Category Archives: معاشرہ

نشانياں ہيں ۔ عقل والوں کيلئے

پھُول کی پَتّی سے کَٹ سکتا ہے ہِيرے کا جِگَر
مَردِ ناداں پہ کلامِ نَرم و نازک بے اَثر

سورت 28 ۔ القَصَص ۔ آيت 55 ۔ اور جب بیہودہ بات کان میں پڑتی ہے تو اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے ۔ تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے

سورت 6 ۔ الانعام ۔ آيت 68 ۔ اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں

سورت 4 ۔ النّسآء ۔ آيت 140 ۔ اور اللہ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حُکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اُڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کے ساتھ نہ بیٹھو ۔ جب تک کہ وہ اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں (ورنہ) تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو ۔ یقیناً اللہ تعالٰی تمام کافروں اور سب منافقین کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے‏

سورت 109 ۔ الکافِرون ۔‏ آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو ۔ نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو ۔ نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں ۔ اور نہ میں عبادت کرونگا جسکی تم عبادت کرتے ہو ۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں ۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے

سورت 103 ۔ العَصر ۔ زمانے کی قسم ۔ بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے ۔ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور (جنہوں نے) آپس میں حق کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی‏

سورت 2 ۔ البَقَرہ ۔ آيت 165 ۔ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر خدا کو شریک (خدا) بناتے اور ان سے خدا کی سی محبت کرتے ہیں لیکن جو ایمان والے ہیں وہ تو خدا ہی کے سب سے زیادہ دوست دار ہیں اور اے کاش ظالم لوگ جو بات عذاب کے وقت دیکھیں گے اب دیکھ لیتے کہ سب طرح کی طاقت خدا ہی کو ہے اور یہ کہ خدا سخت عذاب کرنے والا ہے

سورت 6 ۔ الانعام ۔ آيت 125 ۔ سو جس شخص کو اللہ تعالٰی راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے جس کو بےراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے ۔اس طرح اللہ تعالٰی ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کر دیتا ہے

سورت 10 ۔ يُونس ۔ آيات 90 تا 92 ۔ ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادہ سے چلا یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہنے لگا “میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں ۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں”
(جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے ؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا
سو آج ہم تیری لاش کو نکال لیں گے تاکہ تو پچھلوں کیلئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں

سورت 58 ۔ المجادلہ ۔ آيت 5 ۔ بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ ذلیل کئے جائیں گے جیسے ان سے پہلے کے لوگ ذلیل کئے گئے تھے اور بیشک ہم واضح آیتیں اتار چکے ہیں اور کافروں کے لئے تو ذلت والا عذاب ہے‏

سورت 52 ۔ الطُّور ۔ آيات 9 تا 13 ۔ جس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا ۔ اور پہاڑ چلنے پھرنے لگیں گے۔‏ اس دن جھٹلانے والوں کی (پوری) خرابی ہے۔‏ جو اپنی بیہودہ گوئی میں اچھل کود رہے ہیں ۔ جس دن وہ دھکے دے کر آتش جہنم کی طرف لائے جائیں گے‏

سورت 4 ۔ النِّسآء ۔ آيت 48 ۔ یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سواء جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا

مسلمانی کیا ۔ پاکستانیت کيا

جب میں مسلم ہموطنوں کے طور طریقوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو سوچتا ہی رہ جاتا ہوں
کھانے کو روٹی ملے نہ ملے مگر ناک اتنی اُونچی کہ ہر وقت کٹنے يا کہيں پھنسنے کا خدشہ

رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا اُمتی ہونے پر فخر مگر اطوار میں مشابہت برہمن سے ۔ کسی کو حقیر بتانا ہو تو تیلی ۔ جولاہا ۔ درزی ۔ کمہار ۔ لوہار ۔ دھوبی ۔ موچی ۔ ترکھان یا مزارع کہہ دیا

سوچتے نہیں کہ
تیلی نہ ہوتا تو مچھلی ۔ پکوڑے ۔ وغیرہ کس میں تل کر مزے لیتے ؟
جولاہا نہ ہوتا تو کیا یہ خود جولاہے بنتے یا ننگے پھرا کرتے ؟
درزی نہ ہوتا تو آئے دن کے بدلتے فيشنوں کے کپڑے کیسے پہنتے ؟
کمہار نہ ہوتا تو کھانا ہتھیلی یا درختوں کے پتوں پر رکھ کے کھاتے ؟
لوہار نہ ہوتا تو پیدل ہی چلا کرتے اور ابھی تک غاروں میں رہ رہے ہوتے
دھوبی نہ ہوتا تو اپنے تمام کپڑے خود ہی دھویا کرتے
موچی نہ ہوتا تو ننگے پاؤں کتنا چل پاتے ؟
ترکھان نہ ہوتا تو پلنگ ۔ صوفے ۔ کُرسیاں اور میز کہاں سے آتے ؟
مزارع نہ ہوتا تو پيٹ کو کيا پتھروں سے بھرتے ؟

جھاڑو لگانے اور کوڑا کباڑ اُٹھانے والے کو تو آدمی ہی نہیں سمجھتے
حالانکہ ہر آدمی روزانہ رفع حاجت کے بعد اپنے جسم سے گندگی اپنے ہی ہاتھ سے صاف کرتا ہے ۔ کیا یہ کام بھی کسی اور سے کراتے ہیں ؟
:lol:

کچھ ہموطن اپنی بڑھائی جتانے کے لئے اپنے وطن کی اشیاء کو بھی حقیر بتاتے ہیں

بچوں کو انگریزی نام کے سکول میں داخل کرايا جاتا ہے خواہ فیس پوری کرنے کے لئے جان لڑانی پڑے يا حرام کمانا پڑے
انگريزی ضرور بولنا ہوتا ہے خواہ ايک فقرہ بھی درست نہ بول سکيں
اپنے مُلک کی بنی چيز کو کوئی ولائتی کہہ کر بيچے تو دوگنا قيمت پر لينے کو تيار
مکئی کے پھُلے نہیں کھاتے مگر پوپ کورن کھاتے ہیں
:lol:

بہت لمبی فہرست ہے ۔ کہاں تک سُنيں گے ؟ کیا کیا بتاؤں ؟

اللہ کریم ہم سب کو حقیقت کو سمجھنے اور درُست فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اللہ کریم کے فضل اور اُسی کی دی ہی توفیق سے میں نے ہر قسم کا کام ایک بار ضرور کیا ہے ۔ اِس میں تیلی اور جولاہے کے کام [کہ جن کا موقع نہ ملا] کے سوا باقی سب کام شامل ہیں

غُربت ايک جُرم

کيا عوامی کہنے سے عوامی ہو جاتا ہے ؟ ہمارے مُلک اور تين صوبوں پر 3 عوامی جماعتوں کی حکومت ہے ۔ پاکستان پيپلز پارٹی يعنی پاکستان عوامی پارٹی ۔ عوامی نيشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ جو اپنے آپ کو حق پرست کہتے ہيں ۔ پچھلے 3 سال ميں اِن عوام کے غم خواروں نے جو عوام کے ساتھ سلوک کيا ہے اُس کی ايک ہلکی سی جھلک

وزارت سماجی بہبود کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 17 کروڑ 70 لاکھ ہے جس میں 11 کروڑ غریب ہیں يعنی 62.22 فيصد پاکستانیوں کی آمدن 170 روپے فی يوم یااس سے کم ہے ۔ ملک میں جب دال مونگ 150 روپے فی کلو ۔ دال مسور 95 روپے فی کلو ۔ چاول 90 روپے فی کلو ۔ آٹا 30 روپے فی کلو اور چائے 400 روپے فی کلو ہو تو پھر 170 روپے روزانہ آمدن والا شخص کیا خرید پائے گا ؟ اور اس سے کم آمدن والے پاکستانی جو 11 کروڑ کی بھاری اکثريت ہيں وہ کيا کر پائيں گے ؟

11 کروڑ پاکستانی دن بدن مزيد غربت کی پستیوں میں جائيں گے کیونکہ حکومت ہر دن 3 ارب روپے کے نوٹ چھاپتی ہے ۔ جب حکومت زيادہ نوٹ چھاپتی ہے تو افراط زر بڑھ جاتا ہے ۔ افراطِ زر بڑھنے سے ہر آدمی کی جیب میں موجود رقم کی قدر کم ہوجاتی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ 3 سال بعد مزيد 57 فیصد لوگ غربت ۔ بھوک و افلاس میں دھکیل دیئے گئے ہوں گے

لوگوں کو غربت کے جال میں پھنسانے کیلئے 4 عوامل اہم ہیں
تعلیم کی کمی
بدعنوان حکمرانی
سرمایہ کاری کا رُک جانا
داخلی جھگڑے

پاکستان میں یہ چاروں عوامل اپنا کردارادا کررہے ہیں اور اس سے بچنے کیلئے کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی ۔ چنانچہ 11 کروڑ غریب پاکستانیوں کی اکثریت ایسی غربت کا شکار ہوگئی ہے جو نسل در نسل چلتی ہے ۔ 10 سال بعد 2021ء میں جب پاکستان کی آبادی 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی اگر غربت کو بڑھنے سے نہ روکا گیا تو پاکستان میں غربت کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد 13 کروڑ ہوگی اور 2030ء تک یعنی 20 سال بعد پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہوگی اور اس میں 15 کروڑ غریب ہوں گے

تاریخی لحاظ سے پاکستان ايک کم افراط زر والا ملک رہا ہے ۔ صارفین کا انڈکس (سی پی آئی) 1999ء ۔ 2001ء اور 2002ء بالترتیب 3.58 فيصد ۔ 4.41 فيصد اور 3.54 فیصد ریکارڈ کیا گیا تھا ۔ پاکستانی کم افراط زر کے عادی رہے ہیں ۔ ماضی ميں انہوں نے کبھی دو ہندسوں میں افراطِ زر برداشت نہیں کیا ۔ موجودہ سال ميں افراطِ زر 22 فيصد تک پہنچ چکی ہے ۔ غریب ہونے میں مشکل یہ ہے کہ یہ غُربت غريب کا سارا وقت لے لیتی ہے ۔ مگر ایوان اقتدار کے لوگ اور ان کے رشتہ دار امیر تر ہوتے جارہے ہیں

ماخذ ۔ تحرير ڈاکٹر فرخ سلیم

بلاگ ۔ قاری اور مبصّر

ميں نے 2004ء ميں اپنا پہلا بلاگ بنايا اور باقاعدہ لکھنا شروع کيا ۔ 2005ء ميں اُسے صرف انگريزی کيلئے مُختص کر کے اپنا اُردو کا يہ الگ بلاگ بنا ليا ۔ مجھے ياد نہيں ميں نے انٹرنيٹ کے ذريعہ مضامين کا مطالعہ کب شروع کيا تھا البتہ بلاگز کا مطالعہ ميں 2002ء سے کرتا آ رہا ہوں ۔ ميں آج کی تحرير اسی تجربہ کی بنياد پر لکھ رہا ہوں

بلاگ

کسی اخبار يا دوسرے مجلّہ ميں “اداريہ” اس مجلّہ کے ادارہ يا مدير کا اپنا نظريہ ہوتا ہے ۔ ادارتی صفحہ پر باقی مضامين سے ادارے يا مدير کا متفق ہونا ضروری نہيں ہوتا

بلاگ لکھنے والے زيادہ تر اپنے خيالات ہی رقم کرتے ہيں ليکن بعض اوقات دوسروں کی رائے بھی تحرير کرتے ہيں
ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے بلاگ پر شائع کردہ تحرير سے وہ متفق نہ ہوں اور قارئين تک پہنچانے ” کہ ايسا بھی نظريہ ہے” يا قارئين کی اس بارے ميں آرا معلوم کرنے کيلئے کوئی تحرير لکھتے يا نقل کر ديتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے ہيں کہ وہ ہر تحرير کيلئے محنت اور مطالعہ کر کے تحرير کا مسئودہ تيار کرتے ہيں ۔ کچھ دن اس کی نوک پلک درست کرتے رہتے ہيں اور پھر شائع کرتے ہيں
کچھ بلاگر ايسے بھی ہيں کہ جنہوں نے خانہ پُری کرنا ہوتی ہے ۔ جو دماغ ميں آئے يا کہيں سے ملے چھاپ ديتے ہيں
چند ايک بلاگر ايسے ہيں جو لکھتے ہی دوسروں کو نيچا دکھانے کيلئے ہيں

قارئين

زيادہ تر قارئين صرف پڑھنے کا شغف رکھتے ہيں شايد اُن کا يا اُن کی اکثريت کا نظريہ صرف علم حاصل کرنا ہوتا ہے
کچھ سوالات پوچھ کر اپنا ذہن صاف کرتے ہيں
چند ايک ايسے قارئين بھی ہيں جن کا اُس وقت عِلم ہوتا ہے جب بلاگر کو کسی قسم کی مدد درکار ہوتی ہے اور وہ تبصرہ کے خانہ ميں مدد کی پيشکش کر ديتے ہيں
باقی قارئين مبصّرين ميں شامل ہيں

مبصّرين

مبصّر کئی قسموں کے ہيں

پہلی قسم ۔ کوئی تحرير اچھی لگے تو شکريہ لکھ ديتے ہيں يا تحرير کی تعريف کر ديتے ہيں

دوسری قسم ۔ تحرير کے متعلق مزيد معلومات حاصل کرنے کيلئے سوال کرتے ہيں

تيسری قسم ۔ تحرير کو سمجھے بغير سوال پوچھتے ہيں جبکہ اُن کے سوال کا جواب تحرير ہی ميں موجود ہوتا ہے

چوتھی قسم ۔ جو کچھ لکھا گيا اُس کے اُلٹ کے متعلق سوال کرتے ہيں

پانچويں قسم ۔ تحرير کی بجائے لکھنے والے پر سوال کرتے ہيں جس کی عمدہ مثال ميری صرف 25 الفاظ پر مشتمل مختصر تحرير “سب سے بڑا مسئلہ” پر کئے گئے 2 اعلٔی تعليم يافتہ قارئين کے تبصرے ہيں جنہوں نے يہ لکھنے کی بجائے کہ وہ اس سادہ واضح اور مختصر تحرير سے متفق ہيں يا نہيں ۔ پوچھا ہے کہ لکھنے والا کس کيٹيگری ميں ہے

چھٹی اور آخری قسم ۔ جو سب سے عجيب ہے ۔ ايسے مبصرين تعداد ميں صرف چند ہی ہوں گے مگر اکثر بلاگز پر تبصرے کرنا اپنا فرض سمجھتے ہيں ۔ يہ مبصّر اتنے سيانے ہيں کہ ان کی مثال ” لفافہ کھولے بغير خط کا جواب لکھ ديتے ہيں ” سے کم نہيں ۔ بلاگ ميں خواہ کچھ ہی لکھا ہو وہ اپنی ہی کوئی اختراع لکھ ديتے ہيں ۔ بلاگر سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ موصوف کيا کہنا چاہتے ہيں ۔ اس قسم کی مثال شايد ان دو کہانيوں سے واضح ہو جائے

پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے کہ ايک گورا نيا نيا ہندوستان آيا تھا ۔ اُس نے اپنے دوستوں کو کھانے پر مدعو کيا اور باورچی سے کہا ” آج رات سالم مرغی روسٹ کر کے ڈنر پر پيش کرو”۔ رات جب مہمانوں کے سامنے سب کھانے رکھے گئے تو اُسے يہ ديکھ کر شرمندگی محسوس ہوئی کہ مرغی کی ايک ٹانگ غائب ہے ۔ اگلے دن اُس نے باورچی کو بُلا کر پوچھا ” رات ڈنر ميں مرغی کا ايک ٹانگ کيا ہوا ؟”
باورچی جو ٹانگ کھا گيا تھا بولا ” صاب ۔ وہ مرغی ايک ٹانگ کا تھا ”
گورے نے کہا ” وہ کيسے ؟ ميں نے تو ايک ٹانگ کا مُرغی نہيں ديکھا ؟”
باورچی چالاک تھا بولا ” صاب ۔ ہوتا ہے ۔ ميں آپ کو دکھائے گا ”
اگلی باری روسٹ مرغی بنوانے کا سوچا تو گورا خود باورچی کے ساتھ مرغی خريدنے گيا ۔ راستہ ميں ايک مرغی ايک ٹانگ اُوپر اُٹھا کر دوسری ٹانگ پر کھڑی تھی
باورچی بولا ” صاب ۔ ديکھو ايک ٹانگ کا مرغی ”
گورے کے ہاتھ ميں چھڑی تھی ۔ اُسے مرغی کی طرف کر کے ہلايا تو مرغی دونوں ٹانگوں پر بھاگنے لگی ۔ گورے نے کہا ” کدھر ہے تمہارا ايک ٹانگ کا مرغی ؟”
باورچی بہت چالاک تھا ۔ ہار ماننے والا نہيں تھا ۔ کہنے لگا ” صاب ۔ اُس دن ڈنر پر بھی آپ چھڑی گھُماتا تو مرغی کا دوسرا ٹانگ نکل آتا ”

ايک بزرگ کے ہاں کچھ لوگ بيٹھے بابا فريد کی کافيوں [کلام] کی گہرائيوں کا جائزہ لے رہے تھے ۔ ايک شخص کسی ترقی يافتہ شہر سے آيا ہوا بيٹھا تھا ۔ اُس نے سوچا کہ ” ميں ان کم عِلم لوگوں سے کيسے پيچھے رہ سکتا ہوں “۔ اُسے يہ بھی معلوم نہ تھا کہ بابا فريد کون ہے مگر بات کرنا بھی ضروری تھی اور وہ بھی گاؤں سے متعلق ۔ جھٹ سے بولا ” راجہ صاحب کی بھينس نے لال رنگ کا بچھڑا جنا ہے”۔ سب لوگ بابا فريد کے فلسفہ کو بھُول کر حيران و پرشان اُس کی طرف ديکھنے لگ گئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ہم مسلمان ہيں ۔ بخشے جائيں گے

اس موضوع کے تحت ايک تحرير ميں 3 سال قبل لکھ چکا ہوں ۔ آج وہی موضوع دوسرے پہلو سے

عصرِ حاضر ميں اپنے آپ کو بہت پڑھا لکھا ۔ سائنس کے رموز سے بہراور اور جديد دنيا کے تقاضے جاننے کا دعوٰی رکھنے والے ۔ اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے لوگ اپنے معاملات اور اعتقادات کو سائنس اور جديد علوم کی کسوٹی پر پرکھنے کی بجائے اپنی پسند کی سان پر رگڑ کر چمکانے کی ناکام کوشش کيوں کرتے ہيں ؟ يہ بات آج تک کوئی واضح نہيں کر سکا ۔ اُردو بلاگستان پر بڑے بڑے لکھاری اور بڑے بڑے مبصر ہيں ليکن کبھی کسی نے اس گورکھ دھندے کو سُلجھانے کی کوشش نہيں کی ۔ کيوں ؟
شايد اسلئے کہ جو آج تک اُنہوں نے بھرم قائم کر رکھا ہے اُس کا راز افشاء ہو گيا تو بقول شاعر

بشر رازِ دلی کہہ کر ذليل و خوار ہوتا ہے
نکل جاتی ہے خُوشبُو تو گُل بيکار ہوتا ہے

ہم پی ايچ ڈی کی بات نہيں کرتے ۔ ماسٹرز کی بات نہيں کرتے ۔ سب سے آسان بات سکول کی ہے ۔ اسلئے پہلے سکول کی مثال ليتے ہيں ۔ ايک طالب علم ہے کوئی شرارت يا غلط حرکت کرتا ہے جس ميں کسی دوسرے طالب علم کو پِيٹنا ۔ کسی کی چيز چُرانا ۔ سکول کا کام گھر سے کر کے نہ لانا ۔ جب اُستاذ پڑھا رہے ہوں توجہ نہ دينا اِدھر اُدھر ديکھنا۔ وغيرہ شامل ہو سکتا ہے

ايسے طالب علم کو اُستاذ نے پکڑ ليا ہے ۔ سکول ميں ہر غلطی کی سزا پہلے سے مقرر ہے ۔ اب اُس طالب علم کو مقرر کردہ سزا ملے گی ۔ اگر وہ طالب علم معافی مانگے اور اُستاذ سے وعدہ کرے کہ آئيندہ ايسی غلطی نہيں کرے گا اور اس طالب کی غلطی کی وجہ سے کسی دوسرے کا نقصان نہيں ہوا يا وہ طالب علم نقصان پورا کر ديتا ہے پھر ہی اُستاذ اُسے مشروط معافی دے ديں گے کہ آئيندہ وہ ايسی غلطی نہيں کرے گا ۔ اس صورت ميں اگر وہ دوبارہ غلطی کرے گا تو سزا سے نہيں بچ سکے گا

دوسری مثال اپنے محلے کی ليتے ہيں ۔ دو لڑکے آپس ميں لڑ پڑتے ہيں ۔ ايک دوسرے پر اس قدر سخت وار کرتا ہے کہ دوسرا مر جاتا ہے يا اُسے گہرا زخم آ جاتا ہے ۔ کيا مرنے يا زخمی ہونے والے کے لواحقين يا پوليس يا عدالت قاتل يا مُجرم کو صرف يہ کہنے پر معاف کر ديں گے کہ “غلطی ہو گئی معاف کر ديں”؟ نہيں کبھی نہيں

حقيقت يہ ہے کہ ہم نام نہاد مسلمانوں کی اکثريت صرف اللہ کو مانتی ہے ۔ اللہ کا کوئی حُکم نہيں مانتی ۔ پھر بھی سينہ تان کر يا سينے پر ہاتھ مار کر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں

يہ ہماری روزمرہ کی عمومی دنيا ہے ۔ جب باری دين يعنی اللہ کے احکامات پر عمل کی آتی ہے تو پھر ہماری عقل جسے ہم عقلِ کُل سمجھتے ہيں وہ اس انتہائی احمقانہ انداز سے کيوں سوچتی ہے کہ
“اللہ بڑا رحمٰن و رحيم و کريم ہے ۔ ہم معافی مانگيں گے اور وہ معاف کر دے گا”
اور اُس کے بعد پھر ہم پہلے کی طرح خرافات کرتے رہيں گے ۔ پھر معافی مانگ ليں گے

ہماری بھاری اکثريت يہ عقيدہ کيوں رکھتی ہے کہ
“ہم مسلمان ہے اُمت سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم ہيں اُنہوں نے اپنی اُمت کی شفاعت کرنا ہے اور اللہ کے محبوب ہونے کی وجہ سے اللہ اُن کی شفاعت کو رد نہيں کر سکتا اسلئے ہم بخشے جائيں”

ہم يہ کيوں نہيں سوچتے کہ کيا ہم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی اُمت ہيں ؟
بات اُمت کی ہو رہی ہے قبيلے کی نہيں ۔ ايک شخص کی اُمت وہ لوگ ہوتے ہيں جو اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہيں ۔ کہاں لکھا ہے قرآن شريف ميں کہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے گا بخشا جائے گا ؟ قرآن شريف ميں بہت سی آيات مسلمان کہلانے کے ناطے اس طرح کی معافی کی نفی کرتی ہيں ۔ صرف ان چند اور مختصر آيات پر غور کيجئے

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 285 ۔ رسول اس کتاب پر جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور مومن بھی سب خدا پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں

سورت 7 ۔ الاعراف ۔ آيات 155 و 156 ۔ [سيدنا موسیٰ عليہ السلام نے کہا] ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تُو ہی ہمارا کار ساز ہے ۔ تو ہمیں [ہمارے گناہ] بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے ۔ اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی بھلائی لکھ دے اور آخرت میں بھی ۔ ہم تیری طرف رجوع ہو چکے ۔ فرمایا کہ جو میرا عذاب ہے اسے تو جس پر چاہتا ہوں نازل کرتا ہوں اور جو میری رحمت ہے وہ تمام اشیا پر محیط ہے ۔ وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکٰوت دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں

سورت 10 ۔ يونس ۔ آيت 9 ۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کو پروردگار ان کے ایمان کی وجہ سے راہ دکھائے گا

سورت 29 ۔ العنکبوت ۔ آيت 2 ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ؟

ٹائم مشين اور ہم

ميں گيارہويں يا بارہويں جماعت ميں پڑھتا تھا جب ميں نے ايچ جی ويلز کا 1895ء ميں چھپنے والا ناول “ٹائم مشين [Time Machine by H.G. Wells] پہلی بار پڑھا تھا ۔ اس پرمبنی مووی فلم پہلی بار 1960ء ميں نمائش کيلئے پيش کی گئی جو ميں نے بھی ديکھی تھی ۔ يہ قصہ ايک مشين کا تھا جس ميں بيٹھ کر آدمی ماضی يا مستقبل ميں سفر کر سکتا تھا ۔ مصنف ايک صدی سے زائد قبل مستقبل کا ايک ايسا نقشہ کھينچ گيا تھا جسے آج ميں اپنی آنکھوں سے ديکھ رہا ہوں

منظر کچھ يوں تھا کہ جب سائنسدان ٹائم مشين کے ذريعہ مستقبل ميں پہنچتا ہے تو ہرے بھرے باغ ۔ شفاف پانی کے چشمے اور ان کے کنارے ہنستے کھيلتے خوبصورت انسان ديکھ کر بہت لُطف محسوس کرتا ہے ۔ وہ اس کے سحر ميں مبتلا تھا کہ کسی عورت کے چيخنے کی آواز اُسے چونکا ديتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ ايک خوبصورت دوشيزہ پانی ميں گر گئیَ ہے اور مدد کيلئے پُکار رہی ہے ۔ وہ دور سے اُس کے گرد کے لوگوں کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر بے سود ۔ بھاگ کر چشموں کے بہتے پانی کے قريب پہنچتا ہے تو ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن قہقے لگانے ميں مصروف ہيں اور ڈوبتی دوشيزہ کی چيخ و پُکار کی کسی کو پرواہ نہيں ۔ وہ بھاگ کر دوشيزہ کی جان بچاتا ہے

ابھی وہ اسی بيگانگی کے متعلق حيران ہو رہا تھا کہ ايک سائرن کی آواز آتی ہے ۔ وہ ديکھتا ہے کہ سب مرد و زن اُس آواز کی طرف چل ديتے ہيں ۔ وہ اُن کے پيچھے جاتا ہے ۔ ايک جگہ جا کر وہ رُکتے ہيں ۔ وہ آگے بڑھ کر ديکھتا ہے کہ سامنے کے پہاڑ ميں ايک دروازہ کھُلتا ہے تو يہ لوگ اُس ميں داخل ہونا شروع کر ديتے ہيں ۔ کچھ مرد و زن کے داخل ہو جانے کے بعد دروازہ بند ہو جاتا ہے ۔ وہ پہاڑ کے اُوپر چڑھتا ہے اور ايک جگہ پر اُسے ايک سوراخ مل جاتا ہے وہ اس ميں داخل ہو کر کسی طرح اندر چلا جاتا ہے ۔ وہاں وہ ايک اور ہی دنيا ديکھتا ہے ۔ بہت ہی خوشحال قسم کے لوگ باہر سے اندر آنے والے لوگوں کا خون نکال کر اور ان کے گوشت پر تجربے کر رہے ہيں اور اس طرح ان کے جسم مکمل طور پر نابود ہو جاتے ہيں ۔ وہ کسی طرح باہر نکل آتا ہے

اگلی بار جب سائرن بجتا ہے تو وہ خوبصورت مرد و زن پھر اس پہاڑ کی طرف چل پڑتے ہيں ۔ وہ ايک ايک کو پکڑ کر سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اندر نہ جائيں وہاں اُنہيں ہلاک کر ديا جائے گا مگر کوئی اُس کی بات نہيں سُنتا اور سب آگے بڑھ جاتے ہيں

ميں آج اپنے ہموطنوں کا يہی حال ديکھ رہا ہوں کہ انہيں اپنے علاوہ کسی پر يقين نہيں ہے ۔ ارد گرد ہونے والے ظُلم بھی انہيں سنجيدہ نہيں کر پاتے اور سب اپنی مرضی سے مقتل کی طرف رواں دواں ہيں

اللہ ہميں ديکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والی عقل عطا فرمائے

وطن ۔ معاشرہ ۔ اور دہشتگردی

ميرا دماغ سُن ہے ۔ پچھلی 2 راتيں سو نہيں سکا ۔ سوچ سوچ کر درد سے سر پھٹا جا رہا ہے ۔ ميرے رب ۔ يہ زمين کيوں نہيں پھٹ جاتی ؟ کيا قيامت آنے سے قبل اس سے زيادہ بھی کچھ ديکھنا باقی ہے ؟

اخروٹ آباد ميں 2 مردوں اور 3 عورتوں جن ميں ايک 7 ماہ کی حاملہ تھی کے محافظينِ عوام کے ہاتھوں بيہيمانہ قتل کی ابتدائی تحقيقات بھی ابھی مکمل نہيں ہوئيں کہ کراچی کے پُر رونق علاقہ ميں ايک نوجوان کو عوام کے محافظين نے نہائت سفّاکی کے ساتھ قتل کر ديا ۔ ميں سوچتا ہوں کہ کلفٹن کا علاقہ جہاں آدھی رات تک گہما گہمی رہتی ہے وہاں مقتول ۔ 6 وردی والوں اور دلير کيمرہ والے کے علاوہ کوئی انسان موجود نہ تھا کہ اس بے بس نوجوان کی جان بچانے کی کوشش کرتا ؟ کيا ميرے سب ہموطن اپنے جسم کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے اہل نہيں رہے ؟ اس لحاظ سے تو لاہوری قابلِ تحسين ہيں کہ اُنہوں نے ريمنڈ ڈيوس کو گھير کر پوليس کے حوالے کر ديا تھا ورنہ وہ دو جوانوں کو ہلاک کرنے کے بعد بھاگ گيا ہوتا

اگر کوئی فرد يا ادارہ برائی پھيلاتا ہے تو اس کا يہ مطلب نہ لينا چاہيئے کہ جو کام وہ اچھا کرے اُسے بھی بُرا سمجھ کر اس کی تعريف نہ کی جائے ۔ ہمارے مُلک کے ذرائع ابلاغ بلاشبہ بُرائيوں کے فروغ ميں ممد رہے ہيں مگر دورِ حاضر ميں لائقِ تحسين ہے اِن کا ايک کردار کہ صحافی اپنی جانوں کو خطرہ ميں ڈال کر اور اپنی جانوں کی قربانی دے کر اپنے مُلک کے بے سُدھ عوام کو حقائق تک رسائی دے کر نيند يا نشہ سے جنجوڑنے کی ارادی يا غير ارادی کوشش کر رہے ہيں

ميں پچھلی 4 دہائيوں سے ديکھتا آ رہا ہوں کہ ميرے ہموطنوں کی اکثريت اُسے دہشتگرد کہتی ہے جسے امريکا دہشتگرد کہے ۔ نہ کوئی تاريخ ميں دلچسپی رکھتا ہے اور نہ حقيقت کی جُستجُو کہيں نظر آتی ہے ۔ معاشرہ خود غرضی کی پٹڑی پر چڑھ چکا ہے ۔ بُغظ اور تعصب کی عينک پہن رکھی ہے ۔ دو ٹکے زيادہ کما ليتے ہينں تو سمجھتے ہيں کہ انسان بن گئے ۔ انسان بننے کے تقاضے کيا ہيں ؟ اس سے اُنہيں کوئی دلچسپی نہيں ہے ۔ صرف زبانی بيان بازی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر پھولے نہيں سماتے ۔ اگر طالبان ۔ القاعدہ ۔ مُلا اور ہر مسجد ميں جانے والے کو گالياں اور بد دعائيں دينے کی بجائے موجودہ حالات کے سبب کی تلاش کرتے تو شايد ہمارا مُلک ان حالات سے دو چار نہ ہوتا جيسا اب ہے ۔ کسی نے اتنا بھی سوچنے کی زحمت نہ کی کہ صرف 8 سال قبل ايسا کچھ نہ تھا تو پھر يہ حالات کيونکر پيدا ہوئے کہ انسانی بم انسانوں کی موت کا سبب بننے لگے ؟

سُنا اور پڑھا بھی يہی تھا کہ عِلم آدمی کو انسان بناتا ہے اور عِلم کی ضد آدمی کو وحشی ۔ اللہ کے فرمان اور اس کی نبيوں عليہم السلام کے ذريعہ مہياء کی گئی عملی تربيت سے معلوم ہوا کہ صرف عِلم نہيں بلکہ عِلمِ نافع آدمی کو انسان بناتا ہے ورنہ عِلم آدمی کو درندہ بنا سکتا ہے ۔ اس فلسفہ کی شايد سمجھ نہ آتی اگر ميں دورِ حاضر سے قبل ہی اس دنيا سے چلا جاتا

پچھلے چند ہفتوں ميں منظرِ عام پر آنے والے اخروٹ آباد اور کراچی کے واقعات کو ذہن ميں رکھ کر بلوچستان ۔ مالاکنڈ ۔ سوات اور باجوڑ وغيرہ پر غور کيا جائے تو ايک واضح تصوير سامنے آتی ہے کہ دہشتگرد کيسے اور کيونکر پيدا ہوئے ؟ اگر ايک کمسِن لڑکے کے ماں باپ اور بہن بھائی گھر ميں بيٹھے يا سوئے ہوئے اچانک کسی فوجی کاروائی يا ڈرون سے پھينکے گئے مزائل کے نتيجہ ميں ہلاک ہو جائيں تو کيا وہ بچہ پھولوں کے ہار لے کر دوسروں کو پہنانے جائے گا يا پہلا موقع ملتے ہی جس کسی کو دشمن سمجھے گا ہلاک کر دے گا خواہ اس کيلئے اُسے اپنے جسم کو ہی بم بنانا پڑے ؟

صرف حکومت کو بُرا کہنے سے کوئی آدمی بری الذمہ نہيں ہو جاتا ۔ گو ہمارے ہاں رواج ہو گيا ہے کہ حکومت ميں شامل ہوتے ہوئے عوام کو بيوقوف بنانے کيلئے ذرائع ابلاغ کے سامنے تقارير کی جاتی ہيں کہ “ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہيں ۔ يہ وہ يہ ۔ وغيرہ”۔ [My Foot] ۔ جس عمل کا مطالبہ عوام کے سامنے کرتے ہيں وہ اگر حکومت ميں ہوتے ہوئے پورا نہيں کر سکتے تو حکومت ميں کس لئے شامل ہيں ؟ وزاتيں چھوڑيں اور حزبِ اختلاف ميں شامل ہو کر مطالبات کريں

درست کہ 3 کروڑ 70 لاکھ جعلی ووٹوں کا اندراج کر کے پرويز مشرف نے کيو ليگ ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کو زيادہ نشستيں حاصل کرنے کے قابل بنايا ۔ [ن ليگ ميرے چچا کی نہيں ہے ۔ وہ ان دنوں زيرِ عتاب تھی] مگر سب لوگ تو جعلی ووٹوں سے کامياب نہيں ہوئے ہونگے ۔ جن اصلی ووٹروں نے کامياب ہونے والے حکمرانوں کو ووٹ ديئے وہ بھی موجودہ حالات کے ذمہ دار ہيں ۔ بات صرف اتنی نہيں ہے ۔ جن ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کی زحمت گوارہ نہيں کی وہ سب سے بڑے مجرم ہيں موجودہ حالات کے کيونکہ وہ اکثريت ميں ہيں

حکومت اور انتخابِ حکومت کے علاوہ بھی تو عوام کے روز مرّرہ کے فرائض ہيں مگر حالت يہ ہے کہ اپنے جائز حقوق اور ناجائز خواہشات حاصل کرنے کيلئے ناجائز ذرائع کو درست سمجھا جاتا ہے مگر دوسرے کے حق کو نہ صرف نظر انداز کيا جاتا ہے بلکہ دوسرے کا حق چھيننے کو ہوشياری اور عقلمندی [Tactfulnees & wisdom] کا نام ديا جاتا ہے ۔ معاشرے ميں بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ سامنے ايک آدمی ظلم کا شکار ہو رہا ہو تو اُسے بچانے کی بجائے کھڑے ہو کر اس ظُلم سے محظوظ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ايسی بھيڑ ميں کچھ لوگ ٹھٹھا کرتے بھی ديکھے جاتے ہيں ۔ دوسری طرف حالت يہ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ايک تا ايک درجن بسيں جلا دی جاتی ہيں اور دوسری املاک کو بھی نقصان پہنچايا جاتا ہے ۔ مگر دعوے انسان دوستی اور حق پرستی کے کئے جاتے ہيں

يا ميرے مالک و خالق ۔ اے مجھ پر ہميشہ اپنا کرم کرنے والے ميرے اللہ ۔ قبل اس کے کہ ميں ايسے خبيث معاشرے کا حصہ بن جاؤں مجھے اس دنيا سے اُٹھا لينا

تُو رحيم و کريم ہے مگر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت تيرے غلاموں کے اوقات