Category Archives: آپ بيتی

بیتی باتیں

میرے بزرگوار دادا جان جن کا نام روشن الدین تھا حیدرآباد دکن اور جموں [ریاست جموں کشمیر] میں حاجی صاحب کے نام سے مشہور تھے چونکہ اُنہوں نے جوانی ہی میں میری محترمہ دادی جان کو ساتھ لے جا کر حج کر لیا تھا اور اس زمانہ میں ہندوستان سے عام طور پر بوڑھے لوگ حج کرنے جاتے تھے ۔ دادا جان نے مجھے بتایا تھا کہ وہ ریل گاڑی پر ممبئی گئے جو اُن دنوں بمبے کہلاتا تھا ۔ وہاں سے بحری جہاز پر عدن گئے کیونکہ اس زمانہ میں جدہ کی بندرگاہ نہیں تھی ۔ عدن سے مکہ مکرمہ ۔ مدینہ منورہ اور واپسی اُونٹوں پر سفر کیا ۔ حج کیلئے مکہ مکرمہ سے منی ۔ عرفات ۔ مزدلفہ ۔ منی اور مکہ مکرمہ پیدل سفر کیا تھا ۔

ہندوستانی قوم جب 1857 کی جنگِ آزادی میں ناکام ہوئی تو انگریزوں نے سب سے زیادہ ظلم مسلمانوں پر کیا ۔ ہمارے آباؤ اجداد نے انگریزوں کی حکومت کا ساتھ نہ دیا جس کے نتیجہ میں سینکڑوں ایکڑ زرخیز اراضی ضبط کر لی گئی جان کا بھی خطرہ تھا اسلئے میرے پردادا [دادا کے والد] اور ان کے بھائی جہاں جگہ ملی چلے گئے ۔ میرے پردادا نظام الدین نے شہر جموں کا انتخاب کیا کہ وہاں انگریزوں کا عمل دخل براہِ راست نہ تھا ۔

میرے دادا جان 1869 عیسوی میں پیدا ہوئے ۔ سب کچھ چھن جانے کے بعد ان کا خاندان بمشکل گذارہ کر رہا تھا اسلئے ایکہ باعِلم خاندان کا چشم و چراغ ہوتے ہوئے میرے دادا کی تعلیم کا بندوبست نہ ہو سکا اور 8 سال کی عمر میں انہوں نے کام سیکھنا شروع کیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے نوجوانی ہی میں بین الاقوامی تاجر بن گئے اور 27 سال کی عمر میں 1896 عیسوی میں ایک بین الاقوامی کمپنی باقاعدہ طور پر قائم کی جسے 1930 عیسوی میں میرے محترم والد صاحب کے سپرد کر کے خود گھریلو ذمہ داریوں اور بہبود عامہ میں لگ گئے ۔ اس کمپنی کا صدر دفتر ممبئی میں قائم کیا پھر وہاں سے آگرہ ۔ حیدآباد دکن ۔ مصر میں قاہرہ ۔ فلسطین منتقل ہوتے ہوئے 1948 عیسوی میں راولپنڈی میں قائم ہوا

قائداعظم کی وفات اور قائدِ ملت کے شہید کئے جانے کے بعد وطن پر قوم کے دشمنوں کا قبضہ ہو گیا اور آہستہ آہستہ دیانتدار تاجروں کیلئے حالات مشکل ہوتے گئے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ 1955 میں والد صاحب شدید بیمار ہو گئے اور ان کو لاہور لیجا کر گنگا رام ہسپتال میں داخل کرا دیا ۔ بیماری کی تشخیص اور علاج میں ایک سال گذر گیا ۔ والد صاحب نے جس شخص کو منیجر رکھا ہوا تھا وہ تاجر بن گیا اور ہمارے بزرگوار دادا صاحب کی قائم کردہ کمپنی 1956 عیسوی میں دیوالیہ ہو گئی ۔ میں ان دنوں گارڈن کالج راولپنڈی میں ایف ایس سی [انٹرمیڈیئٹ] میں پڑھتا تھا ۔
میں نے اس کمپنی کے لیٹر پیڈ کا ایک کاغذ سنبھال کر رکھا ہوا تھا جو آج مجھے مل گیا

ماں کے نام

ميری والدہ مُحترمہ 25 جون 1980 بروز بدھ عصر کی نماز کے بعد تسبيح کر رہی تھيں کہ برين ہَيموريج [Brain Hemorrhage] ہوگيا اور وہ بے سُدھ ہو گئيں [went in to coma] ليکن اِس حالت ميں بھی جيسے تسبيح کرتے ہيں وہ اُنگليوں پر کچھ پڑھ کر اپنے اُوپر پھونکتی رہيں حتٰی کہ 29 جون کو ہولی فيملی ہسپتال راولپنڈی ميں اِس دارِ فانی سے رِحلَت کر گئيں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُنہيں جنّت الفردوس ميں جگہ عطا فرمائے ۔ آمين ۔

يہ نظم ميں نے والدہ مُحترمہ کی وفات کے پانچ چھ ہفتے بعد لکھی تھی ۔ ميں نے جو نظم والدہ محترمہ کی وفات سے کچھ دن بعد لکھی تھی وہ نظرِ قارئين کر چکا ہوں اور يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔

کتنے نازوں ميں تو نے کی ميری پرورش
تجھے ہر گھڑی رہتا تھا بہت خيال ميرا
تيری دعاؤں ميں رہا سدا ميں شامل
تيری موت نے مگر کيا نہ انتظار ميرا
يہ زندگی کس طرح گذرے گی اب
نہ دل ہے ساتھ ميرے نہ دماغ ميرا
ميں جو کچھ بھی ہوں فقط تيری محنت ہے
نہ یہ ميری کوئی خوبی ہے اور نہ کمال ميرا
ميری اچھی امّی پھر کريں ميرے لئے دعا
کسی طرح آ جائے واپس دل و دماغ ميرا
تيرے سِکھلائے ہوئے حوصلہ کو واپس لاؤں
پھر کبھی چہرہ نہ ہو اس طرح اشک بار ميرا
تيرے سمجھائے ہوئے فرائض نبھاؤں ميں
کٹھن راہوں پہ بھی متزلزل نہ ہو گام ميرا
روز و شب ميں پڑھ پڑھ کر کرتا رہوں دعا
جنّت الفردوس ميں اعلٰی ہو مقام تيرا

خدا کیا ہے ؟ کا جواب

ایک صاحب [جنہوں نے کئی بار درخواست کرنے پر بھی مجھے اپنا نام نہیں بتایا] نے پوچھا ہے “خدا کیا ہے ؟” یعنی اللہ کیا ہے ؟ میرا جواب چونکہ طویل ہے اور اپنی زندگی کے تجربات پر مبنی ہے اسلئے میں جواب اپنے روزنامچہ میں لکھ رہا ہوں ۔ اُن صاحب سے معذرت کے ساتھ ۔

ایک نظم میں نے ساتویں جماعت میں پڑھی تھی آج سے ستاون سال پہلے ۔ اس وقت اتنے ہی مصرعے دماغ میں آئے ہیں

خدا پوچھے گا
بتا اے خاک کے پتلے کہ دنیا میں کیا کیا ہے
بتا کہ دانت ہیں منہ میں تیرے کھایا پیا کیا ہے
بتا کہ خیرات کیا کی راہِ مولا میں دیا کیا ہے
بتا کہ عاقبت کے واسطے توشہ لیا کیا ہے

اللہ کیا ہے ؟ جس دن مجھے صحیح پتہ چل جائے گا اُس دن سے میں بہترین انسانوں میں سے ہوں گا اور مجھے دنیا کی کسی چیز کا ڈر رہے گا نہ ہوّس ۔

رہی میری عقل اور عملی زندگی تو میں نے اللہ کو ہمیشہ اپنے اتنا قریب پایا ہے کہ اس سے زیادہ قریب اور کوئی شے نہیں ہو سکتی ۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد میں اور میری دونوں بہنیں سرحد پار گھر والوں سے بچھڑ گئے ۔ اُن کے 6 ہفتے بعد ہم بچوں کا بحفاظت پاکستان پہنچ جانا معجزہ سے کم نہ تھا اور یہ صرف اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی کر سکتا ہے ۔ ان چھ ہفتوں میں ہمارے غم میں ہماے بزرگ اپنے حواس تقریباً کھو چکے تھے ۔

سال 1951ء میں بائیسائکل پر ناشتہ کا سامان لینے جا رہا تھا ۔ بائیسائیکل فُل سائیز تھا اور میری ٹانگیں چھوٹی تھیں ۔ صبح کا وقت تھا ابھی سورج نہ نکلا تھا ۔ سڑکیں خالی تھیں ۔ اچانک پیچھے سے گھوڑے دوڑنے کی آوازیں آئیں ۔ کئی ٹانگے دوڑ لگاتے ہوئے سرپٹ بھاگتے آ رہے تھے ۔ ایک ٹانگہ میری بائیں جانب سے بالکل قریب سے گذرا ۔ فوراً ہی ایک داہنی جانب اتنا قریب سے گذرا کہ اسکا پہیہ میرے بائیسائیکل کو شدید ٹکر مارتا ہوا نکل گیا ۔ میں بائیسائیکل سمیت زمین پر گرا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک اور ٹانگہ تیز بھاگتا آ رہا ہے اور اس کا پہیہ میری گردن کے اوپر سے گذرنے والا ہے ۔ اچانک میرے اللہ نے میرے بائیسائیکل کو حرکت دی اور میرا سر گھوم کر ایک طرف ہو گیا اور پہیہ میرے سر کے بالوں کو چھُوتا ہوا گذر گیا ۔ یہ منظر ایک راہگیر بھی دیکھ رہا تھا وہ بھونچکا رہ گیا اور چند منٹ بعد مجھے زمین سے اُٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور میرے کان میں کہا “بیٹا ۔ گھر جاتے ہی کچھ اللہ کے نام پر دینا ۔ آج اللہ نے خود تمہیں پہیئے کے نیچے سے کھیچ لیا” ۔

اگست 1964ء میں ایک ٹریفک کے حادثہ کے بعد میں موت کے قریب تھا پھر موت طاری ہونے لگی ۔ اردگرد کھڑے لوگوں نے کلمہ طیّبہ بآواز بلند پڑھنا شروع کر دیا لیکن کچھ دیر بعد جب جمع لوگوں کے مطابق میں مر چکا تھا میرے سوہنے اللہ نے مجھے اُٹھا کر بٹھا دیا ۔

دسمبر 1964ء میں مجھے بیہوشی کی حالت میں ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ۔ میرے جسم کے اندر کوئی خون کی نالی یا نالیاں پھٹ جانے سے دو دن میں میرا اتنا خون بہہ گیا تھا کہ ہیموگلوبن 14 سے کم ہو کر 7 گرام رہ گئی تھی ۔ ڈاکٹر میری زندگی سے نا اُمید ہو گئے تھے ۔ لیکن اللہ اُن پر مسکرا رہے تھے کہ “اے بندو ۔ تمہاری زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے ۔ 84 گھنٹے میں بیہوش رہا اس کے بعد 10 دن بستر سے سر بھی نہ اُٹھا سکا ۔ اور صرف 30 دن دفتر سے غیرحاضر رہنے کے بعد اللہ کی مہربانی سے کام میں ہمہ تن گوش ہو گیا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا ۔

میں نے جون 1965ء میں ڈوبتے ہوئے ایک بچے کو بچانے کیلئے تیرنا نہ جانتے ہوئے دل میں کہا “یا اللہ اس بچے کو بچا” اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ میرے پیارے اللہ نے مجھے تیرا کر باہر نکال لیا اور بچے کو بھی بچا دیا ۔

اللہ ہی اللہ کیا کرو اور دُکھ نہ کسی کو دیا کرو

دوسری سالگرہ

آج اللہ کے فضل و کرم سے میرا روزنامچہ ”میں کیا ہوں – What Am I ” کو شروع کئے دو سال مکمل ہو گئے ہیں ۔ پہلے سال کے دوران قارئین کی کُل تعداد 8102 تھی جس کی اوسط فی یوم 22 اور 23 کے درمیان بنتی ہے ۔ اب کُل تعداد بڑھ کر 32094 ہو چکی ہے یعنی دوسرے سال میں 23992 قارئین ۔ جس کی دوسرے سال کی فی یوم اوسط 66 کے قریب بنتی ہے ۔ اِن اعداد و شُمار ميں اشتہار اور سپَيم [Spam] وغيرہ شامل نہيں ہيں ۔ میری تحاریر آجکل کے زمانہ کے لحاظ سے خشک اور بے رنگ ہونے کے باوجود اللہ کے کرم سے اس بلاگ کے قارئین کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے جس کیلئے میں االلہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا شکرگذار ۔ اللہ کے فضل سے میرا یہ روزنامچہ ہر اس ملک میں پڑھا جانے لگا نہ جہاں کوئی اُردو پڑھنے والا موجود ہے ۔ الحمدللہ ۔

اس روزنامچہ کے قارئین ہند و پاکستان کے کئی شہروں کے علاوہ ان مممالک کے رہائشی ہیں امریکہ [9 ریاستیں] ۔ کینڈا [ 2 شہر] ۔ برطانیہ [2 شہر]۔ فرانس ۔ جرمنی [3 شہر] ۔ بیلجیئم ۔ ہسپانیہ ۔ اطالیہ ۔ سویڈن [2 شہر] ۔ ناروے ۔ پولینڈ ۔ لتھوانیا ۔ ناروے ۔ سربیا ۔ ترکی [2 شہر] ۔ مراکش [2 شہر] ۔ الجزائر ۔ مصر [3 شہر] ۔ اردن ۔ اسرائیل ۔ سعودی عرب ۔ کویت ۔ ایران [5 شہر] ۔ متحدہ عرب امارات [2 شہر] ۔ روس ۔ ہانگ کانگ ۔ جمہوریہ کوریا ۔ وغیرہ ۔

اس روزنامچہ کی زندگی اور ترقی قارئین کی رائے کی مرہونِ منّت ہے جنہوں نے وقتاً فوقتاً مُختلف قسم کی آرا دے کر مجھے اپنے دماغ کو کُریدنے اور زيادہ محنت کرنے پر مجبور کیا اور موضوع سے موضوع نکلتا چلا گیا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی تمام قارئین کو صحت و تندرستی اور ہمت عطا فرمائے آمین اور وہ اپنی مفید آرا سے مجھے مُستفید فرماتے رہیں ۔ اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی موجودہ قارئین کے اہلِ خانہ ۔ دوستوں یا سہیلیوں کو بھی صحت و تندرستی اور ہمت عطا فرمائے آمین ۔

میری ظاہری ہیئت

گیارہویں جماعت 1954  سن 1954 میں

عرصہ ایک سال سے کچھ محترم قارئین تقاضہ کر رہے ہیں کہ میں اپنی تصویر شائع کروں اور میں اُنہیں ٹہلاتا رہا ہوں جس کیلئے میں ان سے معذرت خواہ ہوں ۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جو قارئین مجھے مُلا ۔ انتہاء پسند اور جاہل سمجھتے اور لکھتے رہتے ہیں اُنہیں میری ہیئت دیکھ کر کسی قسم کی پریشانی ہو ۔ لیکن کسی نے کہا ہے سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔ سو قبل اس کے کہ کوئی واقفِ حال مہربان میرا تاریخ و جغرافیہ بیان کر دیں میں نے سوچا کہ پردا اُٹھا دیا جائے ۔

 انجنئرنگ کالج 1959 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاہور 1964 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شادی نومبر 1967

 

 

 

 

 

طرابلس ۔ لبیا 1979 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واہ چھاؤنی 1990 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتھیا گلی 2004

میری پسند

سُنا تھا ” عطائے تُو بلقائے تُو ” سو  اظہرالحق صاحب نے میرے ساتھ وہی کیا ہے اور گیند واپس میری طرف پھینک دی ہے اور میری بچپن سے عادت ہے کہ میں اپنی پسند کسی کو نہیں بتاتا اور جو کام دوسرا کرے اور وہ اچھا ہو تو میں کہہ دیتا ہوں یہی مجھے پسند ہے ۔ میری اس عادت کی وجہ سے میں نے کئی بار والد صاحب [اللہ جنت نصیب کرے] سے ڈانٹ کھائی ۔ والدہ محترمہ [اللہ جنت نصیب کرے] میری اس عادت سے بہت تذبذب ہوتی تھیں گو مجھ سے باقی اولاد کی نسبت زیادہ پیار کرتی تھیں ۔ لیکن اب مجبوری ہے کیونکہ جوان کہیں گے پھنس گیا نہ بُڈھا ۔ ہی ہی ہی ہی ہی ۔

سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مُجھے محبت ہے اور میں غلام ہوں اللہ سُبْحَانُہُ و تَعَالٰی کا جس نے مجھے بیش قیمت اور اَن گِنت نعمتوں سے نوازہ اور مسلسل نوازتا رہتا ہے ۔ اگر ہزاروں سال کی عمر پاؤں اور کُل عمر اللہ کے حضور سجدے میں گِر کر اُس کا شُکر ادا کرتا رہوں تو بھی شُکر کا حق ادا نہ ہو ۔ لیکن میں کتنا ناشُکرا ہوں کہ ایسا نہیں کرتا ۔ میری سب سے  اِستدعا ہے کہ میرے حق میں دعا کریں ۔

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے میرے اللہ کا مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

1 ۔ [پسند] مُحبت مجھے اُن جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
2 ۔ پسند ہے اور عقیدت ہے اُس ماں سے جو اپنی اولاد کو اچھی تربیت دیتی ہے
3 ۔ پسند ہے وہ باپ جو صرف رزقِ حلال کماتا ہے ۔
4 ۔ پسند ہے وہ شخص جو کسی کی دل آزاری نہیں کرتا
5 ۔ پسند ہے وہ جوان جو انسانی خدمت کیلئے آگے بڑھتا ہے
6 ۔ پسند ہے وہ بچہ یا بچی جو خلوصِ نیت سے اچھی تعلیم حاصل کرنے میں سگرداں ہے
7 ۔ پسند ہے وہ اولاد جو اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے
8 ۔ پسند ہے وہ شخص جو بغیر جتائے ضرورتمند کی مدد کرے
9 ۔ پسند ہے اور احترام ہے اُس اُستاذ یا اُستاذہ کا جو خلوص و محنت سے طلباء یا طالبات کو پڑھائے
10 ۔ پسند ہے اور عقیدت ہے ہر اُس بوڑھے مرد یا خاتون سے جو جوانوں کی صحیح سمت راہنمائی کرے

شخص سے مُراد لڑکیاں لڑکے خواتین و حضرات

وطن سے دور بسنے والوں کے احساسات

ميں 1967 ميں وطن سے دور جرمنی کے شہر ڈوسل ڈَورف ميں تھا ۔ عيد کا دن تھا ۔ ڈوسل ڈَورف کی گہما گہمی کے باوجود محسوس کر رہا تھاکے ميں کسی بياباں يا صحرا ميں بالکل اکيلا ہوں جہاں کوئی چرِند پرِند بھی نہيں ۔ کچھ دير گُم سُم رہا پھر وطن کی ہر چيز ذہن ميں متحرک ہو گئی ۔ اُس دن جو شعر ميں دہراتا رہا يہاں درج کر رہا ہوں

چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی
پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی

وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حرِيمِ جمال
وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عرُوجِ کمال
وطن کہ سُرمہءِ چشم طلب ہے خاک اس کی
وطن کہ شہرِنغمہءِ نکہت ۔ ديارِ حُسن و جمال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے
وطن کہ جہاں ميری شمعءِ وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے دِيپ جلتے ہيں
وطن جو يوسفِ بے کارواں کا کنعاں ہے

ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صباء
گُلوں سے کہنا کہ پيغمبرِ بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل
چمن کا روپ ہوں ميں ۔ حُسنِ لالہ زار ہوں ميں

ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے
روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پُکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيامِ يار آئے
ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے