Category Archives: آپ بيتی

کيا روزے اسی لئے ہيں ؟

رمضان کا مبارک مہينہ شروع ہوا ۔ اسلامی جمہوريہ پاکستان کی حکومت نے سَستے بازار قائم کرديئے ۔ حکمرانوں کے بيانوں سے اخبار لہلہا اُٹھے ۔ ہم ايک سَستے بازار ميں سودا لينے گئے ۔ پياز 15 روپے کلو اور آلو 25 روپے کلو جو چند دن پہلے علی الترتيب 9 روپے اور 23 روپے کلو لائے تھے ۔ باقی سبزی پھل سب کا يہی حال تھا ايک آدھ چيز پچھلے بھاؤ پر تھی کم پر کوئی نہ تھی ۔ مرتا کيا نہ کرتا سودا خريدنا شروع کيا ۔

ايک پياز والے کے پاس موٹے موٹے پياز تھے اُسے کہا ڈھائی کلو دے ديجئے اُس نے بالکل نيچے سے اس طرح پياز ڈالے کہ سارے بالکل چھوٹے چھوٹے چھوٹے پياز ترازو ميں آئے ۔ اُس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی پوچھا کہ آپ داڑھی رکھنے کا سبب بتائيے گا ۔ جواب ديا کہ سُنّت ہے ۔ ميں نے کہا کيا داڑھی رکھنے کے بعد اجازت ہو جاتی ہے کہ جو ہيراپھيری چاہو کرو ؟ تو منہ بنا ليا ۔ آلو والے نے موٹے موٹے آلو تول کر دے ديئے ۔ کھجور والے سے کہا کہ سب کھجوروں کو تيل لگا ہوا ہے ؟ اشارہ کر کے بولا کہ ان کو تيل نہيں لگا ہوا ۔ ديکھنے ميں موٹی اور تازہ تھيں ۔ بھاؤ پوچھا ۔ 75 روپے کلو ۔ ايک کلو لے ليں ۔ آگے بڑھے تو ڈبے ميں بند کھجوريں بِک رہی تھيں ۔ دوکاندار نے ڈبے کا ڈھکنا اُتار کر دکھايا موٹی موٹی ايرانی کھجوريں تھيں ۔ ايک ڈبہ لے ليا ساٹھ روپے کا ۔ وزن آدھا کلو تھا ۔ امرود والے کے پاس گئے اور درخواست کی کہ بھائی پيسے اپنی مرضی کے لے لينا مگر خراب امرود نہ ڈالنا ۔ کچھ روپے زيادہ لئے اور چُن کے امرود تھيلے ميں ڈال کر دے ديئے ۔ ہم خوش خوش گھر آئے کہ سودا اچھا مل گيا ۔

ملازمہ نے آلو کاٹے تو ڈھائی ميں سے ايک کلو خراب نکلے ۔ تھيلے سے امرود نکالے تو آدھے امرود گلے ہوئے تھے ۔ افطار کے وقت جو کھجوريں کھُلی تھيں وہ ليں تو ہاتھ کو تيل لگ گيا جيسا کبھی کبھی اپنی پرانی گاڑی سے لگ جاتا ہے ۔ تجربہ کيلئے چند کھجوريں دھوئيں تو ايسے محسوس ہوا کہ پانی ميں بھيگے رہنے کی وجہ سے گَل کر پھُول چُکی ہيں ۔ چاروناچار کھجوروں کا ڈبہ کھولا ۔ جب کھجوريں پليٹ ميں ڈاليں تو آنکھوں پر يقين نہ آيا ۔ اُوپر کی تہہ ايرانی کھجوريں دوسری تہہ سوکھی کھجوريں اور سب سے نيچے کی تہہ شيرہ ميں بھِگوئے ہوئے چھوہارے تھے ۔

ذرا ديکھئے سُورت الْبَقَرَہ کی آيت 183 ميں يہی لکھا ہے کيا ؟
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ

پھر کہتے ہيں اسلام ہميں ترقی نہيں کرنے ديتا ۔ چودہ صدياں پرانا ہے ۔

يا مالک و خالق ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق دے

احوالِ او ۔ آر

1986عيسوی میں آپريشنز ريسرچ و کوانٹی ٹيٹِو ٹَيکنِيکس کورس [Operations Research and Quantitative Techniques Course] کيا ۔ اُن دنوں ميں پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں جنرل مينجر مَينجمنٹ انفارميشن سِسٹمز [General Manager, Management Information Systems] تھا ۔ کورس ميں سرکاری اور غيرسرکاری اداروں کے دو درجن سے زائد سينئر افسران نے شموليت کی ۔ ڈائريکٹر جنرل ٹريننگ نے پہلے دن فيکلٹی اور کورس کے تعارف کے علاوہ انتخابات منعقد کئے ۔ مندرجہ ذيل اساميوں پر انتخاب ہوا ۔ مُنتخب لوگ متعلقہ کاموں کے ذمہ دار تھے ۔ فادر آف نيشن کا انتخاب ووٹوں سے نہيں ہوا ۔ اُسےسب سے زيادہ عمر کی بنياد پر چُنا گيا ۔ باقی سب کيلئے باقاعدہ ووٹِنگ ہوئی ۔

فادر آف نيشن ۔ Father of Nation
ماسٹر آف پروٹوکال ۔  Master of Protocol
ماسٹر آف کامن سروسز ۔ Master of Common Services
ماسٹر آف سَیرِیمَونِیز ۔ Master of Ceremonies
ماسٹرآف سوشل سروسMaster of Social Service
ماسٹر آف پريئرز ۔  Master of Prayers 

فادر آف نيشن کا کام اُس وقت شروع ہوتا جب کسی چيز کا فيصلہ کرنے ميں دقت ہو رہی ہو ۔ ماسٹر آف پروٹوکال تمام ماسٹرز کا ماسٹر تھا يعنی سب کاموں کی ذمہ داری اُس پر تھی ۔ ڈائريکٹر جنرل اے يو خان صاحب معمولی سی بات پر لمبی تقرير کر ديتے تھے ۔ کورس بہت سخت تھا ۔ اس طرح وقت ضائع ہونے پر آدھی رات تک بيٹھ کر کام کرنا پڑتا تھا ۔ ايک دن ميں نے کورس ميں حصہ لينے والے دس لوگوں کی لکھی ہوئی رپورٹس کی تصحيح کر کے پھر اُن پر مُشتمل ايک جامع رپوٹ لکھ کر دوسرے دن جمع کرانا تھی ۔ ڈائريکٹر جنرل صاحب کی تقرير ختم ہوتے شام ہو گئی اور ميں کامنہ کر سکا ۔ ميرا مغز خراب ہو چکا تھا سو ميں گھر چلا گيا ۔ رات کو کافی دير تک کام کيا ۔ صبح کلاسز 8 بجے شروع ہوتی تھيں چنانچہ دوسرے دن ميں صبح 6 بجے انسٹيٹيوٹ پہنچ گيا ۔ اللہ کے فضل سے ڈيڑھ گھينٹہ ميں رپورٹ تيار ہو گئی ۔ باقی 30 منٹ گذارنے کيلئے ميں حسبِ حال نظم لکھ دی جو اُسی دن چائے کے وقفے ميں پڑھی گئی ۔ رديف قافيہ اور وزن کا خيال نہ کيجئے گا ۔ ميں شاعر نہيں ہوں ۔ چھ سات ہفتے قبل يہ نظم کی تلاش کی مگر نہ ملی ۔ اب اس کے علاوہ کچھ اور پُرانے نُسخے بھی ملے ہيں جو انشاء اللہ ايک ايک کر کے نذرِ قارئين کئے جائيں گے ۔

احوالِ اَو ۔ آر

تھا آرام سے بيٹھا ايم آئی ايس ميں
يونہی ياں اَو آر پڑھنے بُلايا گيا ہوں
پھر ساتھيوں کی خُفيہ سازش سے
ماسٹر آف پروٹوکال بنايا گيا ہوں
مزيد فادر آف نيشن کی وساطت سے
بزورسوشل سروس پہ لگايا گيا ہوں
جب کبھی جی چاہا محنت کرنے کو
لمبی تقريروں سے ٹرخايا گيا ہوں
سُنائی بات شگفتگی ماحول کی خاطر
بسيارگو کے ليبل سے ڈرايا گيا ہوں
واہ بادشاہی ماسٹر آف کامن سروسز کی
دال چاول بلا ناغہ کھلايا گيا ہوں
کبھی کھلا کے جی ۔ 9 کے چپّل کباب
ميں آدھی رات تک جگايا گيا ہوں
اور جب کچھ بھی نہ بن پڑی يارو
پاپ کارن دے کے بہلايا گيا ہوں
جانے يہ کِس جُرم کی ہے پاداش
اے يو خان کے پاس لايا گيا ہوں
لے لو قسم ماسٹر آف سَيرِيمَنِيز کی
ايسی جگہ پہ کبھی نہ آيا گيا ہوں
ماسٹر آف پريئرز ميرے لئے ذرا کرنا دُعا
چلا جاؤں واپس جيسا کہ بھجوايا گيا ہوں

ميرے لڑکپن کے شُغل

ميں نے 9 سال کی عمر ميں ايک دفعہ پتنگ اُڑائی اور وہ ساری عمر کے لئے کافی ہو گئی ۔ بنٹے يا بلور  يا گولياں اور اخروٹ وغيرہ کبھی نہيں کھيلے ۔ گلی ڈنڈا  تھوڑا بہت کھيلا وہ بھی جب ميں تيرہ چودہ سال کا تھا ۔ دسويں جماعت تک ہاکی اور ايف ايس سی ميں باسکٹ بال کھيلی البتہ چِڑی چھِکا ٹيبل ٹينس اور سکواش بہت عرصہ کھيلے ۔

ميرے مشاغل ڈرائينگ ۔ مصوّری اور پھول پتيوں اور بيلوں کے نمونے کڑھائی يا کشيدہ کاری کيلئے بنانا تھا ۔ انسان کی تصوير کبھی بنانے کی کوشش نہ کی ۔ اگر کسی نے مجبور کيا يعنی ميری مصوّری کو چيلنج کيا تو پندرہ سيکنڈ ميں چہرے کی بجائے سَر کے پچھلے حصے کی تصوير بنا دی ۔  ايف ايس سی يعنی انٹرميڈئٹ کا امتحان دينے کے بعد رياضی کی شعبدہ بازی ميں پڑ گيا ۔ ميں 1986ء ميں آپريشنز ريسرچ اور کوانٹی ٹيٹِو ٹيکنِيکس کا کورس کر رہا تھا تو ميں نے ايک مذاحيہ نظم لکھی تھی ۔ اُسے ڈھونڈ رہا تھا ۔ وہ تو نہ ملی مگر ميری ايف ايس سی کے امتحان کے بعد کی شعبدہ بازی کے چند نمونے مل گئے ۔ ان ميں سے تين حاضرِ خدمت ہيں

7 x 7 + 5 = 54
77 x 7 + 5 = 544
777 x 7 + 5 = 5444
7777 x 7 + 5 = 54444
77777 x 7 + 5 = 544444
777777 x 7 + 5 = 5444444
7777777 x 7 + 5 = 54444444
77777777 x 7 + 5 = 544444444
777777777 x 7 + 5 = 5444444444
7777777777 x 7 + 5 = 54444444444

دس تک ميں نے لکھ ديئے ہيں ۔ آپ چاہے جہاں تک چلے جايئے ۔

کم پڑھا لکھا آدمی بڑی رقموں کو ضرب کيسے دے ؟

مثال کے طور پر 89 کو 67 سے ضرب دينا ہے تو ان دونوں ہندسوں کو برابر تھوڑے فاصلہ پر لکھ ليجئے ۔
اب ايک ہندسے کو  2  سے تقسيم کر کے حاصل تقسيم نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل تقسيم کو 2 سے تقسيم کيجئے ۔
يہ عمل دُہراتے جايئے حتٰی کہ حاصل تقسيم  1  آجائے ۔
جو حاصل تقسيم جُفت نہ ہو يعنی طاق ہو اُس کو 2 پر تقسيم کرنے سے پہلے اس ميں سے 1 منہا کر کے اُسے جُفت بنا ليجئے ۔ 
اب دوسرے ہندسہ کو 2  سے ضرب ديکر حاصل ضرب اُس کے نيچے لکھ ليجئے ۔
پھر حاصل ضرب کو 2 سے ضرب دے کر حاصل ضرب نيچے لکھ ليجئے ۔
يہ عمل اتنی بار دہرايئے جتنی بار تقسيم کيا تھا ۔
اب جو حاصل ضرب کی رقم جُفت حاصل تقسيم کے سامنے ہے اُسے کاٹ ديجئے اور جو حاصل ضرب بقايا بچيں انہيں جمع کر ليجئے ۔
جواب ہے  5963

89 . . . . . . . . 67 . . . . . . . . . 67
44 . . . . . . . 134
22 . . . . . . . 268                    
11 . . . . . . . 536 . . . . . . . . .536
. 5 . . . . . . 1072 . . . . . . . .1072
. 2 . . . . . . 2144          
. 1 . . . . . . 4288 . . . . . . . .4288
. . . . . . . . . . . . . . . . . . .————
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .5963

گنتی چار چوکوں کی مدد سے

آپ نے ياد دِلايا تو ۔ ۔ ۔

اسلام آباد موٹر وے و ہائی وے پوليس اِسی سال اسلام آباد کے شہريوں کو متعارف کرائی گئی ۔ مئی ميں اِس کے رويّہ کے متعلق ميں لکھنے والا تھا کہ اچانک 23 مئی کی صبح ميری بيگم گِر گئيں اور اُن کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔ پھر وہ دن اور آج کا دن مصروفيت کے باعث ميں پہلے سے لکھی ہوئی  تحريريں شائع کرتا رہا ۔ عتيق الرّحمٰن صاحب نے مُجھے ياد دِلا ديا ۔ شکريہ عتيق الرّحمٰن صاحب ۔

مئی کے مہينے ميں ہم لوگ جی 10 سے اپنے گھر ايف 8 آرہے تھے کہ ايف  10 کے پاس ايک کھڈّے سے گذرنے کے بعد ہماری کار  رُک گئی ۔ ميں باہر نکا ہی تھا کہ ايک پوليس کار آئی ۔ اُس ميں سے سليٹی رنگ کی وردی پہنے پوليس افسر نکلا۔  اُس نے ميرے ساتھ دَھکا لگا کر کار سڑک سے نيچے اُتاری تا کہ راستہ کھُلا رہے پھر اُس نے کار کا بونٹ کھول کر معائنہ شروع کيا ۔ ميں نے سارے تھِمبَل اُتار کر دوبارہ لگائے تو ميری کار چل پڑی ۔ پوليس افسر نے پوچھا “پھر تو بند نہيں ہو جائے گی ؟” ميرے “نہيں” کہنے کے باوجود پوليس کار ايک کلوميٹر تک ہماری کار کے پيچھے چلتی رہی ۔

کُچھ دن بعد ہم زيرو پوائنٹ سے شاہراہ فيصل پر آ رہے تھے کہ جناح ايوينيو سے کُچھ پہلے ٹائر ميں سے ہوا نکل گئی ۔ کيل چُب گيا تھا ۔ ميں کار سے اُترا ہی تھا کہ مُجھے مدھم سی آواز سُنائی دی ” سَر  رُک جائيں ۔ سَر  رُک جائيں” ميں نے ديکھا تو ايک جوان مکينِک کی وردی پہنے ميری طرف سرپٹ بھاگا آ رہا تھا ۔ ميرے پاس پہنچتے وہ ہانپنے لگا ۔ اُس کے ساتھ ايک پوليس مين بھی تھا ۔ اُس مکينِک نے پہيئہ بدل ديا تو ميں نے اُسے کچھ روپے دينا چاہے مگر اُس نے يہ کہہ کر نہ لئے “يہ فری سروس ہے ۔ ميں ٹريفک پوليس کا تنخواہ دار ملازم ہوں ۔ يہ تو شہر ہے اگر شہر کے باہر بھی آپ کو کسی قسم کی مدد درکار ہو تو 915 پر ٹيليفون کيجئے ہمارے آدمی آپ کی مدد کو پہنچ جائيں گے”۔

سُبحان اللہ ۔ مجھے يوں محسوس ہوا کہ ميں جنّت ميں پہنچ گيا ہوں ۔ سچ کہا تھا حکيم الاُمّت علامہ محمد اقبال نے

ذرا نَم ہو تو يہ مَٹّی بڑی ذرخيز ہے ساقی 
 

ميرے بچپن کی شاعری

ہمارے بچپن میں ہماری والدہ (الله اُنہيں جنّت ميں اعلٰی مقام عطا فرمائے) ميرے چھوٹے بھائی بہنوں کو لوری دے کر سُلاتی تھیں ۔ کبھی لوری عربی ميں ہوتی کبھی اُردو اور کبھی پنجابی میں ۔ پنجابی ميں لوری يہ تھی
االله وی تُوں ۔ بيلی وی تُوں
حاذق وی تُوں ۔ رازق وی تُوں
دِتا ای تے پالیں ويں تُوں
الله ای ۔ الله ای
الله ای ۔ الله ای

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو ايک ايسا ہر فن مولا کمپيوٹر بنايا ہے کہ جو چاہے محنت اور ہمت کے ذريعے بنا سکتا ہے يا حاصل کر سکتا ہے ۔جب ميں نويں جماعت ميں تھا ميں نے اس لوری کی طرز پر يہ شعر بنائے ۔
ميں سو جاواں ۔ جگاويں تُوں
ميں ڈھے جاواں ۔ اُٹھاويں تُوں
ميں کھُب جاواں ۔اُبھاريں تُوں
ميں وگاڑ ديواں ۔ سنواريں تُوں
الله ای ۔ الله ای
الله وی تُوں مولا وی تُوں
حاذق وی تُوں ۔ رازق وی تُوں
الله ای ۔ الله ای
اُپر وی تُوں ۔ نیچے وی توں
سجّے وی تُوں ۔ کھبّے وی تُوں
اَگے وی تُوں ۔ پِچھے وی تُوں
جِدھر ويکھاں ۔ تُوں ای تُوں
الله ای ۔ الله ای

لائِينَکس کہاں ہو ؟

لائينکس عام بِلّيوں سے تو بہت مُختلف تھا ہی اپنی نسل ميں بھی مُنفرد تھا ۔ وہ سيامِيز نَسَل سے تھا اور اُس کے آباؤ اجداد صديوں سے تہذِيب يافتہ گھرانوں ميں پَلتے آ رہے تھے ۔ ميں نے اُس کی تربيّت پر بہت سمجھداری سے محنت کی مگر سب سے بڑھ کر حقيقت يہ ہے کہ اُسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بہت سمجھ دے رکھی تھی اُس کے ڈاکٹر صاحب کہتے “ميں نے بہت سياميز بِلّياں ديکھی ہيں مگر ايسی سمجھدار اور سُلجھی ہوئی بِلّی آج تک نہيں ديکھی”۔ اُس کے اغواء ہونے پر ڈاکٹر صاحب بھی کئی دن تک اُس کی تلاش ميں سرگرداں رہے ۔linux

پونے تين سال ہوئے وہ دروازے سے باہر نکلا ۔ وہ عام طور پر سير کرنے جاتا اور اِردگِرد پھر کر واپس آ جاتا ۔ اُس روز وہ گيا اور واپس نہ آيا ۔ دير ہوئی تو پريشانی بڑھی ۔ گھر کے اِردگِرد سب سے پوچھا مگر کچھ پتہ نہ چلا ۔ ناجانے کون ظالم اُسے اغواء کر کے لے کيا ۔کُل 3 سال کا تھا ليکن اللہ نے اُسے بہت ذہانت عطا کی تھی ۔ اُس کی حرکات ديکھ کر کوئی بھی سُبحان اللہ کہے بغير نہ رہتا ۔ Table Tennis کی بال سے فُٹبال وہ اتنی اچھی کھيلتا کہ عقل دنگ رہ جاتی ۔ خاص طور سے اُس کا Deep Freezer کے نيچے ايک طرف سے بال کو kick لگا کر تيزی سے دوسری طرف جا کر روکنا اور واپس لا کر پھر Deep Freezer کے نيچے kick لگانا ۔

جب اُسے شرارت سوجھتی تو کوئی ہمارے استعمال کی چيز چھُپا ديتا ۔ ايک دن ميں باہر سے آيا اور آ کر بوٹ جرابيں اُتاريں کچھ دير بعد مجھے پھر باہر جانا پڑ گيا ۔ ميں جرابيں پہننے لگا تو جراب کا ايک پاؤں غائب ۔ ميں نے کہا “ميری ايک جراب کہاں گئی”۔ ميری بيٹی بولی “يہ لائينکس کا کام ہو گا ” ميں نے لائينکس کو آواز دی مگر وہ نہ آيا ۔ ميں اپنے سونے کے کمرہ ميں گيا اور دوسرا جوڑا جرابوں کا لے کر واپس آيا تو کيا ديکھا کہ ميری دونوں جرابيں ميرے بوٹوں کے پاس پڑی ہيں ۔ ميری بيگم کہنے لگيں “ابھی لائينکس بہت تيز بھاگتا ہوا آيا تھا اور يہاں skid مار کر تيزی سے واپس بھاگ گيا ہے ۔ يعنی ميری جراب اُس نے چھُپائی ہوئی تھی اور واپس رکھ کر بھاگ گيا ۔

رات کو عام طور پر اپنے بستر پر سوتا ۔اگر سردی زيادہ ہو تو ميرے ساتھ سوتا ۔ شائد اُسے اپنے بستر پر سردی لگتی تھی ۔ سرديوں ميں ہم لاؤنج ميں گيس ہيٹر جلا کر بيٹتے تھے ۔ ايک دن شام ہو گئی اور ہم نے ہيٹر نہ جلايا ۔ میں لاؤنج ميں آيا تو مجھے اشاروں سے سمجھايا کہ ہيٹر جلاؤ ۔

ميرا کہا بہت مانتا تھا ۔ ميں بُلاؤں تو جہاں بھی ہو بھاگ کر آ جاتا ۔ کبھی کبھی ميں اپنے ساتھ کار ميں لے جاتا ۔ کبھی ميں نہ ليجاتا تو وہ ناراض ہو جاتا ۔ جب ميں واپس آتا تو ميرے سامنے آتا مگر منہ دوسری طرف کر کے بيٹھ جاتا يعنی کہ “ميں ناراض ہوں”۔ پھر اُسے منانا پڑتا ۔

اُسے گھر کے ہر فرد سے پيار تھا مگر ميرے ساتھ بہت پيار تھا ۔ ايک دن ميں بعد دوپہر کہيں گيا اور رات گئے واپس لوٹا ۔ گھر پہنچنے پر بيگم نے بتايا کہ ” لائينکس نے کھانا نہيں کھايا اور سہ پہر سے آپ کی انتظار ميں کھڑکی کے سامنے بيٹھا تھا ۔ میں نے ديکھا تو لائينکس کھانے کی ميز کے ساتھ ميری کُرسی پر بيٹھا ميری طرف ديکھ رہا ہے يعنی کہ ” آؤ کھانا کھاؤ”۔ ايک دفعہ ميں بيمار ہو گيا اور کمبل اوڑھے ليٹا تھا ۔ نمعلوم وہ کب آ کر ميرے پلنگ کے قريب قالين پر بيٹھ کر متواتر ميری طرف ديکھے جا رہا تھا ۔ ميں نے اُس کی طرف غور سے ديکھا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ ميں نے اُسے اُٹھا کر پيار کيا تو اُس کی آنکھيں متحرک ہوئيں اور چمکنے لگيں ۔ يہ خوشی کا اِظہار تھا ۔

جب لائينکس مياؤں مياؤں کر رہا ہوتا اور ميں اُسے کہتا “چُپ کر جاؤ ” يا ميں اپنے ہونٹوں پر اُنگلی رکھتا تو وہ فوراً خاموش ہو جاتا ۔ جب ميرا بيٹا دفتر سے آتا تو لائينکس سيڑھيوں کے نيچے چھُپ جاتا ۔ جب بيٹا اُوپر اپنے کمرہ ميں جانے کيلئے سيڑھياں چڑھتا تو لائينکس اس کی ٹانگ پکڑ ليتا ۔ يہ لائينکس کاروزانہ کا معمول تھا ۔

لائينکس عام بِلّيوں سے تو بہت مُختلف تھا ہی اپنی نسل ميں بھی مُنفرد تھا ۔ وہ سيامِيز نَسَل سے تھا اور اُس کے آباؤ اجداد صديوں سے تہذِيب يافتہ گھرانوں ميں پَلتے آ رہے تھے ۔ ميں نے اُس کی تربيّت پر بہت سمجھداری سے محنت کی مگر سب سے بڑھ کر حقيقت يہ ہے کہ اُسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بہت سمجھ دے رکھی تھی اُس کے ڈاکٹر صاحب کہتے “ميں نے بہت سياميز بِلّياں ديکھی ہيں مگر ايسی سمجھدار اور سُلجھی ہوئی بِلّی آج تک نہيں ديکھی”۔ اُس کے اغواء ہونے پر ڈاکٹر صاحب بھی کئی دن تک اُس کی تلاش ميں سرگرداں رہے ۔

لائِينَکس تم کہاں ہو ؟ ميں تمہيں بہت ياد کرتا ہوں ۔

وہ پندرہ فٹ گہرے پانی میں کود گیا

پیش لفظ:- واقعہ حقیقی ہے لیکن نام فرضی ہیں ۔

چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جمیل (فرضی نام) کو اس ادارے کی ملازمت شروع کئے سوا دو سال ہو چکے تھے۔ وہ آفیسرز کلب میں سکواش کھیلنے جاتا تھا ۔ آفیسرز کلب میں ایک سویمنگ پول تھا ۔ نزدیکی کنارے پر پانی 2 فٹ گہرا تھا اور دور والے کنارے کی طرف گہرا ہوتا جاتا تھا حتی کہ آخر میں لمبائی کے 20 فٹ حصّہ میں پانی 15 فٹ گہرا تھا۔ وہاں سپرنگ بورڈ لگے ہوئے تھے ۔ مئی کا مہینہ تھا۔ ایک سینئر آفیسر نے جمیل سے کہا ” آپ سویمنگ پول پر نظر نہیں آئے”۔ جمیل نے بتایا کہ اسے تیرنا نہیں آتا۔ آفیسر نے مسکرا کر کہا “پانی میں جاؤ گے تو تیرنا سیکھو گے نا”۔ دوسرے دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچ گیا۔ وہ آفیسر بھی آئے اور انہوں نے دو اچھے تیراکوں طلعت اور جمشید کے ذمّہ کیا کہ وہ جمیل کو تیرنا سیکھائیں۔ محنت کر کے ایک ماہ میں جمیل اس قابل ہو گیا کہ چار ساڑھے چار فٹ گہرے پانی میں چند منٹ تیر لیتا۔ایک دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچا تو وہاں اور ابھی کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ شاور لے کر آیا تو دیکھا کہ ایک بارہ تیرا سالہ لڑکے نے سپرنگ بورڈ پر سے اچھل کر چھلانگ لگائی اور کوئی 12 فٹ پانی کی تہہ میں پہنچ کر ہاتھ پاؤں مار نے لگا ۔ جمیل کو احساس ہوا کہ لڑکا ڈوب جائے گا ۔ وہ بھاگتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچا دل میں کہا یا اللہ اسے بچا اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اتفاق سے وہ سیدھا تہہ تک پہنچا ۔ اس نے اپنے پاؤں سے فرش کو دھکا دیا جس سے وہ تیزی سے اوپر کی طرف اٹھا۔ اوپر آتے ہوۓ اس نے لڑکے کو اوپر کی طرف دھکا دیا ۔ جونہی جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا اس نے اچھل کر غوطہ لگایا اور دوبارہ لڑکے کو اوپر دھکیلا۔ اس بار کچھ پانی جمیل کی ناک میں گھس گیا۔ جب جمیل کا سر باہر نکلا تھا تو اسے آوازیں سنائی دی تھیں۔ ” سر۔ ایک دم پیچھے ہٹ جائیں”۔ چنانچہ دوسری بار جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا تو وہ کوشش کر کے 4 فٹ دور کنارہ پر لگی سیڑھی تک پہنچا اور سویمنگ پول سے باہر نکل آیا۔

جمیل چند منٹ کھانستا رہا ۔ اس کے بعد اس نے دیکھا کہ ایمبولنس لڑکے کو لے کر جا رہی ہے ۔ ایمبولنس جانے کے بعد طلعت اور جمشید جمیل کے پاس آئے اور کہا “سر۔ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا اور آپ نے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی” ۔ جمیل بولا “میں لڑکے کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اچھا ہوا آپ لوگ پہنچ گئے اور لڑکے کو بچا لیا”۔ طلعت بولا “سر۔ لڑکے کو ہم نے نہیں آپ ہی نے بچایا۔ آپ لڑکے کو پانی کی سطح پر لے آئے تھے۔ ہم نے تو اسے صرف پول سے باہر نکالا ”

(جمیل ۔ افتخار اجمل بھوپال)