Category Archives: آپ بيتی

لڑکپن کی باتيں قسط 1 ۔ بادنُما

ميں ايک دستاويز کی تلاش ميں اپنے دارالمطالعہ ميں مختلف الماريوں ميں پڑی ہوئے کاغذات کے انباروں کو کھنگال رہا تھا کہ کچھ لڑکپن کی کارستانياں ہاتھ لگيں جو کاغذ کے خستہ ہو جانے کے باوجود نمعلوم کس طرح ضائع ہونے سے کئی دہائياں بچی رہيں ۔ انہيں ديکھ کر اُس زمانہ کی ياديں تازہ ہوئيں ۔ ايک فہرست ملی ميرے سميت ہماری دسويں جماعت حصہ الف مسلم ہائی سکول راولپنڈی کے طلباء کی جس ميں ان کے پنجاب يونيورسٹی کے 1953ء ميں دسويں کے امتحان ميں حاصل کردہ نمبر بھی لکھے ہيں ۔ يہ دستاويزات رفتہ رفتہ منظرِ عام پر لائی جائيں گی ۔ آج مزيد دو کا ذکر

يہ سکول ميں نويں جماعت کی ميری عام استعمال کی بياض [rough copy] کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر جو اشعار لکھے ہيں يہی ميرے لئے مشعلِ راہ رہے اور شايد انہی کی بناء پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے زندگی ميں کامياب کيا ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

نيچے ميری انجنيئرنگ کالج کے پہلے سال کی عام استعمال کی بياض کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر ميں نے اپنے لئے ھدايات لکھی تھيں اور ہر ماہ کی پہلی تاريخ کو انہيں پڑھ کر ميں اپنے کردار و عمل کو پرکھتا تھا کہ ميں جامد ہوں ۔ مائل بہ تنزل ہوں يا کہ ترقی کی طرف گامزن ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

تبدیلی ؟ ؟ ؟

آجکل مُلک میں تبدیلی لانے کا بڑا غُوغا ہے ۔ سب سے زیادہ تبدیلی کی تکرار عمران خان کی طرف سے ہے جو اپنے ہر جلسے میں بڑے طمطراق سے تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔ عمران خان کا دعوٰی ہے کہ وہ اور تو اور پٹواری اور تھانہ نظام کو بھی 3 ماہ میں درست کر دے گا ۔ سُنا اور دیکھا تو یہ ہے کہ بڑے بڑے تناور حکمران بلند دعوؤں کے ساتھ آئے اور کئی کئی سال حکومت کر کے چلے اور بہتری کی بجائے ابتری ہی دیکھنے میں آئی

تقریریں اور جلسے کرنے والوں کے ہاتھوں ہم نے کبھی کسی مُلک کو درست ہوتے نہیں دیکھا ۔ مُلک تو ایک طرف ایک صوبہ بھی چھوڑیئے ۔ ایک ضلع کے نظام کو بھی درست کرنا ہو تو مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو سندھ کے عبدالستار ایدھی صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح تبدیلی لا رہے ہیں یا پنجاب کے مُنشی خان صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح اُنہوں نے لاہور میں اتنا بڑا ہسپتال بغیر کسی آواز کے بنایا

تبدیلی آئے گی
جب عوام کا رویہ بدلے گا
جب عوام کو احساس ہو گا کہ غلط لوگوں کو مُنتخب کر کے اور غلط لوگوں کی پیروی کر کے اپنا حال خود خراب کرتے ہیں
جب وہ سمجھیں گے کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے کچھ بہتر نہیں ہو گا بہتری اس وقت آئے گی جب سب اپنے آپ کو درست کرنے میں لگ جائیں گے
جب یہ کہنے یا سوچنے کی بجائے کہ “پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟” سب اس پر غور کریں گے کہ “ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور آئیندہ پاکستان کیلئے کیا کریں گے”۔

البتہ ایک صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ

آ بيل مجھے مار

شير محمد خان صاحب 15 جون 1927ء کو تحصيل پھلور ضلع جالندھر مشرقی پنجاب ميں پيدا ہوئے ۔ اُنہوں نے 1946ء ميں پنجاب يونيورسٹی سے بی اے پاس کيا ۔ پاکستان کے معرضِ وجود ميں آنے کے بعد کراچی ميں بسيرا کيا اور 1953ء ميں کراچی يونيورسٹی سے ايم اے پاس کيا ۔ وہ ايک بہترين مزاح نگار تھے اور کالم نويس بھی ۔ عمدہ شاعری کرتے تھے اور سفرنامے بھی خوب لکھتے تھے ۔ دنيا اُنہيں ” ابنِ انشاء ” کے نام سے جانتی پہچانتی ہے ۔ ہاجکنز لِمفوما ميں مبتلاء ہو کر 11 جنوری 1978ء کو لندن ميں وفات پائی اور کراچی ميں دفن ہوئے

ہوا يوں کہ ميں عنوان “نوکری” ديکھ کر جا پہنچا اُس تحرير پر جو ام تحريم صاحبہ نے “ابنِ انشاء” کی تصنيفات ميں سے اپنے بلاگ “ارتقاءِ حيات” پر نقل کی تھی ۔ دوسری غلطی يہ ہوئی کہ وہاں تبصرہ کے خانے ميں لکھ ديا کہ انشاء جی نے کہا کُوچ کرو اور خود کُوچ کر گئے ۔ خوب لکھا کرتے تھے ۔ ان کی آخری نظم يہاں ملاحظہ فرمايئے
https://theajmals.com/blog/2005/11/12

تير تو ميری کمان سے نکل گيا تھا ۔ اب پچھتائے کيا ہو ۔ جواب ميں آيا ايک ميزائل ان الفاظ ميں ” ساتھ ہی اس کی ویڈیو بھی شیئر کرتے تو کیا ہی بات تھی

ميں ٹھہرا غيرتمند [:lol:]۔ ناک پر کبھی مکھی نہ بيٹھنے دی ۔ ہو گيا انٹرنيٹ کے گھوڑے پر سوار اور نکل گيا يوٹيوب کے جنگل کی طرف اور رکھ لی ميرے رب نے ميری عزت اور مل گيا مجھے جس کی تلاش تھی

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو ۔ ۔ ۔ اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب ۔ ۔ ۔ جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں ۔ ۔ ۔ دیکھو توسہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوۓ ۔ ۔ ۔ اس جھولی کو پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا ۔ ۔ ۔ زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آۓ ہو ۔ ۔ ۔ سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں ۔ ۔ ۔ کیوں بن میں نہ جا بسيرا ہم کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے ۔ ۔ ۔ تو اور کرے دیوانہ کیا

ليزر جراحی ۔ کہانياں اور حقيقت

جب تک ہاتھی ديکھا نہ ہو کوئی لاکھ سمجھائے کہ ہاتھی ايسا ہوتا ہے ۔ کم ہی سمجھ ميں آتا ہے ۔ بعض اوقات عرصہ دراز پہلے ديکھے ہوئے اور حال ميں ديکھے ہاتھی ميں بھی فرق ہو جاتا ہے ۔ خير ۔ پہلے ميری آنکھ کی جراحی کی حقيقت پھر عام خيالات

ميں ڈاکٹر صاحب کی ہدائت کے مطابق 22 اکتوبر کو ساڑھے 5 بجے شام اُن کے مطب پہنچا ۔ معائنہ کے بعد اُنہوں نے ٹھيک کہا اور ميرے عذر مسترد کر ديئے ۔ ميرے احساس کے مطابق ميری آنکھ پہلے سے بہت بہتر تو ديکھ رہی ہے مگر معمول کے مطابق کام نہيں کر رہی ۔ جراحی کی روئيداد جو پہلے نہ لکھ سکا تھا يہ ہے

ڈاکٹر صاحب نے 6 اکتوبر 2011ء کو الٹرا ساؤنڈ کيلئے بُلايا ۔ ميں پيٹ کا الٹرا ساؤنڈ کئی بار کروا چکا تھا ۔ اس کيلئے پيٹ پر ايک کريم سی ملتے ہيں جس کے اُوپر ايک آلہ [probe] پھيرا جاتا ہے ۔ ميں سوچ ميں پڑ گيا کہ آنکھ کے ساتھ تو يہ عمل نہيں ہو سکتا پھر الٹرا ساؤنڈ کيسے ہو گا ؟ ہوا يہ کہ پہلے ميری آنکھ ميں کوئی دوائی ڈالی گئی جو ميرے خيال ميں اَيٹروپِين [Atropine] تھی ۔ 15 منٹ بعد مجھے ايک خاص کرسی پر بٹھا کر ايک دُوربين قسم کے آلے ميں ديکھنے کو کہا گيا ۔ پھر پلاسٹک کا ايک پنسل نما آلہ تھا جسے ميری بائيں آنکھ کے سامنے آہستہ آہستہ حرکت دی گئی ۔ اس ميں سے تيز سُرخ روشنی کی ايک مُنحنی لکير مجھے نظر آتی رہی مگر ميں نے بزور آنکھيں کھُلی رکھيں

جمعہ 7 اکتوبر کو ميں رات 8 بجے سے قبل مطب پہنچ گيا ۔ سوا 8 بجے ايک آدمی نے مجھے ايک کمرہ ميں لے جا کر بستر پر لٹا ديا اور ميری بائيں آنکھ ميں 3 مختلف دوائيوں کے قطرے ڈالے ۔ يہ قطرے ہر 15 منٹ کے بعد مزيد 3 بار ڈالے گئے ۔ آخری بار قطرے ڈالنے کے 15منٹ بعد جراثيم سے پاک [stirilised] لباس ميرے کپڑوں کے اُوپر ہی پہنايا گيا ۔ چپلی بھی دوسری پہنائی گئی اور مجھے آپريشن ٹھيئٹر [operation theatre] ميں لے جا کر ڈاکٹر صاحب نے بستر پر لٹا ديا ۔ ميرے سر سے پيٹ تک کو ايک موٹے سوتی کپڑے سے ڈھانپ ديا گيا ۔ پھر ايک اور سوتی کپڑے سے مجھے پاؤں تک ڈھانپ ديا گيا ۔ اس کے بعد ايک موٹے سے پلاسٹک يا ربڑ کے ٹکڑے سے ميرے سر سے پيٹ تک کو ڈھانپ ديا گيا

پھر ميری آنکھ ميں تين اطراف ميں ٹيکے [injections] لگائے گئے ۔ چند منٹ بعد کوئی روشنی کی گئی جو مجھے داہنی آنکھ سے اتنا کچھ اُوپر ہونے کے باوجود نظر آ رہی تھی چنانچہ ميں نے داہنی آنکھ بند کر لی کيونکہ بائيں آنکھ اب ميرے قابو سے باہر تھی يعنی سُن ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد مجھے ايسے محسوس ہوتا رہا کہ ميری بائيں آنکھ پر چھوٹا سا شفاف [transperant] کاغذ کبھی رکھا جاتا ہے کبھی اُٹھا ليا جاتا ہے ۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحب نے ميرے سر کے نيچے داہنا ہاتھ اور کندھوں کے نيچے باياں بازو رکھ کر اُٹھايا ۔ اور چلاتے ہوئے باہر لے جا کر صوفہ پر بٹھا ديا ۔ جہاں ميری بيٹی ۔ ميرا بھائی اور ميری بيوی کا بہنوئی موجود تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن سے کچھ باتيں کيں ۔ اُنہوں نے يہ بھی کہا کہ “عام طور پر ہم ايک ہفتے بعد بھی بلاتے ہيں ليکن يہ 2 ہفتے بعد ہی آئيں” يعنی 22 اکتوبر کو ۔ احتياط يہ بتائی

کہ جھُکنا نہيں ۔ آنکھيں نہيں مَلنا ۔ وزن نہيں اُٹھانا اور باہر دھوپ ميں جانا ہو تو دھوپ کی عينک پہننا ۔ ميں نے خوراک کا پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “جو پہلے کھاتے ہيں وہی کھائيں”۔ ميں نے پوچھا “ٹھيک ہونے ميں کتنا وقت لگے گا ؟” تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “2 يا 3 دن ميں بھی ٹھيک ہو تے ہيں اور ہفتہ بھی لگ جاتا ہے”۔ پونے 11 بجے رات ڈاکٹر صاحب نے ميرے ساتھ ہاتھ ملا کر ہميں رُخصت کيا

تصوير ميں وہ شيشی نظر آ رہی ہے جس ميں عدسہ [lense] تھا جو ايک سرِنج [sringe] کے ذريعہ ميری آنکھ ميں ڈالا گيا اور اندر جا کر وہ پھُول کر درست صورت اختيار کر گيا ۔ شيشی کے پيچھے ايک ڈبيہ نظر آ رہی ہے جس ميں عدسہ والی شيشی اور ايک معلوماتی کتاب تھی ۔ نيچے دوسری تصوير ميں متعلقہ سرِنج اپنے خانے ميں پڑی نظر آ رہی ہے

آپريشن کے بعد کسی نے امريکا ميں آپريشن کروايا تھا اُنہوں نے کہا “ايک ہفتہ کالی عينک پہننا جس کے اطراف بھی بند ہوں تاکہ آنکھوں کے پاس روشنی بالکل نہ جائے ۔ رات کو جالی والی عينک پہن کر سونا”۔ ميں نے کہا “مجھے تو ڈاکٹر صاحب نے ايسا کچھ نہيں کہا”۔ بتايا گيا کہ امريکا کے پڑھے ڈاکٹر صحيح ہوتے ہيں”
ايک اور نے پاکستان ميں آپريشن کروايا تھا ۔ اُنہوں نے کہا “نرم غذا کھا رہے ہيں ؟” ميں نے نفی کی تو بتايا کہ روٹی نہيں کھانا چاہيئے ۔ اس سے آنکھوں پر اثر پڑتا ہے
کسی نے کہا “کم از کم 2 ہفتے پرہيز کرنا چاہيئے ۔ آخر آنکھ کا معاملہ ہے”
ميری بڑی بہن جو خود ڈاکٹر اور پيتھالوجسٹ ہيں نے وہی کہا جو ميرے معالج ڈاکتر نے کہا تھا

مريض کو شک ہونے لگتا ہے کہ ڈاکٹر سے زيادہ وہ جانتے ہيں جو ڈاکٹر نہيں ہيں

آنکھ کی جراحی

اِن شاء اللہ ميں آج شام ماہر امراضِ چشم و جراح کے پاس جاؤں گا ۔ جيسا کہ مجھے بتايا گيا ہے رات 8 بجے ميری اُس آنکھ کی ليزر سے جراحی کی تياری شروع ہو گی جس کی بينائی 28 ستمبر 2011ء کے حادثہ کے بعد 1.5 سے 5.75 ہو گئی تھی ۔ جراحی کے بعد رات ساڑھے 10 بجے مجھے گھر واپس آنے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی شفاء دينے والا ہے

کہا جاتا ہے کہ جراحی کے بعد 3 سے 7 دن ميں شفاء ہو جاتی ہے ۔ حقيقت کا علم تجربے سے ہی ہو گا

کمپيوٹر تو کئی دن چلا نہيں سکوں گا کيونکہ دوسری منزل پر ہے ۔ ميں نے کئی تحارير محفوظ کی ہوئی ہيں جو ميرے نوکيا ای 5 موبائل فون کے ذريعہ شائع ہو سکتی ہيں بشرطيکہ ايک آنکھ کے استعمال کی اجازت ہو ۔ اس کے علاوہ ہفتہ يا 2 ہفتے اور کچھ نہيں کر سکوں گا

بھُولائے نہ بھُولے

کچھ ايسے واقعات ہوتے ہيں جنہيں آدمی ياد رکھنا چاہتا ہے مگر بھُول جاتا ہے اور پريشان ہوتا ہے
ايسے واقعہ کا کيا کيا جائے جسے آدمی لاکھ بھْولانا چاہے مگر وہ اپنے چھوڑے ہوئے اثرات کے ذريعہ اپنی ياد دلاتا رہے

ايک سال گذر چکا ۔ کہنے کو ايک عام سی بات تھی کہ ميں 28 ستمبر کی شام لاہور ميں خيابانِ جناح پر انتظار ميں کھڑا تھا کہ ٹريفک رُکے اور ميں سڑک پار کروں کہ ايک موٹر سائيکل سوار نے ٹکر مار دی تھی جس کا احوال ميں لکھ چکا ہوں ۔ ميں اس واقعہ کو بھُولنا چاہتا ہوں مگر اس کے مندرجہ ذيل اثرات بار بار اس کی ياد دلا کر مجھے پريشان کرتے ہيں

1 ۔ ميری دونوں آنکھوں کی بينائی 1.5 تھی جو کہ ايک آنکھ کی 5.75 ہو گئی ۔ ماہر امراض چشم نے کہا ہے کہ ليزر سرجری سے ٹھيک نظر آنے لگے گا ۔ واللہ اعلم ۔ 3 اکتوبر کو سرجری کيلئے ڈاکٹر سے وقت لينا ہے

2 ۔ ميری قوتِ شامہ يعنی سُونگھنے کی حِس ہميشہ کيلئے ختم ہو چکی ہے يعنی مجھے نہ خُوشبُو کا کچھ احساس ہوتا ہے نہ بدبُو کا

3 ۔ ناک کے اُوپر والے حصے ميں متواتر درد رہتا ہے جس کے باعث ناک صاف کرنے ميں تکليف ہوتی ہے ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوائے ايک بار 2 دن کے زکام نہيں ہوا ورنہ مُشکل بن جاتی ۔ ڈاکٹر نے ايک مرہم ديا ہے جو لگا رہا ہوں ۔ اللہ شفاء عطا کرنے والا ہے

4 ۔ ياد داشت جاتی رہی اور سوچنے کی طاقت معذور ہو گئی

پھر بھی ميں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا شُکر ادا کروں کم ہے ۔ اگر اپاہج ہو جاتا تو ميں کيا کرتا

لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ

ايک ضرب المثل سکول کے زمانہ ميں پڑھی تھی “بڑے مياں سو بڑے مياں ۔ چھوٹے مياں سُبحان اللہ”۔ آجکل ويسے تو ميرے ہموطنوں کی اکثريت کا يہ طريقہ ہے کہ قوانين پر عمل کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے ان کی اپنی نہيں مگر اس ميدان ميں لڑکياں بھی لڑکوں سے پيچھے نہيں ہيں ۔ بلکہ ٹريفک قوانين کے لحاظ سے دو ہاتھ آگے ہی ہيں

بروز پير 12 ستمبر 2011ء کو ميں مغرب کے بعد کسی کام سے اپنی کورے کار ميں گھر سے نکلا ۔ گلی نمبر 30 سے ہوتا ہوا ايف 8 مرکز کی طرف جا رہا تھا ۔ سيدھا مرکز ميں داخل ہونے کا راستہ بند کيا گيا ہے اسلئے جوہر روڈ پر بائيں مُڑ کر پھر داہنی طرف گھومنا تھا ۔ ميرے آگے دو گاڑياں انتظار ميں تھيں ۔ جب سامنے سے گاڑياں آنا بند ہوئيں تو ميرے آگے والی گاڑياں حرکت ميں آئيں جن کے پيچھے ميں بھی چل پڑا ۔ جب ميں داہنی طرف موڑ کاٹ چکا تھا تو ايک زور دار اور لمبا ہارن سُنا ۔ آئينہ ميں پيچھے ديکھا تو کچھ فاصلے پر ايک سياہ کرولا کار فراٹے بھرتی آ رہی تھی جبکہ وہاں حدِ رفتار 25 کلوميٹر فی گھنٹہ ہے ۔ چند لمحے بعد اُس نے ميرے داہنے ہاتھ گذرتے ہوئے ميری طرف ديکھ کر ايک بار پھر سخت غُصے ميں زور سے ہارن کے بٹن پر ہاتھ مارا اور لمبا ہارن بجا کر فراٹے بھرنے لگی ۔ وہ ايک جوان لڑکی يا عورت کار ميں اکيلی تھی

کچھ عرصہ قبل ميں ايف 10 سے اپنے گھر ايف 8 آ رہا تھا ۔ خيابانِ جناح [پرويز مشرف نے جسےجناح ايونيو بنا ديا] پر ايف 9 کے بعد بائيں جانب مُڑنے کا اشارہ دے کر مُڑنے کيلئے گاڑی آہستہ کر لی ۔ چند لمحے بعد لمبے ہارن سنائی دينے لگے ۔ ميں حيران تھا کہ ميرے داہنی طرف دو گاڑياں گذر سکتی ہيں ۔ بائيں طرف سے ايک اور ميرے داہنے يا بائيں کوئی گاڑی نہيں اور ميں نے ابھی مڑنا بھی شروع نہيں کيا تو يہ ہارن کيوں ؟ اگلے لمحے جو کار ميرے پيچھے تھی وہ ميری داہنی طرف سے گذر کر سيدھی چلی گئی اور اُس کو چلانے والی جوان عورت مجھے اپنا مُکا دکھاتی گئی ۔ وہ کار ميں اکيلی تھی

ميں کار ميں بيٹھا سڑک پر جا رہا ہوں ۔ اچانک گاڑيوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ پھر ايک لمحہ پاؤں اکسلريٹر پر دوسرے لمحہ بريک پر ۔ ميرے آگے گاڑياں ميرے بائيں گاڑياں ۔ ميرے داہنے گاڑياں ۔ سب آہستہ آہستہ آگے کو کھِسکنے لگتے ہيں ۔ پيچھے سے ايک گاڑی کے ہارن کی آواز وقفے وقفے سے شروع ہو گئی ہے اور پہلے سے تنے اعصاب پر بھاری محسوس ہونے لگی ہے ۔ يا اللہ يہ کيا ہے ؟ کوئی ہارن کو ہارمونيم سمجھ کر بجا رہا ہے کيا ؟ بيزار دل کے ساتھ آئينے ميں ديکھتا ہوں ۔ ميری کار سے پچھلی کار ميں ايک جوان لڑکی يا عورت نے ہارن پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ چہرے پر غُصہ ہے ۔ اُس کی کار ميں اور کوئی سوار نہيں ہے

ميں سوچتا رہ گيا کہ کيا يہ دنيا مردوں کی ہے ؟