Category Archives: معاشرہ

محبت اور میں ؟

آشنائی والے اسد حبیب صاحب نے ”محبت کیا ہے“ کے عنوان سے مباحثہ کی صورت میں لکھا ۔ اسد حبیب صاحب کبھی کبھی لکھتے ہیں لیکن لکھتے خوب ہیں ۔ میں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ کی بناء پر تبصرہ لکھا ”محبت واقعی ایک فرضی نام ہے جو اُنس کو دیا گیا ہے ۔ البتہ کہتے ہیں جسے عشق وہ خلل ہے دماغ کا ۔ اُنس ہونے کیلئے کسی ایسی حرکت کا ہونا ضروری ہے جو دوسرے پر اثر چھوڑ جائے ۔ پھر اگر ملاقات بالمشافہ یا کسی اور طریقہ سے جاری رہے تو یہ اُنس بڑھ جاتا ہے اور اسے محبت کا نام دیا جاتا ہے“۔ متذکرہ تحریر پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں ماضی گھوم گیا ۔ آج سوچا کہ اسے قرطاس پر بکھیر دیا جائے

سن 1954ء یا 1955ء کی بات ہے جب میں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ میرے بچپن کا ایک دوست راولپنڈی آیا ہوا تھا ۔ اس نے ایک خط مجھے تھما کر کہا”پڑھو“۔ خط ایک لڑکی کی طرف سے تھا ۔ کوئی عشقیہ بات نہ تھی صرف واپسی کا تقاضہ کیا تھا ۔ میں نے پڑھ کر دوست کی طرف دیکھا تو وہ بولا ”ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ۔ پتہ نہیں آگے کیا ہو گا“۔ میں نے اُسے حوصلہ دیتے ہوئے مشورہ دیا ”محنت کرو ۔ جلد کمانے لگ جاؤ اور شادی کر لو ۔ کوئی مشکل ہو تو مجھے بتانا”۔ میرے علم کے مطابق وہ دونوں عشق میں مبتلاء نہیں ہوئے ۔ شادی کے بعد آج تک مزے میں ہیں

بات ہے سن 1958ء اور 1965ء کے درمیان کی ۔ ایک نوجوان کو ایک لڑکی سے بقول اُس کے اتنی محبت ہو گئی (عشق کہہ لیجئے) کہ اُس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا تھا ۔ مجھے والدین سے بات کرنے کا کہا ۔ میں نے اس کی والدہ سے بات کی ۔ بعد میں اس کے والد نے مجھے کہا ” اُسے کہو ۔ محنت کرے اور پہلے کسی قابل بنے”۔ چند سال بعد اسے کسی دوسری لڑکی سے عشق ہو گیا ۔ پھر وہی ہوا جو پہلے ہوا تھا ۔ تیسری لڑکی جس سے اُس کی شادی ہوئی مجھے نہیں معلوم بنیاد عشق تھی یا نہیں

میں جب انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو ایک ہمجماعت ہر ماہ میں ایک یا دو بار میڈیکل کالج کی ایک لڑکی سے ملنے جاتا تھا ۔ تین سال بعد ہمارے آخری سال کے تحریری امتحان ختم ہو چکے تھے عملی ابھی باقی تھے ۔ ہم ہوسٹل کے صحن میں بیٹھے تھے کہ اُس لڑکے کا بہترین دوست آیا اور اُسے کوسنے سنانے لگا ۔ معاملہ پوچھا گیا تو بولا ”یہ انسان نہیں ہے ۔ میں نے اسے دوست بنا کر زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ۔ جس لڑکی کے ساتھ یہ ملتا تھا اُس سے مجھے بھی متعارف کرایا تھا ۔ میں شہر گیا ہوا تھا تو سوچا کہ اسے اللہ حافظ کہتا جاؤں ۔ میں وہاں پہنچا تو وہ زار و قطار رو رہی تھی ۔ پوچھا تو بتایا ”میں نے ۔ ۔ ۔ کو کہا کہ اب تم یہاں سے چلے جاؤ گے تو رابطہ ممکن نہیں ہو گا ۔ اسلئے تم اپنے والدین سے کہو کہ میرے والدین سے بات کریں”۔ لڑکے نے بات جاری رکھی ”اِس سُوّر نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا جو بغیر کسی رشتہ کے غیر لڑکے (میرے) کے ساتھ ملتی رہی”۔

سن 1970ء میں ایک لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہو گئی ۔ جب اس کے والدین نے اس کی شادی کا سوچا تو اس نے اس لڑکی کا بتایا ۔ باپ مان گیا لیکن ماں نے صاف نکار کر دیا ۔ لڑکے کے زور دینے پر ماں نے کہا ”یا وہ اس گھر میں ہو گی یا میں ۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے“۔ اس لڑکی کی جس سے شادی ہوئی شریف اور محنتی ہے اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے پاس دولت کی ریل پیل ہے

سن 1996ء کا واقعہ ہے ایک لڑکی نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف ایک لڑکے سے محبت کی شادی کر لی اور اُس کے ساتھ دساور چلی گئی ۔ شادی کے پانچ سال بعد لڑکی نے خود لڑکے سے طلاق لے لی اور واپس پاکستان آ گئی ۔ شاید وہ اُس کے خوابوں کا شہزادہ ثابت نہ ہوا تھا

اکیسویں صدی میں دو جوڑوں کی ملاقات فیس بُک پر ہوئی اور چلتے چلتے والدین تک پہنچی تو شادیاں ہو گئیں ۔ دونوں جوڑے مزے میں رہ رہے ہیں ۔ ایک جوڑا ملک سے باہر بس گیا ہے ۔ دوسرا لاہور میں ہے جن سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی ہے ۔ میاں بیوی دونوں ہی بہت ملنسار اور ہنس مُکھ ہیں

آپ یہاں میری کہانی پڑھنے آئے ہوں گے ۔ چلیئے بتائے دیتے ہیں ۔ کیا یاد رکھیں گے ۔ میں جب بر سرِ روزگار ہو گیا تو میری والدہ نے میرے بہترین دوست سے پوچھا ”اجمل کو کوئی لڑکی پسند ہے ؟“ اُس نے جواب دیا ”توبہ کریں خالہ ۔ جب ہم گارڈن کالج میں پڑھتے تھے تو کئی لڑکیاں چاہا کرتیں کہ یہ اُن سے بات ہی کر لے ۔ مجال ہے اس نے اُنہیں حوصلہ بخشا ہو“۔

دراصل میرے ماتھے پر جلی حروف میں کچھ لکھا ہے جسے کچھ لوگ ”بیوقوف“ پڑھتے ہیں اور کچھ ”نیک بچہ“۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ گارڈن کالج میں چند بار لڑکیوں نے مجھے کسی لڑکے سے کتاب یا کاپی لے کر دینے کا کہا یا پروفیسر صاحب کی معرفت کہا کہ فلاں پریکٹیکل کروا دوں ۔ مجھے اُن لڑکیوں کی شکلیں یاد نہ رہیں ۔ نام تو کچھ کا معلوم ہی نہیں تھا ۔
جب ہم انجنیئرگ کالج میں پرھتے تھے تو میوزک کنسرٹ ہوا ۔ چند لڑکوں نے کوشش کر کے اپنے ذمہ خواتین کا استقبال لیا ۔ مجھے ایک اعلٰی عہدیدار کا استقبال سونپا گیا جس کیلئے میں گیٹ کے قریب استقبالیوں سے کچھ پیچھے کھڑا تھا ۔ لڑکیوں کا ایک غول آیا ۔ میں نے دوسری طرف منہ کر لیا ۔ وہ لڑکے آگے بڑھے مگر لڑکیوں نے ”نہیں شکریہ“ کہہ دیا ۔ وہ مجھ سے گذرنے کے بعد میری طرف گھومیں اور ایک بولی ”پلیز ۔ ذرا ہمیں گائیڈ کر دیجئے“۔ میں نے کہا ”یہ اسقبالیہ والے ہیں ان کے ساتھ چلی جایئے“۔ دو تین بولیں ”آپ کیوں نہیں لیجاتے“۔ میں چل پڑا اور آگے جا کر شامیانے پر استقبال کرنے والے سے کہا ”انہیں بٹھا دیجئے“۔ اور لپک کر گیٹ پر پہنچا کہ کہیں مہمان نہ پہنچ گئے ہوں ۔ اُس کے بعد کئی دن تک میرا ریکارڈ لگتا رہا کہ کس اُجڈ کے پاس لڑکیاں جاتی ہیں
کچھ عرصہ بعد مجھے شہر میں دو تین جگہ کام تھا ۔ کالج کا کام ختم کر کے میں عصر کے بعد ہوسٹل سے نکلا اور بس پر شہر پہنچ کر قلعہ گوجر سنگھ اُترا ۔ وہاں کا کام کر کے پیدل میکلوڈ روڈ ۔ مال ۔ انارکلی اور شاہ عالمی سے ہوتا ہوا جب ریلوے سٹیشن کے سامنے لوکل بس کے اڈا پر پہنچا تو رات کے ساڑھے 10 بجے تھے اور بسیں بند ہو چکی تھیں ۔ سیڑھی پل گیا اور ریلوے سٹیشن کو عبور کر کے دوسری طرف جی ٹی روڈ پر ٹانگوں کے اڈا پر پہنچا ۔ وہاں کوئی ٹانگہ باغبانپورہ کی طرف جانے کو تیار نہ تھا ۔ میں تھک چکا تھا مگر سوائے پیدل چلنے کے کوئی حل نہ تھا ۔ جب ہمارا ہوسٹل ڈھائی یا تین کلومیٹر رہ گیا تو ٹانگوں میں چلنا تو ایک طرف کھڑے ہونے کی سکت نہ رہی ۔ گھڑی دیکھی رات کے ساڑھے 12 بجے تھے ۔ میں بیٹھنے کیلئے ادھر اُدھر کوئی سہارا دیکھ رہا تھا تو ایک کار آ کر رُکی ۔ شیشہ کھُلا اور زنانہ آواز آئی ۔ میں سمجھا کہ کسی جگہ کا راستہ پوچھ رہی ہیں ۔ قریب ہو کر پوچھا تو جواب ملا ”آپ کہاں جا رہے ہیں ؟ بیٹھ جایئے میں پہنچا دیتی ہوں“۔ میں بغیر سوچے سمجھے پچھلا دروازہ کھولنے لگا تو بولیں ”ادھر فرنٹ سیٹ پر ہی بیٹھ جایئے“۔ جب گاڑی چلی تو بولیں ”میں گذر جاتی مگر خیال آیا کہ کوئی مجبوری ہو گی جو اس وقت آپ پیدل جا رہے ہیں“۔ میں ٹھہرا ارسطو کا شاگرد بولا ”آپ کا بہت شکریہ مگر دیکھیئے بی بی ۔ آج آپ نے یہ بہادری دکھائی ۔ آئیندہ ایسا نہ کیجئے گا ۔ کچھ پتہ نہیں ہوتا کب شیطان سوار ہو جائے“ ہوسٹل کا گیٹ آیا ۔ کار کھڑی ہوئی اور میں شکریہ ادا کر کے اُتر گیا ۔ غلطی یہ ہوئی کہ ایک دوست کے رات دیر سے آنے کے استفسار پر احوال بتا دیا چنانچہ میرا ریکارڈ کئی دن لگتا رہا
اصل میں طلب اور رسد (Supply and Demand) کا کُلیہ ہر جگہ منطبق ہوتا ہے ۔ میں لڑکیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا تو لڑکیاں میری طرف متوجہ ہوتی تھیں ۔ جو لڑکیوں کے پیچھے جاتے ہیں لڑکیاں اُن سے دور بھاگتی ہیں

میں بہت دُور نکل گیا ۔ خیر ۔ میری امی کو تسلی نہ ہوئی ۔ اُنہوں نے مجھ سے پوچھا ”تم اپنی امی کو نہیں بتاؤ گے کہ تم کس سے شادی کرنا چاہتے ہو ؟“
میں نے کہا ”امی ۔ جو لڑکی آپ پسند کریں گی وہ بہترین ہو گی“۔
دو تین دن بعد والد صاحب نے مجھ سے پوچھا “تم کس سے شادی کرنا پسند کرو گے ؟“
میں نے کہا ”جس سے آپ شادی کر دیں گے“۔
پھر اُنہوں نے کہا ”تمہاری بڑی خالہ کی بیٹی ؟“
میں نے کہا ”اُن کی سب بیٹیاں اچھی ہیں“۔
خالہ کی بڑی بیٹی کی شادی ہو چکی تھی ۔ اُس سے چھوٹی سے میری شادی ہو گئی ۔ میرے اللہ نے مجھے سچا کر دکھایا کہ میرے والدین کی پسند میرے لئے زندگی کا بہت بڑا تحفہ ثابت ہوئی ۔ اللہ کے فضل سے دنیاوی اور دینی دونوں تعلیمات سے آراستہ ہونے کے ساتھ خوبصورت ۔ خوب سیرت ۔ پیار اور احترام کرنے اور توجہ دینے والی ہے اور کبھی مجھ پر کسی لحاظ سے بوجھ نہیں بنی ۔ مشکل حالات میں نہ صرف میرا بھرپور ساتھ دیا بلکہ میرا حوصلہ بھی بڑھاتی رہی ۔ اس لحاظ سے میں اپنے آپ کو دنیا کے چند خوش قسمت مردوں میں سمجھتا ہوں

نتیجہ ۔ سکون نہ تو دولت سے ملتا ہے اور نہ عشق و محبت سے بلکہ اچھی ماں کے بعد اچھی بیوی بہم پہنچاتی ہے

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں ستمبر 1965ء سے دسمبر 1971ء کے اپنے تجربوں کو ؟

ستمبر 1965ء
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب لاہوريئے پلاؤ کی ديگيں پکوا کر محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا اور بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں تھیں
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا ”آپ کا جو کام ہے وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں“۔
خطرے کا سائرن بجنے پر کارکن ورکشاپوں سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے اندر جا کر اُنہیں باہر نکلنے کا کہا تو جواب ملا ”سر مرنا ہوا تو باہر بھی مر جائیں گے ۔ ہمیں کام کرنے دیں ہماری فوج کو اسلحے کی ضرورت ہے“۔
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا
جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچ ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

پھر ناجانے کس کی بُری نظر یا جادو کام کر گیا اور ۔ ۔ ۔

ملک میں ایک جاگیردار وڈیرے نے مزدروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر ایسا اُبھارا کہ دنیا بدل گئی
خاکروبوں نے سرکاری کوٹھیوں پر نشان لگانے شروع کئے کہ یہ میری ہو گی یہ تیری ہو گی
سکول کالج کے اساتذہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی بے عزتی کرنا آزادی کا نشان بن گیا
کالجوں میں داخل لڑکوں نے پڑھائی پر جلوسوں کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی ٹریفک لائیٹس ۔ سٹریٹ لائیٹس اور گھروں یا دکانوں کے شیشے اُن کی گذرگاہ کا پتہ دیتے

دسمبر 1971ء
دسمبر 1971ء میں بھارت نے پھر پاکستان پر حملہ کر دیا
کارکنوں کے ساتھ مل کر خندقیں کھودنے کی پیشکش کی تو جواب ملا ”آپ خود کھودیں یا ٹھیکے پر کھدوائیں ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے”۔
دوسرے دن صبح اکثر کارکنوں نے یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا ایک نام نہاد نمائندہ بولا ”افسر دولتمند ہیں ۔ مر جائیں گے تو بیوی بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ہم مر گئے تو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ آپ کام کریں ہم ورکشاپ کے اندر نہیں جائیں گے“۔

فی زمانہ تو حالات مزید دِگرگوں ہو چکے ہیں

يا اللہ ۔ وہ ستمبر 1965ء والے دن پھر سے لادے
یا اللہ ۔ میرے ہموطنوں کو عقلِ سلیم عطا فرما دے
يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پہچان

کسی چیز کی قدر دو وقت ہوتی ہے
ملنے سے پہلے اور کھونے کے بعد

لیکن

اس کا اصل مقام وہ ہے
جب وہ پاس ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”ڈرون حملوں میں مرنے والے کون ہوتے ہیں

عقيدت و تقليد

عام طور پر میں رات کو 10 بجے تک سو جاتا ہوں اور صبح فجر کی نماز سے قبل اُٹھتا ہوں ۔ 20 اور 21 اگست کے درمیان آدھی رات کو میرے موبائل فون نے ٹن ٹن ٹن ٹن کیا یعنی 2 پیغام آئے ۔ میری نیند کھُل گئی لیکن پیغام میں نے صبح ہی پڑھا ۔ لکھا تھا ”تقلید فرض ہے واجب ہے یا مستحب“۔ میں نے جواب دیا ”رسول اللہ ﷺ نے تقلید سے منع کیا ہے ۔ اس کا سبب ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا ”کیا پڑھ رہے تھے ؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کو پڑھتے دیکھا تھا“۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میری تقلید نہ کرو ۔ کبھی پڑھو ۔ کبھی نہ پڑو“۔

لُغوی معنی سے قطع نظر ميں صرف اُن عوامل کی بات کرنا چاہتا ہوں جسے عام طور پر تقليد يا عقيدت کا نام دیا جاتا ہے مگر پہلے دو مثاليں

ايک گڈريا کہہ رہا ہے “ميرے سوہنے ربّا ۔ تو ميرے پاس ہو تو میں تمہارا سر اپنی بکری کے دودھ سے دھو کر تمہارے بالوں کی مِينڈياں بناؤں”۔ سيّدنا موسٰی عليہ السلام نے اُسے منع کيا تو وحی آئی کہ ”ميرے بندے کو جس طرح مجھے ياد کرتا ہے کرنے دے“۔

شايد بابا بھُلے شاہ کا شعر ہے

کنجری بنياں ميری ذات نہ گھٹدی مينوں نچ نچ يار مناون دے

ميرے خيال ميں متذکرہ بالا مثالیں تقليد کيلئے نہيں ہيں ۔ کیا تقليد کا يہ مطلب ہے کہ متذکرہ بالا مثالوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم گڈريئے کی طرح اللہ کو یاد کريں یا پھر ناچنا اپنا شعار بنا ليں ؟

ايک جملہ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے “فلاں کی برسی بڑی عقيدت و احترام سے منائی گئی”۔ اس ميں عقيدت سے کيا مُراد ہے ؟ کیا برسی منانا دین اسلام کا حصہ ہے ؟

پچھلی پانچ دہائيوں کے دوران تقليد اور عقيدت کے نام پر ايسے عمل مشاہدہ میں آئے کہ توبہ استغار ہی کرتے بنی ۔ کسی کی قبر کی طرف سجدہ کرنا ۔ کسی کی قبر پر ميلہ لگانا ۔ قبر پر چڑھاوا چڑھانا ۔ نماز اور روزہ کی طرف لاپرواہی مگر کسی کو پير يا مُرشد مان کر اس کی تقليد میں مختلف عوامل جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہ ہو کرنا یا خاص تاريخوں کو کچھ پکا کر اس پير یا مُرشد کے نام سے بانٹنا ۔ ایک لمبی فہرست ہے ۔ کيا کيا لکھوں ؟

اصولِ فقہ ہے کہ
اوّل قرآن شریف
جو قرآن شریف میں نہ ہو وہ حدیث میں دیکھا جائے
جو حدیث میں نہ ہو وہ اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تلاش کیا جائے
اور اُس کے بعد کچھ اور ہو سکتا ہے جس کيلئے اجتہاد اور اجماع ضروری ہے اور اس میں بھی تابعین کی ترجیح ہے

تقليد اور عقيدت کے متعلق کوئی صاحب مفصل عِلم رکھتے ہوں تو مستفيد فرمائيں

مدد چاہیئے ایک باریک بین کی

ایک تیز نظر ۔ تیز دماغ اور فوٹو شاپ قسم کی سافٹ ویئر کے ماہر کی ضرورت ہے جو مندرجہ ذیل تصاویر کا مطالعہ / معائنہ کر کے بتائے کہ کونسی تصویر اصلی ہے اور اس کے ساتھ کوئی چھڑ خانی نہیں کی گئی

مندرجہ ذیل تصاویر کی تصحیح مقصود ہے جو کسی صاحب نے مجھے شاید فیس بُک سے نقل کر کے بھیجی ہیں
پہلی تصویر اسلحہ بردار سکندر کی ہے
دوسری تصویر میں صدر آصف علی زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
تیسری تصویر میں بلاول زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
چوتھی تصویر میں فردوس عاشق عوان کے ایک طرف سکندر کی بیوی کنول اور دوسری طرف زمرد خان دکھائے گئے ہیں
Sikandar1

Sikandar2

Sikandar3

Sikandar4

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سوچیئے

دیکھنے والے سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو بینائی سے محروم ہیں
سُننے والے سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو قوتِ سماع سے محروم ہیں
خوشبو سُونگھنے والے سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو سونگھنے کی حس سے محروم ہیں
بولنے والے سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو قوتِ گویائی سے محروم ہیں
چلنے والے سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو چلنے سے محروم ہیں
جو سوچ کے ماضی میں دیکھی یا پڑھی باتیں یا کر سکتے ہیں وہ سوچیں کہ ایسے بھی ہیں جو سوچنے کی طاقت سے محروم ہیں

میری یاد داشت جو سوچنے کا نتیجہ ہوتی ہے میرے ساتھیوں ۔ دوستوں اور کچھ قارئین میں بھی مشہور تھی ۔ میری سونگھنے کی حس بھی خاصی تیز تھی ۔ میں 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ میں اللہ کی ادا کردہ ان دونوں نعمتوں سے محروم ہو چکا ہوں ۔ میں سمجھتا تھا کہ بوڑھا ہونے پر سوچنے کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔ اس حادثہ سے معلوم ہوا کہ سوچنے کی قوت کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ باقی قوّتوں سے آدمی کسی وقت بھی محروم ہو سکتا ہے

زندگی کیا ہے ؟

خاور کھوکھر صاحب نے ”زندگی جو بھی ہے“ کے عنوان سے زندگی کی مختلف تعریفیں لکھیں تو مجھے یاد آیا کہ میں نے بھی کچھ لکھا تھا ۔ قارئین کی سہولت کیلئے اپنی 14 اپریل 2008ء کی تحریر ”زندگی کیا ہے ؟” دوہرا رہا ہوں

زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے
کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں
اور
کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں
جبکہ
کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں

کچھ لوگ اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں
اور
کچھ دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں

ان میں سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ اُن کی صحت ٹھیک رہتی ہے اور وہ اطمینان کی نیند بھی سوتے ہیں

ستم ظریفی دیکھیئے کہ عام طور پر انسان اپنی خوشی تو اپنی محنت کا ثمرہ گِنتا ہے اور دُکھ ملے تو اسے اللہ کی مرضی کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے حالانکہ خالق نے اپنی مخلوق کو دُکھ دینے کیلئے پیدا نہیں کیا ۔ دُکھ اور تکلیف انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غلط سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں

یہ بھی حقیقت ہے کہ
ہر وقت ایک ہی موسم رہے یا ہر وقت دن یا ہر وقت رات رہے تو زندگی اجیرن ہو جائے
اگر بیماری نہ آئے تو صحت کی قدر نہ ہو
تکلیف نہ آئے تو آسائش کا احساس جاتا رہے
غُربت نہ ہو تو دولت بے قدر ہو جائے
کوئی بے اولاد نہ ہو تو اولاد کی اہمیت نہ رہے
امتحان نہ ہو تو محنت کون کرے ؟

سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے

دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں
ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے “دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو”۔
میں نے اپنی زندگی میں کئی بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی
میں نے ایسا آدمی بھی دیکھا ہے جو دولت کے انبار لئے پھر رہا تھا کہ کوئی سب لے لے اور اُس کے بیٹے کو صحت و زندگی بخش دے
دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے

عرصہ گذرا میرے ایک واقفِ کار ایک تبلیغی ٹولے کے ساتھ امریکہ گئے ۔ ان لوگوں نے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی انتظامیہ سے شہر سے باہر خیمہ لگانے کی اجازت لی اور بیان و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ مغرب کے بعد جب پورا گروہ خیمے میں اکٹھا ہوتا تو قرآن شریف کی تلاوت اور ترجمہ عشاء کے کافی بعد تک ہوتا ۔ اس دوران روزانہ دو اُدھڑ عمر گورے امریکن پیدل سیر کرتے ہوئے وہاں سے گذرتے ۔ ایک دن اُنہوں نے بیٹھ کر سننے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی ۔ حالانکہ تلاوت عربی میں ہو رہی تھی اور تفسیر اُردو میں لیکن وہ دونوں بڑے انہماک سے سُنتے رہے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لیٹ کر سو گئے ۔ گروہ کے دو آدمیوں نے اپنے سلیپِنگ بیگ ان پر ڈال دئیے اور خود کوٹ وغیرہ پہن کر سو گئے ۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد گروہ کے آدمی اپنے تبلغی دورے پر چلے گئے اور ایک آدمی کو ان دو امریکیوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ گئے ۔ 9 بجے کے قریب جب سورج بلند ہوا اور ان پر دھوپ آئی تو وہ دونوں جاگ اُٹھے اور حیران ہوئے کہ وہ زمین پر سوئے ہوئے تھے ۔ شام کو وہ جلدی آ گئے اور کہنے لگے “یہ جو کچھ تم پڑھتے ہو ہمیں بھی سکھاؤ گے ؟” اُن کو بتایا گیا کہ گروہ میں سے ایک شخص ہے جو انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر کرتا ہے ۔ وہ کہنے لگے “ہم دونوں بِلینیئر [Billionaire] ہیں ۔ آپ ہماری ساری دولت لے لیں اور ہمیں یہ علم سِکھا دیں”۔ اُن سے کہا گیا “سِکھانا تو ہمارا فرض ہے ہم اس کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے مگر آپ اتنی ساری دولت لُٹانے پر کیسے آ گئے ہیں ؟” امریکیوں میں سے ایک بولا ۔ میرے گھر میں ہر آسائش موجود ہے آرام دہ کمرہ اور بہت آرام دہ بستر ۔ موسیقی ۔ سب کچھ مگر نیند نہیں آتی ۔ ہم ڈاکٹروں سے مشورہ لیتے ہیں ۔ پِلز [Pills] بھی کھاتے ہیں ۔ یہ سیر بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ نیند آ جائے لیکن رات کا کافی حصہ جاگ کر گذارتے ہیں ۔ صبح جسم تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے ۔ رات ہم 11 گھنٹے سے زیادہ سوئے ۔ سردی میں گھر سے باہر اور سخت زمین پر ۔ ہماری دولت کس کام کی جو ہمیں چند گھنٹے روزانہ کی نیند بھی نہیں دے سکتی ؟” وہ امریکن روزانہ تلاوت اور انگریزی ترجمہ سُنتے رہے اور تبلیغی گروہ کے وہاں قیام کے دوران ہی اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام کر دی اور اسلام قبول کر لیا

ساس بہو یا نند بھابھی کا رشتہ بہت اُلجھاؤ والا ہے ۔ کہیں ایک قصور وار ہوتی ہے اور کہیں دونو ۔ اللہ میری بڑی خالہ جو کہ میری ساس بھی تھیں کو جنت میں جگہ دے ۔ میں نے اُنہیں ایک خاتون کو جو اپنی بہو کی بدتعریفی کر رہی تھی کہتے سُنا ۔ دو عورتوں کی کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے اس کے داماد کے متعلق پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ “داماد بہت اچھا ہے دفتر جانے سے پہلے میری بیٹی کیلئے ناشتہ تیار کر کے جاتا ہے پھر دفتر سے آ کر میری بیٹی کے کپڑے استری کرنے کے بعد فٹا فٹ کھانا پکا لیتا ہے اور بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتا ہے ۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور برتن دھو کر سوتا ہے ۔ پھر اس عورت نے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگی “وہ بچارا تو مشکل میں ہے ۔ تھکا ہارا دفتر سے آتا ہے اور بچے سنبھالنا پڑتے ہیں”۔ عورت نے پوچھا “بہو کہاں ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا “کھانا پکا رہی ہوتی ہے”۔ پھر عورت نے پوچھا “تمہارے گھر کا باقی کام کون کرتا ہے ؟” تو منہ بنا کر جواب دیا “بہو کرتی ہے”۔

ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔

سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے میرے دادا جان کو کہا کرتے تھے “جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا”۔

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

محنت کامیابی کی کُنجی ہے ۔ محنت کا پھل مِل کر رہتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر عملی طور پر کرتے کچھ نہیں ۔ ان کی مثال یوں ہے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

خوش فہمی میں رہنا اچھی بات نہ سہی لیکن ہر چیز یا بات کا روشن پہلو دیکھنے سے انسان نہ صرف خود اپنی صحت ٹھیک رکھتا ہے بلکہ دوسرے بھی اُس کو زبان سے نہ سہی لیکن دلی سچائی میں اچھا سمجھتے ہیں ۔ ہاں حسد کریں تو الگ بات ہے مگر حسد سے اپنا خُون جلانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بچپن سے مندرجہ ذیل شعر میرے مدِنظر رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کی روشنی میں جد و جہد کی اور اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہیں رہا

تُندیِٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

یقینِ محکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں
استقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

یہ آخری شعر میں نے علامہ اقبال کے شعر میں ترمیم کر کے بنایا تھا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا (1953)

جو بات کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ ہے کہ پیٹ بھرنا انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت انسان ظُلم ۔ جُرم اور گناہ بھی کرتا ہے لیکن پیٹ سونے ۔ چاندی یا ہیروں سے نہیں بلکہ گندم ۔ چاول ۔ مکئی ۔ سبزی پھل یا گوشت سے بھرتا ہے