Category Archives: معلومات

دہشت گرد کون ؟

گذرے سال 2009ء میں امریکا کے پری ڈیٹر یا ڈرونز [Predater or Drone] یعنی بغیر پائلٹ کے ہوائی جہازوں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر 44 حملے کئے گئے جن میں 708 لوگ مارے گئے ۔ اِن میں سےصرف 5 حملے بہدف قرار دیئے گئے جن میں بقول امریکا بشمول بیت اللہ محسود القاعدہ یا نام نہاد پاکستانی طالبان کے کُل 5 آدمی مارے گئے ۔ یعنی 5 آدمی مارنے کیلئے 703 بے قصور پاکستانی شہری ہلاک کئے جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے بھی شامل تھے ۔ اوسط یہ ہوئی کہ ایک آدمی کو مارنے کیلئے 140 بے قصور پاکستانی شہری ہلاک کئے

بقول امریکا 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر القاعدہ نے حملہ کروایا تھا جس میں 2700 لوگ مارے گئے تھے ۔ اس دن سے اب تک امریکا عراق اور افغانستان میں لاکھوں بے قصور شہریوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔جبکہ نہ عراق پر حلمہ کرنے کا کوئی جواز تھا اور نہ افغانستان پر حملہ کرنے کا ۔ اور صرف پچھلے ایک ہی سال میں 703 بے قصور پاکستانی شہری پاکستان کے قبائلی علاقہ میں ہلاک کئے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگرد کون ہے ؟ جنہیں امریکا نے ہلاک کیا یا خود امریکا ؟

تیسرا ستون ۔ عدالت یا اِنصاف

رُکن اور ستون “۔ پہلا ستون ” ایمان ” اور دوسرا “اخلاق” کا بیان پہلے ہو چکا ہے

اِسلام کے نظامِ اِنصاف اور مغربی قانونِ اِنصاف (جو کہ پاکستان میں بھی رائج ہے) میں ایک اہم فرق ہے وہ یہ کہ اِسلامی نظام ِ اِنصاف میں اِنصاف مہیا کرنا قاضی یعنی جج کا فرض ہوتا ہے اور اِسلامی شریعی قانون کے ماہرین اِنصاف کرنے میں جج کی مدد کرتے ہیں ۔ جبکہ مغربی قانونِ اِنصاف میں سچ جھوٹ ثابت کرنا مُدعی اور مُدعا علَیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جن معاملات میں پولیس کا عمل دخل ہو ان میں پولیس بھی کرتب دکھاتی ہے ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب حاکمِ وقت کسی عالِمِ دین کو مُلک کے مُنصفِ اعلٰی کا عُہدہ پیش کرتے اور عالِم کے خیال میں حاکم صرِیح مُنصف نہ ہو تا تو عالِم عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا خواہ انکار پر سزا بھگتنا پڑتی ۔ نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کو مُنصفِ اعلٰی بننے سے انکار پر عبّاسی خلیفہ منصور نے قیدِ سخت کی سزا دی ۔ چار پانچ سال بعد امام صاحب قید ہی میں وفات پا گئے

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوت کے طور) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 283 ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 29 ۔ مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ۔ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 32 ۔ اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور اللہ سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 58 ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو نہائت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے ۔
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
سورت ۔ 16 ۔ النحل ۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسراء یا بنی اسرآئیل ۔ آیت 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو تو) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے

سورت ۔ 83 ۔ المطففین ۔ آیت 1 تا 9 ۔ ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے تباہی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں ۔ اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں ۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے ۔ (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں ۔ جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ سن رکھو کہ بدکارروں کے اعمال سجّین میں ہیں ۔ اور تم کیا جانتے ہوں کہ سجّین کیا چیز ہے؟ ایک دفتر ہے لکھا ہوا

دوسرا ستون ۔ اخلاق یعنی سلوک برتاؤ

رُکن اور ستون “کے وضاحت کے بعد پہلا ستون ” ایمان ” کا بیان پہلے ہو چکا ہے

عصرِ حاضر میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ اسلام انتہاء پسندی اور دہشتگردی سکھاتا ہے اور عِلم سے محروم اسناد کے حامل مسلمان ہموطن اُن کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں مگر اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جس دین کے وہ خود بھی نام لیوا ہیں کم از کم پڑھ تو لیں کہ وہ ہے کیا ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 19 تا 21 ۔ مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے ۔ اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 34 ۔ مرد عورتوں پر ایک درجہ مقدم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک اللہ سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 152 ۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت پکڑو

سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 57 ۔ الحدید ۔ آیت 23 ۔ ” ۔ ۔ ۔ اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا”

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا

سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیت 14 ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 41 ۔ فُصلت یا حم السجدہ ۔ آیت 34 ۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے

سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آیات 40 ، 41 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیات 2 ، 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سَخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

پہلا ستون ۔ ایمان

یہ تحریر ” رُکن اور ستون ” کی دوسری قسط ہے
کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی ۔ کئی مضامین یاد کئے ۔ اَن گنت امتحان دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے اور دس سال کا عرصہ اس طرح گذارنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کی سند دی گئی ۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی خاطر خواہ ملازمت نہ مل سکتی تھی چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ محنت کرتے اور اللہ سے دعائیں کرتے رہے آخر بی ایس سی انجنئرنگ کی سند مل گئی ۔ نوکری کے لئے امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ

یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے پہننے اور پڑھائی کا خرچ والدین نے دیا ۔ ملازمت میں سارا سارا دن محنت کی پھر بھی باس [Boss] کم ہی خوش ہوۓ ۔ جو سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا ملازمت کے دوران محنت نہ کی وہ پیچھے رہتے گئے اور نالائق اور ناکام کہلائے

یہ سب کچھ جانتے ہوۓ نماز روزہ اور اللہ کے باقی احکام کی پابندی کئے بغیر صرف والدین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ۔ کیا یہ دانشمندی ہے ؟ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تب بنتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ایمان کے پانچ رُکن ہیں ۔ یہاں میں نماز ۔ روزہ ۔ زکٰوت اور حج کے حوالہ جات نہیں دے رہا کہ مسلمان جانتے ہی ہیں

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 135 تا 137 ۔ اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے ہوئے ہیں) جو ایک اللہ کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ (مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں ۔ تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 177 ۔ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰت دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیات 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 60 ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 23 ۔ اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 71 ۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰت دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں

سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 36 ۔ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا

سورت ۔ 63 ۔ المنافقون ۔ آیت 9 ۔ مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں

تھیوکریسی Theocracy اور اسلام

اگر اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا کوئی غَلَط بات کہے تو اُسے بے عِلم سمجھ کر درگذر کیا جا سکتا ہے ۔ عصرِ حاضر میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بغیر متعلقہ موضوع کا مناسب مطالعہ کئے فتوٰی صادر کر دیتے ہیں ۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنے طریقہ تحریر کی وضاحت کر دوں ۔ جب میں کسی اور کی تحریر نقل کرتا ہوں تو اس کا حوالہ دے دیتا ہوں لیکن خود کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے میں اس موضوع کا ممکن حد تک مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد لکھتا ہوں اس مطالعہ کا دورانیہ ایک ہفتہ سے کئی سال تک ہو سکتا ہے ۔ میرے دونوں بلاگز پر ایسی تحاریر موجود ہیں جن سے پہلے میں نے کئی سال تحقیق اور مطالعہ کیا

آجکل جبکہ بیٹھے بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر قسم کی معلومات کافی حد تک حاصل ہو سکتی ہیں کسی پڑھے لکھے آدمی کا بغیر مناسب مطالعہ کئے رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ دوسرے کی تحریر کو رد کر دینا اگر جُرم نہیں تو ظُلم ضرور ہے

جب بھی اسلامی ریاست کی بات کی جاتی ہے تو اپنے تئیں تعلیم یافتہ طبقہ کے کچھ لوگ شور مچا دیتے ہیں “قائد اعظم نے پاکستان کو سیکیولر بنایا تھا ہم اسے تھیوکریسی نہیں بننے دیں گے ۔ وغیرہ وغیرہ”۔ کسی پڑھے لکھے نے یہاں تک کہہ دیا کہ [نعوذ باللہ من ذالک] رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مدینہ میں سیکولر ریاست کی بنیاد رکھی تھی ۔ میں سیکولرزم کے متعلق پہلے لکھ چکا ہوں آج صرف تھیوکریسی [theocracy] کے متعلق اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا

تھیوکریسی کا مطلب جو میں سالہا سال کے مطالعہ کے بعد سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو پاکستان کا حکمران بنا دیا جائے اور ہر قانون مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے فتوٰی کا محتاج ہو ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ پیر پگاڑا صاحب کو حکمران بنا دیا جائے اور قانون ان کے فتوٰی کا محتاج ہو

تھیوکریسی کا مطلب مندرجہ ذیل ڈکشنریوں اور آزاد اینسائيکلوپیڈیا سےہی سمجھ میں آ جانا چاہیئے

Merriam Webster’s Dictionary
Government of a state by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided

American Heritage Dictionary
A government ruled by or subject to religious authority

Wikipedia
Theocracy is a form of government in which a god or deity is recognized as the state’s supreme civil ruler,[1] or in a higher sense, a form of government in which a state is governed by immediate divine guidance or by officials who are regarded as divinely guided.[2] In Common Greek, “theocracy” means a rule [kra′tos] by God [the.os′]. For believers, theocracy is a form of government in which divine power governs an earthly human state, either in a personal incarnation or, more often, via religious institutional representatives (i.e., a church), replacing or dominating civil government.[3] Theocratic governments enact theonomic laws.
Theocracy should be distinguished from other secular forms of government that have a state religion, or are merely influenced by theological or moral concepts, and monarchies held “By the Grace of God”.
A theocracy may be monist in form, where the administrative hierarchy of the government is identical with the administrative hierarchy of the religion, or it may have two ‘arms,’ but with the state administrative hierarchy subordinate to the religious hierarchy.

اسلامی سلطنت تھیوکریسی نہیں ہوتی اور نہ ہی خُلفائے راشدین کا دور تھیوکریسی تھا ۔ اسلامی سلطنت جب مدینہ میں قائم ہوئی تو اُسے اس لحاظ سے تھیوکریسی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے سربراہ اللہ کے رسول تھے لیکن عملی جہت کو دیکھا جائے تو وہ بھی تھیوکریسی نہیں تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے تھیوکریٹِک حُکمرانی [theocratic rule] کا سبق نہیں دیا ۔ اگر صیہونیت کو مذہب قرار دیا جائے تو عصرِ حاضر میں عملی لحاظ سے اسرائیل کو تھیوکریٹِک ریاست کہا جا سکتا ہے ۔ اسلامی سلطنت میں جب بات دنیاوی حقوق کی آتی ہے تو بلا امتیاز رنگ و نسل یا عقیدہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کا حُکم ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے دور میں ریاست میں سربراہ کی نام زدگی اور چناؤ ہوتا رہا ہے ۔ جسے عصرِ حاضر میں رائے شماری کہا جاتا ہے اُس کا منبع بیعت ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اسلامی ریاست میں رائے کا حق اُن لوگوں کو ہے جن کا کم از کم ظاہر جُرم سے پاک ہو جبکہ دورِ حاضر میں رائے دہندہ تو کیا منتخب ہونے والا بھی مُجرم ہو سکتا ہے

سقراط نے کہا تھا “اگر جاہلوں کو رائے شماری کا حق دے دیا جائے تو بدمعاش ہی حکمران ہوں گے”

ہم اتنے گئے گذرے نہیں

اقوام متحدہ کے ادارے اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے آبادی کی ایجنسی [یو این ایف پی اے] کی ایک رپورٹ کے مطابق تعلیم اور بچوں کی اموات کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کا موازنہ

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موضوع ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ بھارت

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32.3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 23.1

فیصد شرح خواندگی 15 سال سے زائد لڑکیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60.4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 45.5

لڑکوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 101 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔114

لڑکیوں کا پرائمری میں داخلہ کا تناسب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 83 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 109

اِن میں جو لڑکے پانچویں جماعت تک پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 68 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59

اِن میں جو لڑکیاں پانچویں جماعت تک پہنچیں ۔ ۔ ۔۔ 72 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 49

شیرخوار بچوں کی اموات فی 1000 زندہ پیدائش ۔ ۔ ۔ ۔ 53 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 62

زچہ کی اموات فی 100000 زچگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 320 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 450

حقوقِ نسواں کے عَلَمبردار

آج جو مُلک ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتا ہے اور غاصب قرار دیتا ہے یہ سب اس لئے ہے کہ ہماری قوم کو کتابیں پڑھنے کا شوق و ذوق نہیں ہے کُجا کہ تاریخ کی کُتب پڑھیں ۔ اگر پڑھتے ہیں تو افسانے اور دوسری من گھڑت کہانیاں ۔ بایں ہمہ اکثر کا حافظہ بھی اتنا کمزور ہے کہ کل کی بات بھول جاتے ہیں تجربہ کے بعد معطون کئے شخص کو ہی دوبارہ منتخب کر کے پھر سے ظُلم کی گردان کرنا شیوا بن چکا ہے

آج سے صرف 9 دہائیاں قبل امریکا میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہ تھا ۔ عورتوں کو مقامی کونسل میں ووٹ ڈالنے کا حق 26 اگست 1920ء کو دیا گیا ۔ اس سے قبل عورتوں کو کوئی حقوق حاصل نہ تھے اور احتجاج کی صورت میں اُنہیں قید و بند اور تشدد برداشت کرنا پڑتا تھا ۔ پلے کارڈ اُٹھا کر خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو بھی گرفتار کر کے اُن پر تشدد کیا جاتا تھا اور رات گذرنے کے بعد وہ برائے نام ہی زندہ ہوتی تھیں
ایک بار عورتوں نے سڑک کے کنارے پیدل چلنے والے راستہ پر کھڑے ہو کر خاموش احتجاج کیا 33 عورتوں کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے پيدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ۔ پھر جیل کے سربراہ کی اشیرباد سے 40 گارڈز آہنی مُکوں کے ساتھ ان معصوم عورتوں پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں ادھ مُوا کر دیا
لُوسی برنز نامی ایک عورت کی پٹائی کے بعد لہو لہان لُوسی برنز کے ہاتھوں کو زنجیر سے باندھ کر اُسے قیدخانے کی سلاخوں کے ساتھ لٹکا دیا گیا جہاں وہ ساری رات لٹکی مُشکل سے سانس لیتی رہی
ڈورا لِیوس نامی عورت کو اندھیری کوٹھری میں لیجا کر اس طرح پھینکا گیا کہ اسکا سر لوہے کی چارپائی سے زور سے ٹکرایا اور وہ بے سُدھ ہو کر گِر پڑی ۔ اسی کال کوٹھری میں موجود ایلائس کوسو سمجھی کہ ڈورا لِیوس مر گئی ہے اور اُسے دل کا دورہ پڑ گیا
اپنے جائز حقوق کیلئے خاموش احتجاج کرنے والی عورتوں کو گرفتار کر کے جو کچھ حوالات میں اُن سے کیا جاتا تھا اُس میں کھینچنا ۔ گھسیٹنا ۔ پِیٹنا ۔ گلا دبانا ۔ بھِینچنا ۔ چُٹکیاں لینا ۔ مروڑنا اور ٹھُڈے مارنا شامل ہے
ایک گھناؤنا واقعہ 15 نومبر 1917ء کو وائٹ ہاؤس کے سامنے مظاہرہ کرنے کے نتیجہ میں ہوا تھا جس میں احتجاج کرنے والی عورتوں کو قید کے دوران کئی ہفتے پینے کو گندھا پانی اور کیڑے پڑا ہوا کھانا دیا جاتا رہا ۔ اور جب ان میں سے ایک ایلائس پال نے ایسا کھانے پینے سے انکار کر دیا تو اُسے کرسی کے ساتھ باندھ کر ایک نالی اس کے حلق سے نیچے اُتاری گئی اور اس میں مائع خوراک ڈالی جاتی حتٰی کہ وہ قے کر دیتی ۔ ایسا اس کے ساتھ ہفتوں کیا جاتا رہا

جائیداد کے معاملہ میں اب تک زیادہ تر فرنگی ممالک میں رائج ہے کہ اگر والدین بغیر اولاد کے حق میں وصیت کئے مر جائیں تو اس جائیداد میں سے اولاد کو کچھ نہیں ملتا ۔ جہاں تک وصیت کا تعلق ہے اس میں جائیداد کا مالک جسے چاہے جتنا دے اور جسے چاہے نہ دے

ہم لوگ جو فرنگی کے ذہنی غلام بن چکے ہیں نہیں جانتے کہ اس اسلام نے ، جسے ہم 14 صدیاں پرانا ہونے کی وجہ سے قابلِ عمل نہیں سمجھتے ، عورت کو مکمل حقوقِ زندگی دیئے ۔ اس کی پرورش ہر لحاظ سے مرد کی ذمہ داری ٹھہرائی اور اُسے باپ کی جائیداد میں اور خاوند کی جائیداد میں بھی حصہ کا حق دیا ۔ بیوی کی کمائی پر خاوند کو کوئی حق نہ دیا مگر خاوند پر بیوی کا نان و نفقہ واجب قرار دیا ۔ اولاد پر ماں کی خدمت اور بھائی پر بہن کی پرورش لازم قرار دی

اسلام سے پہلے چھُٹی کا کوئی تصوّر ہی نہ تھا ۔ امیرالمؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کفار سے جنگیں زور پر تھیں تو ان تک ایک عورت کی طرف سے اطلاع پہنچی کہ کئی ماہ سے اُس نے اپنے خاوند کی شکل نہیں دیکھی ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عورتوں کی مجلس [meeting] کی جائے اور اُن سے پوچھا جائے کہ وہ مردوں کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہیں ۔ اس کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ چاہے کوئی مرد جہاد پر ہو 3 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے باہر نہیں رہے گا

میں جانتا ہوں کہ میرے دو تین محترم قارئین بغیر حوالہ کے میری تحریر کو ماننے کیلئے تیا ر نہیں ہوتے ۔ بلکہ اس کی مخالفت شدّ و مد کے ساتھ کرتے ہیں ۔ اور میں اُن کی اس حرکت پر صرف مسکرا دیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جن کے حوالے دیئے جاتے ہیں وہ بھی میری طرح ہی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں ۔ پھر عصرِ حاضر میں تو سند صرف فرنگی کی مانی جاتی ہے اور اُس کے بعد ٹی وی یا اخبار کی ۔ چاہے وہ کالے کو سفید کہیں یا سفید کو کالا اسے مان لیا جاتا ہے ۔ بہر کیف اس مضمون کے اول حصہ کی کچھ تائید “امریکی یادیں” میں اور یہاں کلِک کر کے مل سکتی ہے اور آخری حصہ کیلئے قرآن شریف سے رجوع کرنا ضروری ہے