Category Archives: معاشرہ

چھاؤنی اور عزت مآب

عاطف بٹ صاحب کا ایک زاویہءِ تحریر نظر سے گذرا تو ماضی میرے ذہن کے پردہ پر گھومنے لگا ۔ میں نے سوچا وقتی اظہارِ خیال کر دیا جائے پھر تحریر کا مطالعہ کیا جائے (پڑھ تو میں چکا تھا) اور اپنا تجربہ لکھا جائے ۔ تبصرہ مندرجہ ذیل تھا

محترم ۔ ابھی میں نے طائرانہ نظر ڈالی ہے ۔ دو موٹی سی باتوں بارے اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ گستاخی ہونے کی صورت میں پیشگی معافی کی طلب کے بعد عرض ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ مُنصف ہو یا مُدعی ۔ وکیل ہو یا مؤکل ۔ اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ۔ حاکم ہو یا ماتحت ۔ بغیر داڑھی ہو یا داڑھی والا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ پر عمل کرتے ہیں ۔ باقی 10 فیصد جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تواضع نامعقول خطابات سے ہی نہیں بلکہ تشدد سے بھی کی جاتی ہے ۔ ہمارے مُلک میں نظام انصاف اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وکلاء کی اکثریت درست نہیں ہوتی اور عوام کی اکثریت قانون پر عمل کرنا شروع نہیں کرتی حالت یہ ہے کہ سچ پر چلنے والا جج ہو یا وکیل ۔ افسر ہو یا ماتحت اُس کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی حال سرکاری محکموں کا ہے جس میں سوِل سرونٹ اور فوجی دونوں شامل ہیں ۔ غیر سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ قصور وار ذرائع ابلاغ اور وہ عوام ہیں جو اپنا حق لینے کی کوشش نہیں کرتے یا اپنا حق چند سکوں یا وقتی ضرورت کے تحت بیچ دیتے ہیں ۔ وجہ صرف اللہ پر بھروسہ نہ ہونا یا اللہ کی بجائے فانی انسان کو اَن داتا سمجھ لینا ہے ۔ اور ہاں اگر کسی محلے میں کوئی صراط المستقیم پر چلنے والا رہتا ہو تو محلے دار اُس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔ کوئی امام مسجد ہو تو نمازی اور محلے دار مل کے اُسے ہٹانے پر تُل جاتے ہیں
باقی اِن شاء اللہ مطالعہ کے بعد۔

زندگی انہی پتھریلی ناہموار راہوں پر گذری تھی اسلئے فیصلہ مُشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں ۔ کچھ بن نہ پڑی تو سوچا کہ صرف ایک آدھ واقعہ مختصر بیان کیا جائے ۔ یہ بھی طویل ہو کر تبصرے کی حدود سے بہت دُور نکل گیا تو اسے اپنے بلاگ پر ثبت کرنے کا سوچا

عاطف بٹ صاحب نے درست کہا کہ ایک جج کیلئے شناخت ضروری ہے تو فوجی افسر کیلئے بھی ضروری ہونا چاہیئے ۔ عزت مآب والی بات بارے عرض ہے کہ میں نے ججوں کے ساتھ وکلاء کا جارحانہ انداز بھی دیکھا ہوا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ججوں پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا ۔ ججوں کے خلاف وکیل تحریری درخواستیں بھی دیتے ہیں خواہ وہ بے بنیاد ہوں
درست کہ آئین کے مطابق قرآن و سُنّت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ۔ آئین میں بہت کچھ اچھا لکھا ہوا ہے لیکن اس آئین پر کتنے شہری ہیں جو عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ اراکینِ اسمبلی کو عام شہری ہی تو چُنتے ہیں ۔ کیا ووٹ دیتے وقت کوئی سوچتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ اسلام یا کم از مُلک کے قوانین پر کتنا کاربند رہتا ہے ؟ اگر نہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اسلام کے مطابق قوانین کیسے بنوائے گا یا آئین و قانون کا کیا احترام کرے گا ؟
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے خلیفہءِ راشد کی مثال اس زمانے میں دینا مناسب نہیں ۔ ذرا سوچیئے کہ اُن سے سوال کرنے والے کا اپنا کردار کیسا تھا ۔ پھر اُن کے زمانہ میں یہودی بھی اپنے قضیئے کا فیصلہ امیرالمؤمنین سے کرواتا تھا اور فیصلہ پر یقین کرتا تھا ۔ آج کا مسلمان بھی کسی دیانتدار اور سچے آدمی سے اپنا فیصلہ نہیں کروانا چاہتا کہ دیانتدار شخص اُس کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ حق پر فیصلہ دے گا

اب بات چھاؤنی کی جسے آجکل سب کینٹ کہتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں چھاؤنیاں 2 قسم کی ہیں ۔ ایک باڑ اور بیریئر والی جیسے بنوں اور واہ اور دوسری کھُلی جیسے لاہور ۔ راولپنڈی اور چکلالہ ۔ البتہ ان کھُلی چھاؤنیوں کے اندر باڑ اور بیریئر والے جزیرے موجود ہیں ۔ مجھے ان سے بحث نہیں ۔ مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے انفرادی ۔ اس کو سمجھنے کیلئے میں واہ کی مثال دیتا ہوں کہ اس کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے

میری عمر 75 سال سے تجاوز کر چکی ہے ۔ سرکار سے چھُٹکارہ 53 سال کی عمر میں حاصل کر لیا تھا جس کے بعد 5 سال غیر سرکاری ملازمت کی ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹری کی ملازمت 4 اگست 1992ء کو چھوڑ دی تھی اور 10 اگست 1994ء کو اسلام آباد مُنتقِل ہوا مگر مجھے دسمبر 2009ء تک ہر سال واہ میں کار کے داخلے کیلئے ٹوکن مُفت ملتا رہا ۔ میں نے طِبّی وجہ سے آٹومیٹک گیئر والی کار خریدی جو بیٹی کے نام پر لینا پڑی کہ ریٹائرڈ ہونے کی وجہ سے میرا این ٹی این نمبر نہ تھا (یہ مصیبت شوکت عزیز صاحب ڈال گئے) ۔ 2010ء میں ٹوکن کیلئے درخواست دی تو نہ دیا گیا کہ کار میرے نام پر نہیں ۔ نتیجہ کہ بیریئر پر قطار میں لگیں بتائیں کیوں آئے ہیں کس سے ملنا ہے کیوں ملنا ہے ۔ پھر اجازت مل جائے تو اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرائیں ۔ چِٹ کٹوائیں اور اندر جائیں ۔ واپسی پر چِٹ دے کر شناختی کارڈ واپس لیں ۔ واہ چھاؤنی کے 4 راستے ہیں (ٹیکسلا ۔ جنگ باہتر ۔ حسن ابدال اور ہری پور کی طرف) لیکن آپ جس راستہ سے اندر جائیں اُسی سے باہر نکلنا ہو گا
مجھے 1987ء میں گریڈ 20 ملا تھا ۔ سیکیورٹی کے کوئی بریگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو وہ اتنی رعائت دے دیتے ہیں کہ گریڈ 20 میں ریٹائر ہونے والے اپنا پی او ایف سے ملا ہوا شناختی کارڈ دکھا کر واہ چھاؤنی کے رہائشی علاقہ میں جا سکتے ہیں ۔ کوئی اور برگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو یہ رعائت بھی ختم کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گریڈ 17 سے 20 تک کے افسران محبِ وطن پاکستانی ہوتے ہیں اور مُلک کے دفاع کیلئے سیکرٹ اور ٹاپ سیکرٹ کام اُن کے سپرد ہوتے رہتے ہیں ۔ بریگیڈیئر بھی گریڈ 20 کے برابر ہوتا ہے

عملی صورتِ حال یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے افسران کو واہ چھاؤنی میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روکتا چاہے اُن کا پی او ایف سے کوئی تعلق نہ رہا ہو ۔ مزید یہ کہ واہ چھاؤنی میں بہت سے غیر متعلقہ لوگ رہتے ہیں ۔ ان رہائشیوں کی گاڑی اگر اُن کے نام پر ہو تو سالانہ فیس ادا کر کے داخلے کا ٹوکن مل جاتا ہے جبکہ واہ چھاؤنی میں رہنے والے پی او ایف ملازم کی گاڑی اگر اُس کے نام پر نہ ہو تو داخلے کا ٹوکن نہیں مل سکتا ۔ باہر سے روزانہ آنے والی بسوں اور ویگنوں کو فیس لے کر داخلے کے ٹوکن دے دیئے جاتے ہیں ۔ ان بسوں اور ویگنوں میں آنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ کون ہو یا کیوں آئے ہو ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی واہ کا رہائشی جس نے کبھی پی او ایف کی ملازمت نہیں کی واہ چھاؤنی سے باہر کے رہائشی کسی دوست یا رشتہ دار کو اپنے خاندان کا فرد لکھ کر گاڑی کا ٹوکن بنوا دیتا ہے اور وہ بلا روک ٹوک واہ چھاؤنی جاتا ہے

اب بات مُنصِفوں اور اِنصاف کی ۔ میرا آدھی صدی پر محیط تجربہ بتاتا ہے کہ مُنصفوں کی اکثریت درست کام کرنا چاہتی ہے مگر وکیل اُن کی راہ میں حائل رہتے ہیں اور کبھی کبھی حکمران بھی ۔ چنانچہ دیوانی مقدمے 20 سال تک لٹکائے جاتے ہیں ۔ قانون کچھ ایسا ہے کہ جج حقیقت جانتا ہو تب بھی اپنی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اُسے فیصلہ وکلاء کی پیش کردہ دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کے مطابق کرنا ہوتا ہے

میرے ذہن میں اس وقت اپنے خاندان کے 5 ایسے مقدمات ہیں جن میں ہمارے پاس اپنی سچائی کا مکمل ثبوت موجود تھا اور ہم پر دعوٰی کرنے والے یعنی مدعی یا پھر جس پر ہم نے دعوٰی دائر کیا تھا یعنی مدعاعلیہ کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہ تھا ۔ ان مقدمات میں والد صاحب یا میں یا ہم دونوں 6 سے 16 سال تک کچہری کے ماہانہ چکر لگاتے رہے تھے ۔ مقدمات میں جج صاحبان کو حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا اور بالآخر فیصلے بھی ہمارے حق میں ہوئے لیکن بہت تاخیر کے ساتھ جس کے نتیجہ میں فیصلہ کا فائدہ بہت کم رہ گیا تھا

ایک واقعہ جس میں بمصداق پنجابی محاورہ ”حکومت کے داماد“ ملوّث تھے ۔ 1973ء یا 1974ء میں کچھ لوگوں نے ہماری شہری زمین پر قبضہ کر کے اس پر چار دیواری تعمیر کرادی ۔ والد صاحب نے قانون سے مدد مانگی ۔ جج نے ناظر مقرر کر دیا جس نے درست رپورٹ جج کو دے دی ۔ مگر قبضہ کرنے والے پی پی پی کے کھڑپینچ تھے ۔ اُس جج سے مقدمہ لے لیا گیا اور کسی دوسرے جج کو نہ دیا گیا ۔ اسی اثناء میں جیالے جج لیٹرل اَینٹری (lateral entry) کے ذریعہ بھرتی کئے گئے اور اُن میں سے کسی نے بغیر ہمیں بُلائے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ والد صاحب کو عِلم ہوا تو اپیل دائر کی ۔ سیشن جج صاحب نے ناظر مقرر کیا جس نے آ کر بتایا کہ وہاں تو 2 کوٹھیوں کی ایک ایک منزل تیار ہو چکی ہے ۔ محکمہ مال سے معلوم ہوا کہ اُس زمین کا بیشتر حصہ والد صاحب کے جعلی مختارنامہ کے تحت بیچا جا چکا ہے ۔ ایک پی پی پی کے کھڑپینچ والد صاحب کے پاس آتے رہتے تھے ۔ والد صاحب نے اُس سے ذکر کیا تو صلح نامہ ہوا ۔ 10 لاکھ کی زمین کی قیمت 3 لاکھ دینا منظور کی ۔ وہ بھی پچاس پچاس ہزار کی 3 قسطیں 3 سالوں میں وصول ہوئیں اور بس

میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ جب تک ہم عوام ٹھیک نہیں ہوں گے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونے کا اور نہ اللہ نے فرشتے بھیج کر اس مُلک کو درست کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی فیصلہ دے چکا ہے ۔ سورت 13 الرعد آیت 11 ۔

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

۔ (ترجمہ) اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

سوچ اور سمجھ

میری تحریر ”جانور بھی عقل رکھتے ہیں“ پر ایک محترم قاری نے لکھا ” نجانے کیوں اردو زبان میں کلام کرنے کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے پر اپنا مدعا واضح نہیں کرپارہے ہیں“۔ چنانچہ اس تحریر کی ضرورت پیش آئی

اگر کہا جائے کہ سوچ اور سمجھ کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو یہ درست نہ ہو گا
حقیقت یہ ہے کہ سوچ حاکم ہے اور سمجھ غلام
سوچ ایسی حاکم ہے کہ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو سمجھ وہ دیکھے گی جو سوچ اُسے دکھائے ہر شخص کا ردِ عمل اپنی سوچ کے تابع ہوتا ہے
یعنی
کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُسے اپنی سوچ کے تحت سمجھتا ہے
بعض اوقات تو ایسا ہوتا ہے کہ کہنے والے نے جو کہا ہوتا ہے سُننے والا اُس کی بجائے کچھ اور ہی سمجھ بیٹھتا ہے
عام طور پر اختلاف ایسے ہی پیدا ہوتا ہے جو بڑھ کر جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتا ہے
جو آدمی اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھتا ہے وہ کسی قسم کے جھگڑے سے عام طور پر بچا رہتا ہے

تعلیم ۔ تربیت ۔ حالات اور ماحول آدمی کی سوچ پر گہرا اثر رکھتے ہیں لیکن لازم نہیں کہ ہر آدمی کی سوچ تعلیم یا تربیت یا حالات یا ماحول ہی کی تابع رہے ۔ مختلف ماحول اور حالات میں پلے آدمیوں کی سوچ ایک جیسی ہو سکتی ہے اور ایک ہی ماحول اور حالات میں پلے بھی مختلف سوچ رکھ سکتے ہیں ۔ یہی صورتِ حال تعلیم و تربیت کی بھی ہے

آدمی کا ردِ عمل عام طور پر اُس کی سوچ کے تابع ہوتا ہے یعنی کہا کچھ ہی گیا ہو وہ اُس کا ردِ عمل اپنی سوچ کے مطابق دیتا ہے

حالیہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس پروجیکٹ کو بطور نمونہ پرکھتے ہیں ۔ بنانے والوں نے جو کچھ بھی کہا وہ ایک طرف دیکھنے والوں نے جو کچھ کہا وہ اُن کی سوچ کا مظہر تھا ۔ کسی نے اسے دولت کا ضیاع قرار دیا تو کسی نے مفید استعمال ۔ کسی نے 70 فیصد غریب عوام کو نظر انداز کرنے کا خیال ظاہر کیا تو کسی نے اسے 70 فیصد درمیانے اور نچلے درجہ کے لوگوں کی مدد قرار دیا

یکم مئی 1963ء کو فیکٹری کی انتظامیہ میں داخل ہوتے ہی مجھے کچھ ایسے واقعات سے واسطہ پڑا کہ میں ایک سال کے اندر ہی اچھی منیجمنٹ کے اسلوب کے مطالعہ اور تحقیق پر لگ گیا ۔ اور 10 سال کی عرق ریزی کے بعد جس نتجہ پر پہنچا وہ مندرجہ ذیل روابط پر کلِک کر کے پڑھا جا سکتا ہے
1. https://iabhopal.wordpress.com/triangle-of-supervision/
2. https://iabhopal.wordpress.com/8acommunication/
3. https://iabhopal.wordpress.com/8b-motivation/
4. https://iabhopal.wordpress.com/8cleadership/

نیچے میں ان میں سے صرف ایک کمیونیکیشن کے صرف ایک پیراگراف کو ذرا مختلف طریقہ سے اُردو میں لکھا ہے

ایک آدمی جو عام طور سے محافل میں نہیں بیٹھتا ایک محفل میں پہنچ کر اہلِ محفل کو مُسکراتے ہوئے سلام کرتا ہے ۔ کسی سے ہاتھ ملاتا ہے ۔ کسی کا حال پوچھتا ہے ۔ کسی سے بغل گیر ہوتا ہے
وہاں موجود لوگوں کی سوچیں ان خطُوط پر مختلف ہو سکتی ہیں

ایک ۔ کتنا خوش اخلاق آدمی ہے ۔ سب سے مل رہا ہے
دوسری ۔ آج بڑا خوش لگ رہا ہے ۔ پتہ نہیں کیا تیر مارا ہے
تیسری ۔ خیر ہو ۔ آج یہ کہاں سے آ ٹپکا
چوتھی ۔ مصروفیت میں بھی سب سے ملاقات کا وقت نکال لیتا ہے ۔ اچھی عادت ہے
پانچویں ۔ دیکھا کیسی مسکراہٹ ہے ؟ آج پتہ نہیں کیا بٹورے گا
چھٹی ۔ اس کی مسکراہٹ اور پسارے بازوؤں پر نہ جانا ۔ یہ بہت اُستاد ہے
کچھ اور قسم کی سوچ بھی ہو سکتی ہے

یہ کونسی گردی ہے ؟ فیصلہ آپ کیجئے

کسی زمانہ میں ایک لفظ سُنا تھا غُنڈہ گردی
پتا چلا کہ بدقماش لوگ خلافِ قانون اُدھم مچائیں تو اسے غُنڈہ گردی کہا جاتا ہے

پھر 2004ء کے بعد ایک اور لفظ متعارف ہوا ۔ دہشتگردی
پتا چلا کہ اگر ایک یا زیادہ آدمی خلافِ قانون اُدھم مچائیں جس سے لوگ دہشت زدہ ہو جائیں تو اسے دہشت گردی کہا جاتا ہے

17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں خلافِ قانون اُدھم مچایا گیا
پتا چلا کہ اگر قانون کے محافظ یعنی پولیس اہلکار خلافِ قانون اُدھم مچائیں تو اسے پولیس گردی کہا جاتا ہے

کچھ عرصہ سے وکلاء یعنی قانون دانوں نے خلافِ قانون اُدھم مچانا شروع کر رکھا ہے
یعنی
کبھی کسی جج کو اُس کی عدالت کے اندر گھُس کر گالیاں دیں
کبھی جج نے مرضی کا فیصلہ نہ دیا تو اُس کی پٹائی کر دی
کبھی قانون کے محافظین یعنی پولیس اہلکاروں کی دھنائی کر دی
کبھی سرکاری دفتر ۔ کبھی تھانے یا دونوں کو نذرِ آتش کر دیا
راہ گذروں کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا

اس گردی کو کیا نام دیا جائے ؟
وکیل گردی ؟
یا
قانون گردی ؟َ
یا
کچھ اور ؟

فیصلہ آپ کا

میری ڈائری ۔ مصلحت

یکم جولائی 1962ء کو میری ڈائری میں لکھا ہے
کچھ ایسی خواہشات ہوتی ہیں جن کا حصول ممکن ہوتا ہے لیکن مصلحت حارج ہو جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں متعلقہ مصلحت کا جائزہ ضروری ہوتا ہے کہ اس میں خود غرضی شامل تو نہیں ۔ اگر انسان چُوک جائے اور من مانی کرے تو وہ شاہراہِ ترقی پر بہت پیچھے کی طرف پھسل جاتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Delhi’s Apathy over Pakistani Minor Girl’s Rape “

شرم و حیاء کیا ہوتی ہے

عمران اقبال صاحب کے بلاگ پر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے“ کے عنوان سے مانو بلی کے نام سے ایک مضمون لکھا گیا ۔ میں عمران اقبال صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی مہمان لکھاری کی معلومات پر اعتراض کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر عُمر میں لکھاری محترمہ مجھ سے بڑھی ہیں تو اُن سے بھی معذرت ۔ مجھے لکھنے کی جراءت محترمہ کی تحریر کے آخر میں مرقوم اِس ”نوٹ“ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ ” اگر کسی دوست کو اختلاف ہو یا ذہن میں کوئی سوال آئے تو میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں ۔ اگر میں نے کہیں کوئی واقعہ مسخ کرکے لکھا ہو تو نشاندہی ضرور کیجیئے گا”۔

محترمہ نے دعوٰی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ” اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی“۔
محترمہ شاید بے پَر کے اُڑتی خبروں سے محسور ہو گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا علم بھی کم عُمری کے باعث کم ہی رکھتی ہیں

قارئین اور بالخصوص محترمہ کے عِلم کیلئے عرض کر دوں کہ تاریخ کچھ یوں ہے
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے ۔ ایک گہری سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951ء کو قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا گیا ۔ خواجہ ناظم الدین کو بہلا پھُسلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور سابق سیکریٹری فنانس غلام محمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) گورنر جنرل بنا جو سازش کی ایک کڑی تھی ۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے آئین کا مسؤدہ تیار کر لیا اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی پاکستان کیلئے منتخب کردہ اسمبلی میں پیش ہوا ہی چاہتا تھا کہ غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وزیراعظم بنا دیا ۔ محمد علی بوگرہ نے آئین کا ایک متبادل مسؤدہ تیار کرایا جو اسمبلی کو منظور نہ تھا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی ھدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا آئین وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی مرضی کے بغیر اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے ۔ جسے روکنے کیلئے غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی توڑ دی ۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) میں اس کے خلاف درخواست دی جو منظور ہوئی مگر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی جہاں غلام محمد کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چیف جسٹس منیر احمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) تھا ۔ اُس نے ملک کے مستقبل پر اپنی یاری کو ترجیح دی ۔ نظریہءِ ضرورت ایجاد کیا اور اپیل منظور کر لی ۔ نظریہءِ ضرورت پہلا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی منشاء کے مطابق نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی اور فوج کے سربراہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وردی میں وزیر دفاع بنا دیا یعنی پاکستان کا عنانِ حکومت مکمل طور پر سفید اورخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ یہ دوسرا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کر کے ایک دستاویزی ثبوت کا حوالہ دیکھیئے
خُفیہ کتاب کا ایک ورق

غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا ۔ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ جسے قائداعظم محبِ وطن نہیں جانتے تھے) ڈپٹی گورنر جنرل بن گیا ۔ عملی طور پر وہ گورنر جنرل ہی تھا کیونکہ غلام محمد کچھ لکھنے یا بولنے کے قابل نہ تھا ۔ سکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع تھا خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر کے میجر جنرل کا لاحقہ لگا لیا تھا ۔ 8 اگست 1955ء کو غلام محمد کو برطرف کر کے سکندر مرزا پکا گورنر جنرل اور پھر صدر بن گیا ۔ سکندر مرزا نے 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنا دیا ۔ 30 ستمبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنا کر مغربی پاکستان کا سربراہ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب (عبدالغفّار خان کے بڑے بھائی یعنی اسفندیار ولی کے دادا کے بھائی) کو بنا دیا گیا جو کانگرسی اور نظریہ پاکستان کا مخالف تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے جب پاکستان کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی تو ڈاکٹر خان صاحب شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا قابض حکمرانوں کی طرف سے حاکم تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ صوبے کے مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں لیکن ناکام رہا تھا ۔ مگر اسے سکندر مرزا کا اعتماد حاصل تھا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتدریج مُخلص مسلم لیگیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ دوغلے یا اپنے ساتھی رکھ لئے ۔ چوہدری محمد علی نے بوگرہ کے تیار کروائے ہوئے آئین کے مسؤدے میں کچھ ترامیم کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین منظور کرا لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی مہربانی سے حکومت میں اکثریت نظریہ پاکستان کے مخالفین کی ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں چوہدری محمد علی 8 ستمبر 1956ء کو مجبوراً مُستعفی ہو گئے

حسین شہید سہروردی ڈاکٹر خان صاحب کی پارٹی سے اتحاد کر کے 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن بیوروکریسی کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور عزت بچانے کیلئے 10 اکتوبر 1957ء کو مُستعفی ہو گئے ۔ ان کی جگہ آئی آئی چندریگر کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ وہ صرف 2 ماہ رہے ۔ 16 دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ اُس وقت تک مُلکی حالات نے مغربی پاکستان میں خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہرودری کی سربراہی میں عوامی لیگ کو مضبوط کر دیا تھا ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو گئیں اور ملک فیروز خان نون کو سہارا دیا جس سے سکندر مرزا کو اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی اور اُس نے جون 1958ء میں کانگرسی لیڈر خان عبدالغفار خان (جو نہ صرف پاکستان بنانے کے مخالف تھے بلکہ قائداعظم کے بھی مخالف تھے) سے مدد کی درخواست کی اور مشرقی پاکستان میں گورنر کے ذریعہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ آخر 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل محمد ایوب خان کو آگے بڑھنے کا کہا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں

محترمہ مزید لکھتی ہیں ”پاکستان میں فرقہ وارا نہ دہشتگردی کو فروغ اور عوام خاص طور پر پنجاب میں انتہاپسندی کا جو بیج ضیا نے بویا اسکی آبیاری کے علاوہ تو مجھے ‘شہید’ کا کوئی اور مشن سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہی ایک کام میاں صاحب نے بخوبی کیا۔ آج بھی دہشتگرد تنظیموں کو پیغام بھیجے جاتے ہیں کہ پنجاب کو چھوڑ کر کہیں بھی دہشتگردی پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا“۔

محترمہ کا مندرجہ بالا بیان بے بنیاد اور لَغو ہے ۔ محترمہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پورے پاکستان میں ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز فوجی کاروائی کا فیصلہ نواز شریف ہی نے کیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دہشتگردی کے واقعات تو 1972ء سے ہوتے چلے آرہے تھے جن میں کچھ اضافہ 1977ء کے بعد ہوا جب 2 نام ”ہتھوڑا گروپ“ اور ”الذوالفقار“ زبان زدِ عام ہوئے تھے ۔ الذوالفقار والے پی آئی اے کا ایک جہاز اغواء کر کے افغانستان لے گئے تھے اور اس جہاز میں سوار ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا
دہشتگردی کے بڑے واقعات ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوئے جب پرویز مشرف نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی مکمل تابعداری اختیار کی ۔ ان میں شدت اُس وقت آئی جب 13 جنوری 2006ء کو امریکی ڈرون نے باجوڑ کے علاقہ ڈماڈولا میں ایک مدرسے کو میزائل مار کر درجنوں معصوم بچوں کو ہلاک کر دیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”یہ حملہ ہمارے گن شپ ہیلی کاپٹر نے کیا ہے“۔ اگر بات کراچی کی ہے تو وہاں کے رہنے والے ہی اس کا سبب ہیں
ضیاء الحق نے 3 ماہ کا کہہ کر حکومت سنبھالی اور پھر 11 سال چپکا رہا اس وجہ سے وہ مجھے پسند نہیں لیکن ضیاء الحق پر جس فرقہ واریت ۔ دہشتگردی ۔ کلاشنکوف کلچر اور افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگایا جاتا ہے اُس کی پنیری ذوالفقار بھٹو نے لگائی تھی ۔ ملاحظہ ہو

1 ۔ صوبہ سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بے بنیاد زہرآلود تقاریر کیں اور وہ سندھی جنہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کے خلاف قائداعظم کے نام زد کردہ سکول ٹیچر کو جتوا دیا تھا اُن کو پنجابی اور اُردو بولنے والوں کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ مزید کالا باغ ڈیم بنانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی ۔ کنسٹرکشن کمپنی کا چناؤ ورلڈ بنک نے کرنا تھا اسلئے کسی پاکستانی کی جیب میں ناجائز پیسہ جانے کی اُمید نہ تھی ۔ مال کمانے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ سوکھنے کا شوشہ چھوڑ کر کالا باغ کے خلاف سندھ میں فضا ہموار کی اور پاکستان انجنیئرنگ کانگرس (جس میں اراکین کی اکثریت صوبہ سندھ سے تھی) کی مخالفت کے باوجود تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے

2 ۔ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی جس میں جیب کُترے ۔ جوئے باز اور دیگر آوارہ جوانوں کو بھی بھرتی کر کے اُنہیں آٹومیٹک رائفلیں دے دیں ۔ انہیں نہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں جس نے اختلاف کیا اُسے بھی پٹوایا یا ھلاک کیا گیا ۔ اس کی اہم مثال احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت ہے جو بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لے گئی

3 ۔ آئی ایس آئی پاکستان کا مُخلص اور محافظ ادارہ تھا ۔ اس میں سیاسی شاخ بنا کر آئی ایس آئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جو بعد میں رواج پکڑ گیا اور آئی ایس آئی سیاست میں بھرپور طور پر ملوّث ہو گئی

مزید مندرجہ ذیل عنوانات پر کلِک کر کے پڑھیئے
4 ۔ دہشتگردی کا ذمہ دار کون
5 ۔ سرکاری دفاتر میں دھونس اور دھاندلی کیسے شروع ہوئی

محترمہ نے آگے چل کر لکھا ہے ”نواز شریف ایک اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فاؤنڈری تھی جو بھٹو کے زمانے میں قومیائی گئی اور ضیاالحق نے واپس دی ۔ اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں لکھوں گی

مجھے نواز شریف نے نہ کچھ دیا ہے اور نہ کچھ ملنے کی کبھی اُمید ہوئی ۔ لیکن سچ لکھنا میرا حق ہے ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور برادران (کُل 6 بھائی) نے 1930ء میں فاؤنڈری بنائی ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو 1958ء یا 1959ء میں ہماری کلاس کو اتفاق فاؤنڈری کے مطالعاتی دورے پر لیجایا گیا تھا ۔ اُن دنوں بھی یہ فاؤنڈری چھوٹی نہ تھی ۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے اتفاق فاؤنڈری جاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ”پہلا بڑا کام اس فاؤنڈری نے پاکستان بننے کے چند سال بعد کیا کہ جن شہروں میں ہندو جاتے ہوئے بجلی گھروں کو آگ لگا گئے تھے اُن کیلئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر تیار کر کے ان شہروں میں نصب کئے ۔ اگر یہی پاور سٹیشن درآمد کئے جاتے تو دوگُنا خرچ ہوتا“۔ اُس دور میں پاکستان میں کوئی فاؤنڈری سوائے اس کے نہ تھی ۔ چھوٹا چھوٹا ڈھالنے کا کام ہو تو اُسے بھی فاؤنڈری کہہ دیا جاتا ہے مگر ان میں نہ تو پیداوار کا خاص معیار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بڑا کام کر سکتی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی جگہ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز لے چکا تھا جو بغیر معاوضہ قومیا لیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جن کارخانہ داروں نے چارہ جوئی کی اُنہیں اُن کے کارخانے واپس دے دیئے گئے تھے کیونکہ وہ خسارے میں جا رہے تھے

محترمہ نے مزید لکھا ہے ”بینظیر کی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے میاں صاحب
یہ خبر کسی محلہ اخبار میں چھپی ہو تو معلوم نہیں البتہ کسی قومی سطح کے اخبار میں نہیں چھپی اور نہ ہی پیپلز پارٹی (جو مسلم لیگ نواز کی مخالف سب سے بڑی اور پرانی جماعت ہے) کے کسی سرکردہ لیڈر کے منہ سے سُنی گئی ہے ۔ پکی بات ہے کہ کم از کم 2001ء تک اوسامہ بن لادن افغانستان میں تھا ۔ اگر امریکہ نے 2 مئی 2011ء کو اُسے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تو وہاں وہ پرویز مشرف یا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں آیا اور رہائش رکھی ۔ اس لحاظ سے تو پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اوسامہ بن لادن کے دوست ہوئے

بینظیر بھٹو صاحبہ سیاسی لحاظ سے جو کچھ تھیں وہ ایک طرف لیکن میں اُن کا احترام اسلئے کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی مٹی سے پیار تھا اور اسی وجہ سے میں محمد نواز شریف کو بھی اچھا سمجھتا ہوں
ایک اہم حقیقت جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہمیت نہیں دی یہ ہے کہ لیاقت علی خان ۔ ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کو ہلاک کرانے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا اور ہماری ناعاقبت اندیشی کہیئے یا بدقسمتی کہ میرے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت اُس دُشمنِ پاکستان کو اپنا دوست بنانے یا کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ناجائز قتل کی وجہ سے دوسرے واقعات میڈیا نے پسِ پُشت ڈال دیئے تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے قبل محمد نواز شریف پر کامیاب قاتلانہ حملہ ہوا ۔ ابھی اُن کی موت نہیں لکھی تھی اسلئے بچ گئے تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ اسلام آباد آتے ہوئے جب وہ روات پہنچے تو چوہدری تنویر نے محمد نواز شریف کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ جب حملہ ہوا تو محمد نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھے اُن کے سب محافظ ہلاک ہو گئے تھے ۔ چنانچہ ہلاک کروانے والا دراصل پاکستان کا دشمن ہے

سٹرائیک کا مطلب کیا ؟

منگل بتایخ 28 اپریل قریبی مارکیٹ المعروف ”اللہ والی مارکیٹ“ تنّور (مقامی زبان میں تندور)گیا تو تنّور بلکہ پوری مارکیٹ بند ۔ پھر اپنے لئے دوائی لینے ایف 8 مرکز المعروف ”ایوب مارکیٹ“ گیا ۔ سب دکانیں بند ۔ سوچا بلیو ایریا میں دوائیوں کی دکانیں بڑی (شاہین اور ڈی واٹسن) ہیں وہاں سے لاتا ہوں ۔ وہاں پہنچا سب دکانیں بند ۔ منہ لٹکائے واپس ہوا ۔ راستہ میں سیٹَورَس کے پاس سے گذرا ۔ وہ بھی بند اور داخلے کے راستہ پر ایک بینر لگا تھا ”دُکانیں 8 بجے بند کرنا ۔ نامنظور“۔

پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیر سیاسی ادارے یا گروہ سب نے ایک ہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے ”سٹرائیک (strike)“ جسے اُردو میں ہڑتال کہتے ہیں لیکن آجکل انگریزی پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو سب ”سٹرائیک“ ہی کہتے ہیں ۔ سٹرائک (strike) کے معنی ڈکشنری کے مطابق ہیں ”مارنا ۔ پیٹنا ۔ ٹھونکنا“۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں سٹرائیک اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔ کل کی سٹرائیک شاید تعلیمیافہ لوگوں کی تھی ورنہ سٹرائیک ایک سیاسی جماعت کرے یا کرائے یا کوئی گروہ کرے یا کوئی خاندان ۔ توڑ پھوڑ کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ جس کار کے شیشے توڑے گئے اُس کے مالک کے پاس شاید کار مرمت کرانے کیلئے بھی پیسے نہ ہوں ۔ کوئی بھی تکلیف پہنچے جس کا سبب چاہے کوئی بھی ہو سڑکیں بند کرنا اور بے قصور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاناہمارا مشغلہ بن چکا ہے ۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اصل مقصد دوسروں کو نقصان پہچانا ہی ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا ریکارڈ بنانے میں لگا ہے ۔ اس سے ملک و قوم کو ہونے والے نقصان کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ ایک ریکارڈ 7 ماہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسیوں کی زندگیاں اجیرن کرنے کا ریکارڈ بھی بن چکا ہے ۔ آج سے شاید 85 سال قبل علامہ صاحب نے کہا تھا

وائے ناکامی ۔ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

یہ شعر صحیح معنوں میں ہم پر منطبق ہوتا ہے ۔ منگل کی ہڑتال بجلی کی بچت کی حکومتی کوشش کے خلاف تھی ۔ دکانداروں کا یہ بہانہ بالکل غلط ہے کہ افسروں کو 5 بجے چھٹی ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اسلئے افسران شام 7 بجے گھر پہنچتے ہیں تو وہ شاپنگ کب کریں ؟ جی 9 المعروف کراچی کمپنی میں شاپنگ کرنے والوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہاں دکانیں مغر ب کے وقت بند ہو جاتی ہیں ۔ بلیو ایریا۔ ایف 6 ۔ ایف 7 اور ایف 10 میں شاپنگ کرنے والوں میں 90 فیصد سے زائد عورتیں ہوتی ہیں

ان دنوں شام 7 بجے سے 11 بجے تک بہت زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے ۔ آجکل ایک ایک دکان پر درجنوں قمقمے 100 سے 500 واٹ کے لگے ہوتے ہیں ۔ کئی دکانوں میں ایئر کنڈیشنر بھی لگے ہوتے ہیں ۔ اگر دکانیں جلدی بند ہو جائیں تو لوگوں کے گھروں کو زیادہ بجلی مہیاء کی جا سکتی ہے ۔ وزیر پانی و بجلی کے مطابق اگر دکانیں شام 8 بجے بند ہو جائیں تو لوڈ شیڈنگ میں 2 گھنٹے کی کمی آ سکتی ہے ۔ میرے علم میں ایسا ملک نہیں جہاں دکانیں شام 7 بجے کے بعد کھلی رہتی ہوں ۔ یورپ ۔ امریکہ ہو یا بھارت ۔ جرمنی اور انگلینڈ میں میں دکانیں شام ساڑھے 6 بجے بند ہو جاتی ہیں ۔ بھارت میں بھی دکانیں ساحے 7 بجے تک بند ہو جاتیں ہیں۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں 1970ء تک سب دکانیں شام 8 بجے تک بند ہو جاتی تھیں ۔ میرا خیال ہے لاہور کراچی میں بھی ایسا ہی تھا ۔ پھر ناجانے کس قسم کی ترقی قوم نے کی کہ لوگ رات کو جاگنے اور دن کو سونے لگے ۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ کبھی غلطی سے دوپہر 12 بجے سے قبل کسی کے گھر چلے جائیں تو سوئے ہوئے ہوتے ہیں یا کرم نوازی کریں تو آنکھیں ملتے ہوئے سونے کے لباس میں دروازہ کھولتے ہیں ۔ سکول میں ایک محاورہ پڑھا تھا ”اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی“ تو مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔ جو سمجھ آ گیا ہے