دوسرے ممالک کے مُسلمانوں کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میرے ہموطنوں کی بھاری اکثریت کو یہ یقین ہے کہ
“ہم مُسلمان ہیں ۔ ہم بخشے جائینگے”
دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیاوی کاموں میں ایسے لوگوں کا نظریہ بالکل اس کے بر عکس ہے ۔ ذہین سے ذہین طالب علم کے متعلق بھی یہ کوئی نہیں کہے گا کہ وہ بغیر تمام مضامین اچھی طرح سے پڑھے کامیاب ہو جائے گا ۔ یا کوئی شخص بغیر محنت کئے تجارت میں منافع حاصل کرے گا ۔ یا بغیر محنت سے کام کئے دفتر میں ترقی پا جائے گا
قرآن شریف کے ذریعہ عمل کیلئے دیئے گئے تمام احکامات کے ساتھ کوئی نا کوئی شرط ہے جس کی وجہ سے کُلی یا جزوی یا وقتی استثنٰی مِل جاتا ہے سوائے نماز کے جس کی سوائے بیہوشی کی حالت کے کسی صورت معافی نہیں ۔ ہمارے ہموطن ایسے بھی ہیں جو نماز نہیں پڑھتے اور دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں اور چونکہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اسلئے اُنہیں کوئی کچھ نہیں سِکھا سکتا ۔ کیا اس سائنسی دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ ریاضی اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی ریاضی دان بن جائے یا کیمسٹری اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی کیمسٹ بن جائے ۔ علٰی ھٰذالقیاس ؟
اگر ہم اللہ کی کتاب کا بغور مطالعہ کریں تو ہم ہر لغو خیال سے بچ سکتے ہیں ۔
سُورة 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیۃ 45 ۔ اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّہِ أَكْبَرُ وَاللَّہُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔
ترجمہ ۔ جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھیں اور نماز قائم کریں ۔ یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ۔ بیشک اﷲ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اﷲ خبردار ہے
تبصرہ ۔ اگر نماز پڑھنے والا بے حیائی اور بُرائی میں ملوث رہتا ہے تو اس میں نماز کا نہیں بلکہ نماز پڑھنے والے کا قصور ہے یعنی وہ نماز صرف عادت کے طور پر یا بے مقصد پڑھتا ہے ۔ نماز میں جو کچھ پڑھتا ہے اُسے سمجھ کر نہیں پڑھتا ۔
مسلمان ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے اُس کا ہر عمل اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ہو اور اللہ ہی کی خوشنودی کیلئے ہو یہاں تک کہ وہ مَرے بھی تو اللہ کی خوشنودی کیلئے ۔
سُورۃ ۔ 6 ۔ الْأَنْعَام ۔ آیۃ ۔ 162 ۔ قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ ۔ کہہ دیں کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اﷲ ہی کا ہے جو سارے جہانوں کا مالک ہے
سورۃ ۔ 29 ۔ الْعَنْکَبُوْت ۔ آیۃ 2 ۔ أحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَھمْ لَا يُفْتَنُونَ
ترجمہ ۔ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھ ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے ۔
تبصرہ ۔ یہاں آزمانے سے مُراد امتحان لینا ہی ہے جس میں کامیابی کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیسے ہر دنیاوی کام یا علم کیلئے امتحان اور مشکل مراحل میں صبر و تحمل اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر ہم دین کو اس سے مستثنٰی کیوں سمجھتے ہیں ؟
سورة ۔ 2 ۔ الْبَقَرَة ۔ آیۃ 208 ۔ يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
ترجمہ ۔ اے ایمان والو ۔ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو ۔ بیشک وہ تمہارا کھُلا دشمن ہے
وضاحت ۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے تمام احکامات کی پابندی کرو ۔
حرفِ آخر ۔ میں نے مُسلمان کے فرائض کا احاطہ نہیں کیا وہ پوری زندگی ۔ سلوک اور لین دین کے متعلق ہیں اور قرآن شریف میں واضح طور پر مرقوم ہیں ۔