Category Archives: معاشرہ

اسلام میں وضع قطع کی اہمیت

جو لوگ مغربی تہذیب کے دلدادہ ‘ شیدائی اور اسلام کی حدود وقیود سے آزاد ہوناچاہتے ہیں‘ وہ سب سے پہلے عیسائیوں اور یہودیوں کی شکل و شباہت اپنانے‘ انہی جیسا لباس وپوشاک اختیار کرنے اور اپنی تمام ترسعی وکوشش دین اسلام کے تشخص کو مٹانے میں صرف کرتے ہیں‘ تاکہ آئندہ اقدامات کے لئے راہ ہموار اور راستہ صاف ہوجائے اور زبانی دعویٰ اسلام کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن اپنانے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ رہے یعنی نام کے اعتبار سے تو مسلمان کہلائیں لیکن رہن سہن ‘ وضع قطع‘ ہیئت ولباس اور شکل وصورت میں انگریز بنے رہیں۔ حضرات فقہاء ومتکلمین نے مسئلہ تشبہ بالکفار کو باب الارتداد میں شمار کیا ہے یعنی ایک مسلمان جن چیزوں سے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے‘ ان میں سے ایک چیز تشبہ بالکفار بھی ہے‘ جس کے مختلف درجات و مراتب ہیں اور ہرایک کا حکم جدا گانہ ہے۔

تشبہ کی حقیقت

اللہ تعالیٰ شانہ نے زمین سے آسمان تک خواہ حیوانات ہوں یا نباتات و جمادات‘ سب کی صورت و شکل علیحدہ بنائی‘ تاکہ ان میں امتیاز رہے‘ کیونکہ امتیاز کا آسان ذریعہ ظاہری شکل وصورت اور ظاہری رنگ و روپ ہے‘ انسان اور جانور میں‘ شیر اور گدھے میں‘ گھاس اور زعفران میں‘ باورچی خانہ اور پاخانہ میں‘ جیل خانہ اور شفاء خانہ میں جو امتیاز ہے‘ وہ دوسری چیزوں کے علاوہ اس ظاہری شکل وصورت کی بنا پر بھی ہے‘ اگر کسی نوع کا کوئی فرد اپنی خصوصیات اور امتیازات چھوڑ کر دوسری نوع کی امتیازات وخصوصیات اختیار کرلے تو اس کو پہلی نوع کا فرد نہ کہیں گے‘ بلکہ وہ دوسری نوع کا فرد کہلائے گا۔مثلاً اگر کوئی مرد‘ مردانہ خصوصیات اور امتیازات چھوڑ کر زنانہ خصوصیات اختیار کرلے‘ عورتوں جیسا لباس ‘ انہی کی طرح بود وباش اور انہی کی طرح بولنے لگے‘ حتیٰ کہ اس مرد کی تمام حرکات وسکنات عورتوں جیسی ہوجائیں تو وہ شخص‘ مرد نہ کہلائے گا‘ بلکہ مخنث اورہیجڑا کہلائے گا ‘حالانکہ اس کی حقیقتِ رجولیت میں کوئی فرق نہیں آیا‘ اس نے صرف لباس وہیئت میں تبدیلی کی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اگر اس مادی عالم میں خصوصیات اور امتیازات کی حفاظت نہ کی جائے اور التباس واختلاط کا دروازہ کھول دیا جائے تو پھر کسی نوع کا اپنا علیحدہ تشخص اور وجود باقی نہ رہے گا۔ اسی طرح اقوام اور امم کے اختلاف کو سمجھنا چاہئے کہ مادی کائنات کی طرح دنیا کی قومیں اپنے معنوی خصائص اور باطنی امتیازات کے ذریعہ ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا ہیں‘ مسلم قوم‘ ہندوقوم ‘ عیسائی قوم اور یہودی قوم باوجود ایک باپ کی اولاد ہونے کے مختلف قومیں کیوں اور کیسے بن گئیں؟ وجہ صرف یہی ہے کہ ہرقوم کا عقیدہ وعبادت‘ تہذیب وتمدن اور اس کا طرز لباس وپوشاک اور طریق خورد ونوش دوسری قوم سے جدا ہے‘ باوجود ایک خدا ماننے کے ہرایک کی عبادت کی شکل و صورت علیحدہ ہے‘ عبادات کی انہیں خاص خاص شکلوں اور صورتوں کی وجہ سے مسلم ‘ کافر سے اور موحد ‘ مشرک اور بت پرست سے علیحدہ جانا اور پہچانا جاتا ہے‘ اور ایک عیسائی ایک پارسی سے جدا ہے۔ جب تک ہرقوم اپنی مخصوص شکل اور ہیئت کی حفاظت نہ کرے‘ قوموں کا امتیاز باقی نہیں رہ سکتا‘ پس جب تک کسی قوم کی مذہبی اور معاشرتی خصوصیات باقی ہیں‘ اس وقت تک وہ قوم بھی باقی ہے اور جب کوئی قوم کسی دوسری قوم کی خصوصیات اختیار کرلے اور اس کے ساتھ خلط ملط اور مشتبہ ہو جائے تو یہ قوم اب فناء ہوگی اور صفحہٴ ہستی پر اس کا وجود باقی رہنا ناممکن ہوجائے گا۔

جاری ہے

مگر بدنام صرف ہم ہيں

عنيقہ ناز صاحبہ کے سوالات کے جوابات لکھتے ہوئے ميں نے صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی نشاندہی کی تھی جو امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہونے کے دوران پيش آيا تھا ۔ اب مشہور صحافی حامد مير صاحب نے ايک اور واقعہ ياد کرا ديا ہے

ميں يہ واضح کر دوں کہ برائی ہر صورت ميں برائی ہے چاہے کسی جگہ بھی ہو اور برائی کو سختی سے روکنا چاہيئے ۔ يہ تحرير اسلئے ہے کہ ہمارا کام صرف اپنوں کو ہی رگيدنا نہيں ہے بلکہ اپنوں کی اصلاح کرنا ہمارا فرض ہے جس کی طرف توجہ نہيں دی جا رہی

امریکی ریاست لوسیانا کے ساحلوں پر 27 اگست 2005ء کو ایک سمندری طوفان کا آغاز ہوا۔ سمندر کا پانی ساحلوں سے نکل کر شہروں میں داخل ۔ ہزاروں عمارتیں اور مکان تباہ ہوگئے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے ۔ اس سمندری سیلاب کوکترینہ کا نام دیا گیا ۔ امریکی فوج کے 22ہزار جوانوں کوکترینہ سیلاب سے نمٹنے کا فریضہ سونپا گیا ۔ طوفان سے متاثرہ ایک بڑے شہر نیو آرلنیز میں لوٹ مار ۔ قتل و غارت اور عورتوں سے زیادتی کے واقعات شروع ہوگئے لہٰذا امریکی حکومت کو ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی اور چند دن کے لئے نیو آرلنیز میں کرفیو کا اعلان کرکے لوٹ مار کرنے والوں کوگولی مارنے کا حکم دے دیا گیا ۔ کترینہ سیلاب میں 1800 امریکی مارے گئے اور 81 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔ امریکی قوم کیلئے سمندری طوفان اور سیلاب کے باعث پھیلنے والی تباہی سے زیادہ پریشانی کی بات اس سانحے کے دوران شروع ہونے والی لوٹ مار تھی کیونکہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ گینگ بنا کر نہ صرف بینکوں اور شاپنگ سینٹرز کو لوٹ رہے تھے بلکہ بے گھر ہونے والی عورتوں اور بچیوں کو بھی اپنی ہوس کا نشانہ بنانے لگے

اندوہناک واقعہ ۔ سوالات کے جواب

عنيقہ ناز صاحبہ نے سيالکوٹ ميں دو لڑکوں کو تشدّد سے ہلاک کرنے کے واقعہ سے متعلق سوال پوچھے ہيں ۔ ميں نے متعلقہ وڈيو نہيں ديکھی اور نہ ہی ايسی چيزوں کو ديکھنے کا حوصلہ رکھتا ہوں ۔ گو ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ عنيقہ ناز صاحبہ کو ميری تحرير ميں وہ عنصر مل جاتا ہے جو ميرے وہم گمان ميں نہيں ہوتا اور پھر اُسی پر طويل تحرير آ جاتی ہے ۔ چونکہ سوال پوچھے جانے کے قابل ہيں اسلئے ميں اپنے تجربہ اور اپنے عِلم کے مطابق ان کے مختصر جوابات دينے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سُبحانُهُ و تعالٰی ميری مدد فرمائے

سوال ۔ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیئے یا مذمّت کرنے کے بعد چھوڑ دینا چاہیئے؟
جواب ۔ حديث کے مطابق مذمت کرنا ايمان کی کمزور ترين شکل ہے مگر اس کا يہ ہرگز مطلب نہيں کہ برائی کو روکا نہ جائے بلکہ مقصد يہ ہے کہ اگر کسی مسلمان ميں برائی کو روکنے کی کسی قسم کی کوئی طاقت نہيں ہے تو کم از کم مذمت کرے ۔ ليکن اوّل حُکم برائی کو سختی سے روکنے کا ہے جس کا يہ مطلب نہيں کہ برائی کرنے والے کی پٹائی شروع کر دی جائے ۔ چار دہائياں قبل تک لوگ بِيچ ميں آکے لڑائی ختم کرا ديتے تھے اور ايسا کرتے ہوئے خود بھی تشدد کا نشانہ بنتے مگر ہمت نہ ہارتے ۔ اب ہم لوگ ڈرامے کرنے اور ڈرامے ديکھنے کے عادی ہو گئے ہيں

سوال ۔ کيا بد دعائيں لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیں گی ؟ کیا ان واقعات کا سدِ باب بد دعاؤں سے کیا جا سکتا ہے ؟ کیا بد دعا دینے والے اپنی کم ہمتی کو ظاہر نہیں کرتے ؟
جواب ۔ بد دعا دينا بُزدِلی کی نشانی ہے ۔ ميرے يقين کے مطابق کسی کو بد دعا دينے سے اپنے اچھے اعمال ناقص ہو جاتے ہيں ۔ برائی کرنے والے کو دعا دينا چاہيئے کہ اللہ اس پر رحم کرے اور اسے برائی سے بچائے
موقع لطيفے کا نہيں ہے اسلئے معذرت ۔ دوسری جنگ عظيم ميں ہندوستان کے لوگوں کو بھی قابض انگريز حکومت نے فوج ميں بھرتی کر کے محاذ جنگ پر بھيج ديا ۔ کہا جاتا ہے کہ ايک جوان جو محاذ پر گيا تھا اُس کی ماں دعا کرتی تھی ” اللہ کرے جرمن کی توپوں ميں کيڑے پڑيں”۔

سوال ۔ کیا یہ واقعات محض معاشرے میں موجود کچھ لوگوں کی پُرتشَدّد فِطرت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں یا ہم مِن حَیثُ القَوم ایک اخلاقی تنَزّلی کا شکار ہیں ؟ ہماری اس اخلاقی تنَزّلی کا باعث مذہب سے ہماری دوری یا تعلیم کی کمی یا ہماری ایک مہذب قوم کے طور پہ تربیت نہ ہونا ہے ؟
جواب ۔ يہ واقعات اس معاشرہ ميں ظہور پذير ہوتے ہيں جس کے اکثر ارکان انتہائی خود غرض ہو جانے کے بعد اخلاقيات کو چھٹی دے ديتے ہيں ۔
کوئی دين يا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا ۔ رياستی سطح پر اسرائيل اس کی مثال ہے کہ اُن کا عقيدہ ہے “اپنے لئے دوسروں پر ہر ظلم کارِ ثواب ہے”۔ يہی عقيدہ رياستہائے متحدہ امريکا ۔ برطانيہ اور کچھ يورپی رياستوں کا رہا ہے ۔ گوروں نے امريکا ۔ آسٹريليا ۔ اور افريقہ اور ايشيا کے کچھ حصوں کو اپنی ملکيت بنانے کيلئے کيا کچھ ظلم نہيں کيا ۔ ہندو برہمن ميں بھی يہ خيال کسی حد تک پايا جاتا ہے يہاں تک کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ بھی ظلم کرتا ہے جہنيں وہ اپنے سے کم تر سمجھتا ہے
دين اسلام يا کوئی دوسرا مذہب اس کی اجازت نہيں ديتا اسلئے اس کی وجہ دين سے دوری بھی ہے ۔ مثال کے طور پر ديکھ ليجئے کہ اسرائيل جو ظلم فلسطين ميں کر رہا ہے بہت سے يہودی ربی (مذہبی پيشوا) اس کے خلاف ہيں ۔ کئی تو کہتے ہيں کہ اسرائيل کی رياست بنانا ہی اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے

سوال ۔ ہماری مذہب سے ظاہراً گہری وابستگی بھی ہمیں کیوں تشدد سے دور نہیں رکھ پاتی؟
جواب ۔ کونسی وابستگی ؟ گہری وابستگی کہنا تو بہت دور کی بات ہے ۔ بظاہر ہماری قوم ميں مسلمان نام رکھنے والے سب کے سب
کیسے مسلمان ہيں ؟ آدھا جسم ننگا کر کے شہوانی ناچ ناچنے والی بھی کہتی ہے ”اللہ نے مجھے کاميابی دی“۔
ہماری اکثريت زندہ لوگوں کی پيروی کرنے کی بجائے مر جانے والوں کی قبروں سے اميديں وابستہ رکھتی ہے ۔ پانچ وقت کی نماز نہ پڑھنے والے ايک حج کر کےسمجھ ليتے ہيں کہ سارے گناہ دھل گئے پھر بطور سند اپنے نام کے ساتھ حاجی اور الحاج لکھنا شروع کر ديتے ہيں مگر مسجد جانے کيلئے ان کے پاس وقت نہيں ہوتا
نماز روزے کی کوئی پابندی نہيں مگر گيارہويں شريف کا ختم دلانے کی پابندی کرتے ہيں
لمبی داڑھی ماتھے پر محراب اور رشوت دے کر کام کرواتے ہيں ۔ اعتراض کيا جائے تو جواب ملتا ہے ” کيا کريں جی ۔ رشوت ديئے کے بغير کام نہيں ہوتا”۔ يہ نہيں کہتے کہ اللہ پر بھروسہ نہيں پيسے پر بھروسہ ہے ؟

سوال ۔ کچھ لوگوں کے خیال میں مذہب سے دوری ان واقعات کا باعث ہے ۔ تو وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے ؟
جواب ۔ يہ سوال ہر وہ شخص پوچھتا ہے جو مذہب کی پابندی ميں نہيں آنا چاہتا ۔ حقيقت تو يہی ہے کہ ايسے واقعات کا ظہور پذير ہونا مذہب سے دوری کا نتيجہ ہے ۔ ”وہ ممالک جو بالکل سَیکُولَر ہیں وہاں ایسے واقعات کیوں اس تسلسل سے پیش نہیں آتے؟“ کہنا ان علاقوں کے حالات کا علم نہ ہونا ہے ۔ ميں صرف ايک مشہور زمانہ بہت بڑے واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا ۔ امريکا ميں ايک بار 40 منٹ کيلئے بجلی بند ہو گئی تھی ۔ اس دوران کتنے گھر اور کتنے لوگ لوٹے گئے کتنی عورتوں کی عزت لوٹی گئی مزيد کيا کچھ ہوا اسے لکھنے کيلئے نہ يہاں جگہ ہے نہ ميرے پاس وقت ۔ اسی سے اندازہ لگايا جا سکتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کا مزاج کيسا ہے ؟ اور وہاں کيا کچھ نہيں ہوتا ہو گا
صرف ملک کے اندر ہی نہيں غير ممالک ميں جا کر ميرے اکثر ہموطن اپنی قوم کو رگيدنا اپنا فرضِ اَوّلِيں سمجھتے ہيں ۔ ہماری بدقسمتی يہ ہے کہ ہمارے ملک کے بادشاہ جنرل پرويز مشرف نے ساری دنيا کے سامنے کہا تھا ” ہمارے ملک کی عورتيں کينيڈا کا ويزہ لينے کيلئے اپنے آپ کو ريپ کروا لتی ہيں”۔

اب آتے ہيں وجہ پر ۔ دوسرے ممالک ميں قانون ہے اور اس کی پاسداری بھی ہے ۔ ہمارے ملک ميں قانون صرف غلط استعمال کيلئے ہے

سوال ۔ جب ہم اس چیز پہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے ایسے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں تو پھر بھی ہم کیوں ان کو کرنے میں ذرا تامل نہیں کرتے؟
جواب ۔ کتنے لوگ ہيں جو يہ يقين رکھتے ہيں ہمارے بُرے افعال ہمارے اُوپر عذاب کا باعث بنتے ہیں ؟ ايسا کہنے والوں کی اکثريت بھی اپنے عمل پر غور نہيں کرتی مگر ایسے لوگ ہيں جو ايسے واقعات ديکھ اپنے اعمال کو مزيد درست کرتے ہيں
اسے صرف ايک سيالکوٹ کے واقعہ کے پس منظر ميں نہيں ديکھنا چاہيئے ۔ ٹارگٹ کلنگ ۔ عام قتل ۔ ڈاکے ۔ چوری ۔ زنا ۔ جھوٹا مقدمہ قائم کرنا ۔ کسی بہن بھائی کے حق کی جائيداد پر قبضہ کرنا ۔ رشوت کھانا ۔ سود کھانا ۔ سب کچھ پورے ملک ميں ہو رہا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی کھُلم کھُلا خلاف وَرزی کر کے عذاب کو دعوت تو ديتے ہيں ۔ آئے نہ آئے وہ اللہ کی مرضی ہے ۔ اللہ رحمٰن رحيم کريم ہے جبار و قہار بھی اور بے نياز بھی ۔ اگر ہمارے ہر گناہ کی سزا ہميں دينے لگے تو آج شايد ميں بھی يہ تحرير لکھنے کے قابل نہ ہوتا ۔ سچ يہ ہے کہ ميں اللہ کی عطا کردہ توفيق سے ہی لکھ رہا ہوں

سوال ۔ کیا کچھ لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالا دستی کے جَذبے کو کمزوروں پہ ظلم کر کے تسکین دیتے ہیں اس لئے یہ واقعات ہو پاتے ہیں ؟ کیا تشدد پسند فطرت فیوڈل نظام کی دین ہے ؟
جواب ۔ موقع سے فائدہ بھی اٹھايا جاتا ہے ۔ پرانی دشمنی اور قدورتوں کا حساب بھی چکايا جاتا ہے
معاشرہ کا يہ حال انتہائی خود غرضی اور اذيت پسندی کا نتيجہ ہے ۔ فیوڈل نظام بھی اسی طرز عمل کی دين ہے

سوال ۔ کیا ایسا اجتماعی بہیمانہ تشدد، معاشرتی نا انصافیوں کا حصہ ہے ؟ تو پھر ہم اسے اپنے اوپر ظلم کرنے والے طاقتور طبقے کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتے ؟
جواب ۔ کچھ واقعات نا انصافيوں کا نتيجہ ميں حواس کھو بيٹھنے سے ہوتے ہيں مگر اکثر نہيں ۔ ورنہ اپنے غصہ کو ظالم کے خلاف استعمال کيا جاتا

سوال ۔ کیا تشدد انسانی فطرت ہے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا اسے سدھار کر کسی مثبت جذبے میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
جواب ۔ تشدد درندگی ہے ۔ انسانی فطرت نہيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پہچان

ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی شخص کی سفارش کی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا “تم اُس کے ساتھ کبھی اکٹھے رہے ہو ؟”
صحابی نے کہا “نہیں”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا “تم نے اُس کے ساتھ کبھی سفر کیا ہے ؟”
صحابی نے کہا “نہیں”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا “پھر تم اُسے نہیں جانتے”

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پونے چھ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

زندگی کا مقصد

استدعا ۔ دو نظموں کی صورت ميں

اپنے لئے تو سب جيتے ہيں اس جہاں ميں ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
سب سے بڑی عبادت ۔ انساں سے پيار کرنا ۔ ۔ ۔ اپنا لہو بہا کر دوسروں کی مانگ بھرنا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
آئے جو کوئی مُشکل ۔ ہمت سے کام لينا ۔ ۔ ۔ گِرنے لگے جو کوئی ۔ تم بڑھ کے تھام لينا
انساں وہی بڑا ہے ۔ جس نے يہ راز جانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

کوشاں سبھی ہیں رات دن اک پل نہیں قرار ۔ ۔ ۔ ۔ پھرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں انسانیت سے پیار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے ۔ ۔ دل میں خلوص نہ ہو تو بندگی ریا ہے
جس سے مٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے ۔ ِضد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بھڑ کی طرح جِئے تو جینا تيرا حرام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وعدہ ترا کسی سے ہر حال میں وفا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جان لے ہے بیشک گناہ “دل ستانا”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو زبردست ہے تو قہرِ خدا سے ڈرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اک دن گر جائے تو بھی ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ پھر تجھ کو روند ڈالے پائوں تلے زمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مضروبِ غم ہو کوئی مرہم اسے لگانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں ہے جو غرور و تکبر نکال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اسلاف کی یہی روشِ اولیں رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تجھ سے بھی ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نفرت رہے نہ باقی ۔ نہ ظلم و ستم کہیں ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقدام ہر بشر کا اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو ۔ اقرار سب کریں کہ تہِ دل سے ہم نے مانا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

‘ = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = = =

شاعر ۔ دونوں کے نامعلوم
پہلی نظم آدھی صدی قبل ريڈيو پاکستان سے سُنی تھی ۔ يہ شايد فلمائی بھی گئی تھی اور شايد پوری ياد بھی نہيں
دوسری نظم کہيں پڑھی اور اپنے پاس لکھ لی تھی

شيطان کے بندے

جسے عيش ميں يادِ خدا نہ رہی
جسے طيش ميں خوفِ خدا نہ رہا

ايک عينی شاہد کی تحرير سے اقتباس

صبح کے پانچ بج رہے تھے جب ہم سکھر سے کندھ کوٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ سندھ پولیس کے دو اہل کار بڑی عاجزی سے گویا ہوئے “سائیں لگتا ہے کہ آپ شکار پور کی طرف جا رہے ہیں”۔ میں نے بتایا کہ ہم شکار پور سے آگے کندھ کوٹ جائیں گے۔ یہ سنتے ہی دونوں پولیس والوں نے کانوں کو ہاتھ لگانے شروع کر دیئے۔ پھر ان میں سے ایک نے بڑی عاجزی سے کہا “سائیں شکار پور کی طرف مت جاؤ آپ کو ڈاکو لوٹ لیں گے”۔ پولیس والے نے کہا کہ وہ مجھے نوشہرہ کی گلیوں میں کشتی پر سفر کرتے ہوئے دیکھ چکا ہے لیکن نوشہرہ اور سکھر سے شکار پور جانے والی سڑک میں بڑا فرق ہے اس لئے ہم سکھر سے باہر نہ جائیں۔

جیسے ہی ہم شکار پور روڈ پر آئے تو لاتعداد ٹریکٹر ٹرالیاں اور ٹرک متاثرین سے بھرے نظر آئے جو سکھر اور حیدر آباد کی طرف جا رہے تھے۔ جن کے ساتھ مویشی تھے وہ پیدل سفر کر رہے تھے اور پیدل سفر کرنے والے اکثر افراد نے بارہ بور کی بندوقیں یا کلاشنکوفیں اٹھا رکھی تھیں۔ ہم نے جگہ جگہ اپنی گاڑی روک کر ان متاثرین سے ان کی بربادی کی داستانیں سننی شروع کیں تو اکثرکو سیلابی پانی سے کم اور سندھ کے ڈاکوؤں سے زیادہ شکوہ تھا ۔ کندھ کوٹ، خان پور، عفرت پور اور کرم پور کے کئی متاثرین نے بتایا کہ ڈاکوؤں نے ان کی عورتوں کے زیورات چھین لئے ، نقدی لوٹ لی اور جن کے پاس اپنے دفاع کیلئے اسلحہ نہ تھا ان سے ان کی گائے بھینسیں بھی چھین لیں۔

کندھ کوٹ کے قریب پانی میں ڈوبے ہوئے شہر غوث پور پہنچے تو یہاں بھی فوجی افسران کی زبانی ڈاکووؤں کی لوٹ مار کی کہانیاں سنیں۔

اگلے دن ہم نے شکار پور کی طرف سے جیکب آباد اور وہاں سے جعفر آباد پہنچنے کی کوشش کی اور جگہ جگہ بہت سے لوگوں سے بات کی۔ جیکب آباد کے ایک تباہ حال اسکول ٹیچر نے بڑی خوبصورت بات کی۔ اس نے کہا کہ دریائے سندھ کی لہروں کو غور سے سنو۔ دریا غصے میں پھنکار رہا ہے کیونکہ ہم نے 24 جنوری 2010ء کو ”سندھو دریا ڈے “ تو منایا لیکن دریا کے کناروں پر آباد جنگلوں کو کاٹنا بند نہ کیا، ہم نے دریا کی مٹی چُرا کر اس کے کناروں کو کمزور کر دیا لہٰذا دریا ہمارے گھروں میں گھس گیا ہے۔

پچھلے دو ہفتے سے میں سفر میں ہوں نوشہرہ، چارسدہ، کالا باغ، عیسیٰ خیل، میانوالی ، ملتان، لیہ، مظفر گڑھ، رحیم یار خان، کندھ کوٹ ، شکار پور، جیکب آباد اور سکھر سمیت لاتعداد سیلاب زدہ علاقوں میں بہت تباہی دیکھی اور بہت کچھ سیکھا لیکن متاثرین سیلاب کے ساتھ جو سلوک سندھ کے ڈاکو کر رہے ہیں وہ کچھ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نہیں ہو رہا۔ یہاں پر متاثرین کے خالی گھروں میں چوریاں ضرور ہو رہی ہیں لیکن متاثرین کے قافلوں کو بے دردی سے لُوٹا نہیں جا رہا۔

صدر آصف علی زرداری متاثرین سیلاب کے ساتھ تصویریں کھنچوانے والے کچھ سیاسی اداکاروں سے کافی ناراض نظر آتے ہیں۔ وہ سیاسی اداکاروں کو چھوڑ دیں اور سندھ والوں کی فکر کریں۔ شکار پور بائی پاس اور سکھر بائی پاس پر آسمان تلے بیٹھے متاثرین سیلاب سے جا کر ان کا حال پوچھیں تو شاید یہ لُٹے پُٹے لوگ سیلاب سے اپنی تباہی کا شکوہ نہ کریں لیکن تباہی کے بعد ڈاکوؤں نے جو لوٹ مار کی اس پر ان متاثرین کی اکثریت کسی سے ناراض ہے وہ صدر زرداری، وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ اور صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا ہیں۔

سب مسلمانوں کو چاہيئے کہ استغفار اور آيت کريمہ کا باری باری جتنا ہو سکے ورد کريں
اَستَغفُـرُ اللہ الْعَظِيْم وآتُوبُ اَلَيہ
لَا اِلہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَنَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الْظَآلَمِين

ہم ۔کل اور آج ۔ فرق کيا ہے ؟

بلا شُبہ عصرِ حاضر ميں سائنس کی پچھلی آدھی صدی ميں روز افزوں ترقی کے نتيجہ ميں کئی نئے علوم متعارف ہوئے ہيں ۔ ترقی نے زندگی بظاہر بہت آسان بنا دی ہے اور فاصلے بہت کم کر ديئے ہيں ۔ وہ زمانہ تھا کہ اسلام آباد سے کراچی خط لکھ کر جواب کيلئے ايک ہفتہ انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ يورپ ۔ امريکا يا جاپان کی صورت ميں چار چھ ہفتے معمولی بات تھی ۔ آج اسلام آباد ميں بيٹھے براہِ راست امريکا اور جاپان بات ہو سکتی ہے اور ايک دوسرے کو ديکھا بھی جا سکتا ہے ۔ بہت سی ديگر سہوليات بھی ميسّر ہو گئی ہيں ۔ يہ سب کچھ ہميں دساور سے دستياب ہوا ہے ۔ اس ميں اپنی محنت اول ہے ہی نہيں اور اگر ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر ۔ ہم نے دساور سے ان سہوليات کے ساتھ فرنگيوں کی فضوليات تو بہت لے ليں ہيں مگر اُن کی خُوبيوں کو نہيں اپنايا

ميرا موضوع البتہ يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ کيا آج سے آدھی صدی قبل ہم زيادہ تربيت يافتہ تھے يا کہ آج ہم زيادہ تربيت يافتہ ہيں ؟

پانچ سال قبل زلزلہ نے ہميں پريشان کيا اور آج ہميں سيلاب نے اس سے بھی زيادہ پريشان کر ديا ہے ۔ پريشانی کی بنيادی وجوہ دو ہيں

ايک ۔ مال کی محبت نے بے راہ رَو بنا ديا ہے
دو ۔ مربوط عمل سے نا آشنائی

ہم ايسے نہ تھے بلکہ ايسے بن گئے ہيں
ہمارے دين نے ہميں سيدھی راہ اور مربوط عمل کا سبق ديا مگر ہم نے دين کو ترقی کی راہ ميں رکاوٹ سمجھنا شروع کر ديا
معمارانِ قوم جن کی فراست و محنت کے نتيجہ ميں اللہ نے ہميں يہ مُلک عطا کيا ہم نے اُن کے ترتيب ديئے ہوئے نظام کو نام نہاد ترقی کے نام پر تج ديا

آدھی صدی قبل کا طريقہ تعليم

چھَٹی جماعت سے ہی نصاب سے متعلق کُتب کے ساتھ ساتھ غير نصابی يا ہم نصابی کُتب پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔ خلاصہ يا ماڈل پيپر وغيرہ کسی طالبعلم کے پاس ديکھا جائے تو چھين ليا جاتا تھا
روزمرہ اور فلاحی کاموں ميں عملی تربيت کی ترغيب دی جاتی تھی جن ميں سے چند درج کر رہا ہوں

ايک رضاکار ادارہ ہوتا تھا “جنرل نالج سوسائٹی” جو معلوماتِ عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابيں شائع کرتا تھا اور ہر سال گرميوں کی تعطيلات ميں امتحان منعقد کيا کرتا تھا ۔ يہ کتب برائے نام قيمت پر دستياب ہوتی تھيں ۔ اساتذہ چھٹی جماعت سے ہی يہ امتحان پاس کرنے کی ترغيب ديتے ۔ ان امتحانات کی چار مختلف سطحيں ہوتی تھيں ۔ ہم لوگوں نے نويں جماعت تک تيسری سطح تک کے امتحان پاس کئے ۔ پاس کرنے کيلئے 80 فيصد نمبر حاصل کرنا لازم تھے ۔ يہ معلومات قومی تاريخ ۔ مشہور ملکی اور غيرملکی لوگ اور ان کے کارناموں ۔ تاريخی مشہور واقعات ۔ مشہور جغرافيائی مقامات اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ہوتی تھيں

ايک سِول ڈيفنس کا ادارہ ہوتا تھا اور ايک فرسٹ ايڈ کا ۔ يہ بھی رضاکار ادارے تھے ۔ يہ ادارے آٹھويں سے بارہويں جماعت کے طلباء کو چھُٹيوں ميں يا سکول کالج کے وقت کے بعد آگ بُجھانے ۔ ہوائی حملہ کی صورت ميں اقدامات ۔ عمارت ميں پھنسے لوگوں کو نکالنے ۔ زخميوں کو ابتدائی طِبی امداد دينے ۔ زخميوں کو ہسپتال پہنچانے ۔ وبائی امراض کی صورت ميں گھر گھر جا کر ٹيکے لگانے ۔ محلوں ميں لوگوں کو بچاؤ کے طريقوں پر معلومات فراہم کرنے کے بارے ميں تعليم و تربيت ديتے تھے
يہ بھی تربيت دی جاتی تھی کہ
اگر سٹريچر نہ ہو تو دو آدمی مل کر کس طرح سٹيچر کا کام کرتے ہيں
اگر ايمبولنس يا گاڑی نہ ہو تو دو بائيسائيکلوں کو جوڑ کر کيسے گاڑی بنائی جاتی ہے کہ زخمی کو ہسپتال پہنچايا جائے
اور اگر سٹريچر اور بائسائيکل نہ ہوں تو کيسے چار آدمی مل کر مريض کو ہسپتال پہنچاتے ہيں
مشق کيلئے جھوٹے فضائی حملے ہوتے اور جھوٹی آگ لگائی جاتی اور ہميں کام کرتے ہوئے ديکھا جاتا کہ تربيت مں کوئی کمی تو نہيں رہ گئی
ان کے تحريری اور عملی امتحانات ہوتے تھے
تربيت کے بعد محلوں کے گروپ بنا ديئے جاتے ہر گروپ کا ايک ليڈر ہوتا ۔ بلکہ وارڈ ہوا کرتے تھے جو بڑے محلوں ميں ايک سے زيادہ تھے
جب رضاکاروں کی ضرورت پڑتی سِول ڈيفنس والوں کے پاس فہرستيں ہوتی تھيں ہميں بُلا ليا جاتا تھا ۔ ہم سے مختلف فلاحی کام لئے جاتے ۔
کچھ محلوں ميں رمضان کے مہينہ ميں خود سے سب رضاکار مل کر سحری کيلئے لوگوں کو باجماعت بلند آواز ميں”جاگو جاگو” کہہ کر جگايا کرتے تھے

سکول اور کالج ميں بارہويں تک اخلاقيات کے ہفتہ وار ليکچر ہوا کرتے تھے جن ميں ہميں بتايا جاتا تھا کہ
گھر کے اندر کيسے رہتے ہيں
محلے ميں کيسے رہتے ہيں
دوسروں کے ساتھ کيسا سلوک کرنا چاہيئے
کمزور يا بوڑھے يا معذور آدمی کی مدد کرنا چاہيئے
پانی يا اناج ضائع نہيں کرنا چاہيئے
بس ميں کيسے سفر کرتے ہيں
پکنک پر کيا کرتے ہيں
اور کيا کيا نہيں کرنا چاہيئے

دو اصول ہميں بار بار ياد کرائے جاتے تھے

آدمی اپنی مدد تو کرتا ہی ہے ۔ زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا ہے
By being polite and saying thank you, you lose nothing but you may gain

مندرجہ بالا کے علاوہ
بيت بازی ۔ مضمون نويسی اور تقريری مقابلے ہوتے ۔ پہلے سيکشن ميں ۔ پھر پوری جماعت کا ۔ پھر پورے سکول يا کالج کا
سکول اور کالج ميں صبح سويرے پڑھائی شروع ہونے سے ايک گھنٹہ قبل جسمانی تربيت المعروف پی ٹی [Physical Training] کے لئے بُلايا جاتا اور پی ٹی کرائی جاتی
نصابی مضامين کی حاضری 80 فيصد اور ورزش کی حاضری 70 فيصد ہونا ضروری تھی بصورتِ ديگر سالانہ امتحان ميں بيٹھنے نہيں ديا جاتا تھا

مندرجہ بالا صورتِ حال اُس زمانہ کی ہے جو آج کے جوانوں کے مطابق شايد جاہليت کا دور تھا ۔ يہ نظام 1966ء ميں بے توجہی کا شکار ہونا شروع ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں بجائے درستگی کے اسے ختم کر ديا گيا
آج کا پڑھا لکھا طبقہ ڈھيروں اسناد حاصل کر کے اچھی ملازمت کی تلاش ميں سرگرداں رہتا ہے مگر معاشرے کے فرد کی حيثيت سے اپنی ذمہ داريوں سے ناواقف ہے