Category Archives: معلومات

کزن ميرج ۔ ايک ڈاکٹر کا تبصرہ

ميری تحرير کزن ميرج پر متعلقہ مضمون ميں اعلٰی تعليم يافتہ اور 50 سالہ تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب نے تبصرہ کيا ہے جو ميں نقل کر رہا ہوں ۔ اس کے بعد کسی کے دِل ميں کوئی خدشہ کزن ميرج کے متعلق نہيں رہنا چاہيئے ۔ 9 ستمبر 2004 ء سے 18 اگست 2006 تک ميں پاکستانی معمر ترين بلاگر تھا ۔ 19 اگست 2006ء کو ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب معمر ترين پاکستانی بلاگر بن گئے ۔ ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب نے اپنا اُردو بلاگ 14 ستمبر 2009ء سے شروع کيا

ڈاکٹر وھاج الدين احمد صاحب کا تبصرہ

مختصرا” عرض ہے
اب جب کہ انسان کا سارا جینوم [Genome۔ والَد يا والدَہ سے ايک کَروموسوم کا مُکَمَّل سيٹ جو اولاد ميں گيا ہو] نکالا جا چکا ہے اوپر لکھے ہوئے تمام تبصرے میرے خیال میں نامکمل ہیں

اجمل بھائی ۔ آپ کا مضمون بھی نا مکمل کیونکہ ان میں بنیادی کمی ہے آپ نے اپنے تجربات لکھے ہیں پنسلین والا وغیرہ جو سب اس لئے ہوئے کہ ڈاکٹرکی معلومات پوری نہیں تھیں ان کا تعلق زیر بحث ٹاپک سے نہیں ہے آپ کی انیکڈوٹس [واقعہ ۔ قصہ ۔ روائت] ہیں جو صرف مثال کے طور پر پیش کی جا سکتی ہیں مگر اصول بنانے میں کام نہیں آ سکتیں

یہ کہنا کہ کزن میرج کی وجہ سے بچوں میں کند ذہنی یا اور قسم کی تکلیف ہو جاتی ہے- غلط ہے بالکل اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ خاندان سے باہر شادی کرنے سے بچے غیر صحتمند یا ناقص العقل ہونگے

اب آٰئیں مضمون کی طرف ۔ تو صرف یہ کہا جائےگا کہ خاندان میں شادی کرنے سے جو نقائص خاندان میں موجود ہیں ان کےظہور پذیر ہونے کے چانس [مواقع ] زیادہ ہیں اور جو اچھی چیزیں ہیں ان کے ظاہر ہونے کے بھی چانس زیادہ ہیں میرے اپنے خاندان میں آپ کے خاندان جیسی مثالیں ہیں میری چھ بہنوں میں سے دو ناقص ا لعقل تھیں میرے والدین فرسٹ کزن تھے

اس کے باوجود میں اور میرے بڑے بھائی کزن میرج کے خلاف نہیں ھوئے کیونکہ ہماری سوچ تھی کہ اللہ پہ بھی چانس لینا چاہیئے میری اور میرے بڑے بھائی کی بحث رہی تھی کیونکہ ہم دونوں کے ای [کنگ ايڈورڈ ميڈيکل کالج] کے گريجوئیٹ ہیں اور ہم نے متفقہ فیصلہ کیا تھا ۔ میرے بڑے بھائی کے بيٹے اور بڑی بہن کی بيٹی کی شادی ہوئی اور ماشاء اللہ ان کے نو بچوں میں سے ایک بھی ناقص العقل نہیں ۔ میرے ذہن میں کوئی اچھا سائنٹفک مضمون نہیں ہے جس کا حوالہ دے سکوں

تو یہ کہنا کہ چانسز زیادہ ہیں کسی حد تک درست ہوگا لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ کزن میرج کی وجہ سے بیماری پیدا ہوتی ہے۔ میں اس معاملے میں بہت کچھ پڑھ چکا ہوں اور ابھی تک پڑھ رہا ہوں خصوصا” “آلھائمر [Alzheimer’s ] ” بیماری کا سنا ہوگا آپ نے ۔ اس پر پچھلے 15 – 20 سالوں میں بہت ریسرچ ہوئی تھی۔ امریکہ میں بیسویں صدی کی آخری دہائی کو “ڈیکیڈ آف دی برین [Decade of the brain] قرار دیا گیا تھا اور۔۔۔۔ دراصل میرا فیلڈ ہے معاف کیجئےضرورت سے زیادہ لکھ گیا

بچ کے رہنا

یہ ہے کمپیوٹر کا کمال ۔ پینٹ شاپ کے ذریعہ کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ ہوشیار رہیئے اور کسی پر شک نہ کیجئے ۔ کل کو آپ کے ساتھ بھی اسی طرح کا کچھ ہو سکتا ہے

یہ زیبرہ ہے یا مگر مچھ
Zebra

اتنا تناور درخت ہاتھوں میں ؟
Tree in Hand

گھر آکٹوپس کے سکنجے میں
The Octopus

سڑک کھسک گئی
Road Slide

ناک ہی ناک
Big Nose

یہ کیسے انڈے ہیں
Head Eggs

بطخ کے انڈے میں سے نکلا کتا ؟
Dog Duck

روتے انگور
Crying Grapes

آگ میں گھوڑا
Burning Horse

مٹر کی پھلی میں فٹ بال
Football Peas

بوتل میں آدمی
Man in Bottle

آنکھ میں انگلیاں
Hand in Eye

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ فلسفی اور فلسفہ

پچھلے دنوں کچھ تحارير فلسفہ کے متعلق پڑھنے کو مليں جن ميں مسلمانوں ميں فلسفہ کا آغاز کندی سے شروع کر کے درميانی کچھ سيڑھياں چھوڑ کر اس کی مسلمانی ابنِ رشد پر ختم قرار دی گئی ۔ استدلال ليا گيا کہ فلسفہ کا عقيدہ مذہب سے متعلق نہيں ہے ۔ سوچا کہ لکھوں فلسفہ ہوتا کيا ہے تاکہ طويل تحارير اور الفاظ کے سحر ميں کھوئے ہوئے قارئين کم از کم فلسفہ کی اصليت تو سمجھ سکيں ليکن مصروفيت کچھ زيادہ رہی جس میں اسلام آباد بھی جانا پڑا اور خُشک موسم کی سوغات وائرس کيلئے بھی ميں مرغوب ثابت ہوا جس سے معالج اور دوائيوں کی دکان کی قسمت جاگ اُٹھی ۔ حاصل يوں ہے کہ اللہ نے اس کام کا سہرا محمد رياض شاہد صاحب کیلئے مختص کر ديا تھا کہ اُنہوں نے خوش اسلوبی سے لکھا “فلسفہ کيا ہے

میں پانچويں یا چھٹی جماعت ميں پڑھتا تھا کہ کتاب میں لفظ فلسفی آيا ۔ استاذ صاحب نے ماحول خوشگوار کرنے کی خاطر ايک لطيفہ سنايا “ايک فلسفی گھر ميں داخل ہوا تو اپنی چھتری کو بستر پر لٹا کر خود کونے ميں کھڑا ہو گيا”۔ پھر ميں نے ساتويں يا آٹھويں جماعت ميں کسی سے سُنا کہ فلسفی اگر پورا نہيں تو آدھا پاگل ہوتا ہے

اساتذہ کی تربيت کا اثر تھا کہ اللہ کی خاص مہربانی يا دونوں کہ ميں بچپن سے ہی ہر چيز و عمل کی بنياد پر غور و فکر کرنے کا عادی ہو گيا تھا ۔ سالہا سال محنت اور غور و فکر ميں گذرنے کے بعد مجھے متذکرہ بالا دونوں بيانات درست محسوس ہونے لگے ۔ ميرے طرزِ فکر و عمل کی وجہ سے متعدد بار ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے پاگل کہا ۔ کبھی کبھی تو ميں خود بھی اپنے آپ کو پاگل کہہ ديتا

عصرِ حاضر ميں لوگ گريجوئيشن کے بعد چند سال کی محنت سے کسی چھوٹے سے مضمون کی بنياد پر ڈاکٹر آف فلاسفی کی سند حاصل کر ليتے ہيں ۔ ايک دور تھا جب کاغذ کی سند ناياب تھی اور لوگ ساری عمر عِلم کی کھوج اور غور و فکر ميں گذار ديتے تھے مگر اُنہيں ايسی سند نہ دی گئی صرف اُن ميں سے چند کا نام تاريخ ميں نظر آ جاتا ہے اگر کوئی تاريخ پڑھنے کی زحمت کرے ۔ يہ وہ زمانہ ہے جب عِلم کی بنياد ہی فلسفہ تھی اور ہر عالِم جنہيں دورِ حاضر ميں سکالر کہا جاتا ہے کا مطالعہ ہمہ جہتی ہوتا تھا کيونکہ وہ کتاب کے کيڑے نہيں بلکہ فلسفی ہوتے تھے اور ہر عالِم يا فلسفی بيک وقت کئی علوم کی بنياد کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا

ميرا خيال ہے کہ فلسفی بننے کيلئے کسی سکول يا مدرسہ ميں جانا ضروری نہيں ہے ۔ فلسفہ کا تعلق انسان کی سوچ ۔ محنت اور طرزِ عمل سے ہے ۔ ميں ساتھی طلباء کے ساتھ 1960ء ميں کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی کے مطالعاتی دورے پر گيا ۔ دورہ کے بعد ہميں جنرل منيجر صاحب نے بتايا کہ ايک شخص جو کہ چِٹا اَن پڑھ ہے وہ سب سے زيادہ اور اُن سے بھی زيادہ تنخواہ پاتا ہے کيونکہ وہ بھرتی تو بطور مستری ہوا تھا مگر فکر و عمل کے باعث فلسفی اور انجنيئر ہے ۔ وہاں موجود انجنوں اور اُن کے کام کا مطالعہ کر کے وہ ان کی بنياد پر پہنچنے ميں کامياب ہوا اور اس فلسفہ اور حاصل مطالعہ سے کام لے کر اس نے دو انجن کارآمد بنا ديئے ہيں اور تيسرے پر کام کر رہا ہے

ميری نظر ميں وہ شخص بھی فلسفی ہے جس نے چار پانچ دہائياں قبل چاول کے ايک دانے پر ہاتھ سے پورا کلمہ طيّبہ لکھنے کا طريقہ دريافت کيا ۔ ميری نظر ميں پاکستان کا حسب نسب رکھنے والا وہ جوان بھی فلسفی ہے جس نے 1970ء کی دہائی ميں دوسری جنگِ عظيم ميں کالی ہو جانے والی لندن کی عمارات کو صاف کرنے کا ايک قابلِ عمل نسخہ تيار کيا تھا جبکہ برطانيہ کے بڑے بڑے سائنسدان اس میں ناکام ہو چکے تھے

دورِ حاضر ميں صيہونی پروپيگنڈہ اتنا ہمہ گير ہو چکا ہے کہ جو خبر اس منبع سے نکلتی ہے اسے من و عن قبول کيا جاتا ہے اور موجود تاریخ کا مطالعہ کرنا بھی گوارہ نہيں کيا جاتا ۔ محمد رياض شاہد صاحب نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں ايک نہائت مُختصر مگر جامع تحرير لکھ کر حقائق کے ساتھ ايسی سوچ کا توڑ پيش کيا ہے

بلاشُبہ مسلمان کے دشمنوں نے تاتاريوں کے رُوپ میں بغداد کی بہترين عِلمی لائبريری فنا کر کے سوائے ناصر الدين طوسی کے جو اپنی جان بچانے کی خاطر اُن سے مل گيا تھا تمام اہلِ عِلم کو تہہ تيغ کر ديا ۔ فرنينڈس اور اُس کے حواريوں کی صورت ميں يہی کچھ غرناطہ ۔ اشبيليہ اور قرطبہ ميں ہوا ۔ 1857ء ميں ہندوستان ميں انگريزوں نے تمام علمی خزانہ تباہ کرنے کے بعد اہلِ عِلم و ہُنر کو تہہ تيغ کر ديا ۔ اور حال ہی ميں امريکہ اور اُس کے اتحاديوں نے بغداد کی نہ صرف قومی لائبريری بلکہ ہر يونيورسٹی کو تباہ کر ديا اور اہلِ عِلم کو نابود کر ديا

اس کے باوجود دورِ حاضر ميں تھوڑی سی موجود تاریخ کا ہی مطالعہ کيا جائے تو يہ حقيقت عياں ہو جاتی ہے کہ اعلٰی سطح کا پہلا مسلمان فلسفی يعقوب ابن اسحاق الکندی [800ء تا 873ء] نہيں تھے بلکہ ابو موسٰی جابر ابن حيّان تھے جو وسط آٹھويں صدی عيسوی ميں پيدا ہوئے اور 803ء ميں وفات پائی ۔ ان کا فلسفہ جديد علمِ کيمياء کی بنياد بنا ۔ دوسرے نامور فلسفی ابو عبداللہ محمد ابن موسٰی الخوازمی [780ء تا 850ء] ہيں جنہوں نے لوگرتھم اور ايلوگرتھم ۔ الجبراء اور عربی کے ہندسوں کا استعمال کرتے ہوئے اعشاریہ نظام کے نئے علم دريافت کئے ۔ مزيد يہ کہ صفر کو قيمت عطا کی ۔ يہی وہ فلسفہ اور عِلم ہے جو عصرِ حاضر کی کمپيوٹر اور ڈيجيٹل ٹيکنالوجی کی بنياد بنا ۔ اگر يہ علوم نہ ہوتے تو آج نہ کمپيوٹر ہوتا اور نہ ڈيجيٹل ٹيکنالوجی

يعقوب ابن اسحاق الکندی کا نام تيسرے نمبر پر آتا ہے

مزيد يہ کہ عبدالوحيد محمد ابن احمد ابن محمد ابن رشد [1126ء تا 1198ء] کے بعد دو صديوں ميں کم از کم 5 اعلٰی پائے کے مسلمان فلسفی ہوئے ہيں جن ميں سے آخری عبدالرحمٰن ابن محمد [1332ء تا 1395ء] تھے جو ابن خلدون کے نام سے مشہور ہوئے ۔ ان کا فلسفہ تاریخ اور عمرانيات سے متعلق ہے

پانچواں ستون ۔ معاشرت

رُکن اور ستون ” ۔ پہلا ستون ” ایمان ” دوسرا “اخلاق” تیسرا ” انصاف” اور چوتھا “معیشت” کا بیان پہلے ہو چکا ہے
عام طور پر معاشرہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس کی اکثریت چاہے گی ۔ معاشرہ میں بہتری لانے کیلئے دو عوامل ضروری ہیں ایک تحریک اور دوسرا رہنما ۔ اگر تحریک کو غلط رہنما مل جائے تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے ۔ اگر تحریک مفقود ہو تو عام طور پر اچھے سے اچھا سربراہ بھی ناکام رہتا ہے ۔ بعض اوقات کوئی واقعہ یا حادثہ تحریک کا سبب بن جاتا ہے لیکن کبھی کبھی قوموں کو ایسے باکردار رہنما بغیر تحریک کے مل جاتے ہیں جو انہیں اندھیروں سے نکال کر اُجالوں میں لیجاتے ہیں لیکن پھر بھی قوم میں تحریک پیدا نہ ہو یا پیدا ہو کر پانی کے بُلبلے کی طرح جلد ختم ہو جائے تو قوم پھر سے اندھیروں میں بھٹکنے لگتی ہے

اسلام نے معاشرہ کے کچھ بنیادی اصول وضع کئے ہیں جو پہلے چار ستونوں پر تعمیر ہوتے ہیں یعنی ایمان ۔ اخلاق ۔ انصاف اور معیشت ۔
معاشرت کے دو پہلو ہیں ایک عمومی اور دوسرا انتظامی ۔ عمومی کا تعلق ہر فرد سے ہے اور انتظامی کا تعلق صرف منتظمین سے ہے

عمومی

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اس سلسلہ میں واضح ہدایات اپنی کتاب میں دی ہیں جن میں سےچند یہ ہیں

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 36 ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی احترام کے ساتھ سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہی لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیت 11 ۔ مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد بُرا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں

سورت ۔ 60 ۔ الممتحنہ ۔ آیت 3 ۔ قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد۔ اس روز وہی تم میں فیصلہ کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے

انتظامی
معاشرہ کوئی بھی ہو اس کی حوصلہ افزائی یا مایوسی کا انحصار اس کی انتظامیہ کے گفتار اور عمل میں مماثلت پر ہوتا ہے ۔
اسلامی نظام کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مرقوم ہیں جن میں سے دو بطورِ نمونہ پیش ہیں

عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے ریاست 23 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے ۔ لشکرِ اسلام کی کمان خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہے جو صحابی رسول بھی ہیں اور ايک سو سے زائد جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بڑے معرکہ سے واپس آ رہے ہیں ۔ لوگ ان سے بخشیش مانگتے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دس ہزار درہم تقسیم کر تے ہیں ۔ اس کی اطلاع خلیفہ دوئم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ملتی ہے ۔ خلیفہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو حُکم دیتے ہیں کہ جا کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کمان لے لیں اور ساتھ پیغام دیا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کہیں “اگر دس ہزار درہم موسم گرما کی خوراک سے دیا ہے تو خیانت کی ہے اور اگر اپنے پاس سے دیئے ہیں تو یہ اعتدال کی حد کو چھوڑنا ہے”۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شاعر کا یہ قول پڑھا “تو نے ایک کام کیا ہے اور کسی کام کرنے والے نے تمہاری طرح کام نہیں کیا اور لوگ کچھ نہیں کرتے اللہ ہی کرتا ہے”۔ پھر فرمایا “اللہ کی قسم آپ مجھے بڑے ہی عزیز اور محبوب ہیں اور آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے مجھ پر کچھ واجب ہو جائے”

جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو موسٰی رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے ہاتھ اہلِ بصرہ کے نام یہ پیغام بھیجا ” میں نے ابو موسٰی کو آپ کا امیر مقرر کیا ہے جو تمہارے طاقتور سے تمہارے کمزور کیلئے لیں گے اور تمہارے ساتھ مل کر تمہارے دشمن سے جنگ کریں گے اور تمہارے فرض کو ادا کریں گے اور تمہاری غنیمت کو تمہارے لئے اکٹھا کریں گے پھر اُسے تمہارے درمیان تقسیم کریں گے”
سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 59 ۔ مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں ان کی بھی ۔ اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ 164 ، 165 ۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا اور پروردگار تلاش کروں اور وہی تو ہر چیز کا مالک ہے اور جو کوئی (بُرا) کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا ۔ اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش ہے بےشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بےشک وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے

چوتھا ستون ۔ معیشت

رُکن اور ستون “۔ پہلا ستون ” ایمان ” دوسرا “اخلاق” اور تیسرا ” انصاف” کا بیان پہلے ہو چکا ہے

میرے ہموطن مسلمان بھی کہتے پھرتے ہیں کہ مسلمان ترقی نہیں کر سکتے ۔ کیا مسلمانوں کو اللہ کے بتائے ہوئے مندرجہ ذیل معاشی اصولوں نے ترقی سے روک رکھا ہے یا ان اصولوں کے انحراف نے ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوتً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 2 ۔ اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔آیت 58 ۔ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے

سورت ۔ 55 ۔ الرحمٰن ۔ آیت 8 اور 9 ۔ کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو ۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو۔ اور تول کم مت کرو

سورت ۔ 61 ۔ الصف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں

سورت ۔ 83 ۔ المُطففّین ۔ آیت 1 تا 3 ۔ تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں ۔

الھدٰی انٹرنیشنل

میری کل کی تحریر میں الھدٰی انٹرنیشنل کا نام ایک تبصرہ کے اقتباس میں آیا تھا ۔ الھدٰی انٹرنیشنل ایک اسلامی تعلیمات کا ادارہ ہے جو اسلامی تعلیم کی خواہشمند لڑکیوں اور خواتین کیلئے 1994ء میں اپنی مدد آپ کے تحت اسلام آباد میں ایک مقامی ادارے کے طور پر قائم کیا گیا تھا اور اللہ کے فضل کرم سے نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی ادارہ بن چکا ہے ۔ پڑھانے والوں کی بھاری اکثریت ایسی خواتین ہیں جنہوں نے دنیاوی تعلیم میں کم از کم گریجوئیشن کرنے کے علاوہ اسلامی تعلیم میں بھی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے ۔ الھدٰی انٹرنیشنل میں کُل وقتی 12 ماہ کا کورس گریجوئیٹ لڑکیوں اور خواتین کیلئے ہے مگر انفرادی قابلیت کی بنیاد پر 12 جماعت پاس لڑکیوں کو بھی داخلہ دے دیا جاتا ہے ۔ کم مدت کے کورسز میں کم از کم دسویں پاس ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ ایک کورس سکول و کالج کی طالبات کیلئے گرمیوں کی چھٹیوں میں ہوتا ہے جس میں خواتین بھی شریک ہو سکتی ہیں ۔ ایک کورس شاید نئی روشنی کے نام سے ہے جس میں مڈل پاس لڑکیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کرایا جاتا ۔ البتہ رمضان المبارک میں دورہ قرآن ہوتا ہے جس کیلئے تعلیم کی کوئی حد نہیں رکھی گئی ۔ ہو سکتا ہے میری معلومات مکمل نہ ہوں ۔ تفصیلات الھدٰی انٹرنیشنل پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ لَے پالک

میرے ہموطنوں میں اکثر کی یہ عادت ہے کہ جو لوگ اُن کے ہم خیال نہ ہوں اُنہیں جاہل سمجھتے ہیں ، مختلف گھٹیا القابات سے نوازتے ہیں اور بعض اوقات اُن کا تمسخر بھی اُڑاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو میرا مشورہ ہے کہ دوسرے کی بات کو رَد کرنے اور القابات سے نوازنے سے قبل کم از کم کہی گئی بات کا جواز معلوم کر لیا کریں تاکہ اُن غلطیوں [بعض اوقات گناہوں] سے بچ سکیں جو کم عِلمی کی وجہ سے اُن کا روزانہ کا معمول بن جاتے ہیں ۔ اس تحریر کی ضرورت اسلئے محسوس ہوئی کہ ایک بلاگ پر بہت پڑھے لکھے مبصر نے مندرجہ ذیل تبصرہ لکھا تھا

اس جگہ پہ ایک پی ایچ ڈی خاتون بھی تھی۔ جو اس اصرار میں ان حضرت کے ساتھ شامل تھیں کہ بچے کی ولدیت میں اسکے اصل باپ کا ہی نام ہونا چاہئیے۔ وہ الھدی ادارے سے کوئی دو سالہ کورس کر چکی تھیں مگر ان صاحب کی طرح انسانی رو ح سے ناواقف تھی

اَن پڑھ آدمی ایسی بات کرے تو درگذر کیا جا سکتا ہے لیکن کہنے والا اچھا خاصہ پڑھا لکھا ہو تو اُس میں اور اَن پڑھ میں کیا فرق رہ جائے گا

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 5 ۔

ادْعُوھُمْ لِآبَائِھِمْ ھُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءھُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَّحِيمًا

ترجمہ ۔ مومنو! لےپالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے۔ اگر تم کو اُن کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں۔ لیکن جو قصد دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے

لے پالک کا مسئلہ کچھ پیچیدہ ہے ۔ بچہ گود لینے والی عورت اور اس کی بیٹیوں کیلئے بچہ نامحرم ہی رہے گا ۔ اگر بچی گود لی تو اُس بچی کیلئے گھر کے تمام لڑکے یا مرد نامحرم ہی رہیں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان عام طور پر بچی گود لیتے ہیں تاکہ کہ کم از کم گود لینے والی ماں کیلئے کوئی مسئلہ نہ بنے ۔ اسی لئے کچھ عورتیں اپنے یا اپنے خاوند کے سگے بہن یا بھائی کا بچہ یا بچی گود لیتے ہیں کہ وہ گود لینے والی اور اُس کے خاوند کیلئے محرم ہوتا یا ہوتی ہے

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیت 12 ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے