سکندر نامی مسلحہ شخص کے حوالے سے 15 اگست کی شام سے رات تک 5 گھنٹے جاری رہ کر ختم ہونے والے واقعہ کے متعلق چند اُردو بلاگرز اظہارِ خیال کر چکے ہیں اسلئے سب کچھ دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ میں صرف اس واقعہ کے تکنیکی اور اصولی پہلو واضح کرنے کی کوشش کروں گا
سکندر کے ہاتھوں میں ایک سب مشین گن اور ایک آٹومیٹک رائفل تھی ۔ جس نے طبیعات (Physics) کا مضمون تھوڑا سا بھی پڑھا ہے وہ یہ تو جانتے ہوں گے کہ ہر عمل کے برابر اس کا ردِ عمل مخالف سمت میں ہوتا ہے (To every action there is an equal and opposite reaction)
متذکرہ ہتھیاروں میں 39 ملی میٹر لمبے کارتوس استعمال ہوتے ہیں جن میں لگی گولی 18.2 گرام وزنی ہوتی ہے ۔ فائر کرنے پر یہ گولی 718 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ہتھیار کی نالی سے باہر نکلتی ہے ۔ یعنی یہ 18.2 ضرب 718 یعنی 13 کلو گرام سے زیادہ کا دھکا پیچھے کی طرف لگاتی ہے ۔ جب آٹو میٹک فائر کیا جاتا ہے تو ہر ایک سے ڈیڑھ سیکنڈ بعد یہ دھکا لگتا ہے ۔ اگر ایک شخص کے 2 ہاتھوں میں ایک جیسے ہتھیار نہ ہوں تو ان کا فائرنگ ریٹ اور بعض اوقات گولی کا فرق وزن غیرمتوازن ردِ عمل پیدا کرتے ہیں جس کا شُوٹر کے اعصاب پر بُرا اثر پڑتا ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ سکندر کے دونوں ہاتھوں پر یہ غیرمتوازن دھکے لگتے تھے مگر اس کے ہاتھ متزلزل نہیں ہوئے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ سکندر کمانڈوز کی طرح باقاعدہ تربیت یافتہ ہے
ایسی صورتِ حال میں زیادہ احتیاط اور تحمل کی ضرورت تھی کہاں کہ زمرد صاحب نے ہیرو بننے کی کوشش کی ۔ میڈیا نے اُنہیں ہیرو بنا بھی دیا مگر اصلیت کے قریب رانا ثناء اللہ کا بیان ہے
کسی بھی امن و امان کی صورتِ حال سے بالخصوص جس میں اسلحہ موجود ہو نمٹنا پولیس ۔ رینجرز اور فوج کا کام ہے ۔ کوئی شخص خواہ کمانڈو سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہو اُسے بغیر مجاز اتھارٹی کی اجازت کے اس ماحول میں کودنے کی اجازت نہیں ۔ زمرد خان نے یہ غلطی بھی کی
اب آتے ہیں اس واقعہ کے ڈرامائی منظر کی طرف ۔ کل بہت سی وڈیوز دیکھنے کے بعد واضح ہوا کہ زمرد خان نے چھلانگ لگا کر سکندر کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر سکندر کی معمولی سی جُنبش سے زمین پر اُوندھا جا پڑے پھر اُٹھتے ہوئے لڑکھڑائے اور دوبارہ اُٹھ کر بھاگے ۔ گرنے کے بعد سے بھاگ کر محفوظ ہونے تک سکندر کے پاس بہت وقت تھا ۔ اللہ نے زمرد خان کو بچانا تھا ورنہ سب مشین گن یا آٹومیٹک رائفل کی ایک بوچھاڑ (burst) مار کر سکندر زمرد خان کے پرخچے اُڑا دیتا
زمرد خان کو اُس کے حال پر چھوڑ کر سکندر نے پولیس والوں کی طرف رُخ کیا اور داہنی طرف فائرنگ کی پھر دونوں ہاتھ اُوپر اُٹھا دیئے اوربائیں جانب مُڑتے ہوئے دونوں ہتھیاروں سے ایک ایک فائر کیا ۔ پھر اچانک دونوں ہاتھ نیچے کر کے سامنے کی طرف نشانہ لے کر فائر کیا لیکن ابھی دونوں ہتھیاروں سے ایک ایک راؤنڈ ہی فائر کیا تھا کہ خود زخمی ہو کر گر پڑا ۔ فائرنگ کی جو ایک ایک تعداد لکھی گئی ہے یہ فائر کے وقت فضا میں اُڑتے ہوئے تپّے ہوئے روشن کھوکھوں (red hot luminous cartridge cases) کے نظر آنے کی بنیاد پر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے زیادہ راؤنڈ فائر کئے گئے ہوں مگر ان کے کھوکھے وڈیو میں نظر نہ آئے ہوں
جو لوگ کہتے ہیں کہ سکندر نے ہاتھ اُوپر اُٹھا کر سرینڈر (Surrender) کر دیا تھا وہ لاعلم ہیں یا پھر اُن کا علم مووی فلموں تک محدود ہے جن میں کھوکھے اُڑتے نہیں دکھائے جاتے
کوئی کہتا ہے ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے“۔
کوئی کہتا ہے ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے“۔
میں کہتا ہوں ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میرے ہموطن اپنی ذمہ داریاں تو نبھاتے نہیں لیکن دوسروں کے کام میں مداخلت اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں“۔