وطنِ عزيز کے عام گھرانوں کے اندرونی حالات کے متعلق لکھنا چاہ رہا تھا مگر سمجھ میں نہيں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں ۔ ميں مشکور ہوں شگفتہ صاحبہ کا جنہوں نے ميرا مسئلہ حل کر ديا ۔ شگفتہ صاحبہ کو فمزا صاحبہ کا پيغام آيا جو انہوں نے اپنے بلاگ پر نقل کر ديا ۔ پيغام میں درج تھا “اللہ نے عورت سے پہلے مرد کو اسلئے بنايا کہ شاہکار کا پہلے خاکہ بنايا جاتا ہے” ۔ گويا مرد خاکہ ہے عورت شاہکار کا
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عورت کو مرد کی پسلی سے پيدا کيا ۔ یہ تو ہے دين کی بات جس سے کچھ لوگ يہ مطلب نکالتے ہیں کہ پسلی سے مراد ہے کہ نہ عورت سر چڑھے نہ پاؤں میں روندی جائے اور اُسے دل سے قريب رکھا جائے يعنی اس سے محبت کا سلوک کيا جائے دھتکارنے کا نہيں ۔ خير اسے چھوڑيئے ۔ ہم بات کرتے ہيں اس دنيا کی دين سے خالی الذہن ہو کر يعنی کچھ دير کيلئے سيکولر بن جاتے ہيں
يہ طريقہ تو معروف ہے کہ کسی چيز کی تخليق يا باقاعدہ تعمير يا افزائش کيلئے اُس کا خاکہ [plan or sketch] بنانا ضروری ہے چاہے وہ مجسم ہو کاغذ پر ہو يا ذہن میں ايک تخيّل کے طور پر ۔ گويا کسی بھی کارآمد چيز يا نافع عمل کے وجود کيلئے اُس کا خاکہ بہت اہم ہے ۔ اگر خاکہ عمدہ ہو گا تو وہ تخليق يا عمل بھی عمدہ ہونے کی توقع ہو گی يعنی عمدگی کے معيار کا قياس خاکے سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اگر عورت اچھی ہے تو اس کا خاکہ يعنی مرد لازم ہے کہ اچھا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہر اچھی عورت کے پيچھے ايک اچھا مرد ہوتا ہے ۔ دوسری طرف يہ لازم نہيں ہے کہ خاکہ اچھا ہو تو شاہکار بن جائے

ميری نظر میں عورت کے 6 روپ ہيں ۔ ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی ۔ ساس اور بہو ۔ اس کے مماثل مرد کے بھی 6 روپ ہيں ۔ باپ ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ بيٹا ۔ سسر اور داماد ۔ بھاری اکثریت ايسی عورتوں کی ہے جن کی اپنے سسر کے ساتھ لڑائی نہيں ہوتی ۔ يہی سلسلہ مردوں کا اپنی ساس اور سسر دونوں کے ساتھ ہے ۔ گھرانوں ميں ناچاقی کا سبب عام طور پر ساس یا بہو کی صورت میں عورت ہوتی ہے مگر شامت مرد کی آتی ہے ۔ یعنی شاہکار تو عورت ہوتی ہے مگر ملبہ خاکے يعنی مرد پر گرتا ہے

” رشتہ ازدواج ” ايک عجيب مسئلہ بنا ديا گيا ہے ۔ دولتمند دولت کے سہارے سکھ چَين حاصل کر ليتے ہيں اور پسماندہ لوگوں کا جھگڑا محبت اور محبت جھگڑا ہوتی ہے اگر خاوند طاقتور ہو تو بيوی کو راہ پر لے آتا ہے اور بيوی جان رکھتی ہو تو خاوند کو ناک کی سيدھ میں چلاتی ہے ۔ چخ چخ زيادہ تر درميانے درجے کے گھرانوں میں ہوتی ہے جس کی عام طور پر مندرجہ ذيل وجوہات ہوتی ہيں
جب ماں کے دل میں یہ وہم پيدا ہوتا ہے کہ بہو ميرا بيٹا مجھ سے چھين لے گی یا بہو کو يہ وسوسہ گھير ليتا ہے کہ خاوند ميری بلا شرکتِ غیرے ملکيت ہے تو گھر میں ايک ايسا فساد جنم ليتا ہے جو مرد کے قابو سے باہر ہوتا ہے ۔ جھگڑا بڑھ جائے تو نوبت يہاں تک پہنچتی ہے کہ ماں بيٹے کو دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے اور بيوی خودکشی کرنے کی ۔ ان آمنے سامنے کھڑے دو بيلوں کے درميان مرد پھنس کے رہ جاتا ہے ۔ خواہ ماں ہو یا بہو لڑائی کی جڑ عورت ہوتی ہے مگر مُوردِ الزام مرد کو ٹھہرايا جاتا ہے ۔ بلا شُبہ ايسی مائيں اور بہوئيں ہيں جو ماں بيٹی یا سہيليوں کی طرح رہتی ہيں اور مرد اسی دنيا ميں جنت کا مزا چکھ ليتا ہے
فساد کا سبب بعض اوقات لڑکی کے والدين کی اپنی بيٹی کو غلط نصائح یا اُس کے معاملات میں بلاجواز دخل اندازی بھی ہوتے ہيں ۔ اگر والدين جس طرح وہ اب گھر چلا رہے ہيں بيٹی کو شروع دن سے چلانے ديں تو اُن کی بيٹی کئی بلاوجہ کی مشکلات سے بچ سکتی ہے
فساد کا ايک اور سبب عورت کی نفسيات ہے
خاوند دس پندرہ سال بيوی کی کوئی بات نہ ٹھکرائے اور ايک دن کسی وجہ سے جو مجبوری يا پریشانی بھی ہو سکتی بيوی کی بات ٹھکرا دے تو پہلا جملہ جو بيوی کے منہ سے نکلتا ہے يہ ہوتا ہے “میری تو اس گھر میں آج تک کسی نے نہ مانی يا سُنی”
عورت کی نفسیات میں دوسری کمزوری کپڑے ہیں ۔ خاوند تین چار جوڑوں میں گزارہ کر ليتا ہے مگر بيوی کو ہر شادی اور دوسری اہم محفلوں کيلئے الگ جوڑا چاہيئے ۔ جو ایک شادی يا محفل میں پہن ليا وہ دوسری میں پہن ليا تو لوگ کيا کہيں گے ۔ شادی کی بنيادی کشش لڑکی کو دلہن بنے ديکھنا ہوتا ہے جو خواہش ہر عورت کے اندر بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ اگر خاوند مالی یا کسی دوسری وجہ سے شادی میں شرکت سے انکار کرے تو اُسی وقت گڑبڑ ہو جاتی ہے اور اگر خاموش رہے تو جيب پر بوجھ دل کا بوجھ بننے لگتا ہے اور بعد میں کوئی معمولی سی بات چپقلش کا بہانہ بن جاتی ہے
اللہ کا جتنا بھی شکر بجا لاؤں کم ہے کہ ميں اُن تھوڑے سے مردوں ميں ہوں جن کی بيوی نے خاوند کی چادر سے بڑھ کر قدم نہ پھيلائے