Category Archives: آپ بيتی

میری ہتھیلیوں ميں کانٹے

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور اُن دنوں اُن کی تعیناتی برفانی علاقہ گلگت بلتستان میں تھی ۔ آخر ستمبر 1947 ء میں پتہ چلا کہ ان کے بیوی بچے ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہے ہیں ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ لوگ ہم 6 بچوں کو ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو سيکنڈ کزن اور ايک اُن کی پھوپھی [16 سولہ سال کی] ان کے ساتھ چلے گئے ۔ جو کچھ گھر ميں موجود تھا اُس ميں سے کچھ آٹا چاول ۔ دالیں ۔ ایک لٹر تیل زیتون اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو “جے ہند” اور” ست سری اکال” کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتہ چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملے کرنے کے لئے کبھی وہاں سے بھی گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے

کھانا پکانے کے لئے میں اپنے سيکنڈ کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک ہم واپس نہ آتے ہماری بہنیں ہماری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ايک دن تو ہم واپس آئے تو ہماری بہنوں سميت سب خواتين کو نماز جيسی حالت ميں ديکھا ۔ وجہ ہميں کسی نے نہ بتائی ۔ دروازہ ميری سيکنڈ کزن نے کھولا جو ہم چھ ميں سے سب سے بڑی [17 سال کی] تھيں ۔ مجھے پيار کيا پھر ميرے دونوں ہاتھوں کی ہتھليوں کو چوما اور چند لمحے ديکھتی ہی رہ گئيں ۔ ميں نے ديکھا اُن کی آنکھوں سے برسات جاری تھی ۔ اچانک اُنہوں نے منہ پھير کر آنسو پونچھے اور پھر اپنے بھائی کو گلے لگايا ۔ اسی لمحے کرنل عبدالمجيد صاحب کی بيوی آئيں اور ميرے اور پھر ميرے سيکنڈ کزن کے سر پر ہاتھ پھير کر دعائيں ديں

ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو اُبلے ہوئے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف اُبلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے

سچ کيا ہے ؟

محترمات قاريات و محترمان قارئين ۔ السلام عليکم و رحمة اللہ و برکاة
ميں نے 28 ستمبر کو حادثہ پيش آنے سے چند روز پہلے ” يومِ يکجہتی جموں کشمير” کے حوالے سے ايک تحرير لکھ کر محفوظ کر لی تھی جو ايک کلک کے انتظار ميں تھی چنانچہ دن کے حوالے سے 24 اکتوبر 2010ء کو شائع کر دی تھی ۔ پھر 25 اکتوبر کو 3 مختصر سی تحارير شائع کرنا پڑيں ۔ اپنی غيرحاضری کا سبب پچھلے 3 دن سے تھوڑا تھوڑا لکھ کر محفوظ کرتا رہا جو آج پيشِ خدمت ہے

جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فرما ديا اور قرآن شريف کی صورت ميں محفوظ ہے اس کے ساتھ جو آخری نبی اور رسول سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی حديث ہے
وہ سچ ہے
جو اس کے مطابق نہيں وہ جھوٹ ہے
بے شک اللہ ہی ہے جس نے اس کائنات کو پيدا کيا اور اس کا نظام چلاتا ہے
ميں آج 28 دن کے بعد پھر لکھ رہا ہوں ۔ يہ بھی اللہ کی قدرت کا ايک بہت ہی معمولی سا کرشمہ ہے

ميں بہت احسانمند ہوں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا اور شکر گذار اُن تمام محترمات اور محترمان کا جو ميری غير حاضری سے متفکر ہوئے بالخصوص اُن کا جنہوں نے ميری صحت کيلئے دعا کی ۔ اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو سدا صحتمند خوش اور خوشحال رکھے ۔ اللہ کريم آپ کا اور اُن کا بھی بھلا کرے جنہوں نے ميرے بارے ميں سوچا بھی نہيں
ميری حقيقت صرف اتنی سی ہے کہ ميں ايک ادنٰی سا انسان ہوں
جس نے ميرے متعلق سوچا وہ اُس کی خُوبی ہے اور جس نے ميرے لئے دعا کی وہ اُس کی دريا دِلی ہے اور جس نے توجہ نہ دی وہ کسی اہم کام ميں مصروف رہا ہو گا

ميں 28 ستمبر 2010ء کو الرشيد ہسپتال ميں ناک گلا کان کے ڈاکٹر [ENT Specialist] سے معائنہ کے بعد شام 7 بج کر 5 منٹ پر دوہری سڑک جس کی ہر سُو دو دو لينز [lane] ہيں کے کنارے کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا کہ ٹريفک تھمے تو ميں سڑک پار کروں ۔ کوئی 5 منٹ بعد ميرے سامنے والی لين ميں ٹريفک بند ہو گيا ۔ ميں نے ديکھا کہ اس کے بعد والی لين ميں 4 کاريں آ رہی ہيں کہ ہر دو ميں کافی فاصلہ ہے ۔ ميں نے ايک لين عبور کی کہ دوسری لين ايک کار گذرنے کے بعد ميں آسانی سے پار کر لوں گا ۔ ايک لين پار کرنے کے بعد ميں نے ديکھا کہ اگلی کار تيز ہو گئی ہے ۔ ميں دوڑ کر جا سکتا تھا مگر خطرہ مول نہ ليا اور کھڑا ہو گيا ۔ اس کے بعد آنے والی دونوں کاريں بھی تيز ہو گئيں ۔ واپس جانا چاہا تو ميرے پيچھے بھی گاڑيا ں فر فر گذرنے لگيں ۔ ميں سفيد لکير پر کھڑا ہو کر داہنی طرف ديکھنے لگ گيا ۔ چھ سات منٹ بعد ميں نے ديکھا کہ 7 کاروں کے بعد فاصلہ دے کر ايک رکشا آ رہا ہے ۔ ميری گردن داہنے ديکھتے تھک گئی تھی ۔ گاڑياں ميرے سامنے اور پيچھے بھی ڈھائی تين فُٹ کا فاصلہ چھوڑ کر نکل رہی تھيں اسلئے کوئی خطرہ محسوس نہ کيا اور سامنے ديکھنے لگا ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ مجھے کچھ ياد نہيں

ميں نے آنکھ کھولی تو ميں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت [I.C.U = Intensive Care Unit] کے کمرہ ميں تھا اور گلو کوز کی ڈرِپ لگی ہوئی تھی ۔ سر اُٹھانے کی کوشش کی تو ميری چارپائی اور کمرہ گھومنے لگے اور ميں پھر غائب ۔ کچھ دير بعد ہوش آيا ۔ ميں نے پوچھا کيا بجا ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ پہلی بار ميں نے 20 گھنٹے بيہوش رہنے کے بعد آنکھ کھولی تھی ۔ 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہنے کے بعد گھر آ گيا مگر اس ھدائت کے ساتھ کہ آرام سے ليٹے رہنا ہے اور سر کو بالکل نہيں ہلانا ۔ دوسرے مجھے اُٹھائيں اور لٹائيں گے اس طرح کہ سر کو کسی قسم کا ضعف نہ پہنچے ۔ آج 28 دن ہو گئے ہيں مگر سجدہ رکوع کرنے يا سر کو آگے پيچھے جھُکانے يا داہنے بائيں موڑنے کی ابھی اجاز ت نہيں ۔ نماز صرف اشاروں سے پڑھتا ہوں ۔ چکروں کو روکنے ۔ اعصاب کو مضبوط کرنے اور خون بڑھانے کيلئے دوائياں دی گئی ہيں جو کھا رہا ہوں ۔ خون کافی بہہ جانے کی وجہ سے ہيموگلوبن 10 گرام رہ گئی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے کہ 6 دن سے کھانے والے کمرے ميں جا کر کھانا کھا رہا ہوں

حادثہ کے فوراً بعد چھوٹا بيٹا “فوزی” دبئی سے پہنچ گيا تھا ۔ وہ اپنی پوری چھٹی گذار کر ايک ہفتہ قبل ہی دبئی پہنچا تھا چنانچہ ايمر جنسی کی چھٹی پر آيا اور 6 دن بعد چلا گيا ۔ پھر بڑا بيٹا “زکريا” اٹلانٹا ۔ جارجيا ۔ امريکا سے آ گيا اور 2 ہفتے رہا ۔ ان سے بڑا سہارا رہا ۔ دن رات ميرا خيال رکھتے رہے چنانچہ ميری بيوی اور بيٹی کو بھی کچھ آرام مل گيا

حادثہ کے 11 دن بعد کوئی عزيز ميری بيمار پُرسی کيلئے آئے تو بيٹا “زکريا” اور بيوی دونوں مجھے چھوڑ کر گئے اور 10 منٹ اُن کے ساتھ مشغول رہے ۔ مجھے واش روم جانا تھا ۔ ميرا موبائل فون سيٹ حادثہ کے وقت گم ہو گيا تھا ۔ دوسرے ٹيليفون سے بيٹے يا بيوی کے موبائل فون پر بات کرنا چاہی تو ان کے نمبر ہی ياد نہ آ سکے ۔ احساس ہوا کہ ميری ياد داشت کھو چکی ہے ۔ اللہ کی نہائت کرم نوازی ہے کہ ميں بتدريج تندرست ہو رہا ہوں ۔ اب آہستہ آہستہ باتيں ياد آ رہی ہيں ليکن حادثہ سے کچھ منٹ پہلے سے لے کر حادثہ کے بعد کا مجھے کچھ ياد نہيں

مجھے بتايا گيا ہے کہ ايک تيز رفتار موٹر سائيکل اچانک کہيں سے نمودار ہوا اور مجھے زمين سے اُچھال ديا ۔ ميں موٹر سائيکل کے اُوپر سے ہوتا ہوا پيچھے چہرے کے بَل سڑک پر گرا ۔ ميری پتلون دائيں طرف کی جيب کے پيچھے سے پھٹ کر موٹر سائيکل کے ساتھ اٹک گئی تھی اور موٹر سائيکل گرنے تک ميرا سر سڑک سے اور ٹانگيں شايد موٹر سائيکل کے ساتھ ٹکراتی رہيں پھر لوگ مجھے اُٹھا کر الرشيد ہسپتال لے گئے ۔ 15 منٹ کے اندر ريسکيو 1122 کی ايمبولنس آ گئی اور مجھے لاہور جنرل ہسپتال لے گئی جہاں ميری بہت اچھی ديکھ بھال کی گئی ۔ سی ٹی سکين کے مطابق
1 . Basal Skull Fracture
2. Incident Cyst at posterior Fossa
3. Calcification along superior Sajital Sinus

ميرے جسم پر 24 زخم اور 10 چوٹيں آئی تھيں جن ميں سے سر کی چوٹ سب سے شديد اور خطرناک کہی گئی جس کا نتيجہ مندرجہ ذيل ہو سکتا تھا
1 ۔ موت يا
2 ۔ مستقل بيہوشی [Coma] يا
3 ۔ بينائی ضائع يا
4 ۔ دماغی توازن بگڑنا [پاگل پن] یا
5. یاد داشت ختم ہو جائے گی

ميرے ماتھے پر تين گہرے اور لمبے زخم تھے جن پر کافی ٹانکے لگے
ناک پر شديد ضرب کی وجہ سے زيادہ خون نکلا جو پيٹ ميں جاتا رہا ۔ ميں نے بعد ميں خون کی 4 قے کيں
اُوپر والا جبڑا پيچھے چلا گيا تھا جس کی وجہ سے منہ نہيں کھُلتا تھا ۔ اب اللہ کے فضل سے ٹھيک ہے مگر سامنے کے دانتوں ميں ابھی بھی درد ہے ۔ زخم سارے تقريباً ٹھيک ہو گئے ہيں ۔ جہاں جہاں چوٹوں کی وجہ سے گلٹياں پڑی ہيں وہ موجود ہيں اور ہاتھ لگانے سے درد ہوتا ہے
۔ ناک ابھی تک سُن [Numb] ہے اور خوشبُو يا بدبُو کی حِس معطل ہے ۔ کان بند ہو گئے تھے ۔ کچھ دنوں سے تھوڑا سنائی دينے لگ گيا مگر عام آواز سنائی نہيں ديتی اور زيادہ اونچا کوئی بولے تو آواز پھٹ جاتی ہے اور کچھ سمجھ ميں نہيں آتا ۔ ايک خاص سطح پر بات سمجھ آتی ہے ۔ ڈاکٹر کہتے ہيں سر کو شديد چوٹ لگنے کی وجہ سے ايسا ہوا ۔ درست ہونے ميں مزيد چار پانچ ماہ لگيں گے

آئی سی يو کے انچارج ڈاکٹر ۔ سرجری کے پروفيسر ۔ ہسپتال ميں پروفيسر نيورولوجِسٹ [Neurologist] اور جس پروفيسر نيورولوجِسٹ کا ميں اب علاج کروا رہا ہوں [لاہور کا بہترين نيورولوجِسٹ] سب نے بار بار کہا “سر کی چوٹ بہت خطر ناک ہے مگر بچت ہو گئی ہے

مہربان قاريات اور قارئين سے دعا کی درخواست ہے کہ جب تلک زندگی ہے اللہ مجھے بقائمیءِ ہوش و حواس چلتا پھرتا رکھے

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ سے پہلے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حادثہ کے 20 دن بعد

لاہور ميں ايک سال

ہم 18 جولائی 2009ء کو لاہور منتقل ہوئے تھے سو ہميں لاہور ميں رہائش اختيار کئے ايک سال ہو گياہے ۔ اس ميں کيا تجربات ہوئے ۔ لاہور کو اور لاہوريوں کو کيسا پايا ؟ لکھنے کا حق بنتا ہے ۔ لاہور پنجاب کا دارالحکومت ہونے کے علاوہ بہت پرانا ثقافتی مرکز ہے اور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ کہتے ہيں کہ جو تحريک لاہور سے اُٹھے يا جس تحريک ميں لاہور شامل ہو جائے وہ کامياب ہوتی ہے ۔ ميرا اپنا آدھی صدی کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ يہ دعوٰی قرينِ قياس ہے

مجھے پچھلے ايک سال کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ يہاں صرف پنجابی نہيں رہتے بلکہ دوسرے صوبوں کے بھی بہت سے لوگ رہتے ہيں اور خاص کر کراچی والوں نے يہاں کئی کاروبار سنبھال رکھے ہيں ۔ اُن سب کا پکا ڈيرہ اپنے صوبوں اور شہروں ميں ہی ہے جہاں کا چکر وہ گاہے بگاہے لگاتے رہتے ہيں ۔ لاہور کے مضافات ميں ايک لياقت آباد بھی ہے اور بہاری کالونی بھی جہاں کے باسی زيادہ تر بہار اور يو پی يا سی پی يا کراچی سے آئے ہوئے لوگ ہيں

لاہور ميں جون کی گرمی ميں نے آدھی صدی بعد ديکھی يعنی کالج کے زمانہ کے بعد ۔ لاہور ميں زيادہ رونق مغرب کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ اتنی گرمی ميں جبکہ درجہ حرارت 45 سے 47 درجے سيلسيئس تک پہنچ گيا تھا لاہور کی رونقوں ميں کوئی خاص کمی نہيں ہوئی

لاہور ميں عام طور پر لوگ مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ مثال کے طور پر ميں شروع شروع ميں گھر کا کچھ سامان خريدنے نکلا ۔ کسی نے کہا “فلاں مارکيٹ چلے جاؤ” وہاں گيا گاڑی پارک کی ۔ اِدھر اُدھر ديکھا مگر ميرے مطلب کی دکان نظر نہ آئی ۔ ايک دکاندار سے پوچھا ۔ وہ اپنی دکان سے نکلا کچھ قدم ميرے ساتھ چلا اور پھر کہا “وہ بنک کا بورڈ نظر آ رہا ہے نا ۔ اس کے ساتھ دوسری طرف ايسی تين چار دکانيں ہيں وہاں سے سب کچھ مل جائے گا”۔ ايسا بعد ميں متعدد بار ہوا ۔ جسے معلوم نہ ہو وہ کسی اور سے معلوم کر ديتا ۔ اسلام آباد ۔ راولپنڈی اور کراچی ميں اول تو کوئی بات سننے کو تيار نہيں ہوتا اور اگر سن لے تو عام طور پر اُلٹا راستہ بتا ديتے ہيں

لاہور ميں کھانے جيسا چاہيں کھا سکتے ہيں اور اپنی جيب کے مطابق ۔ کھانا اچھا پکا ہوتا ہے ۔ يہ کوئی نئی بات نہيں آدھی صدی قبل جب ميں لاہور ميں پڑھتا تھا تب بھی يہی صورتِ حال تھی

لاہور کے عام لوگ اچھی طرح پيش آتے ہيں ۔ جب کوئی چيز نہ ملے تو اول دکاندار خود ہی کہہ ديتا ہے کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی يا آپ پوچھيں تو بتا دے گا کہ فلاں جگہ سے مل جائے گی ۔ راولپنڈی ۔ اسلام آباد اور کراچی کا ميرا تجربہ ہے کہ دکاندار کے اپنے پاس جو چيز نہ ہو کہہ دے گا کہ کہيں بھی نہيں ملے گی

چوراہے پر بتی سبز ہو جانے کے بعد گاڑياں چلنے ميں ضرورت سے زيادہ وقت لگتا تھا ۔ شروع ميں مجھے سمجھ نہ آئی کہ معاملہ کيا ہے ۔ کئی ماہ بعد پتہ چلا کہ لوگ پٹرول يا گيس بچانے کيلئے انجن بند کر ديتے ہيں اور جب بتی سبز ہوتی ہے تو گاڑی سٹارٹ کرتے ہيں اور کبھی کبھی گاڑی سٹارٹ نہيں ہوتی اور بتی پھر سُرخ ہو جاتی ہے

جب سڑک پر گاڑيوں کی بھيڑ ہو تو ہر گاڑی والا آگے نکالنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے ليکن جونہی کھُلی سڑک ملے مزے سے 40 کلو ميٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتےجا رہے ہوتے ہيں پيچھے چاہے کوئی دفتر يا ہسپتال پہنچنے کيلئے پريشان ہو

پيدل سڑک پار کرنا ہو تو مجال ہے کوئی گاڑی والا سڑک پار کرنے دے

بڑی گاڑيوں والے يا بڑے لوگوں کے نوجوان بيٹے بيٹياں سڑکوں پر گاڑياں چلاتے ہوئے باقی لوگوں کو کيڑے مکوڑے سمجھتے ہيں ۔ ايسا شايد سارے مُلک ميں ہے

وزيرِ اعلی کی سواری ہمارے قريب والی سڑک ڈی ايچ اے مين بليوارڈ سے گذرا کرتی ہے جس کيلئے 5 سے 15 منٹ تک مين بليوارڈ ميں داخل ہونے سے رکنا پڑتا ہے ۔ اسلام آباد ميں گھنٹوں کے حساب سے رُکنا پڑتا تھا

سڑک پر گاڑی چلاتے ہوئے ميں موٹر سائيکلوں اور ويگنوں کے علاوہ دو قسم کی گاڑيوں سے بہت ڈرتا ہوں کيونکہ کچھ معلوم نہيں ہوتا کہ کب وہ کس طرف مڑ جائے ۔ اچانک بريک لگائے يا گھسڑم گھساڑ کرتے ہوئے ميری گاڑی کو مار دے
ايک ۔ جسے عورت چلا رہی ہو
دو ۔ جس کا رجسٹريشن نمبر سندھ کا ہو

کيا ہم بہتری چاہتے ہيں ؟

اگر اپنے ہموطنوں سے پوچھاجائے ” کيا آپ بہتری چاہتے ہيں ؟”
تو 100 فيصد جواب ” ہاں” ميں ملے گا
پھر کہا جائے ” اس کيلئے کوشش کريں گے ؟”
تو جواب ماٹھا سا ہو گا ۔ بہت کم ہوں گے جو اس کيلئے کوشش کريں گے ۔ ميں اس سلسلہ ميں درجنوں واقعات سے گذر چکا ہوں جن ميں سے صرف 3 تازہ اور ايک پرانا يہاں لکھ رہا ہوں

ہم جولائی 2009ء ميں لاہور آئے تو ہماری رہائشگاہ کی بجلی جلتی بجھتی تھی ۔ محلے والوں سے پوچھا کہ ” بجلی کی شکائت کا دفتر کہاں ہے ؟” تو جواب ملا ” کوئی فائدہ نہيں جی ۔ يہاں کوئی نہيں پوچھتا ۔ اليکٹريشن کو بلا کر خود ہی درست کروا ليں”۔ اليکٹريشن کو بلايا ۔ سارے گھر کی چيکنگ اس نے کی اور پيسے لے کر کہنے لگا “خرابی گھر سے باہر ہے ۔ بجلی کمپنی والا آ کے ٹھيک کرے گا”۔ محلے ميں کسی کو معلوم نہ تھا کہ شکائت کا دفتر کہاں ہے ۔ ميں نکلا اور بڑی سڑک پر جا کر پوچھنا شروع کيا آخر ايک نوجوان نے مجھے ان کے دفتر کا پتہ بتايا ۔ ميں نے وہاں پہنچ کر شکائت درج کرائی ۔ اُسی دن آدمی آيا اور درست کر کے چلا گيا

سرديوں کا موسم آيا تو گيس کا پريشر بہت کم ہو گيا ۔ اس بار ميں نے محلہ والوں سے بات کرنے کی بجائے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھ کر شکائت درج کرائی ۔ اُنہوں نے کہا ” آدمی 48 گھنٹے کے اندر آئے گا”۔ ليکن آدمی 24 گھنٹے سے بھی پہلے اتوار کے دن آ گيا اور ٹھيک کر گيا ۔ دوسرے دن ايک محلے دار کا ٹيليفون آيا کہ “ہماری گيس بھی ٹھيک کروا ديں”۔ ميں نے اُن سے کہا ” اپنے گيس کے بل پر ٹيليفون نمبر ديکھيئے اور شکائت درج کروا ديجئے”۔ مگر انہوں نے کچھ نہ کيا

مئی جون 2010ء ميں سيور لائين بھری رہتی تھی اور گھر کے اندر تک يہی صورتِ حال ہوتی تھی جس کی وجہ سے غسلخانہ ميں بدبُو آتی تھی ۔ ميں مقامی متعلقہ اہلکار کو بار بار کہتا رہا مگر کوئی فائدہ نہيں ہو رہا تھا پھر ميں نے اپنی گلی کے رہائشيوں سے رابطہ کيا ۔ انہوں نے بھی اس وجہ سے پريشانی ظاہر کی ۔ ميں نے اُن سے درخواست کی کہ ” آپ بھی متعلقہ اہلکار پر زور ڈالئے”۔ سب نے ہاں کہا مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ 10 دن انتظار کے بعد ميں نے کالونی کے ہيڈ آفس کا ٹيليفون نمبر معلوم کيا اور وہاں رابطہ شروع کيا ۔ ہوتے ہوتے پتہ چل گيا کہ ہماری کالونی کے انچارج کون ہيں ۔ وہ زيادہ تر دفتر سے باہر ہی رہتے تھے ۔ آخر دفتر والوں نے ان کا موبائل فون نمبر ديا ۔ اُن سے رابطہ ہوا تو ساری بات بتائی ۔ اُسی دن یعنی 25 جون 2010ء کو صفائی ہو گئی اور اب تک سيور لائين ميں پانی کھڑا نہيں ہوا

ايک واقعہ پرانا ہے ۔ ہم 7 انجنيئرز کو 1976ء ميں ملک سے باہر بھيجا گيا ۔ تنخواہ ميزبان ملک نے دينا تھی ۔ تنخواہ ملنے پر معلوم ہوا کہ 20 فيصد ہماری حکومت نے کاٹ ليا ہے ۔ يہ پاکستان کے قانون کے خلاف تھا ۔ ميں نے باقی 6 ساتھيوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور منت کی کہ سب پاکستان ميں اپنے ادارے کو لکھيں کہ يہ پيسے نہ کاٹے جائيں مگر کسی نے کچھ نہ کيا ۔ صرف ميں نے لکھ کر بھيج ديا ۔ ميں 1979ء کے آخر ميں پاکستان آيا تو اپنے ادارے سے معلوم ہوا کہ ميری درخواست پر کوئی کاروائی اسلئے نہيں کی گئی کہ ميرے 2 ساتھيوں نے لکھ کر بھيج ديا تھا کہ “ہميں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے”۔ خاصی تگ و دو کے بعد 1980ء ميں کاروائی شروع ہوئی ۔ 1983ء ميں جب ہم ملک ميں واپس آئے تو کيس چل رہا تھا مگر فيصلہ نہيں ہوا تھا ۔ منسٹری نے کچھ معلومات چاہئيں تھیں اور ايک اعتراض بھی تھا کہ 7 آدميوں ميں سے صرف ايک کی درخواست آئی باقی کيا کہتے ہيں ۔ ميں نے پھر سب کی منت کی کہ “اب ہی درخواست لکھ ديں ۔ کاروائی شروع ہو چکی ہے ۔ اِن شاء اللہ يہ کٹی ہوئی رقم واپس مل جائے گی”۔ صرف دو ساتھيوں نے لکھ کر ديا ۔ ہمارے ادارے نے لکھ بھيجا کہ 3 درخواستيں تحريری طور پر آئی ہيں باقی 4 زبانی بار بار درخواست کر چکے ہيں ۔ خير کيس چلتا رہا ۔ آخر 1990ء ميں نوٹيفيکيشن جاری کر ديا گيا ۔ اس وقت تک 4 ساتھی ريٹائر ہو چکے تھے ۔ جو موجود تھے اُنہوں نے خود رقم وصول کر لی ۔ باقيوں کو بنک ڈرافٹ کے ذريعہ رقميں بھجوا دی گئيں جو 70000سے 90000 روپے تک فی شخص تھيں

جن 2 ساتھيوں نے لکھ کر ديا تھا کہ اُنہيں 20 فيصد کٹوتی منظور ہے اُن ميں سے ايک لاہور ميں تھے ۔ رقم ملنے کے بعد اُنہيں جو بھی ميرے ملنے والا ملا اُس سے کہا “اجمل ميرے پيسے کھا گيا ہے پورے نہيں بھيجے” ۔ ميرے ہاتھ ميں تو پيسے آئے ہی نہ تھے ۔ اکاؤنٹ آفيسر کہتا تھا کہ خود آ کر ليں ۔ ميرے منت کرنے پر بنک ڈرافٹ کی فيس اور رجسٹری کا خرچ کاٹ کر اُنہوں نے بھيج ديئے ۔ ان صاحب کی دريا دِلی کا يہ حال کہ 1989ء ميں ايک شخص آيا اور مجھے ايک سينٹی ميٹر يعنی آدھے انچ سے کم چوڑا اور 4 سينٹی ميٹر يعنی ڈيڑھ انچ سے کم لمبا کاغذ کا پرزہ ديا کہ يہ فلاں صاحب نے بھيجا ہے اور کہا ہے کہ in writing جواب لے کر آنا ۔ اس ننھے سے پرزے پر باريک سا لکھا تھا What about money ۔ ان 2 صاحبان کی وجہ سے کاروائی ساڑھے 3 سال کی تاخير سے شروع ہوئی چنانچہ کيس ٹائم بار ہو گيا اور جو منظوری 1985ء تک ہو جانا چاہيئے تھی وہ 1990ء ميں ہوئی

جس قوم کے اکثر افراد کی يہ حالت ہو کہ وہ اپنے لئے بھی ذرا سی تکليف نہ کريں مگر حصہ دو گُنا چاہيں تو اس مُلک ميں بہتری کيسے آ سکتی ہے ؟

سکھوں کی باتيں

محمد رياض شاہد صاحب نے سوہنا پاکستان کے عنوان کے تحت سکھوں کے متعلق لکھا تھا ۔ اُن کی تحرير پڑھتے پڑھتے مجھے کچھ پرانے واقعات ياد آئے ۔ ميں نے وعدہ کيا تھا لکھنے کا ۔ الحمدللہ آج وعدہ پورا ہونے جا رہا ہے

آدھی صدی قبل جب ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں زيرِ تعليم تھا ميں لاہور سے راولپنڈی روانہ ہونے کے کيلئے گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈا پر پہنچا جو اُن دنوں ريلوے سٹيشن کے سامنے ہوتا تھا ۔ ميں نے پہلے سے نشست محفوظ کروائی ہوئی تھی مگر وہاں پہنچ کر مجھے کہا گيا “ذرا رُک جائيں”۔ بس چلنے کا وقت ہو گيا ۔ ميں نے دبے الفاظ ميں احتجاج کيا ۔ بس کے اندر سے آواز آئی “کيا بات ہے ؟” کنڈکٹر نے کہا ايک سواری ہے جس نے پہلے سے ٹکٹ ليا ہوا ہے”۔ پھر آواز آئی “کون ہے ؟” مجھے کنڈکٹر نے سامنے کيا ۔ ميں نے ديکھا کہ پوری بس سکھ عورتوں اور مردوں سے بھری ہے ۔ ايک بزرگ سکھ نے اپنے سے بڑے بزرگ سکھ سے کہا “کوئی گل نئيں جے اک سفر وچ تريمت نال وچھوڑا ہوے”۔ وہ صاحب اپنی بيوی کے ساتھ بيٹھے تھے ۔ مطلب تھا کہ اپنی بيوی کو پيچھے عورتوں ميں بھيج ديں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے پھر کسی اور بزرگ نے اُن کی محبت پر جملہ کسا مگر کوئی اثر نہ ہوا ۔ چند منٹ چہ مے گوئياں ہوئيں پھر ايک عورت نے کہا “کوئی گل نيئں اپنا وير اے “۔ پھر اپنے ساتھ والی عورت کو پيچھے بھيجتے ہوئے کہا ” آ وير ايتھے بہہ جا ۔ ساری واٹ کھلا تے نئيں رہنا”۔ ميں خاموش کھڑا رہا ۔ پھر بس ميں کافی ہلچل ہوئی ۔ ايک جوان نے اُٹھ کر کسی کو اِدھر سے اُدھر کسی کو اُدھر سے اِدھر کيا سوائے اُس بزرگ ترين جوڑے کے سب عورتوں کو اکٹھا کر کے آگے ايک نشست ايک مرد کے ساتھ خالی کرا دی جہاں ميں بيٹھ گيا ۔ وہ سفر بڑا ہی اچھا کٹا سارا راستہ لطيفے سنتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا ۔ اُس زمانہ ميں لاہور سے اسلام آباد بس 7 گھنٹے ميں پہنچتی تھی

ميں پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں اسسٹنٹ ورکس منيجر تھا اور واہ چھاؤنی ميں اپنی بہن بہنوئی کے ساتھ رہتا تھا ۔ 1964ء ميں سکھ ياتری پنجہ صاحب حسن ابدال آئے ۔ حسن ابدال کے ايک تاجر جو کسی زمانہ ميرے والد صاحب کے ملازم تھے سے رابطہ کيا کہ ہميں اس دوران پنجہ صاحب کی زيارت کا موقع مل جائے اُس نے ہم تينوں کيلئے اجازت نامہ حاصل کر ليا ۔ ہم پوليس کے ڈی ايس پی کی مدد سے پنجہ صاحب ميں داخل ہوئے تو اندر بہت اچھا گھريلو ماحول اور ميلے کا سا سماں پايا ۔ اندر داخل ہوتے ہی ہمارا تعارف سکھوں کے سربراہ سے کرايا گيا ۔ ميرے بہنوئی نے بتايا کہ ياتريوں کی موجودگی ميں آنے کا مقصد ان کے رسم و رواج سے واقف ہونا تھا ۔ اُس نے پہلے وہاں قريب موجود ايک خاندان سے ہمارا تعارف کرايا اور پھر ان سے کہا “کون جوان ان مہمانوں کو اچھی طرح سب کچھ دکھائے گا ؟” اُن ميں سے ايک راضی ہو گيا اور ہميں پوری قلعہ نما عمارت کے اندر پھرايا اور تمام سرگرميوں کی تفصيل بھی بتائی۔ آخر ميں ہمارے ساتھ اپنے پورے خاندان کی تصوير کچھوائی

ميں سرکاری کام سے 1966ء اور 1967ء ميں ڈوسل ڈورف جرمنی ميں تھا ۔ ميرے ساتھ ہمارے ادارے کے 3 اور انجنيئر بھی تھے ۔ ايک شام ميں اور ايک ساتھی انجيئر ڈوسل ڈارف کے مصروف علاقہ ميں جا رہے تھے کہ تين سکھ آتے ہوئے دکھائی ديئے ۔ ميرا ساتھی سُست رفتار تھا اور پيچھے رہ گيا تھا دوسرے ميں نے جرمنوں کی طرح کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ ميرے ساتھی نے انگريزی سوٹ اور ٹائی پہن رکھی تھی اور رنگ بھی سانولا تھا ۔ سکھوں نے ميرے ساتھی کو روک کر پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو ۔ اس نے پاکستان بتايا تو کہنے لگے کونسے شہر سے ؟ اس نے راولپنڈی بتايا تو اُنہوں نے اُسے گلے لگا ليا اور بولے “فير تے تُسی اپنے بھرا ہوئے”۔ بڑے خوش اُس سے پھر ملنے کا وعدہ لے کر چلے گئے ۔ وہ لوگ راولپنڈی سے 1947ء ميں جالندھر جا چکے تھے

سکھ اور ہندو ميں واضح فرق يہ ہے کہ سکھ ايک رب کو مانتے ہيں ۔ نہ تو بتوں کی پوجا کرتے ہيں اور نہ کسی ديوی ديوتا کو مانتے ہيں ۔ چند گورو ہيں جنہيں وہ اپنا رہبر سمجھتے ہيں ۔ گورو کا مطلب اُستاد يا رہبر ہوتا ہے ۔ اپنے مُردے جلاتے نہيں دفن کرتے ہيں ۔ ہمارے نبی سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی عزت کرتے ہيں ۔ ميں نے بچپن ميں سکھوں ميں ايک عجيب بات ديکھی کہ اپنے علاقہ ميں رہنے والے يا اپنے سکول ميں پڑھنے والے مسلمانوں کو بھائی کہہ ليں گے مگر ہندو کو نہيں

پاکستان بننے سے پہلے سکول ميں ميری جماعت ميں کُل 16 بچے تھے ۔ جن ميں 10 لڑکے اور 6 لڑکياں ۔ 4 لڑکے اور ايک لڑکی مسلمان ۔ ايک لڑکا سکھ ۔ 5 لڑکے ہندو تھے ۔ لڑکيوں ميں ايک سکھ ۔ ايک عيسائی اور 3 ہندو ۔ سکھ لڑکی کی مسلمان لڑکی کے ساتھ دوستی تھی اور سکھ لڑکے کی ہم 4 مسلمان لڑکوں کے ساتھ ۔ سکھ لڑکا صاف کہا کرتا تھا “يہ مٹی کے بتوں کو پوجنے والے کسی کے دوست نہيں”

سکھوں کو برہمنوں نے بيوقوف بنا کر 1947ء ميں مسلمانوں کا قتلِ عام کروايا تھا اس ڈر سے کہ سکھ اعتقاد کے لحاظ سے مسلمانوں کے قريب ہيں ۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تو پورا پنجاب نہيں تو کم از کم امرتسر چندی گڑھ پاکستان ميں چلا جائے گا اور ساتھ جموں کشمير بھی ۔ بعد ميں سکھوں کو سمجھ آ گئی تھی اور اُنہوں نے پاکستان يا مسلمان دُشمنی چھوڑ دی تھی ۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ بينظير بھٹو کے دورِ حکومت ميں سکھ تحريکِ آزادی کے متعلق جو معلومات پاکستان کے خُفيہ والوں کے پاس تھيں وہ بھارت دوستی کی خاطر بھارت کو پہنچا دی گئيں جس کے نتيجہ ميں بھارتی حکومت نے سکھوں کا قتلِ عام کيا اور خالصہ تحريک کا زور ٹوٹ گيا جس کے نتيجہ ميں بھارت نے يکسُو ہو کر پوری قوت کے ساتھ تحريک آزادی جموں کشمير کو کُچلنا شروع کيا

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ احتساب

ہم دولت کی لوٹ مار اور احتساب [Corruption and Accountability] کے الفاظ روزانہ اخبارات میں پڑھتے اور ٹی وی سے سُنتے ہیں اور لوگوں کے منہ سے بھی یہ الفاظ عام طور پر سُنے جاتے ہیں ۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو جانتے ہیں کہ لوٹ مار کے جو قصے ہم پڑھتے اور سُنتے ہیں یہ اصل کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔ لوٹ مار اور ہیرا پھیری تو ازل سے ہے لیکن چار دہائیاں قبل وطنِ عزیز میں اس میں اضافہ شروع ہوا جسے روکنے کی کوشش کرنا تو درکنار اُلٹا اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ عام آدمی کے ذہن کو درہم برہم [confuse] کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر اُن لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا جو اس جُرم میں ملوث نہ تھے

میرا یقین ہے کہ اگر آج بھی عوام میں سے 30 فیصد لوگ ہی دیانتدار اور معاشرے کو درست کرنے کی خواہاں ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ بڑے عہدیدار اور حکمران ہیرا پھیری کر سکیں ۔ ہماری قوم کا سانحہ [میں اسے سانحہ ہی کہتا ہوں] یہ ہے کہ عوام کی اکثریت بھی لوٹ مار میں ملوث ہے اور جو نہیں ہیں وہ اس سلسلہ میں کچھ کرنے کے روادار نہیں

رات میں ساڑھے دس بجے سونے کیلئے لیٹا ۔ میرا خیال ہے کہ گیارہ بجے تک میں سو گیا تھا ۔ آدھی رات پوَن بجے میری نیند کھُل گئی ۔ نمعلوم کیوں میرے ذہن میں کرپشن اور اکاؤنٹبِلیٹی آ گئی پھر میرے ذہن کے پردہ سیمیں پر ماضی کے نظارے گھومنے لگے ۔ سب نظارے گذرنے میں آدھا پونا گھنٹہ لگا ہو گا لیکن میرے ذہن کو اتنا مُنتشر کر گئے کہ میں پانچ بجے صبح تک جاگتا رہا اور نجانے کب نیند آئی کہ فجر کی نماز قضا ہو گئی ۔ سوچا ان میں سے چند واقعات لکھ دیئے جائیں ہو سکتا ہے اس سے کوئی نصیحت پکڑے ۔ نام سب فرضی لکھوں گا کیونکہ کسی کی تضحیک مقصود نہیں

میں نے یکم مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ اوائل 1965ء میں جب میں اسسٹنٹ ورکس منیجر سمال آرمز تھا میرے سینئر “ق” صاحب تھے جو بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے ۔ تمباکو کا پائپ پیتے تھے ۔ اُن کا تعلق ایک کھاتے پیتے اور پڑھے لکھے گھرانے سے تھا ۔ جرمنی سے مال آیا تو اُس میں سے ایک چھوٹا سا بنڈل ہاتھ میں پکڑے ایک فورمین جا رہے تھے ۔ میں نے پوچھا “یہ چھوٹا سا بنڈل کیا ہے ؟” مسکرا کر کہنے لگے “سر ۔ ان کا نام ریئر سائٹ کلینر [Rear Sight Cleaner] رکھا گیا ہے ۔ یہ جرمنی سے جی تھری کے نام پر درآمد کئے گئے ہیں مگر یہ ہیں پائپ کلینر جو میں “ق” صاحب کو دینے جا رہا ہوں”

کچھ ماہ بعد مجھے کسی دوسری فیکٹری کے اسسٹنٹ ورکس منیجر نے کہا “سُنا ہے آپ کی فیکٹری میں جرمنی سے کوئی سامان آیا ہے اُس میں شراب کی بوتلیں نکلیں ہیں”۔ میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ دوسرے دن میں نے اپنے ساتھی اسسٹنٹ ورکس منیجر سے ذکر کیا تو وہ کہنے لگے کہ بات درست ہے لیکن ہم چھوٹے لوگ ہیں بس خاموش رہیئے

کچھ سال بعد ایک سٹور ہولڈر میرے پاس گبھرائے ہوئے آئے ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے “صاحب ۔ میرے ساتھ چلئے”۔ مجھے وہ اپنے سٹور میں لے گئے ۔ تالا کھولا اور میرے اندر داخل ہوتے ہی خود داخل ہو کر اندر سے کُنڈی لگا دی پھر ایک کریٹ [crate] کا اُوپر کا تختہ اُٹھایا ۔ اُس میں ایک ایلومینم کی فولڈنگ [folding] میز تھی ۔ سٹور ہولڈر نے بتایا کہ نیچے چار فولڈنگ کرسیاں بھی ہیں ۔ پھر بولا “صاحب ۔ میں غریب آدمی ہوں مُفت میں مارا جاؤں گا”۔ میں نے اُسے تسلی دی اور سیدھا جا کر اپنے سینیئر “ق” صاحب کو بتا دیا ۔ “ق” صاحب نے کہا “اچھا میں پتہ کرتا ہوں”۔ میری نظریں “ق” صاحب کے چہرے پر تھیں جس پر مکمل سکون رہا ۔ دو دن بعد میں کسی کام سے “ق” صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بڑے صاحب کیلئے تھے

میں پروڈکشن منیجر تھا کہ 1969ء کے اواخر میں خبر نکلی کہ لکڑ خانے [Wood Working Factory] سے 2250 سی ایف ٹی [Cubic Foot] اول درجہ سیزنڈ [seasoned] دیودار کے سلِیپر کم ہو گئے ہیں اور انکوائری کا حکم دے دیا گیا ۔ بعد میں انکوائری کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ وہ لکڑی سالویج وُڈ [salvaged wood] کہہ کر سرکاری ٹرکوں پر راولپنڈی لیجائی گئی تھی جہاں ایک بڑے صاحب کا گھر بن رہا تھا ۔ میں نے کہا “پھر آپ نے کیا کیا ؟” جواب ملا بھائی غریب آدمی ہوں ۔ بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ اس عمر میں نکال دیا گیا تو کہیں اور نوکری بھی نہیں ملے گی”

میں مارچ 1983 سے ستمبر 1985 تک جنرل منیجر اور پرنسپل پی او ایف ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ ہر سال 200 بوائے آرٹیزن بھرتی کر کے اُنہین 3 سال تربیت دی جاتی تھی ۔ پہلے 2 سال ہر ایک کو 12 کاپیاں 96 صفحے یعنی 48 ورق والی دی جاتی تھیں ۔ 800 درجن کاپیاں خریدنا تھی ۔ میں اپنی ذاتی گاڑی پر واہ سے راولپنڈی گیا اور سٹیشنری کی دکانیں ديکھیں ۔ اُن سے بحث وغیرہ کر کے کوٹیشنز لیں ۔ سب سے سستی 26 روپے درجن ملی ۔ جب کاپیاں پہنچیں تو سٹاف اسسٹنٹ حيران ہوا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگا “سر ۔ پچھلے سال 36 روپے درج خریدی تھیں”۔ میں نے متعلقہ سپلائر کو ٹیلیفون کر کے کہا کہ ریکارڈ چیک کر کے بتائے کہ پچھلے سال اُس نے کاپیاں کیا بھاؤ دی تھیں ۔ دوسرے دن اُس نے بتایا “28 روپے درجن”۔ گویا پچھلے سال خریدنے والے کی جیب میں 6400 روپے گئے تھے

خاص قسم کی خراد مشینوں کیلئے آفرز مانگیں ۔ ان میں ایک میں لکھا تھا کہ “ایک سال قبل اُنہوں نے 10 مشینیں فلاں فیکٹری کو 12 لاکھ روپے فی مشین کے حساب سے سپلائی کی تھیں ۔ اب گو قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں مگر پرانی قیمت پر ہی سپلائی کریں گے” ۔ میں نے آئی ہوئی 6 آفرز کا پہلے فنی موازنہ اور پھر مالی موازنہ [Technical and Financial comparison] تیار کیا ۔ ان کی مشین سب سے اچھی تھی مگر قیمت صرف ایک ادنٰی مشین سے تھوڑی سی زیادہ تھی ۔ میں نے ان کے مندوب کو بلایا اور کہا “چائے کے وقت آپ آئیں گے تو میں چائے پلاؤں گا کھانے کے وقت آئیں گے تو کھانا کھلاؤں گا لیکن آپ سے میں پانی بھی نہیں پیئوں گا ۔ دیگر آپ کے بِل جمع کرانے کے 5 ہفتے کے اندر آپ کا چیک جاری ہو جائے گا ۔ آپ قیمت 30 فیصد کم کریں”۔ مندوب اپنی کرسی میں اُچھل گیا ۔ میں نے اُسے کہا کہ “یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے ۔ کراچی میں ہیڈ آفس والوں سے کہیئے کہ آپ کے پرنسیپلز کو لکھیں”۔ دوہفتے بعد وہ نئی کوٹیشن لے کر آیا فی مشین ساڑھے 9 لاکھ اور لمبی چوڑی کہانی سنائی ۔ ایک سال قبل جو 10 مشینیں آرڈر ہوئی تھیں اُس سودے میں 25 لاکھ روپیہ کس کس کی جیب میں گیا ؟

اسی دوران کی بات ہے کہ سی این سی مشینز [Computerised Numerical Control Machines] ٹریننگ سینٹر کیلئے آفرز منگوائی گئیں ۔ میں موازنہ تیار کر چکا تھا کہ بڑے باس کی طرف سے تجویز آ گئی کہ اس کمپنی کو آرڈر دوں ۔ میں نے آفر کا معائنہ کیا تو دُگنی قیمت ہونے کے علاوہ وہ آفر ہماری ضروریات پر پوری نہ اُترتی تھی اور مکمل بھی نہ تھی ۔ مین نے لکھ بھیجا ۔ پھر مشورہ آیا کہ اسے ہی آرڈر کروں ۔ میں نے خامیوں کی تفصیل کے ساتھ یہ بھی لکھ بھیجا کہ قیمت بہت زیادہ ہے اور ساتھ موزوں ترین آفر بھی لگا کر بھیج دی ۔ کچھ دن بعد میرا تبادلہ ہو گیا اور میری سالانہ رپورٹس اوسط ہونا شروع ہو گئیں جس کے باعث میری ترقی رُک گئی ۔ میرے بعد میں آنے والے صاحب نے اُس آفر کی سفارشات بنا کر بھیج دیں ۔ باس خوش ہو گئے اور اگلے سال اُن صاحب کی ترقی ہو گئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ایک ٹیلیفون کال

ہاں ۔ ایک ٹیلیفون کال جو میں آج تک نہیں بھُلا سکا ۔ محمد خُرم بشیر بھٹی صاحب نے پردیسی کی روداد بیان کی ۔ غیر ملک میں ایک پاکستانی کی کیفیت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے

یہ واقعہ ہے 1983ء یا 1984ء کا ہم لبیا سے واپس آ چکے تھے اور راولپنڈی سیٹیلائیٹ ٹاؤن اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ میں روزانہ راولپنڈی سے واہ نوکری پر جاتا اور آتا تھا کیونکہ واہ میں ابھی سرکاری رہائشگاہ نہ ملی تھی ۔ عید کا دن تھا ۔ نماز پڑھ کر واپس آیا ہی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ ٹیلیفون اُٹھا کر السلام علیکم کہا تو آواز آئی “میں بہت دیر سے لاہور ٹیلیفون کر رہا ہوں”
میں نے بات کاٹ کر کہا “یہ تو راولپنڈی ۔۔۔”
ابھی میرا فقرہ پورا نہ ہوا تھا کہ اس نے منت کے لہجہ میں کہا ” ٹیلیفون بند نہ کریں ۔ میں امریکہ سے بول رہا ہوں ۔ میرا گھر لاہور میں ہے ۔ آج عید ہے میرا بہت دل چاہا کہ اپنے شہر کے کسی آدمی سے بات کروں ۔ کئی گھنٹے کوشش کے باوجود کسی سے بات نہ ہو سکی پھر میں نے یونہی یہ نمبر ملایا تو مل گیا ۔ بس آپ باتیں کیجئے اور مجھے میرے وطن اور میرے شہر کا بتایئے”

میں اس کے ساتھ کافی دیر باتیں کرتا رہا ۔ بالآخر میں نے اُسے کہا ” مجھے لاہور اپنے گھر کا ٹیلیفون نمبر یا پتہ لکھا دیں ۔ میں آپ کے گھر والوں کو آپ کا سلام اور عید مبارک پہنچا دوں گا ”

وہ کہنے لگا ” میرے والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں اور میرا کوئی سگا بہن بھائی نہیں ۔ میں کس کو پیغام بھیجوں ؟ اپنے شہر کے کسی آدمی سے باتیں کرنا چاہتا تھا ۔ آپ سے باتیں کر کے میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے اور میرے وطن کو بھی سلامت رکھے”