شور شرابے ۔ ہلچل یا بوکھلاہٹ میں سے سادگی تلاش کیجئے
بے ترتیبی یا ناچاقی میں سے ہم آہنگی تلاش کیجئے
دشواریوں یا تکالیف کے دوران ہی بہترین موقع تلاش کیجئے
شور شرابے ۔ ہلچل یا بوکھلاہٹ میں سے سادگی تلاش کیجئے
بے ترتیبی یا ناچاقی میں سے ہم آہنگی تلاش کیجئے
دشواریوں یا تکالیف کے دوران ہی بہترین موقع تلاش کیجئے
ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں اُردو اور انگریزی کے سارے محاورے اور ضرب المثل پڑھائے گئے تھے اور اِن کے معنی اور استعمال بھی سمجھایا گیا تھا ۔ نامعلوم آجکل بھی پڑھائے جاتے ہیں یا پرانے زمانے کی بات سمجھ کر نصاب سے نکال دیئے گئے ہیں
””بھیڑ چال“عام محاورہ ہے ۔ البتہ ”چوزہ چال“ انسانوں کا طور طریقہ دیکھ کر میں نے خود بنایا ہے ۔ میں نے سکول کے زمانہ میں چیونٹیوں کے حوالہ سے ایک محاوہ ”چیونٹی چال“ بھی بنایا تھا ۔ اس کے متعلق میں 22 فروری 2011ء کو لکھ چکا ہوں ۔ اب سوچتا ہوں کہ وہ بھی کسی حد انسانوں پر لاگو ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر صرف چوزہ چال کے متعلق ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ قارئین کو خاص کر جو انگریزی سکولوں میں پڑھے ہیں ان محاوہ کا مطلب نہ جانتے ہوں اسلئے مختصر طور پر بتا دیتا ہوں
”بھیڑ چال“۔ بھڑوں کا ریوڑ اکٹھے جا رہا ہو تو ایک بھڑ اگر آگے چل پڑے تو باقی تمام بھیڑیں اُس کے پیچھے چل پڑتی ہیں ۔ بھیڑوں کی اس چال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے گوالے ریوڑ کو ہانکنے کیلئے ایک بھیڑ کو سر کے قریب سے پکڑ کر آگے چلنے لگتے ہیں تو ساری بھیڑیں اُن کے پیچھے چلنے لگتی ہیں ۔ ہمارے سیاسی لیڈر بھی لوگوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرتے ہیں
”چیونٹی چال“۔ چیونٹی کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جس راستہ سے وہ کسی جگہ جاتی ہے اُسی راستہ سے واپس آتی ہے ۔ جہاں سے چیونٹی گذر کر گئی ہو اُس راستہ پر ایک پتہ یا کوئی اور چیز رکھ دیں تو چیونٹی واپسی پر بھٹک جائے گی اور چاروں طرف کافی گھوم پھر کر اُسے اپنا راستہ ملے گا ۔ آجکل کئی طالب علم ایسے ہی ہیں کہ خاص طرز سے امتحان کی تیاری کرتے ہیں ۔ اگر امتحان میں سوال کی عبارت بدل دی جائے تو ”نصاب سے باہر (Out of Course)“ ہونے کا احتجاج شروع ہو جاتا ہے
”چوزہ چال“۔ جو لوگ اپنے گھر میں مرغی کے نیچے انڈے رکھ کر چوزے حاصل کرتے ہیں اور اُنہیں پالتے ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ اگر ایک چوزہ چونچ میں کچھ لے کر ایک طرف کو بھاگے تو باقی سب چوزے اپنا کام چھوڑ چھاڑ اُسی طرف اس طرح بھاگیں گے کہ پہلے بھاگنے والے چوزے کو آگے سے لیں ۔ ایسا کرتے ہوئے کئی چوزے گر کر اُٹھتے ہیں اور بھاگتے ہیں ۔ یہ عمل ضرور ہو گا خواہ آگے بھاگنے والے چوزے کے منہ میں کچھ بھی نہ ہو اور وہ ویسے ہی جوش میں آ کر بھاگا ہو
ہمارے شہروں کی سڑکوں پر اکثر گاڑیوں والے اپنے سے اگلی گاڑی کے پیچھے بھاگ کر اُس سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ۔ دوسرے الفاظ میں ہماری سڑکوں پر انسانوں کی ”چوزہ چال“ روزانہ دیکھنے کو ملتی ہے
تعلیم کیا ہوتی ہے
تعلیم کیسے ؟
یہ اشتہار اسلام آباد میں ایک بنک میں لگا ہوا ہے
تکے کباب ہوں یا میکڈونلڈ یا کے ایف سی ۔ پِزّا ہَٹ ہو یا بروسٹ ۔ دماغ کی آنکھیں کھول کے رکھیئے ۔ اور ہاں ایسا صرف پنجاب میں نہیں ہوتا ۔ فرق یہ ہے کہ پنجاب محرک ہے
یہ صرف پنجاب نے اعلان کیا ہے ۔ ہم نے اسلام آباد میں اپنا رہائشی مکان والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے نام کرانے کی کوشش کی تھی تو معلوم ہوا کہ لاکھوں روپے فیس ہے تو چُپ کر کے بیٹھ گئے تھے کہ گھر سے نکالے گا تو کوئی نہیں ۔ البتہ 1996ء میں 11077 روپے فیس لے کر سی ڈی اے والوں نے ہم آٹھوں بہن بھائیوں کے نام کر دیا تھا ۔ پرویز مشرف کے دور میں کسی نے ایک 7 مرلہ کا مکان باپ کی وفات کے بعد اپنے نام کرایا تھا تو ہزروں روپےفیس دی تھی
پاکستانی اور پاکستانی نژاد مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی مسلمان
۔
۔
میں اپنی 29 اپریل 2006ء کی تحریر دہرا رہا ہوں ۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آج اس کی 2006ء سے بھی زیادہ ضرورت ہے
کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ يہی لوگ اگر ٹريفک سارجنٹ موجود ہو تو سب ٹريفک قوانين کی پابندی کرنے لگتے ہيں ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ليکن دین اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رد کرتے ہيں
اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ۔ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں راوی شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ ”دنيا کا بہترين قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے“۔ پھر اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے ۔ اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو فيصلہ وہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے
خلفائے راشدين کو بھی ديکھئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی (عيسائی) حکومت تھی جس نے 636 ء میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا
اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث بھی ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے
مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان تاجر پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہر فعل ہيراپھيری کا کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ہیں ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں
يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرنے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں
اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ
Speed without experience is dangerous
and
oft time exceedingly expensive.
میری تحریر ”اسلام اور ہم“ پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی سے ایک محترمہ لکھتی ہیں ”پہلا پیراگراف نئی آڈیالوجی ۔ ۔ ۔ اِنتشار کا نیا کھیل ۔ بقیہ عمدہ تحریر “
قبل اس کے کہ میں اس تبصرہ کے سلسلے میں کچھ لکھوں میں اس دنیا میں رائج انسان کے بنائے قوانین کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی مُلک کا دستور یا آئین جب منظور ہو جاتا ہے تو اُس مُلک کے تمام باشندے (صدر اور وزیرِ اعظم سے لے کر ایک عام آدمی یا مزدور تک) اس کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ کسی کو اس بات پر کوئی چھُوٹ حاصل نہیں کہ اُس نے پڑھا نہیں تھا یا اُسے معلوم نہیں تھا ۔ دستور یا آئین دراصل ایک قوم یا ایک گروہ کا لائحہءِ عمل ہوتا ہے جس کی پابندی لازم ہوتی ہے ۔ بھُول چُوک پر آدمی سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے اور دستور یا آئین کو نہ ماننے والا غدار یا مُنحِرف اور مُنحرف کی سزا عام طور پر ”موت“ ہوتی ہے
میری تحریر ”اسلام اور ہم“ کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا کھیل) اور نہ اس سے انتشار کا کوئی پہلو نکلتا ہے ۔ دین کے معنی ہیں دستور ۔ آئین ۔ لائحہءِ عمل ۔ اسلام دین ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جسے اپنے تمام عوامل میں درست سمجھتے ہیں دین کے معاملے میں اسے اختیار کرنے سے احتراز کرتے ہیں
ہو سکتا ہے کہ محترمہ عِلمِ دین کی عالِم فاضل ہوں ۔ میں ایک طالب عِلم ہوتے ہوئے اتنا جانتا ہوں کہ حاکمِ اعلٰی اللہ ہے ۔ سب پر اُس کا حکم چلتا ہے اور اُس کے سامنے انسان یا کسی اور مخلوق کا بس نہیں چلتا ۔ جب اللہ نے دین اسلام کو مکمل کر کے نافذ کر دیا تو پھر اسے کسی اور کے نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دین اللہ کا بنایا ہوا ہے اور اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد ﷺ کے ذریعہ نافذ کیا ہے ۔ یہ بات قرآن شریف میں درج اللہ کے فرمان سے ثابت ہے ۔ میں متعلقہ آیت اور اُس کا ترجمہ اس بند کے بعد نیچے نقل کروں گا ۔ پہلے بات مکمل کر لوں ۔ خطبہ حجۃ الوداع سے واضح ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ نے دین اسلام کو نافذ کر دیا تھا اور اس پر عمل کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا تھا ۔ رسول اللہﷺ اور خُلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے مطالع سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کے کردار و عمل کی وجہ سے پھیلا ۔ کسی حاکم یا سپہ سالار کے حُکم سے نہیں ۔ اگر اسلام انسانی حُکم سے پھیلنا ہوتا تو آج یورپ اور امریکہ جہاں اسلام دشمن حاکم ہیں لوگ اسلام قبول نہ کر رہے ہوتے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اگر حکومت بناتے ہیں تو مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ مسلمانوں کیلئے اپنے دین پر عمل کو آسان بنانے کیلئے قوانین وضع کرے اور اللہ کے حُکم یعنی دین اسلام کے خلاف تمام قوانین کو ختم کر دے اور یہ حُکم پاکستان کے آئین میں موجود ہے گو اس پر ماضی میں پوری طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ عُلماء کا فرض ہے کہ عوام کی درست رہنمائی کریں ۔ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے فرقہ بندی کو روکیں ۔ ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب حاکم اور عالِم پہلے دین کا نفاذ اپنے اُوپر کریں
سورۃ 5 المآئدہ آیۃ 3 ۔ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا
تراجم ۔ (مجھے میسّر تمام تراجم اسلئے نقل کر رہا ہوں کہ شک پیدا نہ ہو میں نے اپنے مطلب کا ترجمہ لکھ دیا ہے)
(جالندھری) ۔ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
(محمودالحسن) ۔١٤آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا ف۱۵ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین
(جوناگڑھی) ۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا
(ابوالاعلٰی مودودی) ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے
(YUSUFALI) – This day have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion.
(PICKTHAL) – This day have I perfected your religion for you and completed My favour unto you, and have chosen for you as religion al-Islam.
(SHAKIR) – This day have I perfected for you your religion and completed My favor on you and chosen for you Islam as a religion;
(Taqi Usmani) – Today, I have perfected your religion for you, and have completed My blessing upon you, and chosen Islam as Din (religion and a way of life) for you.
میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں
ہر شوہر (اور ہر بیوی) یہ دعوٰی کرتا (یا کرتی) ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا (یا جانتی) ہے ۔ اس کے باوجود اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ شوہر ان کی بات نہیں سُنتے ۔ اس کے برعکس اکثر شوہروں کو یہ شکائت ہوتی ہے کہ ان کی بیگم ان کی بات دھیان سے نہیں سُنتی ۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نہ جاننا ہے
اکثر میاں بیوی طے کر لیتے ہیں کہ ان کی (یا کے) شریکِ حیات ان کے بارے میں سب کچھ جانتی (یا جانتے) ہیں لہٰذا آپس میں کچھ بتاتے ہوئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن جب کسی دوسرے سے بات ہوتی ہے تو اُسے بات تفصیل سے بتائی جاتی ہے چنانچہ عام طور پر میاں بیوی کی نسبت دوسرے بات سمجھ لیتے ہیں ۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کر لینا کی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت نکلتا ہے
قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے اشارے کنائے یا مختصر جُملے سے کام لیتے ہیں اس گمان میں کہ سمجھ آجائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ذہن کو جھٹکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس جب ہم کسی اجنبی سے بات کرتے ہیں تو ہم ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اُسے ہر چیز اچھی طرح سے سمجھاتے ہیں
یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں گہرے دوستوں کا بھی ہے جو اسی زعم میں ہوتے ہیں کہ دوسرا اُسے اچھی طرح جانتا ہے اور بات وضاحت کے ساتھ نہیں کرتا ۔ نتیجہ غلط فہمیوں اور جھگڑوں میں نکلتا ہے