Category Archives: آپ بيتی

جموں میں تعلیم و سیاست اور ہندوؤں کا رویّہ

جموں میں تعلیم و سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ہمارا سکول باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور تین ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو عمر ميں مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ بڑی جماعت کے مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا “ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے” اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب گو ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ ہندو دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا

1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں کم از کم آٹھ سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے

” لے کے رہیں گے پاکستان”۔
“بَن کے رہے گا پاکستان”۔
“پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلّاللہ”۔
“تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”۔

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے 30 فٹ بلند دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا

ہندوؤں کا رویّہ

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے باہر کے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی

ایک دن ایک برہمن پٹری [Foot Path] پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا “پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے” یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا “کپڑے بڑھشٹ کری گیا” مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا

پاگل

ہاں جناب ۔ ميں پاگل ہوں ۔ کيونکہ ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے کئی موقعوں پر يہی کہا “پاگل ہو گئے ہو کيا ؟ ” مگر میں ٹھہرا پاگل اسلئے اُن کے نصائح ميری سمجھ ميں کبھی نہ آئے ۔ مختلف انواع کی وارداتوں میں سے نمونہ کيلئے صرف ایک ايک تحرير کر رہا ہوں

ايک قسم کا نمونہ
میں جب گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ 14 اگست کو سُنا کہ راجہ بازار خُوب سجايا گيا ہے ۔ اپنے دو ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد راجہ بازار کی سير کا قصد ہوا ۔ مرکزی جامعہ مسجد کی طرف سے نمک منڈی جو ميوہ منڈی بھی کہلاتی تھی تک پہنچے تو دل سَير ہو گيا اور واپس لوٹے ۔ ہم تينوں تيز چلنے کے عادی تھے ۔ ہمارے سامنے تين چار لڑکياں آ گئيں جو ہمارے آگے چل رہی تھيں ۔ ابھی اُنہيں اورٹيک کرنے کا سوچا ہی تھا کہ سامنے سے تين ہٹے کٹے لڑکے آتے ہوئے نظر آئے ۔ صاف نظر آيا کہ اُن کی نيت ان لڑکيوں سے ٹکرانے کی ہے ۔ ميں جلدی سے اُچک کر اُن لڑکيوں کے سامنے پہنچا اور دونوں بازو اطراف میں پھيلا کر لڑکوں کے ساتھ سينہ بسينہ پوری قوّت سے ٹکرايا ۔ اس ناگہانی ٹکر کے نتيجہ ميں درميان والا لڑکا گر گيا ۔ ميری عمر اس وقت 16 سال تھی ۔ فوری طور پر کچھ بڑی عمر کے لوگوں نے مجھے الگ کر کے اُن لڑکوں کو پکڑ ليا

آگے بڑھے تو ميرے دو ساتھی کہنے لگے “يار ۔ تُو تَو پاگل ہے ۔ اچھا ہوا لوگوں نے اُنہيں سنبھال ليا ورنہ اُنہوں نے تمہاری ہڈيوں کا قيمہ بنا دينا تھا”

دوسری قسم کا نمونہ
ميں نے ملازمت کے دوران 1965ء میں تيرنا سيکھنا شروع کيا ۔ ابھی چند دن گذرے تھے کہ گرمی زوروں پر تھی تو میں نے دفتر سے آتے ہی اپنے کمرے سے توليہ اور سومنگ کاسٹيوم پکڑا اور سوِمِنگ پُول پہنچا ۔ غُسلخانہ ميں کپڑے تبديل کئے اور نہا کر باہر نکلا ہی تھا کہ ايک دس بارہ سالہ لڑکے نے 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگائی مگر اُوپر آنے کی بجائے دس گيارہ فٹ پانی کے نيچے ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ ميں اُسے ڈوبتے ديکھ نہ سکا اور میں نے بھاگ کر 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ نمعلوم کيسے میں سيدھا گہرائی ميں گيا ميرے پاؤں زمين سے ٹکرائے تو میں نے پوری قوّت سے زمين کو دھکا ديا اور دونوں ہاتھ سيدھے اُوپر کو اُٹھا ديئے ۔ ميں تيزی سے اُوپر کی طرف اُبھرا ۔ اسی دوران ميں نے ڈوبتے لڑکے کو نيچے سے دونوں ہاتھوں سے اُوپر کی طرف اُچھالنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد ميرا سر پانی سے باہر نکلا ۔ میں نے اپنے جسم کو نيچے کی طرف دھکيلا اور جب لڑکے سے نيچے ہو گيا تو اُوپر اُٹھتے ہوئے لڑکے کو پھر اُوپر کی طرف دھکيلا ۔ میں اور لڑکا دونوں پانی کی سطح پر پہنچ گئے ۔ اتنی دير میں دو تيراک تالاب میں کود چُکے تھے جو لڑکے کو کنارے پر لے آئے

اس واقعہ کے بعد کئی دن تک میں لوگوں سے سُنتا رہا “تم نے کمال پاگل پن کيا ۔عجب پاگل ہو تم ۔ ڈوب جاتے تو”۔

تيسری قسم کا نمونہ
مجھے مارچ 1983ء ميں ايک جديد ترين فنی تربيتی مدرسہ [State-of-the-art Technical Training Institute] کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور تکميل [Planning, development and completion] کا کام سونپا گيا ۔ ميں نے منصوبہ بندی کے بعد پہلے سارے نصاب جديد ضروريات کے مطابق ڈھالے پھر عملی کام کی منصوبہ بندی کی ۔ 1985ء ميں ايک سی اين سی تربيتی کارخانے کی پيشکشيں بھی طلب کيں [offers were invited for establishment of computerised numerical controled machines training workshop] ۔ جب پيشکشيں موصول ہو چکی تھيں تو اُوپر سے حُکم آيا کہ فلاں کمپنی کی پيشکش قبول کر لو ۔ يہ پہلے مجھے موصول نہ ہوئی تھی پھر بھی ميں نے اس کا مطالعہ کيا ۔ يہ ايک تو بہت مہنگی تھی دوسرے ہماری ضروريات پوری نہيں کرتی تھی تيسرے فاضل پرزہ جات کی ضمانت بھی نہ تھی ۔ قوانين کے تحت ميں اُوپر سے آنے والی پيشکش کی حمائت نہيں کر سکتا تھاسو ميں نے ساری تفصيل لکھ کر بھيجی ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ ميرا وہاں سے تبادلہ کر ديا گيا اور ميری دو سال کی تمام محنت اور اس کے اچھے نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے سال کے آخر ميں ميری سالانہ رپورٹ ميں لکھا گيا not fit for promotion

ساتھی کہنے لگے ” تم بھی پاگل ہو ۔ کيا پڑی تھی قوم کا پيسہ بچانے کی ؟ صاحب بہادر کو خوش کرتے ترقی پاتے”

چوتھی قسم کا نمونہ
جب 4 اگست 1992ء کو مجھے ڈائريکٹر پی او ايف ويلفيئر ٹرسٹ بنايا گيا تو چند ماہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ عوام کی کم اور افسران کی زيادہ ويلفيئر ہوتی ہے ۔ میں نے پيچ کسنے شروع کئے تو کچھ افسران کو پريشانی ہوئی اور ميرے خلاف ہوا گرم ہونا شروع ہوئی ۔ نوبت بايں جا رسيد کہ مجھے 2 سال بعد يہ نوکری چھوڑنا پڑی جبکہ مجھے 7 سال يہ نوکری کرنے کی اُميد تھی يعنی 60 سال کی عمر تک

ساتھيوں نے کہا “تم بھی پاگل ہی ہو ۔ جو دوسرے کرتے تھے کرتے رہتے ۔ تمہيں کيا پڑی تھی ايمان داری دکھانے کی ۔ خواہ مخوا اپنے رزق پر لات مار دی”۔

خوشگوار حيرت

ميں نے اپنا انگريزی بلاگ “منافقت ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name” کے نام سے ساڑھے چھ سال قبل بلاگر [Blogger] پر شروع کيا تھا ۔ بلاگر پر پابندی لگنے پر اسے ورڈ پريس [Wordpress] پر منتقل کر ديا تھا ۔ ميں نے جلد ہی “منافقت [Hypocrisy]” سے زيادہ دوسرے موضوعات پر لکھنا شروع کر ديا تھا تو قارئين کے اصرار پر اس بلاگ کا نام بدل کر ميں نے “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter” رکھ ديا

پونے چھ سال قبل ميں نے اپنا يہ اُردو بلاگ عليحدہ شروع کر ديا تھا اور اس پر پوری توجہ دے رہا تھا چنانچہ ميرا انگريزی کا بلاگ بے توجہی کا شکار رہا ۔ پچھلے سال کيلئے ورڈ پريس کی انتظاميہ نے پہلی بار بلاگز کی کار کردگی کا تخمينہ لگايا جس کے مطابق ميرا بلاگ زيادہ پڑھے جانے والے بلاگز ميں شمار ہوا

مجھے ورڈ پريس کی جو ای ميل جنوری کے شروع ميں موصول ہوئی وہ مندرجہ ذيل فقرہ سے شروع ہوتی ہے

Here is a high level summary of your overall blog health :

WOW
We think you did great !

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ ويسے بھی ميرے انگريزی بلاگ پر اُردو بلاگ سے مختلف عمدہ تحارير پڑھنے کو مليں گی

گاندھی ۔ نہرو ۔ پٹيل اور جنرل گريسی

وسط اکتوبر 1947ء ميں موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ تین دن کے متواتر کوشش کے بعد کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغير اطلاع اور اجازت کے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اُترنا شروع کر دیا ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ بھارتیہ مہاسبھا اور سکھوں کی اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے پہلے ہی جموں پہنچنا شروع ہو چُکے تھے

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس ڈيوڈ گریسی [Sir Douglas David Gracey] کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حُکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حُکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتا تو ايسا نہ کرتا اور بھارت جموں کشمير پر قبضہ نہ کر پاتا کيونکہ پاکستانی فوج کے جموں کشمير کے داخل ہونے کی خبر سنتے ہی پہلے سے جنگ آزادی لڑنے والے رياستی باشندوں کا ساتھ دينے کيلئے بڑی تعداد ميں رياستی باشندے اُٹھ کھڑے ہوتے

وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا

نہرمیں خون

ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا

مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ياديں

انسان اپنی زندگی ميں بہت سے مشاہدات اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے مگر يہ سب وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہيں ۔ ليکن ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ظہور کے وقت غير اہم محسوس ہونے والا کوئی واقعہ انسان کے لاشعور ميں نقش ہو جائے ۔ پھر ذہن کی ہارڈ ڈرائيو [Hard Drive] چاہے کريش [crash] ہو جائے يہ واقعہ ريم [RAM] ميں موجود ڈاٹا [data] کی طرح گاہے بگاہے مونيٹر [Monitor] کی سکرين [Screen] پر نمودار ہوتا رہتا ہے

آج جبکہ ميں عمر کی 7 دہائياں گذار چکا ہوں بچپن ميں سُنی ايک آواز ہے جو ميرے کانوں ميں گاہے بگاہے گونجتی رہتی ہے اور مجھے سينکڑوں ہمرکابوں اور درجنوں اتاليقوں کی ياد دلاتی رہتی ہے ۔ يہ چار بچوں کی آواز کے بعد سينکڑوں بچوں کی ہم سُر آواز ہے ۔ ميں ايسی صورت ميں موجودہ دنيا سے گُم ہو جاتا ہوں اور اُس دنيا ميں پہنچ جاتا ہوں جس ميں محبت اور ہمدردی چار سُو چھائے ہوئے تھے ۔ آج کی طرح ہر طرف خودغرضی بُغز اور نفرت نہيں تھی بلکہ ان کی معمولی جھلک بھی اُن دنوں پريشان کر ديتی تھی

اپريل 1950ء سے مارچ 1953ء تک ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں زيرِ تعليم تھا ۔ وہاں صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل ہم دعا پڑھتے تھے اس طرح کہ چار اچھی آواز والے لڑکے سارے سکول کے لڑکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ۔ وہ بآوازِ بلند ايک مصرع پڑھتے ۔ ان کے بعد سکول کے تمام لڑکے پورے جوش سے ايک آواز ميں اسے دہراتے ۔ آج سکولوں کے بڑے بڑے اور غيرملکی نام ہيں ۔ عصرِ حاضر کے طالب علم سے اس دعا کا ذکر کيا جائے تو وہ مبہوت ہو کر تکنے لگتا ہے ۔ ہاں ان سے غير ملکی گانے سُنے جا سکتے ہيں

ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی

شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا لازوال تحفہ

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
دُور دنيا کا ميرے دم سے اندھيرا ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

ہو ميرے دم سے يونہی ميرے وطن کی زينت۔ ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
زندگی ہو ميری پروانے کی صورت يا رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب

ہو ميرا کام غريبوں کی حمايت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دردمندوں سے ضعيفوں سے محبت کرنا
ميرے اللہ! ہر برائی سے بچانا مجھ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نيک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو