Category Archives: گذارش

دل لہُو لہُو

آج تیسرا دن ہے کہ میں دِل کٹا ہوا محسوس کرتا ہوں
دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور کلیجہ بار بار منہ کو آتا ہے

وہ ہزارہ تھے
وہ شیعہ تھے

درست کہ میں اُن کے مسلک سے اختلاف رکھتا ہوں
مگر وہ انسان تھے

کیا اللہ نے ۔ اُس اللہ نے جس کا میں مُسلم ہوں
کسی انسان کے اس طرح ہلاک کئے جانے کی اجازت دی ہے ؟
جس طرح جمعہ کے دن کوئٹہ میں 100 سے زائد بے قصور انسانوں کو بغیر کسی اشتعال کے خُون میں نہلا دیا گیا ؟

کہاں ہے انسانیت ؟
کہاں مر گئی جمہوریت ؟

پچھلے 53 سے زائد گھنٹوں سے ہلاک کئے جانے والوں کےسینکڑوں لواحقین 86 میّتوں کو لئے برفانی سردی میں کھُلے آسمان تلے بیٹھے ہیں ۔ کل بارش بھی اُن پر برستی رہی اور اُنہوں نے ذرا سی جُنبش نہ کی

آخر اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتے ہیں ؟
پہلے بھی اسی طرح اُن کے درجنوں ساتھی ہلاک کئے گئے مگر حکومت نے کچھ نہ کیا

اللہ کے بندو ۔ اور کچھ نہیں کر سکتے تو اُن سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج تو کرو
چند سو لوگ جو کئی شہروں میں کل سے احتجاج کرتے ہوئے کھُلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہیں
اگر اُن کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے تو قلم سے تو احتجاج کر سکتے ہیں

جیسا کہ عدالتِ عظمٰی بہت پہلے فیصلہ دے چکی ہے بلوچستان کی حکومت ناکام ہو چکی ہے
بلوچستان کی حکومت کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور وہاں دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں

بلاگران سے گذارش

عرصہ سے میں نے اس بلاگ کے حاشیہ میں مندرج روابط کی طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ پچھلے دنوں کچھ بلاگ کھولنے کی کوشش کی تو ندارد جس سے اپنی بے توجہی کا احساس ہوا ۔ یعنی بلاگوں کے پتے تبدیل ہو چکے تھے ۔ ایک اور حقیقت سامنے آئی کی کچھ بلاگ جو پچھلے 2 سالوں میں نمودار ہوئے یا مجھے نظر پڑے وہ بھی درج نہیں ہیں ۔ چنانچہ جب وقت میسّر ہوا تو ان کے پتوں کی تلاش شروع کی جس میں کافی حد تک کامیابی ہوئی ۔ اب پرانے بلاگ حتی المقدور نئے پتوں کے ساتھ اور کچھ نئے بلاگ درج کر دیئے گئے ہیں ۔ وہ بلاگ جون پر پچھلے 2 ماہ میں کچھ تحریر نہیں کیا گیا اُنہیں شامل نہیں کیا گیا ۔ وہ بلاگ بھی شامل نہیں کئے گئے جو فلمی ہیں یا کاپی پیسٹ ہیں یا مشاعرہ ہیں

بلاگران سے گذارش ہے کہ توجہ فرمائیں اور نیچے دی گئی فہرست میں اپنے بلاگ کے عنوان پر کلِک کر کے کے دیکھ لیں کہ ان کے بلاگ کا پتہ درست درج کیا گیا ہے ۔ اگر کوئی صاحبہ یا صاحب متواتر لکھنے والے ہیں اور اُن کا بلاگ فہرست میں شامل نہیں وہ تبصرہ کے کے ذریعہ مطلع کر سکتے ہیں

ابو شامل
احمد عرفان شفقت
ارتقائے حیات
اسد حبیب
اظہارالحق
افتخار راجہ
اقبال جہانگیر (آوازِ پاکستان)۔
امتياز خان
چاچا ٹام
باذوق
باسم
بلا امتیاز
بلو بلا
تانیا رحمٰن
جاوید اقبال
جاوید گوندل
جعفر (حالِ دل)۔
جواد احمد
حجابِ شب
حرفِ دعا
حلیمہ عثمان (قلم کارواں)۔
حکیم خالد
حیدر آبادی
خاور کھوکھر
خرم شہزاد
راشد ادریس رانا
شازل
شاہ فیصل
شاہدہ اکرم
شعيب صفدر
شگفتہ
صدائے مسلم
ضیاء الحسن خان
عادل بھیّا
عدنان شاھد
عدنان مسعود
عمر فاروق
عمران اقبال
عمّار ابنِ ضیاء
لبنٰی مرزا
محمد بلال
محمد کاشف
میرا پاکستان
پروفیسر محمد عقیل
کائنات بشیر
کاشف نصیر
کوثر بیگ
یازگل
یاسر جاپانی

دعا کی درخواست

میری بڑی بہن جس نے میری ماں کی 1980ء میں وفات کے بعد میرے ۔ میری بیوی بچوں اور پوتیاں اور پوتے کیلئے میری ماں کا سایہ فراہم کئے رکھا ۔ وہ کچھ دنوں سے سخت نگہداشت کے کمرے میں آکسیجن کے سہارے لیٹی ہے

اے میرے مالک و خالق الرّحمٰن و الرّحیم و قادر و کریم ۔ میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے ۔ میں کس کے پاس جاؤں اور کس سے فریاد کروں ؟
اے اللہ گناہوں کی بخشش دینے والے ۔ میرے کردار کی طرف نظر کرنے کی بجائے اپنی رحمت کی طرف نظر کر کہ تیری تو صفت ہی یہی ہے
ہم سب کی دعاؤں کو قبولیت بخش دے اور میری بہن کو جس نے میرے علم اور مشاہدے کے مطابق کبھی کسی کا بُرا کرنا تو کیا کبھی بُرا سوچا بھی نہیں اُسے صحت عطا کر دے

اے میرے پیارے اللہ سب تیرے علم میں ہے کہ میری یہ بہن یتیم بچیوں کی شادیوں کے پورے پورے اخراجات اُٹھاتی رہی ۔ ناداروں کی امداد کرتی رہی اور میرے سمیت سب چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کاموں پر اُکساتی رہی ۔ آج وہ ہسپتال میں بے بس پڑی ہے
میرے اچھے اللہ ۔ مرنا تو بر حق ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُس نے واپس لوٹنا ہے ۔ میری صرف اتنی استدعا ہے کہ میری پیاری بہن کے عضؤ اور احساسات بحال کر دے

تمام قارئین سے دعا کی درخواست ہے

ایک نئی مصیبت ۔ ۔ ۔ مدد ۔ مدد

ورڈ پریس پر بلاگ رکھنے والوں سے التماس ہے کہ وہ توجہ دیں اور میری مُشکل حل کریں

میں مندرجہ ذیل بلاگوں پر آج سے قبل بغیر کسی مُشکل کے تبصرے کر چکا ہوں

http://tehreemtariq.wordpress.com
http://aqilkhans.wordpress.com
http://dinraat.wordpress.com

کل یعنی مورخہ 18 مارچ 2012ء کو میں نےان بلاگوں پر تبصرہ لکھا ۔ جب شائع کرنے کی کوشش کی تو شائع نہ ہوا اور مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہوئی نمودار ہوئی

That email address is associated with an existing WordPress.com (or Gravatar.com) account. Please click the back button in your browser and then log in to use it.

عرضداشت ۔ تاخير کا سبب

ميں نے عدنان شاہد صاحب کی فرمائش پر سانحہ مشرقی پاکستان کے اسباب پر قلم اُٹھانے کيلئے اپنے دماغ کی محفوظ ياد داشت [Reserve memory] کو کھروچنے اور اپنے پرانے کاغذات اور بياض کھنگالنے کے بعد خاص کر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے کچھ لکھنے ميں کسی حد تک کامياب ہو گيا اور اسے ايک مضمون کی شکل دے رہا تھا کہ شاہد عدنان صاحب کی 25 اور 26 نومبر کی درميانی رات کی لکھی ہوئی ای ميل بروز ہفتہ 26 نومبر 2011ء کو نظر پڑی جس ميں اطلاع تھی کہ وہ پھر سے ميرا بلاگ کھول نہيں پا رہے ۔ يہی شکائت چند اور محترم قارئين اور محترمات قاريات کو بھی ہے [وائے پی ٹی سی ايل]

چونکہ يہ ايک اہم موضوع ہے جس ميں بہت سے قارئين اور قاريات کی دلچسپی کی توقع ہے اور شايد پھر مجھے کبھی اس کے اظہارِ خيال کا موقع نہ ملے ۔ اس لئے ميں نے اس کی اشاعت کو اُس وقت تک ملتوی کرنے کا ارادہ کيا ہے جب تک ميں پاکستانی ڈومين حاصل نہيں کر ليتا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ميری مدد فرمائے

جيسا کہ ميں پہلے ہی اعلان کر چکا ہوں اُميد ہے کہ اللہ کی مہربانی سے وسط ماہ دسمبر 2011ء تک ميرا يہ بلاگ ميری نئی ڈومين پر مُنتقِل ہو جائے گا ۔ اسلئے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے قارئين اور قاريات کو اِن شاء اللہ زيادہ انتظار نہيں کرنا پڑے گا
اللہ ميرا حامی اور ناصر ہو

کب آئے گی واپس حميّت ہماری ؟ ؟ ؟

جب عوام تحريک چلا کر اپنے لئے وطن کے نام پر زمين کا کوئی ٹکڑا حاصل کرنے کيلئے اپنے خون کا نذرانہ پيش کرتے ہيں ۔ يقينی طور پر اور ميں بطور نو دس سال کے بچے کے اس کا شاہد ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی1946ء اور 1947ء ميں ايسا ہی کيا تھا ۔ دراصل وہ 1857ء سے وقفے وقفے سے اپنے خون کے نذرانے پيش کرتے آئے تھے ۔ لاکھوں بوڑھے ۔ جوان ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کے خون اور ہزاروں عورتوں کی عزتوں کی قربانی کے نتيجہ ميں اللہ نے يہ وطن ہميں بخشا تھا کيونکہ ہم نے اس کا مطلب ” لا اِلَہَ اِلاللہ ” کہا تھا

جب وطن حاصل ہو جاتا ہے تو قوميں دن رات کی جاں فشانی سے ترقی اور خوشحالی کی طرف رواں دواں ہوتی ہيں ۔ بلاشُبہ وطنِ عزيز کے پہلے چند سال ايسا ہی ہوا ۔ پھر انگريزوں کے ذہنی غلام اس نوزائدہ وطن پر حاوی ہو گئے اور اپنے ہی بھائيوں کا گوشت نوچنے لگے بلکہ اپنے وطن کے بھی بخيئے ادھڑنے لگے ۔ ہموطنوں کی کوتاہ انديشی اور آپا دھاپی کے نتيجہ ميں1971ء ميں مُلک کا ايک بڑا حصہ جاتا رہا اور اب اُس کا حال کچھ اس طرح بنا ديا ہے

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں ۔ ۔ ۔ ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا تو ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا ۔ ۔ ۔ کنجشک فرومایہ کو میں اب کس سے لڑاؤں
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیاری و غدّاری و ہیجان ۔ ۔ ۔ اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو ۔ ۔ ۔ اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن ۔ ۔ ۔ مکاری و روباہی پہ اِتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو ۔ ۔ ۔ وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
شاہیں کا جہاں آج ممولے کا جہاں ہے ۔ ۔ ۔ ملتی ہوئی مُلا سے مجاہد کی اذاں ہے
مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور ۔ ۔ ۔ شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
کردار کا ، گفتار کا ، اعمال کا مومن ۔ ۔ ۔ قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن
سرحد کا ہے مومن کوئی پنجاب کا مومن ۔ ۔ ۔ ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تِنکا ہے تو ہر آنکھ میں شہتیر ۔ ۔ ۔ اب مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلواروں سے خالی ہیں نیامیں ۔ ۔ ۔ اب ذوقِ یقیں سے کہیں کٹتی نہیں زنجیر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر ۔ ۔ ۔ شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں میں سجا کر
آتے ہیں نظر مسندِ شاہی پہ رنگیلے ۔ ۔ ۔ تقدیرِ امم سو گئی ، طاؤس پہ آ کر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مرمر کی سِلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے ۔ ۔ ۔ رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے
کہنے کو ہر شخص مسلمان ہے لیکن ۔ ۔ ۔ دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے ۔ ۔ ۔ جمہور سے سلطانیءِ جمھور ورے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے ، یہاں پر جو خودی کا ۔ ۔ ۔ مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے ۔ ۔ ۔ اس بندہءِ مومن کو میں اب لاؤں کہاں سے
وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو ۔ ۔ ۔ اک بار میں ہم چُھٹے اس بار گراں سے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

ہوشيار ۔ خبردار ۔ اور مدد درکار ہے

فدوی افتخار اجمل بھوپال ہر اُس آدمی سے معذرت خواہ ہے جسے لايعنی يا مخرب الاخلاق برقی چِٹھی [E-mail] فدوی کے نام سے ملی ہے ۔ ہر چند کہ يہ چِٹھياں فدوی کی رضا و رغبت يا رضامندی کے بغير ہر اُس شخص کو گئی ہيں جس کا پتہ ميرے ياہو کے حساب [Yahoo account] ميں موجود ہے ۔ فدوی کا اگر قصور ہے تو اتنا کہ فدوی اپنا وقت بہتر طريقہ سے استعمال کرنے کيلئے ايک کمپيوٹر استعمال کرتا ہے مگر يہ ناہنجار چِٹھياں چونکہ ميرے نام سے جا کر مکتوب عليہان کی دلآزاری کا باعث بنی ہوں گی اسلئے معذرت لازم سمجھی گئی

شيطان کا کام تو شيطانی کرنا ہی ہے مگر ايسا ميرے نام سے کيوں ہوا ؟

کمپيوٹر اور انٹرنيٹ استعمال کرنے والے کچھ معصوم لوگ شيطان کی موجودگی سے بے خبر اپنے تجسس کی تسکين کی خاطر اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے رہتے ہيں جس کے نتيجہ ميں شيطان اُن کے کمپيوٹر ميں آ بيٹھتا ہے اور شرارتيں شروع کر ديتا ہے ۔ مجھ سے غلطی يہ ہوئی کہ ايک مانوس بلکہ قريبی نام سے چِٹھی آئی ۔ بظاہر اُس ميں کچھ نہيں تھا اور جواب طلب تھی ۔ اسلئے ميں نے جواب لکھ بھيجا ۔ گويا اپنے پاؤں پر کُلہاڑا مار ليا ۔ اگلے روز لايعنی چِٹھياں ميرے نام سے چلی گئيں ۔ تحقيق کے بعد معلوم ہوا کہ ميرا ياہو کا حساب چوری [hack] ہو گيا ہے

ميں نے ياہو کے حساب کا شناختی لفظ [Password] بدل ديا ہے مگر چوروں نے سائنس ميں ہم سے زيادہ ترقی کر لی ہے اسلئے مستقبل کے ہر لمحے سے ڈر لگتا ہے

اتنی لمبی روئيداد يا تمہيد پيش کرنے کے بعد درخواست ہے اہلِ عِلمِ کمپيوٹر و انٹرنيٹ سے کہ مجھ” دو جماعت پاس ناتجربہ کار شہر ميں نووارد ديہاتی” کی رہنمائی فرمائيں ۔ اور کوئی مُجرّب مگر سہل طريقہ شيطانوں کی ايسی شرارتوں سے محفوظ رہنے کا بتا کر ميری دعاؤں کے حقدار بنيں ۔ بڑے شيطانوں سے تو ہم اللہ کی پناہ مانگ ليتے ہيں مگر چھوٹے شيطان کسی طرح چين سے نہيں رہنے ديتے