) فوت ہو چُکی تھیں ۔ اُن کی 2 بیٹیاں شادی شُدہ تھیں ۔ 2 چھوٹی بیٹیوں اور اُن سے چھوٹے سعیدالظفر کو میرے والدین ساتھ لے آئے تھے اسلئے ہم بچپن میں اکٹھے رہے

کسی زمانہ میں شادی پر سہرا لکھنے کا رواج تھا ۔ عام لوگ تو بازرا سے لکھے لکھائے سہرے خرید لیتے تھے ۔ میرے پھوپھی زاد بھائی کی شادی تھی جو میرا بچپن سے دوست بھی تھا چنانچہ میں نے مندرجہ ذیل سہرا لکھ کر خوبصورت ڈیزائین کے ساتھ چھپوایا اور 15 اپریل 1962ء کو سعیدالظفر کی شادی پر حاضرین میں تقسیم کیا اور پڑھا تھا

باندھ کر بزم میں آیا جو سعیدالظفر سہرا ۔ ۔ ۔ فرطِ شادی سے ہوا جامے سے باہر سہرا
قابلِ دید ہے محفل میں یہ دوہری زینت ۔ ۔ ۔ حُسن زیور ہے تیرا ۔ حُسن کا زیور سہرا
کیوں نہ ہو باعثِ تسکینِ طبیعت سہرا ۔ ۔ ۔ رُخِ نوشہ پہ ہے سرمایہءِ عشرت سہرا
ایک گُلدستہءِ ساز و سر و ساماں دوُلہا ۔ ۔ ۔ ایک مجموعہءِ لعل و زر و گوہر سہرا
باپ کا سایہءِ اقبال ہے تُجھے ظلِ ہُما ۔ ۔ ۔ کیوں نہ کہہ دوں ہے مقدر کا سکندر سہرا
عبدالغفور بھی بہت خوش ہیں اِس کے باعث ۔ ۔ ۔ کہ سعادت کا بھانجے کے ہوا سر سہرا
خوش ہیں اجمل بھی دلشاد عابد بھائی بھی ۔ ۔ ۔ خوش ہیں سب دیکھ کے ہمشیر و برادر سہرا
نعمت اللہ کے گُلشن میں بہار آئی ہے ۔ ۔ ۔ اِن کے گُلشن میں ہے اللہ کی نعمت سہرا
اے سعید تیری قسمت کا ستارہ چمکا ۔ ۔ ۔ تیرے سر پہ ہے ضیائے مہ و بادِ نسیم سہرا
رونمائی میں تیری نقد و نظر حاضر ہے ۔ ۔ ۔ تُو ذرا بیٹھ تو سہی چہرے سے اُلٹ کر سہرا
صورتِ غُنچہءِ خنداں ہے شگُفتہ دُولہا ۔ ۔ ۔ زندگی کی ہے وہ پُرکیف حقیقت سہرا
دُولہا دُلہن رہیں یا اللہ ہمیشہ مسرور ۔ ۔ ۔ ہو نویدِ طرب و عیش و مسرت سہرا
گوشِ نوشہ میں چُپکے سے وہ کیا کہتا ہے ۔ ۔ ۔ فاش کرتا ہے کوئی رازِ محبت سہرا
شوق سے لایا ہے سہرے کو سجا کر اجمل ۔ ۔ ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہے نذرِ محبت سہرا

محمد اقبال ۔ سعیدالظفر کے والد
عبدالغفور ۔ میرے والد
عابد ۔ میرا چھوٹا بھائی
نعمت اللہ ۔ سعیدالظفر کے سُسر
نسیم ۔ دُلہن
رازِ محبت ۔ سعیدالظفر نے مجھے اپنا ہمراز بنایا ہوا تھا ۔ سعیدالظفر اور نسیم قریبی رشتہ دار ہیں ۔ بچپن سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور شادی کے عہد و پیمان تھے لیکن عشق معشوقی والی کوئی بات نہ تھی ۔ نہ چھُپ چھُپ کر ملتے تھے

شاہی قلعہ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر

جھروکہ (جائے نشست شاہانِ مُغلیہ) 1566ء میں جلال الدین اکبر بادشاہ نے تعمیر کرایا
دولت خانہ بھی اکبر بادشاہ نے 1566ء میں تعمیر کرایا
مکاتیب خانہ (دفتر) نورالدین محمد سلیم جہانگیر (1569ء تا 1627ء) نے تعمیر کرایا
موتی مسجد شہاب الدین محمد شاہجہاں 1628ء تا 1629ء میں اور احاطہءِ شاہجہاں (Quadrangle) اور دیوانِ خاص 1645ء میں تعمیر کرایا

شاہی قلعہ میں پڑی توپ جو 1863ء میں امیر شیر علی افغان نے بنائی تھی کے مادہ کا تجزیہ مندرجہ ذیل ہے
تانبا ۔ 84.87 فیصد
جست ۔ 12.28 فیصد
سکہ ۔ 1.4 فیصد
قلعی ۔ 1.18 فیصد
لوہا ۔ 0.1 فیصد
نکل ۔ 0.03 فیصد

میری ڈائری ۔ مصلحت

یکم جولائی 1962ء کو میری ڈائری میں لکھا ہے
کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن کا حصول ممکن ہوتا ہے لیکن مصلحت حارج ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں متعلقہ مصلحت کا جائزہ ضروری ہوتا ہے کہ اس میں خود غرضی شامل تو نہیں ۔ اگر انسان چُوک جائے اور من مانی کرے تو وہ شاہراہِ ترقی پر بہت پیچھے کی طرف پھسل جاتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Delhi’s Apathy over Pakistani Minor Girl’s Rape “

10 سال اور 2 دِن گذر گئے

میں نے یہ بلاگ 5 مئی 2005ء کو شروع کیا تھا ۔ الحمد و للہ آج اس بلاگ کی زندگی کے 10 سال اور 2 دن ہو گئے ہے اور پتہ بھی نہ چلا
میں اللہ کا لاکھ بار بھی شُکر بجا لاؤں تو کم ہے ۔ شُکر اُس ذاتِ اعلٰی و ارفع کا جس نے صرف مجھے ہی نہیں کُل کائنات کو پیدا کیا اور اس کا نظام چلا رہا ہے ۔ اُس قادر و کریم نے اتنی زیادہ نعمتیں دے رکھی ہیں کہ گنتے گنتے عمر بیت جائے لیکن گنتی پوری نہ ہو ۔ اُس اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے یہ بلاگ بھی بنانے کے قابل بنایا ۔ اُس رحمٰن و رحیم نے ہی مجھے تو فیق دی کہ میں اسے جاری رکھوں

جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تھا تو اُمید نہ تھی کہ یہ ایک سال بھی پورا کر سکے گا ۔ اور یہ بھی خیال تھا کہ میں خُشک باتیں لکھتا ہوں اسلئے شاید ہی اسے کوئی پڑھے مگر اللہ کی ذرہ نوازی دیکھیئے کہ

میں نے 10 سال میں 2205 تحاریر لکھیں
میرے بلاگ کو اس وقت تک 357809 مرد و خواتین پڑھ چکے ہیں
ایک تحریر 24551 سے زائد بار پڑھی جا چکی ہے
6 تحاریر 10000 سے 12000 بار پڑھی جاچکی ہیں
23 تحاریر 5001 سے 10000 بار پڑھی جاچکی ہیں
30 تحاریر 4001 سے 5000 بار پڑھی جا چکی ہیں
93 تحاریر 3001 سے 4000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1901 سے 3000 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1771 سے 1900 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1570 سے 1770 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1400 سے 1569 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1256 سے 1399 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1140 سے 1255 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 1000 سے 1139 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 800 سے 999 بار پڑھی جا چکی ہیں
200 تحاریر 600 سے 799 بار پڑھی جا چکی ہیں

میری ڈائری ۔ خواہشات

پچھلے دنوں ایک ڈائری ملی جو اُجڑنے سے محفوظ رہی تھی اپنی لائبریری میں مل گئی ۔ اس میں 26 جنوری 1961ء کو لکھا تھا

کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جنہیں انسان اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے ۔ ان کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے اور تند لہروں سے ٹکراتا ہے
لیکن
بلند ہے وہ انسان جو اپنی ان خواہشات کو بھی دوسرے کی بہتری کیلئے قربان کر دے