معذرت
میرے بلاگ کا سرور کل یعنی 29 مارچ بروز جمعرات صبح 6 بجے سے شام سوا 6 بجے تک بوجہ مینٹننس بند رہا
جن خواتین و حضرات کو اس بندش کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہو اُن سے غیر مشروط معافی
گر قبول اُفتَد زہے عز و شرف
وضاحت
میں نے عید میلادالنبی کے متعلق ایک کتبہ اور اللہ کا فرمان نقل کئے تھے ۔ اس پر ایک تبصرہ قابلِ اہم وضاحت آیا تو سوچا کہ سب قارئین و قاریات کی رائے سے مستفید ہونے کیلئے تبصرہ اور اس کا میری طرف سے جواب سرِ ورق پر شائع کر دوں
قاری کا تبصرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، اور ظاہر ہے کسی کو بھی نہیںہوگا۔ اور قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، لہذا سورہ ضحیٰ میں جو اللہ رب کائنات نے فرمایا “واما بنعمت ربک فحدث ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ تو اس آیت کو بیان کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر پڑھ لیجیے۔
دوسری بات یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، بعد میںاس کے مختلف مترجمین نے ترجمہ کیے، تو کچھ لوگ ترجمہ کرنے میں بھٹکے بھی ہیں اور کچھ عالم نہ ہوکر بھی ترجمہ کر بیٹھے اور صحیح ترجمہ نہیں کرپائے لہذا ترجمہ کے معنی و مفہوم میں کچھ ذرا سی تبدیلی پیدا ہوگئی، میری نظر میں امام احمد رضا کا ترجمہ ایک اچھا ترجمہ ہے کیوں کہ اُس میں ایک ایک چیز کا خیال رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت بطور مثال مختلف تین مترجمین سے پیش کر رہا ہوں،
سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)
ترجمہ: ”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔ (کنز الایمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)
کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور پھر ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔ (مولوی اشرف علی تھانوی)
بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔ (مولوی محمود الحسن دیوبندی)۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ”نجد” کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ”النجد” کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔
آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ”نجد” کے معنی ہی بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateauیعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ”نجد”کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔ (ماخوذ از، اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ، پروفیسر مجید اللہ قادری)
میرا جواب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی مفید رائے سے مستفید کرنے پر مشکور ہوں
قرآن شریف کی کسی آیت کا بغیر سیاق و سباق ترجمہ لے کر رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔ سورت الضحٰی کی متذکرہ آیت کو باقی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھیئے تو وہ مطلب نہیں نکلتا جو کتبہ لکھنے والے اور آپ نے لیا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں
سورت ۔ 93 ۔ الضحٰی ۔ آیات ۔ 6 تا 11 ۔ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى 0 وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَھَدَى 0 وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَی 0 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْھَرْ 0 وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0 وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 0
ترجمہ ۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ 0 اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا 0 اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا 0 تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا 0 اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں 0 اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا 0
اب دوسرا مسئلہ جو آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کے نام منسوب کیا ہے
“نجد” کے معنی عورت کے پستانوں کی مانند ” اُبھری ہوئی چیز” کیسے بنے میری سمجھ میں نہیں آ رہا
” نجد” فعل اور اسم دونو طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیت ۔ 10 میں ” نجدین” آیا چنانچہ بطور اسم استعمال ہوا ہے ۔ ” نجد” اسم ہو تو اس کے معنی ہیں “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” جسے انگریزی میں plateau کہتے ہیں ۔
فعل کے طور پر نجد کے معنی ہیں ۔ جان بچانا ۔ چھڑانا ۔ نجات دلانا ۔ رہا کرانا
عورت کے سینے کے اُبھاروں کو “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” نہیں کہا جا سکتا
محمود الحسن اور اشرف علی تھانوی صاحبان کے تراجم عربی لفظ ” نجد” کے قریب ترین ہیں
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ کی آیات ۔ 5 تا 11 پڑھیں تو عورت کے سینے کے اُبھار کسی طرح فِٹ نہیں ہوتے
نیچے طاہر القادری صاحب کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں جو فی زمانہ بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔ انہوں نے بھی “دو راستے” لکھا ہے
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیات ۔ 5 تا 11 ۔ 5 ۔ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْہِ أَحَدٌ
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟
6 ۔ يَقُولُ أَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَہُ أَحَدٌ7 ۔
7. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا
8 ۔ أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں
9 ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)
10 ۔ وَہَدَيْنَاہُ النَّجْدَيْنِ
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
11 ۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا