Category Archives: معلومات

دبئی میں ہماری دوڑ دھوپ

دوبئی کی سیر کی دوسری قسط 12 جنوری کو لکھی تھی

بیٹے نے بتایا کہ دبئی میں عمارات ۔ مراکز للتسویق [Shopping Malls] کے علاوہ عجائب گھر [Museum] اور ساحِل سمندر [Beach] ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ سو عجائب گھر جو ایک پرانے محل کے اندر بنا ہوا ہے دیکھا ۔ اس میں پرانے زمانہ کی کِشتیاں ۔ آلاتِ حرب ۔ لباس ۔ برتن وغیرہ رکھے ہیں ۔ پرانے زمانہ میں اس علاقہ میں جس طرح کے باورچی خانے ۔ غُسلخانے اور سونے اور بیٹھنے کے کمرے ہوتے تھے وہ بنائے ہوئے ہیں ۔ پرانے زمانہ کے ہُنر اور تعلیم و تربیت کے مراکز کی بھی نمائش کی گئی ہے

ہم نے ایک کے بعد دوسرا مرکز للتسویق دیکھنا شروع کئے ۔ ان میں پھرنے سے قبل کئی کلو میٹر پیدل چلنے کا کئی سالہ تجربہ ہونا چاہیئے جو ہمیں دس پندرہ سال قبل تو تھا اب نہیں ہے لیکن اپنی عزت کی خاطر ہم نے مردانہ وار مقابلہ کیا ۔ مرکز للتسویق جہاں ہم گئے ان میں سے جن کے نام یاد رہے وہ حسب ذیل ہیں ۔

مرکز امارات للتسویق ۔ Mall of the Emirates ۔ مول امارات ۔ اس میں برف پر پھِسلنے [Ice Skiing] کا انتظام بھی ہے

مرکز مدینہ الدیرہ ۔ Daira City Centre

مدینہ مھرجان الدبئی ۔ Dubai Festival City

وافی ۔ Wafi ۔ اس کے ساتھ ہی ملحق ایک پرانے بازار کا اصل بحال رکھتے ہوئے اس کی جدید تعمیر کی گئی ہے جس کا نام خان مرجان ہے ۔ یہ بہت خوبصورت سہ منزلہ بازار ہے ۔ اس میں روائتی اشیاء فروخت ہوتی ہیں اور روائتی قہوہ خانہ بھی ہے ۔

ابنِ بطوطہ مرکز للتسویق ۔ اس میں مختلف تہذیبوں کے مطابق حصے بنے ہوئے ہیں اور چھتیں [Ceiling ] بھی مُختلف مگر دلچسپ بنائی گئی ہیں ۔ ایک حصہ میں چھت اس طرح ہے جیسے آسمان جس پر بادل بھی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید تھوڑی دیر میں بارش شروع ہو جائے

سوق مدینہ الجمیرہ . Souk Madinat Jumeirah

مرکز دبئی للتسویق ۔ The Dubai Mall ۔ یہ ابھی نیا نیا بنا ہے ۔ ابھی صرف 500 دکانوں نے کام شروع کیا ہے ۔ 1000 سے زیادہ بند پڑی ہیں ۔ اس میں برف پر پھِسلنے کا دائرہ [Ice Skiing Ring] بھی بن رہا ہے ۔ اس میں بہت بڑا مچھلی گھر [Aquarium] ہے جس میں کبھی ایک اور کبھی دو غوطہ خور بھی تیر رہے ہوتے ہیں ۔

القریہ العالمیہ ۔ Global Village ۔ یہ ایک بین الاقوامی میلہ شاید 18 نومبر کو شروع ہوا اور 22 فروری تک رہے گا ۔ ہم 20 نومبر کو گئے۔ اس میں کچھ دکانیں شروع ہو چکی تھی ۔ اس میں وطنِ عزیز کا بھی ایک بڑا حصہ تھا جس میں قالین ۔ پارچہ جات اور برتنوں کی دکانیں کچھ لگ چکی تھیں باقی سامان آ رہا تھا ۔ اس حصہ کا ماتھا بہت خوبصورت تھا ۔ لاہور کے قلعہ کی شکل بنائی گئی ہے ۔ اس کے سامنے ہی پاکستان کے کھانوں کی دکانیں ہیں بشمول راوی ۔ بندو خان وغیرہ

ان مراکز کی خصوصیات

زیادہتر مراکز کا رقبہ میرے خیال کے مطابق ایک کلو میٹر سکوائر یازیادہ ہے
مرکز کے ساتھ دو سے تین منزلہ پارکنگ کا علاقہ ہوتا ہے جس میں سینکڑوں گاڑیاں کھڑا کرنے کی گنجائش ہوتی ہے
ان میں انسان کی ضرورت کی تقریباً ہر شٔے ملتی ہے شرط جیب بھری ہونا ہے یا بغیر حد کےکریڈٹ کارڈ
سوائے الیکٹریکل اور الیکٹرانکس کے سامان کے ہر چیز وطنِ عزیز کی نسبت مہنگی ہے
ہر قسم کے آدمی کیلئے کھانا کھانے کا بندوبست ہے
زائرین کیلئے مناسب تفریح اور بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے
فضا کو صحتمند رکھنے کیلئے فوارے یا آبشار یا نہر ۔ بعض نہروں میں کِشتی چلتی جس سے زائرین لُطف اندوز ہوتے ہیں
کسی کسی مرکز میں ایک چھوٹا سا حصہ ہوتا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے غیرمُسلموں کیلئے
آرام کرنے کیلئے راہداریوں میں صوفے یا بینچ پڑے ہوتے ہیں
کچھ میں سینما ہاؤس ہوتا ہے جہاں سارا دن فلمیں دکھائی جاتی ہیں ۔ ان کے سامنے ٹکٹ خریدنے والوں کی ہر وقت قطاریں لگی رہتی ہیں

زائرین میں لباس کے لحاظ سے غنیم ترین سے مِسکین ترین عورتیں ہوتی ہیں ۔ غنیم ترین یعنی سر سے پاؤں تک مکمل ڈھکی ہوئی اور مِسکین ترین جن بیچاریوں نے ایک یا آدھی بنیان اور کچھہ یا چڈی پہنی ہوتی ہے

ان مراکز کی ایک اہم اور دل خوش کُن خصوصیت یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کیلئے نماز پڑھنے کا علیحدہ علیحدہ انتظام ہے اور ہر نماز کی اذان پورے مرکز اور پارکنگ ایریا میں واضح طور پر سنائی دیتی ہے ۔ مرکز کی وسعت کی وجہ سے سب لوگ ایک وقت پر مسجد میں نہیں پہنچ سکتے اسلئے جماعت کئی بار ہوتی ہے ۔ نماز پڑھنے والوں میں میرے جیسے بھی ہوتے ہیں اور جینز اور ٹی شرٹ پہننے والے بھی ۔ میری بیگم نے بتایا کہ عورتوں کی مسجد میں بہت سے عبایہ اور رومال رکھے ہوتے ہیں ۔ جو عورتیں انگریزی لباس میں ہوتی ہیں وہ نماز کے وقت پہن لیتی ہیں

ایک دن بیٹا کہنے لگا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ داخلہ فیس والے ساحلِ سمندر کے بالکل ایک طرف جا کر شریفانہ طریقہ سے تفریح کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا جا سکتا ہے ۔ ایک جمعہ کو نماز کے بعد روانہ ہوئے اور اس جگہ پہنچ گئے ۔ فیس کی ادائیگی کے بعد داخل ہو کر آخری سِرے پر کار پارک کی اور چٹائیاں اُٹھا کر ساحل کی طرف چل پڑے ۔ ساحل کے قریب پہنچ کر لوہے کی چادر سے بنی دیوار کے قریب براجمان ہو گئے ۔ بیٹا ۔ بیٹی اور بہو بیٹی کھانا لینے چلے گئے ۔ اُس وقت سمندر کے ہمارے سامنے والے حصہ میں چار پانچ کالی اور گوری عورتیں نہا رہیں تھیں تو ہم منہ خُشکی کی طرف کر کے بیٹھ گئے ۔ شاید اُنہیں اس کا احساس ہو گیا اور وہ کچھ دیر بعد وہاں سے دور چلی گئیں اور گویا ہم آزاد ہو گئے یعنی سمندر کی طرف منہ کر کے سمندر کی لہروں ۔ اس میں چلتی کِشتیوں اور سکیٹس [Skates] کا نظارہ کرنے لگے ۔
عجائب گھر

بقیہ تصاویر کیلئے تھوڑا سا انتظار کیجئے ۔

سڑکوں اور عمارتوں کی دنیا

دسمبر 2008ء کے پہلے ہفتے میں دبئی کی میری دوسری سیاحت کا حال لکھنا شروع کیا تھا لیکن دوسرے اہم مسائل نے آگے نہ بڑھنے دیا

سڑکیں
دبئی میں پہلی چیز جو ہمیں نظر آئی وہ کشادہ اور دو سے چار رویہ اور کبھی اُوپر نیچے ہو کر چھ رویہ سڑکیں ہیں جن پر سینکڑوں کاریں ہر وقت دوڑ رہی ہوتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب اِدھر سے اُدھر جا کر واپس آ رہی ہیں اور یونہی دن گذار دیتی ہیں ۔ اس سب کے باوجود کسی کسی علاقہ میں پیدل چلنے والا ۔ کار سواروں سے پہلے منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے ۔ مگر میں نے پیدل چلنے کی سعی اسلئے نہ کی کہ کہیں ان کاروں اور سڑکوں میں گم ہو گیا تو لواحقین کم از کم چند گھنٹے پریشان رہیں گے ۔ میں بیگم اور بیٹی کو خوش ہونے کیلئے دبئی لے گیا تھا پریشان ہونے کیلئے نہیں ۔

ایک منظر پریشان کُن تھا کہ کئی سڑکوں کو کشادہ کرنے کی کوشش میں فی الحال روکاوٹیں کھڑی کر کے اُنہیں تنگ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ میٹرو ٹرین چلانے کیلئے اُس کی معلق [Over-head] گذرگاہ زیرِتعمیر ہے جو سڑکوں کی کشادگی کو محدود کئے ہوئے ہے ۔

عمارات

دبئی میں جو دوسری چیز ہمیں نظر آئی وہ وہاں کی بلند و بالا عمارات ہیں جن کی بلندی دیکھنے کی کوشش میں سر سے پگڑی گِر جائے ۔ عمارات قسم قسم کی نِت نئی اشکال کی ہیں جو انجنیئرز اور آرکیٹیکٹ صاحبان کی کرامات کا مظہر ہیں ۔ سمندر کے اندر کھجور کے درخت سے ملتی زمین بنا کر اس پر ایک شہر بسا دیا گیا ہے جس کا نام النخلہ جمیرہ [Jumeirah Palm Island] ہے اس مصنوعی جزیرے کو ایک پُل کے ذریع دبئی سے ملا دیا گیا ہے ۔ سننے میں آیا ہےکہ ایسے دو اور مصنوعی جزیرے بنانے کا منصوبہ ہے ۔

تمام عمارات کے اندر کافی جگہ گاڑیاں پارک کرنے کیلئے ہے تاکہ متعلقہ عمارت میں رہائش پذیر یا اس میں بنے دفاتر میں کام کرنے والوں کو اپنی گاڑیاں پارک کرنے کی پریشانی نہ ہو ۔ ان پارکنگ کی جگہوں میں عام طور پر مہمانوں کو گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت نہیں جس کی وجہ سے مہمان کو اگر عام پارکنگ میں جگہ نہ ملے تو وہ بہت پریشانی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ عام طور پر مراکز للتسویق [Shopping Malls] اور کچھ دوسری جگہوں پر بلامعاوضہ پارکنگ ہے اور کچھ جگہوں پر معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ کچھ مراکز للتسویق میں بلامعاوضہ پارکنگ کی شرط ہے کہ کم از کم 100 درہم کا سودا خریدا جائے





ہمارا قومی المیہ اور اُس کا حل

قدیم زمانہ کی ایک کہانی ہے کہ ایک مصوّر نے اپنی بنائی ہوئی بہترین تصوریر چوراہے پر یہ لکھ کر رکھ دی کہ اس میں غلطی بتائیں ۔ چند دن بعداُسے دیکھ کر جھٹکا لگا کہ تصوریر بے شمار لکیروں میں گم ہو گئی ہے ۔ پھر اُس نے ایک عام سی تصویر بنا کر ان الفاظ کے ساتھ رکھ دی کہ اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو اسے درُست کر دیں ۔ ایک ہفتہ بعد مصوّر آیا تو تصویر پر ایک نشان بھی نہ لگایا گیا تھا

یہ کہانی ہماری قوم پر صادق آتی ہے ۔ جسے دیکھو وہ دوسرے کی غلطیاں گِن رہا ہے مگر اپنی غلطی کی درُستگی کرنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ہر اُس آدمی یا جماعت یا گروہ کی کردہ اور ناکردہ غلطیاں گِنتے رہتے ہیں جن سے اُن کو ذاتی فائدہ نہ پہنچا ہو یا اُن کے غلط یا درست رویّے سے ان کو نقصان کا خدشہ ہو ۔ ایک عمل جو ہمارے ذرائع ابلاغ کو ہر وقت اور ہر دور میں خطرے کی جھنڈی لہراتا نظر آتا ہے وہ ہے دین اسلام اور اس پر عمل کی کوشش ۔ اخباروں میں ایسے اداریئے کئی بار شائع ہو چکے ہیں ۔ ہمارے اخبارات میں دین سے بیزار لوگوں کے مقالے اور دیگر مُخرب الاخلاق مضامین اور اشتہارات بڑے کرّوفر کے ساتھ چھاپے جاتے ہیں اور وقفے وقفے کے ساتھ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا بلکہ قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اسے لادین ریاست بنایا تھا ۔ گویا یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ قائد اعظم خدانخواستہ قوم کو دھوکہ دیتے رہے ۔

دسمبر 2008ء میں ایک سب سے زیادہ اشاعت کے دعویدار اخبار میں اداریہ شائع ہوا کہ جماعت الدعوہ نادار لوگوں کی فلاح و بہبود کر رہی تھی اور اس پر پابندی سے بہت سے سکول اور مُفت علاج کے مراکز بند ہو جائیں گے ۔ سب حقائق لکھنے کے بعد آخر میں ایک فقرہ چُست کر دیا کہ یہ سب ٹھیک ہے لیکن جماعت الدعوہ مستفید ہونے والوں کو اپنا ہم خیال بنا لے گی اور انتہاء پسندی کو فروغ حاصل ہو گا ۔ کوئی اس اخبار کے مالکوں اور مدیروں سے پوچھے کہ تم لوگ جو کروڑوں روپیہ بااثر اور مالدار لوگوں کی چاپلوسیاں کر کے اور فُحش اشتہارات چھاپ کر کما رہے ہو اس کا کچھ حصہ فلاحی کاموں پر لگا کر کیوں عوام کو اپنا ہم خیال نہیں بناتے ؟

تحریک پاکستان کی کامیابی کا سبب صرف مُخلص اور محنتی رہنما ہی نہیں تھے ۔ ان کے ساتھ مُخلص اور محنتی کارکُن اور چھوٹے چھوٹے دو تین اخبار تھے جو منافع کمانے کی بجائے اپنی محنت سے اخبار میں مسلم لیگ کی کارکردگی لکھ کر مسلمانانِ ہند تک پہنچاتے تھے ۔ پاکستان بننے کے چند سال بعد سے ہمارے ذرائع ابلاغ نے جتنا ہمارے معاشرے کو تباہ کرنے میں کردارادا کیا ہے اتنا کسی حکمران حتٰی کہ ڈِکٹیٹر نے بھی نہیں کیا ہو گا

جب پاکستان میں پہلی بار 1964ء میں لاہور میں ٹی وی کا اجراء ہوا تو لاہور کے ایک مشہور امام مسجد نے کہا تھا “شیطانی چرخہ آ گیا ۔ اُس کی عقل پر قہقہے لگائے گئے اور اُسے لعن طعن کیا گیا ۔ مجھے بھی یہ استدلال عجیب سا لگا تھا لیکن 44 سال بعد آج اگر ٹی وی کے اثرات پر نظر ڈالی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص دانا اور دُور اندیش تھا ۔ آجکل ٹی پر ایسے ایسے لچر قسم کے اشتہارات دِکھائے جا رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ماڈرن کہنے والے بھی تلملا اُٹھے ہیں ۔

ہماری قوم میں تین بڑی عِلتیں ہیں ۔ خودغرضی ۔ اپنی اصلاح کی بجائے دوسروں پر تنقید اور بے راہروی جو اخبارات ۔ ٹی وی چینلز ۔ موبائل فون اور سرکاری سرپرستی میں پرورش پا رہی ہیں اور قوم کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ حل صرف درست تعلیم و تربیت میں مُضمِر ہے لیکن شومئی قسمت کہ تربیتی نظام ہمارے ملک میں مفقود ہے ۔ رہی تعلیم تو اس سے حکمرانوں نے شاید قطع تعلق کیا ہوا ہے ۔ 35 سالوں سے تعلیم اُن لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے جنہوں نے عُمدہ تعلیم کے نام پر مہنگے تعلیمی ادارے کھول کر اس مُلک کی دینی اور سماجی اقدار کو برسرِ عام پامال کرنا اپنا شیوا بنا رکھا ہے

تربیت کا گہوارہ ماں کی گود ہوتی ہے اس کے بعد گھر کا ماحول اگر ایک ماں آزادی اور فلاح کے نام پر مجالس میں تو حاضری دے اور تقریریں کرے مگر گھر میں اپنے ملازمین کے ساتھ ظُلم کرے ۔ لوگوں کو نصائع کرتی پھرے اور اپنے بچے کی مناسب تربیت کیلئے وقت نہ نکالے تو بچے کا بگڑنا ایک عام سی بات ہے ۔

اسی طرح جس بچے کا باپ دیر سے گھر لوٹے ۔ شراب یا سگریٹ پیئے اور اپنے بچے کو کہے کہ بیٹا سکول سے سیدھا گھر آ جانا سگریٹ پینا بُری بات ہے ۔ کیا اُس بچے سے باپ کی بات کو اہمیت دینے کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ بچہ کتنا ہی اکھڑ مزاج کیوں نہ ہو اگر اُسے مناسب ماحول دیا جائے اُس کی طرف خلوصِ نیت سے توجہ دی جائے تو وہ درُست سمت میں چل سکتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ والدین کا غلط رویّہ ہی ان کے بچے کو اکھڑ بناتا ہے ۔ کوئی بچہ پیدائشی اکھڑ نہیں ہوتا

تربیت کا دوسرا اہم مرکز تعلیمی ادارے ہوتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں کا ہمارے مُلک میں جو حال ہے کسی سے پنہاں نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ تعلیمی اداروں اور اساتذہ کی زبوں حالی ہے ۔ بجٹ کا سب سے کم حصہ تعلیمی اداروں کو دیا جاتا ہے ۔ کسی سکول کالج یا یونیورسٹی میں ضرورت کے مطابق لائبریری نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں اور اس پر طُرّہ یہ کہ اُن کی عزت محفوظ نہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ جسے کوئی بہتر ملازمت نہیں ملتی وہ تعلیم اداروں کا رُخ کرتا ہے ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اساتذہ کی عزت اور احترام طُلباء و طالبات اور بالخصوص اُن کے والدین کے دِل سے محو ہو چکا ہے ۔

تربیت کا تیسرا ادارہ عزیز و اقارب اور دوستوں کا ماحول ہوتا ہے ۔ بچہ خواہ کتنے ہی محتاط اور اچھی تربیت والے گھرانے کا ہو جب وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کو اپنے سے بہتر پہنتے بہتر کھاتے اور بغیر محنت کے کامیاب ہوتے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں بھی اُن سا ہو جانے کی تمنائیں اُبھرتی ہیں جو موقع ملنے پر اُسے اُسی لاقانونیت کی دنیا میں لیجاتی ہیں جہاں وہ لوگ ہوتے ہیں

اگر ہمیں اپنی زندگی پیاری ہے اور اپنی حمیت کی قدر ہے تو ہمیں من حیث القوم وقتی مفاد سے نکل کر اپنی پوری زندگی کیلئے سوچنا ہو گا ۔ ہمارے آج نے تو جو بننا تھا بن چکا اسے تو تبدیل کرنا ناممکن ہے ۔ اگر آج کے وقتی مفاد کو بھُول کر دوسروں پر تنقید کی بجائے اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو ہمارا مستقبل درست ہو سکتا ہے

ایک اور سدِ راہ ہے کہ بہت سے ہموطن اس سوچ میں مُبتلا نظر آتے ہیں “میں اکیلا کیا کروں ؟ سارا معاشرہ ہی خراب ہے”۔ جب تک ہر فرد اپنی سوچ کو بدل کر یہ ارادہ نہیں کرے گا کہ “یہ میرا کام ہے اور مجھے ہی کرنا ہے ۔ کوئی اور نہیں کرتا تو میری بلا سے مجھے اپنا فرض پورا کرنا ہے”۔ معاشرہ میں بہتری کی کوئی صورت نہیں بن سکتی ۔ اللہ بھی اُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں ۔
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

ہم لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ مسلمان تو وہ ہوتا ہے جس کے متعلق اللہ سُبحانُہُ نے فرمایا ہے

سُورت ۔ 3 ۔ آل عِمْرَان ۔ آیات 109 تا 111
اور اللہ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور سب کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں [کی رہنمائی] کیلئے ظاہر کی گئی ہے ۔ تم بھلائی کا حُکم دیتے ہو اور بُرائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً اُن کے لئے بہتر ہوتا ۔ اُن میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں
یہ لوگ ستانے کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے ۔ اور اگر یہ تم سے جنگ کریں تو تمہارے سامنے پیٹھ پھیر جائیں گے ۔ پھر ان کی مدد نہیں کی جائے گے

سُورت ۔ 3 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت 2 کا آخری حصہ
اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔ 177
نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور [اﷲ کی] کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں [اپنا] مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور [غلاموں کی] گردنوں [کو آزاد کرانے] میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی میں اور مصیبت میں اور جنگ کی شدّت [جہاد] کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

سورت ۔ 2 ۔بقرہ ۔ آیت ۔44
کیا تم دوسرے لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم [اللہ کی] کتاب [بھی] پڑھتے ہو، تو کیا تم نہیں سوچتے؟
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 58
بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت ۔ 135
اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچ دار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے

جنہیں اقوامِ متحدہ نے دہشتگرد قرار دیا ہے

یہ وقت سوچنے کا ہے کہ کیا ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کہا مان کر درُست سمت میں جا رہے ہیں ؟ وہ اقوامِ متحدہ جس کے ہر مُسلم کُش فیصلے پر طاقت کے زور سے عمل کروایا جاتا ہے اور جس کی سکیورٹی کونسل کی جموں کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں منظور کی گئی 17 قرادادوں پر آج تک بھارت نے عمل نہیں کیا اور فلسطین کے حق میں منظور کی گئی سکیورٹی کونسل کی 131 اورجنرل اسمبلی کی منظور کردہ 429 قراردادیں اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور کسی کے ماتھے پر بَل بھی نہ آیا ؟

انتہائی تابعداری کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے جماعت الدعوہ پر پابندی لگا کر اس کے تمام حسابات منجمد کر دیئے ہیں اور کئی خدمتگاروں کو پابندِ سلاسل کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں اُن کی سرپرستی میں پاکستان کے طول و عرض میں چلنے والے طبی امداد کے مراکز ۔ 340 سکول ۔ کئی کالج اور ایک یونیورسٹی بند ہو جانے خدشہ ہے جو نادار پاکستانیوں کو بلا امتیاز مذہب ۔ رنگ و نسل طِبی امداد پہنچاتے تھے اور اُن کے بچوں تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کا کام کر رہے تھے ۔ یہ طبی مراکز اور تعلیمی ادارے پاکستانیوں کی مالی اعانت ہی سے چل رہے تھے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اس قابل ثابت نہیں کیا کہ مُخیّر پاکستانی اپنی امدادی رقوم رفاہی کاموں کیلئے حکومتی اداروں کے حوالے کریں

قارئین کی یاد دہانی کیلئے اپنی 28 اکتوبر 2005ء کی تحریر نقل کر رہا ہوں جس میں بی بی سی کے نمائندے کی چشم دِید صورتِ حال نقل کی گئی تھی

صدر پرویز مشرف نے 20 اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔

صدر کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پُر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی تجربہ خاصا مددگار ثابت ہورہا ہے۔

مثلاً جماعت الدعوہ کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے ۔ اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی 1000 کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں

مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا ۔ تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھُلے حصے میں کپڑوں، گدیلوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے ۔ اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے

مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت الدعوہ پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے ۔ بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے ذریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدیلے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں

اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے

ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں 120 بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں ۔ ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں ۔ جبکہ اب تک 3500 چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں

اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھا ۔ یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں ۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے

جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا ۔ اسکے علاوہ متاثرین کو 1000 گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارہا ہے

کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں ۔ الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں ۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں

یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررہا ہے

بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر مناسب نہیں سمجھتے

اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جُتی ہوئی ہے ۔ مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں ۔ جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں

ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے ۔ بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے ۔ یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں

البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی
اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں ۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں

شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔

میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رہا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے ۔ وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے ۔ میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی ۔ کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہےاسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا

الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں ۔ بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی 2500 خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے جبکہ 1000 زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے

تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے

الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے ۔ تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے

جاننے کی ضرورت

ذو الحجہ کی وطنِ عزیز ميں آج پہلی تاريخ ہے ۔ اللہ سُبْحَانُہُ و تعالٰی نے اس ماہ کے پہلے عشرہ ميں عبادت کا بہت زيادہ اجر رکھا ہے ۔ مُختلف احاديث کے مطابق اللہ تعالٰی نے سورت الفجر ميں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے يہ دس راتيں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہی ہے ۔ ذوالحجہ کے پہلے نو دن روزے رکھنا بہت ثواب کا سبب بنتا ہے بالخصوص يومِ عرفات اور اس سے پچھلے دو دن کے روزے دوسرے دنوں ايک سال کے روزے رکھنے کے برابر کہے جاتے ہيں ۔ روزے نہ رکھ سکيں تو تلاوتِ قرآن اور دوسری عبادات کيجئے ۔ اگر کچھ اور نہ کر سکيں تو يکم سے بارہ ذوالحجہ تک مندرجہ ذيل تسبيح کا ورد کرتے رہيئے ۔

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد

اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

دہشتگردی کے خلاف جنگ کے فوائد ؟ ؟ ؟

امریکی حکمرانوں کی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” میں وطن عزیز کی حکومت کی شمولیت کے باعث پچھلے پانچ سال میں کئی ہزار شہری ( عورتیں ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے ) ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوچکے ہیں ۔

مزید اس جنگ کے نتیجہ میں وطن عزیز معاشی لحاظ سے انحطاط کی عمیق کہرائی میں پہنچ چکا ہے ۔ بالآخر وزارت خزانہ نے اپنی ایک دستا ویز میں اعتراف کیا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ سے ملکی معیشت کو حالیہ پانچ برسوں میں تقریباً 21 کھرب ( 2100 بلین ) روپے یعنی 28 بلین امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔

وزارت خزانہ کی دستاویز کے مطابق دہشتگردی کے خلاف جاری عالمی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو جولائی 2004 تا جون 2005ء میں 260 ارب روپے نقصان ہوا ۔ جولائی 2005 تا جون 2006ء میں 301 ارب روپے ۔ جولائی 2006 تا جون 2007ء میں 361 ارب روپے ۔ جولائی 2007 تا جون 2008ء میں 484 ارب روپے اور جولائی 2008ء سے اب تک 678 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے

اس دستاویز کے مطابق اس عالمی مہم کی وجہ سے پاکستان کے کریڈٹ رسک میں بہت اضافہ ہوا ۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں مہنگے قرضے لینا پڑے ۔

وزارت خزانہ کے مطابق ان حالات کے باعث امن و امان کی خراب ترین صورتحال بھی درپیش رہی اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ کے سلسلے میں جن علاقوں میں کارروائی کی گئی ان علاقوں میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ مسلسل بم دھماکے ۔ امن عامہ کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال اور مقامی آبادی کی نقل مکانی سے ملک کی معاشی و سماجی صورتحال بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔

تاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے گیارہ ستمبر کا واقعہ پیش آنے کے بعد پاکستان کو سیکیورٹی فورسز کیلئے مختص بجٹ کو بھی مسلسل بڑھانا پڑا۔

ہِبہ

دیکھنے میں آیا ہے کہ لفظ “ہِبہ ” کا کئی دوسرے الفاظ کی طرح غلط استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ یہاں تک کہ ہِبہ نام کی دُکانیں تک کھول دی گئی ہیں جن میں ہِبہ نہیں ہوتا بلکہ چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ کچھ بے عقل لوگ اپنی بہن یا بیٹی کسی کے حوالے کر کے اسے ہِبہ کا نام دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے ۔

ہبہ وہ چیز ہے جو ایک شخص کی خالص اپنی ملکیت ہو اور وہ بغیر معاوضہ اور بغیر کسی لالچ کے دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دے خواہ لینے والا شخص مالدار ہو یا غریب ۔

اگر کوئی شخص اپنا قرض مقروض کو ہِبہ کر دے تو مقروض کا وہ قرض معاف ہو جاتا ہے اور قرض دینے والا پھر اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔

عورت اپنے خاوند کو حق مہر اپنی مرضی سے معاف کر دے تو یہ ہِبہ کہلاسکتا ہے

ہبہ نہ تو صدقہ ہے اور نہ ہدیہ ۔

صدقہ صرف مستحق یعنی غریب کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے

ہدیہ آپس کے تعلقات قائم کرنے یا بہتر بنانے کیلئے دیا جاتا ہے ۔ کسی ناحق مطلب براری کیلئے نہیں

ہبہ اور ہدیہ میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ رشتہ دار بشمول بیوی یا خاوند ۔ دوست محلے دار وغیرہ کو کوئی چیز ہبہ کر سکتے ہیں اور تحفہ یعنی ہدیہ بھی دے سکتے ہیں ۔ ان میں دینے اور لینے والا مالدار بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی ۔ یعنی ایک گداگر بھی کسی مالدار کو کوئی چیز ہبہ کر سکتا ہے یا ہدیہ دے سکتا ہے ۔

ایک بار جو چیز ہِبہ کر دی جائے اس کا واپس لینا ممنوع ہے

ہِبہ نام بھی رکھا جاتا ہے جس کے معنی اللہ کا دیا ہوا تحفہ لئے جاتے ہیں ۔

اسماء الحسنہ میں ایک وہاب بھی ہے جس کے معنی ہیں ہِبہ کرنے والا

اشیاء ۔ مال اور مویشی ہِبہ کئے جا سکتے ہیں انسان نہیں