Category Archives: معلومات

مٹیریل کہاں سے آتا ہے ؟

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی ۔ پہلے 3 دن ساری فیکٹریوں کا تعارفی دورہ کرایا گیا ۔ پھر مطالعاتی اور تربیتی پروگرام کیلئے 6 ماہ مختلف ورکشاپس میں بھیجا گیا اور 2 ماہ کیلئے ڈیزائن اینڈ ڈرائینگ آفس میں ۔ جنوری 1964ء میں میرا سمال آرمز گروپ میں مستقل طور پر تقرر ہوا ۔ (یہ فیکٹری اللہ کے کرم سے 1967ء میں میرے ہاتھوں ویپنز فیکٹری میں تبدیل ہوئی)۔ اُن دنوں سمال آرمز گروپ کے سربراہ ایک ورکس منیجر اور میرے سمیت 2 اسسٹنٹ ورکس منیجر ۔ 8 فورمین اور باقی ماتحت عملہ تھا ۔ 4 بڑی اور ایک چھوٹی ورکشاپس تھیں ۔ ان میں سے ایک بڑی ورکشاپ خالی تھی یعنی وہاں کوئی مشین وغیرہ نہ تھی ۔ انفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کی پروڈکشن بند ہو جانے کے بعد کوئی کام نہیں ہو رہا تھا سوائے چند فالتو پرزوں کی تیاری کے جو انفیلڈ رائفل کیلئے بنائے جا رہے تھے

رائفل جی تھری کی پلاننگ ہو چکی تھی ۔ ڈویلوپمنٹ شروع ہونے والی تھی ۔ ایک بڑی ورکشاپ میں درآمد شدہ پرزوں سے رائفل جی تھری کی اسمبلی ہونا تھی اور اسی ورکشاپ کے دوسرے حصہ میں جی تھری بیرل کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی ۔ مجھے اس ورکشاب کا انچارج بنا دیا گیا ۔ میرے باس (ورکس منیجر) 6 ماہ پلاننگ کیلئے جرمنی گذار کے آئے تھے لیکن کام شروع ہونے سے معلوم ہوا کہ اسمبلی کیلئے چند فکسچر نہ آرڈر کئے گئے اور نہ پی او ایف میں بنوائے گئے تھے جو میرے گلے پڑ گئے اور مجھے ایسا کوئی مستری نہ دیا گیا جو نیک نیّتی سے کام کرے ۔ خیر ۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ بھُگتنا پڑا ۔ یہ تو دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ اب آتے ہیں اصل موضوع ” مٹیرئل“ کی طرف

درآمد شدہ پرزوں سے اسمبلی کر نا 6 ماہ کا منصوبہ تھا لیکن دو ماہ بعد بیرل اور دوسرے پرزوں کی ڈویلوپمنٹ شروع کرنا تھی تاکہ جب درآمد شدہ پُرزے ختم ہو جائیں تو اپنے تیار کردہ پرزے رائفل بنانے کیلئے موجود ہوں
ابھی ایک ماہ گذرا تھا کہ میں نے اپنے باس سے کہا ”رائفل میں براہِ راست استعمال ہونے والے سب مٹیرئل تو آرڈر کئے جا رہے ہیں ۔ جو مٹیرئل استعمال ہوتے ہیں اور رائفل کا حصہ نہیں بنتے اُن کا کیا بند و بست ہے ؟“
اُنہوں نے ایک فورمین کا نام لے کر اُسے پوچھنے کا کہا ۔ میں اُس فور مین کے پاس گیا اور پوچھا
اُس نے جواب دیا ”سٹور سے”۔
میں کہا ”یہ سٹور میں کہاں سے آتے ہیں ؟ ان کی پلاننگ کون کرتا ہے ؟ آرڈر کون اور کب کرتا ہے ؟“
بولے ”نیوٹن بُوتھ نے منگوائے تھے جب فیکٹری بنی تھی“۔

نیوٹن بُوتھ کے بعد غلام فاروق آئے اُن کے بعد جنرل حاجی افتخار اور اب جنرل اُمراؤ خان تھے ۔ اس دوران کسی کے ذہن میں یہ بات کیوں نہ آئی ؟ یہ ایک بڑا سوال تھا
پچھلے ماہ کے کچھ تجربوں کے بعد منیجر صاحب سے مزید بات بیکار تھی ۔ کچھ دن بعد جنرل منیجر دورے پر آئے ۔ مجھ سے پوچھا ” کوئی مُشکل ؟“ اُن سے بھی وہی سوال پوچھ لیا جو منیجر صاحب سے پوچھا تھا ۔ خاموشی سے چلے گئے ۔ مجھے ڈویلوپمنٹ کے کام کے ساتھ رائفل جی تھری کے معاملات کیلئے ٹیکنکل چیف کے سیکریٹری کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی ۔ ایک دن مجھے میٹنگ میں بُلایا گیا ۔ میٹنگ ختم ہونے پر سب افسران چلے گئے ۔ مجھ سے ٹیکنیکل چیف نے حال احوال پوچھا تو میں نے اپنی پریشانی بتائی ۔ وہ ہنس کر کہنے لگے ”تم مین سٹور کے سربراہ کو مل کر مٹیرئل کی سپلائی کا موجودہ طریقہ کار معلوم کرو پھر محکمہ پرچیز میں جا کے اُن کا طریقہ کار دیکھو ۔ اس کے بعد اس سب کا م کے طریقہ کار کے متعلق ایک منصوبہ بنا کر براہِ راست مجھے دو ۔ معلومات حاصل کرنے میں کوئی دقعت ہو تو میرے پی اے سے مدد لینا“۔ پھر پی اے کو بُلا کر کہہ دیا ”سٹور اور پرچیز کے سربراہان کو بتا دیں کہ اجمل بھوپال اُن کے پاس آئیں گے“۔

پہلے ہی میں گھنٹہ دو گھنٹے روزانہ فالتو بیٹھتا تھا ۔ ایک اور ذمہ داری میرے سر پر آ پڑی تھی لیکن میں خوش تھا کہ مسئلہ حل ہونے کی راہ نکل آئی ۔ میں نے صبح 7 بجے سے رات 8 بجے تک روزانہ کام کر کے ایک ماہ کے اندر ایک مسؤدہ تیار کیا جس میں میٹیرئل کی پلاننگ ۔ مجاز افسر سے منظوری ۔ ٹینڈرنگ ۔ انتخاب کئے گئے مٹیریل کی ڈیمانڈ اور اُس کی منظورٰی ۔ آرڈرنگ ۔ وصولی ۔ سٹورنگ ۔ اور متعلقہ ورکشاپ کو اجراء سمیت تمام عوامل شامل کئے ۔ یہ مسؤدہ میں نے اگلی میٹنگ کے بعد ٹیکنکل چیف کے حوالے کر دیا

شاید دو ہفتے بعد سٹورز کے سربراہ کا ٹیلیفون آیا ۔ اُنہوں نے میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اُن کا کام کر دیا اور آئیندہ میرے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ میں حیران تھا کہ میں نے کیا کر دیا ۔ میں نے کہا ” آپ کی بڑی نوازش اور مہربانی ہے ورنہ میں نے تو اپنی طرف سے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی“۔ کچھ دن بعد سٹورز کے ایک افسر میرے پاس آئے اور مجھے ایک لمبی چوڑی نوٹیفیکشن دکھائی ۔ میں نے دیکھا کہ یہ من و عن وہ مسؤدہ ہے جو میں نے ٹیکنیکل چیف کو دیا تھا جسے پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نفاذ کیلئے جاری کر دیا گیا تھا ۔ میں نے اپنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھ ناچیز کو ملازمت کی ابتداء ہی میں ایسی کامیابی عطا فرمائی تھی ۔ میری آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تو وہ افسر کچھ پریشان ہوئے لیکن جلد سنبھل کر بولے ”واقعی اللہ آپ کے ساتھ ہے ۔ اس کام کا پچھلے 10 سالوں میں تجربہ کار لوگوں کو یاد نہ آیا اور آپ نے ایک سال میں انجام دے دیا ۔ آپ نے بہت اچھا طریقہ کار وضع کیا ہے ۔ جب کسی وضاحت کی ضرورت ہوئی تو میری مدد کیجئے گا“

وقت گذرتا گیا ۔ مئی 1976ء میں مجھے لبیا بطور ایڈوائزر حکومتِ لبیا بھیج دیا گیا ۔ مارچ 1983ء میں واپس پی او ایف کی ملازمت بطور پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ شروع کی ۔ ستمبر 1985ء میں اُس وقت کے چیئرمین نے ناراض ہو کر وہاں سے ہٹا کر جنرل منیجر ری آرگنائزیشن لگا دیا جو ایم آئی ایس کا حصہ تھا مگر ناکارہ (کھُڈا لائین) اسامی سمجھی جاتی تھی ۔ جن صاحب سے میں نے ٹیک اَوور کیا وہ دن بھر بیٹھے اخبار اور کتابیں پڑھتے رہتے تھے ۔ میں نے کام کا پوچھا تو بولے ”کوئی کام نہیں ہے ۔ کرسی آرام کیلئے ہے ۔ موج میلہ کرو“۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی اور میں نے اپنے لئے کام پیدا کر لیا ۔ تمام سنیئر اسامیوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کے مسؤدے تیار کرتا اور پی او ایف بورڈ کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشنز کرواتا رہا ۔ یہ کام وقت کو پانی کی طرح غٹ غٹ پیتا تھا ۔ 2 سال میں ختم ہوا

پھر میں نے تجویز دی کہ اِنوَینٹری کو کمپیوٹرائز کیا جائے ۔ یہ تجویز آگے چل پڑی لیکن مجھے شامل کئے بغیر ۔ پہلے چیئرمین چلے گئے ۔ جب معاملہ نئے آنے والے چیئرمین کے پاس پہنچا تو انہوں نے ممبر پی او ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز ۔ متعلقہ محکموں یعنی سٹورز اور پرچیز کے سربراہان جو جنرل منیجر ہوتے ہیں اور تمام فیکٹریوں کی سربراہان جو ایم ڈی ہوتے ہیں کی مشترکہ میٹنگ بُلائی (اُن دنوں میں کسی محکمہ کا سربراہ نہیں تھا) ۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ٹیلیفون آیا ۔ میرے پی اے نے بتایا چیئرمین آفس سے ٹیلیفون ہے ۔ بات کی تو ٹیلیفون کرنے والے نے اپنا تعارف کرائے بغیر کہا ”بھوپال صاحب ۔ چیئرمین صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں“۔ میں جا کر حسبِ معمول سٹاف آفیسر ٹُو چیئرمین کے دفتر میں پہنچا تو وہ دفتر میں نہیں تھے ۔ میں چیئرمین کے پرائیویٹ سیکریٹری کے پاس گیا ۔ وہ بولا ”چیئرمین کانفرنس روم میں ہیں ۔ وہاں سے کسی نے ٹیلیفون کیا ہو گا“۔ میں کانفرنس روم میں داخل ہوا تو وہاں سب بڑے لوگ بیٹھے تھے ۔ میں نے سلام کیا تو چیئرمین صاحب نے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ جب میں بیٹھ گیا تو اُنہوں نے سٹورز کے جنرل منیجر کی طرف اشارہ کیا ۔ وہ بولے ”جناب ۔ یہ موجودہ طریقہ کار آج سے 23 سال قبل بھوپال صاحب نے ہی وضع کیا تھا جو کامیابی سے چل رہا ہے ۔ اسلئے اِنوؒنٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن کیلئے ان سے بہتر کوئی اور نہیں ہو سکتا ۔ میری درخواست ہے کہ پروجیکٹ ان کے ذمہ کیا جائے“۔ سو فیصلہ ہو گیا اور میں قادرِ مطلق کی کرم فرمائی سے ناکارہ سے پھر کار آمد آدمی بن گیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا فضل شاملِ حال ہوا اور میرے ہاتھوں پاکستان کا سب سے بڑا اور پہلا کمپیوٹرائزڈ اِنوینٹری منیجمنٹ سسٹم بن کر انسٹال بھی ہوا ۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے دفاعی اداروں کے کئی سینئر افسران میرے شاگرد بنے اور واپس جا کر اپنے اداروں میں اس سسٹم کو ڈویلوپ کروایا ۔ ایک بریگیڈیئر صاحب میرے پی او ایف چھوڑنے کے 10 سال بعد اتفاقیہ طور پر ایک دفتر میں ملے اور مجھے اُستاذ محترم کہہ کر مخاطب کیا حالانکہ وہ سروس میں مجھ سے کم از کم 5 سال سنیئر تھے ۔ مجھے یاد نہیں تھا مگر اُنہوں نے یاد رکھا تھا ۔ جن صاحب کے پاس ہم بیٹھے تھے اُنہیں مخاطب کر کے بولے ”یہ بھوپال صاحب میرے اُستاد ہیں ۔ اِنہوں نے مجھے کمپیوٹر پر اِنوَینٹری منیجمنٹ سکھائی تھی“۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ۔

اور کہیئے کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے ۔ (سورۃ 3 ۔ آل عمران ۔ آیۃ 26) ۔

نہ مانیئے لیکن غور ضرور کیجئے

٭ عراق پر قبضے کے بعد 2003 میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ دینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور 2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے

٭ برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

٭ کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے (جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا) سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے

٭ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا ۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں

٭ امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا ۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں ۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگا دئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میّسر رہتا ہے

٭ اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ۔ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے

٭ وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اس وقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی ۔ جے یو آئی ۔ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کے تو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

٭ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبر ون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف قادری صاحب کے دشمن نمبر ون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتر رہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سرور اسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں

ماخذ ۔ جرگہ

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں

سچے قائد کی یاد میں

آج 11 ستمبر ہے ۔ 66 سال قبل یہی تاریخ تھی کہ ہند و پاکستان کے مسلمانوں کا عظیم رہنما اس دارِ فانی سے ملکِ عدم کو کوچ کر گیا
مجھے وہ وقت یاد ہے جب اپنے عظیم قائد کی رہنمائی میں مسلمانانِ ہند کی جد و جہد میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے کالج کے لڑکوں کے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگائے تھے
بن کے رہے گا پاکستان
لے کے رہیں گے پاکستان ۔
What do you want – Pakistan
پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الاللہ
مسلم لیگ کے راہنماؤں کی طرف سے یہ خصوصی اجازت ہمیں صرف ایک دن کیلئے ایک مخصوص علاقہ کے اندر دی گئی تھی ۔ ہر بچے نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے تھے

قائدِ اعظم کی خواہشات اور ارادوں کے مطابق
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو ایک خودار ۔ باوقار اور ایماندار قیادت دے سکے
نہ ہم اپنے ملک پاکستان کو جدید ۔ ترقی یافتہ اور پُرامن ملک بنا سکے

کوئی ہے جو ہم سے نام نہاد ترقی اور تبدیلی کے کھوکھلے نعرے لے لے
کوئی ہے جو ہم سے بدامنی اور مذہب یا روشن خیالی کے نام پر کی جانے والی انتہاء پسندی لے لے
کوئی ہے جو ہمیں ہمارا 1948ء والا غیر ترقی یافتہ لیکن خلوص بھرا پاکستان واپس کر دے
کوئی ہے جو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس کر دے

ہمیں 1948 کا پاکستان چاہئیے

مزمل ریاض شیخ کی 2007ء میں لکھی گئی تحریر

کابینہ کااجلاس تھا، اے ڈی سی نے پوچھا سر اجلاس میں چائے پیش کی جائے یا کافی، چونک کر سر اٹھایا اورسخت لہجے میں فرمایا ”یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے، اے ڈی سی گھبرا گیا، آپ نے بات جاری رکھی ”جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے قوم کا پیسہ قوم کے لئے ہے وزیروں کے لئے نہیں۔“ اس حکم کے بعد کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ پیش نہ کیا گیا۔ گورنر جنرل ہاؤس کے لئے ساڑھے 38 روپے کا سامان خریدا گیا آپ نے حساب منگوا لیا ، کچھ چیزیں محترمہ فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں حکم دیا یہ پیسے ان کے اکاؤنٹ سے کاٹے جائیں، دو تین چیزیں ان کے ذاتی استعمال کیلئے تھیں فرمایا یہ پیسے میرے اکاؤنٹ سے لے لئے جائیں۔ باقی چیزیں گورنر جنرل ہاؤس کے لئے تھیں فرمایا ٹھیک ہے یہ رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے لیکن آئندہ احتیاط کی جائے۔

برطانوی شاہ کا بھائی ڈیوک آف گلوسٹر پاکستان کے دورے پر آ رہا تھا برطانوی سفیر نے درخواست کی ”آپ اسے ایئر پورٹ پر خوش آمدید کہہ دیں ، ہنس کر کہا، میں تیار ہوں لیکن جب میرا بھائی لندن جائے گا تو پھر برٹش کنگ کو بھی اس کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ آنا پڑے گا“ ایک روز اے ڈی سی نے ایک وزٹنگ کارڈ سامنے رکھا آپ نے کارڈ پھاڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ”اسے کہو آئندہ مجھے شکل نہ دکھائے“ یہ شخص آپ کا بھائی تھا اور اس کا قصور صرف اتنا تھا اس نے اپنے کارڈ پر نام کے نیچے ”برادر آف قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان“ لکھوا دیا تھا۔

زیارت میں سردی پڑ رہی تھی کرنل الٰہی بخش نے نئے موزے پیش کر دیئے دیکھے تو بہت پسند فرمائے ریٹ پوچھا بتایا دو روپے، گھبرا کر بولے یہ تو بہت مہنگے ہیں عرض کیا سر یہ آپ کے اکاؤنٹ سے خریدے گئے ہیں فرمایا میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے ایک غریب ملک کے سربراہ کو اتنا عیاش نہیں ہونا چاہئے۔ موزے لپیٹے اور کرنل الٰہی بخش کو واپس کرنے کا حکم دے دیا۔ زیارت ہی میں ایک نرس کی خدمت سے متاثر ہوئے اور اس سے پوچھا ”بیٹی میں تمہارے لئے کیا کر سکتا ہوں“ نرس نے عرض کیا سر میں پنجاب سے ہوں میرا سارا خاندان پنجاب میں ہے میں اکیلی کوئٹہ میں نوکری کر رہی ہوں آپ میری ٹرانسفر پنجاب کر دیں اداس لہجے میں جواب دیا ”سوری بیٹی یہ محکمہ صحت کا کام ہے گورنر جنرل کا نہیں“

اپنے طیارے میں رائٹنگ ٹیبل لگوانے کا آرڈر دے دیا فائل وزارت خزانہ پہنچی تو وزیر خزانہ نے اجازت تو دے دی لیکن یہ نوٹ لکھ دیا ”گورنر جنرل اس قسم کے احکامات سے پہلے وزارت خزانہ سے اجازت کے پابند ہیں“ آپ کو معلوم ہوا تو وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم منسوخ کردیا اور رہا پھاٹک والا قصہ تو کون نہیں جانتا ، گل حسن نے آپ کی گاڑی گزارنے کے لئے ریلوے کا پھاٹک کھلوا دیا تھا آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا پھاٹک بند کرانے کا حکم دیا اور فرمایا ”اگر میں ہی قانون کی پابندی نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا؟“

یہ آج سے 60 برس پہلے کا پاکستان تھا وہ پاکستان جس کے سربراہ محمد علی جناح تھے لیکن پھر ہم ترقی کرتے کرتے اس پاکستان میں آگئے جس میں پھاٹک تو ایک طرف رہے، سربراہ مملکت کے آنے سے ایک گھنٹہ پہلے سڑکوں کے تمام سگنل بند کر دیئے جاتے ہیں دونوں اطراف ٹریفک روک دی جاتی ہے اور جب تک شاہی سواری نہیں گزرتی ٹریفک کھلتی ہے اور نہ ہی اشارے۔ جس ملک میں سربراہ مملکت وزارت خزانہ کی اجازت کے بغیر جلسوں میں پانچ پانچ کروڑ روپے کا اعلان کر دیتے ہیں وزارت خزانہ کے انکارکے باوجود پورے پورے جہاز خرید لئے جاتے ہیں جس میں صدروں اور وزیر اعظم کے احکامات پر سیکڑوں لوگ بھرتی کئے گئے اتنے ہی لوگوں کے تبادلے ہوئے اتنے لوگ نوکریوں سے نکالے گئے اور اتنے لوگوں کو ضابطے اور قانون توڑ کرترقی دی گئی جس میں موزے تو رہے ایک طرف ، بچوں کے پوتڑے تک سرکای خزانے سے خریدے گئے جس میں آج ایوان صدر کا ساڑھے 18 اور وزیر اعظم ہاؤس کا بجٹ 20 کروڑ روپے ہے جس میں ایوان اقتدارمیں عملاً بھائیوں بھتیجوں بھانجوں بہنوں بہنوئیوں اور خاوندوں کا راج رہا جس میں وزیر اعظم ہاؤس سے سیکرٹریوں کو فون کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا ”میں صاحب کا بہنوئی بول رہا ہوں“ جس میں امریکا کے نائب وزیر کے استقبال کے لئے پوری کی پوری حکومت ایئر پورٹ پرکھڑی دکھائی دیتی ہے اور جس میں چائے اور کافی تو رہی دور ، کابینہ کے اجلاس میں پورا لنچ اور ڈنر دیا جاتا ہے اور جس میں ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے کچن ہر سال کروڑوں روپے دھواں بنا دیتے ہیں یہ پاکستان کی وہ ترقی یافتہ شکل ہے جس میں اس وقت 16 کروڑ غریب لوگ رہ رہے ہیں

جب قائد اعظم گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے ساتھ پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی اس گاڑی میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا اور وہ بھی غیر مسلم تھا اور یہ وہ وقت تھاجب گاندھی قتل ہو چکے تھے اور قائد اعظم کی جان کو سخت خطرہ تھا ۔ قائد اعظم اس خطرے کے باوجود سیکورٹی کے بغیر روز کھلی ہوا میں سیر کرتے تھے لیکن آج کے پاکستان میں سربراہ مملکت ماڈرن بلٹ پروف گاڑیوں، ماہر سیکورٹی گارڈز اور انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز کے بغیر دس کلو میٹر کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے ہم اس ملک میں مساوات رائج نہیں کر سکے

پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا اور کیا تھا ؟

اس تحریر کا مقصد صرف سچ کی وضاحت ہے ۔ آج سے 4 سال قبل جب میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا تھا ۔ جگن ناتھ آزاد نے 5 دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا ۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومت ِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا

میں نے مناسب تحقیق کے بعد حقیقت اُن دنوں لکھ دی تھی

پچھلے دنوں ایک بلاگ پر جگن ناتھ والی بات پھر دہرائی گئی تو مناسب محسوس ہوا کہ حقیقت لکھ دوں
ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کاکوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا ۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا تھا

پاکستان بنانے والے ، پاکستان مبارک ہو

اُن دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں ملازم تھے ۔ خیال رہے کہ مندرجہ ذیل زبان زدِ عام قومی نغمہ بھی قاسمی صاحب نے لکھا تھا
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے ۔ ۔ ۔ وہ فصل گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

اگلی صبح یعنی 15 اگست 1947ء کو پہلا قومی ترانہ نشر ہوا تھا جو مولانا ظفر علی خان کا لکھا ہوا تھا اور یہ ہے

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

وضاحت الفاظملا ۔ ظاہر ۔ واضح
خلا ۔ غائب
گٹکری ۔ وہ سُریلی اور پیچ دار آواز جو کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے اپنے حلق سے نکالتے ہیں

یادیں

نیچے نقل کردہ مضمون پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی اور جیسے کلیجہ اُچھل کر حلق میں پھنس گیا ۔ بہت کم عمری میں دیکھے مناظر اور سُنی آوازیں ذہن میں اس طرح سے چل پڑیں جیسے میں اُسی (1947ء کے) دِل دہلا دینے والے دور میں دوبارہ پہنچ گیا ہوں جب 3 ماہ ہر لمحہ موت سر پر مڈلاتی رہتی تھی ۔ جب کھانے کو کچھ یا پانی مل جائے تو اللہ کا لاکھ شکر بجا لاتے کہ نامعلوم پھر کب ملے یا نہ ہی ملے ۔ اسی لئے فلسطین والوں کیلئے میرا دل تڑپتا ہے ۔ 10 سال کی عمر ہوتے ہی اچانک ایسے ہولناک ماحول میں گھِر جانے کے بعد میری کیفیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو ایسے ماحول میں گھِرا ہو

کاش 1947ء کے بعد پیدا ہونے والے میرے ہموطن اس مُلک پاکستان کی قدر کو پہچانیں اور سوچیں کہ جو مُلک اُن کے برزگوں نے تو اپنی جان و مال اور بیٹیوں کی عزتوں کی قربانی دے کر اس مُلک کو بنایا تھا ۔ اب اس کی نگہداشت اور ترقی اُن کے ذمہ ہے

یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
یہ 1977ء کی بات ہے۔ سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانی کے عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہوئیں تو اگلے روز قریباً 100 پاکستانی زائرین پر مشتمل وفد سر ہند سے قریباً 20 کلومیٹر پر واقع ایک قصبہ براس کی طرف روانہ ہوا جہاں ایک روایت کے مطابق بعض انبیائے کرام مدفون ہیں۔ زائرین کے لئے دو بسیں مخصوص کی گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری نشست پاکستانی وفد کے قائد مسٹر جسٹس (ریٹائرڈ) صدیق چودھری کے ساتھ تھی۔ بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو جسٹس صاحب (جو اب فوت ہوچکے ہیں) نے اپنے خالص دیہاتی لہجے میں گفتگو کا آغاز کیا۔ میرے لئے ان کی یہ گفتگو حقیقتوں کا عرفان تھی۔ جسٹس صاحب قیام پاکستان کے بعد مغویہ عورتوں کے لئے قائم شدہ کمیشن کے رکن تھے اور اس عرصے میں انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔

وہ بتا رہے تھے ”اس وقت تم سڑک کے دونوں جانب جو ہرے بھرے کھیت دیکھ رہے ہو ۔ 1947ء میں یہاں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے سروں کی سرخ فصلیں کاٹی گئی تھیں۔ تم نے عورت کے کئی روپ دیکھے ہوں گے مگر اس کی بےچارگی اور مظلومیت کا رخ شاید اس طرح نہ دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا ہے۔ جب مجھے پتہ چلتا کہ کسی گائوں میں مسلمان عورتیں درندوں کے قبضے میں ہیں تو میں پولیس کے چند سپاہیوں کے ساتھ خون کے پیاسے افرا د کے درمیان میں سے گزر کر ان تک پہنچتا مگر کئی بار یوں ہوا کہ مغویہ ہمیں دیکھ کر ہمارے ساتھ چلنے کی بجائے اس وحشی کے پہلو میں جا کھڑی ہوتی جس نے اس کے والدین کو قتل کردیا تھا اور اسے اٹھا کر اپنے گھر ڈال لیا تھا لیکن جب ہم اسے یقین دلاتے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے اس غنڈے سے ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تو وہ ہمارے ساتھ چلنے پر رضا مند ہوتی اور پھر مغویہ عورتوں کے کیمپ میں پہنچ کر وہ اپنے بچے کچھے کسی عزیز کے گلے لگ کر ہچکیاں لے لے کر روتی“۔

جسٹس صاحب نے بتایا ”میری آنکھوں نے وہ خوں آشام مناظر دیکھے ہیں کہ ایک وقت میں انسانیت سے میرا اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میری ملاقات ان بچیوں سے بھی ہوئی جو پورے پورے گاؤں کی ملکیت تھیں۔ میں نے کیمپوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں اور پھولے ہوئے پیٹ دیکھے ہیں۔ یہ اس وقت ہم جس علاقے سے گزر رہےہیں۔ یہاں مسلمان عورتوں کے برہنہ جلوس گزرتے رہے ہیں۔ مگر میں تمہیں ایک واقعہ ضرور سنائوں گا“۔ جسٹس صاحب نے کہا ”مجھے اطلاع ملی کہ ایک سیّد زادی کو ایک بھنگی نے اپنے گھر میں ڈالا ہوا ہے۔ میں پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ اس گائوں میں پہنچا اور دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوا تو میں نے دیکھا صحن میں ایک بچی کھانا پکا رہی تھی اور ایک طرف جائے نماز بچھی تھی ۔ اتنے میں ایک دوسرے کمرے سے ایک ادھیڑ عمر کا کالا بھجنگ شخص نکلا اور ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ وہی بھنگی تھا جس کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ اس نے ایک سید زادی کو اغوا کر کے گھر میں ڈال رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکا اس کے منہ پر رسید کیا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے منہ سے خون جاری ہوگیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اپنی قمیض کے دامن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے اس نے کھانا پکاتی ہوئی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے نجیف سی آواز میں پوچھا ۔ تم اسے لینے آئے ہو؟ اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ وہ سیدھا لڑکی کی طرف گیا اور کہا ۔ بیٹی میرے پاس تمہیں الوداع کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پوٹلی میں بس ایک دوپٹہ ہے۔ اور پھر دوپٹہ اس کے سر پر اوڑاتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا“۔

براس قصبہ ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ زائرین بسوں میں سے اترے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہوگئے ۔ زائرین نے یہاں قرآن مجید کی تلاوت کی اور دعا مانگی۔ دعا سے فراغت کے بعد بسوں کی طرف واپس جانے کے لئے ڈھلان سے اترتے ہوئے اچانک ایک دبلا پتلا سا ہندو ہمارے وفد کے قائد جسٹس صدیق چودھری کے پاس آیا اور ان کے کان میں کچھ کہا اور پھر زائرین کے آگے آگے چلنے لگا۔ جسٹس صاحب نے ہمیں بتایا کہ ”یہ ہندہ انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گائوں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھر میں قید کر لیا تھا جو آج بھی انہی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں، نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دی تھیں اور یہ کنوئیں ان کی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنوئیں اس کے علم میں ہیں اور وہ ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے“۔

یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہموار جگہ پر رک گیا جہاں خودرو پھول لہلہا رہے تھے۔ ان پھولوں کے نیچے کنواں تھا جو بند ہو چکا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک اور کنواں تھا جو مسلمان لڑکیوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا اور اب اسے بھی بند کیا جا چکا تھا۔ یہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں بہت سارے گھروں کے درمیان واقع تھا اور یہ اپنی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں کے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اس کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا، لہٰذا اب اس میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھے اور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ خود مجھے یوں لگا میں 1977ء کی بجائے 1947ء میں سانس لے رہا ہوں۔

یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی۔ زائرین کی آہ بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر جدا ہو جانا تھا۔ اردگرد کے مکانوں سے بہت سی ہندو اور سکھ عورتیں بھی ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر دلخراش منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے بہتے آنسو خشک کرنے کے لئے اپنے پلو آنکھوں پر رکھ لئے تھے اور ان میں سے ایک عوررت کو میں نے دیکھاکہ اس کے چہرے پر شدید کرب تھا اور ایک ایک زائر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بے اختیار ہو کر اس نے ایک چیخ ماری اور پھر بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ مجھے لگا یہ عورت ان میں سےایک ہے جن کے پیٹ پھولے ہوئے ہیں اور آنکھیں تارے لگی ہوئی ہیں۔

دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے مجھ سے کہا ”یہاں آنے سے پہلے میں اکھنڈ بھارت کا قائل تھا۔ میری گزارش ہے کہ آپ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنوئیں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ 1947ء کے بعد جنم لینے والی نسل کے افراد یہ کنویں دیکھ کر جان جائیں گے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے دارالامان پاکستان کے لئے کتنی قربانیاں دی تھیں اور وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ اگر اس ملک پر آنچ آتی ہے تو تلواریں ایک بار پھر ہوا میں لہرائیں گی اور بہنوں کی چیخ و پکار اندھے کنوؤں میں دم توڑ دے گی“۔ اس نوجوان نے مزید کہا ”یہ کنویں ان بدنیت دانشوروں کو بھی دکھائیں جو پاکستانی قوم کے لئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں“۔

درندگی کے خلاف احتجاج

میں 8 جولائی 2014ء کو دہشتگردِ اعظم اسرائیل کے فوجیوں کے غزہ میں 2 ادنٰی کارنامے شائع کر چکا ہوں ۔ image005
اس دہشتگردِ اعظم اسرائیل کی افواج نے پچھلے 17 دنوں میں غزہ میں پناہ گزیں 800 نہتے فلسطینی مرد ۔ عورتیں اور بچے ہلاک کر چکی ہیں

عالمی سُر پاور امریکہ بجائے اس کے کہ برطانیہ اور امریکہ کے مُخرب الاخلاق ملاپ کی پیداوار اس ناجائز بچے کو منع کرے اُلٹامسلمان مُلکوں مصر ۔ ترکی اور قطر سے کہتا ہے کہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے حماس سے کو فائربندی پر مجبور کریں ۔ امريکا کے مطابق یہ درندگی اور دہشتگردی اسرائيل کا حق ہے Wounded Palestinian is rushed to hospital after Israeli air force attacked Gaza City

امريکہ دہشتگردِ اعظم اسرائيل کی اِن کاروائيوں کی پُشت پناہی اور سوا تین ارب ڈالر سالانہ مدد کرتا ہے ۔ یہ ہے امن کے ہیرو (دہشتگرد) اوباما کا اصل چہرہ جبکہ عراق اور افغانستان پر قابض امريکی فوج کے خلاف بولنا بھی دہشتگردی ہے اور ہولوکاسٹ کو مبالغہ آمیز کہنا جُرم ہے image010

دہشتگردِ اعظم اسرائیل کے فوجیوں کی دہشتگردی اور درندگی کا نشانہ خواتین ۔ عمارات ۔ ایمبولنس ۔ ہسپتال ۔ مسجدیں ۔ چھوٹے بچوں کے سکول بن رہے ہیں یہاں تک کہ غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے بچوں کیلئے اقوامِ متحدہ کا قائم کردہ پرائمری سکول پر بھی بمباری کی گئی ہے ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد معصوم بچوں کی ہے APTOPIX MIDEAST ISRAEL PALESTINIANS

غزہ ميں صیہونی اسرائيل کی درندگی اور دہشتگردی کے منظرِ عام پر آٰنے والے نمونوں میں سے چند نيچے دیئے جا رہے ہیں
نوٹ ۔ روح فرسا مناظر والی تصاویر نکال دی گئی ہیں MIDEAST ISRAEL PALESTINIANS

چند مناظر وہ بھی دیکھیئے کہ صیہونی درندے بچوں کے نازک دلوں پر کس طرح دہشت طاری کرتے ہیں
نچے پلے کارڈ کے ساتھ بُلڈوزر کے ذریعہ زندہ دفن کر دیئے گئے ایک بچے کی تصویر ہے
اور اس کے نیچے ایک بچے کی تصویر ہے جس کے اُوپر بلڈوز چلا کر ہلاک کیا گیا

.

.

.

مسلمان کا لہو آج اتنا ارزان ہونے کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں نے اللہ کے دین کو پسِ پُشت ڈال کر غیر اللہ سرمایہ داروں کی پیروی شروع کر رکھی ہی اور اللہ کی بجائے انسانوں اور موت سے ڈرنے لگے ہیں



image010

image013
image001
image002
image003
image004
image006
image007
image008
MIDEAST ISRAEL PALESTINIANS
image012
MIDEAST ISRAEL PALESTINIANS
image046
image047
image048
image064
image072
image074
boy
ujudge
cnn7
cnn2