پاکستان بننے کے بعد ہم بے سروسامان پاکستان آئے تھے ۔ ميرے مُحترم والد صاحب نے ہم بہن بھائيوں کی اچھی تعليم و تربيّت کيلئے بہت محنت کی ۔ يہ اُنہی کی محنت کا نتيجہ ہے کہ الله سُبحانُهُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے ہم سب بہن بھائيوں نے باعزّت زندگی گذاری ہے ۔
ہمارے مُحترم والد صاحب کہا کرتے تھے “محنت کرو گے پڑھو گے تو سب تمہارے رشتہ دار اور دوست ہوں گے بصورتِ ديگر رشتہ دار کنارہ کشی اختيار کر ليں گے اور کوئی باعزّت آدمی دوست نہيں بنے گا “۔ بالکل سچ کہا تھا اُنہوں نے
ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ نے 66 برس کی عمر ميں اچانک برين ہَيمريج (Brain Hemorrhage) ہونے کی وجہ سے 29 جون 1980ء کو وفات پائی ۔ ميری الله القادر و الکريم والرحمٰن والرحيم کے حضور استدعا ہے کہ ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ کو جنّت الفردوس ميں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين
میری امی میری جنت
تحریر ۔ 20 جولائی 1980ء
میں اک ننھا سا بچہ تھا میں کچھ بھی کر نہ سکتا تھا
مگر میں تجھ کو پیارا تھا تیری آنکھوں کا تارہ تھا
خود جاگتی مجھے سلاتی تھی میری امّی میری امّی
سوچا تھا ۔ ۔ ۔
نہ ہو گی تجھ میں جب طاقت رکھوں گا تجھ سے میں الفت
دوں گا تجھ کو بڑی راحت اٹھاؤں گا میں تیری خدمت
جو خدمت تو اٹھاتی تھی میری امّی میری امّی
مگر ۔ ۔ ۔
یک دم روٹھ کے تو چلی گئی اس فانی دنیا سے جاوداں دنیا
نہ خدمت تو نے مجھ سے لی نہ میں کندھا دے سکا تجھ کو
کہاں ڈھونڈوں تیری ممتا میری امّی میری امّی
مقام آخرت ہے تیرا جنت اس دنیا میں تھی تو میری جنت
جو نہ دے سکا میں تجھ کو وہ پھول تیری لحد پہ برساتا ہوں
آنسو بیچارگی پر اپنی بہاتا ہوں میری امّی میری امّی
تیری قبر کے سرہانے تھا بیٹھا تیری روح آ کے گذر گئی
پھیلی چار سو مہک گلاب کی میری روح معطّر ہو گئی
نہ تجھے دیکھ سکا نہ بول سکا میری امّی میری امّی
تیری دعاؤں سے جیتا تھا تیری دعاؤں سے پھلتا تھا
تیری دعاؤں کے بل بوتے میں کسی سے نہ ڈرتا تھا
اب بز دل بن گیا ہوں میں میری امّی میری امّی
اب تڑکے کون جگائےگا ۔ آیات قرآنی مجھے کون سناۓ گا
تحمل و سادگی کون سکھاۓ گا تجھ بن کچھ بھی نہ بھاۓ گا
والله مجھے اپنے پاس لے جاؤ میری امّی میری امّی
مائيں تو سب کی بہت اچھی ہوتی ہيں ۔ خود جاگ کر بچوں کو سُلاتی ہيں ۔ خود بھُوکا رہ کر بچوں کا پيٹ بھرتی ہيں ۔ چاہے خود کتنی تکليف ميں ہوں اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد کو کسی قسم کی تکليف نہ ہو ۔ بچوں کی خاطر محنت مزدوری تک کرتی ہيں لیکن مُحترمہ والدہ صاحبہ ميرے لئے ايک ناياب خزانہ تھيں ۔ اُن پر الله کی خاص رحمت تھی ۔ اُنہوں نے کبھی کسی کی بدخواہی نہ کی حتٰی کہ جنہوں نے اُنہيں زِک پہنچائی اُن کا بھی کبھی بُرا نہ سوچا بلکہ اُن کی بہتری کے لئے دُعا کی
مُجھے مُحترمہ والدہ صاحبہ کے پاؤں چُومنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ وسط 1971ء ميں جب ميں ايک بچے کا باپ تھا مُحترمہ والدہ صاحبہ کی ٹانگ ميں شياٹِکا [Sciatica] کا شديد درد ہوا ۔ ميں اُن کی پنڈلياں سہلاتا رہا ۔ الله سے اُن کی شفاء کيلئے گڑگڑا کر دُعا کرتا رہا اور مُحترمہ والدہ صاحبہ کے پاؤں کے تَلوے چومتا رہا ۔ نمعلوم کتنے بيٹے ہوں گے جنہيں يہ اعزاز حاصل ہوا ہو
اگر کوئی مُحترمہ والدہ صاحبہ کی موجودگی ميں بھی اُن کی بُرائی کرتا تو وہ اُس کی ترديد نہ کرتيں ۔ ايک دفعہ ايک رشتہ دار عورت نے ميری خالہ سے جو کہ ميری ساس بھی تھيں مُحترمہ والدہ صاحبہ کے متعلق مَن گھڑت بات کہی ۔ ميں اور مُحترمہ والدہ صاحبہ نے بات سُن لی تو ميں نے مُحترمہ والدہ صاحبہ سے اُس بات کی ترديد کرنے کو کہا ۔ وہ کہنے لگيں “ميرے ترديد کرنے کی کوئی ضرورت نہيں۔ سب جانتے ہيں کہ سچ کيا ہے”۔ يہ بات مجھے معقول نہ لگی مگر ميں خاموش ہو گيا ۔ کئی سال بعد مُجھے يہ فلسفيانہ حِکمت سمجھ آئی جب ميں نے مندرجہ ذيل مقولہ پڑھ کر اِسے سمجھنے کی کوشش کی
“Test of fairness is that how fair you are to those who are not.”
ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ اس مقولہ کا ايک مُجسّم نمونہ تھيں ۔ اُنہوں نے اپنی زندگی ميں اپنے سسرال والوں ۔ اپنے بہن بھائيوں بشمول سوتيلے بہن بھائی ۔ اپنے بچوں ۔ اپنے بچوں کے بچوں اور ہر انسان جو اُن کے پاس آيا اُس کی خدمت کی ۔ محُترمہ والدہ صاحبہ نے بہت سادہ زندگی گذاری ۔ شرم و حياء اِس قدر کہ کبھی کسی مرد سے آنکھ ملا کر بات نہ کی
مُحترمہ والدہ صاحبہ کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ جب وہ قرآن شريف کی تلاوت کرتيں تو مُجھے ترجمہ کر کے سُنايا کرتی تھيں ۔ اُنہوں نے کبھی کسی پر حتٰی کہ ہم پر بھی کبھی اپنی قابليت کا اظہار نہ کيا تھا ۔ اُن کے اچھی خاصی انگريزی جاننے کا مُجھے اُس وقت پتہ چلا جب میں نے 1979ء میں اُنہيں ٹيليفون پر کسی سے انگريزی ميں بات کرتے ہوئے سُنا ۔ اُنہوں نے مصر ميں قاہرہ کے ايک اعلٰی معيار کے سکول ميں تعليم حاصل کی تھی اور اطالوی زبان بھی جانتی تھيں
ميں بچپن ميں ديکھا کرتا تھا کہ مُحترمہ والدہ صاحبہ کبھی کبھی ہميں کھانا دينے سے پہلے کُچھ سالن يا ترکاری پليٹ ميں نکال کر رکھ ديتيں ۔ ايک دن يہ عُقدہ کھُلا جب اُنہوں نے مُجھے ايک پليٹ ميں نکالا ہوا سالن ايک بھکاری کو دينے کا کہا ۔ دراصل جس دن ہمارے کھانا کھانے سے پہلے کوئی بھکاری نہ آئے اُس دن وہ سالن يا ترکاری نکال کے رکھ ديتی تھيں ۔ وہ اِنتہا کی صابرہ تھيں ۔مگر کسی کو تکليف ميں نہيں ديکھ سکتی تھيں اور دوسروں کی تکليف کيلئے پريشان ہو جاتی تھيں
ميں سکول کے زمانہ ميں گھڑی کو الارم لگا کر سوتا تھا تا کہ سورج نکلنے سے کافی پہلے اُٹھوں اور نماز پڑھوں ۔ جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا تو ايک شام ميں گھڑی کو چابی دينا بھُول گيا اور گھڑی کھڑی ہو جانے کی وجہ سے الارم نہ بجا ۔ مُحترمہ والدہ صاحبہ نے آ کر جگايا اور غُصہ ميں کہا ” مُسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہيں اُٹھتا “۔ اُس دن کے بعد مجھے الارم کی ضرورت نہ رہی اور ميں بغير الارم کے سورج نکلنے سے ايک گھنٹہ پہلے اُٹھتا رہا ۔ اب کہ ميری عمر پينسٹھ سال سے اُوپر ہو چکی ہے کبھی ميری فجر کی نماز قضا ہو جائے تو مُجھے يوں محسوس ہوتا ہے کہ مُحترمہ والدہ صاحبہ کہہ رہی ہيں ” مُسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہيں اُٹھتا“۔
امّی کی ياد میں
تحریر ۔ 25 اگست 1980ء
کتنے نازوں ميں تو نے کی ميری پرورش
تجھے ہر گھڑی رہتا تھا بہت خيال ميرا
تيری دعاؤں ميں رہا سدا ميں شامل
تيری موت نے مگر کيا نہ انتظار ميرا
يہ زندگی کس طرح گذرے گی اب
نہ دل ہے ساتھ ميرے نہ دماغ ميرا
ميں جو کچھ بھی ہوں فقط تيری محنت ہے
نہ یہ ميری کوئی خوبی اور نہ کمال ميرا
ميری اچھی امّی پھر کريں ميرے لئے دعا
کسی طرح آ جائے واپس دل و دماغ ميرا
تيرے سِکھلائے ہوئے حوصلہ کو واپس لاؤں
پھر کبھی چہرہ نہ ہو اس طرح اشک بار ميرا
تيرے سمجھائے ہوئے فرائض نبھاؤں ميں
کٹھن راہوں پہ بھی متزلزل نہ ہو گام ميرا
روز و شب ميں پڑھ پڑھ کر کرتا رہوں دعا
جنّت الفردوس ميں اعلٰی ہو مقام تيرا