Category Archives: معاشرہ

نُکتہ دانوں کيلئے ۔ اسلامی معاشرے کا ايک نمونہ

مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے

محمد سليم صاحب کی ای ميل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم

‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا

چوروں کے ديس کا قانون

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تابش گوہر نے کہا ہے کہ کراچی کے وہ علاقے جہاں بجلی کی چوری بہت کم اور بجلی کے بل بروقت ادا کئے جاتے ہیں ان کو جلدہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا جائے گا اور جن علاقوں میں بجلی کی بہت زیادہ اور مسلسل چوری اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی تک نہیں کی جاتی ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے 4 گھنٹے سے بڑھاکر 6 گھنٹے کردیا جائے گا

تابش گوہر نے کہا کہ چوری کی جانچ کیلئے ہر فیڈر پر میٹر نصب ہیں، ان سے بجلی کی چوری کا پتہ لگایا جاتا ہے، جن فیڈرز پر 40 فیصد سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں اضافہ، جن فیڈرز سے 10 فیصد سے کم بجلی کی چوری کی جاتی ہے وہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیئے جائیں گے

جملہ معترضہ ۔ کہيں ايسا تو نہيں کہ تابش گوہر صاحب پنجابی ہيں اسلئے خواہ مخوا کراچی والوں کو بدنام کر رہے ہيں

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کامیاب زندگی

ایک دن صبح سویرے ہی ذہن میں آیا کہ کامیاب زندگی کا راز کیا ہے ؟ سارا دن اس سوال نے پریشان کئے رکھا ۔ رات ہوئی بستر پر دراز ہوا مگر سوال نے نیند کو بھگا دیا ۔ آنکھیں پھاڑے اپنے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ کچھ دیر بعد کمرے کی ہر چیز بولتی محسوس ہوئی
چھت بولی ” ذاتیات کو چھوڑ اور میری طرح بلند ہو جا ”
پنکھا بولا “مزاج ہمیشہ ٹھنڈا رکھ”
گھڑی بولی “وقت کی قدر کو جان”
بلب بولا “اپنی روشنی سے اندھیروں کو دور کر”
کتاب بولی “مجھ سے دوستی پکی رکھ”
کیلنڈر نے کہا “ہر گذرتے دن سے سبق لے”
بٹوے نے کہا ” بُرے وقت کیلئے آج ہی بچا”
بستر نے کہا ” ہر نیا دن شروع کرنے سے پہلے مناسب آرام کر”
آئینے نے کہا ” کارگذاری کا مظہر بن”
دیوار نے کہا ” دوسروں کا بوجھ بانٹو”
کھڑکی نے کہا ” زاویہ نظر کشادہ رکھو”
دروازے نے کہا “راستہ پانے کیلئے زور لگاؤ”
فرش نے کہا ” انکساری اختیار کرو”

احوالِ قوم ۔ 2 ۔ نبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کی تعليم

تم اوروں کی مانند دھوکا نہ کھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو خدا کا نہ بیٹا بنانا
ميری حد سے رُتبہ نہ میرا بڑھانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر بہت تم نہ مجھ کو گھٹانا
سب انساں ہیں واں جس طرح سرفگندہ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ہوں میں بھی اک اس کا بندہ
بنانا نہ تُربت کو میری صنم تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ کرنا مری قبر پر سر کو خَم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سے کم تم۔ ۔ کہ بے چارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

سکھائی انہیں نوعِ انساں پہ شفقت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہا ہے یہ اسلامیوں کی علامت
کہ ہمسایہ سے رکھتے ہیں وہ محبت۔ ۔ ۔ شب و روز پہنچاتے ہیں اس کو راحت
وہ جوحق سے اپنے لئے چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہر بشر کے لئے چاہتے ہیں
خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
کسی کے گر آفت گزر جائے سر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے غم کا سایہ نہ اس بے اثر پر
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
ڈرایا تعصب سے ان کو یہ کہہ کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ زندہ رہا اور مرا جو اسی پر
ہوا وہ ہماری جماعت سے باہر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ساتھی ہمارا نہ ہم اس کے یاور
نہیں حق سے کچھ اس محبت کو بہرہ۔ ۔ کہ جو تم کو اندھا کرے اور بہرہ

بيچارہ بيٹا يا بيچارے داماد اور بہو

ميری بيوی کی والدہ اللہ جنت نصيب کرے ميری بڑی خالہ تھيں مگر ميری والدہ سے چھوٹی تھيں ۔ ميری اور ميری بيوی کے بھائی کی شادی دو دن کے وقفے سے ہوئی تھی ۔ شادی کے بعد ميں خالہ کے ہاں گيا ہوا تھا ۔ وہاں ايک خاتون مہمان آئيں اور شادی شدہ بيٹے بيٹی کا پوچھنے لگيں ۔ ميری خالہ نے ايک دلچسپ کہانی سنائی

دو لڑکياں اکٹھے تعليم حاصل کر رہی تھيں ۔ اُن ميں دوستی ہو گئی ۔ تعليم سے فارغ ہو کر اُن کی شادی ہو گئی ۔ اتفاق سے ايک کا خاوند کسی دوسرے شہر ميں کام کرتا تھا تو وہ وہاں چلی گئی ۔ جب اُس کا خاوند ريٹائر ہو گيا تو وہ اپنے شہر واپس آ گئے ۔ وہ اپنی پرانی سہيلی کو ملنے آئی

سہيلی نے پوچھا “تم نے اپنے بيٹے اور بيٹی دونوں کی شادی کر دی تھی ۔ بال بچے دار بھی ہو گئے ہيں سناؤ اپنے گھروں ميں خوش ہيں ؟”

وہ بولی ” ميرا داماد اچھا ہے ۔ دفتر سے آکر بچوں کو ساتھ لے جاتا ہے اور گھر کا سودا سلف لے آتا ہے ۔ گھر آ کر بچوں کو سنبھالتا ہے ۔ چھٹی والے دن گھر کی صفائی بھی کر ديتا ہے ۔ باورچی خانہ ميں بھی مدد کر ديتا ہے ۔ البتہ ميرا بيٹا بيچارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ديکھو نا ۔ بيچارہ دفتر کا کام بھی تو کرتا ہے نا ۔ بہو اُسے کہتی ہے کہ ميرے لئے بچوں کو چھوڑ کے جانا مشکل ہوتا ہے اور پيدل ساتھ لے کر جانا بھی مشکل۔ دفتر سے واپسی پر سودا سلف لے آيا کرو ”

سہيلی نے پوچھا ” تو کيا گھر کا باقی کام بھی آپ کا بيٹا کرتا ہے ؟”
وہ بولی ” نہيں ۔ کام تو سارا بہو ہی کرتی ہے ۔ پر ديکھو نا”

حالتِ زار

ميں نے ايک فلاحی سلسلہ “چھوٹی چھوٹی باتيں” شروع کيا تھا جو اللہ کے کرم سے جاری ہے
اب اللہ کے فضل سے ميں اس کے ساتھ ہی ايک اور سلسلہ “احوالِ قوم” کے عنوان سے شروع کر رہا ہوں جو قوم کا درد رکھنے والے اللہ کے ايک معروف بندے محترم خواجہ الطاف حسین حالی [1837ء تا 1914ء] کے کلام سے ہے

ايک مثال

کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دُکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں۔ ۔ ۔ ۔ کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ

ہماری قوم [ہند و پاکستان کے مسلمان]

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بَپا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چَپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں ۔ رعونت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ۔ ۔ نہ رَشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت ۔ نہ عزت کا ارماں۔ ۔ ۔ ۔ نہ دوزخ سے ترساں ۔ نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے۔ ۔کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے

اسلام میں وضع قطع کی اہمیت ۔ دوسری اور آخری قسط

پہلی قسط يہاں پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

تعریف تشبہ

اتنی معروضات کے بعد تشبہ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں
1 ۔ اپنی شانِ امتیازی کو چھوڑ کر دوسری قوم کی شانِ امتیازی اختیار کرلینے کا نام تشبہ ہے۔
2 ۔ اپنی اور اپنوں کی صورت اور سیرت کو چھوڑ کر غیروں اور پرایوں کی صورت اور سیرت کو اپنا لینے کا نام تشبہ ہے۔
3 ۔ اپنی ہستی کو دوسرے کی ہستی میں فنا کردینے کا نام تشبہ ہے۔
اس لئے شریعت حکم دیتی ہے کہ مسلمان قوم ظاہری طور پر دوسری قوم سے ممتاز ہو‘ لباس میں بھی ممتاز اور وضع قطع میں بھی ممتاز ہونی چاہئے۔ مسلمان مرد کے چہرہ اور جسم پر کسی علامت کا ہونا ضروری ہے‘ جس سے پتہ چلے کہ یہ مسلمان ہے‘ سو وہ داڑھی اور لباس ہے۔ بغیر داڑھی کے ایک مسلمان شخص کی شناخت نہیں ہوسکتی۔ معلوم ہوا کہ اسلامی امتیاز کے لئے مسلمان مرد کے لئے داڑھی ضروری ہے۔ کافروں کی مشابہت سے ممانعت اور اسلامی خصوصیات وامتیازات کی حفاظت کا منشاء معاذ اللہ! تعصب اور تنگ نظری نہیں‘ بلکہ اسلامی غیرت وحمیت اور ملت اسلامیہ کو کفر والحاد اور زندقہ سے بچانا مطلوب ہے‘ ورنہ ملت اسلامیہ آزاد اور مستقل قوم کبھی نہیں کہلاسکتی

تشبہ کی اقسام اور ان کے احکام

1 ۔ اعتقادات اور عبادات میں کفارومشرکین کی مشابہت کفر اور ارتداد کا سبب ہے ‘ جیسے ہندو دو خدا اور عیسائی تین خدا کے قائل ہیں‘ اسی طرح خالق‘ مالک‘ مدبر اور عبادت کے لائق‘ انبیاء‘ اولیاء‘ ملائکہ اور جنوں وغیرہ کو سمجھنا

2 ۔ مذہبی رسومات میں کفار کی مشابہت حرام ہے۔ جیسے نصاریٰ کی طرح سینہ پر صلیب لٹکانا یا ہندوؤں کی طرح زنار باندھنا یا پیشانی پر سندور لگانا۔ان چیزوں کے استعمال کی حرمت کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال میں کفر کا اندیشہ بھی ہیں‘ کیونکہ علانیہ کفریہ شعائر کا اختیار کرنا قلبی تعلق اور رضا کی علامت سمجھاجاتا ہے۔ تشبہ کی یہ قسم اگرچہ قسم اول سے درجہ میں کم ہے‘ مگر پیشاب اور پاخانہ میں فرق ہونے سے کیا کوئی پیشاب کا پینا گوارا کرلے گا؟ ہرگز نہیں

3 ۔ معاشرتی عادات اور قومی شعائر میں کفار کا تشبہ مکروہ تحریمی ہے‘ مثلاً :کسی قوم کا مخصوص لباس استعمال کرنا جو خاص اس قوم کی طرف منسوب ہو‘ جس کا استعمال کرنے والا اسی قوم کا ایک فرد سمجھا جانے لگے‘ جیسے نصرانی ٹوپی یعنی ہیٹ ٹائی وغیرہ اور ہندوانہ دھوتی اور جوگیانہ جوتی یہ سب ناجائز ‘ ممنوع اور تشبہ میں داخل ہیں‘ جبکہ بطور تفاخر یا عیسائیوں‘ ہندوؤں اور دوسرے کافروں کی وضع بنانے کی نیت سے ہو تو اور بھی زیادہ گناہ ہے باقی کافروں کی زبان اور ان کے لب ولہجہ اور طرزِتکلم کو اس لئے اختیار کرنا کہ ہم بھی انگریزوں کے مشابہ بن جائیں اور ان کے زمرہ میں داخل ہوجائیں تو بلاشبہ یہ ممنوع ہوگا۔ ہاں اگر انگریزی زبان سیکھنے سے انگریزوں کی مشابہت مقصود نہ ہو‘ بلکہ محض زبان سیکھنا مقصود ہو‘ تاکہ کافروں کی غرض سے آگاہ ہوسکیں اور ان سے تجارتی اور دنیاوی امور میں خط وکتابت کرسکیں توپھر انگریزی زبان سیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں

4 ۔ ایجادات ‘ اسلحہ اور سامانِ جنگ میں غیروں کے طریقے اپنانا جائز ہے‘ جیسے توپ‘ بندوق اور ہوائی جہاز‘ موٹر اور مشین گن وغیرہ‘ کیونکہ شریعتِ اسلامیہ نے ایجادات کے طریقے نہیں بتلائے ‘ ایجادات اور صنعت وحرفت کو لوگوں کی عقل‘ تجربہ اور ان کی ضرورت پرچھوڑ دیا‘ البتہ اس کے احکام بتلادیئے کہ کونسی صنعت وحرفت جائز ہے اور کس حد تک جائز ہے۔ اسلام میں مقاصد کی تعلیم دی گئی ہے‘ اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایجادات ایسی نہ ہوں کہ جس سے تمہارے دین میں خلل آئے یا بلا سبب جان کا خطرہ ہو‘ اور وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جن کابدل مسلمانوں کے پاس نہیں۔ اور اگر وہ ایجادات ایسی ہوں کہ جس کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے تو اس میں تشبہ مکروہ ہے‘ جیسے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ا نے فارسی کمان کے استعمال سے منع فرمایا‘ اس لئے کہ اس کا بدل مسلمانوں کے پاس عربی کمان موجود تھی اور دونوں کی منفعت برابر تھی‘ صرف ساخت کا فرق تھا۔(سیرة المصطفی ۔ ج 3 ۔ ص 1۔4)۔

اسلام تعصب کا درس نہیں دیتا‘ بلکہ حمیت وغیرت سکھاتا ہے۔ پس جو چیز مسلمانوں کے پاس موجود ہے اور وہی چیز کفار کے پاس بھی ہے‘ محض وضع قطع کا فرق ہے تو ایسی صورت میں اسلام نے تشبہ بالکفار سے منع فرمایاہے‘ کیونکہ اس صورت میں بلاوجہ مسلمانوں کا دوسری قوموں کا محتاج ہونا نظر آتا ہے۔ ایک کام جائز اور مباح ہے‘لیکن کافروں کی مشابہت کی نیت اور دشمنانِ دین سے تشبہ کے قصد سے ہو تو شریعت ا س کو بھی منع کرتی ہے‘ کیونکہ دشمنان دین کے ساتھ تشبہ کی نیت سے کوئی کام کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اس کے دل میں کا فروں کی طرف میلان اور رغبت ہے‘ پس جس طرح کسی کو اپنے دشمنوں کے ساتھ تشبہ اور مشابہت گوارا نہیں‘ اسی طرح خداوند قدوس کو یہ گوارا نہیں کہ اس کے دوست اور اس کے نام لیوا یعنی مسلمان اس کے دشمنوں یعنی کافروں کی مشابہت اختیار کریں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے

”ولاترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار“۔ ( ہود ۔ 113)۔ ترجمہ: ”اور نہ جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لگے گی آگ“۔

اور کفار کی مشابہت سے یہ اندیشہ بھی ہے کہ تمہارے دل بھی ان کی دلوں کی طرح سخت نہ ہوجائیں اور کہیں قبولِ حق کی صلاحیت ہی نہ ختم ہوجائے۔ علامہ ابن حجر نے اپنی کتاب الزواجر عن افتراق الکبائر میں حضرت مالک بن دینار سے ایک نبی کی وحی نقل کی ہے:
”قال مالک ابن دینار: اوحی اللہ الی النبی من الانبیاء ان قل لقومک: لاتدخلوا مداخل اعدائی‘ ولایلبسوا ملابس اعدائی‘ ولایرکبوا مراکب اعدائی‘ ولایطعموا مطاعم اعدائی فیکونوا اعدائی کماہم اعدائی“۔ ( الزواجر عن افتراق الکبائر ج:۱‘ ص ۔ 11)
ترجمہ: ”مالک بن دینار کہتے ہیں کہ انبیاء سابقین میں سے ایک نبی کی طرف اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ آپ اپنی قوم سے کہہ دیں کہ میرے دشمنوں کی جگہوں میں نہ داخل ہوں اور نہ میرے دشمنوں جیسا لباس پہنیں اور نہ میرے دشمنوں جیسے کھانے کھائیں اور نہ میرے دشمنوں جیسی سواریوں پر سوار ہوں (ہر چیز میں ان سے ممتاز اور جدا رہیں) ایسا نہ ہو کہ ان کا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہونے لگے“۔
یہی مضمون قرآن کریم کی اس آیت میں بیان کیا گیاہے

ومن یتولہم منکم فانہ منہم“۔ (مائدہ ۔ 51)۔ یعنی جو کفار سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا

اور حدیث نبوی میں بھی ہے ۔ ۔من تشبہ بقوم فہو منہم“ ۔(ابوداؤد‘ج ۔ 2‘ص 559)۔ یعنی”جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“۔

دعویٰ اسلام کا ہے‘ مگر لباس‘ طعام‘ معاشرت‘ تمدن‘ زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام دشمنوں جیسا۔ جولوگ اسلام کے دشمنوں کی مشابہت کو موجب عزت اور باعث فخر سمجھتے ہوں‘ اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ ضرورت ہے اور نہ کوئی پرواہ۔ بلاضرورت کافر قوم کا لباس اختیار کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ معاذ اللہ! ہم زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں کہ لاؤ ہم بھی کافر بنیں‘ اگرچہ صورت ہی کے اعتبار سے کیوں نہ بن جائیں۔ میرے خیال میں لوگ انگریزی وضع قطع کو اس لئے اپناتے ہیں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ وضع قطع اہلِ حکومت اور اہل شوکت کی ہے اور جب ہم انگریزوں کے ہم شکل بنیں گے چاہے وہ لباس کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو تو عزت ملے گی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے‘ یہ عزت اور ذلت اللہ کے پاس ہے‘ جیساکہ ارشاد ہے

”ایبتغون عندہم العزة فان العزة للہ جمیعاً“۔(النساء ۔ 139)۔ ترجمہ: ”کیا ڈھونڈتے ہیں ان کے پاس عزت سو عزت تو اللہ ہی کے واسطے ہے ساری“۔

دوسری جگہ ارشاد ہے

وللہ العزة ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لایعلمون“۔(المافقون ۔ 8)۔ ترجمہ: ”اور زور تو اللہ کا ہے اور اس کے رسول کا اور ایمان والوں کا لیکن منافق نہیں جانتے“۔

الغرض جو کسی کا عاشق بنے گا اس کو معشوق کی چال ڈھال‘ وضع قطع‘سیرت وصورت اور لباس اپنانا پڑے گا‘ اب اختیار ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ا اور مؤمنین کے عاشق بن جاؤ یا یورپ کے عیاشوں اور اوباشوں کی معاشرت‘ تہذیب وتمدن اور رہن سہن کے طریقے اپنا کر اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کردو

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا

ماخذ ۔ ماہنامہ بينات