Category Archives: معلومات

خوشگوار حيرت

ميں نے اپنا انگريزی بلاگ “منافقت ۔ ۔ ۔ Hypocrisy Thy Name” کے نام سے ساڑھے چھ سال قبل بلاگر [Blogger] پر شروع کيا تھا ۔ بلاگر پر پابندی لگنے پر اسے ورڈ پريس [Wordpress] پر منتقل کر ديا تھا ۔ ميں نے جلد ہی “منافقت [Hypocrisy]” سے زيادہ دوسرے موضوعات پر لکھنا شروع کر ديا تھا تو قارئين کے اصرار پر اس بلاگ کا نام بدل کر ميں نے “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is Often Bitter” رکھ ديا

پونے چھ سال قبل ميں نے اپنا يہ اُردو بلاگ عليحدہ شروع کر ديا تھا اور اس پر پوری توجہ دے رہا تھا چنانچہ ميرا انگريزی کا بلاگ بے توجہی کا شکار رہا ۔ پچھلے سال کيلئے ورڈ پريس کی انتظاميہ نے پہلی بار بلاگز کی کار کردگی کا تخمينہ لگايا جس کے مطابق ميرا بلاگ زيادہ پڑھے جانے والے بلاگز ميں شمار ہوا

مجھے ورڈ پريس کی جو ای ميل جنوری کے شروع ميں موصول ہوئی وہ مندرجہ ذيل فقرہ سے شروع ہوتی ہے

Here is a high level summary of your overall blog health :

WOW
We think you did great !

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ ويسے بھی ميرے انگريزی بلاگ پر اُردو بلاگ سے مختلف عمدہ تحارير پڑھنے کو مليں گی

آپریشن جبرالٹر اور دوسری جنگ بندی

اطلاع ۔ آج کی تحرير ميں جنگِ 1965ء اور کشمير ميں مداخلت کے متعلق مصدقہ حقائق يکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ميری 15 سال کی محنت اور مطالعہ کا نچوڑ ہے

خیال رہے کہ 1965ء تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957ء میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ پچھلے اتوار کو فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے

آپریشن جبرالٹر 1965ء کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں

آپریشن جبرالٹر اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحبِ علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔ آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز “گنگا” کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبول بٹ کے بعد اس کا صدر امان اللہ بنا ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کُچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے نام نہاد مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947ء کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا

جب 1965ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو آزاد جموں کشمیر کے میرپور سیکٹر میں جنگی حکمتِ عملی جنرل محمد یحیٰ خان نے تیار کی تھی جس کے مطابق پہلے کمان جنرل اختر ملک نے کرنا تھی اور پھر جنرل محمد یحیٰ خان نے کمان سنبھال لینا تھی ۔ جب جنرل محمد یحیٰ خان کمان سنبھالنے گیا تو جنرل اختر ملک کمان اُس کے حوالے کرنا نہیں چاہتا تھا
جنرل اختر ملک اور جنرل یحیٰ کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیاں میں موجود چند آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان (جنرل اختر ملک) کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حُکم مل گیا ۔ اگر منصوبہ کے مطابق پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور پاکستانی فوجی کٹھوعہ پہنچ کر جموں کشمیر کو بھارت سے ملانے والے واحد پر قبضہ کر لیتے اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا
کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحیٰ کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے لیکن وہ غائب تھا ۔ اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا

آپریشن جبرالٹر کے متعلق کچھ واقف حال اور ماہرین کی تحریروں سے اقتباسات

سابق آفیسر پاکستان پولیس جو امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون میں ریسرچ فیلو اور ٹَفٹس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اُمیدوار تھے کی کتاب “پاکستان کا انتہاء پسندی کی طرف بہاؤ ۔ اللہ ۔ فوج اور امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ” سے :

ترجمہ: جب وسط 1965ء میں پاکستانی فوج نے رَن آف کَچھ میں مختصر مگر تیز رفتار کاروائی سے بھارتی فوج کا رُخ موڑ دیا تو ایوب خان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے 12 مئی 1965ء کے خط میں ایوب خان کی توجہ بھارت کو بڑھتی ہوئی مغربی فوجی امداد کی طرف دلائی اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں علاقہ میں طاقت کا توازن کتنی تیزی سے بھارت کے حق میں مُنتقِل ہو رہا تھا ۔ اس موضوع کو وسعت دیتے ہوئے اُس نے سفارش کی ایک دلیرانہ اور جُرأت مندانہ سٹینڈ لے کر گفت و شنید کے ذریعہ فیصلہ زیادہ ممکن ہو گا ۔ اس منطق سے متأثر ہو کر ایوب خان نے عزیز احمد کے ماتحت کشمیر سَیل کو ہدائت کی کہ مقبوضہ جموں کشمیر میں گڑبڑ پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے جس سے محدود فوجی مداخلت کا جواز پیدا ہو ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھِیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ جموں کشمیر میں ساری جنگ بندی لائین کا دفاع اس ڈویزن کی ذمہ داری تھی ۔ آپریشن جبرالٹر کا جو خاکہ جنرل اختر ملک نے بنا کر ایوب خان سے منظور کرایا وہ یہ تھا کہ مسلح آدمی جنگ بندی لائین سے پار مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل کئے جائیں ۔ پھر بعد میں اچانک اِنفنٹری اور آرمرڈ کمک کے ساتھ جنوبی علاقہ میں جموں سرینگر روڈ پر واقعہ اکھنور پر ایک زور دار حملہ کیا جائے ۔ اس طرح بھارت سے کشمیر کو جانے والا واحد راستہ کٹ جائے گا اور وہاں موجود بھارتی فوج محصور ہو جائے گی ۔ اس طرح مسئلہ کے حل کے کئی راستے نکل آئیں گے ۔ کوئی ریزرو نہ ہونے کے باعث جنرل اختر ملک نے فیصلہ کیا کہ آزاد جموں کشمیر کے لوگوں کو تربیت دیکر ایک مجاہد فورس تیار کی جائے ۔ آپریشن جبراٹر اگست 1965ء کے پہلے ہفتہ میں شروع ہوا اور مجوّزہ لوگ بغیر بھارتیوں کو خبر ہوئے جنگ بندی لائیں عبور کر گئے ۔ پاکستان کے حامی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اس لئے اُن کی طرف سے کوئی مدد نہ ملی ۔ پھر بھی اس آپریشن نے بھارتی حکومت کو پریشان کر دیا ۔ 8 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے مارشل لاء لگانے کی تجویز دے دی ۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی پریشانی سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے اُس وقت آپریشن کے دوسرے حصے پر عمل کرکے بڑا حملہ کر دیا جاتا لیکن جنرل اختر کا خیال تھا کہ حملہ اُس وقت کیا جائے جب بھارت اپنی ریزرو فوج مقبوضہ جموں کشمیر میں داخل ہونے کے راستوں پر لگا دے ۔ 24 اگست کو بھارت نے حاجی پیر کے علاقہ جہاں سے آزاد جموں کشمیر کی مجاہد فورس مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئی تھی اپنی ساری فوج لگادی ۔ یکم ستمبر کو دوپہر کے فوراً بعد اس علاقہ میں مجاہد فورس اور بھاتی فوج میں زبردست جنگ شروع ہو گئی اور بھارتی فوج پسپا ہونے لگی اور اکھنور کی حفاظت کرنے کے قابل نہ تھی ۔ عین اس وقت پاکستانی کمانڈ بدلنے کا حکمنامہ صادر ہوا جس نے بھارت کو اکھنور بچانے کا موقع فراہم کر دیا ۔ بھارت نے 6 ستمبر کو اُس وقت پاکستان پر حملہ کر دیا جب پاکستانی فوج اکھنور سے تین میل دور رہ گئی تھی” ۔

پرانے زمانہ کے ایک بریگیڈیئر جاوید حسین کے مضمون سے اقتباس

ترجمہ: “جب سپیشل سروسز گروپ کو اعتماد میں لیا گیا تو اُنہوں نے واضح کیا کہ مقبصہ جموں کشمیر کے مسلمان صرف اس صورت میں تعاون کریں گے کہ ردِ عمل کے طور پر بھارتی فوج کے اُن پرظُلم سے اُن کی حفاظت ممکن ہو ۔ لیکن جب اُنہیں محسوس ہوا کہ پلان بنانے والے اپنی کامیابی کا مکمل یقین رکھتے ہیں تو سپیشل سروسز گروپ نے لکھ کر بھیجا کہ یہ پلان [ آپریشن جبرالٹر] پاکستان کیلئے بے آف پِگز ثابت ہو گا ۔ کشمیر سَیل ایک انوکھا ادارہ تھا جو بغیر سمت کے اور بے نتیجہ تھا جس نے آپریشن جبرالٹر کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا خاکہ بنایا اور کوئی ٹھوس تجویز پیش کرنے سے قاصر رہا ۔ جب ایوب خان نے دیکھا کہ کشمیر سَیل اُس کے خیالات کو عملی شکل دینے میں مناسب پیشرفت کرنے سے قاصر ہے تو اُس نے یہ ذمہ داری بارہویں ڈویزن کےکمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کے سپرد کر دی ۔ 1965ء میں 5 اور 6 اگست کی درمیانی رات 5000 مسلح آدمی ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ مختلف مقامات سے جنگ بندی لائین کو پار کر گئے ۔ یہ لوگ جلدی میں بھرتی اور تربیت دیئے گئے آزاد جموں کشمیر کے شہری تھے اور خال خال پاکستانی فوجی تھے ۔ یہ تھی جبرالٹر فورس ۔ شروع شروع میں جب تک معاملہ ناگہانی رہا چھاپے کامیاب رہے جس سے بھارتی فوج کی ہائی کمان میں اضطراب پیدا ہوا ۔ پھر وہی ہوا جس کی توقع تھی ۔ مقبوضہ کشمیر کے دیہات میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی انتقام بے رحم اور تیز تھا جس کے نتیجہ میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی لوگوں نے نہ صرف جبرالٹر فورس کی مدد نہ کی بلکہ بھارتی فوج کا ساتھ دینا شروع کر دیا ۔ پھر اچانک شکاری خود شکار ہونا شروع ہو گئے ۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ بھارتی فوج نے حملہ کر کے کرگِل ۔ درّہ حاجی پیر اور ٹِتھوال پر قبضہ کر کے مظفر آباد کے لئے خطرہ پیدا کر دیا ۔ اس صورتِ حال کے نتیجہ میں جبرالٹر فورس مقبوضہ کشمیر میں داخلہ کے تین ہفتہ کے اندر منتشر ہو گئی اور اس میں سے چند بچنے والے بھوکے تھکے ہارے شکست خوردہ آزاد جموں کشمیر میں واپس پہنچے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے پلان کے پہلے حصّہ کا یہ حشر ہوا ”

جنرل عتیق الرحمٰن نے اپنی کتاب بیک ٹو پیولین میں ستمبر 1965 کی جنگ کے متعلق لکھا ہے ۔ “جب پاکستانی فوج نےکئی محاذوں پر بھارتی فوج کو پسپائی پر مجبور کر دیا ۔ لاہور محاذ سے بھارتی فوج بیاس جانے کی منصوبہ بندی کر چکی تھی اور سیالکوٹ محاذ پر بھارتی سینا بعض مقامات پر کئی کئی میل پیچھے دھکیل دی گئی تھی ۔ ان خالی جگہوں کے راستے پاکستانی فوج نے بھرپور جوابی حملے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ جوابی حملہ کی تیاریاں کر رہے تھے کہ عین اس وقت جنگ بندی کرا دی گئی ۔ یہ جنگ بندی امریکہ اور روس کے دباؤ کے تحت ہوئی تھی” ۔

ايئر مارشل ريٹائرڈ محمد اصغر خان نے اپنی کتاب “My Political struggle” ميں لکھتے ہيں

In 1965 Zulfikar Ali Bhutto, at the time Ayub Khan’s foreign minister, had advised the president to embark upon a military adventure by launching an armed attack in the Indian-held part of Jammu in the Akhnur sector. This he said was based on the foreign-office assessment that India would not react by attacking Pakistan. Ayub Khan had accepted this assessment and the attack was launched on September 1. He was therefore totally unprepared for the Indian attack that took place on the early morning of September 6 in the Lahore sector of Punjab. Bhutto’s logic, with which Ayub Khan agreed, was that Pakistan would thus cut off India’s road-link with Srinagar and be in a position to capture most of Jammu and Kashmir without having to resort to an all-out war with India. Although I had by then relinquished command of the Pakistan Air Force, I asked to see President Ayub Khan on the morning of September 3 and expressed my opinion that India would react by launching an attack in Punjab, if we continued with our action in the Akhnur sector of the Indian-held territory of Jammu and Kashmir. I was amazed when the president expressed his conviction that India would not do this and said that Zulfikar Ali Bhutto had assured him that there was no such possibility.

Bhutto was too shrewd a person to really believe that India would not react and one is therefore left with the inevitable conclusion that he thought that India would react in an all-out offensive and thought that a military defeat would result. He thought that he could then make some arrangement with the Indian leadership and take over from Ayub Khan. In a conversation that I had after the 1970 elections with Abdul Hamid Khan Jatoi, an eminent People’s Party leader of Sindh, I was told that after the success of the PPP in the 1970 elections, he had asked Bhutto what he proposed to do to curb the power of the armed forces in national affairs. He told me that Bhutto had replied, “Don’t worry about that. By the time I have finished with them they will be fit only for Guards of Honour.” Earlier in 1969, after being released from prison when he had asked me to join his ‘Pakistan People’s Party’, I had wanted to know what his programme was. He had replied in all seriousness that the people are fools and his programme is to make a fool of them. He had said, “Come join with me and we will rule together for at least twenty years. No one will be able to remove us.”

نيچے پاکستان کے ايک سابق پوليس آفيسر حسن عباس کی کتاب
” Pakistan’s Drift Into Extremism: Allah, The Army, And America’s War On Terror ”
۔ حسن عباس نے جب يہ کتاب لکھی ہارورڈ لاء سکول ميں ريسرچ فيلو [Research fellow at the Harvard Law School]
اور فليچر سکول آف لاء اينڈ ڈپلوميسی ٹفٹس يونيورسٹی سے پی ايچ ڈی کے اُميدوار تھے [Ph. D candidate at the Fletcher School of Law and Diplomacy, Tufts university]

“When the Pakistan Army inflicted a short, sharp reverse on the Indians in the Rann of Kutch in mid-1965, Ayub’s spirits got a boost.

Bhutto, in his letter to Ayub of May 12, 1965, drew his attention to increasing Western military aid to India and how fast the balance of power in the region was shifting in India’s favor as a result. He expanded on this theme and recommended that “a bold and courageous stand” would “open up greater possibility for a negotiated settlement.”

Ayub Khan was won over by the force of this logic, and he tasked the Kashmir Cell under Foreign Secretary, Aziz Ahmed, to draw up plans to stir up some trouble in Indian-held Jammu and Kashmir, which could then be exploited in Pakistan’s favor by limited military involvement.

The Kashmir Cell was a ondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the12th Division of the Pakistan Army. This division was responsible for the defense of the entire length of the Cease-fire Line (CLF) in the Kashmir region.

The plan of this operation (Gibraltar) as finalized by General Akhtar Malik and approved by Ayub Khan was to infiltrate a sizable armed force across the CFL into Indian Kashmir. Later, grand slam was to be launched. This was to be a quick strike by armored and infantry forces from the southern tip of the CFL to Akhnur, a town astride the Jammu-Srinagar Road. This would cut the main Indian artery into the Kashmir valley, bottle up the Indian forces there, and so open up a number of options that could then be exploited as the situation demanded. Having no reserves for this purpose, General Akhtar Malik decided that the only option for him was to simultaneously train a force of Azad Kashmiri irregulars (mujahids) for this purpose. Operation Gibraltar was launched in the first week of August 1965, and all the infiltrators made it across the CFL without a single case of detection by the Indians. The pro-Pakistan elements in Kashmir had not been taken into confidence prior to this operation, and there was no help forthcoming for the infiltrators in most areas. Overall, despite lack of support from the local population, the operation managed to cause anxiety to the Indians, at times verging on panic. On August 8 the Kashmir government recommended that martial law be imposed in Kashmir. It seemed that the right time to launch operation Grand Slam was when such anxiety was at its height. But it was General Akhtar Malik’s opinion that this be delayed till the Indians had committed their reserves to seal off the infiltration routes, which he felt was certain to happen eventually. On August 24, India concentrated its forces to launch its operations in order to seal off Haji Pir Pass, through which lay the main infiltration routes. By early afternoon of the first day (September 01, 1965) all the objectives were taken, the Indian forces were on the run, and Akhnur lay tantalizingly close and inadequately defended. “At this point, someone’s prayers worked” says Indian journalist, MJ Akbar: “An inexplicable change of command took place.”Loss of time is inherent in any such change . . . . And this was enough for the Indians to bolster the defenses of Akhnur and launch their strike against Lahore across the international frontier between the two countries. This came on September 6 while the Pakistani forces were still three miles short of Akhnur.

When the Special Service Group (SSG), the army’s unit that specializes in special operations, was taken into confidence, they pointed out that the Kashmiri Muslims would cooperate only when they were assured of protection against the inevitable Indian retribution. However, when it became clear that the planners’ belief in their plan had blinded them to the faults in it, the SSG warned, them in writing that the operation as planned would turn out to be Pakistan’s Bay of Pigs. The Kashmir Cell was a nondescript body working without direction and producing no results. It laid the broad concept of Operation Gibraltar, but did not get very far beyond this in terms of coming up with anything concrete. When Ayub saw that the Kashmir Cell was making painfully little headway in translating his directions into a plan of action, he personally handed responsibility for the operation over to Major General Akhtar Hussain Malik, commander of the 12th Division of the Pakistan Army. On the night of August 5/6 1965, 5,000 lightly armed men slipped across the ceasefire line into occupied Kashmir from multiple points. They were the hastily recruited and trained Azad Kashmir civilians with a sprinkling of Azad Kashmir and Pakistani soldiers. They were the Gibraltar Force. In the early stages of the operation, while the surprise lasted, they conducted a series of spectacular raids and ambushes, which caused great alarm and trepidation in the Indian high command. Then the expected happened. Indian retribution against Muslim villages was swift and brutal; as a result, the locals not only refused to cooperate with the raiders but also started to assist the Indian forces to flush them out. Suddenly, from hunters the raiders had become the hunted. To make matters worse, the Indian forces went on the offensive capturing Kargil, Haji Pir pass and Tithwal and threatening Muzaffarabad.

With its fate sealed, the Gibraltar force disintegrated within three weeks of the launch and its few survivors limped back to Azad Kashmir hungry, tired and defeated. Phase-I of the field marshal’s plan had backfired.

ایٹم بم بنانے کا بنیادی کام کس نے کیا ؟

تعلیم یافتہ لوگوں نے تو انشقاق یا انفجار [Fission] کا نام سنا ہو گا اور کچھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں اس عمل کی اہمیت سے واقف ہوں گے لیکن عوام اس کی تاریخ یا اہمیت سے زیادہ واقف نہیں

1932ء میں انگریز سائنسدان جیمز چیڈوِک [James Chadwick] نے ایٹم کے قلب [Nucleus] میں ایک نیوٹرل یعنی غیر برقی چارج والا ذرّہ [Neutron] دریافت کیا تھا یہ پہلے سے وہاں مثبت چارج والے ذرّہ پروٹون [Proton] کے علاوہ تھا۔اس ذرّہ کی موجودگی کی پیشگوئی دوسرے انگریز سائنسدان رَدرَفورڈ [Rutherford] نے 1920ء میں کر دی تھی لیکن اسی رَدرَفورڈ نے ایٹمی قوت کے سول مقاصد کے استعمال کے نظریہ کو احمقانہ خیال قرار دیا تھا

اس دریافت کے بعد یورپ و امریکہ میں سائنسدانوں نے مختلف اقسام کے ایٹموں پر نیوٹران مارنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا

اٹلی کے مشہور نوبل انعام یافتہ فرمی[Fermi]نے یورینیم کے ایٹم پر جب نیوٹران مارے تو معلوم ہوا کہ کئی دوسرے اقسام کے ایٹم [دھات] بن جاتے ہیں اس نے غلطی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یورینیم خود سے زیادہ بھاری دھات میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اسی وقت برلن میں اْوٹوہان [Otto Hahn]جس کو 1944ء میں نوبل انعام ملا تھا اور اس کے ساتھی شٹراسمن [Strassmann]نے نہایت جامع اور صحیح کیمیائی طریقے سے معلوم کیا کہ بیریم [Barium] دھات بن گئی تھی اور فرانس میں ایرینے جولیو کیوری [Irene Joliot-Curie] نے ایسے ہی تجربہ میں لنتھالم [Lanthalum] دھات دریافت کی

اسی دوران اْوٹوہان کی پرانی طویل رفیقہءِ کار لیزے مائٹنر [Lize Meitner] اور اس کا بھانجا اْوٹو فِرِش [Otto Frisch] ہٹلر کی یہود نسل کشی پالیسی سے ڈر کرسوئیڈن اور ڈنمارک بھاگ گئے تھے

اْوٹوہان نے اپنے تجربوں کے نتائج سے لیزے مائٹنر کو آگاہ کیا ۔ چند دن بعد ہی کرسمس کی تعطیل میں اْوٹوفِرِش اپنی خالہ کے پاس گیا تو دونوں نے ان نتائج پر غور شروع کر دیا اور فوراً اس اہم نتیجے پر پہنچے کہ نیوٹران کے ٹکراؤ سے یورینیم کا قلب تقریباً دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا [جو مختلف دھاتیں تھیں] اور ان کا مجموعی وزن یورینیم کے قلب کے اصل وزن سے 20 فیصد کم تھا دونوں نے نہایت اہم نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غائب شدہ وزن قوت یعنی انرجی میں تبدیل ہو گیا تھا جو بہت زیادہ تھی ۔ لیزے مائٹنر نے یہ بھی فوراً حساب لگا کر معلوم کر لیا کہ یہ تقریباً دو سو ملین الیکٹران وولٹ [Mev 200]کے برابر ہوتی ہے

بس یوں سمجھ لیں کہ یہیں سے ایٹمی دور شروع ہوا تھا۔ اْوٹوہان اور شٹراسمن کے تجربے اور نتائج سے واقف ہو کر ایک اور مشہور جرمن خاتون سائنسدان ایڈانوڈک[Ida Noddak] نے فوراً یہ تشریح پیش کی کہ ہان اور شٹراسمن نے غالباً یورینیم کے قلب کو نیوٹران سے دولخت کر دیا ہے یہ 1934ء کی بات ہے

جرمنوں کی بدقسمتی اور مغربی ممالک کی خوش قسمتی تھی کہ ہان اور شٹراسمن اور دوسرے جرمنوں نے اس صحیح تشخیص پر دھیان نہیں دیا اگر وہ اس کو سمجھ کر کام شروع کرتے تو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے شروع ہونے تک جرمن سائنسدان ہائزین برگ [Heisinberg] اور اس کے ساتھی ایٹم بم بنا لیتے

یہاں یہ بات زيرِنظر رہے کہ اْوٹو فِرِش نے ایٹم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کو انشقاق [Fission] کا نام دیا تھا انہوں نے یہ تشبیہ بیالوجی میں ایک سیل [Cell] کے دو حصوں میں بٹ جانے سے مستعار لی تھی۔ اوٹو فِرِش نے امریکہ میں ایٹم بم کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا اور بعد میں انگلینڈ میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی اوٹو فِرِش اور ایک اور جرمن مہاجر سائنسدان پروفیسر روڈولف پائیرلس[Rudolf Peierls] نے حساب لگا کر سب سے پہلے ایٹم بم کی تیاری کے امکان پر ایک رپورٹ حکومت برطانیہ کو کوڈ نام [Maud Report] سے پیش کی تھی جس کے بعد ہی حکومت نے سنجیدگی سے اس اہم کام پر کام شروع کر دیا تھا۔

اوٹوفِرِش 1933ء میں بذریعہ ٹرین برلن سے ماسکو جا رہے تھے جہاں انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی ۔ اسی ڈبہ میں ہومی بھا بھا جو بعد میں انڈین اٹامک کمیشن کے چیئرمین بنے، بھی بیٹھے تھے ۔ راستے میں جان پہچان ہو گئی اور انہوں نے ماسکو میں ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک روز بھا بھا نے اوٹو فِرِش کو بتلایا کہ وہ واپس لندن جا کر ہندوستان روانہ ہو جائے گا جہاں وہ ٹاٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سربراہ بنے گا، ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ کیا فِرِش

اس کو گائگر کاؤنٹر [Geiger Counter] استعمال کرنا سکھا سکتا ہے ؟ فِرِش کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ کیمبرج یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری والا

ایک چھوٹا سا آلہ استعمال کرنا نہیں جانتا ۔ یہ آلہ تابکار شعاعوں [Radioactivity] یا ذرات کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے اور کوٹ کی جیب میں رکھا جا سکتا ہے۔

امن ۔ مگر کيسے ؟ ؟ ؟

نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ ساری دنيا ڈھنڈورہ پيٹتی ہے کہ جنوبی ايشا ميں امن قائم ہونا چاہيئے ۔ مگر يہ امن کيسے قائم ہو ؟
امن کی چابی موجود ہے مگر اسے گھماتا کوئی نہيں
مندرجہ ذيل ربط پر کلِک کر کے پڑھيئے کہ امن کيسے قائم ہو سکتا ہے

The Only Guarantee for Peace

گاندھی ۔ نہرو ۔ پٹيل اور جنرل گريسی

وسط اکتوبر 1947ء ميں موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ تین دن کے متواتر کوشش کے بعد کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغير اطلاع اور اجازت کے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اُترنا شروع کر دیا ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ بھارتیہ مہاسبھا اور سکھوں کی اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے پہلے ہی جموں پہنچنا شروع ہو چُکے تھے

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس ڈيوڈ گریسی [Sir Douglas David Gracey] کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حُکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حُکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتا تو ايسا نہ کرتا اور بھارت جموں کشمير پر قبضہ نہ کر پاتا کيونکہ پاکستانی فوج کے جموں کشمير کے داخل ہونے کی خبر سنتے ہی پہلے سے جنگ آزادی لڑنے والے رياستی باشندوں کا ساتھ دينے کيلئے بڑی تعداد ميں رياستی باشندے اُٹھ کھڑے ہوتے

ڈوگرہ حکومت کی مکّاری اور اعلانِ جہاد

تين ماہ سے پھر مقبوضہ جموں کشمير ميں ظُلم کا بازار گرم ہے اور آزادی کے متوالے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کر رہے ہيں ۔ اِن کيلئے يہ ظُلم کوئی نئی بات نہيں 1947ء سے سہتے آ رہے ہيں

اکتوبر 1947ء کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھُریاں سب ضبط کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا جانے لگا ۔ قتلِ عام کرنے والوں ميں مقامی ہندو بہت کم تھے زيادہ تر ہندوستان سے نو وارد راشٹريہ سيوک سنگ اور ہندو مہاسبھا کے ہندو اور اکالی دَل کے سِکھ تھے ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مُسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مُسلے قربان کریں گے۔ پاکستان اور بھارت میں عید الاضحے اتوار 26 اکتوبر 1947ء کو تھی

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے الله پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی ایک جنگ کی صورت اختیار کر گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک آزادی تھی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا

27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جموں کشمیر حکومت کی اجازت کے بغیر اپنی فوج بذریعہ سِوِلِیّن ہوائی جہازوں کے جموں چھاؤنی (ستواری) کی ایئرپورٹ پر اُتارنا شروع کر دی ۔ پہلا جہاز جموں کی فضا میں پہنچنے پر رن وے پر رکاوٹ کھڑی کی گئی لیکن جہاز لینڈ کر گیا اور ٹکر سے بچنے کیلئے داہنی طرف کو مڑنے کی کوشش میں اس کا داہنا پر زمین میں دھنس گیا مگر فوج اترنے میں کامیاب ہو گئی ۔ یہ کمانڈوز تھے ۔ اُنہوں نے آتے ہی ایئرپورٹ کا نظام سنبھال لیا اور وہاں موجود عملہ کو گرفتار کر لیا ۔ اس کے بعد دھڑا دھڑ بھارتی فوج اُترنے لگی۔ (ہم اُن دنوں ستواری (جموں چھاؤنی) میں تھے اور رہائش ایئر پورٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلہ پر تھی ۔ میں اور میرا کزن ارشد حفیظ جلانے کیلئے سوکھی تھوریں تلاش کرتے وہاں پہنچے تو ہم نے وہ جہاز دیکھا جس کا ایک داہنا پر زمین میں دھنسا ہوا تھا)

بھارتی فوج نے 30 اکتوبر 1947ء تک سارے جموں کی سرحدوں پر پھیل گئی اور پھر کشمیر اور پونچھ کی طرف رُخ کیا اور نومبر کے شروع میں بڑی تعداد میں کشمیر اور پونچھ کی سرحدون پر پہنچ گئی
بھارت کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن الله سُبْحَانهُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا

يہاں يہ بتانا بے جا نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت جو ہميشہ سے کہتی آئی ہے کہ جموں کشمير کے راجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کيا تھا يہ سراسر جھوٹ ہے اور اس کا کوئی تحريری يا غيرتحريری ثبوت موجود نہيں ۔ اگر کوئی ثبوت ہوتا تو جب بھارتی وزيرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو رياست کے مجاہدين کی فتوحات سے گبھرا کر بھاگتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے دفتر پہنچے تھے وہاں وہ ثبوت سلامتی کونسل کے سامنے پيش نہ کرتے ؟ ديگر ميں خود اس واقعہ کا گواہ ہوں کہ جب بھارت کا پہلا ہوائی جہاز جموں چھاؤنی ستواری کی فضا ميں پہنچا تو اسے اُترنے کی اجازت نہ دی گئی اور رکاوٹ کھڑی کر دی گئی ۔ زبردستی اُترتے ہوئے ہوائی جہاز کا ايک پر زمين ميں دھنس گيا تھا ۔ اس ميں سے فوجی نکلے اور اُنہوں کے ايئرپورٹ پر قبضہ کر ليا کيونکہ وہاں رياست کی کوئی فوج نہ تھی

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے البتہ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔

بے سروسامانی کی حالت میں صرف الله پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ کئی پاکستانی فوجی چھٹیاں لے کر انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے