Category Archives: آپ بيتی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سِینے پر مُونگ

میں اُن دنوں پروڈکشن منیجر ویپنز فیکٹری تھا [1969ء] ہفتہ کا دن تھا مہینہ مجھے یاد نہیں البتہ موسم خوشگوار تھا ۔ اُس زمانہ میں ہمیں سوا چار بجے سہ پہر چھٹی ہوتی تھی ۔ چھٹی ہونے والی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ساتھ ہی چھٹی کا ہُوٹر بھی ہو گیا ۔ ٹیلیفون اُٹھایا تو میرے باس کے باس “م” تھے جو چند ماہ پیشتر میرے باس تھے ۔ فرمایا “کل مینا بازار ہو رہا ہے ذرا جا کر جھنڈیاں لگوا دو”۔ پوچھا “جھنڈیاں کہاں ہیں ؟” جواب ملا “ص صاحب کے پاس”۔ میں نے “ص” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے پوچھا تو جواب ملا “ميرے پاس جھنڈیاں تو نہیں ہیں ۔ مجھے گُڈی کاغذ منگوانے کا کہا تھا ۔ آپ لے لیں اور جھنڈیاں بنوا لیں”۔

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ڈوری اور بنانے والے چاہئیں تھے ۔ سوچا گُڈی کاغذ لے کر کلب چلتا ہوں وہاں لوگ ہوں گے ۔ اپنا بائیسائیکل پکڑا اور چلاتا ہوا کلب پہنچا ۔ وہاں آدمی کُجا کوئی جانور بھی نہ تھا اور نہ کوئی آثار کہ یہاں مینا بازار لگنے والا ہے ۔ بڑے باس “م” صاحب کے گھر ٹیلیفون کیا تو جواب ملا “سِینئر منیجر ہو بندوبست کر لو”۔ بندوبست کیا کروں اور کہاں سے کروں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا کہ اسٹیشن انجيئر صاحب ایک پِک اُپ پر آئے اور کہنے لگے “میں قناتیں اور شامیانے لے آیا ہوں” ۔ لگانے کیسے ہیں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ “مینا بازار کا منتظم کون ہے ؟” وہ کہنے لگے “خواتین کا معاملہ ہے اُن کی صدر مسز “ش” ہیں اُن سے معلومات لے لو ۔ میں نے “ش” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے مسز “ش” کا پوچھا تو بتایا گیا کہ غسل کر رہی ہیں ۔ چنانچہ ہم نے اپنی مرضی سے قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے

قناتیں شامیانے لگنے کے بعد اسٹیشن انجنیئر چل پڑے ۔ میں نے کہا “اپنے آدمیوں کو روکئے باقی کام کون کرے گا ؟”اُنہوں نے کہا یہ تو شامیانے والے ہیں ۔ اِنہوں نے اپنا کام کر دیا ہے ۔ پھر مسز “ش” کیلئے ٹیلیون کیا تو بتایا گیا کہ غسل کر چکی ہیں تیار ہو کر خود کلب آئیں گی ۔ اسی اثناء میں مجھے کلب کا ایک کلرک نظر آیا ۔ بھاگ کر اس کو پکڑا اور پوچھا کہ “کلب کے ملازم کیوں نہیں آئے”۔ اُس نے بتایا “مینا بازار کی وجہ سے آج اور کل کلب کی چھٹی ہے”

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ایک ساتھی سے رابطہ کیا ۔ اُنہوں نے جھنڈیاں تیار کروانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ میں گُڈی کاغذ جہاں وہ بتائیں وہاں پہنچا دوں اور دوسرے دن صبح دس بجے وہاں سے جھنڈیاں اُٹھوا لوں ۔ ابھی سٹال لگانے باقی تھے جن کیلئے میزیں اور کرسیاں چاہئیں تھیں ۔ قریب ہی ایک سکول تھا اُس کے پرنسپل صاحب سے رابطہ کر کے منت سماجت کی تو وہ میزیں دینے پر راضی ہوئے اس شرط پر کہ ان کی پالش خراب نہیں ہو گی اور کل صبح سکول سے اُٹھوائی جائیں اور پرسوں صبح سویرے واپس پہنچائی جائیں ۔ شام ساڑھے سات بجے کے قریب مسز “ش” تشریف لائیں اور کہا کہ “میں تو معائینہ کرنے آئی ہوں اور یہاں ابھی صرف قناتیں اور شامیانے ہی لگے ہیں”۔ عرض کیا ” آپ پلان دیجئے تو اُس کے مطابق بندوبست کردیں گے”۔ کہنے لگیں “وہ تو مسز “ع” کے پاس ہے ۔ مسٹر “ع” کے گھر فون کیا مگر کسی نے نہ اُٹھایا ۔ پھر مسز “ش” نے کہا ” اتنے سٹال لگنے ہیں جس طرح بھی ہو لگا دیں”۔ اور وہ چلی گئیں ۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور کوئی مدد کہیں سے نہ مل رہی تھی چنانچہ میں گھر چلا گیا

رات کے دوران اپنے دوستوں ساتھیوں سے مدد کے وعدے لئے ۔ دوسرے دن صبح سویرے کلب پہنچ گیا ۔ تھوڑی دیر میں آٹھ آدمی مدد کیلئے آ گئے ۔ ایک کو جھنڈیاں لینے بھیجا اور سات کو ساتھ لیجا کر سکول سے میزیں لانا شروع کیں ۔ خود بھی ساتھ مزدور بن کر ۔ سب بندوبست کر کے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک گروہ افسران کا آتا دکھائی دیا ۔ ان میں چیئرمین اور دیگر افسران تھے میرے باس کے باس “م” صاحب بھی تھے اور اُن کے باس “ح” صاحب بھی ۔ “م” صاحب نے چار افسروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جن میں اسٹیشن انجنیئر ۔ گُڈی کاغذ والے “ص” صاحب کے علاوہ دو اسسٹنٹ منیجر تھے جنہیں دو دن کے دوران ہم نے کلب میں نہ دیکھا تھا اور نہ ہی انتظامات کرنے میں اُن کا کوئی کردار تھا ۔ میں صرف چند فُٹ کے فاصلہ پر کھڑا دیکھتا رہا ۔ چیئرمین صاحب سے “ح” صاحب نے ان چار حضرات کا تعارف کرایا کہ اُنہوں نے مینا بازار کا سارا بندوبست کیا ہے ۔ اسٹیشن انجنیئر نے تو قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے تھے ۔ باقی نے تو کچھ نہ کیا تھا

ایک سال بعد میرے اسی باس نے مجھے پھر مینا بازار کا انتظام کرنے کو کہا تو میں نے کہا “پچھلے سال کے تجربہ کے تحت میں اب ایسی جراءت نہیں کر سکتا” ۔
مسکرا کر بولے “تم انعام کیلئے کام کرتے ہو”۔
میں نے کہا “میں کام انعام کیلئے نہیں کرتا مگر مجھے پسند نہیں کہ کوئی میرے سِینے پر مُونگ دَلے “۔

لڑکپن کی باتيں قسط 6 ۔ چھوٹی سی بات

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت ۔ رنگِ زماں اور تاش لکھ چکا ہوں

آدھی صدی پیچھے کی بات ہے جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ ایک دن اپنے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک دوسرے ہوسٹل کا لڑکا “خ” آیا اور کہنے لگا “جہاں سے تم ڈرائينگ شیٹس [Drawing Sheets] لاتے ہو مجھے وہاں لے چلو” ۔ میں نے کہا “میرا بائیسائکل کوئی لے گیا ہے”۔ وہ گیا اور ایک اور بائیسائکل لے کر آ گیا ۔ میں بائیسائکل پر چڑھنے لگا تو ہوا کم تھی اتر کر پیدل چلنے لگا ۔ وہ آگے جا کر رُک گیا اور پیدل چلنے کی وجہ پوچھی ۔ میرے بتانے پر کہنے لگا “سائیکل مرمت کی دکان ڈیڑھ کلومیٹر دور ہے ۔ وہاں تک سوار ہو جاؤ ۔ بائیسائکل خراب ہو گا تو تمہارا نقصان نہیں”۔ میں نے اُسے کہا “میں دوسرے کی چیز کا اپنی چيز سے زیادہ خیال رکھتا ہوں”۔ اُس نے کہا “سائیکل میرے دوست کا ہے اور میں تمہیں کہہ رہا ہوں”۔ میرے نہ ماننے پر وہ بھی منہ بنا کر میرے ساتھ چلنے لگا

چند ماہ بعد ایک لڑکا “خ” کے ہوسٹل سے میرے پاس آیا اور کہنے لگا ” “خ” کو تم نے کیا کِیا ہے ؟ ”
میں نے کہا “میں نے تو اُسے کچھ نہیں کیا۔ اُس نے کیا کہا ہے میرے متعلق ؟”
جواب ملا “وہ کہتا ہے کہ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے ۔ میں اب تک جانور تھا”
پھر اُس نے بتایا کہ “خ” کتاب لیتا تو واپس نہ کرتا یا واپس کرتا تو پھٹی ہوئی ہوتی ۔ پچھلے ہفتے اس نے مجھ سے ایک ہفتے کیلئے ایک کتاب مانگی میں نہیں دینا چاہتا تھا مگر اُس کے منت کرنے پر دے دی ۔ کل وہ واپس کر کے گیا تو اُس پر موٹا کاغذ چڑھا ہوا تھا اور کوئی ورق دوہرا تک نہیں کیا ہوا تھا ۔ میں نے کہا کہ تم تو انسان بن گئے ہو تو کہنے لگا کہ ‘میں اکیلی اولاد ہونے کے سبب بہت لاڈلا ہوں مزید ماموں کی اکلوتی اولاد بیٹی سے منگنی ہو گئی اور وہ بھی میری ہر ضد پوری کرتے رہے ۔ نتیجہ میں خودسَر ہو گیا ۔ اجمل صاحب نے مجھے انسان بنا دیا ہے’ ۔ پھر سار واقعہ بائیسائکل والا سنایا”

لڑکپن کی باتيں قسط 5 ۔ تاش

قبل ازیں باد نما ۔ وطن ۔ افسانہ یا حقیقت اور رنگِ زماں لکھ چکا ہوں

ميں نے مارچ 1953 ميں پنجاب يونيورسٹی کا ميٹرک کا امتحان ديا ۔ [1954 عيسوی تک ميٹرک کا امتحان پنجاب يونيورسٹی ليتی تھی] ۔ کسی وجہ سے نتيجہ شائع ہونے ميں دير ہو گئی ۔ لاہور اور مری وغيرہ کی سير کے بعد وقت گذارنے کيلئے جو ذرائع ميں نے استعمال کئے اُن ميں ايک تاش کے کھيل بنانا بھی تھا ۔ مجھے جو اپنے پرانے کاغذات ملے ہيں اُن ميں سے ایک کھيل درج ذیل ہے ۔

A ۔ یکہ ۔ ۔ K ۔ بادشاہ ۔ ۔ Q ۔ ملکہ ۔ ۔ J ۔ غلام ۔ ۔ S ۔ حُکم ۔ ۔ H ۔ پان ۔ ۔ D ۔ اینٹ ۔ ۔ C ۔ چڑیا

تاش کے 52 پتّے ليکر پہلے حُکم کا يکّہ نيچے اس طرح رکھيئے کہ سيدھی طرف اوُپر ہو پھراُس پر مندجہ ذيل ترتيب ميں پتّے سيدھے رکھتے جائيے

SA, C4, S2, H3, S10, S3, DQ, DJ, H9, S4, H4, D9, C8, HQ, S5, C5, H5, C10, SJ, D4, S6, D7, D6, DK, H6, H10, C6, S7, CK, DA, CQ, C9, SQ, H7, D8, S8, HK, CA, D2, C2, HJ, C7, H8, D5, S9, C3, CJ, SK, HA, D10, H2, D3

دی ہوئی ترتيب سے سب پتّے رکھ چُکيں تو ان کو اکٹھا اُٹھا کر اُلٹا رکھ ليجئے ۔ پھر جب کسی کو کرتب دِکھانا ہو تو اُوپر سے ايک پتّا اُٹھائيے اور بغير ديکھے ايک کہہ کر نيچے سیدھا رکھ دیجیئے ۔ يہ حُکم کا يکّہ ہو گا ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا اُٹھا کر دو کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی دُکّی ہو گی ۔ پھر ايک کہہ کر اُوپر سے ايک پتّا اُٹھا کر سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے اور دوسرا پتّا دو کہہ کر اٹھائيے اور سب پتّوں کے نيچے رکھ ديجئے پھر تيسرا پتّا اُٹھا کر تين کہہ کر نيچے رکھ ديجئے ۔ يہ حُکم کی تِکّی ہو گی ۔ يہ عمل دوہراتے جائیے حتٰی کہ حُکم کے 13 پتے ختم ہو جائیں ۔ یہي عمل پھر پان کے پتوں کے ساتھ دوہرائیے پھر چڑیا کے پتوں کے ساتھ اور آخر میں اینٹ کے پتوں کے ساتھ ۔

لڑکپن کی باتيں قسط 4 ۔ رنگِ زماں

قبل ازیں باد نما ۔ وطن اور افسانہ یا حقیقت لکھ چکا ہوں

جن دنوں ميں نويں دسويں جماعت ميں پڑھتا تھا ميں اور ميرے 3 دوست جمعہ کو مرکزی جامع مسجد راولپنڈی ميں نمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد بانسانوالا بازار ۔ راجہ بازار ۔ لياقت روڈ ۔ مری روڈ اور سرکلر روڈ سے ہوتے ہوئے گھروں کو چلے جايا کرتے تھے ۔ ميں جھنگی محلہ ميں اپنے گھر اور باقی اپنے اپنے ۔ ايک دن نماز کے بعد جب ہم لوگ لياقت روڈ پر سنيما کے سامنے سے گذر رہے تھے تو ہم نے ديکھا کہ ايک جوان جو مسجد میں نماز پڑھ کر نکلا تھا سنيما کا ٹکٹ لينے کيلئے قطار ميں کھڑا ہے

انہی دنوں چُست لباس کا فيشن چلا اور لباس چُست ہوتے قميض جسم کے ساتھ يوں چِپکی کہ جيسے جسم پر رکھ کے سِی گئی ہو ۔ شلوار کا گھير نہائت مختصر ہو گيا اور دوپٹہ سُکڑ کر اور بَل کھا کے رَسی کی صورت اختيار کر گيا ۔ اس لباس کو ٹیڈٰی لباس (Teddy Dress) کا نام دیا گیا تھا ۔ شاید ٹائڈی (Tidy) کو ٹیڈی بنا دیا گیا ہو

شام کے وقت گھر ميں بيٹھا تھا کہ ميرا دماغ گھومنے لگا ۔ ميں نے کاغذ پنسل پکڑی اور لکھنے لگ گيا ۔ يہ نظم ميرے ساتھيوں نے کسی رسالے ميں بھی چھپوا دی تھی جس کا نام اس وقت ميرے ذہن ميں نہيں

ہر موڑ پہ تُم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ ۔ ۔ ۔ خاموش يہ سب سَيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھئيٹر کو جاتے ہيں مسجد سے نکل کر ۔ ۔ ۔ اسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک تو رُخسار پہ پاؤڈر ۔ ۔ ۔ يہ دُخترِ مِلت ہے رواں ديکھتے جاؤ
نازک ہوئی دخترِ مِلت کی طبيعت ۔ ۔ ۔ دوپٹہ بھی ہوا اس پہ گراں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے ۔ ۔ ۔ انساں ہيں بنے ٹَيڈی ديکھتے جاؤ
ہے اَوجِ ترقی کی طرف جاتا زمانہ ۔ ۔ ۔ اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ

بندہ حاضر

درست طریقہ تو خدمتگار سے خدمتگار (server to server) سب کچھ مُنتقل کرنا ہے لیکن بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب سوچا کہ اسے اپنے کمپیوٹر پر اُتار (download) لیا جائے ۔ خیال تھا کہ 9 مئی کو ڈاؤن لوڈ شروع ہو جائے گا مگر ہو نہ سکا کیونکہ وفاقی وزیر برائے بجلی کے اعلان کہ “غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اب نہیں ہو گی” بجلی بغیر اعلان زیادہ جانی شروع ہو گئی ۔ اس ناکامی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 12 مئی کو ایک تحریر شائع کر ڈالی ۔ اسی دوران نئے خدمتگار کے انتخاب کیلئے ماہرین سے مشورے بھی جاری رہے ۔ پھر غیر ملک میں مقیم ایک مہربان سے درخواست کی کہ وہ ہمارا کام کر دیں ۔ اُنہوں نے ہدائت کر دی کہ پہلے ہم سب کچھ کا اپنے کمپیوٹر پر محفوظہ اُتار (backup download) لیں ۔ یہ کام وقفے وقفے سے کافی ذہنی اور جسمانی کوفت سے مکمل ہوا جس کے بعد اُن صاحب کو مطلع کیا گیا کہ منتقلی کا کام شروع کریں ۔ اس طرح توقع سے کچھ دن زیادہ ہی لگ گئے ہیں

کہتے ہیں خالی بیٹھے شیطان سوجھے سو میں نے خالی بیٹھنا سیکھا ہی نہیں ۔ متذکرہ دنوں میں بلاگ کو نہ چھیڑنے کا عہد تھا ۔ سوچا اب میں کیا کروں ؟

پہلا کام ۔ میں نے مختلف ذرائع سے تفتیش کی کہ بجلی جاتی کہاں ہے ؟ نتیجہ میں دھماکہ خیز کوائف مل گئے لیکن اس کا بیان پھر کسی دن
دوسرا کام ۔ کمپیوٹر اور مانیٹر کیلئے علیحدہ علیحدہ یو پی ایس لگائے ہوئے ہیں ۔ مانیٹر والے یو پی ایس میں نئی بیٹری ڈالنے کے بعد وہ 10 منٹ تک چلتا ہے پھر کم ہوتے ہوتے تین چار ماہ بعد اِدھر بجلی گئی اُدھر پھڑک سے مانیٹر بند ۔ کبھی کوئی فائل برباد کبھی ونڈوز کا بیڑہ غرق ۔ سوچا کہ بجلی کا بند ہونا تو میں روک نہیں سکتا کچھ اپنا ہی بندوبست کیا جائے ۔ تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ایل ای ڈی مانیٹر اسلام آباد میں آ گئے ہیں ۔ دل پر پتھر رکھ کر اپنے پیارے دیرینہ ساتھی فِلِپس کے 17 انچ کے چپاٹ (flat) مانیٹر 107ای 5 (resolution 1024X768) کی فُرقت اور اپنے زر کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا اور نئے زمانے کی طرح ہرجائی بنتے ہوئے اے او سی کے 20 انچ الٹرا سلِم (ultra slim) ایل ای ڈی مانیٹر (resolution 1600X900) سے دوستی کا ارادہ کیا ۔ ملاحظہ ہو
.

لڑکپن کی باتيں قسط 3۔ افسانہ يا حقيقت

اس سلسلے کی پہلی قسط باد نما اور دوسری قسط وطن لکھ چکا ہوں
مجھے انجينئرنگ کالج ميں اپنے طالب علمی کے زمانہ کا لکھا ہوا ايک افسانہ بھی ان کاغذات ميں ملا جو نقل کر رہا ہوں

ايک صبح

دھند معمول سے کچھ زيادہ تھی پھر بھی ميں اپنی عادت سے مجبور سير کو نکل پڑا ۔ جونہی دروازے سے باہر قدم رکھا سردی کاٹتی ہوئی محسوس ہوئی سارا بدن ٹھٹھر کر رہ گيا ليکن ميں ارادہ کر چکا تھا اور اس کا التواء مُشکل تھا ۔ برفانی ہوا نتھنوں کو چيرتی ہوئی پھيپھڑوں کی گہرائی تک پہنچنے لگی ۔ ہوا کے يخ آلودہ جھونکوں سے آنکھوں سے آنسو اُبھر آئے ۔ کُہر نے سبزے پر سفيد چادر تھی اور ہر طرف سيميں فرش بچھا تھا مگر ميں بڑھتا گيا ۔ ميں آگے بڑھتا گيا ۔ ہاتھ پاؤں اب سُن ہو چکے تھے اسلئے سردی کا احساس کم ہو گيا تھا ۔ صبح صادق ہو چکی تھی اور بڑھتی ہوئی روشنی آفتاب کے اُبھرنے کا پيغام دے رہی تھی

ميں بے خيالی ميں مشرق کی جانب چل ديا کہ جيسے ميں نے آفتاب کا استقبال کرنا ہو ۔ سردی کی شدّت سے بے نياز دماغ ميں قلعے بناتا اور مسمار کرتا نمعلوم ميں کتنا دور جا چکا تھا ۔ ايک عجيب سی ادھيڑ بُن تھی جس ميں محو ميں گرد و پيش کو بھول چکا تھا ليکن خيالات تھے کہ ايک تانتا بندھا آ رہا تھا ۔ زمہرير ميں بھی تخيّل تيز رفتاری سے کام کر رہا تھا ۔ خيالات ذہن پر آ آ کر محو ہو رہے تھے

ديکھتا کيا ہوں کہ ميں ندی کے کنارے پہنچ گيا ہوں جو برفانی پہاڑوں سے نکل کر يخ بستہ چٹانوں کے بيچ رينگتی چلی آ رہی ہے اور اپنے ساتھ برف کے تودے جھاگ کی طرح بہائے لئے جا رہی ہے ليکن ندی کی روانی ميں موسمِ گرما کے برعکس سکوت ہے ۔ برف کے تودے گاہ بگاہ ايک دوسرے سے ٹکرا کر مدھم آواز پيدا کر ديتے ہيں ليکن فضا ميں وہ ارتعاش نہيں جو پہاڑی ندی کو پيدا کرتے سنا تھا ۔ سکون ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہے ۔ کوئی ذی روح چرند پرند دکھائی نہيں پڑتا ۔ ايک شہرِ خموشاں ہے جہاں نہ شہنائی کی مدھر آواز نہ پہاڑی لوگوں کی دلربا تانيں ۔ گڈريا بھی اپنی بانسری پھينک کر گھاس پھوس پر دبکا پڑا ہے ۔ غزالوں کی چاپ اور چکوروں کے راگ کا نام و نشان نہيں ۔ ہاں کبھی کبھی برف کا تودا ندی ميں گر کر سکون کو چند لمحوں کيلئے مکّدر کر ديتا ہے

چلتا جا رہا تھا کہ کچھ دور نيچے کی طرف سے ندی ميں ہلکا سا شور سنائی ديا ۔ ميں اپنے خيالات سے چونک اُٹھتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں پھر تيزی سے قدم اُٹھانے لگتا ہوں ۔ آواز جو لگاتار آ رہی تھی کچھ واضح ہوتی ہے ۔ “کسی کے تيرنے کی آواز معلوم ہوتی ہے” ميں اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہوں ۔ “ليکن اتنی سردی اور پھر برفانی پانی ميں تيرنا ناممکن ہے” ميرا ذہن جواب ديتا ہے اسی طرح کی سوچيں لئے ہوئے ميں آگے بڑھتا ہوں اور ديکھ کر ميری حيرت کی انتہاء ہو جاتی ہے اور اپنی آنکھوں پر يقين نہيں آتا ۔ ايک شخص بڑی جد و جہد کے ساتھ پانی کے بہاؤ کے خلاف تير رہا ہے ۔ تيز بہتی ہوئی ندی کی لہريں اسے پيچھے کو دھکيل رہی ہيں ۔ برف کے تودے اسے اپنے آگے بہا کر لے جانے کی کوشس ميں ہيں ۔ ليکن وہ تودوں کو اِدھر اُدھر کر کے پوری جاں فشانی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی تگ و دو ميں ہے ليکن اس کی آگے بڑھنے کی رفتار سُست پڑ چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سُست تر ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ شخص ہار ماننے کو تيار نظر نہيں آتا کيونکہ بجائے کنارے کی طرف آنے کے ندی کے بہاؤ کے خلاف اُوپر جانے کی کوشش ميں ہے ۔ تمامتر دِقتوں کے باوجود وہ بلند حوصلگی اور اولالعزمی کے ساتھ تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہے

ميں سوچتا ہوں “نجانے کب سے وہ اس کاروبار ميں مصروف ہے”۔ مجھ سے رہا نہيں جاتا اور ميں اپنی پوری قوت مجتمع کر کے آواز ديتا ہوں
“تم کون ہو جو اتنی سردی ميں بھی پيراکی کی مشق کر رہے ہو ؟”

“اے تماشائی ۔ تو نے مجھے مذاق سمجھا ہے ۔ ميں بہت بڑا پيراک تھا ۔ ميرے بازوؤں ميں لامتناہی قوت تھی ليکن اب ميرے بازو شل ہو گئے ہيں ۔ ميں طاقتور تھا ليکن زمانے نے مجھے نحيف اور کمزور بنا ديا ہے ۔ ليکن اے بنی آدم ۔ مجھے ديکھ اور عبرت پکڑ کہ اس عالَم ميں بھی ثابت قدمی کا دامن نہيں چھوڑتا ہوں”

ميں پوچھتا ہوں “آخر تمہارا نام کيا ہے ؟”

” ميرا نام پوچھتے ہو ؟ ميرا نام ہے نيکی اب جو کمزور ہے جس کے بازو شَل ہيں اور اب اس دنيا سے رُخصت ہونے کو ہے ۔ اور اے بنی آدم ۔ يہ ندی سيلِ زمانہ ہے جس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد ميری قسمت ميں لکھی جا چکی ہے ۔ ليکن ميں اپنے ارادہ کا پکا ہوں ۔ مجھے بڑی سے بڑی لہر بھی ميرے مقصد سے عليحدہ نہيں کر سکتی ۔ اس جد و جہد ميں جان دے دوں گا مگر ہتھيار ڈالنا ميرے لئے مشکل ترين کام ہے”

يہ جواب پا کر ميں نے اُسے اس کی حالت پر چھوڑ ديا مگر اس خيال نے ميرے ذہن کو مضبوطی سے پکڑ ليا اور اب ميرا دماغ مختلف خيالوں کی بجائے صرف اس ندی ۔ اس کے بہاؤ اور اس کے خلاف جد و جہد ميں اُلجھ کر رہ گيا ۔ اور ميں پھر سے ان خيالات ميں گم گھر لوٹ رہا تھا ۔ سردی کتنی تھی ؟ ميں بھول چکا تھا ۔ ميرے ذہن ميں خيالات اور تصورات کا تانتا بندھا چلا آ رہا تھا ليکن اب ميری سوچ اور غور و فکر ايک مختلف نہج پر تھے ۔ بالکل مختلف ۔ برفانی ندی ۔ بہاؤ ۔ پيراکی

اب جب بھی کبھی تنہائی ميسّر آتی ہے تو اپنے آپ کو اسی صبح ميں گم پاتا ہوں ۔ ندی ميں اس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد کا منظر سامنے آ جاتا ہے

لڑکپن کی باتيں قسط 2 ۔ وطن

ميں قسط 1 ميں اپنے ہی مقرر کردہ اُن اصولوں کو نقل کر چکا ہوں جن کا ميری کاميابی ميں کچھ حصہ تو ضرور رہا ہو گا ۔ لڑکپن ميں وطن سے ميرے لگاؤ کی ايک جھلک ان اشعار ميں ملتی جو ميں نے اپنی عام استعمال کی بياض پر نقل کئے ہوئے تھے

وطن وہ مرکزِ صِدق و صَفا حريمِ جمال ۔ وطن وہ کعبہءِ عِلم و ہُنر عروجِ کمال
وطن کہ سرمہ چشم طلب ہے خاک اسکی ۔ وطن شہر نغمہ نکہت ديارِ حُسن و خيال
وطن جہاں ميری اُمنگوں کا حُسنِ تاباں ہے ۔ وطن کہ جہاں ميری شمع وفا فروزاں ہے
وطن جہاں ميری يادوں کے ديپ جلتے ہيں ۔ وطن جو يوسف بے کارواں کا کنعاں ہے

ميرے خلوصِ سُخن پہ جو اعتبار آئے ۔ روِش روِش پہ چمن ميں کوئی پکار آئے
ہميں بھی باغِ وطن سے کوئی پيام آئے ۔ ہميں بھی ياد کرے کوئی جب بہار آئے

ديارِ شوق سے تيرا اگر گذر ہو صبا ۔ گُلوں سے کہنا کہ پيغمبر بہار ہوں ميں
ميرے نفس سے ہيں روشن چراغِ لالہ و گُل ۔ چمن کا روپ ہوں ميں حُسنِ لالہ زار ہوں ميں

چمن چھُٹا تو گُل و ياسمن کی ياد آئی ۔ پہنچ کے دشت ميں صبحِ چمن کی ياد آئی