Category Archives: معاشرہ

بيوياں

“اے بھلے لوگو ۔ آپ کی بيوياں آپ کی محبت کی حقدار ہيں ۔ يہ محبت کا مجسمہ ہيں ۔ اِن سے پيار کا سلوک رکھا کرو ۔ يہ نرم دل رکھتی ہيں ۔ ان سے سخت بات نہ کيا کرو ۔ اگر کوئی اُونچی نيچی بات کہہ ديں تو غُصہ نہ کيا کرو مُسکرا ديا کرو ۔ ان کی ضروريات کا خيال رکھا کرو ۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہيں ۔ جائز طريقہ سے پوری ہوتی ہوں تو پوری کر ديا کرو ورنہ بعد میں آرام سے سمجھا ديا کرو”

ميں نے اللہ کے فضل سے شادی شُدہ زندگی کے 42 سال 4 ماہ اس پر عمل کيا ہے ليکن يہ الفاظ ميرے نہيں ہيں بلکہ مولوی عبدالعزيز کے ہيں جو اُنہوں نے ايک جمعہ کے دن سب مقتديوں کو مخاطب کر کے کہے تھے اور ميں بھی مقتديوں ميں شامل تھا

ہاں جناب ۔ وہی عبدالعزيز جسے پرويز مشرف نے دہشتگرد ظاہر کرتے ہوئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوج کشی کا حُکم ديا تھا پھر امريکی ڈرون نے تصاوير لے کر بتايا کہ عمارت کے اندر کہاں کہاں انسان موجود ہيں پھر سينکڑوں بے قصور انسانوں کو بھُون کے رکھ ديا تھا ۔ ان ميں بھاری اکثريت 4 سے 17 سال کی يتيم و نادار بچيوں کی تھی اور عبدالعزيز کی بوڑھی والدہ ۔ 17 سالہ بيٹا اور ايک بھائی بھی شامل تھا ۔ عبدالعزيز کے بھائی کے علاوہ کسی کی لاش بھی نہ مل سکی تھی ۔ صرف کيپيٹل ڈويلوپمنٹ اتھارٹی کے غير مسلم خاکروبوں اور دوسرے مزدوروں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اُنہيں بھاری معاوضہ کے عوض رات کے وقت ڈيوٹی پر بُلايا گيا تھا اور اُنہوں نے ہاتھوں پر تھيلے چڑھا کر اور ناک پر کپڑا باندھ کر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جلی ہوئی لاشوں اور ہڈيوں کو سميٹ کر رات کے اندھيرے ميں ٹرکوں پر لادا تھا مگر اُنہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ وہ ٹرک کہاں گئے تھے

گھرانہ

وطنِ عزيز کے عام گھرانوں کے اندرونی حالات کے متعلق لکھنا چاہ رہا تھا مگر سمجھ میں نہيں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں ۔ ميں مشکور ہوں شگفتہ صاحبہ کا جنہوں نے ميرا مسئلہ حل کر ديا ۔ شگفتہ صاحبہ کو فمزا صاحبہ کا پيغام آيا جو انہوں نے اپنے بلاگ پر نقل کر ديا ۔ پيغام میں درج تھا “اللہ نے عورت سے پہلے مرد کو اسلئے بنايا کہ شاہکار کا پہلے خاکہ بنايا جاتا ہے” ۔ گويا مرد خاکہ ہے عورت شاہکار کا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عورت کو مرد کی پسلی سے پيدا کيا ۔ یہ تو ہے دين کی بات جس سے کچھ لوگ يہ مطلب نکالتے ہیں کہ پسلی سے مراد ہے کہ نہ عورت سر چڑھے نہ پاؤں میں روندی جائے اور اُسے دل سے قريب رکھا جائے يعنی اس سے محبت کا سلوک کيا جائے دھتکارنے کا نہيں ۔ خير اسے چھوڑيئے ۔ ہم بات کرتے ہيں اس دنيا کی دين سے خالی الذہن ہو کر يعنی کچھ دير کيلئے سيکولر بن جاتے ہيں

يہ طريقہ تو معروف ہے کہ کسی چيز کی تخليق يا باقاعدہ تعمير يا افزائش کيلئے اُس کا خاکہ [plan or sketch] بنانا ضروری ہے چاہے وہ مجسم ہو کاغذ پر ہو يا ذہن میں ايک تخيّل کے طور پر ۔ گويا کسی بھی کارآمد چيز يا نافع عمل کے وجود کيلئے اُس کا خاکہ بہت اہم ہے ۔ اگر خاکہ عمدہ ہو گا تو وہ تخليق يا عمل بھی عمدہ ہونے کی توقع ہو گی يعنی عمدگی کے معيار کا قياس خاکے سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اگر عورت اچھی ہے تو اس کا خاکہ يعنی مرد لازم ہے کہ اچھا ہوگا ۔ دوسرے الفاظ میں ہر اچھی عورت کے پيچھے ايک اچھا مرد ہوتا ہے ۔ دوسری طرف يہ لازم نہيں ہے کہ خاکہ اچھا ہو تو شاہکار بن جائے
:) :) :)

ميری نظر میں عورت کے 6 روپ ہيں ۔ ماں ۔ بہن ۔ بيوی ۔ بيٹی ۔ ساس اور بہو ۔ اس کے مماثل مرد کے بھی 6 روپ ہيں ۔ باپ ۔ بھائی ۔ خاوند ۔ بيٹا ۔ سسر اور داماد ۔ بھاری اکثریت ايسی عورتوں کی ہے جن کی اپنے سسر کے ساتھ لڑائی نہيں ہوتی ۔ يہی سلسلہ مردوں کا اپنی ساس اور سسر دونوں کے ساتھ ہے ۔ گھرانوں ميں ناچاقی کا سبب عام طور پر ساس یا بہو کی صورت میں عورت ہوتی ہے مگر شامت مرد کی آتی ہے ۔ یعنی شاہکار تو عورت ہوتی ہے مگر ملبہ خاکے يعنی مرد پر گرتا ہے
:) :) :)

رشتہ ازدواج ” ايک عجيب مسئلہ بنا ديا گيا ہے ۔ دولتمند دولت کے سہارے سکھ چَين حاصل کر ليتے ہيں اور پسماندہ لوگوں کا جھگڑا محبت اور محبت جھگڑا ہوتی ہے اگر خاوند طاقتور ہو تو بيوی کو راہ پر لے آتا ہے اور بيوی جان رکھتی ہو تو خاوند کو ناک کی سيدھ میں چلاتی ہے ۔ چخ چخ زيادہ تر درميانے درجے کے گھرانوں میں ہوتی ہے جس کی عام طور پر مندرجہ ذيل وجوہات ہوتی ہيں

جب ماں کے دل میں یہ وہم پيدا ہوتا ہے کہ بہو ميرا بيٹا مجھ سے چھين لے گی یا بہو کو يہ وسوسہ گھير ليتا ہے کہ خاوند ميری بلا شرکتِ غیرے ملکيت ہے تو گھر میں ايک ايسا فساد جنم ليتا ہے جو مرد کے قابو سے باہر ہوتا ہے ۔ جھگڑا بڑھ جائے تو نوبت يہاں تک پہنچتی ہے کہ ماں بيٹے کو دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے اور بيوی خودکشی کرنے کی ۔ ان آمنے سامنے کھڑے دو بيلوں کے درميان مرد پھنس کے رہ جاتا ہے ۔ خواہ ماں ہو یا بہو لڑائی کی جڑ عورت ہوتی ہے مگر مُوردِ الزام مرد کو ٹھہرايا جاتا ہے ۔ بلا شُبہ ايسی مائيں اور بہوئيں ہيں جو ماں بيٹی یا سہيليوں کی طرح رہتی ہيں اور مرد اسی دنيا ميں جنت کا مزا چکھ ليتا ہے

فساد کا سبب بعض اوقات لڑکی کے والدين کی اپنی بيٹی کو غلط نصائح یا اُس کے معاملات میں بلاجواز دخل اندازی بھی ہوتے ہيں ۔ اگر والدين جس طرح وہ اب گھر چلا رہے ہيں بيٹی کو شروع دن سے چلانے ديں تو اُن کی بيٹی کئی بلاوجہ کی مشکلات سے بچ سکتی ہے

فساد کا ايک اور سبب عورت کی نفسيات ہے
خاوند دس پندرہ سال بيوی کی کوئی بات نہ ٹھکرائے اور ايک دن کسی وجہ سے جو مجبوری يا پریشانی بھی ہو سکتی بيوی کی بات ٹھکرا دے تو پہلا جملہ جو بيوی کے منہ سے نکلتا ہے يہ ہوتا ہے “میری تو اس گھر میں آج تک کسی نے نہ مانی يا سُنی”

عورت کی نفسیات میں دوسری کمزوری کپڑے ہیں ۔ خاوند تین چار جوڑوں میں گزارہ کر ليتا ہے مگر بيوی کو ہر شادی اور دوسری اہم محفلوں کيلئے الگ جوڑا چاہيئے ۔ جو ایک شادی يا محفل میں پہن ليا وہ دوسری میں پہن ليا تو لوگ کيا کہيں گے ۔ شادی کی بنيادی کشش لڑکی کو دلہن بنے ديکھنا ہوتا ہے جو خواہش ہر عورت کے اندر بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ اگر خاوند مالی یا کسی دوسری وجہ سے شادی میں شرکت سے انکار کرے تو اُسی وقت گڑبڑ ہو جاتی ہے اور اگر خاموش رہے تو جيب پر بوجھ دل کا بوجھ بننے لگتا ہے اور بعد میں کوئی معمولی سی بات چپقلش کا بہانہ بن جاتی ہے

اللہ کا جتنا بھی شکر بجا لاؤں کم ہے کہ ميں اُن تھوڑے سے مردوں ميں ہوں جن کی بيوی نے خاوند کی چادر سے بڑھ کر قدم نہ پھيلائے

گُمنام نظم

اس سے ملتی جلتی نظم میں 10 ماہ قبل يہاں پڑھی تھی ليکن بنيادی طور پر اصل نظم کسی گمنام شاعر نے لکھی تھی

جب باپ کی عزت کم ہو جائے ۔ ۔ ۔ جب قوم کی غیرت سو جائے
جب مرد و زن کلبوں کو جائيں ۔ ۔ ۔ اور بھائی بہنوں کا حق کھائيں
جب ماں کی نظریں جھُک جائیں ۔ ۔ ۔ الفاظ لبوں تک رُک جائیں
جب گھر گھر میں سُر تال چلے ۔ ۔ ۔ جب عورت ننگے بال چلے
جب رِشوت سر چڑھ کر بولے ۔ ۔ ۔ اور تاجر جان کے کم تولے
جب یہ سب کچھ ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ رب غافِل ہے نہ سوتا ہے
جب وہ پھر پکڑ پہ آتا ہے ۔ ۔ ۔ قارون زمیں میں دھنس جاتا ہے
فرعون بھی غوطے کھاتا ہے ۔ ۔ ۔ عاد بھی زیر و زبر ہو جاتا ہے
قرآن میں اس کی خبر ہوئی ۔ ۔ ۔ یہ سب عبرت کو ہے کافی
آج مانگ لو اللہ سے معافی ۔ ۔ ۔ آج مانگ لو اللہ سے معافی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

ایک قابلِ غور تبصرہ

جاوید گوندل صاحب سیر حاصل تبصرے کرنے والے کے طور جانے جاتے ہیں ۔ اُنہوں نے ایک بلاگ پر تبصرہ کیا تھا جسے میں اُن کی اجازت سے ایک عمومی مضمون کی صورت میں ڈھالنے کیلئے معمولی عبارتی ترامیم کے بعد نقل کر رہا ہوں ۔ مضمون کا مفہوم من و عن ویسا ہی ہے ۔ میں اسلام آباد چلا گيا تھا اسلئے لکھنے ميں دو ہفتے تاخير ہو گئی

نامعلوم کچھ لوگ کيوں جان بوجھ کر کسی بھی موضوع کو متنازع بنا دیتے ہیں تاکہ لوگ توجہ دیں اور وہ کامیاب مصنف بن جائیں یا نہائت سادگی اور انجانے میں اسلام بیزار طبقے کی نمائندگی میں بہہ جاتے ہیں ۔ موضوع کوئی بھی ہو کسی طرح گھسیٹ گھساٹ کر اُسے کچھ مشہور واقعات کو بیچ میں لاتے ہوئے پاکستان کے حوالہ سے اچانک جہاد اور دہشت گردی میں فرق بیان کئے بغیر ایسی تاویلات کو گھسیٹ لاتے ہیں جن کا کوئی سر پیر موضوع سے نہیں جڑتا اور پھر ایک ہی سانس میں ایک ہی پیرایہ میں حیات بعد از زندگی اور جہاد جیسی انتہائی حساس دینی اساس اور اسلام کے مطابق دنیا بھر کے مسلمانوں کے ایمان کے جزو لاینفک کو نشانہِ ستم بنایا جاتا ہے

حالانکہ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حیات بعد از زندگی کے علاوہ جو کہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے دنیا میں زندہ رہنے اور ایک باوقار زندگی گزارنے کے لئے مزید لوازمات کے ساتھ تعلیم اور اعلٰی فکر بھی ضروری ہے اور اسلام بھی اسی بات کی دعوت فکر دیتا ہے ۔ نیز پاکستان میں جاری ننگی دہشت گردی سراسرغیر اسلامی ہے ۔ اس کا اسلام کے اہم فریضے جہاد سے کوئی تعلق نہیں

مناسب نہیں کہ پاکستان کا ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسلام کے نام لیواؤں پہ تنقید کرتا رہے کہ انہوں نے تعلیم کے لئے یہ نہیں کیا یا انہیں تعلیم کے لئیے یوں کرنا چاہئیے تھا ۔ جبکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو طبقہ پاکستان کے وسائل پہ بلا شرکت غیرے تصرف اور دسترس رکھتا ہے ہر دم اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف چوکس رہتا ہے ۔ پاکستان میں یہ طبقہ پاکستان کے دوسروں شعبوں کی طرح پاکستانی تعلیمی شعبے میں بھی پاکستانی قوم کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے بدلے گرانقدر مشاہرے اور مراعات پاتا ہے یعنی اپنی قیمت پوری وصول کرتا ہے جبکہ یہ طبقہ پاکستان کے لئے کسی قابلِ عمل سرکاری تعلیمی پالیسی کو باسٹھ سالوں سے وضح کرنے میں ناکام رہا ہے اور اسی نسبت سے جن پہ پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ کرنے کی پالسیز بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود انہوں نے پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں کسی میدان میں کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جسے بیان کیا جاسکےِ ؟

پاکستان میں عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری مدراس یا ان لوگوں پہ نہیں آتی جو ریاست سے ایک پائی لئے بغیر اپنی سی سعی کر رہے ہیں بلکہ یہ ذمہ داری کسی بھی عام سے ملک کی طرح حکومت پاکستان اور ریاستی اداروں پہ عائد ہوتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں محض نمود نمائش یا من پسند افراد کا روزگار لگانے کے سہل طریقوں کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے شہریوں کو تعلیم و شعور سے روشناس کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں اور پچھلے باسٹھ سالوں سے پاکستانی حکومتوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح حصول تعلیم میں جو غفلت پاکستانی عوام کے بارے میں برتی ہے وہ ناقابل معافی اور ناقابلِ بیان ہے

یہاں یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ لندن میں دہشت گردی کے سانحے میں ملوث افراد کا پاکستانی مدرسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ حال میں پاکستان کے شہر سرگودھا سے جو پانچ امریکی گرفتار ہوئے وہ امریکن تھے اور امریکی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ القاعدہ نامی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ سرکردہ افراد کی ایک بڑی اکثریت مغربی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہے ۔ تو کیا ایسے افراد کو دہشت گردی پہ مائل کرنے میں مغربی یونیورسٹیز کو قصوروار گردانا جائے ؟ حکومت پاکستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے والے امریکی اداروں کو بھی اس بات کا علم ہے کہ پاکستانی مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے خام مال بکثرت ملنے کے اسباب میں ایک بڑا سبب غریبی ۔ مفلوک الحالی اور معاشرے میں پائی جانے والی شدید فرسٹریشن ہے ۔ اسکے باوجود تنظیم المدارس اور دوسری تنظیموں کا مؤقف یہ ہے اگر کسی ادارے کے کچھ افراد کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شُبہ ہو تو ان کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے مگر اسکا قصور پاکستان کے سب مدارس پہ مت ڈالا جائے

ان مدرسوں یا ان جیسے اداروں نے پاکستان کی غریب آبادی کی خاصی تعداد کو مفت رہائش اور مفت کھانے کے ساتھ تعلیم سے آراستہ کیا ہے جو کہ کُل خواندہ آبادی کا 35 فیصد بنتا ہے اور جو ریاست پاکستان کی ذمہ داری تھی ۔ کسی بھی معاشرے میں اگر ریاست کے اندر ریاست قائم ہوتی ہے یا لوگ قانون و عدلیہ پہ اعتماد کرنے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے لگتے ہیں تو اس کا سبب ریاستی اداروں کی بدنظمی ، غفلت ، بد دیانتی اور نااہلی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ریاست مطلوبہ فرائض پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے اور پاکستان میں باسٹھ سالوں سے ریاستی اداروں اور انکے وسائل پہ قابض لوگ کون ہیں اس بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ہوں مگر پاکستان کی مسلمان اکثریت کی نمائیندگی نہیں کرتے مگر پاکستان کی اکثریت کے وسائل پہ بے جا تصرف رکھتے ہیں ۔ ہاں مدرسوں میں حصول تعلیم کے طریقہ کار پہ بحث کی جاسکتی ہے مگر مدرسوں کے منتظمیں کے خلوص نیت پہ شک نہیں کیا جاسکتا

پاکستان میں غرباء کی مدد کرنے والے بجائے خود غریب مگر مسلمان لوگوں کے خلاف اگر کسی کے کوئی ذاتی یا خاص مقاصد نہیں تو ایسے میں پاکستان میں مفت تعلیمی ادارے چلانے والوں کو الزام دینے کی بجائے ایسے فلاحی اداروں کی ستائش کرنی چاہئیے جو حکومتی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے حکومت کے فرائض پورے کرنے میں ریاست کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اداروں کی حکومت مناسب رہنمائی اور مدد کرے تاکہ یہ ادارے اور مدرسے پاکستان کی قومی اور تعلیم کی جدید اسپرٹ میں شامل ہو سکیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پردہ ؟

دیکھا گیا ہے کہ کچھ عورتیں عام طور پر سر پر دوپٹہ نہیں رکھتیں اور نہ نماز پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں لیکن اذان ہو رہی ہو تو دوپٹہ سر پر رکھ لیتی ہیں اور اذان ختم ہوتے ہی اُتار دیتی ہیں

کیا اذان کا یہی مقصد ہوتا ہے ؟

تلاشِ گُمشُدہ

میں ہوں اجنبی اپنے ہی شہر میں
ڈھُونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
مجھ کو آواز دے ۔ مجھ کو آواز دے

” اے بھائی ۔ کس کو ڈُھونڈے ہے”
” بھائی ۔ مسلمان کو ڈھونڈوں ہوں”
” پاگل ہے کیا رے ؟ یہاں تو سب مسلمان ہوویں”
” چل ایک سے ملا دے”
” اس سے ملو ۔ یہ بڑا اچھا دکاندار ہے”
“یہ تو کم تولے ہے ۔ مسلمان تو پورا تولیں”
“چل اس سے بات کر ۔ یہ تو نہیں تولے ہے”
“یہ تو نقلی مال اصلی کہہ کے بیچے ہے ۔ مسلمان تو دھوکہ نہیں دیوے”
“اچھا چل اس سے مل لے ۔ یہ صاف ستھرا آدمی ہے دفتر میں کام کرے ہے”
“یہ تو بغیر پیسے کام نہ کرے ۔ پار سال اپنے بھائی بھی کا مال کھا گیا ۔ مسلمان تو نہ رشوت لیوے اور نہ کسی کا مال کھائے”
“تجھے کوئی پسند ہی نہ آوے ۔ اچھا لے اس سے مل۔ یہ سوشل ورکر ہے”
“کل اس کے گھر میں گیا تو اس نے بچے کو کہہ بھیجا کہ گھر میں نہیں ۔ مسلمان تو کبھی جھوٹ نہ بولے”
“اچھا ۔ دیکھ اُس دکان پر گاہکوں کی بہت بھیڑ ہے ۔ یہ آڑھتی ہے ضرور اچھا آدمی ہو گا ”
“ارے اس نے تو گئے سال 5000 کلو گرام چینی 18 روپے کے حساب خرید کر چھُپا دی ۔ اب 65 روپے بیچے ہے ۔ مسلمان تو زیادہ منافع کمانے کیلئے ذخیرہ نہیں کرے”
” جا جا تیری پسند کا مسلمان ادھر نہیں ہے ۔ کہیں اور جا کے تلاش کر”

میں ہوں اجنبی اپنے ہی شہر میں
ڈھُونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
مجھ کو آواز دے ۔ مجھ کو آوااااز دےےےےے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خطرناک مرض

ہمارے مُلک میں ایک خطرناک مرض نفوذ ہو کر وباء کی طرح پھیل چکا ہے ۔ مزید خطرناک یہ کہ جو لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں انہیں اس کا احساس نہیں اور وہ اسے مزید پھیلانے کا مُوجب بن رہے ہیں ۔ اَن پڑھ اور پڑھے لکھے ہونے کی تمیز کے بغیر یہ مرض سب کو اپنے قابو میں لے چکا ہے ۔ مرض ہے ۔ “کوئی کچھ نہیں کرتا” ۔ “یہاں کچھ نہیں ہو سکتا” ۔ “پاکستان ہے ہی ایسا”۔ کہنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ کہہ کر فرض پورا ہو گیا ۔ سوچنا یہ ہے کہ بہتری کیسے آئے گی ؟ ایسا کہنے والے لوگ خود تو تعمیرِ ملت کیلئے ایک تِنکا بھی نہیں توڑتے لیکن تقریروں اور تحریروں میں کسی سے پیچھے نہیں ۔ تھوڑا سا گھُوم پھر کر تحقیق کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یہ استدلال حقیقی کم اور تخیّلاتی زیادہ ہے

میری عادت ہے کہ کوئی ميری کتنی ہی حوصلہ شکنی کرے میں اپنی کی سی کوشش ضرور کرتا ہوں اور اکثر اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ مجھے کامیاب کرتا ہے ۔ میں صرف پچھلے تین ماہ میں وقوع پذیر ہونے والی دو مثالیں بیان کروں گا

جولائی 2009ء میں ہم نے لاہور آ کر جس علاقے میں رہائش اختیار کی اُس کا پہلے کوئی عِلم نہ تھا نہ کوئی جاننے والا وہاں رہتا تھا ۔ اکتوبر کے مہینے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تھی کہ ہماری رہائشگاہ کی بجلی بار بار بند ہونے اور چلنے لگی ۔ محلے میں کسی سے پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب ملا “ہم تو کبھی گئے ہی نہیں وہاں کوئی کام تو ہوتا نہیں”۔ میں نے گھر واپس آ کر بجلی کا بِل نکالا اور اُس پر پتہ ڈھونڈنے لگا کہ میری نظر پڑی لکھا تھا “بجلی کی شکائت کے سلسلہ میں اس نمبر پر اطلاع کریں”۔ میں نے ٹیلیفون کیا ۔ دو بار نمبر مصروف ملنے کے بعد مل گیا ۔ السلام علیکم کہنے کے بعد اپنا مسئلہ بتایا تو جواب ملا کہ ابھی آدمی دوسرے کمپلینٹ پر گیا ہوا ہے ایک ڈیڑھ گھنٹہ تک آپ کے پاس پہنچ جائے گا ۔ جب آدمی تین گھنٹے تک نہ آیا تو میں گاڑی لے کر نکلا ۔ قریب ہی ایک دفتر تھا وہاں جا کر پوچھا کہ واپڈا کا کمپلینٹ آفس کہاں ہے ؟ جواب پہلے والا ہی ملا ۔ اسرار کرنے پر کہا کہ ” اُدھر ڈیفنس میں کہیں ہو گا “۔ میں ڈیفنس کی طرف چل پڑا اور پوچھتے پوچھتے لیسکو [LESCO] کے دفتر پہنچ گیا ۔ وہاں کمرہ شکایات میں جا کر مدعا بیان کیا تو بتایا گیا کہ ” آدمی جا چکا ہے آپ کے گھر پہنچنے والا ہو گا” اور مجھے اُس کا موبائل فون نمبر لکھ کر دے دیا ۔ میں نے گھر پہنچ کر جب دیکھا کہ وہ نہیں پہنچا تو اُسے ٹیلیفون کیا ۔ اُس نے کہا “بس میں اِدھر سے فارغ ہو گیا ہوں اور اب آپ کے پاس ہی آ رہا ہوں”۔ پانچ منٹ میں وہ پہنچ گیا اور ہمارے گھر کی بجلی درست کر کے چلا گیا

جنوری 2010ء شروع ہوتے ہی بہت سردی شروع ہو گئی ۔ قدرتی گیس کا پریشر جو پہلے ہی زیادہ نہ تھا اتنا کم ہو گیا کہ روٹی پکنا مُشکل ہو گیا ۔ میں نے گیس کا بل نکالا اور وہاں لکھے نمبر پر ٹیلیفون کرنا شروع کیا ۔ چوتھی بار نمبر مل گیا اور کمپیوٹر کی ریکارڈڈ آواز ڈیڑھ منٹ تک سنتا رہا پھر ایک لڑکا بولا “سر”۔ میں نے السلام و علیکم کہہ کر اپنی ببتا بیان کی ۔ اُس نے کہا اپنا کنزیومر نمبر بتایئے”۔ میرے بتانے پر اُس نے کہا آدمی 24 سے 48 گھنٹے کے درمیان پہنچ جائے گا اور ساتھ مجھے میرا شکائت نمبر لکھوا دیا ۔ ہفتہ کا دن تھا صبح کے 9 بجے تھے میں نے سوچا اتوار کی چھُٹی ہے آدمی پیر کو ہی آئے گا مگر اتوار کو شام 5 بجے گھنٹی بجی میں باہر نکلا تو ایک آدمی کہنے لگا “آپ نے گیس کا کمپلینٹ کیا تھا ۔ چیک کریں پریشر ٹھیک ہو گیا ہے”۔ میں نے بھاگ کر کوکنگ رینج کے پانچوں چولہے جلا دیئے اوردرست پاکر اُس شخص کا شکریہ ادا کیا